Tag: مئی برسی

  • خواجہ دل محمد: ایک نابغۂ روزگار شخصیت

    خواجہ دل محمد: ایک نابغۂ روزگار شخصیت

    علم و ادب کی دنیا میں خواجہ دل محمد اپنے وقت کے ایک نہایت قابل و باصلاحیت شخصیت مشہور تھے۔ وہ بیک وقت شاعر اور مصنف بھی تھے اور ایک ریاضی داں اور ماہرِ تعلیم بھی۔ آج اگرچہ ان کا تذکرہ شاذ ہی ہوتا ہے لیکن خواجہ صاحب جیسی شخصیات کے علمی و ادبی کارناموں سے انکار نہیں کیا جاسکتا بلکہ وہ علم و ادب کی دنیا کا ایک مثالی نام ہیں۔

    یہ بھی پڑھیے: خواجہ دل محمد کی نظم اور ڈپٹی نذیر احمد کی چوگوشیہ ٹوپی
    کہا جاتا ہے کہ خواجہ صاحب کے مورثِ اعلیٰ کو سلطان محمود غزنوی کے عہد میں مشرف بہ اسلام ہونے کی سعادت نصیب ہوئی اور تب ان کے بزرگ لاہور آکر آباد ہوگئے۔ ان کا آبائی وطن غزنی تھا جب کہ خاندانی پیشہ تجارت۔ اسی خاندان میں خواجہ دل محمد نے لاہور کے کوچہ ’’گیان‘‘ عقب کشمیری بازار میں فروری 1883ء میں آنکھ کھولی۔ وہ خواجہ نظام الدین کے فرزند تھے۔ اس زمانے کے دستور کے مطابق قرآن کی تعلیم پائی اور ناظرہ مکمل کرنے کے بعد اسلامیہ ہائی اسکول شیرانوالہ گیٹ میں میں داخلہ لیا۔ میٹرک تک اسی اسکول سے درجات مکمل کیے۔ یہ وہ دور تھا جب انجمن حمایت اسلام نے اسلامیہ ہائی اسکول کی عمارت کے بالائی حصے میں کالج بھی قائم کیا تھا۔ خواجہ دل محمد نے بعد میں یہیں سے ایف اے اور بی اے کے امتحانات پاس کیے۔ کالج کے زمانے میں شیخ سر عبدالقادر ان کے استادوں میں سے تھے جن کی شخصیت اور علمی قابلیت سے خواجہ دل محمد بھی متاثر ہوئے۔

    خواجہ دل محمد کو ریاضی کے مضمون سے فطری مناسبت اور بہت رغبت تھی۔ اسی مضمون میں 1970ء میں ماسٹرز کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد اسلامیہ کالج ہی میں استاد مقرر ہو گئے۔ علمی دنیا سے ان کی وابستگی ہمیشہ بڑی گہری اور والہانہ رہی۔ وہ نوجوانوں کی تعلیم و تربیت میں گہری دل چسپی لیتے تھے۔ اگرچہ خواجہ دل محمد کی قابلیت اور محنت و لگن کو دیکھتے ہوئے مختلف اوقات میں انھیں گراں قدر مشاہرے پر خدمات انجام دینے کی پیشکش ہوئی۔ لیکن وہ ہمیشہ اسلامیہ کالج سے وابستہ رہے۔ انھوں نے 35 برس تک اس کالج میں تشنگان علم کو فیض یاب کیا۔ 1940ء میں اسی کالج کے پرنسپل مقرر ہوگئے اور 1943 ء میں اپنی ذمہ داریوں سے سبک دوش ہوئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد رجسٹرار ضلع لاہور مقرر ہوئے۔ 1946ء میں خرابیِ صحت کے باعث یہ ذمہ داری چھوڑ دی۔ 27 مئی 1961ء کو خواجہ دل محمد انتقال کرگئے تھے۔

    بحیثیت استاد خواجہ دل محمد بہت کام یاب اور ہر دل عزیز رہے۔ ان کو تدریس کا وسیع تجربہ تھا اور ریاضی جیسا خشک مضمون بہت دل چسپ انداز سے پڑھاتے تھے۔ بحیثیت ریاضی داں ان کی خوب شہرت تھی اور کہتے ہیں‌ کہ اس زمانے میں ان کے پائے کے ماہرِ ریاضیات چند ہی تھے۔

    خواجہ دل محمد ملازمت کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف کے کام بھی انجام دیتے رہے۔ ادبی سفر پر نظر ڈالیں تو وہ شاعری کی خداداد صلاحیت رکھتے تھے۔ انھوں نے ابتدا نعت گوئی سے کی اور بعد میں قومی و اصلاحی نظموں کی وجہ سے بھی پہچانے گئے۔ خواجہ دل محمد کی شاعری کا باقاعدہ آغاز ہی انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسوں میں ولولہ انگیز شاعری سے ہوا۔ طالب علمی کے زمانے میں خواجہ صاحب ان جلسوں میں نظمیں سناتے تھے جہاں اکابر شعرا جیسے حالی، شبلی، ڈپٹی نذیر احمد وغیرہم موجود ہوتے اور اپنا کلام پیش کرتے تھے۔ خواجہ دل محمد کو ان شخصیات سے داد ملی۔ خواجہ صاحب نے ان نظموں کو 1956ء میں ’’حیات نو‘‘ کے نام سے شائع کیا۔

    خواجہ دل محمد کی سیاسی اور سماجی خدمات کا دائرہ بھی وسیع ہے۔ انھوں‌ نے قومی اور سیاسی تحریکوں میں حصہ لیا۔ 1924ء میں خلافت اور کانگریس کی متحدہ کمیٹی کے ٹکٹ پر میونسپل کمیٹی کے الیکشن میں حصہ لیا اور دامے درمے قدمے سخنے مسلمانوں کی مدد کرتے رہے اور اپنی شاعری کے ذریعے مسلمانوں میں آزادی کا جوش اور ولولہ بھی پیدا کرتے رہے۔

    خواجہ دل محمد نے پنجاب یونیورسٹی لاہور کی اعلیٰ جماعتوں کا نصاب تیار کرنے میں بھی حصہ لیا۔ پنجاب یونیورسٹی سنڈیکیٹ کے گیارہ برس تک ممبر اور 24 برس تک فیلو آف پنجاب یونیورسٹی رہے۔ الجبرا اور ریاضی پر ان کی متعدد تصانیف تھیں‌ جو نصاب میں بھی شامل رہیں‌۔ دوسری طرف انجمن حمایت اسلام کے اسلامیہ اسکولوں میں ہندو اور انگریز مصنفین کی کتابیں اس وقت متعارف کروائی گئی تھیں مگر خواجہ دل محمد کی ان تصانیف کی طباعت کے بعد انھیں شامل کرلیا گیا۔ پاکستان بننے کے بعد خواجہ دل محمد کی مرتب کردہ ریاضی کی 32 کتب مختلف مدارج کے نصاب میں شامل رہیں۔

  • پاکستانی فلمی صنعت کی "رانی” کا تذکرہ

    پاکستانی فلمی صنعت کی "رانی” کا تذکرہ

    پاکستانی فلمی صنعت کے سنہری دور میں ناصرہ اردو اور پنجابی فلموں میں رانی کے نام سے مقبول تھیں۔ لاکھوں دلوں پر راج کرنے والی اداکارہ نے ذاتی زندگی میں کئی دکھ اور صدمات اٹھائے اور کینسر میں مبتلا ہوکر دارِ فانی سے کوچ کیا۔ آج اداکارہ رانی کی برسی ہے۔

    27 مئی 1993ء کو اپنے وقت کی یہ مقبول اداکارہ کراچی میں انتقال کرگئی تھیں۔ رانی نے 1941 میں‌ لاہور میں‌ آنکھ کھولی تھی۔ ناصرہ المعروف رانی اپنے وقت کی مشہور گلوکارہ مختار بیگم کے ایک ڈرائیور کی بیٹی تھیں۔ لیکن ان کی پرورش مختار بیگم نے کی اور ہمیشہ اپنے ساتھ رکھا۔ مختار بیگم نے ناصرہ کو رقص سکھایا اور جب رانی اس قابل ہوگئیں کہ کیمرے کا سامنا کرسکیں تو انھیں رانی کے نام سے فلمی دنیا میں متعارف کروایا۔

    اداکارہ نے اردو اور پنجابی فلموں میں اپنی بہترین پرفارمنس سے خوب شہرت پائی۔ اردو فلموں کی بات کریں تو بطور اداکارہ رانی نے مشہور ہدایت کار انور کمال پاشا کی فلم محبوب سے اپنا سفر شروع کیا تھا۔ اس فلم میں شمیم آرا کے مد مقابل رانی نے ثانوی کردار نبھایا۔ یہ 1962 کی بات ہے اور اس کے بعد بھی وہ کئی فلموں‌ میں مختلف کردار ادا کرتی نظر آئیں لیکن کام یابی ان کا مقدر نہ بنی۔ ان کی ابتدائی فلمیں ناکام ثابت ہوئیں یا رانی کسی بھی روپ میں فلم بینوں کو متاثر نہیں‌ کرسکیں۔ لیکن دیور بھابھی نے راتوں رات انھیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ یہ فلم 1967 میں سنیما کی زینت بنی تھی اور دھوم مچا دی تھی۔ ناصرہ المعروف رانی اس فلم کی بدولت واقعی انڈسٹری کی "رانی” بن گئیں۔ فلم میں وحید مراد اور لیجنڈری اداکارہ صبیحہ خانم نے ٹائٹل رولز کیے تھے۔ بعد میں رانی نے دل میرا دھڑکن تیری، بہن بھائی، دیا اور طوفان، شمع اور پروانہ، بہارو پھول برساؤ، امراؤ جان ادا، اک گناہ اور سہی، خون اور پانی جیسی کام یاب فلموں میں‌ اداکاری کے جوہر دکھائے اور کام یابی ان کا مقدر بنی۔

    اس دور میں‌ پنجابی فلمیں بہت مقبول تھیں اور رانی کو فلم چن مکھناں سے بریک تھرو ملا تھا۔ ان کی دیگر مشہور پنجابی فلموں میں سجن پیارا، جند جان، مکھڑا چن ورگا، دنیا مطلب دی، ٹیکسی ڈرائیور اور سونا چاندی قابلِ ذکر ہیں۔ اردو فلموں میں رانی کی جوڑی اداکار کمال، وحید مراد اور شاہد کے ساتھ بہت پسند کی گئی۔ لیکن حقیقی زندگی میں وہ اپنی شادی شدہ جوڑی برقرار نہیں رکھ سکیں۔ انھوں نے تین ناکام شادیوں کے بعد تنہائی اور محرومی کا عذاب جھیلا اور الم ناک موت رانی کا مقدر بنی۔

    فلمی پردے پر خوب صورت اور ناچتی گاتی نظر آنے والی اس اداکارہ نے ٹیلی ویژن کے ڈراموں میں‌ بھی کام کیا۔ ان مقبول ترین ٹی وی ڈراموں میں‌ خواہش اور فریب شامل ہیں۔ اداکارہ رانی لاہور میں مسلم ٹاؤن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • طلعت حسین: فن کی دنیا کے ”عالی جاہ‘‘کا تذکرہ

    طلعت حسین: فن کی دنیا کے ”عالی جاہ‘‘کا تذکرہ

    اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ طلعت حسین نے فن کی دنیا میں نصف صدی اپنے نام کی ہے۔ تھیٹر سے ریڈیو، ٹی وی ڈراموں اور فلموں تک ان کا فنی سفر یادگار اور بے مثال ہے۔سینئر اداکار طلعت حسین پچھلے برس 84 سال کی عمر میں‌ انتقال کر گئے تھے۔ آج ان کی پہلی برسی ہے۔

    یہ بھی پڑھیے:‌ طلعت حسین کو عالی جاہ بنانے والے حمید کاشمیری

    طلعت حسین کو بطور صدا کار ان کے منفرد لب و لہجے کے ساتھ عمدہ تلفظ کی وجہ سے الگ پہچان ملی طلعت حسین کو شروع ہی سے مطالعہ کا بے حد شوق تھا۔ وہ انگریزی اور اردو ادب سے خاص لگاؤ رکھتے تھے۔ اداکاری کے میدان میں ان کا مخصوص اور متاثر کن انداز انھیں ہم عصروں میں امتیاز بخشتا ہے۔

    طلعت حسین سنہ 1940 میں دہلی میں پیدا ہوئے تھے۔ طلعت حسین کا پورا نام طلعت حسین وارثی تھا۔ ان کی والدہ شائستہ بیگم ریڈیو پاکستان کی مقبول اناؤنسر تھیں جب کہ ان کے والد الطاف حسین وارثی انڈین سول سروس میں ایک اعلیٰ عہدے پر فائز تھے۔ ان کی فیملی 1947ء میں ہجرت کر کے کراچی پہنچی۔ پاکستان آنے کے بعد والد کی بیماری کے باعث مالی حالات بہت خراب ہو گئے۔ ان کی والدہ نے ریڈیو پر ملازمت اختیار کر لی۔ طلعت حسین نے یہاں اسلامیہ کالج سے گریجویشن کیا۔ گھر کے نامساعد حالات کی وجہ سے ان کی ماسٹر کرنے کی خواہش پوری نہ ہو سکی۔ وہ تین بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔ معاش کے لیے کئی چھوٹی موٹی نوکریاں بھی کیں اور فن کی دنیا سے وابستہ ہوئے۔

    طلعت حسین کو شہرت سنہ 1970 سے ملنا شروع ہوئی۔ اسٹیج اور تھیٹر پر انھوں نے اپنے فن کے جوہر دکھائے اور پھر ٹی وی ڈراموں نے انھیں ملک گیر شہرت دی۔ طلعت حسین کے مقبول ڈراموں میں پرچھائیاں، ہوائیں، کشکول، طارق بن زیاد، دیس پردیس اور دیگر شامل ہیں۔ فن کی دنیا کے کئی ایوارڈ اپنے نام کرنے والے طلعت حسین کو حکومت نے ستارۂ امتیاز اور تمغائے حسن کارکرگی سے نوازا۔

    اداکاری و صدا کاری دونوں ہی شعبہ جات میں طلعت حسین بلاشبہ ایک منجھے ہوئے فن کار کے طور پر مشہور تھے۔ طلعت حسین نے اپنے فن کے سفر کا آغاز ریڈیو سے کیا اور پاکستان ٹیلی ویژن نے اپنی نشریات کا آغاز کیا تو وہ ڈراموں کی جانب آ گئے۔ ان کا پہلا ڈرامہ ”ارجمند‘‘ تھا جو 1967ء میں آن ایئر ہوا۔ 1972ء میں وہ انگلینڈ چلے گئے اور ”لندن اکیڈمی آف میوزک اینڈ ڈرامیٹک آرٹ‘‘ سے وابستہ ہوئے۔ وہاں برطانوی ڈرامہ میں بھی کام کیا اور متعدد غیر ملکی فلموں، ٹی وی ڈراموں اور طویل دورانیے کے کھیلوں میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے۔ ناروے کی فلم ”امپورٹ ایکسپورٹ‘‘ میں وہ بہترین معاون اداکار کا ”ایمنڈا ایوارڈ‘‘ بھی لینے میں کام یاب ہوئے تھے۔ اس فلم میں انھوں نے اللہ دتہ نامی شخص کا کردار ادا کیا تھا۔ ایک بھارتی فلم ”سوتن کی بیٹی‘‘ میں طلعت حسین نے اداکارہ ریکھا اور جیتندر کے ساتھ کام کیا تھا۔ 1970ء میں طلعت حسین فلم ”انسان اور آدمی‘‘ میں نظر آئے جب کہ فلم ”گمنام‘‘ میں ڈاکٹر کا کردار ادا کرنے پر بہترین اداکار کا نگار ایوارڈ بھی اپنے نام کیا۔

    1998ء میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ پر بننے والی فلم ”جناح‘‘ میں بھی انھوں نے کردار ادا کیا تھا۔ اس فلم میں ان کے ساتھ ہالی ووڈ کے اداکار کرسٹوفر لی اور بھارتی اداکار ششی کپور نے بھی کام کیا تھا۔

  • نیاز فتح پوری: ایک نابغۂ روزگار شخصیت

    نیاز فتح پوری: ایک نابغۂ روزگار شخصیت

    برصغیر پاک و ہند میں نیاز فتح‌ پوری کا نام ایک ایسے قابل اور بے پناہ علمی استعداد کی حامل شخصیت کے طور پر مشہور ہے جنھیں اپنے دور کا اسکالر اور جدید صوفی بھی کہا جاسکتا ہے۔ نیاز صاحب اپنے مذہبی اور دینی نقطۂ نظر کی وجہ سے متنازع بھی رہے۔ لیکن ان کی نکتہ رسی کی قائل ان کے زمانے کی وہ علمی و ادبی ہستیاں بھی تھیں جنھوں نے نیاز فتح پوری سے دینی امور میں رائے کے اظہار پر شدید اختلاف کیا۔

    نیاز فتح پوری ایک عقلیت پسند مشہور تھے جنھوں نے مذہب اور دینی تعلیمات کو عصر حاضر اور تاریخی پس منظر میں بیان کرنے کی سعی کی جب کہ اردو ادب کی مختلف اصناف کو بھی اپنی تخلیقات سے مالا مال کیا۔ وہ شاعر بھی تھے، افسانہ نگار بھی، محقق اور نقّاد بھی لیکن انھیں عالمِ دین، مؤرخ اور ماہرِ نفسیات بھی سمجھا جاتا ہے۔ دراصل نیاز فتح پوری کی ادبی اور علمی سرگرمیوں کا میدان بہت وسیع تھا جسے انھوں نے رسالہ ’’نگار‘‘ کے ذریعے عام کیا۔ یہ وہ رسالہ تھا جس میں ادب کے علاوہ فلسفہ، مذہب اور سائنس پر شان دار تحریریں‌ شایع ہوتی تھیں اور اس کی بدولت قارئین پیچیدہ اور ادق موضوعات پر مباحث پڑھنے کے ساتھ غور و فکر کے عادی بنتے تھے۔ نیاز فتح پوری نے جدید نفسیات، ہپناٹزم اور جنسیات پر بھی خوب جم کر لکھا۔

    کون تھا جو نیاز فتح پوری کی علمیت سے مرعوب نہ تھا اور ان کی شخصیت کے سحر میں گرفتار نہ رہا ہو۔ نیاز صاحب کہیں ایک افسانہ نگار کے روپ میں سامنے آتے ہیں تو کہیں مذہب اور زندگی، اصول، قوانین، روایات اور انسانیت سے متعلق دقیق، پُرپیچ اور گنجلک موضوعات پر لیکچر دیتے اور مضامین رقم کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ کوئی فلسفیانہ انداز میں مسائل کا حل نکالنے، بہت سی گتھیاں سلجھانے کے اُن کے انداز سے متأثر تھا تو کسی کو مذہبی اعتقادات اور تاریخی موضوعات پر نیاز فتح‌ پوری کی مدلّل گفتگو اور مباحث میں کشش محسوس ہوتی تھی۔ نیاز فتح پوری نے اسلام کے پیغام کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے عقل کا سہارا لیا اور مذہب کے بنیادی اصولوں کے مطابق تعلیمات کی تفہیم کرتے ہوئے اپنے دل کش اور نہایت متاثر کن اسلوب سے قاری تک پہنچایا۔

    ایک زمانہ تھا کہ نیاز صاحب کی نثر کا ڈنکا بجتا تھا۔ تخلیقی ادب میں افسانے ہی نہیں‌ ان کے ناولٹ اور انشائیے کے علاوہ مذہب اور سائنس کے تال میل پر ان کے مضامین، اور بعد میں اپنی تحریروں پر اعتراضات کے جوابات کا بھی بہت شہرہ ہوا۔ نیاز فتح پوری کی متنازع فیہ کتاب ’’من و یزداں‘‘ تھی۔

    نگار کے مدیر کی حیثیت سے بھی نیاز صاحب نے بڑا کام کیا۔ 1924ء کے ایک شمارۂ نگار میں ان کا ’’اہلِ مریخ سے گفتگو کا امکان‘‘ اور ’’جنگ کا نقشہ ایک صدی بعد‘‘ جب کہ 1935ء کی اشاعت میں ’’چاند کا سفر‘‘ جیسا مضمون شایع ہوا تھا اور یہ مضامین بہت مقبول ہوئے۔ یہ تحریریں ایک طرف نیاز فتح پوری کی تخلیقی صلاحیتوں کے ساتھ ان کی فکر و نظر کی بلندی اور دوسری جانب اس دور میں مصنّف کے سائنسی رجحان کا پتا دیتی ہیں۔

    نیاز صاحب کو عقلیت پسندی کے سبب اپنے دور میں سخت مخالفت اور کڑی تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ مذہبی حلقوں کی جانب سے اُن پر بگاڑ کا الزام عائد کرتے ہوئے فتاویٰ جاری کیے گئے جب کہ قدامت پسند حلقوں کی طرف سے اُن کی بھرپور مخالفت کی جاتی رہی۔

    معروف شاعر، ادیب اور کالم نگار جمیل الدّین عالی نیاز صاحب کے بارے میں لکھتے ہیں: ” فروری 1922ء میں جب علّامہ نیاز فتح پوری نے ترک زبان کی مشہور شاعرہ ”نگار بنت عثمان“ کی انقلابی شاعری سے متاثر ہو کر ”نگار“ جاری کیا تو ان کی نظر سنجیدہ علمی موضوعات پر مرکوز تھی۔ نگار کے ذریعے انہیں تخلیقی و تحقیقی قوتوں کے آزادانہ استعمال کا موقع مل گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے افسانہ، ناول، صحافت، مقالہ نگاری، تنقید، مکتوبات نگاری اور انشا پردازی سب میں ان کا سکّہ چلنے لگا۔ اب وہ ادیب نہ رہے، ادیب ساز بھی ہو گئے اور ان کی علمی اور ادبی شخصیت اتنی وقیع اور واضح ہوگئی کہ ادبی تاریخ کی ترتیب و تدوین میں ان کا کٹر سے کٹر مخالف بھی ان کے نام کو نظر انداز نہیں کرسکتا۔ نیاز کا قلم، انیسویں صدی کی پہلی دہائی سے لے کر 1966ء کے اوائل تک کم و بیش ساٹھ سال چلتا رہا۔ جس زمانے میں ”نگار“ منظر عام پر آیا اس وقت علمی رسائل نہ ہونے کے برابر تھے اور علمی و تحقیقی مضامین لکھنے والوں کی بھی بہت کمی تھی، یہ نگار کا کمال ہ ے کہ اس نے لوگوں میں لکھنے کے شوق کو جلا دی اور اہلِ قلم پیدا کیے جن کی علمی طبقے نے بڑی پذیرائی کی۔ نگار محض ادبی جریدہ نہیں بلکہ ایک ادارہ، ایک رجحان اور ایک قدر تھا۔”

    24 مئی 1966ء کو نیاز فتح پوری انتقال کرگئے تھے۔ نیاز صاحب کا وطن یوپی کا ضلع بارہ بنکی تھا جہاں وہ 28 دسمبر 1884ء کو پیدا ہوئے۔ نیاز محمد خان ان کا نام رکھا گیا۔ مدرسہ اسلامیہ فتح پور، رام پور اور بعد میں لکھنؤ کے مشہور دارالعلوم ندوۃ العلماء سے تعلیم حاصل کی۔ شروع ہی سے ان کا رجحان علم و ادب کی جانب رہا اور غور و فکر کی عادت بھی وقت کے ساتھ پختہ ہوگئی۔ تعلیمی مدارج طے کرتے ہوئے مطالعہ اور مشاہدہ کی قوّت نے ان کو اس قابل بنا دیا وہ اپنے خیالات اور مشاہدات کو رقم کرسکیں۔ محکمۂ پولیس میں بھرتی ہوئے۔ لیکن یہ ملازمت ترک کر دی۔ 1922ء میں نگار جاری کیا جو تھوڑے ہی عرصے میں روشن خیالی کی مثال بن گیا۔ نیاز صاحب تقسیمِ ہند کے بعد 1962ء میں ہجرت کر کے کراچی آئے تھے اور اسی شہر میں وفات پائی۔

    رسالہ نقوش کے مدیر محمد طفیل لکھتے ہیں، "نیاز صاحب نے جو کچھ بھی امتیاز حاصل کیا۔ وہ اپنے قلم کے سحر سے حاصل کیا۔ لکھنے کے لیے کسی اہتمام کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ باتیں بھی کرتے جاتے ہیں۔ لکھتے بھی جاتے ہیں۔ گلوری منہ میں ہو گی۔ خوں خوں کر کے باتوں میں ساتھ دیں گے۔ ضرورت پڑی تو پیک نگل کر بولیں گے: ’’یہ آپ نے کیسے سمجھ لیا کہ میں کام میں مشغول ہوں۔‘‘ حافظہ بلا کا پایا ہے۔ ہر چیز، ہر کتاب ان کے ذہن میں منتقل ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے بڑے بڑے کام صرف چند دنوں میں کر ڈالے۔ ان کے ہاں آمد ہی آمد ہے۔ آورد نام کو نہیں۔ الفاظ واقعی ہاتھ باندھے کھڑے رہتے ہیں۔ یہ کمال میں نے صرف انیس، جوش اور نیاز میں دیکھا۔ باقی سب کے ہاں کاری گری ہے۔”

    علّامہ نیاز فتح پوری نے 35 کتابیں یادگار چھوڑیں جن میں من و یزداں، نگارستان، شہاب کی سرگزشت، جمالستان اور انتقادیات مقبول ہوئیں۔ حکومتِ پاکستان نے انھیں "نشانِ سپاس” سے نوازا تھا۔

    علّامہ نیاز فتح پوری کراچی میں پاپوش نگر کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • محمد مارما ڈیوک پکتھال: برطانوی نومسلم اور ترجمۂ قرآن

    محمد مارما ڈیوک پکتھال: برطانوی نومسلم اور ترجمۂ قرآن

    ہندوستان کی تاریخ میں برطانوی دور کی اُن شخصیات کا نام بھی پڑھنے کو ملتا ہے، جنھوں نے یہاں اسلام کو بطور مذہب قبول کر کے باقی ماندہ عمر یہیں گزار دی اور یہاں کے لوگوں سے بڑی عزّت اور احترام پایا۔ قرآن مجید کے مترجم، کئی معیاری علمی، ادبی اور تحقیقی کتب کے مصنف اور مشہور صحافی مارما ڈیوک پکتھال بھی انہی میں سے ایک تھے۔

    مارما ڈیوک پکتھال کی پیدائش 1875ء میں انگلستان میں ہوئی۔ انگلستان اور یورپ کی درس گاہوں میں تعلیم پانے والے پکتھال نے بعد میں مصر، ترکی، بیروت، شام اور بیت المقدس کی سیاحت کی اور وہاں کافی عرصہ قیام کیا۔ ان ملکوں میں انھوں نے عربی زبان سے رغبت محسوس کی اور اس کی تحصیل کے بعد اسلامی کتب کا مطالعہ کرنے لگے۔ اس نے اسلام کے بارے میں ان کی معلومات میں اضافہ کیا اور وہ غور و فکر کرنے کے بعد 1914ء میں دائرۂ اسلام میں داخل ہوگئے۔

    محمد مارما ڈیوک پکتھال 1920ء میں بمبئی آئے تھے۔ صحافت ان کا پیشہ تھا۔ وہ مشہور اخبار بمبئی کرانیکل کے ایڈیٹر مقرر ہوئے اور 1924ء تک یہ ذمہ داری نبھاتے رہے۔ ادھر دکن میں انھیں چادر گھاٹ ہائی اسکول کے پرنسپل کی نشست کے لیے پیشکش کی گئی اور کہا گیا کہ اسکول ان کی غیر معمولی قابلیت اور اعلیٰ صلاحیتوں سے استفادہ کرنا چاہتا ہے تو پکتھال نے اس پیشکش کو قبول کیا۔ 1925ء میں وہ حیدرآباد دکن میں اسکول کے پرنسپل ہوکر چلے آئے اور واقعی اپنے زمانہ میں چادر گھاٹ ہائی اسکول کو ایک مثالی درس گاہ بنا دیا۔

    پکتھال کے دور کے اسکول کے ایک طالب علم کا مضمون ماہنامہ ‘سب رس’ حیدرآباد کے 1994ء کے شمارے میں شایع ہوا تھا جس میں وہ لکھتے ہیں کہ پکتھال کے مراسم مصر، ترکی اور برطانیہ کے اعلی عہدیداروں سے تھے، اسی زمانے میں وہ سول سروس کے منتخب افراد کی تربیت بھی کرتے تھے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ ترجمۂ قرآن کے کام میں غرق تھے مگر حیرت ہے کہ اس مصروفیت کے باوجود وہ بلاناغہ سوائے جمعہ کی تعطیل کے، دن بھر مدرسے میں موجود رہتے۔ دوپہر کے وقفے میں نماز ظہر کی امامت بھی کرتے اور اسی گھنٹے میں اسکول کے صحن میں کچھ دیر کے لئے لڑکوں سے بے تکلف گفتگو بھی کرتے تھے۔ ان کی گفتگو میں لطیف ظرافت جھلکتی رہتی تھی۔

    بعد میں‌ پکتھال حیدرآباد میں محکمۂ نظامتِ اطلاعاتِ عامہ اور سول سروس ہاؤس کے نگراں کار بھی مقرر کیے گئے تھے۔

    قرآن پاک کا انگریزی میں ترجمہ پکتھال کا ایک کارنامہ ہے۔ حیدرآباد کی ملازمت کے دوران ترجمے کے کام کو مکمل فرصت اور یکسوئی کے ساتھ انجام دینے کے لیے ان کو پوری تنخواہ کے ساتھ دو سال کی رخصت دی گئی۔ ان کا ترجمہ 1930ء میں The Meanning of tha Glorious Koran کے نام سے بیک وقت لندن اور نیویارک سے شائع ہوا۔

    محمد مارما ڈیوک پکتھال کو ریاست حیدرآباد میں اس ترجمہ کی وجہ سے سَر آنکھوں پر بٹھایا گیا اور عظیم مترجم کے لیے ہر ممکن سہولت فراہم کی گئی۔ یہی نہیں بلکہ اس ترجمے کی تکمیل کے بعد بھی ان سے شایانِ شان سلوک روا رکھا گیا۔ ان کے انتقال کے بعد ان کی بیوہ کا دو سو پونڈ سالانہ وظیفہ تاحیات مقرر کیا گیا۔

    سر راس مسعود نے اپنی ایک تحریر میں لکھا کہ "پکتھال آج کل کی علمی دنیا میں مشاہیر میں شمار کیے جاتے ہیں۔ انھوں نے انگلستان اور یورپ کے دیگر ممالک میں تعلیم پائی ہے۔ انگریزی، جرمن، فرانسیسی اطالوی اور ہسپانوی زبانوں سے واقف ہونے کے علاوہ عربی میں بھی بہت اچھی استعداد رکھتے ہیں۔ وہ 1876ء میں پیدا ہوئے اور انھوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ اسلامی ممالک میں عربوں، ترکوں اور مصریوں کی صحبت میں گزارا ہے۔اسلامی ممالک کے بارے میں ان کی بہت سی تصانیف ہیں۔ انگلستان اور امریکہ کے تمام معتبر اخبارات اور رسائل میں ان کتابوں کی تعریف و توصیف کے ساتھ اس امر کا اعتراف کیا گیا ہے کہ مشرقی ممالک کے حالات اور تمدن کو سمجھنے کے لیے ان کا مطالعہ لازمی ہے۔ یہ کتابیں اس قدر مقبول ہوئی ہیں کہ ان کا ترجمہ فرانسیسی، جرمن ، دینش، ہنگرین اور روسی زبانوں کے علاوہ ایشیا کی متعدد زبانوں میں بھی ہوا ہے۔

    19 مئی 1936ء کو پکتھال وفات پاگئے تھے۔

  • ایملی ڈکنسن: خلوت پسند شاعرہ جس نے موت اور ابدیت کو موضوع بنایا

    ایملی ڈکنسن: خلوت پسند شاعرہ جس نے موت اور ابدیت کو موضوع بنایا

    ناقدین کی رائے ہے کہ انیسویں صدی میں ایملی ڈکنسن نے اپنی شاعری کے موضوعات کو برتنے میں انفرادیت کے ساتھ ساتھ ہیئت کے تجربات کیے وہ اس کی شاعری کو اگلی صدی میں بھی زندہ رکھے گا۔ ایملی ڈکنسن کو انگریزی زبان کی سب سے بڑی شاعرہ بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔

    ایملی ڈکنسن کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ تنہائی پسند اور دروں بیں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی نظموں‌ میں یاسیت کا رنگ گہرا ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ امریکہ کی یہ عظیم شاعرہ اپنی زندگی میں سنکی مشہور تھی۔ وہ اپنے عزیز و اقارب اور محلّے داروں میں اپنی خلوت پسندی اور میل جول سے احتراز کے سبب عجیب و غریب عورت مشہور ہو گئی تھی۔ بظاہر ایملی کی تنہائی پسندی غیرمعمولی یا پریشان کُن تو نہیں‌ تھی، لیکن وہ اپنے پڑوسیوں یا رشتے داروں سے بھی بات چیت نہیں کرتی تھی بلکہ ان کا سامنا کرنے سے کتراتی تھی۔ اس کی وجہ موت کا نفسیاتی دباؤ تھا۔ ایملی ڈکنسن جواں عمری میں موت کو اپنے اور دوسرے انسانوں کے لیے ایک بڑا عفریت تصوّر کرنے لگی تھی۔ اس کی یہ ذہنی حالت ایک قریبی عزیز کی موت کے بعد دوسروں پر کھلی تھی۔ اس موقع پر انھوں نے ایملی کو شدید صدمے کی کیفیت میں ڈوبا ہوا پایا تھا۔

    ایملی ڈکنسن کی شاعری نے واقعی اس کے عہد ہی نہیں، اگلی صدی میں‌ بھی اس کے قارئین کے ذہنوں کو متاثر کیا۔ لیکن بطور شاعرہ اس کی شہرت کا سفر اس کی موت کے بعد شروع ہوا۔ ایملی ڈکنسن 10 دسمبر 1830ء کو امریکی ریاست میساچوسسٹس کے شہر ایمہرسٹ میں‌ پیدا ہوئی۔ اس کے والد ڈیوڈ ڈکنسن پیشے کے اعتبار سے وکیل اور ایمہرسٹ کالج کے ٹرسٹی تھے۔ وہ اپنے شہر کی نمایاں اور قابل و باصلاحیت شخصیت تھے۔ اگرچہ یہ خاندان مالی طور پر مستحکم نہیں تھا، اس کے باوجود والد نے اپنی اولادوں کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا اور وہ بطور شہری انھیں کارآمد اور مفید بنانا چاہتے تھے۔ دراصل وہ ایک مہذّب اور اصولوں کی پاس داری کرنے والے انسان تھے اور یہی اوصاف وہ اپنے بچوں میں منتقل کرنا چاہتے تھے۔ ایملی ڈکنسن کو پرائمری کی تعلیم کے لیے قریبی اسکول میں داخل کروایا گیا اور بعد میں وہ ایمہرسٹ کی اکیڈمی میں 7 برس کے دوران دیگر مضامین کے ساتھ کلاسیکی ادب پڑھتی رہی۔ ایملی بچپن ہی سے موسیقی اور پیانو بجانے میں‌ دل چسپی لینے لگی تھی جب کہ ایک طالبہ کی حیثیت سے ادب کا مطالعہ کرنے کے بعد وہ شاعری کی جانب متوجہ ہوئی اور نظمیں لکھنے لگی۔

    ایملی اس قدر شرمیلی یا محتاط تھی کہ قریبی لوگوں پر بھی بطور شاعرہ ایک عرصہ تک نہیں کھلی۔ اسے خط کتابت کا بھی شوق تھا۔ اس نے قلمی دوستیاں کیں اور علمی و ادبی شخصیات سے مکتوب کے ذریعے رابطہ رکھا۔ اس کے باوجود زندگی میں ایملی ڈکنسن کو بطور شاعرہ بہت کم لوگ جان سکے۔ 1850ء کے اواخر میں سموئیل بولس نامی ایک صحافی اور جریدے کے مدیر سے اس کا رابطہ ہوا اور اس طرح ایملی ڈکنسن کی چند نظمیں قارئین تک پہنچیں جس نے ایملی ڈکنسن کو خوشی اور حوصلہ دیا۔ بعد میں سموئیل اپنی اہلیہ کے ساتھ ایملی ڈکنسن سے ملنے کئی مرتبہ اس کے گھر بھی آیا۔ ایملی ڈکنسن نے اسے تین درجن سے زائد خطوط بھی لکھے تھے اور لگ بھگ پچاس نظمیں‌ ارسال کی تھیں۔ ایملی ڈکسنن کی متعدد نظمیں بھی اس دور کے چند ادبی پرچوں کی زینت بنی تھیں، تاہم ان کی تعداد قابلِ‌ ذکر نہیں‌۔ 15 مئی 1886ء میں ایملی ڈکنسن کے انتقال کے بعد اس کی بہن نے نظموں کو اکٹھا کر کے کتابی شکل میں شایع کروایا اور ایملی ڈکنسن امریکہ بھر میں پہچانی گئی۔

    ایملی ڈکنسن کی اکثر نظمیں موت اور ابدیت کے موضوع پر ہیں جب کہ اپنے ارسال کردہ خطوط میں ان موضوعات کے علاوہ ایملی ڈکنسن نے جمالیات، فطرت، روحانیت اور سماجی معاملات پر اظہارِ‌ خیال کیا ہے۔

    ایملی ڈکنسن نے تا عمر شادی نہیں‌ کی۔ تعجب خیز امر یہ ہے کہ اس شاعرہ کی موت کے بعد صرف ایک ہی تصویر کئی سال تک ادبی رسائل میں اس سے متعلق مضامین کے ساتھ شایع ہوتی رہی، اور پھر 1995ء میں‌ اس کی دوسری تصویر سامنے آئی۔ کسی مداح نے ایک نیلامی کے دوران ایملی ڈکنسن کو پہچان کر اس کی وہ تصویر حاصل کرلی تھی۔ لیکن وہ دس سال تک اسے منظرِ عام پر نہیں لایا۔ بعد میں‌ ثابت ہوا کہ وہ ایملی ڈکنسن ہی کی تصویر ہے۔ اس میں وہ اپنی ایک سہیلی کے ساتھ موجود ہے۔ اس وقت ایملی ڈکنسن 17 برس کی تھی۔

  • حسرت موہانی: رئیس المتغزلین کا تذکرہ

    حسرت موہانی: رئیس المتغزلین کا تذکرہ

    دورِ جدید کے غزل گو شعراء میں حسرت کو جو مقام حاصل ہوا، وہ کسی اور کے حصّے میں نہیں آیا۔ حسرت کے کلام میں تغزل کی فراوانی نے انھیں رئیس المتغزلین مشہور کیا۔ وہ ایک جرات مند سیاست داں اور صحافی بھی تھے اور تحریکِ آزادی میں ان کی خدمات اور عملی کاوشیں بھی ناقابلِ فراموش ہیں۔

    حسرت کا اصل نام سید فضل الحسن تھا۔ ان کا تخلص حسرت تھا۔ حسرت کا وطن قصبہ موہان ضلع اناؤ تھا۔ 1875ء میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم حاصل کر کے علی گڑھ گئے اور وہاں سے 1903ء میں بی اے پاس کیا۔ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد رسالہ اُردوئے معلی نکالا اور باقاعدہ صحافت شروع کی جو ان کے لیے ایک مشن تھا۔ اس رسالہ میں ادبی مضامین کے ساتھ ساتھ سیاسی مضامین بھی ہوتے تھے اور حسرت بھی اپنے افکار کا بے باکانہ اظہار کرتے تھے۔ 1905ء میں انھوں نے آل انڈیا کانفرنس میں حصہ لیا اور اسی وقت سے وہ سودیشی تحریک کے ممبر بن گئے۔ 1907ء میں حسرت کانگریس سے علیحدہ ہوگئے۔ 1908ء میں اُردوئے معلی میں حکومت کے خلاف ایک مضمون چھاپنے کی پاداش میں قید بامشقت کی سزا ہوئی۔ دو سال قید رہنے کے بعد 1910ء میں رہا ہوئے۔ پرچہ دوبارہ جاری کیا لیکن 1904ء میں گورنمنٹ نے پھر بند کر دیا۔ مجبور ہو کر سودیشی مال کا ایک اسٹور قائم کیا۔ اسی زمانے میں جماعت احرار نے جنم لیا۔ مولانا حسرت موہانی اس کے ایک سرگرم کارکن بن گئے۔ اسی نسبت سے رئیس الاحرار بھی کہلائے۔ وہ آزادی کے بہت بڑے داعی تھے اور اپنی سیاسی سرگرمیوں اور قلم کی وجہ سے معتوب رہے۔ 1919ء میں انھیں پھر گرفتاری دینا پڑی۔ ترک موالات کی تحریک میں حصہ لینے کی وجہ سے 1922ء میں تیسری مرتبہ دو سال کے لئے قید ہوگئی۔ 1935ء میں اردوئے معلی پھر جاری کیا۔ 1936ء میں مسلم لیگ کی نظم جدید سے وابستہ ہوگئے۔ تقسیم ہند کے بعد حسرت ہندوستان ہی میں رہے اور وہاں کے مسلمانوں کا سہارا بنے رہے۔ ان کے نظریات عجیب و غریب تھے۔ ایک طرف وہ سوشلزم کے قائل تھے۔ دوسری جانب ان کی زندگی ایک مرد مومن کی زندگی تھی۔ ان کا ظاہر و باطن یکساں تھا ۔ وہ حق بات کہنے میں کبھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے تھے۔

    اُن کی تصانیف میں اپنے کلیات کے علا وہ دیوان غالب کی شرح بے حد مقبول ہوئی۔ مولانا حسرت موہانی کا انتقال 13 مئی 1951ء کو لکھنؤ میں ہوا۔

    نقاد اور ماہر لسانیات گوپی چند نارنگ لکھتے ہیں کہ نیاز فتح پوری نے جنوری ۱۹۵۲ء میں سات آٹھ ماہ کے اندر اندر نگار کا ’’حسرت نمبر‘‘ ان کی یاد کے شایان شان شائع کر دیا۔ نیاز نے اس نمبر کے لیے اس زمانے کی تمام بڑی شخصیتوں سے مضامین لکھوائے، مثلاً، مجنوں گورکھپوری، رشید احمد صدیقی، فراق گورکھپوری، آل احمد سرور، احتشام حسین، عبادت بریلوی، کشن پرشاد کول اور خواجہ احمد فاروقی۔ خود نیاز نے اس یادگار نمبر میں پانچ حصے قلم بند کیے اور تذکرۂ حسرت اور انتخاب کلام حسرت کے علاوہ ’’حسرت کی خصوصیات شاعری‘‘ کے عنوان سے جامع مضمون بھی لکھا۔

    واقعات جنگِ آزادی ۱۸۵۷ء کے بعد حسرت موہانی اردو شاعروں میں شاید پہلے سیاسی قیدی تھے۔ وہ واقعہ جس پر انھیں قید بامشقت کی سزا ہوئی تھی اب تاریخ کا حصہ ہے۔ ۱۹۰۸ء میں رسالہ اردوئے معلیٰ میں ایک مضمون مصر کے نامور لیڈر مصطفی کمال کی موت پر شائع ہوا جس میں مصر میں انگریزوں کی پالیسی پر بے لاگ تنقید تھی۔ یہ مضمون انگریز سرکار کی نظر میں قابل اعتراض ٹھہرا۔ بقول سید سلیمان ندوی، ’’علی گڑھ کی سلطنت میں بغاوت کا یہ پہلا جرم تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ علی گڑھ کالج کی حرمت کو بچانے کے لیے کالج کے بڑے بڑے ذمہ داروں نے حسرت کے خلاف گواہی دی۔ یہاں تک کہ نواب وقار الملک نے بھی مضمون کی مذمت کی۔ حسرت کو دو برس کی قید سخت کی سزا ہوئی۔ ان کا کتب خانہ اور پریس پولیس کے ظلم وستم کی نذر ہو گیا۔‘‘

    اس سانحے کا دلچسپ پہلو جس سے حسرت کے کردار کا اندازہ ہوتا ہے، یہ ہے کہ مضمون حسرت کا نہ تھا۔ مضمون پر کسی کا نام نہیں تھا۔ باوجود اصرار کے حسرت نے اس کے لکھنے والے کا نام نہیں بتایا۔

    حسرت کا یہ شعر بہت مشہور ہے

    ہے مشق سخن جاری، چکی کی مشقت بھی
    اک طرفہ تماشا ہے، حسرت کی طبیعت بھی

  • احمد سنجر: آخری سلجوق سلطان جس کی آواز پر مسلمان حکم راں اکٹھے ہوئے

    احمد سنجر: آخری سلجوق سلطان جس کی آواز پر مسلمان حکم راں اکٹھے ہوئے

    عالمِ اسلام میں سلطان احمد سنجر کو خاص اہمیت حاصل ہے اور تاریخ ان کو ’’سلطانِ اعظم‘‘ کے لقب سے یاد کرتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زوالِ دولتِ عباسیہ کے بعد سلطان احمد سنجر نے ہی آخری مرتبہ اسلامی ریاستوں‌ کو یک جا و بہم کیا تھا۔

    سلطان سنجر کی شان و شوکت اور عظمت و سطوت بھی ضربُ المثل تھی۔ ان کی سلطنت مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیا کے علاقوں تک پھیلی ہوئی تھی اور عباسی اقتدار کے خاتمے کے بعد اسی کے زیرِ سایہ مسلمانانِ عالم اکٹھے ہوئے تھے۔ تاریخ دانوں کے نزدیک یہ اس سلجوق حکم راں کا وہ کارنامہ ہے جس نے عالمِ اسلام میں‌ ان کی عزّت و توقیر میں‌ اضافہ کیا۔

    سلجوقی سلطنت یا سلاجقۂ عظام دراصل 11 ویں تا 14 ویں صدی عیسوی کے درمیان ایک مسلم بادشاہت تھی اور یہ نسلاً اوغوز ترک تھے۔ سلطان سنجر اسی سلجوق خاندان میں سے چھٹے حکم راں تھے جن کا نام تاریخ میں امتیازی حیثیت میں درج ہوا۔ بعد کے برسوں میں چشمِ فلک نے سلجوقیوں کا بھی زوال دیکھا اور اسی کے ساتھ مسلم ریاستیں بھی سیاسی ابتری اور انتشار کا شکار ہوگئیں۔ یہ وہ دور تھا جس میں یورپ کی عیسائی طاقتوں نے سر اٹھایا اور مسلمانوں کی صفوں میں انتشار کا فائدہ اٹھانے کے لیے ان کے خلاف متحد ہوگئیں۔ یہاں تک کہ صلیبی جنگ شروع ہوئی اور بیتُ المقدس پر ان کا قبضہ ہوگیا۔

    سلطان سنجر کی شان و شوکت کا تذکرہ شاعرِ مشرق علّامہ اقبال نے بھی اپنی ایک نظم میں‌ کیا ہے۔ اقبال نے انھیں اپنے اشعار میں یوں‌ سراہا ہے:

    شوکتِ سنجر و سلیم تیرے جلال کی نمود!
    فقرِ جنیدؔ و با یزیدؔ تیرا جمال بے نقاب!
    عجب نہیں کہ مسلماں کو پھر عطا کر دیں
    شکوہِ سنجر و فقرِ جنیدؒ و بسطامیؒ

    8 مئی 1157ء کو سلطان احمد سنجر دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ قدیم خراسان کے شہر مرو میں سلطان کا مقبرہ آج بھی موجود ہے، لیکن اب یہ علاقہ ترکمانستان کا حصّہ ہے۔ بعض تاریخی کتب میں لکھا ہے کہ 1221ء میں تولوئی خان کی سرکردگی میں منگولوں نے جب اس شہر پر حملہ کیا تو سلطان احمد سنجر کے مقبرے کو بھی نقصان پہنچا تھا۔ تاریخ کی کتب میں سلطان سنجر کی فوجی مہّمات کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ تقریباً‌ ہر معرکہ میں فاتح ٹھہرے، اور ان کی سلطنت خراسان، غزنی اور دریا کے پار عراق، آزربائجان، آرمینیا، شام، موصل اور گرد و نواح تک پھیل گئی تھی۔ تاریخ دان ابن خلقان نے سنجر کے بارے لکھا ہے کہ وہ انتہائی طاقت ور بادشاہ تھے اور سلجوقیوں میں سب سے زیادہ نرم مزاج اور سخی تھے۔ الذہبی کہتے ہیں کہ سلطان سنجر ایک باوقار، زندہ دل، سخی اور شفقت کرنے والا سلطان تھا۔

    مؤرخین لکھتے ہیں‌ کہ منگول سپاہیوں نے سلطان کے مقبرے کو آگ لگا دی تھی، مگر اس کا بڑا حصّہ جلنے سے محفوظ رہا تھا۔ اس مزار کے طرزِ‌ تعمیر کی ایک انفرادیت اس کے 27 میٹر بلند گنبد کے اوپر تعمیر کردہ وہ بیرونی گنبد تھا جس کی وجہ سے اسے دہرے گنبد والی عمارت کہا جاسکتا ہے۔ اس کے گرد ایک مسجد، کاروان سرائے، بازار اور دیگر مقابر کے آثار بھی ملے ہیں اور اس بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ قدیم دور میں یہ مقام آباد تھا اور یہاں آنے والوں کی بڑی تعداد مزار پر بھی فاتحہ خوانی کے لیے آتی ہوگی۔

    سلجوق خاندان کے اس چھٹے سلطان کا نام اور ان کے کنیت و القاب ابو الحارث، سنجر بن ملک شاہ اوّل، بن الپ ارسلان بن داؤد بن میکائیل بن سلجوق بن دقاق درج ہیں۔ وہ 1086ء میں اس دور کے عراق کے ایک علاقہ میں پیدا ہوئے تھے ان کی وفات کے بعد داؤد بن محمود سلجوقی تخت نشیں ہوا، لیکن محققین سمجھتے ہیں کہ احمد سنجر کے ساتھ ہی سلاجقہ کا زور بھی ٹوٹ گیا تھا اور ان کی حکومت جاتی رہی تھی۔

  • سلطان محمد ثانی: فاتح قسطنطنیہ کا تذکرہ

    سلطان محمد ثانی: فاتح قسطنطنیہ کا تذکرہ

    سلطان محمد ثانی کو فتحِ قسطنطنیہ کے سبب جو امتیاز حاصل ہوا، وہ سلطنتِ عثمانیہ کے حکم رانوں‌ میں کسی کا مقدر نہیں بنا۔ عالمِ اسلام میں اس فتح کے بعد ان کو بے پناہ عزّت، احترام اور مقام دیا گیا۔ انھیں آج بھی سلطان محمد فاتح کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس فتح کے ساتھ ہی صدیوں پرانی بازنطینی سلطنت کا خاتمہ ہوگیا تھا۔ آج سلطان محمد فاتح کا یومِ وفات ہے۔

    فتحِ قسطنطنیہ وہ خواب تھا جس کے لیے مسلمانوں کو سات سو سال انتظار کرنا پڑا اور اس عرصہ میں متعدد فوجی مہمّات اور لشکر کشی کی کوششیں ناکام ہوگئی تھیں‌ سلطان محمد فاتح کی قیادت میں اس فتح نے جہاں ترکوں‌ کی سلطنت اور اقتدار کو توقیر اور وسعت بخشی وہیں‌ 1480ء برس تک قائم رہنے والا اقتدار زوال پذیر ہوگیا۔ یہ فتح مسلمانوں اور عیسائیوں کے لیے مذہبی، سیاسی اور معاشرتی طور پر نہایت گہرے اثرات کی حامل تھی جس میں‌ ایک طرف مسلمانوں‌ میں‌ خوشی اور دوسری طرف صلیبیوں‌ کو بڑا صدمہ پہنچا۔

    3 مئی 1481ء کو محمد فاتح انتقال کر گئے تھے۔ انھیں‌ استنبول میں فاتح مسجد کے احاطے میں سپرد خاک کیا گیا۔ سلطان صرف اپنی فتوحات کی وجہ سے مشہور نہیں ہیں بلکہ انتظامِ سلطنت اور اپنی قابلیت کے باعث بھی جانے جاتے ہیں۔ ان کا دورِ حکومت رواداری اور برداشت کے لیے مشہور رہا۔ 1432ء میں ادرنہ میں‌ پیدا ہونے والے محمد ثانی نے نوجوانی میں‌ سلطنت سنبھالی اور عثمانی فوج کی قیادت کرتے ہوئے محض 21 سال کی عمر میں‌ 1453ء میں قسطنطنیہ فتح کیا جسے آج استنبول کہا جاتا ہے۔ عثمانی فوج کا کئی روزہ محاصرہ اور گولہ باری کے بعد اس فتح کو اُس وقت شہر میں موجود اطالوی طبیب نکولو باربیرو نے یوں‌ بیان کیا کہ سفید پگڑیاں باندھے ہوئے حملہ آور جاں نثار دستے ’بے جگری سے شیروں کی طرح حملہ کرتے تھے اور ان کے نعرے اور طبلوں کی آوازیں ایسی تھیں جیسے ان کا تعلق اس دنیا سے نہ ہو۔’

    اس روز فتح کے بعد جب سلطان محمد شہر میں‌ داخل ہوئے تو وہ سفید گھوڑے پر بیٹھے ہوئے تھے اور ان کا لشکر مع وزراء اور عمائد سب سے بڑے گرجا آیا صوفیہ پہنچا جہاں سلطان نے صدر دروازے پر اتر کر ایک مٹھی خاک اپنی پگڑی پر ڈالی اور بعد میں اسے مسجد میں‌ تبدیل کر دیا گیا۔ اس فتح کے بعد عثمانی سلطنت اپنے بامِ عروج پر پہنچی اور ترکوں نے اگلی چار صدیوں تک تین براعظموں، ایشیا، یورپ اور افریقہ کے مختلف حصّوں پر حکومت کی۔

    محمد فاتح سلطنتِ عثمانیہ کے ساتویں سلطان تھے۔ انھوں نے اپنے دور حکومت میں اینز، گلاتا اور کیفے کے علاقے عثمانی سلطنت میں شامل کیے جب کہ محاصرۂ بلغراد میں بھی حصہ لیا جہاں وہ شدید زخمی ہوگئے تھے۔ 1458ء میں ان کی سلطنت میں موریا کا بیشتر حصّہ اور ایک سال بعد سربیا شامل ہوا۔ 1461ء میں اور اس کے بعد کئی علاقے ترکوں‌ کے زیرِ نگیں‌ ہوئے۔

    محمد ثانی کی پیدائش کے وقت ادرنہ سلطنتِ عثمانیہ کا دارُالحکومت تھا۔ ان کے والد سلطان مراد ثانی اور والدہ کا نام ہما خاتون تھا۔ وہ 11 سال کے تھے جب انھیں اماسیہ بھیج دیا گیا، جہاں محمد ثانی نے حکومت اور انتظامی امور کے ساتھ فنون سیکھے اور تربیت حاصل کی۔ 1451ء میں اپنے والد سلطان مراد ثانی کی وفات کے بعد سلطان محمد ثانی نے دوسری مرتبہ تخت سنبھالا اور سلطنتِ عثمانیہ کو دنیا بھر میں عظمت اور امتیاز عطا کیا۔

    اناطولیہ اور پھر قسطنطنیہ کی فتوحات کے بعد اسے اپنا دارُ الحکومت قرار دے کر محمد ثانی نے یورپ کی طرف پیش قدمی کی اور کئی کام یاب مہمّات کے علاوہ چند علاقوں‌ میں‌ شکست بھی ہوئی، لیکن ان کے دور میں‌ عثمانی سلطنت کا رقبہ خاصا وسیع ہوگیا تھا۔

    کہا جاتا ہے کہ سلطان علما، اور ہنر مندوں کے بڑے سرپرست تھے۔ انھوں نے قسطنطنیہ کی فتح کے بعد اٹلی کے مصوروں اور یونانی دانشوروں کو اپنے دربار میں‌ بلایا اور سب کو اس شہر میں‌ بسنے کی اجازت دی اور بلاتفریق علم و فنون میں‌ یکتا اور قابل شخصیات کو نوازا۔ ان میں سائنس دان، ادیب اور ہنرمند سبھی شامل تھے۔ ان کا دور رواداری اور برداشت کا دور سمجھا جاتا ہے جس میں مفتوح بازنطینیوں کے ساتھ نیک اور مثالی سلوک کیا گیا۔ اس دور میں مسیحیوں اور یہودیوں کو ہر قسم کی آزادی اور خود مختاری حاصل تھی۔

  • جوزف گوئبلز: ہٹلر کا وہ ساتھی جو جھوٹ اور افواہیں پھیلانے کا ماہر تھا

    جوزف گوئبلز: ہٹلر کا وہ ساتھی جو جھوٹ اور افواہیں پھیلانے کا ماہر تھا

    جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ میں بدل دینے میں گوئبلز کو گویا ملکہ حاصل تھا وہ جرمنی میں نازی دور میں ہٹلر کا ‘وزیر برائے پروپیگنڈا’ مشہور ہوا۔ گوئبلز نے بھی ہٹلر کی موت کے اگلے روز اپنی زندگی ختم کر لی تھی۔

    یہ یکم مئی 1945ء کی ایک شام تھی۔ ایک ڈاکٹر نے گوئبلز کے چھے بچّوں، ہیلگا، ہلڈا، ہیلمٹ، ہولڈے، ہیڈا اور ہیڈے کو مارفین دی تاکہ انھیں نیند آجائے۔ ان بچوں کی عمریں چار سے 12 سال کے درمیان تھیں۔ بعد میں گوئبلز کی بیوی نے ہائیڈروجن سائینائڈ کے قطرے ان بچّوں کے حلق میں اتار دیے اور وہ سب ابدی نیند سو گئے۔ گوئبلز ایک بنکر میں‌ اپنی بیوی میگڈا کا منتظر تھا۔ یہ کام انجام دے کر وہ بنکر پہنچی اور رات کو ساڑھے آٹھ بجے اس جوڑے سائینائڈ کا کیپسول چبا لیا اور اپنے انجام کو پہنچ گئے۔

    ہٹلر کی کام یابیوں میں گوئبلز کے پروپیگنڈے کا بڑا دخل تھا۔ 30 اپریل کو ہٹلر کی موت کے بعد اس کے وزیر گوئبلز کی بیوی میگڈا گوئبلز نے اپنے پہلے شوہر سے پیدا ہونے والے اپنے بیٹے کو ایک خط ارسال کیا جس میں بتایا گیا تھا کہ وہ اپنے موجودہ شوہر یعنی گوئبلز کے ساتھ اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے جارہی ہے جس سے قبل وہ اپنے بچّوں کو بھی زہر دے گی۔

    سیاست اور جمہوریت کی تاریخ‌ میں جوزف گوئبلز بہت بدنام ہے۔ وہ ایک ایسا بااثر جرمن وزیر تھا جس نے نازی دور میں‌ جرمنی کے عوام کو ہٹلر کی حکومت اور اس کی پالیسیوں کی حمایت کرنے پر قائل کیا۔ گوئبلز نے کئی جھوٹ گھڑے اور مخصوص فضا بنانے کے لیے بے بنیاد باتیں‌ مشہور کیں۔ وہ باتیں جن کی کوئی حقیقت نہ تھی۔ وہ ہٹلر کو جرمن قوم کا نجات دہندہ ثابت کرنے کے لیے فرضی واقعات اور ایسی باتیں مشہور کرتا تھا جو لوگوں کے ذہن پر ہٹلر اور نازی حکومت کا اچھا اثر چھوڑیں اور حکومت کے من چاہے، ظالمانہ اقدامات پر اندرونِ ملک بے چینی اور اضطراب جنم نہ لے۔ جوزف گوئبلز نے عوام میں یہودیوں کے خلاف نفرت کو بڑھایا جب کہ جرمنوں میں ہٹلر کی قیادت پر فخر اور بحیثیت قوم ان میں دوسری اقوام پر برتری کا احساس اجاگر کیا۔

    جوزف گوئبلز 29 اکتوبر 1897 کو فریڈرک گوئبلز کے گھر پیدا ہوا۔ اس کا باپ کیتھولک عقیدے کا حامل تھا اور ایک فیکٹری میں بطور کلرک کام کرتا تھا۔ گوئبلز کی ماں کا نام کیتھرینا ماریا اوڈن تھا۔ گوئبلز اس جوڑے کی پانچ اولادوں میں‌ سے ایک تھا۔ بچپن میں پولیو وائرس سے متأثر ہونے کے بعد گوئبلز لنگڑا کر چلنے پر مجبور تھا۔ ابتدائی تعلیمی مراحل طے کرنے کے بعد گوئبلز نے 1920 میں ہائیڈلبرگ یونیورسٹی سے جرمن ادب کی تعلیم مکمل کی۔ وہ قوم پرست نوجوان تھا۔ زمانۂ طالب علمی میں سوشلسٹ اور کمیونسٹ فکر نے گوئبلز کو جکڑا تو جوانی میں وہ اینٹی بورژوا ہوگیا، لیکن نازی پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے کے بعد اس کے اندر قومی تفاخر اور جرمن ہونے کے ناتے احساسِ برتری پیدا ہوگیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس سے قبل وہ اپنے یہودی اساتذہ کی بڑی قدر کرتا تھا اور اس کے دل میں‌ کسی کے لیے نفرت نہیں‌ تھی۔ پہلی عالمی جنگ چھڑی تو گوئبلز کو فوج میں بھرتی ہونے سے بچ گیا کیوں کہ وہ پولیو کا شکار تھا۔ 1931ء میں اس کی شادی میگڈا رِٹشل نامی ایک امیر گھرانے کی لڑکی سے ہوگئی اور وہ چھے بچّوں کا باپ بنا۔

    نازی پارٹی کا رکن بن کر جوزف گوئبلز نے اپنی صلاحیتوں اور نازی کٹّر پن کی وجہ سے اعلیٰ‌ قیادت کی توجہ حاصل کر لی۔ وہ ایک اعلیٰ پائے کا مقرر تھا جس نے پارٹی میں اس کی ترقی کا راستہ بنایا۔ گوئبلز کو کئی اہم ذمہ داریاں سونپی گئیں اور وہ ان سے بخوبی نمٹتا رہا۔ اس کی مستقل مزاجی، لگن اور صلاحیتوں نے اسے ہٹلر کے قریب کر دیا۔ نازی حکم راں گوئبلز کی تحریر کردہ تقاریر عوام کے سامنے پڑھنے لگا اور اس کی مقبولیت بڑھتی چلی گئی۔ سچ جھوٹ، صحیح اور غلط سے ہٹلر کو کچھ غرض نہ تھی بلکہ وہ پراپیگنڈا پر گوئبلز کی گرفت اور فن تقریر نویسی میں اس کی مہارت سے بہت متاثر تھا۔ یہی وجہ تھی کہ 1926 میں ہٹلر نے گوئبلز کو برلن میں نازی پارٹی کا ضلعی راہ نما مقرر کر دیا۔ جب نازی برسرِ اقتدار آئے تو ہٹلر نے ایک وزارت قائم کی جسے ’چیمبر آف کلچر‘ کی شکل میں عامل بناتے ہوئے گوئبلز کو اس کا سربراہ بنا دیا۔ یہ وزارت پریس اور ادب و فنون کے شعبہ جات کو مکمل طرح‌ سے کنٹرول کرتی رہی اور اسی کے سہارے عوام کی ذہن سازی کی جانے لگی۔ گوئبلز کی کوششوں سے ملک میں نازی ازم کو فروغ اور پذیرائی نصیب ہوئی جب کہ یہودیوں‌ سے نفرت زور پکڑ گئی۔ گوئبلز نے ریڈیو اور فلم کے ذریعے ہٹلر کو نجات دہندہ بنا کر پیش کیا اور اپنی مخالف جماعتوں اور گروہوں کے خلاف اور ہٹلر کے حق میں رائے عامّہ ہموار کی۔

    یہ گوئبلز ہی تھا جس نے 1932ء میں ہٹلر کی صدارتی انتخابی مہم جدید انداز سے چلائی۔ لیکن ہٹلر انتخابات ہار گیا۔ اس کے باوجود جرمن پارلیمان میں نازی پارٹی کی نمائندگی میں اضافہ ہوا اور وہ سب سے بڑی جماعت بن گئی۔ جرمنی میں مخلوط حکومت کے قیام کے بعد ہٹلر کو چانسلر مقرر کیا گیا اور 35 سال کی عمر میں گوئبلز کابینہ میں سب سے کم عمر وزیر کے طور پر شامل تھا۔

    1937ء اور 1938ء میں گوئبلز کا اثر و رسوخ مختلف وجوہات کی بنا پر کچھ کم ہو گیا تھا۔ لیکن وہ آخری وقت تک ہٹلر کے ساتھ رہا۔ ہٹلر اور اس کا دستِ راست سمجھا جانے والا گوئبلز اپنی زندگی کا خاتمہ کرکے اس دنیا کے کئی راز ہمیشہ کے لیے منوں‌ مٹی تلے اپنے ساتھ لے گئے۔