Tag: مئی اموات

  • پاکستان ٹیلی ویژن کے نام وَر اداکار سبحانی بایونس کی برسی

    پاکستان ٹیلی ویژن کے نام وَر اداکار سبحانی بایونس کی برسی

    آج پاکستان ٹیلی ویژن کے نام وَر اداکار سبحانی بایونس کی برسی ہے۔ سبحانی بایونس کا شمار ان فن کاروں‌ میں ہوتا ہے جنھوں نے اسٹیج اور ریڈیو پر اپنی فن کارانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا اور ٹیلی ویژن پر اپنی اداکاری سے ناظرین کے دل جیتے۔ زندگی کی 77 بہاریں دیکھنے والے سبحانی بایونس 31 مئی 2006ء کو اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔

    سبحانی بایونس 1924ء میں حیدرآباد دکن میں اورنگ آباد کے ایک قصبے میں پیدا ہوئے تھے۔ ہجرت کے بعد انھوں‌ نے کراچی میں‌ سکونت اختیار کی اور یہاں اسٹیج سے فنی سفر کا آغاز کیا۔

    سبحانی بایونس نے ٹیلی ویژن کے مقبول ترین ڈراموں تعلیمِ بالغان، محمد بن قاسم، قصّہ چہار درویش، مرزا غالب بندر روڈ پر، خدا کی بستی، سسّی پنہوں میں کام کیا اور خوب شہرت حاصل کی۔ مرزا غالب کے روپ میں‌ انھیں پی ٹی وی کے شائقین نے بہت سراہا اور یہ کردار یادگار ثابت ہوا، باادب باملاحظہ پی ٹی وی سے نشر ہونے والا ایک مقبول ڈراما تھا جس میں‌ انھوں نے اپنی فطری اور بے ساختہ اداکاری سے ناظرین کے دل موہ لیے اور اسی ڈرامے کے بعد علالت کے باعث اداکاری سے کنارہ کش ہوگئے۔

    سبحانی بایونس اپنی بھاری اور رعب دار آواز کے سبب ریڈیو پاکستان کے کام یاب صدا کاروں میں شمار ہوئے۔ ساتھی فن کار انھیں باکمال فن کار مانتے اور ایک مہربان، ہم درد اور شفیق انسان کے طور پر پہچانتے تھے۔

    سبحانی بایونس کراچی میں عزیز آباد کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • تحریکِ پاکستان کے مقبول ترین نعرے کے خالق اصغر سودائی کی برسی

    تحریکِ پاکستان کے مقبول ترین نعرے کے خالق اصغر سودائی کی برسی

    آج پروفیسر اصغر سودائی کی برسی منائی جارہی ہے جو ”پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الا اللہ“ جیسے مقبول نعرے کے خالق ہیں۔ ان کی ایک نظم کا یہ مصرع نعرے کی صورت ہندوستان کے طول و عرض میں‌ یوں گونجا کہ اسے تحریکِ پاکستان کی روح تصور کیا جانے لگا اور مسلمانوں نے اسے حرزِ جاں بنا لیا۔

    پروفیسر اصغر سودائی اردو کے نام وَر شاعر اور ماہرِ تعلیم تھے جن کا اصل نام محمد اصغر تھا۔ وہ 17 ستمبر 1926ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ وہ تحریکِ پاکستان کے سرگرم رکن تھے۔ اصغر سودائی نے 1945ء میں ایک نظم لکھی جس کا مصرع نعرے کی صورت مسلمانانِ ہند کے دل میں اتر گیا اور آزادی کی بنیاد بنا۔ آج بھی جشنِ آزادی کی تقاریب میں اور تحریکِ آزادی اور قیامِ پاکستان سے متعلق تحریر و تقریر میں اس نعرے کا ذکر لازمی ہوتا ہے جس نے مسلمانوں میں‌ ایک نئی روح پھونکی اور جوش و ولولہ پیدا کیا تھا۔

    پروفیسر اصغر سودائی نے مرے کالج سیالکوٹ اور اسلامیہ کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی اور گورنمنٹ اسلامیہ کالج سیالکوٹ سے بطور لیکچرار وابستہ ہوگئے۔ 1965ء میں وہ اس کالج کے پرنسپل بنے۔ 1966ء میں انھوں نے سیالکوٹ میں علامہ اقبال کالج قائم کیا۔

    پروفیسر اصغر سودائی کے شعری مجموعوں میں شہِ دو سَرا اور چلن صبا کی طرح شامل ہیں۔

    17 مئی 2008ء کو اصغر سودائی انتقال کرگئے، وہ سیالکوٹ میں آسودۂ خاک ہیں۔