Tag: لیونارڈو ڈاونچی

  • صرف مونا لیزا ہی لیونارڈو ڈاونچی کی وجہِ شہرت نہیں!

    صرف مونا لیزا ہی لیونارڈو ڈاونچی کی وجہِ شہرت نہیں!

    مونا لیزا کا خالق لیونارڈو ڈاونچی مصوّر ہی نہیں ایک ذہین انسان بھی تھا جس نے پانچ صدی پہلے وہ کارنامے انجام دیے جن کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ اس کے تخیل کی اڑان ہی نہیں‌ بلکہ اس کا شعور بھی بلند پرواز تھا۔

    وہ ایک مصوّر، مؤرخ، مجسمہ ساز، انجنیئر، ریاضی دان اور موجد تھا۔ آج لیونارڈو ڈاونچی کا یومِ‌ وفات ہے۔ مونا لیزا کی پینٹنگ کو اس کا لافانی شاہ کار کہا جاتا ہے جس پُراسرار مسکراہٹ آج تک دنیا کے نام ور آرٹسٹوں میں زیرِ بحث آتی ہے اور اسے لیونارڈو ڈاونچی کے کمالِ فن کی عظیم مثال کہا جاتا ہے۔ اسے آئیڈل مین کے لقب سے نوازا گیا۔

    لیونارڈو ڈاونچی نے اٹلی کے ایک قصبے میں 15 اپریل 1452ء کو آنکھ کھولی تھی جہاں اس کے والد کو ایک زمین دار کی حیثیت سے اہمیت دی جاتی تھی۔ لیونارڈو نے تعلیم کے ساتھ مطالعہ کا شغف اپنایا اور 15 برس کی عمر میں معروف مصور آندریا ڈیل ویروشیو کی شاگردی اختیار کرلی، جس کی ورکشاپ میں مصوری و مجسمہ سازی کے ساتھ ٹیکنیکل اور میکینکل کی تعلیم بھی حاصل کی۔ جلد ہی اس کا نام پہچان بنانے لگا۔ لیونارڈو 1482ء میں میلان گیا اور وہاں 17 برس گزار دیے۔ اس عرصے میں اس نے اپنے فنِ مصوّری اور علم کے سبب بڑا رتبہ اور ڈیوک کے مصور اور انجینئر کا خطاب پایا۔ میلان میں فنِ‌ مصوری اور مجسمہ سازی کے علاوہ تعمیر سازی، قلعہ بندی اور فوجی امور میں وہ تکنیکی مشیر بھی رہا۔ اس کے ساتھ ہائیڈرولک اور میکینکل انجینئر کی حیثیت سے بھی کام کیا۔

    لیونارڈو کو سیاسی حالات اور کام کے سبب بھی فرانس، اٹلی اور مختلف علاقوں میں رہنا پڑا اور اس دوران وہ مصوری سے لے کر اپنی دل چسپی اور شوق کے ہر کام کو اپنے تخیل اور ذہنِ رسا کی مدد سے ماہرانہ انداز میں انجام دیتا رہا اور 65 سال کی عمر میں لیونارڈو فرانس کے نوجوان بادشاہ فرانسس اوّل کے قریب ہو گیا۔ فرانس میں قیام کے دوران اس نے زیادہ توجہ سائنسی تحقیق پر دی۔ اس زمانے میں‌ اڑنے والی گاڑی (ہیلی کاپٹر)، روبوٹ، پیرا شوٹ، فریج جیسی ایجادات کا تصور اور ان کے ابتدائی خاکے مع ضروری تفصیل اور ریڑھا بنانے کے حوالے سے لیونارڈو ڈاونچی ہی کا نام لیا جاتا ہے۔

    2 مئی 1519ء کو فرانس ہی میں لیونارڈو ڈاونچی نے اپنی زندگی کا سفر تمام کیا تھا۔

  • وہ وژنری مصور جس کی ایجادات نے ہماری زندگیاں بدل دی

    وہ وژنری مصور جس کی ایجادات نے ہماری زندگیاں بدل دی

    لیونارڈو ڈاونچی کا نام سنتے ہی ہمارے ذہن میں مونا لیزا کی شہرہ آفاق پینٹنگ ابھرتی ہے، سیاہ لباس میں ملبوس خاتون کا فن پارہ جس کی مسکراہٹ کی ایک دنیا دیوانی ہے، لیکن کیا اس کا خالق واقعی صرف ایک مصور تھا؟

    مونا لیزا کا خالق ڈاونچی ایک ایسی بلند قامت شخصیت تھا جسے صرف اس ایک فن پارے میں قید کرنا ناانصافی ہوگی، آج اس مصور کا 569 واں یوم پیدائش ہے جسے تاریخ کا ایک غیر معمولی شخص کہا جاتا ہے اور اس کا شمار دنیا کے ذہین اور وژنری ترین انسانوں میں کیا جاتا ہے۔

    15 اپریل 1452 میں اٹلی میں پیدا ہونے اور 2 مئی 1519 کو فرانس میں انتقال کر جانے والے اس عظیم شخص نے اپنی پوری زندگی میں درحقیقت صرف 20 کے قریب ہی فن پارے بنائے جن میں سے مونا لیزا کو آفاقی شہرت حاصل ہوئی۔

    لیکن دنیا میں اگر کسی کو ہر فن مولا کہا جاسکتا ہے تو وہ ڈاونچی کی شخصیت ہے، وہ صرف ایک مصور ہی نہیں بلکہ مجسمہ ساز، انجینیئر، سائنس دان، ریاضی دان، ماہر فلکیات، ماہر طب اور موجد بھی تھا۔

    آج ہماری زندگی میں موجود بہت سی اشیا ڈاونچی کی ایجاد کردہ ہیں جس نے 5 صدیاں قبل ان کا ابتدائی خاکہ پیش کیا۔ آئیں دیکھتے ہیں کہ ڈاونچی کا وژن آج کس طرح ہماری زندگیوں کا اہم حصہ ہے۔

    روبوٹ

    دنیا کا سب سے پہلا روبوٹ ڈاونچی نے بنایا تھا، یہ روبوٹ لکڑی، چمڑے اور پیتل کا بنا تھا جو خود سے بیٹھنے، ہاتھ ہلانے، منہ کھولنے اور بند کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔

    چار صدیوں بعد امریکی خلائی ادارے ناسا نے اپنا خلائی روبوٹ اسی طرز پر بنایا تھا۔

    ہوائی جہاز

    ڈاونچی کو اڑنے کا بے حد شوق تھا اور اس نے پہلی بار ہیلی کاپٹر بنانے کی کوشش بھی کی تھی، وہ اسے مکمل تو نہ بنا سکا تاہم اپنے نوٹس میں یہ ضرور بتا گیا کہ اس طرح کی اڑنے والی چیز کس طریقے سے کام کرے گی۔

    یہی نہیں اس نے پیرا شوٹ کا خیال بھی پیش کیا تھا جس کا مقصد اس وقت پائلٹ کی جان بچانا تھا۔

    گاڑی

    26 سال کی عمر میں ڈاونچی نے گاڑی کی ابتدائی شکل پیش کی، یہ ایک ریڑھا تھا جو خود کار طریقے سے چل سکتا تھا۔

    فریج

    اس نے اپنے گھر ہونے والی دعوتوں کے کھانے کو محفوظ کرنے کے لیے ایک ایسی مشین بھی بنا دی تھی جو کھانے کو ٹھنڈا رکھتی تھی، اس مشین میں ایک نلکی کے ذریعے سرد ہوا کو داخل کیا جاتا تھا۔

    اس ابتدائی ایجاد کی بدولت آج بڑے بڑے فریج ہمارے گھروں میں موجود ہیں۔

    دل کی شریانوں کے مرض کی تشخیص

    ڈاونچی نے ایک بار ایک بوڑھے شخص کے انتقال کر جانے کے بعد اس کے دل کا آپریشن کیا، تب اس نے پہلی بار دل کی شریانوں کے مرض کے بارے میں لکھا، اس کی یہ پہلی تشخیص آج لاکھوں افراد کی جانیں بچانے کا سبب ہے۔

    جب ڈاونچی نے بتایا کہ آسمان نیلا کیوں ہے

    سنہ 1509 میں ڈاونچی نے ایک مقالہ لکھا جس میں اس نے وضاحت کی کہ آسمان کا رنگ نیلا کیوں ہے۔ یہ مقالہ اس وقت بل اینڈ ملنڈا گیٹس فاؤنڈیشن کی زیر ملکیت ہے جسے حفاظت سے رکھا گیا ہے۔

    ڈاونچی نے لکھا تھا کہ ہماری فضا کے سفید رنگ اور خلا کے سیاہ رنگ سے جب سورج کی روشنی گزرتی ہے، تو وہ اس کو منعکس کر کے آسمان کو نیلا رنگ دے دیتی ہے۔

    سنہ 1871 میں ایک انگریز سائنس دان لارڈ ریلی نے اس نظریے کی مزید وضاحت کی، انہوں نے لکھا کہ سورج کی روشنی جب ہوا کے مالیکیولز سے ٹکراتی ہے تو مالیکیولز پھیل جاتے ہیں۔

    یعنی کہ سورج کے ٹکرانے سے پیدا ہونے والی روشنی مالیکیولز کے پھیلنے کی وجہ سے چہار سو پھیل جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ دن کے وقت ہر شے بشمول آسمان نہایت روشن دکھائی دیتا ہے۔

    ریلی نے بتایا کہ اس عمل میں نیلا رنگ زیادہ پھیلتا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ آسمان کو اپنے رنگ میں ڈھال لیتا ہے۔

    ریلی کے مطابق اس عمل کے دوران سرخ رنگ بھی منعکس ہوتا ہے جس سے آسمان بھی سرخ رنگ کا ہوجاتا ہے، تاہم نیلا رنگ اس پر حاوی ہوتا ہے اس لیے ہم آسمان کو نیلا دیکھتے ہیں۔

    لیونارڈو ڈاونچی کے ہاتھ کے لکھے نوٹس اکثر و بیشتر سامنے آتے رہتے ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس ذہین شخص نے کس قدر ایجادات کے بارے میں سوچا تھا، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ممکنہ طور پر اس کے نوٹس میں کسی ایسی شے کا خیال بھی ہوسکتا ہے جو اب تک ایجاد نہ کی جاسکی ہو۔

  • جب ایک مصور نے تحقیق کی کہ آسمان نیلا کیوں ہے

    جب ایک مصور نے تحقیق کی کہ آسمان نیلا کیوں ہے

    جب ہم لیونارڈو ڈاونچی کا نام سنتے ہیں تو ہمارے ذہن میں مونا لیزا ابھرتی ہے، سیاہ لباس میں ملبوس خاتون کی پینٹنگ جس کی مسکراہٹ کی ایک دنیا دیوانی ہے۔

    لیکن مونا لیزا کا خالق ڈاونچی ایک ایسی بلند قامت شخصیت تھا جسے صرف اس ایک فن پارے میں قید کرنا ناانصافی ہوگی، درحقیقت ڈاونچی نے اپنی پوری زندگی میں صرف 20 کے قریب ہی فن پارے بنائے جن میں سے مونا لیزا کو آفاقی شہرت حاصل ہوئی۔

    لیونارڈو ڈاونچی کو اگر ہر فن مولا کہا جائے تو غلط نہ ہوگا، وہ صرف ایک مصور ہی نہیں بلکہ انجینیئر، سائنس دان، ریاضی دان، ماہر فلکیات، ماہر طب اور موجد بھی تھا۔

    15 اپریل 1452 میں اٹلی میں پیدا ہونے اور 2 مئی 1519 کو فرانس میں انتقال کر جانے والے اس عظیم شخص کو تاریخ کے ذہین ترین انسانوں میں سے ایک مانا جاتا ہے۔

    آج ہماری زندگی میں موجود بہت سی اشیا ڈاونچی کی ایجاد کردہ ہیں جس نے 5 صدیاں قبل ان کا ابتدائی خاکہ پیش کیا۔

    دنیا کا سب سے پہلا روبوٹ ڈاونچی نے بنایا تھا، یہ روبوٹ لکڑی، چمڑے اور پیتل کا بنا تھا جو خود سے بیٹھنے، ہاتھ ہلانے، منہ کھولنے اور بند کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔

    چار صدیوں بعد امریکی خلائی ادارے ناسا نے اپنا خلائی روبوٹ اسی طرز پر بنایا تھا۔

    ڈاونچی کو اڑنے کا بے حد شوق تھا اور اس نے پہلی بار ہیلی کاپٹر بنانے کی کوشش بھی کی تھی، وہ اسے مکمل تو نہ بنا سکا تاہم اپنے نوٹس میں یہ ضرور بتا گیا کہ اس طرح کی اڑنے والی چیز کس طریقے سے کام کرے گی۔

    یہی نہیں اس نے پیرا شوٹ کا خیال بھی پیش کیا تھا جس کا مقصد اس وقت پائلٹ کی جان بچانا تھا۔

    26 سال کی عمر میں ڈاونچی نے گاڑی کی ابتدائی شکل پیش کی، یہ ایک ریڑھا تھا جو خود کار طریقے سے چل سکتا تھا۔

    اس نے اپنے گھر ہونے والی دعوتوں کے کھانے کو محفوظ کرنے کے لیے ایک ایسی مشین بھی بنا دی تھی جو کھانے کو ٹھنڈا رکھتی تھی، اس مشین میں ایک نلکی کے ذریعے سرد ہوا کو داخل کیا جاتا تھا۔

    اس ابتدائی ایجاد کی بدولت آج بڑے بڑے فریج ہمارے گھروں میں موجود ہیں۔

    ڈاونچی نے ایک بار ایک بوڑھے شخص کے انتقال کر جانے کے بعد اس کے دل کا آپریشن کیا، تب اس نے پہلی بار دل کی شریانوں کے مرض کے بارے میں لکھا، اس کی یہ پہلی تشخیص آج لاکھوں افراد کی جانیں بچانے کا سبب ہے۔

    ڈاونچی کے ہاتھ کے لکھے نوٹس اکثر و بیشتر سامنے آتے رہتے ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس ذہین شخص نے کس قدر ایجادات کے بارے میں سوچا تھا، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ممکنہ طور پر اس کے نوٹس میں کسی ایسی شے کا خیال بھی ہوسکتا ہے جو اب تک ایجاد نہ کی جاسکی ہو۔

    نیلے آسمان کی وضاحت

    سنہ 1509 میں ڈاونچی نے ایک مقالہ لکھا جس میں اس نے وضاحت کی کہ آسمان کا رنگ نیلا کیوں ہے۔ یہ مقالہ اس وقت بل اینڈ ملنڈا گیٹس فاؤنڈیشن کی زیر ملکیت ہے جسے حفاظت سے رکھا گیا ہے۔

    ڈاونچی نے لکھا تھا کہ ہماری فضا کے سفید رنگ اور خلا کے سیاہ رنگ سے جب سورج کی روشنی گزرتی ہے، تو وہ اس کو منعکس کر کے آسمان کو نیلا رنگ دے دیتی ہے۔

    سنہ 1871 میں ایک انگریز سائنس دان لارڈ ریلی نے اس نظریے کی مزید وضاحت کی، انہوں نے لکھا کہ سورج کی روشنی جب ہوا کے مالیکیولز سے ٹکراتی ہے تو مالیکیولز پھیل جاتے ہیں۔

    یعنی کہ سورج کے ٹکرانے سے پیدا ہونے والی روشنی مالیکیولز کے پھیلنے کی وجہ سے چہار سو پھیل جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ دن کے وقت ہر شے بشمول آسمان نہایت روشن دکھائی دیتا ہے۔

    ریلی نے بتایا کہ اس عمل میں نیلا رنگ زیادہ پھیلتا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ آسمان کو اپنے رنگ میں ڈھال لیتا ہے۔

    ریلی کے مطابق اس عمل کے دوران سرخ رنگ بھی منعکس ہوتا ہے جس سے آسمان بھی سرخ رنگ کا ہوجاتا ہے، تاہم نیلا رنگ اس پر حاوی ہوتا ہے اس لیے ہم آسمان کو نیلا دیکھتے ہیں۔