Tag: مئی برسی

  • یومِ وفات:‌ امیر اللہ تسلیم کے اشعار کو ضربُ‌ المثل کا درجہ حاصل ہے

    یومِ وفات:‌ امیر اللہ تسلیم کے اشعار کو ضربُ‌ المثل کا درجہ حاصل ہے

    تسلیم، اردو زبان کے ان شعراء میں سے ہیں جن کے کئی اشعار کو ضرب المثل کا درجہ حاصل ہے۔ اپنے زمانے میں تسلیم نے نہ صرف اپنے کلام کی بدولت نام پایا بلکہ وہ ایک وضع دار، مشرقی روایات کے دلدادہ اور رکھ رکھاؤ والے انسان مشہور تھے جن کی زندگی عسرت اور تنگی میں بسر ہوئی۔

    تسلیم نے لکھنوی ماحول میں آنکھ کھولی تھی۔ اگرچہ ان کے حالاتِ زندگی بہت کم دست یاب ہیں‌، لیکن سنہ پیدائش 1819ء بتایا جاتا ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہر طرف شعر و سخن کا چرچا تھا۔ لکھنؤ میں ادنیٰ سے اعلیٰ تک ہر کوئی باذوق اور ادب کا شائق۔ اس ماحول میں‌ تسلیم بھی تہذیب کا مرقع اور دین دار شخصیت کے طور پر مشہور ہوئے۔ عربی اور فارسی کی کتابیں‌ انھوں‌ نے اپنے والد اور بھائی سے گھر پر پڑھی تھیں۔

    تسلیم کی زندگی بڑی مشکل تھی۔ مالی مسائل اور تکالفی ان کا مقدر بنی رہیں، لیکن افلاس اور تنگ دستی کے باوجود صبر شکر ان کا وظیفہ رہا۔ ادبی تذکروں میں‌ آیا ہے کہ کبھی امیر اللہ تسلیم کو کسی شاگرد نے بیزاری سے بات کرتے اور کسی کو جھڑکتے نہیں‌ دیکھا۔ وہ ہمیشہ مخاطب کی دل جوئی کرتے اور شاگردوں کو وقت اور توجہ دیتے تھے۔ پہلی بیوی کی وفات کے بعد تسلیم نے دوسری شادی کی تھی۔ نماز روزے کے پابند تھے اور دینی امور کا بہت خیال رکھتے تھے۔

    احمد حسین ان کا نام رکھا گیا تھا، لیکن امیر اللہ کے نام سے مشہور ہوئے اور شاعری میں تسلیم تخلّص اختیار کیا۔ منگلیسی، فیض آباد کا نواحی علاقہ تھا جہاں وہ پیدا ہوئے۔ تسلیم نے شاعری کے ساتھ فنِ خوش نویسی میں کمال حاصل کیا۔ وہ فنِ‌ خوش نویسی میں‌ استاد مشہور تھے۔ اصغر علی نسیم کے شاگرد ہوگئے جو اپنے دور کے ایک استاد شاعر گزرے ہیں۔ تسلیم کے والد محمد علی شاہ کے عہد میں فوج میں ملازم تھے۔ انھوں نے اپنی پیرانہ سالی میں درخواست کی تھی کہ ان کی جگہ بیٹے احمد حسین یعنی تسلیمؔ کو رکھ لیا جائے اور یہ درخواست قبول کرلی گئی۔ سو، تسلیم ایک پلٹن میں شامل ہوئے جسے واجد علی شاہ کے عہد میں ایک واقعے کے بعد ختم کر دیا گیا۔ تسلیم فارغ کیے جانے کے بعد شعرائے شاہی کے زمرے میں داخل ہو کر 30 روپیہ ماہوار پانے لگے۔ گزر بسر کا یہ سلسلہ زوالِ سلطنت کے ساتھ ہی ٹوٹ گیا۔

    تسلیم نے رام پور کا رخ کیا تاکہ وہاں‌ انھیں کوئی ملازمت مل جائے اور زندگی کی گاڑی کھینچ سکیں۔ لیکن نامراد لکھنؤ لوٹ آئے۔ یہاں انھوں‌ نے نول کشور کے مطبع میں نوکری کی کوشش کی اور کام یاب ہوئے۔ بعد میں نواب علی خاں نے ریاست کا انتظام سنبھالا تو تسلیم کو رام پور طلب کرلیا جہاں وہ ڈپٹی انسپکٹر، مدارس مقرر ہوئے۔ تسلیم کو ازراہِ قدر دانی آخری وقت تک پینشن ملتی رہی۔

    فنِ شاعری میں‌ ان کے استاد نسیم دہلوی تھے۔ تسلیم کو اپنے استاد سے بہت عقیدت اور لگاؤ رہا اور ان کی بڑی عزّت کرتے تھے۔ ان کے فیوض و برکات کا تذکرہ بھی تسلیم نے بہت شدّت سے کیا ہے۔ ایک روایت ہے کہ نسیم نے خواب دیکھا کہ وہ کسی عمیق کنویں سے پانی بھر رہے ہیں اور ڈول اس قدر گراں ہے کہ کھینچا نہیں‌ جاتا، تب انھوں نے اپنے شاگرد تسلیم کو پکارا کہ تم جا کر اس کو کھینچ لو۔ تسلیم آگے بڑھے اور ڈول کھینچ لیا۔ اس پر ان کے استاد نسیم دہلوی نے کہا کہ یہ کنواں‌ اس دشوار فن سے تعلق رکھتا ہے۔

    امیر اللہ تسلیم 28 مئی 1911ء کو لکھنؤ میں وفات پاگئے تھے۔ ان کے تین دیوان اور متعدد مثنویاں یادگار ہیں۔ مولانا حسرت موہانی انہی کے ایک مشہور اور قابل شاگرد تھے۔

  • مجتبیٰ‌ حسین:‌ اردو کے معروف ادیب اور مزاح نگار

    مجتبیٰ‌ حسین:‌ اردو کے معروف ادیب اور مزاح نگار

    مجتبیٰ حسین اردو کے ممتاز ادیب اور مشہور مزاح نگار تھے۔ ان کی تحریریں شگفتہ ہی نہیں رمزیت اور برجستگی کا نمونہ ہیں۔ مجتبیٰ حسین نے انشائیے بھی لکھے جنھیں طنز و مزاح کی آمیزش کے سبب بہت پسند کیا گیا۔

    بھارت کے ممتاز ادیب اور مزاح نگار مجتبیٰ حسین کا ادبی سفر چار دہائیوں‌ پر محیط ہے، وہ 27 مئی 2020ء کو انتقال کرگئے تھے۔ مجتبیٰ حسین 15 جولائی 1936ء کو گلبرگہ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی اور 1956ء میں عثمانیہ یونیورسٹی سے گریجویشن کیا۔ نوجوانی سے ہی طنز و مزاح کی جانب مائل ہوگئے تھے اور حیدرآباد دکن کے روزنامہ سیاست سے وابستگی کے دوران انھوں نے اپنے ادبی سفر کا آغاز کیا۔ بعد ازاں محکمۂ اطلاعات میں ملازمت اختیار کرلی اور پھر دلّی میں مختلف محکموں میں ملازمت کے بعد 1992ء میں ریٹائر ہوگئے۔ ان کا قیام حیدرآباد دکن میں رہا۔

    مجتبیٰ حسین کے یہاں طنز کا پہلو کم دیکھنے کو ملتا ہے۔ ان کا موضوع نوعِ انسانی ہے۔ واقعہ نگاری اور مرقع کشی میں ان کا کمالِ فن عروج پر نظر آتا ہے۔ انھوں نے اپنے مشاہدے کی مدد سے مختلف واقعات کے مضحک پہلوؤں کو اپنی تحریروں میں نہایت خوب صورتی سے اجاگر کیا اور قارئین میں‌ ان کے مضامین اور انشائیے مقبول ہوئے۔ سماج کے مختلف طبقات اور شعبہ ہائے حیات سے متعلق افراد کے طرزِ زندگی، ان کے مسائل اور ان کے مخصوص رویوں، عادات پر ان کی تحریروں کو کتابی شکل میں بہت پذیرائی ملی۔

    سماج ہی نہیں‌ سیاست اور اس کے بطن سے پھوٹنے والے ہنگامے بھی ان کی نظر میں‌ رہے۔ مجتبیٰ حسین کی ایک تحریر سے یہ پارہ ملاحظہ کیجیے۔ ’’اگر آپ خالص فسادات دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر ہندوستان ہی جائیے۔ یہاں کے فسادات اتنے خالص ہوتے ہیں کہ ان میں کہیں بھی انسانیت کی ملاوٹ نہیں ہوتی۔ اس صفائی سے انسانوں کے سر کاٹے جاتے ہیں اور ان کے جسموں میں چھرے بھونک دیے جاتے ہیں کہ عقل حیران اور نظر دنگ رہ جاتی ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ فرقہ وارانہ فساد ہندوستان کا بڑا قدیم کھیل ہے۔‘‘

    بہرحال، بالآخر اور الغرض ان کے طنزیہ و مزاحیہ مضامین اور انشائیوں کے مشہور مجموعے ہیں۔ انھوں نے سفر نامے بھی تحریر کیے اور کالم بھی لکھے جو بہت مقبول ہوئے، قصہ مختصر، آدمی نامہ، جاپان چلو جاپان چلو اور کئی کتابوں کے مصنّف مجتبیٰ حسین کو ان کی تخلیقی کاوشوں اور ادبی خدمات کے اعتراف میں متعدد انعامات اور اعزازات سے نوازا گیا تھا۔

  • شاہد احمد دہلوی:‌ اردو کا صاحبِ طرز ادیب

    شاہد احمد دہلوی:‌ اردو کا صاحبِ طرز ادیب

    اردو کے صاحبِ طرز ادیب شاہد احمدد ہلوی نے خاکہ نگاری، تذکرہ نویسی اور تراجم کے ساتھ ادبی صحافت میں بھی نام پیدا کیا۔ وہ ایک جید موسیقار بھی تھے۔ 27 مئی 1967ء کو وفات پانے والے شاہد احمد دہلوی نے کئی کتابیں یادگار چھوڑیں اور دہلی کی با محاورہ زبان اور اس کا چٹخارہ ان کے اسلوب کا خاصہ ہے۔ آج شاہد احمد دہلوی کی برسی ہے۔

    شاہد احمد دہلوی کا تعلق ایک ایسے علمی و ادبی گھرانے سے تھا جس نے اردو ادب کو اپنی نگارشات کی صورت میں مالا مال کیا۔ وہ اردو کے نام وَر ادیب اور مشہور ناول نگار ڈپٹی نذیر احمد کے پوتے اور معروف ادیب مولوی بشیر الدین احمد کے فرزند تھے۔ شاہد احمد دہلوی 1906ء میں دہلی میں‌ پیدا ہوئے۔ وہ ایک خوش حال گھرانے کے فرد تھے۔ تعلیم و تربیت کے مراحل طے کرتے ہوئے جس علمی و ادبی ماحول میں‌ ان کی پرورش ہوئی، اس نے شاہد احمد دہلوی کو بھی لکھنے لکھانے پر آمادہ کیا۔ موسیقی سے انھیں عشق تھا اور لکھنا پڑھنا ان کا بہترین مشغلہ۔

    شاہد احمد دہلوی مشہور ادبی مجلّہ ’’ساقی‘‘ کے مدیر تھے۔ دہلی کی بامحاورہ زبان پر ان کی جو گرفت تھی وہ انھیں ہم عصروں میں ممتاز کرتی ہے۔ ان کی دو کتابیں ’’دہلی کی بپتا‘‘ اور ’’اجڑا دیار‘‘ اس اسلوب میں ان کی انفرادیت کی مثال ہیں۔ جہاں تک فن موسیقی کا تعلق ہے تو عوام الناس کی اکثریت ان کی زندگی کے اس گوشے سے روشناس نہیں۔ شاہد احمد دہلوی جہاں اردو کے ایک فقید المثال ادیب تھے، وہاں وہ کلاسیکی موسیقی کے ایک جید عالم اور عامل بھی تھے۔ انہیں بچپن ہی سے موسیقی سے لگاؤ تھا۔ میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد انہوں نے کلاسیکی موسیقی کی باقاعدہ تربیت حاصل کرنا شروع کر دی۔ ان کے پہلے استاد پنڈت لکشمن پرشاد تھے۔ ان کے بعد انہوں نے برصغیر کے عہد ساز اور نابغہ روزگار سارنگی نواز استاد بندو خاں کے برادر نسبتی استاد چاند خاں دہلوی سے موسیقی کی تعلیم حاصل کی۔ 1937ء میں شاہد احمد دہلوی نے ایس۔ احمد کے نام سے کلاسیکی گائیک کی حیثیت سے آل انڈیا ریڈیو دہلی کے پروگراموں میں شرکت کرنا شروع کر دیا اور 1947ء تک وہ مسلسل موسیقی کے پروگراموں میں حصہ لیتے رہے۔

    شاہد احمد دہلوی نے رسالہ ’’ساقی‘‘ 1930ء میں دہلی سے جاری کیا تھا اور 1947ء میں ہجرت کر کے پاکستان آئے تو یہاں دوبارہ اسی پرچے کا آغاز کیا۔ 1959ء میں پاکستان رائٹرز گلڈ بنی تو شاہد احمد دہلوی کی کوششیں بھی اس میں شامل تھیں۔ وہ ترقّی پسند تحریک میں شامل رہے اور خوب کام کیا۔ انھوں نے انگریزی کی متعدد کتب اردو زبان میں منتقل کیں۔ ان میں‌ کہانیاں اور بچّوں کی تعلیم و تربیت سے متعلق کتب اور مضامین بھی شامل ہیں جو ہر لحاظ سے اہم ہیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد کراچی آئے تو ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہو گئے تھے، جہاں ایس احمد کے نام سے موسیقی کے پروگرام پیش کیے۔ شاہد احمد دہلوی نے موسیقی کے موضوع پر بھی لاتعداد مضامین رقم کیے جن کا مجموعہ’’ مضامینِ موسیقی‘‘ کے نام سے اشاعت پذیر ہوا۔ ان کے خاکوں کا پہلا مجموعہ ’’گنجینۂ گوہر‘‘ 1962ء میں شایع ہوا اور ’’بزمِ خوش نفساں‘‘ اور ’’طاقِ نسیاں‘‘ ان کی وفات کے بعد منظرِ عام پر آئے۔ ’’دِلّی جو ایک شہر تھا‘‘ اور ’’چند ادبی شخصیتیں‘‘ ان کی دو اہم کتابیں ہیں اور کئی تراجم ان کی زبان دانی اور قابلیت کا نمونہ ہیں۔

    حکومت پاکستان نے شاہد احمد دہلوی کو ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں صدارتی اعزاز برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

  • سڈنی پولک: بڑا فن کار، بڑا آدمی

    سڈنی پولک: بڑا فن کار، بڑا آدمی

    ’سڈنی ایک ایسے شخص تھے جس نے اس دنیا کو ایک بہتر دنیا بنایا۔‘ مشہور امریکی اداکار جارج کلونی نے یہ الفاظ آسکر ایوارڈ یافتہ ہدایت کار، پروڈیوسر اور اداکار سڈنی پولک کے انتقال پر ادا کیے تھے۔

    عالمی شہرت یافتہ سڈنی پولک کو فلم کے پردے سماجی اور سیاسی مسائل کو اجاگر کرنے پر نہ صرف لوگوں نے بہت سراہا بلکہ ان کی عزّت اور وقار میں بھی اضافہ ہوا۔ فلم کی دنیا میں‌ کئی لوگوں نے جگہ بنائی اور خوب کام کیا، لیکن سڈنی پولک نے خود کو سب سے منفرد ثابت کیا۔ 1960 سے 80 کی دہائی تک انھوں نے اپنی فلموں کی بدولت شائقینِ سنیما کی توجہ حاصل کیے رکھی اور ناقدین سے بھی داد سمیٹی۔

    سڈنی پولک 2008ء میں آج ہی کے دن چل بسے تھے۔ وہ 73 برس کے تھے۔ لاس اینجلس میں وفات پانے والے سڈنی پولک کو کینسر کا مرض لاحق تھا۔ ان کا فلمی کیریئر پچاس سال پر محیط رہا جس میں انھوں نے اپنی فلموں کے لیے ہر خاص و عام سے داد سمیٹی۔

    سڈنی پولک کی مشہور ترین فلموں میں ’ٹوٹسی‘ اور ’آؤٹ آف افریقہ‘ شامل ہیں۔ یہ بلاک بسٹر فلمیں تھیں جن کے ہدایت کار سڈنی پولک تھے۔ انھوں نے ’مائیکل کلیٹن‘ جیسی کام یاب فلم پروڈیوس کی۔ ’ٹوٹسی‘ کے لیے 1982 میں سڈنی کو بہترین ہدایت کار کے آسکر کے لیے نام زد کیا گیا تھا جب کہ ’آؤٹ آف افریقہ‘ وہ بہترین ہدایت کار کا یہ اعزاز اپنے نام کرنے میں‌ کام یاب رہے تھے۔ یہ وہ فلم تھی جسے مجموعی طور پر سات آسکر ایوارڈز دیے گئے تھے۔

    سڈنی پولک 1969 میں ’دے شوٹ ہارسز ڈانٹ دے‘ کے لیے بھی بطور ڈائریکٹر آسکر اعزاز کے لیے نام زد ہوئے تھے۔

    ان کا سنہ پیدائش 1934 تھا۔ وہ دسویں جماعت پاس کرنے کے بعد بطور اداکار قسمت آزمائی کے لیے نیویارک گئے اور ٹیلی وژن پر اداکاری کرنے کا موقع ملا تو خود کو منوایا اور پھر فلم کی دنیا میں قدم رکھا۔ 1961 میں سڈنی پولک نے ٹیلی وژن کے لیے پروگرام بنانے کا سلسلہ شروع کیا اور چار برس بعد بطور ہدایت کار ’دا سلنڈر تھریڈ‘ کے عنوان سے ایک فلم بنائی۔ 90 کے عشرے میں سڈنی پولک نے پروڈیوسر کے طور پر کام شروع کیا اور ’دا فرم‘ جیسی ہٹ فلم سامنے آئی۔ ہدایت کار کے طور پر ان کی آخری فلم ’ اسکیچیز آف فرانک گہرے‘ تھی۔ یہ اپنے وقت کے ایک مشہور آرکیٹیکٹ کے بارے میں دستاویزی فلم تھی۔

  • وہ فن کار جسے پی ٹی وی کا دلیپ کمار کہا گیا!

    وہ فن کار جسے پی ٹی وی کا دلیپ کمار کہا گیا!

    طلعت حسین پاکستان کے ان فن کاروں میں سے ایک ہیں جو ریڈیو، ٹیلی ویژن اور پاکستانی فلم انڈسٹری پر اپنی گہری چھاپ چھوڑ گئے۔

    طلعت صاحب کی پہچان ان کی آواز اور وہ انداز تھا جس نے سبھی کو اپنا اسیر کر لیا۔ ایسا نہیں ہے کہ ان کی ادکاری کم درجے کی تھی۔ وہ اداکاری میں بھی کمال مہارت رکھتے تھے مگر قدرت کی ودیعت کردہ آواز نے انھیں کمال درجے کا آرٹسٹ بنا دیا جب کہ ان کے دور عروج میں پی ٹی وی ریڈیو پاکستان یا اسٹیج پر ان کی طرح صدا کاری کے فن میں یکتا آرٹسٹ ڈھونڈنے سے نہیں ملتا تھا۔

    اکثر اشتہارات میں پس پردہ ان کی آواز گونجتی تھی تو نہ چاہتے ہوئے بھی لوگوں اس اشتہار کی طرف متوجہ ہو جاتے تھے۔ ہمیں بچپن کے ادوار میں تو پتا ہی نہ چلا کہ یہ اس شخص کی آواز ہے جسے ہم اکثر اسکرین پر دیکھتے آئے ہیں بعد میں جب آرٹس کونسل کے چکر لگائے اور وہاں کچھ کورسز کیے تو ہم پر عقدہ کھلا کہ آواز کے یہ جادوگر تو مشہور اداکار طلعت حسین ہیں۔

    آج بھی یاد ہے ریڈیو آر جے بننے کے لیے ہم نے آرٹس کونسل میں ایک کورس جوائن کیا تو ہمارے ٹرینر ہمیں طلعت حسین کی آواز سنایا کرتے تھے کہ یہ شخص جس طرح الفاظ کو پیراہن عطا کرتا ہے، وہ کمال ہے۔

    ایک وقت تھا کہ طلعت حسین پس پردہ آواز کے لیے سب سے زیادہ معاوضہ لینے والے آرٹسٹ شمار ہوتے تھے، اشتہار ساز ادارے انھیں منہ مانگے معاوضے پر سائن کرتے اور ایسا کیوں نہ ہوتا کہ نہ صرف طلعت صاحب کی اداکاری کمال تھی بلکہ جب وہ اپنی آواز کی گمبھیرتا اور طلسماتی اثر کے ساتھ مکالمے ادا کرتے تو سننے والے ورطۂ حیرت میں پڑ جاتے تھے۔

    اگر اداکاری کی بات کی جائے تو طلعت حسین کا الفاظ کی ادائیگی کا سلیقہ، قرینہ اور برجستہ ڈائیلاگ ڈلیوری کے سبب انھیں پی ٹی وی کا دلیپ کمارکہا جاتا تھا، ’ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم!‘ اس مصرعے کی جیتی جاگتی تصویر تھے طلعت حسین! کیوں کہ اب ان کے پائے کا کوئی اداکار انڈسٹری میں نظر نہیں آتا۔

    لیجنڈ اداکار کی ڈائیلاگ ڈیلوری کمال تھی، کہاں لفظ پر زور دینا ہے کہاں آہستگی سے بات کرنا ہے اور فن کارانہ بدن بولی انھیں وہ معنویت عطا کرتی تھی جس نے ناظرین کے دلوں کو چھو لیا۔ اسی بنا پر انھیں پاکستان ٹیلی ویژن کا ’دلیپ کمار‘ کہا گیا۔

    دلیپ کمار نے اداکاری میں جسمانی حرکات اور بدن بولی کو جس نہایت اچھوتے اور منفرد انداز میں کیمرے کے سامنے پیش کیا، وہ اپنی مثال آپ تھا۔ وہ سین کے دوران چلتے ہوئے، رک کر اور خاص انداز سے ڈائیلاگ بولتے تھے اور دیکھنے والے دیوانے ہوجاتے تھے، یہی ادا طلعت نے بھی اپنائی اور پاکستان میں بالخصوص ٹی وی انڈسٹری پر چھا گئے۔

    یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ طلعت حسین اچھی طرح سمجھتے تھے کہ ٹی وی، فلم اور ریڈیو کے میڈیم میں اداکاری کی مختلف ڈیمانڈز ہوتی ہیں۔ طلعت حسین کے مطابق ریڈیو میں صرف ڈائیلاگ سے کام چل جائے گا لیکن ٹی وی یا فلم میں جذبات کے اظہار کے لیے باڈی لینگویج یا بدن بولی کافی اہمیت کی حامل ہے۔

    طلعت حسین اداکاری اور تھیٹر کی تعلیم حاصل کرنے انگلینڈ بھی گئے۔ انھوں نے لالی ووڈ اور بالی ووڈ سمیت برطانوی ٹی وی کیلئے بھی کام کیا، لیجنڈ اداکار کو ستارہ امتیاز، پرائیڈ آف پرفارمنس سمیت متعدد ایوارڈز سے نوازاگیا، پرچھائیاں، بندش، طارق بن زیاد، دیس پردیس، مہرالنسا، ہوائیں، دی کاسل، ایک امید، ٹائپسٹ، انسان اورآدمی اور کشکول ان کے مشہور ڈرامے تھے۔

    لیجنڈ اداکار کی مشہور فلموں میں گمنام، ایک سے بڑھ کر ایک، اشارہ، چراغ جلتا رہا، محبت مر نہیں سکتی، لاج، قربانی، کامیابی، بندش، پروجیکٹ غازی، بانی پاکستان کی زندگی پر بنائی گئی فلم جناح شامل ہیں۔

    اداکار طلعت حسین کے پاس کتابوں کا خزانہ تھا وہ کتابیں پڑھنے کے کافی شوقین تھے۔ انگریزی ادب اور اردو ادب سے خاص لگاؤ تھا، انھیں ایسے افراد میں شمار کیا جاسکتا تھا جن کے ہاتھ میں ہمیشہ کتاب رہتی تھی۔

    لیجنڈ اداکار کے انتقال پر اداکارہ بشریٰ انصاری کا کہنا تھا کہ طلعت حسین باکمال اداکار اور بڑی شخصیت تھے۔ میرے لکھے ڈرامے انھوں نے پڑھے جس پر مجھے فخر ہے۔ وہ انتہائی مہذب شخصیت تھے جنھوں نے کبھی اپنے منہ سے کوئی بے جا لفظ نہیں نکالا۔

    فلم اور ٹی وی کے معروف اداکار جاوید شیخ نے طلعت حسین کے انتقال کو شوبز انڈسٹری کا بڑا نقصان قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ بہت نفیس آدمی تھے، جن سے بہت کچھ سیکھا۔ ان کی بیماری کے دوران ان سے ملنے کے لیے جانے کا ارادہ تھا لیکن افسوسناک اب یہ حسرت ہی رہے گی۔

    عثمان پیرزادہ کا کہنا تھا کہ طلعت حسین میرے خاندان کا حصہ تھے جن کے انتقال پر بہت افسوس ہے لیکن وہ ہمیشہ ہمارے ساتھ رہیں گے۔ بہروز سبزواری نے کہا کہ طلعت حسین کی پہچان ان کی آواز تھی۔ طلعت حسین اس پائے کے فنکار تھے کہ اب ان کی جگہ کوئی اور نہیں لے سکتا۔

    اداکار سہیل احمد نے کہا کہ طلعت حسین کی وفات سے ہونے والا نقصان کبھی پورا نہیں ہوگا۔ انھوں نے اپنی پوری زندگی کبھی اپنے اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ ان جیسا فنکار آئندہ کبھی ملتا نظر نہیں آ رہا۔

    پی ٹی وی کے جنرل منیجر امجد حسین شاہ کا کہنا تھا کہ طلعت حسین نے ٹی وی، ریڈیو اور تھیٹر پر بہت کام کیا۔ میں خوش قسمت ہوں کہ ان کے ساتھ کام کا موقع ملا۔ وہ اس مزاج کے تھے کہ چاہے جتنی طبیعت خراب ہو، کام سے منع نہیں کرتے تھے۔

    تقسیم ہند سے قبل 1940 میں بھارت میں پیدا ہونے والے طلعت حسین کی عمر 80 سال سے زائد تھی، وہ کافی عرصے سے علیل تھے انھیں ڈیمنشیا کا مرض لاحق تھا۔ وہ طویل عرصہ علالت کے بعد 26 مئی کو کراچی میں انتقال کرگئے۔ انھیں ڈی ایچ اے فیز 8 کے قبرستان سپرد خاک کیا گیا۔

  • جنوں صفات مجروح جن کے فلمی گیت آج بھی مقبول ہیں

    جنوں صفات مجروح جن کے فلمی گیت آج بھی مقبول ہیں

    ترقی پسند ادب کے زمانے میں جب نظم کے مقابلے میں صنفِ غزل کو کمتر خیال کیا جارہا تھا اور اس کے خلاف مہم بھی شروع کردی گئی تھی، تب مجروح سلطان پوری نے غزل لکھی اور اس کی آبرو کو سلامت رکھا۔ آج عمدہ غزل گو اور فلمی گیت نگار مجروح سلطان پوری کی برسی ہے۔

    برصغیر پاک و ہند میں جن شعراء کو بطور نغمہ نگار زیادہ شہرت اور پذیرائی ملی، مجروح سلطان پوری ان میں سے ایک ہیں۔ وہ بھارت کے متوطن تھے اور غزل کے ساتھ انھوں نے نظم اور گیت نگاری میں‌ بڑا نام پایا۔ مجروح سلطان پوری کی غزلیں اور نظمیں زباں زدِ عام ہوئیں جب کہ فلمی نغمات نے مجروح کو لازوال شہرت سے ہمکنار کیا۔ مجروح سلطان پوری 50 اور 60 کی دہائی میں بھارتی فلمی صنعت میں بحیثیت نغمہ نگار چھائے رہے اور کوئی ان کی جگہ نہیں لے سکا۔

    رفعت سروش کو مجروح کی رفاقت نصیب ہوئی تھی جو ان کی وفات پر اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں‌:” ذہن ماضی کے نہاں خانوں میں جاتا ہے، اور مجھے یاد آرہے ہیں بہت سے ایسے لمحے جو مجروح کی ہم نفسی اور رفاقت میں گزرے۔ اوائل 1945ء کی کوئی شام۔ اردو بازار (دہلی) مولانا سمیع اللہ کے کتب خانہ عزیزیہ کے باہر رکھی ہوئی لکڑی کی وہ بنچیں جن پر ہندوستان کے سیکڑوں علماء، شعراء، دانشور، فقیر اور تو نگر بیٹھے ہوں گے۔ میں اپنی قیام گاہ واقع گلی خان خاناں اردو بازار سے نکلا اور حسبِ معمول ٹہلتا ٹہلتا کتب خانہ عزیزیہ پہنچا۔ یہاں مولانا کی باغ و بہار شخصیت ہر شخص کا استقبال کرتی تھی۔ ایک بنچ پر ایک خوش شکل اور خوش لباس، شیروانی میں ملبوس نوجوان کو بیٹھے دیکھا۔ مولانا نے تعارف کرایا یہ ہیں مجروح سلطان پوری۔

    اس زمانے کے ابھرتے ہوئے اور مترنم غزل گو شعرا کو جگر مراد آبادی کی سرپرستی حاصل تھی۔ چاہے شکیل ہوں، راز مراد آبادی ہوں یا خمار بارہ بنکوی اور مجروح سلطانپوری۔ یا بعد میں شمیم جے پوری۔ جگر صاحب اپنے ساتھ نوجوان شعراء کو لے جاتے تھے اور انھیں نمایاں ہونے کا موقع مل جاتا تھا۔ مجروح کی بمبئی میں آمد کے سلسلے میں سید سجاد ظہیر ( بنے بھائی) نے اپنی خود نوشت روشنائی میں لکھا ہے کہ مجروح سلطان پوری جگر صاحب کے ساتھ لگے لگے بمبئی آئے، ترقی پسندوں سے ملے اور پھر ترقی پسند مصنّفین کے لیڈروں میں شامل ہوگئے۔

    مجروح نے کئی ماہ کی جیل کاٹی۔ اس زمانے میں ان کی پریشانیاں بہت بڑھ گئی تھیں۔ یہاں تک ہوا کہ انھوں نے اپنی بیگم کو بطور امداد کچھ روپے بھیجنے کے لیے اپنے کچھ دوستوں کے ناموں کی لسٹ بھیجی جس میں راقم الحروف کا نام بھی شامل تھا۔ ایک دو ماہ بعد راجندر سنگھ بیدی نے مجروح کی مدد کی اور جب تک وہ جیل میں رہے ان کے اخراجات اپنے ذمے لے لیے۔ غرض مجروح سلطان پوری آہستہ آہستہ انجمن ترقی پسند مصنّفین سے عملی طور پر دور ہوتے چلے گئے۔ اور خود انجمن بھی کم فعال رہ گئی تھی۔”

    1919ء میں نظام آباد ضلع سلطان پور میں پیدا ہونے والے مجروح کا اصل نام اسرار حسین خان تھا۔ ان کے والد محکمۂ پولیس میں ملازم تھے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد مجروح نے حکمت کا پیشہ اختیار کیا اور ساتھ ساتھ شاعری بھی کرتے رہے۔ بعد میں انھوں نے حکمت کو خیرباد کہہ کر شاعری پر توجہ دی

    خلیق انجم نے مجروح کے شخصی خاکے میں ایک جگہ لکھا ہے: مجروح بہت ذہین طالب علم تھے اور طالبِ علمی ہی کے زمانے میں طبّ پر انہوں نے ایسی قدرت حاصل کر لی تھی کہ جھوائی ٹولے کے بڑے طبیب حکیم عبدالمعید جب کسی علاج کے سلسلے میں باہر تشریف لے جاتے تو مجروح کو اپنی کرسی پر بٹھا کر جاتے۔ 1938ء میں کالج سے سند حاصل کرنے کے بعد مجروح فیض آباد کے قصبہ ٹانڈہ چلے گئے اور وہاں انہوں نے اپنا مطب قائم کر لیا۔ مجروح نے خود مجھے مسکراتے ہوئے بتایا تھا کہ ٹانڈہ میں ایک بہت خوب صورت لڑکی سے ان کو عشق ہو گیا تھا۔ جس کا بعض لوگوں کو علم ہو گیا۔ اس لیے لڑکی کی رسوائی کے ڈر سے وہ مانڈہ چھوڑ کر سلطان پور آ گئے۔ ایک گفتگو کے دوران مجروح نے دماغ پر زور دے کر بتایا تھا کہ انہوں نے 1935ء یا 1936ء میں شاعری شروع کی تھی۔”

    بعد میں مجروح جگر مراد آبادی کے توسط سے مشہور ہدایت کار اے آر کاردار سے ملے اور اے آر کاردار نے ان سے فلمی گیت لکھنے کو کہا۔ لیکن اس وقت مجروح نے انکار کر دیا۔ وہ اسے معیاری اور ارفع کام نہیں سمجھتے تھے۔ جگر مراد آبادی نے انھیں سمجھایا اور پھر کاردار کے ساتھ مجروح موسیقار نوشاد کے پاس پہنچے جنھوں نے اس نوجوان شاعر کا ٹیسٹ لیا۔ مشہور ہے کہ نوشاد نے شاعر مجروح کو ایک طرز دی اور کہا کہ وہ اس پر کچھ لکھ دیں۔ مجروح نے ’جب اس نے گیسو بکھیرے، بادل آیا جھوم کے‘‘لکھ کر دیا جس کے بعد انھیں فلم ’’شاہ جہاں‘‘ کے نغمات لکھنے کے لیے کہا گیا۔ مجروح موسیقی کا بھی شوق رکھتے تھے اور سیکھنا چاہتے تھے لیکن والد کو یہ ناپسند تھا اور اس لیے ان کا یہ شوق پورا نہ ہوسکا۔

    فلم شاہ جہاں 1946ء میں ریلیز ہوئی اور اس فلم کے نغمات نے ہر طرف دھوم مچا دی۔ اس فلم کے ایک گیت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب گلوکار کے ایل سہگل نے یہ گیت ’جب دل ہی ٹوٹ گیا، اب جی کر کیا کریں گے‘ سنا تو کہا کہ میری ارتھی اٹھانے کے موقع پر اس گیت کو گایا جائے۔ شاہ جہاں کے بعد مجروح کو فلم ’’مہندی، انداز، اور آرزو‘‘ ملی اور ان کے تحریر کردہ گیتوں نے مقبولیت حاصل کی۔ ان کام یابیوں کے بعد فلم نگری میں مجروح سلطان پوری کی خوب شہرت ہوئی۔

    مجروح ان شعرا میں سے تھے جو بائیں بازو کے نظریات رکھتے تھے۔ وہ انجمن ترقی پسند مصنفین کے سرگرم رکن بھی بن گئے تھے۔ 1949ء میں مجروح کو حکومت کے خلاف نظمیں لکھنے پر گرفتار کر لیا گیا۔ ان کے ساتھ مشہور اداکار بلراج ساہنی کو بھی جیل بھیج دیا گیا۔مجروح سے کہا گیا کہ وہ معافی مانگیں۔ لیکن انکار پر مجروح کو دو سال قید کی سزا سنا دی گئی۔ اس دوران ان کے کنبے نے شدید مالی مشکلات کا سامنا کیا۔

    فلم ساز اور ہدایت کار ناصر حسین کی فلموں کے لیے مجروح کے لکھے ہوئے نغمات کی مقبولیت آج بھی برقرار ہے۔ مجروح کا 60 سالہ فلمی کیریئر ان کی شہرت کے ساتھ کئی ایوارڈ اور فلمی دنیا میں زبردست پذیرائی سے بھرا ہوا ہے۔ 1965ء میں فلم ’دوستی‘ کا نغمہ ’’چاہوں گا میں تجھے سانجھ سویرے‘‘ لکھنے پر مجروح سلطان پوری کو فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔1993ء میں دادا صاحب پھالکے ایوارڈ دیا گیا۔ ناصر حسین کی فلموں کے لیے مجروح نے جو گیت لکھے ان میں سے زیادہ تر گیت مقبول ہوئے اور فلمیں کام یاب ثابت ہوئیں۔

    مجروح کی شاعری کے آغاز کے بارے میں مجروح کے لڑکپن کے دوست نے رسالہ "چراغ” (بمبئی) میں لکھا ہے: "مجروح کی طبیعت کو شاعری سے لگاؤ اور کافی مناسبت تھی۔ سلطان پور میں ہی پہلی غزل کہی اور وہیں کے ایک آل انڈیا مشاعرے میں سنائی۔ اس مشاعرے میں مولانا آسی الدنی شریک تھے۔ مجروح نے اپنی ایک غزل مولانا کی خدمت بغرضِ اصلاح روانہ کی۔ مولانا نے مجروح کے خیالات کو باقی رکھنے اور کسی صحیح مشورے کے بجائے ان کے اشعار ہی سرے سے کاٹ دیے اور اپنے اشعار لکھ دیے۔ مجروح نے مولانا کو لکھا کہ مقصدِ اصلاح یہ ہے کہ اگر قواعد با زبان یا بحر کی کوئی لغزش ہو تو مجھے آپ اس طرف متوجہ کریں، یہ نہیں کہ اپنے اشعار کا اضافہ کر دیں۔ مولانا نے جواب دیا کہ اس قسم کی اصلاح کے لیے میرے پاس وقت نہیں، چناںچہ یہ سلسلہ بند ہو گیا۔”

    اس کے بعد مجروح نے اپنا کلام کسی استاد کو نہیں دکھایا اور خود محنت کر کے فنِ شاعری اور زبان و بیان پر وہ قدرت حاصل کی جو ان کے معاصرین میں بہت کم لوگوں کو نصیب تھی۔

    بھارت کے اس مشہور فلمی شاعر کے جن گیتوں نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے، ان میں چھوڑ دو آنچل زمانہ کیا کہے گا، چاہوں گا میں تجھے سانجھ سویرے، بابو جی دھیرے چلنا، چلو سجنا جہاں تک گھٹا چلے و دیگر شامل ہیں۔

    مجروح سلطان پوری کا یہ زباں زدِ عام شعر آپ نے بھی سنا ہوگا۔

    میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
    لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

    24 مئی 2004ء کو مجروح سلطان پوری اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ ان کے یہ اشعار بھی بہت مشہور ہوئے:

    جلا کے مشعلِ جاں ہم جنوں صفات چلے
    جو گھر کو آگ لگائے ہمارے ساتھ چلے
    ستونِ دار پہ رکھتے چلو سَروں کے چراغ
    جہاں تلک یہ ستم کی سیاہ رات چلے

  • عقلیت پسند دانش وَر، شاعر، ادیب، اور نقّاد نیاز فتح پوری کا تذکرہ

    عقلیت پسند دانش وَر، شاعر، ادیب، اور نقّاد نیاز فتح پوری کا تذکرہ

    بلاشبہ برصغیر پاک و ہند کے جویانِ علم اور تعلیم و تعلّم کے شیدائی گھرانے اور انجمنیں نیاز فتح‌ پوری کی نیاز مند رہی ہیں۔ ان کی قابلیت، علمی استعداد اور نکتہ رسی کی قائل وہ شخصیات اور بڑے بڑے اسکالرز بھی تھے جن کا نیاز فتح پوری سے مذہبی معاملات اور دینی امور پر شدید اختلاف بہرحال رہا، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ نیاز فتح پوری نے اپنی فکر اور ذوقِ علم کو اپنی تعقل پسندی اور دلائل و براہین سے اس درجہ بلند کر لیا کہ ان کی بات ہر طبقۂ سماج تک پہنچی اور اسے قبول بھی کیا گیا۔ نیاز فتح پوری نے اسلام کے پیغام کو پوری دیانت داری سے سمجھنے کی کوشش کی اور اس کے لیے اپنی عقل کا سہارا لیا۔

    نیاز فتح پوری ہمیں اپنے دور کے ایک جدید صوفی نظر آتے ہیں جن کی فکر پختگی کی حد کو پہنچ کر مذہب کے بنیادی اصولوں کی مظہر اور ترجمان بن گئی جسے نیاز صاحب کے قلم نے اُن کے دل کش اور نہایت متاثر کن اسلوب میں کتاب کر دیا۔

    کون تھا جو نیاز فتح پوری کی علمیت سے مرعوب نہ تھا اور ان کی شخصیت کے سحر میں گرفتار نہ رہا ہو۔ نیاز صاحب کہیں ایک افسانہ نگار کے روپ میں سامنے آتے ہیں تو کہیں مذہب اور زندگی، اصول، قوانین، روایات اور انسانیت سے متعلق دقیق، پُرپیچ اور گنجلک موضوعات پر لیکچر دیتے اور مضامین رقم کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ کوئی فلسفیانہ انداز میں مسائل کا حل نکالنے، بہت سی گتھیاں سلجھانے کے اُن کے انداز سے متأثر تھا تو کسی کو مذہبی اعتقادات اور تاریخی موضوعات پر نیاز فتح‌ پوری کی مدلّل گفتگو اور مباحث میں کشش محسوس ہوتی تھی۔

    ایک زمانہ تھا کہ نیاز صاحب کی نثر کا ڈنکا بجتا تھا۔ افسانے ہی نہیں‌ ان کے ناولٹ اور انشائیے، مذہب اور سائنس کے تال میل پر ان کے مضامین، اور بعد میں اپنی تحریروں پر اعتراضات کے جوابات کے علاوہ مختلف تراجم جو نیاز صاحب نے کیے، ان کا بہت شہرہ تھا۔ نیاز فتح پوری کی متنازع فیہ کتاب ’’من و یزداں‘‘ تھی جب کہ رسالہ ’’نگار‘‘ ان کی ادارت میں‌ برصغیر کے علمی اور ادبی حلقوں کے ساتھ عام قارئین کی فکر اور شعور کو بلند کرتا رہا۔

    نیاز فتح پوری ایک عقلیت پسند کی حیثیت سے مشہور تھے جنھوں نے اردو ادب کی مختلف اصناف کو اپنی فکر اور تخلیقات سے مالا مال کیا۔ وہ شاعر، افسانہ نگار، نقّاد اور محقق تو تھے ہی مگر انھیں ایک مفکّر، عالمِ دین، مؤرخ اور ماہرِ نفسیات بھی کہا جاتا ہے جن کی تحریریں گوناگوں ادبی اور علمی موضوعات پر اردو زبان کا بیش قیمت سرمایہ ہیں۔ نیاز فتح پوری کی ادبی اور علمی سرگرمیوں کا میدان بہت وسیع تھا جسے انھوں نے رسالہ ’’نگار‘‘ کے ذریعے عام کیا۔ یہ وہ رسالہ تھا جس میں ادب کے علاوہ فلسفہ، مذہب اور سائنس پر شان دار تحریریں‌ شایع ہوتی تھیں جس نے اپنے قارئین میں پیچیدہ موضوعات اور ادق مسائل پر مباحث اور غور و فکر کی عادت کو پروان چڑھایا۔ نیاز فتح پوری نے جدید نفسیات، ہپناٹزم اور جنسیات جیسے موضوعات پر قلم اٹھایا اور خوب جم کر لکھا۔

    1924ء کے ایک شمارۂ نگار میں ان کا ’’اہلِ مریخ سے گفتگو کا امکان‘‘ اور ’’جنگ کا نقشہ ایک صدی بعد‘‘ جب کہ 1935ء کی اشاعت میں ’’چاند کا سفر‘‘ جیسا مضمون شایع ہوا تھا اور ان مضامین کا خوب شہرہ ہوا تھا۔ یہ تحریریں ایک طرف نیاز فتح پوری کی تخلیقی صلاحیتوں کے ساتھ ان کی فکر و نظر کی بلندی اور دوسری جانب اس دور میں مصنّف کے سائنسی رجحان کا پتا دیتی ہیں۔

    نیاز صاحب کو عقلیت پسندی کے سبب اپنے دور میں سخت مخالفت اور کڑی تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ مذہبی حلقوں کی جانب سے اُن پر بگاڑ کا الزام عائد کرتے ہوئے فتاویٰ جاری کیے گئے جب کہ قدامت پسند حلقوں کی طرف سے اُن کی بھرپور مخالفت کی جاتی رہی۔

    معروف شاعر، ادیب اور کالم نگار جمیل الدّین عالی نیاز صاحب کے بارے میں لکھتے ہیں: ” فروری 1922ء میں جب علّامہ نیاز فتح پوری نے ترک زبان کی مشہور شاعرہ ”نگار بنت عثمان“ کی انقلابی شاعری سے متاثر ہو کر ”نگار“ جاری کیا تو ان کی نظر سنجیدہ علمی موضوعات پر مرکوز تھی۔ نگار کے ذریعے انہیں تخلیقی و تحقیقی قوتوں کے آزادانہ استعمال کا موقع مل گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے افسانہ، ناول، صحافت، مقالہ نگاری، تنقید، مکتوبات نگاری اور انشا پردازی سب میں ان کا سکّہ چلنے لگا۔ اب وہ ادیب نہ رہے، ادیب ساز بھی ہو گئے اور ان کی علمی اور ادبی شخصیت اتنی وقیع اور واضح ہوگئی کہ ادبی تاریخ کی ترتیب و تدوین میں ان کا کٹر سے کٹر مخالف بھی ان کے نام کو نظر انداز نہیں کرسکتا۔ نیاز کا قلم، انیسویں صدی کی پہلی دہائی سے لے کر 1966ء کے اوائل تک کم و بیش ساٹھ سال چلتا رہا۔ جس زمانے میں ”نگار“ منظر عام پر آیا اس وقت علمی رسائل نہ ہونے کے برابر تھے اور علمی و تحقیقی مضامین لکھنے والوں کی بھی بہت کمی تھی، یہ نگار کا کمال ہ ے کہ اس نے لوگوں میں لکھنے کے شوق کو جلا دی اور اہلِ قلم پیدا کیے جن کی علمی طبقے نے بڑی پذیرائی کی۔ نگار محض ادبی جریدہ نہیں بلکہ ایک ادارہ، ایک رجحان اور ایک قدر تھا۔”

    جہانِ علم و ادب 24 مئی 1966ء کو نیاز فتح پوری سے محروم ہوگیا تھا۔ نیاز صاحب کا وطن یوپی کا ضلع بارہ بنکی تھا جہاں وہ 28 دسمبر 1884ء کو پیدا ہوئے۔ نیاز محمد خان ان کا نام رکھا گیا۔ مدرسہ اسلامیہ فتح پور، رام پور اور بعد میں لکھنؤ کے مشہور دارالعلوم ندوۃ العلماء سے تعلیم حاصل کی۔ شروع ہی سے ان کا رجحان علم و ادب کی جانب رہا اور غور و فکر کی عادت بھی وقت کے ساتھ پختہ ہوگئی۔ تعلیمی مدارج طے کرتے ہوئے مطالعہ اور مشاہدہ کی قوّت نے ان کو اس قابل بنا دیا وہ اپنے خیالات اور مشاہدات کو رقم کرسکیں۔ نیاز صاحب شاعری کا آغاز کیا اور پھر افسانہ بھی لکھنے لگے۔ اس کے ساتھ جب عملی زندگی میں قدم رکھا تو محکمہ پولیس میں بھرتی ہوئے۔ لیکن 1902ء میں سب انسپکٹر ہوئے تھے جب یہ ملازمت ترک کر دی۔ اگلے کئی برس مختلف کام کیے اور پھر 1922ء میں نیاز فتح پوری نے نگار جاری کیا جو تھوڑے ہی عرصے میں روشن خیالی کی مثال بن گیا۔ نیاز صاحب تقسیمِ ہند کے بعد 1962ء میں ہجرت کر کے کراچی آئے تھے اور اسی شہر میں وفات پائی۔

    رسالہ نقوش کے مدیر محمد طفیل لکھتے ہیں، "نیاز صاحب نے جو کچھ بھی امتیاز حاصل کیا۔ وہ اپنے قلم کے سحر سے حاصل کیا۔ لکھنے کے لیے کسی اہتمام کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ باتیں بھی کرتے جاتے ہیں۔ لکھتے بھی جاتے ہیں۔ گلوری منہ میں ہو گی۔ خوں خوں کر کے باتوں میں ساتھ دیں گے۔ ضرورت پڑی تو پیک نگل کر بولیں گے: ’’یہ آپ نے کیسے سمجھ لیا کہ میں کام میں مشغول ہوں۔‘‘ حافظہ بلا کا پایا ہے۔ ہر چیز، ہر کتاب ان کے ذہن میں منتقل ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے بڑے بڑے کام صرف چند دنوں میں کر ڈالے۔ ان کے ہاں آمد ہی آمد ہے۔ آورد نام کو نہیں۔ الفاظ واقعی ہاتھ باندھے کھڑے رہتے ہیں۔ یہ کمال میں نے صرف انیس، جوش اور نیاز میں دیکھا۔ باقی سب کے ہاں کاری گری ہے۔”

    علّامہ نیاز فتح پوری نے 35 کتابیں یادگار چھوڑیں جن میں من و یزداں، نگارستان، شہاب کی سرگزشت، جمالستان اور انتقادیات مقبول ہوئیں۔ حکومتِ پاکستان نے انھیں "نشانِ سپاس” سے نوازا تھا۔

    علّامہ نیاز فتح پوری کینسر کے مرض میں مبتلا ہوگئے تھے۔ انھیں کراچی میں پاپوش نگر کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • وکٹر ہیوگو: فرانس کا سب سے بڑا ناول نگار

    وکٹر ہیوگو: فرانس کا سب سے بڑا ناول نگار

    وکٹر ہیوگو کو بیسویں صدی کا سب سے بڑا فرانسیسی ادیب تسلیم کیا جاتا ہے جس کے ناولوں کا دنیا بھر کی زبانوں‌ میں ترجمہ ہوا اور فلمیں بنائی‌ گئیں۔ وکٹر ہیوگو ناول نگار ہی نہیں بحیثیت شاعر اور صحافی بھی مشہور ہے۔ وکٹر ہیوگو 1885ء میں آج ہی کے دن چل بسا تھا۔

    وکٹر ہیوگو نے اپنے تخلیقی سفر کی ابتدا بطور شاعر کی تھی لیکن پھر وہ نثر نگاری کی طرف متوجہ ہوا اور اس نے ناول نگاری اور ڈرامے لکھنا شروع کیے اور اس کی کہانیاں‌ فرانس کے علمی و ادبی حلقوں اور عام قارئین میں مقبول ہونے لگیں۔ بعد کے برسوں میں وکٹر ہیوگو نے بطور ناول نگار فرانسیسی ادب میں بڑا مقام پایا اور دنیا بھر میں اپنے ناولوں کی بدولت شہرت حاصل کی۔

    عالمی شہرت یافتہ وکٹر ہیوگو 26 فروری 1802ء میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ فوج میں‌ اعلیٰ‌ عہدے پر فائز تھا اور اسی سبب اکثر یہ کنبہ اپنے گھر کے سربراہ کا تبادلہ ہونے پر مختلف شہروں میں رہتا رہا اور انھیں اسپین بھی جانا پڑا۔ یوں وکٹر ہیوگو کو مختلف ماحول اور ثقافت کو دیکھنے کا موقع ملا۔ والدین میں علیحدگی کے بعد وکٹر ہیوگو اپنے والد کے ساتھ رہا۔ بطور نثر نگار وکٹر ہیوگو کا پہلا ناول 1823ء میں شایع ہوا اور عالمی ادب میں اسے رومانوی تحریک سے وابستہ تخلیق کار شمار کیا گیا۔

    وکٹر ہیوگو حسن و جمال کا دلداہ تھا اور اس کی زندگی میں‌ کئی عورتیں‌ بھی آئیں۔ اس ادیب کے مزاج کی عکاسی اس کے ناولوں کے کردار کرتے ہیں۔ وکٹر ہیوگو نے ناول لکھنے کے ساتھ اس وقت کے سب سے مقبول میڈیم یعنی اسٹیج کے لیے کئی کھیل بھی تحریر کیے اور ساتھ ہی شاعری میں طبع آزمائی بھی جاری رکھی۔ وکٹر ہیوگو ہر صنفِ ادب میں اپنی انفرادیت برقرار رکھنے میں کام یاب رہا۔ وہ زرخیز ذہن کا مالک تھا۔ اس نے ادب تخلیق کرنے کے ساتھ صحافت کے علاوہ عملی سیاست میں بھی حصّہ لیا اور انسانی حقوق کے لیے بھی آواز بلند کرتا رہا۔

    Les Miserables وکٹر ہیوگو کا بہترین ناول شمار کیا جاتا ہے جسے اردو زبان میں‌‌ بھی ترجمہ کیا گیا اور اس پر متعدد فلمیں بھی بنائی جاچکی ہیں۔ اردو زبان کے علاوہ یہ ناول اب تک بیس سے زائد زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے اور دنیا بھر میں یہ وکٹر ہیوگو کی اہم تصنیف کے طور پر مشہور ہے۔ یہ ناول اس ادیب نے 1845ء میں لکھنا شروع کیا تھا اور کہتے ہیں کہ اس کی تکمیل 1861ء میں ہوئی۔ باقر نقوی نے بھی اسے اردو کا جامہ پہنایا اور وہ اس شاہکار کے بارے میں لکھتے ہیں، ’’یہ تصنیف بدلتے ہوئے فرانس کی بدحالی کے زمانے کی بہترین عکاس ہے۔ اس پر مستزاد ہیوگو کی باریک بینی نے اس میں چار چاند لگادیے ہیں، اگرچہ ناول بدنصیبی، خستہ حالی، ظلم، بدامنی، بغاوت، سرکشی، سازش،مکاری، لوٹ مار، قتل و خون وغیرہ سے عبارت ہے۔ اس میں جنگ بھی ہے، مذہب بھی ہے اور محبت بھی۔ تاہم اس میں ایسے کردار بھی ہیں جو بے انتہا فیاض ہیں، مذہبی ہیں، نیک نیت والے اور عام شہری ہیں، جنہوں نے اُس دورِ ابتلا میں پریشاں حال لوگوں کے لیے بھلائی کے کام بھی کیے تھے۔ اپنے زمانے میں ہیوگو کو وہی درجہ حاصل تھا جیسا کہ جرمن زبان میں گوئٹے کو اور اردو میں غالب و میر کو ہوا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ مصنف موضوع میں اتنا ڈوب کر اور اتنی باریک تفصیلات کے ساتھ تحریر کرتا ہے گویا وہ فکشن نہیں، تاریخ لکھ رہا ہو۔‘‘

    اس کے علاوہ وکٹر ہیوگو کا The Hunchback of Notre-Dame وہ ناول تھا جس کا اردو زبان میں‌ کبڑا عاشق کے نام سے ترجمہ قارئین میں‌ بہت مقبول ہوا۔ اسے بھی دنیا بھر میں‌ وکٹر ہیوگو کی بہترین تخلیقات میں شمار کیا جاتا ہے۔

    فرانسیسی ادیب وکٹر ہیوگو نے دراصل اپنے زمانے کے سماجی حقائق اور لوگوں کے رویّوں کے ساتھ اجتماعی زندگی کے مخلتف روپ اپنی تخلیقات میں‌ اس طرح‌ پیش کیے کہ وہ قارئین کی توجہ حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ناقدین کو بھی چونکاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے اسے اپنے عہد کے بڑے نقّادوں نے اہمیت دی اور اس کی تخلیقات پر مضامین سپردِ قلم کیے۔

  • حیدر بخش جتوئی: سندھ کے ہاریوں کی آنکھ کا تارا

    حیدر بخش جتوئی: سندھ کے ہاریوں کی آنکھ کا تارا

    کو ’’بابائے سندھ‘‘ کہا جاتا ہے۔ انھیں ہر طبقۂ عوام میں یکساں‌ احترام اور پسندیدگی حاصل تھی اور انھیں عوام نے یہ لقب دیا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ حیدر بخش جتوئی کی زندگی غریب عوام کے حقوق کے لیے جدوجہد میں گزری جس نے انھیں ہر دل عزیز شخصیت بنا دیا تھا۔ آج ہلالِ امتیاز پانے والے کامریڈ حیدر بخش جتوئی کی برسی ہے۔

    حیدر بخش جتوئی صوبۂ سندھ کی ایک سیاسی، سماجی اور علمی و ادبی شخصیت تھے اور انھیں ہاری راہ نما اور شاعر کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ لاڑکانہ ان کا آبائی علاقہ تھا جہاں وہ سنہ 1900ء میں پیدا ہوئے تھے۔ ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد حیدر بخش جتوئی نے بمبئی یونیورسٹی سے گریجویشن اور آنرز کی تکمیل کی، جس کے بعد سرکاری ملازمت اختیار کی لیکن جلد ہی اسے خیرباد کہہ دیا۔ پیدائش کے فوراً بعد وہ والدہ کی آغوش سے محروم ہوگئے تھے۔ 11 سال کے ہوئے تو اسکول میں داخل کروایا گیا، جہاں ایک موقع پر لاڑکانہ کے اس وقت کے ڈپٹی کمشنر آئے۔ حیدر بخش جتوئی سے ڈپٹی کمشنر نے کچھ بات کی تو اندازہ ہوا کہ بچّہ نہایت قابل اور پُراعتماد ہے۔ کہتے ہیں کہ انھوں نے حیدر بخش کے والد سے ملاقات کی اور انھیں کہا کہ حیدر بخش غیر معمولی صلاحیت کا حامل ہے، اس کی تعلیم و تربیت پر خاص‌ توجہ دیں اور اعلیٰ تعلیم دلوائیں۔ حیدربخش جتوئی نے سندھ کے مشہور ادارے مدرسۃُ الاسلام سے کراچی میں تعلیمی مراحل طے کرتے ہوئے نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور دسویں جماعت میں سندھ بھر میں پہلی پوزیشن لی۔ بعد میں گریجویشن اور پھر ممبئی یونیورسٹی سے فارسی میں امتیاز حاصل کیا۔ 23 سال کی عمر میں ان کی شادی ہوگئی۔

    حیدر بخش جتوئی نے محکمۂ ریونیو میں ہیڈ منشی کی حیثیت سے ملازمت کا آغاز کیا لیکن اس دور میں سیاسی تحریکوں اور سماجی تغیرات نے انھیں ایک انقلابی کے طور پر ابھرنے کا موقع دیا اور وہ عوام، خاص طور پر ہاریوں کے حقوق کی جنگ لڑنے کے لیے سرکاری ملازمت سے الگ ہوکر ہاری تحریک کا حصّہ بن گئے۔ انھیں کامریڈ پکارا جانے لگا تھا، 1950 میں ہاری کونسل نے انہی کا مرتب کردہ آئین منظور کیا تھا جس کے بعد حیدر بخش جتوئی اور ساتھیوں کی جدوجہد رنگ لائی اور قانونِ زراعت منظور ہوا۔ وہ ہاریوں‌ کے حق میں آواز اٹھانے کی پاداش میں جیل بھی گئے۔ حیدر بخش جتوئی عوام اور پسے ہوئے طبقے کے حق میں اپنی جدوجہد کی وجہ سے لوگوں میں‌ مقبول ہوئے اور سندھ میں‌ انھیں عوام اپنا حقیقی مسیحا اور راہبر مانتے تھے۔

    حیدر بخش جتوئی نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز انڈین نیشنل کانگریس، تھیوسوفیکل سوسائٹی اور کمیونسٹ پارٹی، ہندوستان کے ایک رُکن کی حیثیت سے کیا۔ وہ کمیونسٹ پارٹی کے وفادار رکن تھے، لیکن ہمیشہ روادارانہ، آزاد خیال اور وسیع فہم و فکر کا مظاہرہ سیاسی پالیسیوں اور مذہبی فلسفیانہ سوچ کے تحت کیا۔

    ہندوستان کی جدوجہدِ آزادی پر ان کی ایک نظم کو شاہکار تخلیق کہا جاتا ہے۔ حیدر بخش جتوئی نے اپنی سندھی شاعری کا مجموعہ’’ تحفۂ سندھ‘‘ کے نام سے شائع کروایا تھا۔ جو صرف 65 صفحات کا ہے اور اس مجموعے میں نظم’’ دریا شاہ‘‘ اور’’شکوہ‘‘ بھی شامل ہیں، جن کا انگریزی میں بھی ترجمہ ہوا۔ 1946ء میں انھوں نے اپنی شاعری کا دوسرا مجموعہ ’’آزادیٔ قوم‘‘ شائع کروایا۔ یہ طویل نظم’’مخمّس‘‘ یعنی پانچ بندوں پر مشتمل ہے اور اس کا موضوع، برصغیر میں برطانوی راج کے خلاف جدوجہد ہے۔ انھوں نے کئی مشاعروں میں بھی شرکت کی، جن میں پاک و ہند اردو مشاعرہ بھی شامل ہے، جس میں حیدر بخش جتوئی نے سندھی نظم پڑھی تھی۔

    کامریڈ حیدر بخش جتوئی ایک زود نویس مصنّف تھے۔ انھوں نے ون یونٹ کے خلاف کئی کتابچے لکھے۔ حیدر بخش جتوئی نے سندھی زبان میں دیگر کتابیں بھی تصنیف کیں۔

    حیدر بخش جتوئی 21 مئی 1970 کو وفات پاگئے تھے۔

  • ڈاکٹر شیخ محمد اقبال: فارسی زبان و ادب کا ایک معتبر نام

    ڈاکٹر شیخ محمد اقبال: فارسی زبان و ادب کا ایک معتبر نام

    فکر و فن، علم و ادب کی دنیا کے کئی نام وقت کی گردش میں کہیں‌ گم ہوچکے ہیں‌ اور آج ان کا تذکرہ شاذ ہی ہوتا ہے، لیکن یہ وہ شخصیات ہیں جنھوں نے اپنے شعبے میں گراں قدر خدمات انجام دیں اور کتابی شکل میں بڑا سرمایہ یادگار چھوڑا۔ پروفیسر ڈاکٹر شیخ محمد اقبال انہی قابل اور باصلاحیت شخصیات میں‌ سے ایک ہیں جن کا آج یومِ وفات ہے۔

    پروفیسر شیخ محمد اقبال فارسی زبان و ادب کے ایک زبردست عالم، محقّق اور مترجم تھے۔ انھوں‌ نے تالیف و تدوین کے علاوہ متعدد اہم کتابوں کے تراجم بھی کیے۔ ڈاکٹر صاحب 21 مئی 1948ء کو لاہور میں وفات پاگئے تھے۔ متحدہ ہندوستان میں انھیں‌ ایک ماہرِ تعلیم کی حیثیت سے بھی پہچانا جاتا تھا۔ ان کے صاحب زادے داؤد رہبر بھی فن و ادب کی دنیا میں شاعر، عمدہ نثر نگار اور ماہرِ موسیقی مشہور تھے۔ شیخ صاحب پاکستان کے مشہور صدا کار اور آرٹسٹ ضیاء محی الدّین کے تایا بھی تھے۔

    ڈاکٹر شیخ محمد اقبال کا تعلق جالندھر سے تھا۔ وہ 19 اکتوبر 1894ء کو پیدا ہوئے۔ وہ تعلیمی سرگرمیوں‌ کے ساتھ شروع ہی سے زبان و ادب میں دل چسپی لینے لگے تھے۔ ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد شیخ محمد اقبال نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے عربی میں ایم اے کیا اور مزید تعلیم کے حصول کے لیے کیمبرج یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ وہاں مشہور مستشرق پروفیسر ای جی براؤن کے زیرِ نگرانی شیخ محمد اقبال نے فارسی میں پی ایچ ڈی کیا۔ عملی زندگی میں قدم رکھا تو 1922ء میں اورینٹل کالج لاہور سے وابستہ ہوئے۔ ڈاکٹر شیخ محمد اقبال کو بعد میں فارسی کے صدرِ شعبہ اور پرنسپل کے عہدے پر بھی خدمات انجام دینے کا موقع ملا۔ انھوں نے ادارہ کے بہترین منتظم اور اپنے شعبے میں‌ خود کو ماہرِ تعلیم کی حیثیت سے منوایا۔ اس حیثیت میں کام کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب علمی و ادبی مشاغل میں‌ بھی منہمک رہے اور تالیف و تدوین کا کام انجام دیا۔

    ڈاکٹر شیخ محمد اقبال لاہور میں ماڈل ٹاؤن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔