Tag: مئی انتقال

  • پرکاش مہرا: ایک کام یاب فلم ڈائریکٹر اور نغمہ نگار

    پرکاش مہرا: ایک کام یاب فلم ڈائریکٹر اور نغمہ نگار

    پرکاش مہرا بولی وڈ کے وہ ہدایت کار تھے جن کی ایک فلم نے امیتابھ بچن کو ‘اینگری ینگ مین’ اور ‘سپر اسٹار’ بنا دیا تھا۔ 17 مئی 2009ء کو پرکاش مہرا چل بسے تھے اور امیتابھ بچن زندگی کے ان آخری لمحات میں بھی پرکاش مہرا کے ساتھ تھے۔

    13 جولائی 1939ء کو پرکاش مہرا نے اتر پردیش کے شہر بجنور میں آنکھ کھولی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جس میں سنیما کا جادو ہندوستانیوں پر چل چکا تھا۔ اپنے وقت کے کئی بڑے فلم ساز، باکمال فن کار اور بڑے بڑے تخلیق کار فلم انڈسٹری میں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کررہے تھے اور ان کی فلمیں زبردست کام یابیاں سمیٹ رہی تھیں۔ متحدہ ہندوستان کے نوجوان سنیما کے دیوانے تھے اور جن کو موقع ملتا وہ فلم انڈسٹری میں کام کرنے کی خاطر اس وقت کے فلمی مرکز بمبئی پہنچ جاتے۔ پرکاش مہر بھی تقسیمِ ہند کے بعد بطور اداکار قسمت آزمانے ممبئی پہنچے تھے۔ یہ 60 کی دہائی تھی۔ ان کے کریئر کا آغاز فلم اجالا اور پروفیسر جیسی فلموں سے ہوا۔ لیکن پھر وہ ہدایت کاری کی طرف چلے گئے۔ 1968ء میں ایک فلم ‘حسینہ مان جائے گی’ ریلیز ہوئی اور یہ بطور ہدایت کار پرکاش مہرا کی پہلی فلم تھی۔ اس فلم میں ششی کپور نے دہرا کردار ادا کیا تھا۔ اس فلم کے بعد پرکاش مہرا نے پلٹ کر نہیں دیکھا اور شان دار کام کی بدولت فلمی دنیا میں‌ نام و مقام بنایا۔

    1973ء میں فلم زنجیر ریلیز ہوئی جو نہ صرف پرکاش مہرا کے لیے بلکہ امیتابھ بچن کے کریئر میں بھی سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس فلم کا معاہدہ امیتابھ بچن نے ایک روپیہ میں کیا تھا۔زنجیر ریلیز ہوئی اور ہر طرف دھوم مچ گئی۔ اس شان دار آغاز کے بعد امیتابھ اور پرکاش مہرا کی سپر ہٹ فلموں کا گویا سلسلہ ہی چل نکلا۔ فلم لاوارث، مقدر کا سکندر، نمک حلال، شرابی، ہیرا پھیری اور دیگر فلموں نے باکس آفس پر تہلکہ مچا دیا۔

    امیتابھ بچن کا بولی وڈ کے ہدایت کاروں اور پروڈیوسروں میں پرکاش مہرا سے ایک خاص اور گہرا جذباتی تعلق تھا۔ پرکاش مہرا ہندی فلموں کے کام یاب ترین ہدایت کار اور فلم ساز تھے جن کا ایک حوالہ نغمہ نگاری بھی ہے۔ پرکاش مہرا مشہور فلمی شاعر انجان سے بہت زیادہ متاثر تھے اور ان سے گہری دوستی بھی تھی۔ انجان نے پرکاش کی شاعری سن کر ان کے بارے میں کہا تھا کہ ان کی شاعری بہت مقبول ہوگی۔ پرکاش نے بعد اپنی کئی فلموں میں اپنے تحریر کردہ گیت شامل کیے جن میں او ساتھی رے، تیرے بنا بھی کیا جینا…، لوگ کہتے ہیں میں شرابی ہوں، جوانی جانِ من. حسین دلربا، دل تو ہے دل، دل کا اعتبارکیا کیجے وغیرہ شامل ہیں۔

    فلمی دنیا میں‌ یہ بات بڑی مشہور ہوئی تھی کہ ان کی زیادہ تر فلموں کا ہیرو لاوارث ہوتا ہے، اکثر لوگ پرکاش مہرا سے اس پر تعجب کا اظہار کرتے اور اس کا سبب دریافت کرتے، لیکن پرکاش مہرا اس سوال پر ہنستے ہوئے لوگوں کو ٹال دیتے تھے۔

    بولی وڈ کے اس باکمال ہدایت کار فلم ساز کی ذاتی زندگی کا ایک بڑا المیہ بچپن میں ماں کے انتقال کے بعد والد کا دماغی توازن کھو دینا تھا اور اس کی وجہ سے پرکاش مہرا نے اپنی زندگی کے ابتدائی دنوں کو ایک قسم کی محرومی اور تکلیف کے احساس کے ساتھ گزارا تھا۔ باپ کی یہ دیوانگی شاید انھیں ایک قسم کے لاوارث ہونے کا احساس دلاتی تھی اور شاید پرکاش مہرا نے اپنے اسی دکھ کو فلموں میں ایک لاوارث ہیرو کی شکل میں پیش کیا۔

    سال 2001ء میں فلم "مجھے میری بیوی سے بچاوٴ” کے بعد پرکاش مہرا کا فلمی سفر گویا تمام ہوگیا تھا۔ یہ فلم بری طرح‌ فلاپ ہوگئی تھی ان کی شریکِ حیات بھی انہی دنوں ان کا ساتھ چھوڑ گئیں جس کا پرکاش مہرا کو بہت دکھ تھا۔ وہ اپنی زندگی میں جن لوگوں سے قریب رہے اور دوستی کی، اسے تاعمر نبھایا۔

  • اقبال متین: اردو زبان کا البیلا افسانہ نگار

    اقبال متین: اردو زبان کا البیلا افسانہ نگار

    ارضِ دکن کے بے مثال اور البیلے افسانہ نگار اقبال متین نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز شعر گوئی سے کیا تھا۔ لیکن چند سال بعد ان کی شناخت اُن کی افسانہ نگاری بن گئی۔ انھوں نے سماجی جبر اور استحصال کو اپنا موضوع بنایا اور اردو ادب کو کئی متاثر کن افسانے دیے۔

    اقبال متین 2 فروری 1929ء کو حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام سید عبد القادر ناصر اور والدہ کا نام سیدہ آصفیہ بیگم تھا۔ اقبال متین کو شروع ہی سے علمی و ادبی ماحول میسر آیا تھا ار انھوں‌ نے انٹرمیڈیٹ تک تعلیم حاصل کی۔ اقبال متین کی پہلی کہانی ’’چوڑیاں‘‘ تھی جو 1945ء میں ’’ادبِ لطیف‘‘ لاہور میں شائع ہوئی۔ رسالہ ’’ادبِ لطیف‘‘ لاہور کے مدیر احمد ندیم قاسمی تھے جو اردو افسانے کے صف اول کے لکھنے والوں میں امتیازی حیثیت اور نام و مرتبہ رکھتے تھے۔ ان کا یہ رسالہ بھی اس دور کے اہم رسالوں میں سے ایک تھا۔ گویا اقبال متین کی کہانی کا اس رسالہ میں شائع ہونا ان کے لیے تو ایک اعزاز سے کم نہ تھا اور ساتھ ہی انھیں اپنے مستقبل کے لیے ایک سند بھی حاصل ہو گئی تھی۔ ’’ادبِ لطیف‘‘ کے بعد ان کی کہانیاں’’ادبی دنیا‘‘ ، ’’نیا دور‘‘ اور ’’افکار‘‘ میں شائع ہونے لگی تھیں۔

    اقبال متین نے شاعری مکمل طور پر ترک تو نہیں کی لیکن شاعری سے زیادہ کہانیوں پر توجہ دی اور ادبی حلقوں میں متاثر کن اور کام یاب افسانہ نگار کے طور پر جگہ بنائی۔ بھارت کے اس معروف اردو ادیب نے افسانہ اور ناول کے ساتھ خاکے اور مضمون بھی لکھے جو کتابی شکل میں شایع ہوئے۔ اقبال متین کا ناول ’’چراغ تہ داماں 1976ء‘‘ ، ’’سوندھی مٹی کے بت 1995ء‘‘ (خاکے)، ’’باتیں ہماریاں‘‘ 2005ء (یادیں)، ’’اعتراف و انحراف 2006ء‘‘ (مضامین )، جب کہ ’’اجالے جھروکے میں ‘‘ (مضامین) 2008ء میں شائع ہوئے۔

    5 مئی 2015ء کو دکن میں‌ انتقال کرنے والے اقبال متین کو بھارت میں اردو اکادمی اور دوسری انجمنوں کی جانب سے متعدد ادبی اعزازات اور انعامات سے نوازا گیا۔

  • نرگس کا تذکرہ جنھیں ‘مدر انڈیا’ نے لازوال شہرت ہی نہیں وفادار جیون ساتھی بھی دیا!

    نرگس کا تذکرہ جنھیں ‘مدر انڈیا’ نے لازوال شہرت ہی نہیں وفادار جیون ساتھی بھی دیا!

    فلم ‘راکی’ کی نمائش 7 مئی 1981ء کو ہونا تھی اور کینسر کے مرض میں مبتلا نرگس دَت اپنے بیٹے کی پہلی فلم کے پریمیئیر میں ہرحالت میں‌ شرکت کرنا چاہتی تھیں‌، لیکن اجل نے انھیں مہلت نہیں دی۔ 3 مئی کو نرگس کا انتقال ہوگیا۔

    بولی وڈ اداکارہ نرگس دَت اپنے ایک مضمون میں لکھتی ہیں، "مجھے اپنی زندگی میں‌ ہمیشہ اطمینان رہا کیوں کہ جس چیز کی میں نے خواہش کی وہ حاصل ہوگئی۔ میں نے زندگی کے مختلف روپ دیکھے ہیں اور طرح طرح کے تجربات جمع کیے ہیں۔ غم اور خوشی دونوں کو میں نے پرکھا ہے اور اس سے مجھ میں‌ حیات کا عرفان پیدا ہوا ہے۔ جب زمانے کے ستائے اور درد کے ماروں سے واسطہ پڑا تو ان سے میں نے یہ سیکھا کہ مشکلات اور مصائب کا سامنا کس پامردی سے کیا جاتا ہے۔ لیکن اس کے لیے اپنے اندر بھی ایک روحانی طاقت کا پایا جانا شرط ہے۔ اور یہ روحانی طاقت یقیناً اپنی ماں سے مجھے ورثہ میں‌ ملی ہے جس نے میرے ذہن و مزاج کی تشکیل میں ایک اہم کردار ادا کیا اور مجھے اس قابل بنایا کہ میں ایک بامقصد اور کام یاب زندگی گزار سکوں۔

    نرگس کا اصل نام فاطمہ رشید تھا جو سنیل دَت کی شریکِ سفر بنیں۔ سنیل دت بولی وڈ میں اداکاری کے ساتھ فلم ساز اور ہدایت کار کے طور پر بھی مشہور ہوئے۔ نرگس تو ڈاکٹر بننا چاہتی تھیں، لیکن فلمی دنیا نے انھیں یہ موقع نہیں دیا۔ وہ پہلی فلم کے بعد چاہتے ہوئے بھی آفرز پر انکار نہ کرسکیں۔ لیکن بعد میں انھوں‌ نے سیاست کی دنیا میں‌ ضرور قدم رکھا اور اپنی وفات تک راجیہ سبھا کی رکن رہیں۔

    نرگس اپنے ایک مضمون میں رقم طراز ہیں: قسمت کے فیصلے بھی عجیب ہوتے ہیں۔ میں نے ہمیشہ شدّت سے چاہا تھا کہ ڈاکٹر بنوں لیکن فلم تقدیر کے بعد پانسے ہی پلٹ گئے۔ یکے بعد دیگرے میری فلمیں کام یاب ہوتی گئیں اور ڈاکٹر بننے کا پھر کبھی خیال نہیں‌ آیا، کیوں‌ کہ ایک اداکارہ جنم لے چکی تھی جو تیزی سے سرگرمِ سفر تھی۔

    نرگس دَت کی فلموں میں آمد، حسن و جمال اور ذاتی زندگی پر فلموں سے وابستہ کئی بڑے ناموں اور اہلِ قلم نے مضامین اور کتابیں‌ لکھیں۔ انہی میں اردو کے ممتاز ترقی پسند شاعر اور مصنّف علی سردار جعفری بھی شامل ہیں۔ علی سردار جعفری لکھتے ہیں‌، نرگس دَت موسمِ بہار کی کلی تھی۔ شہرت اور مقبولیت کی ایک خرابی بتاتے ہوئے مصنّف نے فلمی ستاروں‌ کے بارے میں لکھا، وہ اپنا توازن کھو دیتے ہیں اور فن اور زندگی کے دوسرے شعبوں کی بڑی ہستیوں کو خاطر میں نہیں لاتے اور جب ان کے عروج کا زمانہ ختم ہو جاتا ہے تو احساسِ کمتری میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ لیکن نرگس کا مزاج یہ نہیں تھا۔ اس نے اپنی انتہائی مقبولیت کے زمانے میں بھی اپنے ذہنی توازن کو برقرار رکھا اور اپنی شخصیت کے وقار کو باقی رکھا۔

    آج نرگس دَت کا یومِ‌ وفات ہے اور ہندی سنیما کی یہ معروف فن کار فلم انڈسٹری میں صرف نرگس کے نام سے پہچانی گئیں۔ یکم جون 1929 کو نرگس کلکتہ میں پیدا ہوئی تھیں۔ نرگس چھے سات برس کی تھیں‌ جب بطور چائلڈ آرٹسٹ کیمرے کا سامنا کیا اور وہ فلم ’’تلاشِ حق‘‘ تھی۔ نرگس کی ماں کا نام جدن بائی تھا جو کلاسیکی موسیقار اور گلوکار تھیں اور ان کا تعلق بنارس کے ایک خاندان سے تھا جب کہ والد موہن چند ایک امیر خاندان کے فرد تھے اور کہا جاتا ہے کہ وہ ایک نو مسلم تھے۔ نرگس کو 14 سال کی عمر میں محبوب خان کی فلم ’’تقدیر‘‘ میں بطور ہیروئن کام کرنے کا موقع ملا اور ان کی جوڑی راج کپور اور دلیپ کمار کے ساتھ آنے والے برسوں‌ میں بے حد مقبول ہوئی۔ راج کپور اور دلیپ کمار دونوں‌ ہی اپنے دور کے مقبول ہیرو تھے۔ نرگس نے ان کے ساتھ فلم’’ انداز‘‘، ’’آوارہ‘‘ اور ’’چوری چوری‘‘ میں بہترین اداکاری کی۔ مگر ان کا کیریئر 1942ء میں فلم “تمنا“ سے شروع ہوتا ہے۔ اداکارہ نرگس نے زیادہ تر خودمختار اور آزاد عورت کے کردار نبھائے اور اپنے فنِ اداکاری کے سبب ہدایت کاروں میں اہمیت حاصل کی۔ آدھی رات (1950ء)، بے وفا (1952ء)، انہونی (1952ء)، آہ (1953ء) اور دیگر فلموں میں ان کی اداکاری کو شائقین نے بہت پسند کیا۔ ایک وقت تھا جب وہ راج کپور جیسے بڑے ہندوستانی فن کار کے قریب ہوگئی تھیں‌، لیکن پھر ان میں‌ اَن بَن ہوگئی اور نرگس نے اپنے کیریئر کو آگے بڑھانے پر توجہ مرکوز کردی تاہم یہی وہ موڑ بھی تھا جس نے نرگس کو سنیل دت کی محبّت میں مبتلا کر دیا۔ نرگس نے راج کپور سے علیحدگی کے بعد پہلی فلم مدر انڈیا سائن کی تھی۔ اس فلم میں نرگس نے اپنی زندگی کی بہترین اداکاری کی۔ یہ فلم ایک عورت کی نوجوان بیوی سے بڑھاپے تک کے سفر کی کہانی ہے، جس میں رومانس تو ہے ہی لیکن ساتھ ساتھ عورت کی استقامت بھی بیان کی گئی ہے جس میں ایک ماں اپنے ہی بیٹے کو گولی مارنے سے گریز نہیں کرتی۔ اس فلم نے انھیں‌ ملک گیر شہرت دی اور مدر انڈیا کے بعد نرگس کے لیے ہر کردار چھوٹا ہو گیا۔ یہ ہندوستانی سنیما کی شاہ کار فلموں میں سے ایک تھی۔ اسی فلم میں‌ سنیل دت نے بھی کردار نبھایا تھا اور وہ دونوں ایک دوسرے کے قریب آئے۔

    اس فلم کی زیادہ تر شوٹنگ مہاراشٹرا اور گجرات میں کی گئی تھی اور اسی دوران ایک حادثہ انھیں قریب لے آیا۔ گجرات میں مدر انڈیا کے ایک سین میں بھوسے کے ڈھیر کو آگ لگائی جانی تھی جس میں‌ چھپے سنیل دت باہر آتے۔ اس موقع پر نرگس جلتے ہوئے بھوسے کے ڈھیر سے گزر رہی تھیں تو شعلوں میں پھنس گئیں۔ سنیل دت نے یہ دیکھا تو شعلوں‌ میں‌ کود کر نرگس کو بچا لیا۔ وہ اس دوران خود بھی جل گئے تھے۔ نرگس اسپتال میں ان کے ساتھ رہیں اور بہت خیال رکھا۔ بعد میں سنیل دت نے انھیں شادی کی پیشکش کی اور پھر دونوں نے زندگی بھر ایک دوسرے کا ساتھ نبھایا۔ اداکار سنجے دت انہی کی اولاد ہیں۔

    شادی کے بعد اداکارہ نرگس نے فلموں میں کام کرنا چھوڑ دیا اور اپنا رخ سماجی کاموں کی طرف کرلیا۔ نرگس نے ایک اچھی بیوی کی طرح نہ صرف سنیل دت کو سنبھالا بلکہ ان کے خاندان کو بھی ایک کیے رکھا۔ وہ سیاست کی دنیا میں بھی سرگرم ہوئیں اور نرگس کو راجیا سبھا کے لیے نامزد کیا گیا۔

    علی سردار جعفری لکھتے ہیں، نرگس کے چہرے میں وہ چیز نہیں تھی جس کو عام فلمی زبان میں گلیمر (GLAMOUR) کہا جاتا ہے۔ اس کی پوری شخصیت میں ایک سنجیدگی اور وقار تھا جس کی وجہ سے لوگ احترام کرنے پر مجبور ہو جاتے تھے۔ نرگس کے فن کے پرستاروں میں جواہر لال نہرو اور ترکی کے شاعر ناظم حکمت جیسی عظیم شخصیتیں تھیں۔

    میں نے نرگس کو ایک اچھی اداکارہ کی حیثیت سے سب سے پہلے قریب سے احمد عباس کی فلم ‘انہونی’ میں دیکھا جس کا ایک گیت "دل شاد بھی ہے ناشاد بھی ہے” میں نے لکھا تھا۔ اس میں نرگس کا رول دہرا تھا اور اس نے اپنے فن کے کمال کا پہلا بڑا مظاہرہ کیا تھا۔ اس نے دو لڑکیوں کا کردار ادا کیا تھا جن میں سے ایک "شریف زادی” ہے اور دوسری "طوائف”۔ خواجہ احمد عباس نے اس کہانی میں ماحول کے اثر پر زور دیا تھا۔ یہ فلم عباس کی بہترین فلموں میں شمار کی جاتی ہے۔ اور اس کا شمار نرگس کی بھی بہترین فلموں میں کیا جائے گا۔

    نرگس کے فن میں کیا جادو تھا اس کا مظاہرہ میں نے 1953ء میں دیکھا۔ اکتوبر یا نومبر 1953ء میں پہلا فلمی ڈیلیگیشن ہندوستان سے سوویت یونین گیا۔ ڈیلیگیشن کے لیڈر خواجہ احمد عباس تھے۔ اور اراکین میں بمل رائے، راج کپور، نرگس بلراج ساہنی وغیرہ تھے۔ وہاں راج کپور کی فلم ‘آوارہ’ دکھائی گئی جس کی کہانی خواجہ احمد عباس نے لکھی تھی۔ اس فلم نے سارے سوویت یونین کا دل جیت لیا۔ راج کپور اور نرگس، نرگس اور راج کپور۔ یہ دو نام ہر دل کے ساتھ دھڑک رہے تھے۔ اور ہر طرف فلم کا گانا ‘آوارہ ہوں…ٔ گایا جا رہا تھا۔

    جب میں دسمبر 1953ء میں سوویت یونین گیا تو لوگ مجھ سے پوچھتے تھے آپ نرگس کو جانتے ہیں۔ آپ راجک پور سے ملے ہیں؟ اور جب میں ہاں کہتا تو ان کی نظروں میں میرا وقار بڑھ جاتا تھا۔ ابھی دو تین ماہ پہلے جب میں سوویت یونین گیا تو تقریباً تیس سال بعد بھی نئی نسل کے نوجوان نرگس کے نام سے واقف تھے۔

    نرگس کی آخری اور شاہ کار فلم ‘مدر انڈیا’ ہے۔ اس میں نرگس کے فن نے اپنی آخری بلندیوں کو چھو لیا ہے۔ ماں کے کردار کے لیے محبوب خاں کی نگاہِ انتخاب نرگس پر پڑی اور وہ سب سے زیادہ صحیح انتخاب تھا۔ اور نرگس نے بھی کمال کر دیا۔ اپنی معراج پر پہنچنے کے بعد نرگس نے فلمی کام ہمیشہ کے لیے ترک کر دیا۔ اس فیصلے میں بھی نرگس کی عظمت جھلکتی ہے۔ وہ چیز جس کو "موہ مایا” کہا جاتا ہے نرگس اس سے بہت بلند تھی۔

    علی سردار جعفری کے مضمون کا یہ آخری پارہ ہے جس میں انھوں نے نرگس اور سنیل دت کی جوڑی کی تعریف کی ہے، وہ لکھتے ہیں: مدر انڈیا نے نرگس کو عظمت کی جو بلندی عطا کی اس کے ساتھ ایک وفادار اور محبت کرنے والا شوہر بھی دیا۔ نرگس کی بیماری کے آخری زمانے میں سنیل دَت نے جس طرح اپنے تن من دھن کے ساتھ نرگس کی خدمت کی ہے اس کی تعریف کرنے کے لیے ہماری زبان میں الفاظ نہیں ہیں۔ نرگس اور سنیل دَت کا فن ان کے بیٹے کو ورثے میں ملا ہے اور اگر سنجے دَت نے اپنی اس وراثت کا احترام کیا تو ایک دن وہ بھی عظمت کی بلندیوں کو چُھو لے گا۔

  • سبحانی بایونس: اسٹیج، ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے سینئر فن کار کا تذکرہ

    سبحانی بایونس: اسٹیج، ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے سینئر فن کار کا تذکرہ

    سبحانی بایونس کا نام اسٹیج اور ریڈیو کے منجھے ہوئے آرٹسٹوں‌ اور ایسے صدا کاروں‌ میں شامل ہے جنھیں‌ ان کی آواز اور منفرد لب و لہجے کی وجہ سے بھی اپنے دور کے فن کاروں میں امتیاز حاصل رہا۔ ملک میں ٹیلی ویژن نشریات کا آغاز ہوا تو انھوں نے ڈراموں میں اپنی بے مثال اداکاری کی بدولت ملک گیر شہرت پائی۔ آج اس باکمال آرٹسٹ کی برسی منائی جارہی ہے۔

    سینئر فن کار سبحانی بایونس کی زندگی کا سفر کراچی میں‌ 31 مئی 2006 کو تمام ہوا۔ وہ اپنے حلقۂ احباب اور فن کار برادری میں‌ ایک منکسر المزاج اور سنجیدہ و متین شخص کے طور پر مشہور تھے۔ ساتھی فن کار انھیں نہایت مہربان دوست اور ہمدرد انسان کے طور پر یاد کرتے ہیں۔

    سبحانی بایونس کا تعلق حیدرآباد دکن (اورنگ آباد) سے تھا۔ وہ 1924 میں پیدا ہوئے تھے۔ تقسیمِ ہند کے بعد کراچی شہر میں سکونت اختیار کرنے والے سبحانی بایونس پی آئی بی کالونی میں‌ رہائش پذیر تھے۔

    اسٹیج ڈراموں سے اداکاری کا آغاز کرنے والے سبحانی بایونس نے ریڈیو پر صداکاری کا شوق پورا کیا، ملک میں پی ٹی وی کی نشریات شروع ہوئیں‌ تو اسکرین پر اپنی اداکاری سے ہر خاص و عام کی توجہ حاصل کی۔

    قیامِ پاکستان کے بعد اسٹیج سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کرنے والے سبحانی بایونس نے ریڈیو اور بعد میں‌ ٹیلی ویژن پر خواجہ معین الدّین جیسے بلیغ ڈراما نگار کے ساتھ بھی کام کیا اور ان کے متعدد ڈراموں میں لازوال کردار ادا کیے، ان میں مشہور ڈرامہ "مرزا غالب بندر روڈ پر” تھا۔ اسی طرح "تعلیمِ بالغاں” میں سبحانی بایونس کا کردار آج بھی کئی ذہنوں‌ میں‌ تازہ ہے۔ سبحانی بایونس نے پاکستان ٹیلی ویژن کے کئی مشہور ڈراموں جن میں‌ خدا کی بستی، تاریخ و تمثیل، قصہ چہار درویش، رشتے ناتے، تنہائیاں، دو دونی پانچ، رات ریت اور ہوا، دائرے، وقت کا آسمان، با ادب باملاحظہ ہوشیار میں کردار نبھا کر ناظرین سے اپنے فن کی داد وصول کی۔ سبحانی بایونس ان فن کاروں‌ میں سے تھے جن کا پرفارمنگ آرٹ کی دنیا میں آج بھی نہایت عزّت اور احترام سے نام لیا جاتا ہے۔ وہ عزیز آباد کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • سڈنی پولک: ہالی وڈ کے آسکر ایوارڈ یافتہ ہدایت کار کا تذکرہ

    سڈنی پولک: ہالی وڈ کے آسکر ایوارڈ یافتہ ہدایت کار کا تذکرہ

    سڈنی پولک کو ہالی وڈ کا لیجنڈ مانا جاتا ہے جنھوں نے ہدایت کار، پروڈیوسر اور اداکار کے طور پر کئی کام یابیاں سمیٹیں اور اپنے فن کا لوہا منوایا۔ آسکر ایوارڈ یافتہ سڈنی پولک 26 مئی 2008 کو انتقال کر گئے تھے۔

    73 برس کے سڈنی پولک کینسر کے مرض میں مبتلا تھے۔ ان کا فلمی کیریئر 50 سال پر محیط رہا، جس میں باکس آفس پر ان کی کئی فلمیں کام یاب ثابت ہوئیں اور سڈنی پولک کے کام کو فلمی ناقدین نے خوب سراہا۔ دنیا بھر میں‌ فلمی صنعت سے وابستہ فن کار اور بالخصوص ہدایت کاری کے شعبے سے وابستہ بڑے نام سڈنی پولک کے کام کا اعتراف کرتے رہے ہیں۔

    ’ٹوٹسی‘ اور ’آؤٹ آف افریقہ‘ وہ بلاک بسٹر فلمیں ہیں جن کی ہدایات سڈنی پولک نے دی تھیں اور ’مائیکل کلیٹن‘ جیسی کام یاب فلم کے پروڈیوسر بھی وہی تھے۔ سڈنی پولک کو ’ٹوٹسی‘ پر 1982 میں بہترین ہدایت کار کے آسکر کے لیے نامزد کیا گیا تھا اور ’آؤٹ آف افریقہ‘ وہ فلم تھی جس پر وہ بہترین ہدایت کار کا آسکر اعزاز لے اڑے تھے۔ سڈنی پولک نے بطور ڈائریکٹر 1969 میں ’دے شوٹ ہارسز ڈانٹ دے‘ میں بھی اپنے فن اور صلاحیتوں کا بہترین اظہار کیا تھا اور اس فلم پر آسکر اعزاز کے لیے نامزد ہوئے تھے۔

    پولک سڈنی نے یکم جولائی 1934 میں امریکہ میں آنکھ کھولی۔ انھوں نے دسویں کے امتحان میں کام یابی حاصل کرنے کے بعد بطور اداکار اپنی قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا اور اس کے لیے نیویارک شہر کا رخ کیا۔ انھوں نے ٹیلیوژن پر اداکاری کی اور 1961 میں اسی میڈیم کے لیے پروگرام بنانے لگے۔ اس کے بعد وہ ’دا سلنڈر تھریڈ‘ نامی فلم کے ہدایت کار کے طور پر سامنے آئے۔ 90 کے عشرے میں سڈنی پولک نے بطور پروڈیوسر فلمیں بنائیں اور ناقدین سے داد وصول کی۔

    پولک کی بطور ہدایت کار آخری دستاویزی فلم ’اسکیچیز آف فرانک گہری‘ تھی۔ یہ مشہور آرکیٹیکٹ کے بارے میں کہانی تھی۔ سڈنی پولک کو سماجی اور سیاسی مسائل پر فلمیں بنانے کے لیے یاد کیا جاتا ہے جو ان کی وجہِ شہرت بھی ہیں اور فلم انڈسٹری کے ساتھ سماجی حلقوں میں ان کی پذیرائی اور توقیر کا باعث بھی ہیں۔

  • سنیل دت: فٹ پاتھ سے فلمی دنیا کے آسمان تک

    سنیل دت: فٹ پاتھ سے فلمی دنیا کے آسمان تک

    قیام پاکستان سے پہلے کا زمانہ بمبئی کی فلمی صنعت کے لئے ایک سنہری دور تھا۔ بڑے بڑے نامور اور کامیاب ہدایت کار، اداکار، موسیقار اور گلوکار اس دور میں انڈین فلمی صنعت میں موجود تھے۔ ہر شعبے میں دیو قامت اور انتہائی قابل قدر ہستیاں موجود تھیں۔

    اس زمانے میں جو بھی فلموں میں کام کرنا چاہتا تھا، ٹکٹ کٹا کر سیدھا بمبئی کا راستہ لیتا تھا۔ ان لوگوں کے پاس نہ پیسہ ہوتا تھا، نہ سفارش اور نہ ہی تجربہ، مگر قسمت آزمائی کا شوق انہیں بمبئی لے جاتا تھا۔ ہندوستان کے مختلف حصوں سے ہزاروں نوجوان اداکار بننے کی تمنا لے کر اس شہر پہنچتے تھے۔

    ان میں سے اکثر خالی ہاتھ اور خالی جیب ہوتے تھے۔ بمبئی جیسے بڑے وسیع شہر میں کسی انجانے کم عمر لڑکے کو رہنے سہنے اور کھانے پینے کے لالے پڑ جاتے تھے۔

    یہی لوگ آج انڈین فلم انڈسٹری کے چاند سورج کہے جاتے ہیں جنہوں نے بے شمار چمک دار ستاروں کو روشنی دے کر صنعت کے آسمان پر جگمگا دیا۔ ( ہندوستان اور پاکستان کے بھی) اکثر بڑے ممتاز، مشہور اور معروف لوگوں کی زندگیاں ایسے ہی واقعات سے بھری ہوئی ہیں۔

    آئیے آج آپ کو ایک ایسے ہی معروف اور ممتاز آدمی کی کہانی سناتے ہیں جسے بر صغیر کا بچہ بچہ جانتا ہے لیکن یہ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ یہ لوگ کون ہیں؟ کہاں سے آئے تھے، اور کیسے کیسے امتحانوں اور آزمائشوں سے انہیں گزرنا پڑا۔

    یہ قصہ سنیل دت کا ہے۔ سنیل دت ہندوستانی لوک سبھا کا رکن رہا، نرگس بھی لوک سبھا کی رکن رہی تھی۔ ہندوستان کی وزیراعظم اندرا گاندھی سے ان کی بہت دوستی تھی اب نرگس رہیں نہ اندرا گاندھی، سنیل دت بھی نہیں رہے۔

    سنیل دت کے بارے میں علی سفیان آفاقی کا یہ مضمون اداکار کے یومِ وفات کی مناسبت سے پیش کیا جارہا ہے۔ بولی وڈ کے معروف اداکار اور کئی کام یاب فلموں کے ہیرو سنیل دت 6 جون 1929 کو جہلم میں‌ پیدا ہوئے تھے۔ ان کی زندگی کا سفر 25 مئی 2005 کو تمام ہوگیا تھا۔

    علی سفیان آفاقی اپنے مضمون میں‌ لکھتے ہیں، 0سنیل دت نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ جب وہ بمبئی پہنچے تو ان کی عمر سترہ اٹھارہ سال تھی۔ یہ انٹرویو بمبئی کی ایک فلمی صحافی لتا چندنی نے لیا تھا اور یہ سنیل دت کا آخری انٹرویو تھا۔ سنیل دت جب بمبئی پہنچے تو ان کی جیب میں پندرہ بیس روپے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ بمبئی میں در بدر پھرتے رہے۔ سب سے پہلا مسئلہ تو سَر چھپانے کا تھا۔ بمبئی میں سردی تو نہیں ہوتی لیکن بارش ہوتی رہتی ہے جو فٹ پاتھوں پر سونے والوں کے لئے ایک مسئلہ ہوتا ہے۔ بارش ہو جائے تو یا تو وہ سامنے کی عمارتوں کے برآمدے وغیرہ میں پناہ لیتے ہیں یا پھر فٹ پاتھوں پر ہی بھیگتے رہتے ہیں۔

    سوال: تو پھر آپ نے کیا کیا۔ کہاں رہے؟
    جواب: رہنا کیا تھا۔ فٹ پاتھوں پر راتیں گزارتا رہا۔ کبھی یہاں کبھی وہاں۔ دن کے وقت فلم اسٹوڈیوز کے چکر لگاتا رہا مگر اندر داخل ہونے کا موقع نہ مل سکا۔ آخر مجھے کالا گھوڑا کے علاقے میں ایک عمارت میں ایک کمرا مل گیا مگر یہ کمرا تنہا میرا نہیں تھا۔ اس ایک کمرے میں آٹھ افراد رہتے تھے جن میں درزی، نائی ہر قسم کے لوگ رات گزارنے کے لئے رہتے تھے۔

    میں نے اپنے گھر والوں سے رابطہ کیا تو انہوں نے مجھے ہر مہینے کچھ روپیہ بھیجنا شروع کر دیا۔ میں نے جے ہند کالج میں داخلہ لے لیا تاکہ کم از کم بی اے تو کرلوں۔ میرا ہمیشہ عقیدہ رہا ہے کہ آپ خواہ ہندو ہوں، مسلمان، سکھ، عیسائی کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں مگر ایک دوسرے سے محبت کریں۔ ہر مذہب محبت اور پیار کرنا سکھاتا ہے۔ لڑائی جھگڑا اور نفرت کرنا نہیں۔ میں کالج میں پڑھنے کے ساتھ ہی بمبئی ٹرانسپورٹ کمپنی میں بھی کام کرتا تھا۔ میں اپنا بوجھ خود اٹھانا چاہتا تھا اور گھر والوں پر بوجھ نہیں بننا چاہتا تھا۔

    ان دنوں بمبئی میں بہت سخت گرمی پڑ رہی تھی۔ اتنی شدید گرمی میں ایک ہی کمرے میں آٹھ آدمی کیسے سو سکتے تھے۔ گرمی کی وجہ سے ہمارا دم گھٹنے لگتا تھا تو ہم رات کو سونے کے لئے فٹ پاتھ پر چلے جاتے تھے۔ یہ فٹ پاتھ ایک ایرانی ہوٹل کے سامنے تھا۔ ایرانی ہوٹل صبح ساڑھے پانچ بجے کھلتا تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ہمیں ساڑھے پانچ بجے بیدار ہوجانا چاہیے تھا۔ ہوٹل کھلتے ہی ہماری آنکھ بھی کھل جاتی تھی۔ ایرانی ہوٹل کا مالک ہمیں دیکھ کر مسکراتا اور چائے بنانے میں مصروف ہوجاتا ۔ ہم سب اٹھ کر اس کے چھوٹے سے ریستوران میں چلے جاتے اور گرم گرم چائے کی ایک پیالی پیتے۔ اس طرح ہم ایرانی ہوٹل کے مالک کے سب سے پہلے گاہک ہوا کرتے تھے۔ وہ ہم سے بہت محبت سے پیش آتا تھا اور اکثر ہماری حوصلہ افزائی کے لئے کہا کرتا تھا کہ فکر نہ کرو، اللہ نے چاہا تو تم کسی دن بڑے آدمی بن جاؤ گے۔ دیکھو جب بڑے آدمی بن جاؤ تو مجھے بھول نہ جانا، کبھی کبھی ایرانی چائے پینے اور مجھ سے ملنے کے لئے آجایا کرنا۔

    دوسروں کا علم تو نہیں مگر میں کبھی کبھی جنوبی بمبئی میں اس سے ملنے اور ایک کپ ایرانی چائے پینے کے لئے چلا جاتا تھا۔ وہ مجھ سے مل کر بہت خوش ہوتا تھا۔ میری ترقی پر وہ بہت خوش تھا۔

    ایرانی چائے پینے کے بعد میں اپنی صبح کی کلاس کے لئے کالج چلا جاتا تھا۔ وہ بھی خوب دن تھے، اب یاد کرتا ہوں تو بہت لطف آتا ہے۔

    ان دنوں میرے پاس زیادہ پیسے نہیں ہوتے تھے، اس لئے میں کم سے کم خرچ کرتا تھا اور کالج جانے کے لئے بھی سب سے سستا ٹکٹ خریدا کرتا تھا۔ بعض اوقات تو میں پیسے نہ ہونے کی وجہ سے اپنے اسٹاپ سے پہلے ہی اتر کر پیدل کالج چلا جاتا تھا۔

    اس وقت ہماری جیب صرف ایرانی کیفے میں کھانے پینے کی ہی اجازت دیتی تھی۔ آج کے نوجوان فائیو اسٹار ہوٹلوں میں جاکر لطف اٹھاتے ہیں مگر ان دنوں ایرانی کیفے ہی ہمارے لئے کھانے پینے اور گپ شپ کرنے کی بہترین جگہ تھی۔ مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوتی تھی کہ ویٹر ایک کے اوپر ایک بارہ چائے کی پیالیاں رکھ کر کیسے گاہکوں کو تقسیم کرتا تھا۔ ایسا تو کوئی سرکس کا جوکر ہی کرسکتا ہے۔ اس کا یہ تماشا بار بار دیکھنے کے لئے بار بار اس سے چائے منگواتا تھا حالانکہ بجٹ اجازت نہیں دیتا تھا۔

    ایرانی ہوٹل اس زمانے میں مجھ ایسے جدوجہد کرنے والے خالی جیب لوگوں کے لئے بہت بڑا سہارا ہوتے تھے۔ میں سوچتا ہوں کہ اگربمبئی میں ایرانی ہوٹل نہ ہوتے تو میرے جیسے ہزاروں لاکھوں لوگ تو مر ہی جاتے۔

    میں پچاس سال کے بعد اپنا آبائی گاؤں دیکھنے گیا جو کہ اب پاکستان میں ہے۔ مجھے یاد ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف نے مجھے مدعو کیا تھا۔ میں نے ان سے درخواست کی کہ میں اپنا آبائی گاؤں دیکھنا چاہتا ہوں۔ وہ بہت مہربان اور شفیق ہیں۔انہوں نے میرے لئے تمام انتظامات کرا دیے۔ میرے گاؤں کا نام خورد ہے ۔ یہ جہلم شہر سے چودہ میل کے فاصلے پر ہے۔ میرا گاؤں دریائے جہلم کے کنارے پر ہے اور یہ بہت خوبصورت جگہ ہے۔ گاؤں سے نکلتے ہی جہلم کے پانی کا بہتا ہوا نظارہ قابل دید ہے۔

    میرے گاؤں میں بہت جوش و خروش اور محبت ملی۔ وہ سب لڑکے جو میرے ساتھ پڑھا کرتے تھے مجھ سے ملنے کے لئے آئے اور ہم نے پرانی یادیں تازہ کیں۔ میں ان عورتوں سے بھی ملا جنہیں میں نے دس بارہ سال کی بچیاں دیکھا تھا مگر اب وہ ساٹھ پینسٹھ سال کی بوڑھی عورتیں ہوچکی تھیں۔ اب میرے ساتھ کھیلنے والی بچیاں نانی دادی بن چکی تھیں۔ انہوں نے بھی بچپن کے بہت سے دلچسپ واقعات اور شرارتوں کی یادیں تازہ کیں۔

    پاکستان سے جانے کے بعد میں کبھی لاہور نہیں آیا۔ کراچی تو آنا ہوا تھا۔ کراچی میں مجھے بے نظیر بھٹو کی شادی میں مدعو کیا گیا تھا۔ میری بیوی نرگس میرا گاؤں دیکھنا چاہتی تھیں۔ میں بھی اپنا گاؤں دیکھنا چاہتا تھا۔ پرانے دوستوں سے مل کر پرانی یادیں تازہ کرنا چاہتا تھا۔ وہ جاننا چاہتی تھیں کہ میں کون سے اسکول میں پڑھتا تھا اور اسکول کس طرح جایا کرتا تھا۔

    میں ڈی اے وی اسکول میں پڑھتا تھا، اور چھٹی جماعت تک گھوڑے پر بیٹھ کر اسکول جاتا تھا، میرا اسکول اٹھ میل دور تھا۔ اسکول جانے کے لئے کوئی دوسرا ذریعہ نہ تھا۔ میرے پتا جی زمیندار تھے۔ ہمارے گھر میں بہت سے گھوڑے تھے۔ مجھے اسکول لے جانے والا گھوڑا سب سے الگ رکھا جاتا تھا۔

    سنیل دت نے اپنی تعلیم کا سلسلہ بھی محنت مزدوری اور جدو جہد کے زمانے میں جاری رکھا تھا جو ایک دانش مندانہ فیصلہ تھا۔ بی اے کرنے کے بعد انہوں نے بہت سے چھوٹے موٹے کام کیے، فٹ پاتھوں پر سوئے لیکن ہمت نہیں ہاری۔

    آپ کو یاد ہوگا کہ ایک زمانے میں "ریڈیو سیلون” سے فلمی گانوں کا ایک پروگرام ہر روز پیش کیا جاتا تھا، جسے پاکستان اور ہندوستان میں موسیقی کے شوقین باقاعدگی سے سنا کرتے تھے۔ سیلون کا نام بعد میں سری لنکا ہوگیا۔ یہ دراصل ایک جزیرہ ہے جنوبی ہندوستان میں تامل ناڈو کے ساحل سے صرف 25 میل کے فاصلے پر۔ انگریزوں کی حکومت کے زمانے میں سارا ہندوستان ایک تھا اور سلطنت برطانیہ کے زمانے میں سیلون کو ہندوستان ہی کا حصہ سمجھا جاتا تھا، اب یہ سری لنکا ہوگیا۔

    ریڈیو سیلون کو اپنا پروگرام پیش کرنے کے لئے ایک موزوں شخص کی ضرورت تھی جو بہترین نغمات پروڈدیوسرز سے حاصل بھی کرسکے۔ سنیل دت نے بھی اس کے لئے درخواست دے دی۔ صورت شکل اچھی تھی اور پنجابی ہونے کے باوجود ان کا اردو تلفظ و لب و لہجہ بہت اچھا تھا۔ اس طرح انہیں منتخب کر لیا گیا اور کافی عرصہ تک وہ ریڈیو سیلون سے گیتوں کی مالا پیش کرتے رہے۔ یہ فلم سازوں کے لئے سستی پبلسٹی تھی، اس لئے بھارتی فلم سازوں نے اس سے بہت فائدہ اٹھایا اور کشمیر سے راس کماری تک ان کے فلمی نغمات گونجنے لگے۔ جب نخشب صاحب پاکستان آئے اور انہوں نے فلم میخانہ بنائی تو اس فلم کے گانے ریڈیو سیلون سے پیش کیے گئے جس کی وجہ سے سننے والے بے چینی سے فلم کی نمائش کا انتظار کرتے رہے لیکن جب فلم ریلیز ہوئی تو بری طرح فلاپ ہوگئی حالانہ ناشاد صاحب نے اس فلم کے نغموں کی بہت اچھی دھنیں بنائی تھیں۔

    ماخوذ از ماہنامہ ‘سرگزشت’ (پاکستان)

  • اردو غزل کی آبرو مجروح سلطان پوری

    اردو غزل کی آبرو مجروح سلطان پوری

    ہندوستان کے ممتاز ترقّی پسند غزل گو شاعر، اور مقبول فلمی نغمات کے خالق مجروح سلطان پوری 24 مئی 2000ء کو اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے تھے۔

    رفعت سروش کو مجروح کی رفاقت نصیب ہوئی تھی جو ان کی وفات پر اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں‌، ذہن ماضی کے نہاں خانوں میں جاتا ہے، اور مجھے یاد آرہے ہیں بہت سے ایسے لمحے جو مجروح کی ہم نفسی اور رفاقت میں گزرے۔ اوائل 1945ء کی کوئی شام۔ اردو بازار (دہلی) مولانا سمیع اللہ کے کتب خانہ عزیزیہ کے باہر رکھی ہوئی لکڑی کی وہ بنچیں جن پر ہندوستان کے سیکڑوں علماء، شعراء، دانشور، فقیر اور تو نگر بیٹھے ہوں گے۔ میں اپنی قیام گاہ واقع گلی خان خاناں اردو بازار سے نکلا اور حسبِ معمول ٹہلتا ٹہلتا کتب خانہ عزیزیہ پہنچا۔ یہاں مولانا کی باغ و بہار شخصیت ہر شخص کا استقبال کرتی تھی۔ ایک بنچ پر ایک خوش شکل اور خوش لباس، شیروانی میں ملبوس نوجوان کو بیٹھے دیکھا۔ مولانا نے تعارف کرایا یہ ہیں مجروح سلطان پوری۔

    اس زمانے کے ابھرتے ہوئے اور مترنم غزل گو شعرا کو جگر مراد آبادی کی سرپرستی حاصل تھی۔ چاہے شکیل ہوں، راز مراد آبادی ہوں یا خمار بارہ بنکوی اور مجروح سلطانپوری۔ یا بعد میں شمیم جے پوری۔ جگر صاحب اپنے ساتھ نوجوان شعراء کو لے جاتے تھے اور انھیں نمایاں ہونے کا موقع مل جاتا تھا۔ مجروح کی بمبئی میں آمد کے سلسلے میں سید سجاد ظہیر ( بنے بھائی) نے اپنی خود نوشت روشنائی میں لکھا ہے کہ مجروح سلطان پوری جگر صاحب کے ساتھ لگے لگے بمبئی آئے، ترقی پسندوں سے ملے اور پھر ترقی پسند مصنّفین کے لیڈروں میں شامل ہوگئے۔

    مجروح نے کئی ماہ کی جیل کاٹی۔ اس زمانے میں ان کی پریشانیاں بہت بڑھ گئی تھیں۔ یہاں تک ہوا کہ انھوں نے اپنی بیگم کو بطور امداد کچھ روپے بھیجنے کے لیے اپنے کچھ دوستوں کے ناموں کی لسٹ بھیجی جس میں راقم الحروف کا نام بھی شامل تھا۔ ایک دو ماہ بعد راجندر سنگھ بیدی نے مجروح کی مدد کی اور جب تک وہ جیل میں رہے ان کے اخراجات اپنے ذمے لے لیے۔ غرض مجروح سلطان پوری آہستہ آہستہ انجمن ترقی پسند مصنّفین سے عملی طور پر دور ہوتے چلے گئے۔ اور خود انجمن بھی کم فعال رہ گئی تھی۔

    مجروح سلطان پوری اُن خوش نصیب شعراء میں سے ہیں جنھوں نے کم سے کم کہا، اور زیادہ سے زیادہ شہرت حاصل کی۔ جب فلمی دنیا کے رنگ ڈھنگ بدلنے لگے تو اس چیختی چنگھاڑتی دنیا میں” طوطئ مجروح” کی ضرورت کم ہونے لگی اور انھوں نے پھر ادبی دنیا کی طرف سبقت کی۔ وہ واپس آئے اپنی ایک نظم "قلم گوید کے” ساتھ مگراب زمانہ بہت آگے نکل چکا تھا۔ مجروح نے اپنے پرانے سرمایۂ غزل میں بہت کم اضافہ کیا اور ان کی شہرت کا ضامن دراصل ان کا نوجوانی کا کلام ہی ہے۔ بہرحال چند سال پیشتر انھیں غالب ایوارڈ اور پھر اردو کا سب سے بڑا انعام "اقبال سمان” بھی پیش کیا گیا اور وہ آخر دم تک شہرت کی بلند ترین چوٹیوں پر متمکن رہے۔ ان کی اس شہرت میں سیاسی جوڑ توڑ اور کتر بیونت کا کوئی دخل نہیں۔ وہ ایک کھرے انسان اور کھرے شاعر تھے۔ کینہ پروری، بغض و حسد، غیبت اور اس طرح کی دوسری خباثتوں سے ان کا ذہن پاک تھا۔ وہ اپنے کام سے کام رکھتے تھے۔ انھوں نے طویل عمر پائی اور آخر وقت تک کام کرتے رہے۔

    رفعت سروش کے قلم سے نکلی یادوں کا سلسلہ یہاں تھامتے ہوئے اب ہم اس شاعر کے کلام کی خصوصیات اور اُس انفرادیت کی بات کرتے ہیں جس نے مجروح سلطان پوری کو نام و مقام دیا۔ وہ بیسویں صدی کے چوتھے اور پانچویں عشرے میں غزل کی کلاسیکی روایت میں سیاسی رمزیت پیدا کرنے والے ایسے شاعر تھے جس نے ثابت کیا کہ صنفِ غزل میں اپنے تغزّل کو قربان کیے بغیر بھی ہر طرح کے مضامین، جذبات و احساسات اور تصورات کو مؤثر اور دل نشیں پیرائے میں بیان کیا جاسکتا ہے۔ مجروح کا دور ادب میں‌ ترقی پسندی کے عروج کا تھا اور وہ وقت تھا جب نظم کے مقابلہ میں غزل کو کم تَر درجہ دیا جاتا تھا۔ اس ماحول میں مجروح نے غزل کی آبرو کو سلامت رکھا۔ انھوں نے اس صنفِ‌ سخن کو اس کی تمام نزاکت، حسن اور بانکپن کے ساتھ برتا اور اسے تازگی عطا کی۔ وہ اس دور کے ایسے شاعر تھے جس نے اپنا مجموعۂ کلام بھی ’’غزل‘‘ کے نام سے شایع کروایا۔

    مجروح سلطان پوری 1919ء میں اتّر پردیش کے ضلع سلطان پور میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام اسرار حسن خان تھا۔ ان کے والد پولیس میں ملازم تھے اور مجروح اُن کی اکلوتی اولاد تھے جنھیں تحریکِ خلافت کے زیرِ اثر انگریزی تعلیم نہیں دلائی گئی اور مدرسہ میں داخل کروائے گئے۔ وہاں انھوں نے اردو کے علاوہ عربی اور فارسی پڑھی۔ لیکن مدرسہ کے سخت ماحول نے انھیں وہاں سے نکلنے پر مجبور کردیا۔ مجروح نے 1933ء میں لکھنؤ کے طبّیہ کالج میں داخلہ لیا اور حکمت کی سند حاصل کی۔ وہ معاش کی خاطر ٹانڈہ میں مطب قائم کر کے بیٹھے لیکن کام یاب نہیں ہوئے۔ اسی زمانہ میں ان کو ایک لڑکی سے عشق ہو گیا اور جب یہ دل لگی اور دل داری راز نہ رہی تو مجروح رسوائی کے ڈر سے ٹانڈہ چھوڑ کر واپس سلطان پور آئے گئے۔ کالج میں تعلیم کے دوران وہ موسیقی میں دل چسپی لینے لگے تھے اور میوزک کالج میں داخلہ بھی لے لیا تھا، لیکن والد کو خبر ہوئی تو انھوں نے اس سے روک دیا۔ یوں مجروح موسیقی کا شوق پورا نہیں کرسکے۔ 1935 ء میں مجروح سلطان پوری نے شاعری شروع کی۔ پہلی مرتبہ سلطان پور کے ایک مشاعرہ میں انھوں نے غزل پر داد سمیٹی۔ مجروح ان شعراء میں سے تھے جن کا ترنم غضب کا تھا۔ مشاعروں میں شرکت اور اپنے ترنم کی وجہ سے شہرت پانے والے مجروح کو بعد میں جگر مراد آبادی اور پروفیسر رشید احمد صدیقی جیسی ہستیوں کی صحبت نصیب ہوئی اور مجروح کی فکر اور ان کے فن کو نکھارنے میں‌ ان کا بڑا ہاتھ رہا۔

    مجروح سلطان پوری نے فلمی دنیا کے لیے کئی گیت لکھے جو بہت مقبول ہوئے اور انھیں‌ فلم انڈسٹری میں کام ملتا رہا۔ مجروح لگ بھگ پچاس سال فلمی دنیا سے جڑے رہے اور 300 سے زائد فلموں کے لیے گیت لکھے۔

    جگن ناتھ آزاد کہتے ہیں‌ کہ مجروح کی شاعری خیال اور جذبہ کے امتزاج کا اک نگار خانہ ہے جس میں زندگی کے کئی رنگ جھلکتے ہیں۔ انسان کی عظمت پر مجروح کا اٹل یقین زندگی کی ٹھوس حقیقتوں پر مبنی ہے۔ روایت کا احترام اور روایت میں توسیع مجروح کے کلام کی خصوصیت ہے۔ اس میں پیکر تراشی کے نقوش جا بجا اضافہ کرتے چلے جاتے ہیں۔ مشفق خواجہ کے الفاظ ہیں‌ کہ جدید اردو غزل کی تاریخ میں مجروح سلطان پوری کی حیثیت ایک رجحان ساز غزل گو کی ہے۔ انھوں نے غزل کے کلاسیکی مزاج کو برقرار رکھتے ہوئے اسے جس طرح اپنے عہد کے مسائل کا آئینہ دار بنایا وہ کچھ انہی کا حصّہ ہے۔ پرانی اور نئی غزل کے درمیان امتیاز کرنے کے لیے اگر کسی ایک مجموعۂ غزل کی نشان دہی کی جائے تو وہ مجروح سلطان پوری کا مجموعۂ کلام "غزل” ہو گا۔

    اردو کے اس ممتاز شاعر اور معروف گیت نگار کے کئی اشعار آج بھی باذوق لوگوں کو یاد ہوں گے۔ ان کا زبان زدِ عام شعر ہے:

    میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
    لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

    مجروح کی غزل کے چند شعر دیکھیے

    شب انتظار کی کشمکش میں نہ پوچھ کیسے سحر ہوئی
    کبھی اک چراغ جلا دیا، کبھی اک چراغ بجھا دیا

    جفا کے ذکر پہ تم کیوں سنبھل کے بیٹھ گئے
    تمہاری بات نہیں، بات ہے زمانے کی

    جلا کے مشعلِ جاں ہم جنوں صفات چلے
    جو گھر کو آگ لگائے ہمارے ساتھ چلے
    ستونِ دار پہ رکھتے چلو سَروں کے چراغ
    جہاں تلک یہ ستم کی سیاہ رات چلے

    ممبئی میں وفات پانے والے مجروح سلطان پوری کو دادا صاحب پھالکے ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

  • عہد ساز شخصیت نیاز فتح‌ پوری کا تذکرہ

    عہد ساز شخصیت نیاز فتح‌ پوری کا تذکرہ

    بلاشبہ برصغیر پاک و ہند کا ہر گھرانہ اور ہر وہ ادارہ نیاز فتح پوری کے نیاز مندوں میں شامل رہا جس میں جویانِ علم اور تعلیم و تعلّم کے شیدا موجود تھے۔

    کون تھا جو ان کی علمیت سے مرعوب نہ تھا اور ان کی شخصیت کے سحر میں گرفتار نہ رہا ہو۔ نیاز صاحب کہیں ایک افسانہ نگار کے روپ میں سامنے آتے تو کسی کے لیے دقیق موضوعات پر ان کی گفتگو اہم تھی۔ کوئی فلسفیانہ مسائل کو سلجھانے کے ان کے انداز سے متأثر تھا، کوئی مذہبی اعتقادات اور تاریخی موضوعات پر ان کی مدلّل بحث کو پسند کرتا تھا۔

    ایک زمانہ تھا کہ نیاز صاحب کی نثر کا ڈنکا بجتا تھا۔ افسانے ہی نہیں‌ ان کے ناولٹ اور انشائیے، مذہب اور سائنس سے متعلق ان کے علمی اور تحقیقی مضامین، اس پر ہندوستان بھر میں اٹھائے جانے والے سوالات اور اس کے ذیل میں مباحث کے ساتھ وہ تراجم جو نیاز صاحب کے قلم سے نکلے، ان کی دھوم تھی۔ نیاز فتح پوری کی متنازع فیہ کتاب ’’من و یزداں‘‘ اور رسالہ ’’نگار‘‘ نے برصغیر کے علمی اور ادبی حلقوں کے ساتھ عام قارئین کی فکر کو بلند کیا اور ان کے علم میں خوب اضافہ کیا۔

    نیاز فتح پوری کو عقلیت پسند کہا جاتا ہے جنھوں نے اردو ادب کی مختلف اصناف کو اپنی فکر اور تخلیقات سے مالا مال کیا۔ وہ بیک وقت شاعر، افسانہ نگار، نقّاد، محقق، مفکّر، عالم دین، مؤرخ، ماہر نفسیات، صحافی اور مترجم تھے۔ ان کی تحریریں گوناگوں ادبی اور علمی موضوعات پر اردو زبان کا بے مثال سرمایہ ہیں۔ نیاز فتح پوری کی ادبی اور علمی سرگرمیوں کا میدان بہت وسیع تھا جسے انھوں نے رسالہ ’’نگار‘‘ کے ذریعے عام کیا۔ اس رسالے میں ادب، فلسفہ، مذہب اور سائنس سے متعلق مضامین شایع ہوتے تھے جن کی بدولت مختلف پیچیدہ موضوعات اور ادق مسائل پر مباحث اور غور و فکر کا سلسلہ شروع ہوا۔ نیاز فتح پوری نے جدید نفسیات، ہپناٹزم اور جنسیات پر بھی لکھا اور خوب لکھا۔ 1924 کے نگار میں ’’اہلِ مریخ سے گفتگو کا امکان‘‘ اور ’’جنگ کا نقشہ ایک صدی بعد‘‘ 1935 میں ’’چاند کا سفر‘‘ جیسے مضامین نیاز فتح پوری کی تخلیقی صلاحیتوں، ان کے تجسس اور سائنسی رجحان کا پتا دیتے ہیں۔ عقلیت پسندی کے سبب نیاز صاحب کو سخت مخالفت اور کڑی تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ یہی نہیں‌ بلکہ ان پر مذہبی اور قدامت پرست حلقوں کی جانب سے فتویٰ اور بگاڑ کے الزامات بھی عائد کیے گئے۔

    24 مئی 1966ء کو نیاز فتح پوری کا انتقال ہوگیا تھا۔ ان کی سوانح عمری پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ 28 دسمبر 1884ء کو انھوں نے یوپی کے ضلع بارہ بنکی میں آنکھ کھولی تھی اور شروع ہی سے ان کا رجحان علم و ادب کی جانب رہا۔ غور و فکر کی عادت نے انھیں‌ مختلف موضوعات اور مسائل کو عقل اور دانش کے زور پر الگ ہی انداز سے دیکھنے اور سمجھنے پر آمادہ کیا۔ 1922ء میں نیاز فتح پوری نے علمی و ادبی رسالہ نگار جاری کیا جو تھوڑے ہی عرصے میں اردو داں حلقوں میں روشن خیالی کی مثال بن گیا۔ علّامہ نیاز فتح پوری نے 35 کتابیں یادگار چھوڑی ہیں جن میں من و یزداں، نگارستان، شہاب کی سرگزشت، جمالستان اور انتقادیات بہت مقبول ہیں۔

    رسالہ نقوش کے مدیر محمد طفیل لکھتے ہیں، نیاز صاحب نے جو کچھ بھی امتیاز حاصل کیا۔ وہ اپنے قلم کے سحر سے حاصل کیا۔ لکھنے کے لیے کسی اہتمام کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ باتیں بھی کرتے جاتے ہیں۔ لکھتے بھی جاتے ہیں۔ گلوری منہ میں ہو گی۔ خوں خوں کر کے باتوں میں ساتھ دیں گے۔ ضرورت پڑی تو پیک نگل کر بولیں گے: ’’یہ آپ نے کیسے سمجھ لیا کہ میں کام میں مشغول ہوں۔‘‘ حافظہ بلا کا پایا ہے۔ ہر چیز، ہر کتاب ان کے ذہن میں منتقل ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے بڑے بڑے کام صرف چند دنوں میں کر ڈالے۔ ان کے ہاں آمد ہی آمد ہے۔ آورد نام کو نہیں۔ الفاظ واقعی ہاتھ باندھے کھڑے رہتے ہیں۔ یہ کمال میں نے صرف انیس، جوش اور نیاز میں دیکھا۔ باقی سب کے ہاں کاری گری ہے۔

    نیاز صاحب تقسیمِ ہند کے فوراً بعد نہیں بلکہ 1962ء میں ہجرت کر کے کراچی آئے تھے۔ حکومتِ پاکستان نے انھیں "نشانِ سپاس” سے نوازا تھا۔علّامہ نیاز فتح پوری کراچی میں پاپوش نگر کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • ” کسی ذکر نہیں کرنا کہ تم بانڈ کو دیکھا تھا!”

    ” کسی ذکر نہیں کرنا کہ تم بانڈ کو دیکھا تھا!”

    راجر مور 1973ء میں بطور جیمز بانڈ پہلی مرتبہ سامنے آئے اور اگلے بارہ سال تک اس سلسلے کی سات فلموں میں یہ مشہورِ زمانہ کردار نبھاتے رہے۔ شائقین کو یاد ہو گا کہ بطور خفیہ ایجنٹ اُن کے چہرے پر ایک خفیف مسکراہٹ رہتی تھی جو ان کے دشمن کو غصّہ دلاتی تھی۔

    برطانوی اداکار راجر مور کی انفرادیت یہ بھی تھی کہ انھوں نے جیمز بانڈ کے روپ میں اپنے مکالمے لطیف انداز اور طنزیہ پیرائے میں ادا کیے، جیمز بانڈ دیوانوں کو یہ بھی یاد ہو گا کہ راجر مور کس طرح اپنے ابرو اٹھا کر مخصوص انداز میں ڈائیلاگ ادا کرتے تھے۔ ان کی یہی ادا جمیز بانڈ کے روپ میں ان کے مداحوں کی تعداد کو بڑھاتی چلی گئی۔

    اپنی حقیقی زندگی میں بھی راجر مور بذلہ سنج واقع ہوئے تھے۔ آج راجر مور کی وفات کا دن ہے۔ اس مناسبت سے ہم برطانوی اداکار راجر مور سے متعلق 1983 کا ایک واقعہ نقل کررہے ہیں جو ان کے مداحوں کی دل چسپی کا باعث بنے گا۔ ملاحظہ کیجیے۔

    راجر مور نیس کے ہوائی اڈے پر اپنی پرواز کا انتظار کر رہا تھا، اچانک ایک سات برس کے بچّے کی نظر اُس پر پڑی اور وہ ’’جیمز بانڈ‘‘ کو دیکھ کر بے حال ہو گیا، وہ اپنے دادا کے ساتھ ہوائی اڈے پر موجود تھا جو بانڈ کو نہیں جانتے تھے۔ بچّے نے دادا سے فرمائش کی کہ اسے جیمز بانڈ سے آٹو گراف لینا ہے، سو دونوں بانڈ کے پاس گئے اور آٹو گراف مانگا۔ راجر مور نے اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ بچّے کے ٹکٹ پر اپنا نام لکھ دیا اور اس کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار بھی کیا۔ بچّہ خوشی خوشی وہاں سے اپنی سیٹ پر واپس چلا آیا اور جب اس نے دوبارہ ٹکٹ کو دیکھا تو اس پر جیمز بانڈ کا نام نہیں بلکہ راجر مور لکھا ہوا تھا، اس نے دادا کو کہا کہ بانڈ نے اپنا نام غلط لکھ دیا ہے، وہ ایک مرتبہ پھر ’’جیمز بانڈ‘‘ کے پاس گئے اور بچّے نے غلطی کی نشان دہی کی۔ راجر مور نے بچّے کو اپنے قریب کیا، اور چور نظروں سے ادھر ادھر دیکھا، اور پھر سرگوشی کی ’’میں نے جان بوجھ کر اپنا نام راجر مور لکھا ہے، کیوں کہ اگر میں صحیح نام لکھ دوں تو شاید بلو فیلڈ (جیمز بانڈ کا روایتی ولن) مجھے ڈھونڈ لے، اس لیے تم نے کسی ذکر نہیں کرنا کہ تم بانڈ کو دیکھا تھا!‘‘

    یہ سن کر بچّے کا چہرہ تمتما اٹھا۔ اسے محسوس ہوا کہ وہ بھی جیمز بانڈ کا ساتھی ہے اور اس کی یہاں موجودگی کو راز رکھنا ہے۔ کئی برس بعد وہ بچّہ ایک بڑا لکھاری بن گیا اور اتفاق سے ایک موقع ایسا آیا کہ وہ راجر مور کے ساتھ یونیسف کے ایک پراجیکٹ پر کام کرنے پہنچا، شوٹنگ کے بعد اس لکھاری نے راجر مور کو یاد دلایا کہ کئی سال پہلے کس طرح ایئر پورٹ پر اُن کی ملاقات ہوئی تھی اور جب وہ واقعی اسے جیمز بانڈ سمجھتا تھا۔ راجر مور نے کہا کہ اسے وہ ملاقات یاد نہیں۔ کچھ دیر بعد راجر مور نے اس لکھاری کو پاس بلایا، چور نظروں سے ادھر ادھر دیکھا، اپنے مخصوص انداز میں ابرو اٹھائے اور سرگوشی کی: ’’مجھے نیس والا واقعہ یاد ہے، اس وقت جب تم نے مجھے وہ ملاقات یاد دلانے کی کوشش کی تھی، کیمرہ مین ہمارے قریب کھڑے تھے اور ان میں سے کوئی بھی بلو فیلڈ کا ساتھی ہو سکتا تھا، اس لیے میں نے بات دبا دی!‘‘

    جیمز بانڈ کے یادگار کردار نبھانے والے برطانوی اداکار راجر مور نے 89 برس کی عمر میں 23 مئی 2017ء کو انتقال کیا۔ وہ اپنی وفات کے وقت سوئٹزر لینڈ میں مقیم تھے۔ راجر مور 14 اکتوبر 1927ء کو پیدا ہوئے تھے۔

    راجر مور نے سیکرٹ ایجنت جیمز بانڈ کا کردار نبھا کر شہرت کی بلندیوں کو چھوا اور 45 سال کی عمر میں اس سلسلے کی پہلی فلم ’لیو اینڈ لیٹ ڈائی‘ میں اداکاری کی۔ ہالی وڈ سمیت دنیا بھر میں فلم کے ناقدین نے ان کی اداکاری کو سراہا اور اپنے وقت کے مشہور فن کاروں نے جیمز بانڈ کے روپ میں ان کی تعریف کی۔

    اداکار راجر مور اپنی فلاحی سرگرمیوں اور سماجی کاموں کے لیے بھی مشہور تھے۔ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کے برانڈ ایمبیسیڈر کے طور پر ضرورت مند بچّوں کے لیے امداد جمع کرنے میں انھوں نے بڑا کردار ادا کیا۔ وہ بچّوں‌ کے حقوق کے لیے ہمیشہ آواز اٹھاتے تھے۔

    دنیا بھر کے فلم بینوں میں پذیرائی حاصل کرنے والے راجر مور نے چار شادیاں کی تھیں۔ ان کی پہلی شادی 1946 میں ڈون وان اسٹائن سے ہوئی جب کہ دوسری مرتبہ 1953 میںڈورتھی اسکوائرز کو اپنا جیون ساتھی چنا، تیسری شادی 1969 میں اطالوی اداکارہ لیزا مٹولی سے اور 2002 میں کرسٹینا تولسٹرب ان کی زندگی میں شریکِ حیات بن کر آئی تھیں۔

  • بابائے سندھ حیدر بخش جتوئی کا تذکرہ

    بابائے سندھ حیدر بخش جتوئی کا تذکرہ

    حیدر بخش جتوئی عوام میں ’’بابائے سندھ‘‘ کے نام سے پہچانے جاتے ہیں۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ انھیں ہر خاص و عام میں یکساں‌ احترام اور پسندیدگی حاصل تھی۔ لیکن اس ہر دلعزیز اور زندگی میں محنت، لگن اور غریب عوام کے حقوق کی جدوجہد کو وظیفہ بنا لینے والی شخصیت کی خدمات کا اعتراف 30 سال بعد کیا گیا اور ہلالِ امتیاز عطا کیا گیا۔ آج حیدر بخش جتوئی کی برسی ہے۔

    حیدر بخش جتوئی سندھ کے مشہور ہاری راہ نما اور شاعر تھے۔ لاڑکانہ ان کا آبائی علاقہ تھا جہاں وہ سنہ 1900 میں پیدا ہوئے۔ بمبئی یونیورسٹی سے گریجویشن اور آنرز کے بعد سرکاری ملازمت کا سلسلہ شروع ہوا اور ڈپٹی کلکٹر کے عہدے تک پہنچے۔ پیدائش کے فوراً بعد وہ والدہ سے محروم ہوگئے تھے۔ 11 سال کی عمر میں اسکول میں داخل کروایا گیا، جہاں لاڑکانہ کے اس وقت کے ڈپٹی کمشنر آئے تو حیدر بخش جتوئی سے بہت متاثر ہوئے۔ کہتے ہیں کہ انھوں نے حیدر بخش کے والد سے ملاقات کرکے مشورہ دیا کہ ان کا بچّہ غیر معمولی صلاحیت کا حامل ہے، اسے ضرور اعلیٰ تعلیم دلوائیں۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد سندھ مدرسۃُ الاسلام کراچی میں داخل ہوئے، جہاں نمایاں کارکردگی اور دسویں جماعت میں سندھ بھر میں پہلی پوزیشن لی۔ بعد میں گریجویشن اور پھر ممبئی یونیورسٹی سے فارسی میں امتیاز حاصل کیا۔ 23 سال کی عمر میں ان کی شادی ہوگئی تھی۔

    حیدر بخش جتوئی نے محکمۂ ریونیو میں ہیڈ منشی کی حیثیت سے کیریئر کا آغاز کیا لیکن پھر وہ عوام کی خاطر اور ہاریوں کے حقوق کے لیے سرکاری ملازمت چھوڑ کر ہاری تحریک میں شامل ہوگئے۔ 1950 میں ہاری کونسل نے ان کا مرتب کردہ آئین منظور کیا جس کے بعد ان کی جدوجہد کے نتیجے میں قانونِ زراعت منظور ہوا۔ وہ ہاریوں‌ کے حق میں آواز اٹھانے کی پاداش میں جیل بھی گئے۔ عوام اور پسے ہوئے طبقے کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے اور جدوجہد کرنے کی وجہ سے لوگ ان کی بہت عزت کرتے تھے اور انھیں اپنا حقیقی مسیحا اور راہ نما مانتے تھے۔

    حیدر بخش جتوئی نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز انڈین نیشنل کانگریس، تھیوسوفیکل سوسائٹی اور کمیونسٹ پارٹی، ہندوستان کے ایک رُکن کی حیثیت سے کیا۔ وہ کمیونسٹ پارٹی کے وفادار رکن تھے، لیکن ہمیشہ روادارانہ، آزاد خیال اور وسیع فہم و فکر کا مظاہرہ سیاسی پالیسیوں اور مذہبی فلسفیانہ سوچ کے تحت کیا۔

    ہندوستان میں جدوجہدِ آزادی پر انھوں نے ایک شاہکار نظم بھی تخلیق کی تھی۔ حیدر بخش جتوئی نے اپنی سندھی شاعری کا مجموعہ’’ تحفۂ سندھ‘‘ کے نام سے شائع کروایا تھا۔ 65 صفحات کے اس مجموعے میں نظم’’ دریا شاہ‘‘ اور’’شکوہ‘‘ بھی شامل ہیں، جن کا انگریزی میں بھی ترجمہ ہوا۔ 1946ء میں انھوں نے اپنی شاعری کا دوسرا مجموعہ ’’آزادیٔ قوم‘‘ شائع کروایا۔ یہ طویل نظم’’مخمّس‘‘ یعنی پانچ بندوں پر مشتمل ہے اور اس کا موضوع، برصغیر میں برطانوی راج کے خلاف جدوجہد ہے۔ انھوں نے کئی مشاعروں میں بھی شرکت کی، جن میں پاک و ہند اردو مشاعرہ بھی شامل ہے، جس میں حیدر بخش جتوئی نے سندھی نظم پڑھی۔

    کامریڈ حیدر بخش جتوئی ایک زود نویس مصنّف تھے۔ انھوں نے ون یونٹ کے خلاف کئی کتابچے لکھے۔ حیدر بخش جتوئی نے سندھی زبان میں دیگر کتابیں بھی تصنیف کیں۔ 21 مئی 1970 کو حیدر بخش جتوئی انتقال کر گئے تھے۔