Tag: لیو ٹالسٹائی

  • لیو ٹالسٹائی: فلسفی اور ادیب جو کسانوں کا مقدّر بدلنا چاہتا تھا

    لیو ٹالسٹائی: فلسفی اور ادیب جو کسانوں کا مقدّر بدلنا چاہتا تھا

    روسی ادیب اور فلسفی لیو ٹالسٹائی نے اپنی فکر انگیز تخلیقات سے روس ہی نہیں‌ بلکہ سرحد پار بسنے والے تخلیق کاروں کو بھی متاثر کیا۔ ٹالسٹائی کو ان کے ناولوں اور ان کی انسان دوستی کی وجہ سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ آج اس مشہورِ زمانہ ادیب اور فلسفی کا یومِ‌ وفات ہے۔ 20 نومبر 1910ء کو ٹالسٹائی نے یہ دنیا چھوڑ دی تھی۔

    لیو ٹالسٹائی 28 اگست 1928ء کو پیدا ہوئے۔ ان کا شمار روس کے معروف ترین ادیبوں اور فلسفیوں میں‌ ہوتا ہے۔ 9 برس کے ٹالسٹائی کی زندگی میں‌ ایک کڑا وقت ان کی یتیمی کی صورت آیا، جس کے بعد انھیں آبائی زمینوں پر کاشت کاری کا کام کرنا پڑا، ساتھ ہی تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا اور فوج میں بھی شامل ہوئے، اس ملازمت کے دوران انھوں نے جو کچھ دیکھا اور سمجھا، اسے اپنے ناول ’’جنگ اور امن‘‘ میں‌ خوب صورتی سے سمو دیا، یہ ٹالسٹائی کا شہرہ آفاق ناول ہے۔

    ٹالسٹائی کو زمانہ طالب علمی میں‌ اساتذہ اور ساتھی طلبا کے منفی رویّوں‌ کا سامنا کرنا پڑا، انھیں‌ اساتذہ نالائق کہتے تھے، جس نے ٹالسٹائی کو بددل کیا اور انھوں نے تعلیم کا سلسلہ منقطع کردیا، کئی سال تک ماسکو اور سینٹ پیٹرز برگ میں گزارنے والے ٹالسٹائی غور و فکر کے عادی تھے، وہ اپنے سماج کا مطالعہ اور لوگوں کی سماجی زندگی کا مشاہدہ کرتے رہے، ساتھ ہی کسانوں کی حالت بہتر بنانے کے منصوبے بناتے رہے۔ انھوں‌ نے کسانوں‌ کے بچّوں‌ کو تعلیم دینے کے لیے اسکول بھی قائم کیا۔

    ٹالسٹائی نے پہلا ناول 1856ء میں لکھا، لیکن ان کی شہرت کا سفر جنگ کی ہولناکیوں کے بارے میں ان کی کہانیوں سے شروع ہوا۔ وار اینڈ پیس نے انھیں‌ عالمی سطح پر شناخت دی، اور اینا کارینینا کے نام سے ناول کا بھی بہت چرچا ہوا۔

    ٹالسٹائی نے سماجی مفکر کی حیثیت سے بھی شہرت حاصل کی اور اپنے نظریات کو کتابی شکل میں‌ پیش کیا، وہ جنگ مخالف، جمہوریت اور مساوات کے قائل اور ذاتی ملکیت کے تصور کو رد کرنے والے دانش ور کے طور پر ابھرے، جس نے جبر اور استحصال کی مذمت کی۔

    ٹالسٹائی کے انقلابی نظریات اور ان کی فکر نے روس کے مجبور اور مظلوم طبقے کو ہی نہیں‌ سرحد پار بھی لوگوں‌ کو متاثر کیا۔ بدقسمتی سے خاندان کے لوگ ہی ان کے مخالف ہوگئے اور پھر ٹالسٹائی نے اپنے حصّے کی جاگیر اور دولت کسانوں اور مزدورں میں تقسیم کرکے گھر چھوڑ دیا۔

    ٹالسٹائی نے کس مپرسی کے عالم میں‌ ایک ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر دَم توڑ دیا تھا۔ انھوں‌ نے ناولوں اور کہانیوں‌ سمیت مختلف موضوعات پر اپنی فکر اور نظریات کو تحریری شکل میں‌ پیش کیا جن کا مختلف زبانوں‌ میں‌ ترجمہ کیا گیا ہے۔

  • تین سوال

    تین سوال

    کسی بادشاہ کے دل میں‌ خیال آیا کہ اگر اسے تین باتیں معلوم ہو جائیں تو اسے کبھی شکست اور ناکامی نہ ہو اور ہر کام حسب خواہش انجام پائے۔ اس کے ذہن میں‌ آنے والے تین سوال یہ تھے۔
    کسی کام کو شروع کرنے کا کون سا وقت موزوں ہے۔
    کن اشخاص سے صحبت رکھنی چاہیے اور کن سے پرہیز کرنا ضروری ہے۔
    دنیا میں سب سے زیادہ اہم اور ضروری چیز کیا ہے۔

    بادشاہ نے منادی کروا دی کہ جو بھی ان سوالوں کے اطمینان بخش جواب دے پایا اسے انعام و اکرام سے نوازا جائے گا۔ بہت سے لوگوں نے کوشش کی مگر کوئی بھی بادشاہ کو مطمئن نہ کر سکا۔

    پہلے سوال کا جواب کچھ لوگوں کے پاس یہ تھا کہ کسی بھی کام کا صحیح وقت اپنے معمولات اور نظام الاوقات کو ترتیب دینے اور اس پر سختی سے عمل کرنے سے ہی معلوم ہوگا۔

    بعض‌ نے کہا کہ انسان کے لیے کسی بھی کام کے صحیح وقت کا تعین ناممکن امر ہے۔ بادشاہ کو ایک مشورہ یہ بھی دیا گیا کہ وہ عالم اور فاضل لوگوں کی ایک جماعت ترتیب دے اور ان کے مشورے پر عمل پیرا ہو۔
    ایک گروہ کا موقف یہ بھی تھا کہ کچھ معاملات عجلت میں طے کرنے کے ہوتے ہیں اور ایسی صورت میں کسی سے مشورے کا وقت نہیں ہوتا، اس لیے بادشاہ کو فوری طور پر ایک نجومی کی خدمات حاصل کرنی چاہییں جو قبل از وقت پیش گوئی کرسکے۔

    اسی طرح دوسرے سوال کے بھی کئی جواب سامنے آئے۔ کچھ کا خیال تھاکہ انتظامیہ سب سے اہم ہے بادشاہ کے لیے۔ کچھ کے خیال میں مبلغ و معلم جب کہ کچھ کا اندازہ یہ تھا کہ جنگ جو سپاہی سب سے زیادہ اہم ہیں۔
    بادشاہ کا آخری سوال ‘‘کرنے کے لیے سب سے ضروری کیا چیز ہے؟’’ اس کا جواب تھا کہ سائنسی ترقی جب کہ کچھ کی ترجیح عبادت تھی۔ بادشاہ نے کسی بھی جواب سے اتفاق نہیں کیا۔

    بادشاہ نے فیصلہ کیاکہ وہ ان جوابات کی تلاش میں درویش کے پاس جائے گا جو اپنی فہم و فراست کے لیے مشہور تھا۔ درویش کا بسیرا جنگل میں تھا اور سادہ لوح لوگوں تک محدود تھا۔ بادشاہ نے عام لوگوں جیسا حلیہ بنایا اور اپنے محافظوں کو ایک مخصوص مقام پر چھوڑ کر اکیلا درویش کے ٹھکانے کی طرف روانہ ہو گیا۔

    بادشاہ نے دور سے دیکھا تو درویش اپنے باغ کی مٹی نرم کر رہا تھا۔ بادشاہ جب پہنچا تو درویش خوش دلی سے اس سے ملا اور دوبارہ اپنے کام میں مشغول ہو گیا۔ وہ کم زور اور ضعیف تھا۔ جب وہ اپنا بیلچہ زمین پر مارتا تو تھوڑی مٹی اکھڑتی اور وہ زور سے ہانپنے لگتا۔

    بادشاہ نے درویش کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں آپ سے اپنے تین سوالوں کے جواب معلوم کرنے آیا ہوں۔ بادشاہ نے اپنے تینوں سوال درویش کے سامنے دہرائے۔ درویش نے بغور سننے کے بعد کوئی جواب نہ دیا اور دوبارہ مٹی نرم کرنے میں لگ گیا۔

    بادشاہ نے درویش سے بیلچہ لیتے ہوئے کہا کہ لائیں میں آپ کی مدد کر دیتا ہوں، آپ خود کو نڈھال کر رہے ہیں۔ دو کیاریاں تیار کرنے کے بعد بادشاہ نے کام سے ہاتھ کھینچتے ہوئے اپنے سوالات دہرائے۔ درویش زمین سے اٹھتے ہوئے کہا کہ اب تم آرام کرو میں باقی کام کر لیتا ہوں۔

    بادشاہ نے بیلچہ نہیں دیا اور بدستور کام میں لگا رہا۔ ایک گھنٹہ گزرا اور پھر ایک اور۔ سورج درختوں کے پیچھے ڈوبنے لگا۔ بادشاہ نے بیلچہ زمین پر رکھتے ہوئے کہا کہ اگر آپ کے پاس میرے سوالوں کے جوابات نہیں ہیں تو میں لوٹ جاتا ہوں۔

    وہ دیکھو کوئی ہماری طرف بھاگتا ہوا آرہا ہے۔ درویش نے کہا۔ آؤ دیکھتے ہیں کون ہے۔ بادشاہ نے مڑ کر دیکھا تو ایک باریش آدمی جنگل سے بھاگتا ہوا آ رہا تھا اور دونوں ہاتھوں سے پیٹ پکڑا ہوا تھا۔ اس کی انگلیاں خون سے لتھڑی ہوئی تھیں۔ قریب پہنچتے ہی وہ بے ہوش ہو کر گر گیا۔ وہ بالکل ساکت تھا اور کراہنے کی مدہم سی آواز آ رہی تھی۔

    بادشاہ اور درویش نے آگے بڑھ کر دیکھا تو اس کے پیٹ پر ایک گہرا زخم تھا۔ بادشاہ نے اس زخم کو ممکنہ حد تک صاف کر کے مرہم پٹی کردی۔ جب خون بہنا بند ہوا تو باریش آدمی نے ہوش میں آتے ہی پانی مانگا۔ بادشاہ اس کے پینے کے لیے تازہ پانی لے آیا۔

    اس وقت تک سورج ڈوب گیا تھا اور فضا خوش گوار ہو گئی تھی۔ بادشاہ نے درویش کی مدد سے اس انجان شخص کو جھونپڑی میں بستر پر لٹا دیا اور اس نے اپنی آنکھیں موند لیں۔

    بادشاہ کام سے اتنا تھکا ہوا تھا کہ لیٹتے ہی سو گیا۔ وہ گرمیوں کی مختصر رات میں پرسکون سو رہا تھا۔ جب وہ بیدار ہوا تو وہ زخمی آدمی اپنی روشن آنکھوں سے بادشاہ کو ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا تھا اور بادشاہ کو بیدار دیکھ کر فوراً اپنی نحیف آواز میں معافی طلب کرنے لگا۔ بادشاہ نے کہا کہ میں‌ تم کو جانتا نہیں اور کس وجہ سے تم معافی مانگ رہے ہو۔

    تم مجھے نہیں جانتے مگر میں تمھیں جانتا ہوں۔ میں تمھارا دشمن ہوں اور یہاں میں اپنے بھائی کے قتل کا بدلہ لینے آیا تھا۔ میں جانتا تھا کہ تم یہاں اکیلے ہو گے اور میں واپسی پر تمھیں قتل کر دوں گا۔ جب پورا دن گزرنے پر بھی تم واپس نہیں آئے تو میں تلاش میں‌ نکلا اور تمھارے محافظوں کے نرغے میں پھنس گیا اور زخمی حالت میں وہاں سے بھاگا۔ تم نے کوشش کی اور میں مرنے سے بچ گیا۔ میں نے تمھارے قتل کا منصوبہ بنایا اور تم نے میری زندگی بچائی۔ جب تک زندہ رہوں گا تمھارا شکر گزار اور خدمت گزار رہوں گا۔ مجھے معاف کر دو۔

    بادشاہ نے اسے معاف کر دیا اور درویش کو دیکھنے باہر نکلا تو وہ کیاریوں میں بیج بو رہا تھا، بادشاہ نے آخری بار اپنے سوال دہرائے۔ درویش نے بیٹھے بیٹھے جواب دیا کہ تمھیں جوابات مل چکے ہیں۔ بادشاہ نے استفسار کیا کیسے؟
    درویش نے کہا کہ تم اگر مجھے کم زور جان کر میرے لیے کیاریاں نہیں کھودتے اور یہاں‌ نہ رکتے تو واپسی پر اس شخص کے ہاتھوں‌ قتل ہو جاتے۔ تمھارے لیے سب سے اہم وقت وہ تھا جب تم کیاریاں بنا رہے تھے اور سب سے اہم کام اس وقت اس زخمی آدمی کی دیکھ بھال تھی ورنہ وہ تم سے صلح کیے بغیر مر جاتا۔ اس لیے سب سے اہم آدمی وہی تھا تمھارے لیے اور تم نے جو اس کے لیے کیا وہ سب سے اہم کام تھا۔

    یاد رکھو، سب سے اہم وقت وہی لمحۂ موجود ہے جس میں ہم کوئی کام انجام دیتے ہیں۔ سب سے اہم وہی ہے جو لمحے آپ کے ساتھ موجود ہو اور سب سے اہم کام کسی کے ساتھ بھلائی ہے جو انسان کو دنیا میں بھیجنے کا واحد مقصد ہے۔
    (روسی ادب سے، لیو ٹالسٹائی کی مشہور کہانی کا ترجمہ)