Tag: مئی انتقال

  • بلبلِ نشریات موہنی حمید کا تذکرہ

    بلبلِ نشریات موہنی حمید کا تذکرہ

    موہنی داس نے نوجوانی میں ریڈیو سے اپنے فنی سفر کا آغاز کیا تھا اور پھر وہ آپا شمیم کے نام سے 35 برس تک اسی میڈیم سے جڑی رہیں۔ اس عرصہ میں انھوں نے ریڈیو کے سامعین کے معیاری اور خوب صورت پروگرام پیش کیے۔

    موہنی داس نے بچّوں کے ہفتہ وار پروگرام کے ساتھ کئی برس تک انھیں اپنی خوب صورت آواز میں کہانیاں بھی سنائیں۔ بچّے ہی نہیں پاکستان بھر میں بڑے بھی آپا شمیم کو بہت شوق سے سنتے تھے۔ امریکا میں قیام کے دوران آج ہی کے دن وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔

    ریڈیو پاکستان کے مقبول ڈراموں کی ہیروئن اور بچوں کے لیے کئی مشہور گیت گانے والی موہنی حمید کو حکومتی سطح پر بھی اعزازات سے نوازا گیا اور ملک اور بیرونِ ملک بھی فن کی دنیا میں مختلف ایوارڈ دیے گئے۔ انھوں نے انار کلی جیسے لازوال ڈرامے کے خالق امتیاز علی تاج کے معروف کھیل ستارہ میں مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ اہلِ ریڈیو نے بجا طور پر موہنی حمید کو بلبلِ نشریات کا خطاب دے رکھا تھا۔

    موہنی داس ایک عیسائی خاندان کی فرد تھیں جن کی شادی 1954 میں ایک روزنامے میں مدیر کی حیثیت سے کام کرنے والے حمید احمد سے ہوئی اور یوں وہ موہنی حمید بن گئیں۔ اس جوڑے کے گھر جنم لینے والی کنول نصیر بھی پاکستان میں ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی صدا کار اور میزبان کے طور پر شہرت رکھتی ہیں۔

    موہنی داس نے 1922 میں ہندوستان کے علاقے بٹالہ کے ایک مسیحی گھرانے میں آنکھ کھولی تھی۔ 1938 میں انھوں نے آل انڈیا ریڈیو بطور ڈرامہ آرٹسٹ شمولیت اختیار کی۔ بعد میں انھوں نے لاہور اسٹیشن سے پروگرام کرنا شروع کردیا اور آپا شمیم بن کر ہر گھر کی گویا ایک فرد بن گئیں۔ پاکستان کے قیام کے بعد وہ یہاں مستقل قیام پذیر ہوئیں اور ریڈیو پر اپنا سفر جاری رکھا۔

    یہ 1957 کی بات ہے جب موہنی حمید کو سال کی بہترین آواز قرار دیا گیا۔ 1963 میں ریڈیو پاکستان لاہور نے ان کی سلور جوبلی منائی اور 1965 میں صدر پاکستان نے انھیں ’’تمغائے امتیاز‘‘ سے نوازا۔ 1969 میں اقوامِ متحدہ نے ایشیا کی معزز خواتین کے ساتھ ان کی تصویر اور تحریر کی نمائش کی۔ 1998 میں جب وہ بیرونِ ملک جا چکی تھیں حکومتِ پاکستان نے ان کے لیے دوسری بار ’’تمغائے امتیاز‘‘ کا اعلان کیا جب کہ 1999 میں پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کی جانب سے موہنی حمید لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ کی حق دار قرار پائیں۔

    16 مئی 2009ء میں موہنی حمید امریکا میں انتقال کرگئی تھیں۔ موہنی حمید کا تعلق صدا کاروں کی اس نسل سے تھا جس میں مصطفٰی علی ہمدانی، اخلاق احمد دہلوی، عزیز الرحمٰن، مرزا سلطان بیگ عرف نظام دین جیسے آرٹسٹ شامل تھے اور نہایت بلند پایہ ادیب اور باکمال ڈرامہ نگار ریڈیو کے لیے لکھا کرتے تھے اور اپنی آواز کا جادو جگاتے تھے جن میں امتیاز علی تاج، رفیع پیر اور شوکت تھانوی جیسے نام شامل ہیں۔ موہنی حمید نے آسمانِ ادب اور آرٹ کی دنیا کے ان ستاروں کے ساتھ کام کرکے خود کو باصلاحیت اور بہترین فن کار ثابت کیا۔ انھیں امتیاز علی تاج اور رفیع پیر جیسی نابغہ شخصیات نے سراہا۔

  • جمیل نقش: ‘وہ آرٹ کے لیے جیے!’

    جمیل نقش: ‘وہ آرٹ کے لیے جیے!’

    آرٹ کے ناقد قدوس مرزا کہتے ہیں کہ ‘اگر ہم جمیل نقش کی زندگی اور آرٹ کو دیکھیں تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ان کے لیے زندگی اور آرٹ میں کوئی فرق نہیں تھا، وہ آرٹ کے لیے جیے۔’ آج جمیل نقش کی برسی ہے۔

    جمیل نقش کو فنِ مصوّری کے ایک لیجنڈ کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا جن کے فن پاروں سے آرٹ میں مصوّر کی مقصدیت، نئی فکر اور اس کے سیاسی اور سماجی شعور کا بھی اظہار ہوتا ہے۔

    پاکستان کے اس نام ور آرٹسٹ کے نزدیک فنِ مصوّری ایک بامقصد اور نہایت سنجیدہ کام رہا جس کے ذریعے وہ اپنی فکر کا اظہار اور سوچ کے مختلف زاویوں کو ہر خاص و عام تک پہنچا سکتے تھے۔ جمیل نقش نے پینٹنگز کے ساتھ خطّاطی کے شاہکار بھی تخلیق کیے اور متعدد کتابوں کے سرورق بنائے۔ ان کی مصوّری میں استعاروں کی خاص بات بامعنیٰ اور نہایت پُراثر ہونا ہے۔ فن پاروں کے منفرد انداز کے علاوہ جمیل نقش نے اسلامی خطاطی میں بھی جداگانہ اسلوب وضع کیا۔ ان کے شان دار کام کی نمائش پاکستان اور بھارت کے علاوہ برطانیہ اور متحدہ عرب امارات میں ہوئی۔ جمیل نقش ایک مصوّر ہی نہیں شعر و ادب کا ذوق بھی رکھتے تھے اور وسیع مطالعہ کے ساتھ بلند فکر انسان تھے۔ وہ مشہور ادبی جریدے سیپ کے لیے بھی پینٹنگز بناتے رہے۔ جمیل نقش نے 1970ء سے 1973ء تک پاکستان پینٹرز گلڈ کی صدارت کا منصب بھی سنبھالا تھا۔

    خداداد صلاحیتوں کے مالک جمیل نقش 1939 میں کیرانہ انڈیا میں پیدا ہوئے اور تقسیم ہند کے بعد لاہور میں رہائش اختیار کر لی۔ جمیل نقش نے میو اسکول آف آرٹ لاہور سے ابتدائی تعلیم حاصل کی تھی۔ بعد میں وہ اپنی طرز کے منفرد مصوّر کہلائے اور اپنے تخلیقی ذہن سے اس فن میں بڑا کمال حاصل کیا۔ ان کے موضوعات ناقدین کی نظر میں اہمیت رکھتے ہیں اور قابلِ‌ ذکر ہیں۔

    جمیل نقش 2019ء میں آج ہی کے دن لندن میں انتقال کر گئے تھے۔ ان کی عمر 80 سال تھی۔ حکومت پاکستان نے انھیں تمغائے حسنِ کارکردگی اور ستارۂ امتیاز سے نوازا اور جمیل نقش کے نام پر میوزیم لاہور میں ان کے فن پارے محفوظ ہیں۔ جمیل نقش نے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا نام روشن کیا اور فنِ مصوری کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔

    جمیل نے جن موضوعات کا چناؤ کیا ان کی اہمیت کئی لحاظ سے ہے۔ ان کے فن پاروں میں‌ گھوڑے، عورت اور کبوتر کو نمایاں دیکھا جاسکتا ہے۔ برہنہ عورت اور محوِ پرواز پرندے ان کا خاص موضوع رہے۔ ان اجسام کو انھوں نے بار بار پینٹ کیا اور انھیں‌ زندگی بخشی۔

  • شہرۂ آفاق شاعرہ ایملی ڈکنسن جو "سنکی” مشہور تھی

    شہرۂ آفاق شاعرہ ایملی ڈکنسن جو "سنکی” مشہور تھی

    ایملی ڈکنسن کی نظمیں‌ غم و اندوہ اور گہری یاسیت کا مرقع ہیں۔ امریکہ میں انگریزی زبان کی یہ سب سے بڑی شاعر تنہائی پسند تھی اور کہتے ہیں کہ وہ اپنے گھر سے کم ہی باہر نکلتی تھی۔

    ایملی ڈکنسن کی خلوت پسندی تو غیرمعمولی یا پریشان کُن نہیں‌ تھی، لیکن وہ پڑوسیوں یا رشتے داروں سے بھی گریزاں رہتی تھی۔ ایملی ڈکنسن لوگوں سے میل جول بڑھانے میں ہمیشہ جھجکتی رہی۔ اسی بنیاد پر مقامی لوگوں کے درمیان وہ ایک سنکی عورت مشہور ہوگئی تھی۔ جواں عمری میں ایملی موت کو ایک بڑا خطرہ تصوّر کرنے لگی تھی۔ اس کی یہ حالت دوسروں پر اُس وقت کھلی جب انھوں نے ایک قریبی عزیز کی موت کے بعد ایملی کو شدید صدمے سے دوچار پایا۔

    انیسویں صدی کی شاعرہ ایملی ڈکنسن نے موضوعات کے برتاؤ اور ہیئت کے تجربات میں جس جدّت کا اظہار کیا، اس نے اگلی صدی میں‌ بھی پڑھنے والوں پر اپنا گہرا اثر چھوڑا۔ تاہم اس شاعرہ کو ابدی نیند سونے کے بعد دنیا بھر میں پہچان مل سکی۔ امریکہ میں ایملی ڈکنسن کو انگریزی زبان کی سب سے بڑی شاعرہ تسلیم کیا جاتا ہے۔

    ایملی ڈکنسن نے 10 دسمبر 1830ء میں امریکی ریاست میساچوسسٹس کے شہر ایمہرسٹ میں‌ آنکھ کھولی تھی۔ اس کے والد ڈیوڈ ڈکنسن پیشے کے اعتبار سے وکیل اور ایمہرسٹ کالج کے ٹرسٹی تھے، اور شہر کی نمایاں شخصیت تھے، لیکن یہ کنبہ مالی طور پر مستحکم نہیں تھا۔ مگر وہ اپنے بچّوں کی اچھی تعلیم و تربیت پر توجہ دیتے تھے اور ان کو کارآمد اور مفید شہری بنانے کی خواہش رکھتے تھے۔ وہ ایک مہذّب اور ڈسپلن کا خیال رکھنے والے انسان تھے اور یہی عادت ایملی ڈکنسن میں‌ بھی منتقل ہوئی تھی۔ اس نے پرائمری کی تعلیم قریبی اسکول سے مکمل کی اور پھر ایمہرسٹ کی اکیڈمی میں داخلہ لیا جہاں 7 برس کے دوران دیگر مضامین کے ساتھ ایملی ڈکنسن نے کلاسیکی ادب بھی پڑھا۔ وہ بچپن ہی سے موسیقی اور پیانو بجانے میں‌ دل چسپی لینے لگی تھی اور بعد میں طالبہ کی حیثیت سے ادب کا مطالعہ کیا۔ اسی زمانے میں اس نے شاعری کا آغاز کیا، مگر ایک عرصہ تک وہ کسی پر بطور شاعرہ نہیں‌ کُھلی تھی۔ ایملی ڈکنسن نے مکتوب نگاری کے ذریعے دوسروں سے رابطہ رکھنا پسند کیا اور اس کے ذریعے دوست بنائے۔

    اگرچہ ایملی ڈکنسن کے شناسا جانتے تھے کہ وہ شاعری کرتی ہے، لیکن اکثریت اس کا کلام پڑھنے سے قاصر تھی۔ ایملی کی موت کے بعد اس کی بہن نے کئی نظمیں کتاب میں یکجا کیں اور 1890 میں‌ اس کا پہلا مجموعہ منظرِ عام پر آیا۔ 1850ء کے اواخر میں سموئیل بولس نامی ایک صحافی اور جریدے کے مدیر سے دوستی کے بعد ایملی ڈکنسن کی چند نظمیں قارئین تک پہنچیں اور یوں اسے بڑا حوصلہ ملا۔ سموئیل اور اس کی بیوی میری ایملی ڈکنسن سے ملنے کے لیے اکثر اس کے گھر آتے تھے۔ اس زمانے میں ڈکنسن نے مذکورہ مدیر کو تین درجن سے زائد خطوط لکھے اور پچاس کے قریب نظمیں‌ ارسال کی تھیں۔ چند نظمیں دیگر رسائل کی زینت بنی تھیں، لیکن یہ قابلِ‌ ذکر تعداد نہیں‌۔

    ایملی ڈکنسن کی اکثر نظمیں موت اور ابدیت کے موضوع پر ہیں جب کہ اپنے ارسال کردہ خطوط میں ان موضوعات کے علاوہ ایملی ڈکنسن نے جمالیات، فطرت، روحانیت اور سماجی معاملات پر اظہارِ‌ خیال کیا ہے۔ اس امریکی شاعرہ کو عام طور پر ایک گوشہ نشیں خاتون اور غم زدہ شاعرہ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

    15 مئی 1886ء کو ایملی وکنسن نے اُس خطرے کا سامنا کیا جس کے تصوّر سے کئی سال تک وہ خوف زدہ رہی تھی۔ ایملی وکنسن کو موت نے ابدی نیند سلا دیا۔ اس نے شادی نہیں‌ کی تھی۔

    تعجب کی بات ہے کہ اس شہرۂ آفاق امریکی شاعرہ کی صرف ایک ہی تصویر دست یاب تھی جو کئی سال کے دوران ادبی رسائل اور ایملی ڈکنسن سے متعلق تحریروں کے ساتھ شایع ہوتی رہی، لیکن 1995ء میں‌ ایک مداح نے نیلام کے دوران ایک تصویر میں‌ شاعرہ کو پہچان کر اسے خرید لیا تھا۔تاہم یہ تصویر بھی اس کے دس سال بعد منظرِ عام پر آئی اور شاعرہ کے آبائی قصبے ایمہرسٹ کے کالج کی جانب سے اعلان میں کیا گیا کہ تحقیق کے بعد یقین سے کہا جا رہا ہے کہ انگریزی کی اس بڑی شاعرہ کی ایک اور تصویر بھی موجود ہے۔ یوں ایملی ڈکنسن کی زندگی کی صرف دو تصویریں ملی ہیں جن میں‌ سے پہلی اس وقت کی ہے جب شاعرہ کی عمر 17 برس تھی۔ دوسری اور دریافت کی گئی تصویر میں ایملی اپنی ایک سہیلی کے ساتھ نظر آرہی ہے جس کا نام کیٹ ٹرنر بتایا گیا ہے۔ یہ تصویر 1859ء کی ہے۔

  • طلعت محمود: ایک کام یاب گلوکار اور ناکام فلمی ہیرو

    طلعت محمود: ایک کام یاب گلوکار اور ناکام فلمی ہیرو

    طلعت محمود نے ابتدا میں اپنی فن کارانہ صلاحیتوں کے اظہار کا ذریعہ لکھنؤ میں ریڈیو جیسے اُس زمانے کے مقبول میڈیم کو بنایا اور سامعین میں مقبول ہونے لگے، لیکن پھر اپنے فن کے قدر دانوں اور خیر خواہوں کے مشورے پر بمبئی کی فلم نگری میں قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ ان کی شہرت اور مقبولیت کا سبب بنا۔ طلعت محمود بمبئی کی فلمی دنیا کے آسمان پر بطور گلوکار چمکے اور خوب چمکے۔

    طلعت محمود کو ہندی سنیما کے لیے گلوکاری کے ساتھ درجن سے زائد فلموں میں اداکاری کا موقع بھی ملا، لیکن اس میدان میں وہ شائقین کی توجہ حاصل نہ کرسکے۔ البتہ ساز و آواز کی دنیا میں‌ طلعت محمود کو وہ شہرت اور پذیرائی حاصل ہوئی جو بہت کم گلوکاروں کا مقدر بنی ہے۔ آج بھی ان کے گائے ہوئے فلمی نغمات بہت ذوق و شوق سے سنے جاتے ہیں۔ بالی وڈ کی فلموں کے لیے کئی گیتوں کو اپنی آواز میں امر کر دینے والے طلعت محمود کی آج برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 9 مئی 1998ء کو انتقال کر گئے تھے۔

    لکھنؤ طلعت محمود کا شہر تھا جہاں انھوں نے 24 فروری 1924ء کو آنکھ کھولی۔ ان کے والد کی آواز بھی اچھی تھی اور وہ نعتیں پڑھا کرتے تھے۔ طلعت محمود نے بھی اپنے والد کا اثر لیا اور چھوٹی عمر میں نعتیں پڑھنا شروع کردیں۔ 1940 میں طلعت محمود 16 برس کے تھے جب آل انڈیا ریڈیو، لکھنؤ پر ان کی آواز میں ایک گیت ریکارڈ کیا گیا۔ یہ ان کے فنی سفر کا آغاز تھا اور 1944 میں جب انھیں ایک غیر فلمی گیت گانے کا موقع ملا جس کے بول تھے، ‘تصویر تیری دل میرا بہلا نہ سکے گی’ تو کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ گیت ان کی وجہِ شہرت بن جائے گا۔ طلعت محمود کو ہندوستان بھر میں اس گیت کی بدولت شہرت حاصل ہوئی۔

    وہ ہندوستان کے ایک ایسے مسلمان خاندان کے فرد تھے جس میں فلمیں اور اس کے لیے گانا بجانا معیوب سمجھا جاتا تھا، سو طلعت محمود کو بھی ابتدا میں اپنے گھر اور خاندان میں مخالفت کا سامنا کرنا پڑا، لیکن انھوں نے کسی طرح گھر والوں کو رضامند کرلیا اور اپنا سفر جاری رکھا۔ طلعت محمود شکل و صورت کے اچھے تھے اور اسی لیے انھیں بطور ہیرو بھی فلموں میں سائن کیا گیا، لیکن وہ اس میدان میں کام یاب نہ ہوسکے۔ فلم لالہ رخ، ایک گاؤں کی کہانی، دیوالی کی رات، وارث، سونے کی چڑیا، ٹھوکر میں طلعت محمود نے اپنے وقت کی مشہور ہیروئنوں کے ساتھ کام کیا تھا۔ ان اداکاراؤں میں نوتن، مالا سنہا اور ثریا شامل ہیں۔

    بھارتی فلم انڈسٹری میں بہ طور گلوکار اُن کی پہچان بننے والا نغمہ فلم آرزو کا ‘‘اے دل مجھے ایسی جگہ لے چل جہاں کوئی نہ ہو’’ تھا۔ ایک اور کام یاب فلم داغ کے لیے انھوں نے ‘‘اے میرے دل کہیں اور چل’’ اور ‘‘ہم درد کے ماروں کا’’ جیسے گیت ریکارڈ کروائے جو بہت مقبول ہوئے۔

    اپنی فلمی زندگی میں طلعت محمود نے سب سے زیادہ گانے دلیپ کمار کی فلموں کے لیے ہی گائے: جیسے شامِ غم کی قسم یا حسن والوں کو، اور یہ ہوا یہ رات یہ چاندنی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

    طلعت محمود نے اکثر المیہ گانے گائے ہیں، اور اسی لیے ان کو دکھ اور کرب کا ترجمان کہا جاتا ہے۔ گلوکار طلعت محمود کو بھارت میں فلم فیئر ایوارڈ کے علاوہ حکومت کی جانب سے پدما بھوشن ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔

  • فاتحِ قسطنطنیہ محمد ثانی جو عالمِ‌ اسلام میں عظیم مجاہد اور فاتح مشہور ہیں

    فاتحِ قسطنطنیہ محمد ثانی جو عالمِ‌ اسلام میں عظیم مجاہد اور فاتح مشہور ہیں

    سلطنتِ عثمانیہ کے حکم رانوں‌ میں سلطان محمد ثانی کا امتیاز فتحِ قسطنطنیہ ہے جس نے عالمِ اسلام میں انھیں‌ وہ عزّت، احترام اور مقام و مرتبہ دیا جو بہت کم سلاطین کو نصیب ہوا ہے۔ وہ سلطان محمد فاتح کے نام سے مشہور ہوئے۔ محمد فاتح کو نہ صرف اسلامی دنیا بلکہ تاریخِ عالم میں بھی ایسے حکم راں کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا جس کی فتح کے ساتھ ہی صدیوں پرانی بازنطینی سلطنت کا خاتمہ ہوگیا تھا۔ آج سلطان محمد فاتح کا یومِ وفات ہے۔

    فتحِ قسطنطنیہ وہ خواب تھا جس کے لیے مسلمانوں کو سات سو سال انتظار کرنا پڑا اور اس عرصہ میں متعدد فوجی مہمّات اور لشکر کشی کی کوششیں ناکام ہوگئی تھیں‌ سلطان محمد فاتح کی قیادت میں اس فتح نے جہاں ترکوں‌ کی سلطنت اور اقتدار کو توقیر اور وسعت بخشی وہیں‌ 1480ء برس تک قائم رہنے والا اقتدار زوال پذیر ہوگیا۔ یہ فتح مسلمانوں اور عیسائیوں کے لیے مذہبی، سیاسی اور معاشرتی طور پر نہایت گہرے اثرات کی حامل تھی جس میں‌ ایک طرف مسلمانوں‌ میں‌ خوشی اور دوسری طرف صلیبیوں‌ کو بڑا صدمہ پہنچا۔

    سلطان محمد فاتح 3 مئی 1481ء کو انتقال کر گئے تھے۔ وہ استنبول میں فاتح مسجد کے احاطے میں ابدی نیند سو رہے ہیں۔ سلطان صرف اپنی فتوحات کی وجہ سے مشہور نہیں ہیں بلکہ انتظامِ سلطنت اور اپنی قابلیت کے باعث بھی جانے جاتے ہیں۔ ان کا دورِ حکومت رواداری اور برداشت کے لیے مشہور رہا۔ 1432ء میں ادرنہ میں‌ پیدا ہونے والے محمد ثانی نے نوجوانی میں‌ سلطنت سنبھالی اور عثمانی فوج کی قیادت کرتے ہوئے محض 21 سال کی عمر میں‌ 1453ء میں قسطنطنیہ فتح کیا جسے آج استنبول کہا جاتا ہے۔ عثمانی فوج کا کئی روزہ محاصرہ اور گولہ باری کے بعد اس فتح کو اُس وقت شہر میں موجود اطالوی طبیب نکولو باربیرو نے یوں‌ بیان کیا کہ سفید پگڑیاں باندھے ہوئے حملہ آور جاں نثار دستے ’بے جگری سے شیروں کی طرح حملہ کرتے تھے اور ان کے نعرے اور طبلوں کی آوازیں ایسی تھیں جیسے ان کا تعلق اس دنیا سے نہ ہو۔’

    اس روز فتح کے بعد جب سلطان محمد شہر میں‌ داخل ہوئے تو وہ سفید گھوڑے پر بیٹھے ہوئے تھے اور ان کا لشکر مع وزراء اور عمائد سب سے بڑے گرجا آیا صوفیہ پہنچا جہاں سلطان نے صدر دروازے پر اتر کر ایک مٹھی خاک اپنی پگڑی پر ڈالی اور بعد میں اسے مسجد میں‌ تبدیل کر دیا گیا۔ اس فتح کے بعد عثمانی سلطنت اپنے بامِ عروج پر پہنچی اور ترکوں نے اگلی چار صدیوں تک تین براعظموں، ایشیا، یورپ اور افریقہ کے مختلف حصّوں پر حکومت کی۔

    محمد فاتح سلطنتِ عثمانیہ کے ساتویں سلطان تھے۔ انھوں نے اپنے دور حکومت میں اینز، گلاتا اور کیفے کے علاقے عثمانی سلطنت میں شامل کیے جب کہ محاصرۂ بلغراد میں بھی حصہ لیا جہاں وہ شدید زخمی ہوگئے تھے۔ 1458ء میں ان کی سلطنت میں موریا کا بیشتر حصّہ اور ایک سال بعد سربیا شامل ہوا۔ 1461ء میں اور اس کے بعد کئی علاقے ترکوں‌ کے زیرِ نگیں‌ ہوئے۔

    محمد ثانی کی پیدائش کے وقت ادرنہ سلطنتِ عثمانیہ کا دارُالحکومت تھا۔ ان کے والد سلطان مراد ثانی اور والدہ کا نام ہما خاتون تھا۔ وہ 11 سال کے تھے جب انھیں اماسیہ بھیج دیا گیا، جہاں محمد ثانی نے حکومت اور انتظامی امور کے ساتھ فنون سیکھے اور تربیت حاصل کی۔ 1451ء میں اپنے والد سلطان مراد ثانی کی وفات کے بعد سلطان محمد ثانی نے دوسری مرتبہ تخت سنبھالا اور سلطنتِ عثمانیہ کو دنیا بھر میں عظمت اور امتیاز عطا کیا۔

    اناطولیہ اور پھر قسطنطنیہ کی فتوحات کے بعد اسے اپنا دارُ الحکومت قرار دے کر محمد ثانی نے یورپ کی طرف پیش قدمی کی اور کئی کام یاب مہمّات کے علاوہ چند علاقوں‌ میں‌ شکست بھی ہوئی، لیکن ان کے دور میں‌ عثمانی سلطنت کا رقبہ خاصا وسیع ہوگیا تھا۔

    محمد ثانی کے بارے میں‌ کہا جاتا ہے کہ وہ علم و ہنر کے قائل اور علما و ہنر مندوں کے سرپرست تھے۔ انھوں نے قسطنطنیہ کی فتح کے بعد اٹلی کے مصوروں اور یونانی دانشوروں کو اپنے دربار میں‌ بلایا اور سب کو اس شہر میں‌ بسنے کی اجازت دی اور بلاتفریق علم و فنون میں‌ یکتا اور قابل شخصیات کو نوازا۔ ان میں سائنس دان، ادیب اور ہنرمند سبھی شامل تھے۔

    محمد ثانی کا دور رواداری اور برداشت کا دور سمجھا جاتا ہے جس میں مفتوح بازنطینیوں کے ساتھ نیک اور مثالی سلوک کیا گیا۔ اس دور میں مسیحیوں اور یہودیوں کو ہر قسم کی آزادی اور خود مختاری حاصل تھی۔

  • نام وَر گلوکار، اداکار اور فلم ساز عنایت حسین بھٹی کا یومِ وفات

    نام وَر گلوکار، اداکار اور فلم ساز عنایت حسین بھٹی کا یومِ وفات

    31 مئی 1999ء کو پاکستان کے نام وَر گلوکار، اداکار اور فلم ساز عنایت حسین بھٹی وفات پاگئے۔ انھوں‌ نے پاکستانی فلمی صنعت کو اپنی آواز میں خوب صورت نغمات کے ساتھ کام یاب فلمیں بھی دیں اور اس شعبے میں بھی نام و مقام بنایا۔

    عنایت حسین بھٹی 1929ء میں گجرات میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے اپنا فلمی سفر بطور گلوکار شروع کیا۔ فلم ہیر اور پھیرے میں ان کی آواز نے شائقین کی توجّہ اپنی جانب مبذول کروالی۔ ان فلموں کے نغمات بے حد مقبول ہوئے۔ 1953ء میں انھوں نے فلم ’’شہری بابو‘‘ میں ایک کردار ادا کیا اور اسی فلم کا ایک نغمہ بھی ریکارڈ کروایا جس نے انھیں‌ بہت شہرت دی۔ 1955ء میں شباب کیرانوی نے انھیں اپنی فلم ’’جلن‘‘ میں مرکزی کردار آفر کیا اور یہ سلسلہ دراز ہوگیا۔ انھوں‌ نے متعدد فلموں میں مرکزی کردار ادا کیے۔

    عنایت حسین بھٹی نے 500 فلموں کے لیے 2500 کے قریب گانے ریکارڈ کرائے اور 400 سے زائد فلموں میں کام کیا، جن میں سے 40 میں شائقینِ سنیما نے انھیں ہیرو کے روپ میں دیکھا اور ان کی اداکاری کو سراہا۔

    عنایت حسین بھٹی نے ذاتی پروڈکشن ہاؤس بھی قائم کیا تھا جس کے بینر تلے 50 فلمیں بنائیں۔ 1967ء میں انھوں نے ’’چن مکھناں‘‘ فلم بنائی تھی جس نے کام یابی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔ اس کے بعد انھوں‌ نے فلم سجن پیارا، دنیا مطلب دی، عشق دیوانہ، سچا سودا سمیت کئی فلمیں بنائیں جو کام یاب رہیں۔

  • پاکستان کے نام وَر خطّاط صوفی خورشید عالم کی برسی

    پاکستان کے نام وَر خطّاط صوفی خورشید عالم کی برسی

    30 مئی 2004ء کو پاکستان کے نام ور خطّاط صوفی خورشید عالم خورشید رقم لاہور میں وفات پاگئے تھے۔ وہ صوفی خورشید کے نام سے مشہور تھے۔

    صوفی خورشید عالم خورشید کو 1965ء کی جنگ میں‌ جامِ شہادت نوش کرنے والے راجہ عزیز بھٹی کے لوحِ مزار کی خطّاطی کا اعزاز بھی حاصل تھا۔ صوفی صاحب نے کئی موضوعات پر کتابوں اور اپنے دور کے نام ور مصنّفین کی کتابوں کے ٹائٹل کو اپنی خطّاطی سے سجایا۔

    خورشید عالم 1923ء میں کپور تھلہ، بھارت میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد رحمت علی خود بھی ایک اچھے خطّاط تھے۔ مشہور ہے کہ لاہور کے ناشرین کپور تھلہ جاکر ان سے کتابت کرواتے تھے۔ یوں انھیں بھی خوش نویسی کا شوق پیدا ہوا اور اپنے والد کو دیکھ کر خود بھی مشق کرنے لگے۔ ذوق و شوق اور مسلسل مشق نے ان کی لکھائی اور کتابت کو چمکایا اور وہ اس فن میں‌ کامل ہوئے۔

    صوفی خورشید عالم خورشید نے بعدازاں تاج الدّین زریں رقم جیسے نام ور اور عظیم خطّاط کے ادارے سے وابستگی اختیار کرلی تھی جہاں عرصے تک کام کیا، زریں رقم کی وفات کے بعد لاہور کے اکابر خطّاط نے صوفی صاحب کو ان کا جانشین مقرر کردیا تھا۔

    خوش نویسی اور فنِ خطّاطی میں کمال و مہارت رکھنے والے خورشید عالم خورشید رقم نے مختلف اخبارات غالب، آفاق، کوہستان، نوائے وقت، مساوات، ندائے ملت، آزاد اور امروز میں بھی کام کیا تھا اور مینار پاکستان کے بعض کتبات ان کے فن کا نقش ثبت ہے۔

    صوفی صاحب خطّاط ہی نہیں شاعر بھی تھے۔ انھوں نے غزل، نعت و قصیدہ گوئی اور دیگر اصناف میں طبع آزمائی کی۔ وہ مخمور تخلّص کرتے تھے اور مشہور شاعر احسان دانش سے اصلاح لیتے رہے۔

    صوفی صاحب کی نمازِ جنازہ داتا دربار، لاہور میں ادا کی گئی اور انھیں حضوری باغ کے قبرستان میں‌ سپردِ خاک کیا گیا۔

  • یومِ‌ وفات: داؤد چاند پاکستان کی پہلی فلم ’’تیری یاد‘‘ کے ہدایت کار تھے

    یومِ‌ وفات: داؤد چاند پاکستان کی پہلی فلم ’’تیری یاد‘‘ کے ہدایت کار تھے

    22 مئی 1975ء کو پاکستان کی پہلی فلم ’’تیری یاد‘‘ کے ہدایت کار دائود چاند دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ ہدایت کار کی حیثیت سے داؤد چاند کی بنائی ہوئی یہ فلم ستمبر 1948ء میں‌ ریلیز ہوئی تھی اور اسے قیامِ پاکستان کے بعد یہاں بننے والی اوّلین فلم قرار دیا جاتا ہے۔

    دائود چاند کا تعلق بھارت کے صوبے گجرات (کاٹھیا واڑ) سے تھا۔ وہ 1907ء میں پیدا ہوئے تھے۔ عالمِ شباب میں بمبئی اور پھر کلکتہ چلے گئے جہاں اندرا مووی ٹون میں ملازمت اختیار کرلی اور اپنی لگن اور محنت سے پہلے اداکاری اور پھر ہدایت کاری کے شعبے میں مہارت حاصل کی اور فلم انڈسٹری میں اپنی صلاحیتوں کو منوایا۔

    انھوں نے فلم سسی پنوں سے ہدایت کاری کا باقاعدہ آغاز کیا۔ اس کے بعد دائود چاند نے چند مزید فلموں کی ہدایت کاری دی اور پھر لاہور چلے آئے۔ قیامِ پاکستان کے بعد جب دیوان سرداری لعل نے ’’تیری یاد‘‘ بنانے کا اعلان کیا تو ہدایت کاری کے لیے دائود چاند کا انتخاب کیا، اس فلم کے بعد داؤد چاند نے ہچکولے، مندری، سسی، مرزاں صاحباں، حاتم، مراد اور دیگر فلمیں بنائیں۔

    لاہور میں انتقال کرنے والے دائود چاند مقامی قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔

  • ممتاز عالم، محقّق اور مترجم پروفیسر ڈاکٹر شیخ محمد اقبال کی برسی

    ممتاز عالم، محقّق اور مترجم پروفیسر ڈاکٹر شیخ محمد اقبال کی برسی

    آج فارسی زبان و ادب کے ممتاز عالم، محقّق اور مترجم پروفیسر ڈاکٹر شیخ محمد اقبال کا یومِ وفات ہے۔ 21 مئی 1948ء کو لاہور میں وفات پانے والے ڈاکٹر شیخ محمد اقبال کو ماہرِ تعلیم کی حیثیت سے بھی جانا جاتا ہے۔

    ڈاکٹر شیخ محمد اقبال 19 اکتوبر 1894ء کو جالندھر میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے عربی میں ایم اے کیا اور اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے کیمبرج یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ وہاں مشہور مستشرق پروفیسر ای جی برائون کی نگرانی میں انھوں نے فارسی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

    1922ء میں اورینٹل کالج لاہور سے وابستہ ہونے والے ڈاکٹر شیخ محمد اقبال کو بعد میں فارسی کے صدرِ شعبہ اور پرنسپل کے عہدے پر خدمات انجام دینے کا موقع ملا۔ انھوں نے خود کو بہترین منتظم اور ماہرِ تعلیم کی حیثیت سے منوایا اور اپنے عہدوں فرائض انجام دیتے ہوئے کئی اہم کتابوں کی تدوین و ترتیب کے ساتھ تراجم بھی کیے۔

    ڈاکٹر شیخ محمد اقبال نام ور دانشور دائود رہبر کے والد اور مشہور صدا کار ضیاء محی الدین کے تایا تھے۔ وہ لاہور میں ماڈل ٹائون کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • جی جاؤ تو کیا مر جاؤ تو کیا، عبید اللہ علیم کا تذکرہ

    جی جاؤ تو کیا مر جاؤ تو کیا، عبید اللہ علیم کا تذکرہ

    18 مئی 2008 کو اردو کے ممتاز شاعر عبید اللہ علیم نے ہمیشہ کے لیے آنکھیں‌ موند لی تھیں۔ وہ اپنے وقت کے مقبول شعرا میں سے ایک تھے جنھیں‌ مشاعروں میں بڑے ذوق و شوق سے سنا جاتا تھا۔

    عبید اللہ علیم 12 جون 1939ء کو بھوپال میں پیدا ہوئے تھے۔ 1952ء میں ان کا خاندان ہجرت کرکے پاکستان آگیا۔ علیم نے یہاں تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اور ایم اے کرنے کے ساتھ علمی و ادبی حلقوں میں اپنی شاعری کے ذریعے پہچان بنائی، ان کا کلام پاکستان کے معروف گلوکاروں نے گایا۔

    عبیداللہ علیم کے شعری مجموعوں میں چاند چہرہ ستارہ آنکھیں کو بہت پذیرائی ملی اور شعروسخن کی دنیا میں یہ مجموعہ ان کی شناخت بنا۔ اس کے علاوہ ان کا کلام ویران سرائے کا دیا، نگار صبح کی امید کے نام سے بھی کتابی شکل میں شایع ہوا۔ علیم کے ان مجموعہ ہائے کلام پر مشتمل کلیات بھی ’’یہ زندگی ہے ہماری‘‘ کے نام سے شایع ہوچکی ہے۔ ان کا ایک شعر ملاحظہ کیجیے

    عزیز اتنا ہی رکھو کہ جی سنبھل جائے
    اب اس قدر بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے