Tag: م

  • کیا دہشتگرد کے پاس اتناوقت ہوتا ہے وہ پوچھے تمہارا مذہب کیا ہے؟ بھارتی رکن اسمبلی

    کیا دہشتگرد کے پاس اتناوقت ہوتا ہے وہ پوچھے تمہارا مذہب کیا ہے؟ بھارتی رکن اسمبلی

    کانگریس رہنما وجےودتیوار نے پہلگام حملے کے بعد سوال کیا ہے کہ کیا دہشتگرد کے پاس اتناوقت ہوتا ہے وہ پوچھے تمہارا مذہب کیا ہے؟

    پہلگام فالس فلیگ آپریشن کے بعد بھارت کے اندر سے ہی اس کےخلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں، کانگریس رہنما کی جانب س مودی سرکار سے سخت سوالات کیے گئے، بھارتی اپوزیشن جماعت کانگریس کے رکن قانون ساز اسمبلی نے مودی کو آڑے ہاتھوں لےلیا ہے۔

    کانگریس رہنما وجےودتیوار نے کہا کہ پہلگام حملے میں سرکار کی ناکامی اور انٹیلی جنس فیلئر پر کوئی بات نہیں کرتا، مذہب پوچھنے والی باتوں کا مقصد عوام کو بیوقوف بنانا ہے

    وجے ودتیوار کا مزید کہنا تھا کہ پہلگام واقعہ کی ذمہ داری کس کی ہے؟ ذمہ داری تو سرکار کو لینی چاہیے، پہلگام میں 27 لوگوں کی جان گئی، تمہاری سیکیورٹی کیوں نہیں تھی؟

    بھارتی رکن قومی اسمبلی نے کہا کہ حملہ کرنے والے 200 کلومیٹر تک اندر گھس آئے، تمہاری انٹیلی جنس کیا کررہی تھی؟ یہاں پر بات ہوتی ہے تو یہ کہ دہشتگردوں نے مذہب پوچھ کر مارا۔

  • قدیم شہر اسکندریہ، یوسف کمبل پوش اور حبشہ کا مصطفیٰ!

    قدیم شہر اسکندریہ، یوسف کمبل پوش اور حبشہ کا مصطفیٰ!

    تیرھویں تاریخ فروری سنہ 1838ء کے جہاز ہمارا شہر اسکندریہ میں پہنچا۔

    جہاز سے اتر کر مع دوست و احباب روانہ شہر ہوا۔ کنارے دریا کے لڑکے عرب کے گدھے کرائے کے لیے ہوئے کھڑے تھے۔ ہر وضع و شریف کو ان پر سوار کر کے لے جاتے۔ ہر چند ابتدا میں اس سواری سے نفرت ہوئی، لیکن بموجب ہر ملکے و ہر رسمے آخر ہم نے بھی گدھوں کی سواری کی اور سرا کی راہ لی۔

    گلی کوچے تنگ اور راہی بہت تھے۔ اس لیے لڑکے گدھے والے آگے بجائے بچو بچو کے یمشی یمشی پکارتے، لوگوں کو آگے سے ہٹاتے، نہیں تو گزرنا اس راہ سے دشوار تھا۔ بندہ راہ بھر اس شہر کا تماشا دیکھتا چلا۔ کنارے شہر کے محمد علی شاہ مصر کے دو تین مکان بنائے ہوئے نظر آئے۔ ایک قلعہ قدیمی تھا، وہیں اس میں توپیں ناقص از کارِ رفتہ پڑیں۔ محمد علی شاہ بادشاہ مصر کا ہے۔ بہتّر برس کی عمر رکھتا ہے۔ بہت صاحبِ تدبیر و انتظام ہے، جہاز جنگی اس کے پُراستحکام۔ صفائی اور سب باتوں میں مثلِ جہازِ انگریزی۔ مگر افسر و جہاز کی پوشاک نفاست میں بہ نسبت جہازیوں انگریزی کے کم تھی۔ عقلِ شاہ مصر پر صد ہزار آفریں کہ ایسی باتیں رواج دیں۔ غرض کہ دیکھتا بھالتا گدھے پر سوار سرا میں پہنچا۔ اسباب اُتارا۔ پھر سیر کرنے کنارے دریا کے آیا۔

    کپتان ملریز جہاز کے سے ملاقات ہوئی۔ اس نے نہایت اشتیاق سے یہ بات فرمائی کہ آؤ میں نے ذکر تمھارا یہاں کے بڑے صاحب سے کیا ہے اور تمھاری تلاش میں تھا۔ بندہ بپاسِ خاطر اُن کی ہمراہ ہو کر بڑے صاحب کی ملاقات کو گیا۔ بڑے صاحب اور میم اُن کی نے نہایت عنایت فرمائی اور وقت شام کے دعوت کی۔ بندے نے قبول کر کے مان لی۔ بعد اس کے صاحب موصوف سے یہ غرض کی کہ میں ارادہ رکھتا ہوں یہاں کے مکانوں اور عجائبات کو دیکھوں۔ کوئی آدمی ہوشیار اپنا میرے ساتھ کیجیے کہ ایسے مکانات اور اشیائے عجیب مجھ کو دکھلاوے۔ انھوں نے ایک آدمی رفیق اپنا میرے ساتھ کیا۔ نام اس کا مصطفیٰ تھا کہ یہ شخص اچھی طرح سے سب مکان تم کو دکھلائے گا۔

    میں نے مصطفیٰ کے ساتھ باہر آ کر پوچھا۔ وطن تیرا کہاں ہے اور نام تیرا کیا۔ اس نے کہا وطن میرا حبش ہے اور نام مصطفیٰ۔ ہندی زبان میں بات کی۔ مجھے حیرت تھی کہ رہنے والا حبش کا ہے اردو زبان کیونکر جانتا ہے۔ پھر اس نے چٹھی نیک نامی اپنی کی دکھلائی۔ اُس میں تعریف چستی اور چالاکی اُس کی لکھی تھی کہ یہ شخص بہت کار دان اور دانا ہے۔ ساتھ ہمارے ہندوستان، ایران، توران، انگلستان، فرانسیس میں پھرا ہے۔ میں نے چٹھی دیکھ کر اُس سے حال لندن کا پوچھا کہ آیا وہ شہر تجھ کو کچھ بھایا۔ کہا وصف اُس کا ہرگز نہیں قابلِ بیان ہے۔ فی الواقعی وہ ملکِ پرستان ہے۔ جن کا میں نوکر تھا انھوں نے لندن میں تین ہزار روپے مجھ کو دیے تھے۔ میں نے سب پریزادوں کی صحبت میں صرف کیے۔ یہ سن کر ہم سب ہنسے اور اُس کے ساتھ باہر آئے۔

    وہ باہر نکل کر دوڑا۔ عرب بچّوں کو جو گدھے کرائے کے اپنے ساتھ رکھتے، دو چار لات مکّے مار کر اپنے ساتھ مع تین گدھوں تیز قدم کے لایا۔ مجھ کو اور ہیڈ صاحب اور پرنکل صاحب کو ان پر سوار کر کے چلا اور گدھوں کو ہانک کر دوڑایا۔ اتنے میں ہیڈ صاحب کا گدھا ٹھوکر کھا کر گرا اور ہیڈ صاحب کو گرایا۔ وہ بچارے گر کر بہت نادم اور شرمندہ ہوئے۔ مصطفیٰ نے دو تین کوڑے اس گدھے والے کو مارے، وہ بلبلا کر زمین پر گرا۔ زمیں کا چھلا اچھل کر ہیڈ صاحب کے کپڑوں پر پڑا۔ وہ بہت ناخوش ہوئے اور جس سرا میں اترے تھے، پھر گئے۔ میں نے مصطفیٰ سے کہا اس قدر ظلم و بدعت بے جا ہے۔ کہا قومِ عرب بد ذات اور شریر ہوتے ہیں، بغیر تنبیہ کے راستی پر نہیں آتے۔ میں نے کہا تم بھی اسی قوم سے ہو، انھیں کی سی خلقت رکھتے ہو۔ جواب دیا اگرچہ وطن میرا بھی یہی ہے مگر میں نے اور شہروں میں رہ کر خُو یہاں کی سَر سے دور کی ہے۔ پھر میں نے مصطفیٰ سے کہا میرا قصد ہے حمام میں نہانے کا۔ وہ ایک حمام میں لے گیا، اندر اس کے حوض بھرا پانی کا تھا۔ راہِ فواروں سے پانی بہتا۔ کئی تُرک کنارہ اُس کے بیٹھے لطف کر رہے تھے۔ کوئی قہوہ، کوئی چپک پیتا۔ بندہ نے موافق قاعدہ مقرر کے وہاں جا کر کپڑے نکالے۔ پانچ چھے حمامی مالشِ بدن میں مشغول ہوئے۔ اپنی زبان میں کچھ گاتے جاتے مگر مضامین اس کے میری سمجھ میں نہ آتے۔ جب وہ ہنستے، میں بھی ہنستا، جب وہ چپ رہتے، میں بھی چپ رہتا۔ میں نے کہا مصطفیٰ سے کہ ان سے کہہ دے موافق رسم اس ملک کے بدن ملیں۔ کسی طرح سے کمی نہ کریں، ان رسموں سے مجھ کو پرہیز نہیں۔ مذہب سلیمانی میں ہر امر موقوف ہے ایک وقت کا۔ ایک وقت وہ ہوا کہ میں جہاز میں میلا کچیلا تھا۔ ایک وقت یہ ہے کہ نہا رہا ہوں۔ میں ان کو راضی کروں گا خوب سا انعام دوں گا۔ انھوں نے بموجب کہنے کے بدن خوب سا ملا اور اچھی طرح نہلایا۔

    بعد فراغت کے ایک اور مکان میں لے گئے۔ اس میں فرش صاف تھا۔ گرد اُس کے تکیے لگے، اس پر بٹھلا کر پوشاک پہنائی۔ مجھ کو اُس سے راحت آئی۔ بعد ایک دم کے تین لڑکے خوب صورت کشتیاں ہاتھ میں لے کر آئے۔ ایک میں قہوہ، دوسرے میں شربت، تیسرے میں قلیاں چپک رکھ لائے۔ فقیر نے شربت اور قہوہ پیا۔ حقہ چپک کا دَم کھینچا۔ پھر ایک خوشبو مانند عطر کے مانگ کر لگائی۔ بتیاں اگر وغیرہ کی جلائی۔ حمام کیا بجائے خود ایک بہشت تھا۔ دل میں خیال آیا اگر شاہدِ شیریں ادا غم زدہ ہو، یہ مقام غیرت دہِ روضۂ رضواں کا ہو۔

    دو گھڑی وہاں ٹھہرا، پھر باہر نکل کر کئی روپے حمامیوں کو دے کر بڑے صاحب کے مکان پر آیا۔ نام ان کا ٹن بن صاحب تھا۔ کپتان صاحب جنھوں نے میری تقریب کی تھی وہ بھی موجود تھے۔ جا بجا کی باتیں اور ذکر رہے۔ بعد اس کے میں نے ٹن بن صاحب سے پوچھا کہ یہاں افسران فوج سے تمھاری ملاقات ہے یا نہیں۔ انھوں نے کہا، آگے مجھ سے ان سے بہت دوستی تھی مگر ان کی حرکتوں سے طبیعت کو نفرت ہوئی۔ اس واسطے ان سے ملاقات ترک کی۔ اکثر وہ لوگ میرے مکان پر آ کر شراب برانڈی پیتے اور چپک کے اتنے دم کھینچتے کہ مکان دھویں سے سیاہ ہوتا۔ لا چار میں نے ان سے کنارہ کیا۔ اے عزیزانِ ذی شعور! اگر جناب رسول مقبول اجازت شراب نوشی کی دیتے، یہ لوگ شراب پی کر مست ہو کر کیا کیا فساد برپا کرتے۔ باوجود ممانعت کے یہ حرکتیں کرتے ہیں۔ اگر منع نہ ہوتا خدا جانے کیا فتنہ و غضب نازل کرتے، لڑ لڑ مرتے۔ چنانچہ راہ میں اکثر تُرک دیکھنے میں آئے۔ قہوہ خانوں میں شراب بھی ہوتی ہے اُس کو لے کر پیتے تھے۔

    دوسرے دن گدھے پر سوار ہو کر شہر کا تماشا دیکھنے گیا۔ آدمیوں کو میلے اور کثیف کپڑے پہنے پایا۔ اکثروں کو نابینا دیکھا۔ سبب اُس کا یہ قیاس میں آیا کہ اس شہر میں ہوا تند چلتی ہے، مٹی کنکریلی اُڑ کر آنکھوں میں پڑتی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ لوگ وہاں کے اپنی اولاد کی ایک آنکھ یا اگلے دانت بخوفِ گرفتاریٔ نوکری فوج محمد علی شاہ کے پھوڑ توڑ ڈالتے ہیں۔ اس عیب سے نوکری بادشاہی سے کہ بدتر غلامی سے ہے، بچاتے ہیں۔ لباس وہاں کے لوگوں کا میرے پسند نہ آیا۔ کثیف اور کالا مانند لباس مشعلچیوں کے تھا۔ قواعد پلٹنوں کی دیکھی، مثل قواعد فوج انگریزی کے تھی۔ ہر ایک سپاہی کے کندھے پر بندوق فرانسیسی۔ سب جوان، جسیم اور موٹے مگر قد و قامت کے چھوٹے۔ کپڑے پرانے، سڑیل پہنے۔ افسر اُن کے بھی ویسے ہی کثیف پوش تھے۔ اگر ایسے لوگ توانا اور قوی فوجِ انگریزی میں ہوں، بادشاہِ روئے زمین کے مقابلہ میں عاجز ہوں اور زبوں۔ مگر یہاں خرابی میں مبتلا تھے، کوئی کسی کو نہ پوچھتا۔

    کوئی شخص نوکری فوجِ شاہی میں بخوشی نہیں قبول کرتا ہے۔ شاہِ مصر زبردستی نوکر رکھتا ہے اس لیے کہ خوفِ مضرت و ہلاکت و قلتِ منفعت ہے۔ لوگ اپنی اولاد کو عیبی کرتے ہیں یعنی آنکھ یا دانت توڑتے ہیں تا کہ نوکریِ سپاہ سے بچیں۔ نوکر ہونے کے ساتھی دائیں ہاتھ پر سپاہی کے بموجب حکمِ شاہی کے داغ دیا جاتا ہے۔ پھر عمر بھر اُسی نوکری میں رہتا ہے، ماں باپ عزیز و اقربا کے پاس نہیں جا سکتا ہے۔ چھاؤنی فوج کی مانند گھر سوروں کے مٹّی اینٹ سے بنی۔ ہر ایک کوٹھری میں سوا ایک آدمی کے دوسرے کی جگہ نہ تھی۔ اونچاؤ اُس کا ایسا کہ کوئی آدمی سیدھا کھڑا نہ ہو سکتا۔ کھانے کا یہ حال تھا کہ شام کو گوشت چاول کا ہریسہ سا پکتا، طباقوں میں نکال کر رکھ دیتے۔ ایک طباق میں کئی آدمیوں کو شریک کرکے کھلاتے۔

    خیر بندہ تماشا دیکھتے ہوئے باہر شہر کے گیا۔ ایک گورستان دیکھا۔ اُس میں ہزاروں قبریں نظر آئیں۔ دیکھنے والے کو باعثِ حیرت تھیں۔ میں نے لوگوں سے پوچھا اس قدر زیادتیِ قبروں کا سبب کیا۔ دریافت ہوا کہ یہاں اکثر وبا آتی ہے، ہزاروں آدمیوں کو ہلاک کرتی ہے۔ مکینوں کی اُسی سے آبادی ہے۔ اسکندریہ آباد کیا ہوا اسکندر کا ہے۔ وقت آباد کرنے کے ایک بڑا سا پتھر کھڑا کیا تھا۔ اب تلک قائم اور کھڑا ہے۔ راہوں اور کوچوں میں تنگی ہے۔ اس سبب سے بیشتر وبا آتی ہے۔ آدمی وہاں کے مفلس و پریشان اکثر تھے۔ بعضے راہ میں فاقہ مست اور خراب پڑے ہوئے مثلِ سگانِ بازاری ہندوستان کے، دیکھنے اُن کے سے سخت تنفّر ہوا۔ آگے بڑھا، ایک اور پرانا تکیہ دیکھا، وہاں فرانسیسوں نے محمد علی شاہ کی اجازت سے قبروں کو کھودا ہے۔ مُردوں کو شیشہ کے صندوق میں رکھا پایا ہے۔ ظاہراً ہزار دو ہزار برس پہلے مُردوں کو شیشے کے صندوقوں میں رکھ کے دفن کرتے تھے۔ نہیں مردے صندوقوں میں کیوں کر نکلتے۔ اگرچہ عمارت اُس شہر کی شکستہ ویران تھی۔ مگر آبادی زمانۂ سابق سے خبر دیتی۔ کئی وجہوں سے ثابت ہوتا کہ یہ شہر اگلے دنوں میں پُر عمارت اور خوب آباد ہوگا۔ اس واسطے کہ جا بجا اینٹ کا اور پتھر کا نشان تھا۔ زمین کے نیچے سے اکثر سنگِ مرمر نکلتا۔ ان دنوں کئی مکان، کوٹھی فرانسیسوں اور انگریزوں کے خوب تیّار ہوئے ہیں۔ سو اُن کے اور سب مکان ٹوٹے پھوٹے ہیں۔

    (تاریخِ یوسفی معروف بہ عجائباتِ فرنگ از یوسف خان کمبل پوش سے انتخاب، یہ سفر نامہ 1847 میں شایع ہوا تھا)

  • ایک تھی مینا، ایک تھا کوّا

    ایک تھی مینا، ایک تھا کوّا

    ایک تھی مینا، ایک تھا کوّا۔ مینا کا گھر موم کا تھا اور کوّے کا نون کا تھا۔

    مینا نے ایک دن کھچڑی پکائی۔ بازار بند ہوگیا تھا۔ نمک نہ ملا تو اس نے اپنے بچّے کو کوّے کے پاس بھیجا کہ اپنے گھر میں سے ذرا سا نون دے دے۔ مینا کے بچّے نے جب کوّے سے یہ بات جاکر کہی تو کوّا بہت خفا ہوا اور کہنے لگا جا، جا بڑا بچارا نمک مانگنے والا آیا، تیری ہنڈیا کی خاطر میں اپنے گھر کی دیوار توڑ دوں، تب تجھ کو نمک دوں؟ ایسے بیوقوف مینا کے محلّہ میں رہتے ہوں گے۔

    مینا کا بچہ اپنا سا منہ لے کر ماں کے پاس آگیا اور اس نے دونوں ہاتھ اٹھا کر خدا سے دعا کی کہ الہٰی گھمنڈ کرنے والوں کو نیچا دکھا، یہ دعا کرنی تھی کہ ایسا مینہ برسا کہ جل تھل بھر گئے۔ کوّے کا گھر تو نون کا تھا، سب بہہ گیا۔ مینا کا گھر موم کا تھا، اس کو کچھ بھی نقصان نہ پہنچا۔

    جب کوّے کا گھر برباد ہوگیا تو وہ مینا کے پاس آیا اور اس سے کہنے لگا بی مینا رات کی رات مجھے اپنے گھر میں ٹھہرا لو۔ مینا نے جواب دیا تُو نے غرور کا کلمہ بولا تھا اور مجھ کو نمک نہ دیا تھا، خدا نے اس کا بدلہ دکھایا ہے، اب میں تجھے گھر میں کیوں ٹھہراؤں، تُو بڑا خود غرض اور خدا کا گنہگار بندہ ہے۔ کوّے نے بہت عاجزی کی تو مینا کو ترس آگیا اور اس نے خیال کیا ایسا نہ ہو خدا مجھ سے بھی ناراض ہوجائے کہ تُو نے مصیبت زدہ کی مدد کیوں نہ کی، اس واسطے اس نے دروازہ کھول دیا اور کوّے کو اندر بلا لیا۔

    کوّے نے کہا آپا مینا میں کہاں بیٹھوں۔ مینا بولی چولھے پر بیٹھ جا۔ کوّے نے کہا۔

    میں جَل مروں گا، میں جَل مروں گا۔

    مینا نے کہا اچّھا جا میری چکّی پر بیٹھ جا۔

    کوّا بولا، میں پس مروں گا، میں پس مروں گا۔

    مینا نے کہا اچھا میرے چرخے پر بیٹھ جا۔

    کوّا بولا، میں کٹ مروں گا، میں کٹ مروں گا۔

    تو مینا نے کہا اچھا کوٹھری میں جا بیٹھ، وہاں میرے چنے بھرے ہوئے ہیں، ان کو نہ کھا لیجو۔ کوّے نے کہا، توبہ ہے آپا مینا، تم بھی کیسی بدگمان ہو۔ تم مجھ پر احسان کرو، گھر میں جگہ دو اور میں تمہارے ہاں چوری کروں گا۔ توبہ توبہ، اس کا تو خیال بھی نہ کرنا۔

    مینا نے کوٹھری کھول دی اور کوّا اندر جاکر بیٹھ گیا۔ آدھی رات کو مینا کی آنکھ کھلی تو کوٹھری میں کچھ کھانے کی آواز آئی۔ مینا نے پوچھا بھائی کوّے کیا کھا رہے ہو۔ بولا آپا مینا میری سسرال سے بن آئے تھے۔ وہ سردی میں چبا رہا ہوں۔

    مینا چپکی ہوئی۔ پچھلی رات کو مینا کی آنکھ پھر کھلی تو کھانے کی آواز آئی اور مینا نے پھر پوچھا تو کوّے نے وہی جواب دیا۔

    کوّا سب جانوروں سے پہلے جاگا کرتا ہے۔ مینا ابھی بچھونوں سے اٹھی بھی نہ تھی جو کوّا کوٹھری سے نکل کر بھاگ گیا۔ مینا نے اٹھ کر دیکھا تو ساری کوٹھری خالی تھی۔ کوّے نے سب چنے کھالئے تھے۔

    مینا نے کہا، بد ذات اور شریر کے ساتھ احسان کرنے کا یہ بدلہ ملتا ہے۔

    (از قلم لیلیٰ خواجہ بانو)

  • عالمی شہرت یافتہ ماہرِ ‌تعلیم، ادیب اور محقق اشتیاق حسین قریشی کی برسی

    عالمی شہرت یافتہ ماہرِ ‌تعلیم، ادیب اور محقق اشتیاق حسین قریشی کی برسی

    آج عالمی شہرت یافتہ ماہرِ تعلیم، مؤرخ، محقق اور ڈراما نویس پروفیسر ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کا یومِ وفات ہے۔ 22 جنوری 1981ء کو وفات پانے والے ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور بانی چیئرمین مقتدرہ قومی زبان تھے۔ تعلیم و تدریس اور مختلف موضوعات پر ان کی کتب پاکستان سمیت دنیا کی مشہور جامعات میں پڑھائی جاتی ہیں۔

    ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی 20 نومبر، 1903ء کو ضلع اٹاوہ، اترپردیش میں پیدا ہوئے۔ 1942ء میں سینٹ اسٹیفن کالج، دہلی سے بی اے، تاریخ اور فارسی میں ایم اے کیا۔ بعدازاں اسی ادارے کے شعبہ تاریخ میں لیکچرار ہوگئے، لیکن کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ کیمبرج یونیورسٹی سے تاریخ میں پی ایچ ڈی کا فیصلہ کیا اور برطانیہ چلے گئے۔ انھوں نے سلطنتِ دہلی کا نظمِ حکومت کے عنوان سے مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

    ہندوستان واپسی پر دہلی یونیورسٹی میں ریڈر مقرر ہوئے اور ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے دہلی یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ کے پروفیسر اور پھر ڈین بنے۔ قیامِ پاکستان کے بعد 1948ء میں کراچی آگئے۔ انھیں جامعہ کراچی کے علاوہ مہاجرین و آبادکاری کے وزیرِ مملکت اور بعد ازاں مرکزی حکومت میں وزیرِ تعلیم بنایا گیا۔ کچھ وقت کے لیے پنجاب یونیورسٹی میں پروفیسر رہے۔

    1955ء میں امریکا کی کولمبیا یونیورسٹی کے وزیٹنگ پروفیسر ہوئے جہاں وہ 1960ء تک خدمات انجام دیں اور اسی دوران برِصغیر کی تایخ پر شہرۂ آفاق کتاب برعظیم پاک و ہند کی ملّتِ اسلامیہ تصنیف کی۔ ان کی اردو اور انگریزی کتب میں سے دو اہم کتب The Struggle for Pakistan اور The Administration of Mughal Empire بھی ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد اشتیاق حسین قریشی نے تین اہم تصانیف تعلیم اور تاریخ و سیاست کے موضوع پر سپردِ قلم کیں۔

    1979ء انھیں مقتدرہ قومی زبان کا بانی چیئرمین مقرر کیا گیا جہاں انھیں نے اردو زبان کی ترویج و فروغ کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ حکومتِ پاکستان نے ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کو ستارۂ پاکستان سے نوازا۔ وہ کراچی میں گلشنِ اقبال کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • مصوّرِ مشرق عبدالرّحمٰن چغتائی کا یومِ وفات

    مصوّرِ مشرق عبدالرّحمٰن چغتائی کا یومِ وفات

    17 جنوری 1975ء کو پاکستان کے ممتاز مصور عبدالرّحمٰن چغتائی وفات پا گئے۔ انھیں مصورِ مشرق بھی کہا جاتا ہے۔

    عبدالرّحمٰن چغتائی 21 ستمبر 1897ء کو لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا تعلق شاہجہاں کے دور کے مشہور معمار خاندان سے تھا۔ 1914ء میں میو اسکول آف آرٹس لاہور سے امتحان پاس کرنے کے بعد انھوں نے استاد میراں بخش سے فنِ مصوری میں استفادہ کیا۔ پھر میو اسکول ہی میں تدریس کے پیشے سے منسلک ہوگئے۔

    1919ء میں لاہور میں ہندوستانی مصوّری کی ایک نمائش منعقد ہوئی جس نے عبدالرحمن چغتائی کو اپنا باقاعدہ فنی سفر شروع کرنے پر آمادہ کیا اور اس کے بعد انھوں نے اپنی تصاویر کلکتہ کے رسالے ماڈرن ریویو میں اشاعت کے لیے بھیجیں۔ ان کی یہ تصاویر شایع ہوئیں اور چغتائی صاحب کا فن شائقین اور ناقدین کے سامنے آیا تو ہر طرف ان کی دھوم مچ گئی۔

    عبدالرّحمن چغتائی نے اسی زمانے میں فنِ مصوّری میں اپنے اس جداگانہ اسلوب کو اپنایا جو بعد میں‌ چغتائی آرٹ کے نام سے مشہور ہوا اور ان کی پہچان و شناخت بنا۔

    1928ء میں مرقعِ چغتائی شایع ہوا جس میں عبدالرّحمٰن چغتائی نے غالب کے کلام کی مصوری میں تشریح کی تھی۔ گویا انھوں نے شاعری کو رنگوں سے آراستہ کردیا۔ یہ اردو میں اپنے طرز کی پہلی کتاب تھی جس کی خوب پذیرائی ہوئی۔

    1935ء میں غالب کے کلام پر مبنی ان کی دوسری کتاب نقشِ چغتائی شایع ہوئی۔ یہ کتاب بھی بے حد مقبول ہوئی۔ اس کے بعد ہندوستان اور ہندوستان سے باہر عبدالرّحمٰن چغتائی کے فن پاروں کی متعدد نمائشیں منعقد ہوئیں اور وہ صاحبِ اسلوب آرٹسٹ کے طور پر پہچان بناتے چلے گئے۔ فن کے قدر دانوں اور آرٹ کے ناقدین نے ان کی پزیرائی کی۔

    قیامِ پاکستان کے بعد عبدالرّحمٰن چغتائی نے نہ صرف پاکستان کے ابتدائی چار ڈاک ٹکٹوں میں سے ایک ڈاک ٹکٹ ڈیزائن کیا بلکہ ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی وژن کے مونوگرام بھی انہی کے تیار کردہ تھے جو آج بھی ان کے فن کی زندہ یادگار ہیں۔

    عبدالرّحمٰن چغتائی موقلم ہی نہیں‌ قلم بھی تھامے رہے اور افسانہ نگاری کی۔ ان کے افسانوں کے دو مجموعے لگان اور کاجل شایع ہوئے۔

    عبدالرّحمٰن چغتائی نے مغل دور اور پنجاب کو اپنے فن پاروں میں‌ پیش کیا اور ان کی بنائی ہوئی تصویریں دنیا کی مختلف آرٹ گیلریوں میں سجائی گئیں۔

  • پاک امریکا تعلقات کو ابھی خوش گوار نہیں کہہ سکتے: شاہ محمود قریشی

    پاک امریکا تعلقات کو ابھی خوش گوار نہیں کہہ سکتے: شاہ محمود قریشی

    اسلام آباد: پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ امریکی وزیرخارجہ کی خواہش پر وزیراعظم عمران خان ان سے ملاقات کریں گے.

    ان خیالات کا اظہار انھوں نے اےآروائی نیوزسےخصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا. ان کا کہنا تھا کہ امریکی وزیرخارجہ کے سامنے اپنا مؤقف رکھیں.

    شاہ محمودقریشی کا کہنا تھا کہ امریکا اور پاکستان کے تعلقات میں سردمہری سب کے سامنے ہے، پاک امریکا تعلقات کو ابھی خوش گوار نہیں کہہ سکتے.

    انھوں نے عارف علوی کے صدر پاکستان منتخب ہونے پر کہا کہ میں انھیں مبارک باد پیش کرتا ہوں، سمجھتا ہوں، عارف علوی ایک اچھے صدر ثابت ہوں گے.

    وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ عارف علوی آئین ،جمہوری امور اوروفاق کو سمجھتے ہیں، دعا ہے اللہ تعالیٰ عارف علوی کو کامیابی عطا کرے.

    مزیر پڑھیں: پاکستان نے مائیک پومپیو اور وزیراعظم کی گفتگو سے متعلق امریکی بیان مسترد کردیا

    انھوں نے کہا کہ عارف علوی کا سیاسی سفر پریکٹیکل اور طویل ہے، عارف علوی پارٹی پارلیمنٹ کی اہمیت کو سمجھتے ہیں.

    ایک سوال کے جواب میں‌ انھوں نے کہا کہ دیکھنا ہوگا حقیقی اپوزیشن کا کردار کون ادا کررہا ہے، ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی جماعت خود کو حقیقی اپوزیشن سمجھتے ہیں.