Tag: مئی برسی

  • پاکستانی فلمی صنعت کے معروف موسیقار اے حمید کا تذکرہ

    پاکستانی فلمی صنعت کے معروف موسیقار اے حمید کا تذکرہ

    پاکستانی فلم انڈسٹری کے معروف موسیقار اے حمید 20 مئی 1991ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ موسیقار کی حیثیت سے اے حمید کی شہرت کا آغاز فلم سہیلی سے ہوا تھا جس کے ہدایت کار ایس ایم یوسف تھے۔

    فلم انجام کے طفیل اے حمید پہلی مرتبہ انڈسٹری میں متعارف ہوئے تھے اور سہیلی کی کام یابی کے بعد بطور موسیقار انھوں نے کئی لازوال دھنیں تخلیق کیں اور ان فلموں کے گیت مقبول ہوئے۔

    اے حمید کا پورا نام شیخ عبدُالحمید تھا۔ وہ 1924ء میں امرتسر میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد شیخ محمد منیر موسیقی کا اعلیٰ ذوق رکھتے تھے اور انھوں نے دو فلموں کی موسیقی بھی ترتیب دی تھی۔ یوں اے حمید میں بھی سُر ساز، موسیقی اور گائیکی کا شوق پیدا ہوا۔ والد کی وجہ سے فلم نگری کا راستہ تو دیکھ ہی چکے تھے اور جب اس فن میں اپنی صلاحتیوں کو آزمانے کا موقع ملا تو اے حمید نے خود کو ثابت کر دکھایا۔ اوّلین فلموں کے بعد اے حمید نے کام یاب موسیقار کی حیثیت سے رات کے راہی، اولاد، آشیانہ، شریکِ حیات، پیغام، دوستی، جواب دو، ثریا بھوپالی، انگارے، بیگم جان اور نیا انداز کی موسیقی ترتیب دی۔ اے حمید کو بہترین موسیقار کا نگار ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔ یہ ایوارڈ انھیں "چٹھی ذرا سیاں جی کے نام لکھ دے” جیسے خوب صورت اور مقبول عام گیت کی دھن تخلیق کرنے پر دیا گیا تھا۔ پاکستانی فلموں کے کئی مقبول گیتوں میں "ہم بھول گئے ہر بات مگر تیرا پیار نہیں بھولے، کہیں دو دل جو مل جاتے بگڑتا کیا زمانے کا، تھا یقیں کہ آئیں گی یہ راتاں کبھی، کس نام سے پکاروں کیا نام ہے تمہارا، یہ وادیاں یہ پربتوں کی شاہ زادیاں” بھی شامل ہیں جن کی دھنیں اے حمید نے بنائی تھیں۔

    پاکستان فلم انڈسٹری کے اس معروف موسیقار نے اردو کے علاوہ پنجابی زبان میں بننے والی فلموں کی موسیقی بھی ترتیب دی۔ موسیقار اے حمید راولپنڈی کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔

  • موہنی حمید کا تذکرہ جو ‘شمیم آپا’ کے نام سے مشہور تھیں!

    موہنی حمید کا تذکرہ جو ‘شمیم آپا’ کے نام سے مشہور تھیں!

    موہنی حمید کا نام ریڈیو پاکستان سے ہوا کے دوش پر پھیلتی ہوئی ان کی مسحور کُن آواز کی بدولت ہر گھر میں پہنچا اور ان کا ہر پروگرام بہت شوق سے سنا جانے لگا۔ وہ بچّوں اور بڑوں میں شمیم آپا مشہور ہوگئیں۔ ریڈیو پاکستان کو زندگی کے 35 سال دینے والی موہنی حمید 16 مئی 2009ء میں‌ انتقال کر گئی تھیں۔ انھیں بلبلِ نشریات کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔

    نوجوانی میں موہنی داس کے نام سے اپنے فنی سفر کا آغاز کرنے والی اس براڈ کاسٹر نے کئی ریڈیائی ڈراموں کے لیے اداکاری اور بچّوں کے لیے پروگرام کیے اور انھیں اپنی آواز میں گیت سنانے کے علاوہ ہر شام کہانیاں بھی سناتی رہیں۔

    امرتسر کے ایک علاقہ میں موہنی داس نے عیسائی گھرانے میں 1922ء میں آنکھ کھولی تھی۔ قیامِ‌ پاکستان کے بعد 1954 میں ان کی شادی حمید احمد سے ہوئی جو ایک صحافی تھے اور شادی کے بعد موہنی حمید بن گئیں۔ امریکہ کی ریاست واشنگٹن میں وفات پانے والی موہنی حمید کی بیٹی کنول نصیر بھی پاکستان کی مشہور و معروف براڈ کاسٹر اور نیوز اناؤنسر تھیں۔ موہنی حمید کا تعلق صدا کاروں کی اس نسل سے تھا جس میں مصطفی علی ہمدانی، اخلاق احمد دہلوی، عزیز الرحمٰن، نسرین محمود، خالدہ ارجمند، عبداللطیف مسافر، مرزا سلطان بیگ عرف نظام دین اور محمد حسین جیسے فن کار شامل تھے۔ یہی وہ زمانہ تھا جب امتیاز علی تاج، رفیع پیر اور شوکت تھانوی جیسے ڈرامہ نگار بھی ریڈیو کے مختلف پروگراموں میں اپنی آواز کا جادو جگاتے تھے۔ اسی دور میں موہنی نے فن کی دنیا میں اپنے انداز اور شخصیت کی بدولت لوگوں کے دلوں میں‌ جگہ بنائی۔ وہ آل انڈیا ریڈیو لاہور سے 1938 میں صدا کاری کا آغاز کر کے سامعین میں پہچان تو بنا ہی چکی تھیں لیکن تقسیم کے بعد وہ پاکستانی کی پہلی براڈ کاسٹر بنیں اور انھیں شمیم آپا کے طور پر بڑی مقبولیت حاصل ہوئی۔ 1957 میں ان کی آواز سال کی بہترین آوازوں میں سے ایک قرار دی گئی۔ 1963 میں ریڈیو پاکستان لاہور نے ان کی سلور جوبلی منائی اور اس موقع پر بی بی سی (برٹش براڈ کاسٹنگ کارپوریشن) نے اپنی اردو نشریات میں انہیں ’’گولڈن وائس آف ایشیا‘‘ قرار دیا۔ 1965 میں موہنی حمید کو صدرِ پاکستان نے ’’تمغائے امتیاز‘‘ سے نوازا۔ 1977 میں موہنی حمید ریٹائرمنٹ کے بعد امریکا چلی گئی تھیں۔

  • ایملی ڈکنسن: موت کے بعد شہرت اور مقبولیت پانے والی شاعرہ

    ایملی ڈکنسن: موت کے بعد شہرت اور مقبولیت پانے والی شاعرہ

    ایملی ڈکنسن کو انگریزی زبان کی سب سے بڑی شاعرہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ انیسویں میں اس شاعرہ نے جس طرح موضوعات کے برتاؤ کے ساتھ ہیئت کے تجربات کیے وہ اس کی شاعری کو اگلی صدی کی شاعری بناتی ہے۔ ایملی ڈکنسن کی نظموں‌ میں یاسیت کا گہرا رنگ نظر آتا ہے جب کہ وہ خود بھی تنہائی پسند اور اپنی ذات میں گم رہنے والی لڑکی تھی۔

    امریکہ کی اس عظیم شاعرہ کو مقامی لوگ اس کی خلوت پسندی اور عام میل جول نہ رکھنے کی وجہ سے سنکی عورت کہتے تھے۔ بظاہر ایملی کی تنہائی پسندی غیرمعمولی یا پریشان کُن تو نہیں‌ تھی، لیکن وہ اپنے پڑوسیوں یا رشتے داروں سے بھی بات چیت نہیں کرتی تھی بلکہ ان کا سامنا کرنے سے کتراتی تھی۔ ایملی ڈکنسن جواں عمری میں موت کو اپنے اور دوسرے انسانوں کے لیے ایک بڑا عفریت تصوّر کرنے لگی تھی۔ اس کی یہ ذہنی حالت دوسروں پر اُس وقت کھلی جب ایک قریبی عزیز کی موت کے بعد انھوں نے ایملی کو شدید صدمے سے دوچار پایا۔

    ایملی ڈکنسن کی شاعری نے اس کے عہد ہی نہیں، اگلی صدی میں‌ بھی اس کے قارئین کے ذہنوں پر اپنا اثر چھوڑا۔ لیکن ایملی ڈکنسن کی شہرت اور دنیا بھر میں پہچان کا سفر اس کی موت کے بعد شروع ہوا۔ 10 دسمبر 1830ء میں ایملی ڈکنسن امریکی ریاست میساچوسسٹس کے شہر ایمہرسٹ میں‌ پیدا ہوئی تھی۔ اس کے والد ڈیوڈ ڈکنسن پیشے کے اعتبار سے وکیل اور ایمہرسٹ کالج کے ٹرسٹی تھے، اور شہر کی نمایاں شخصیت تھے اگرچہ یہ خاندان مالی طور پر مستحکم نہیں تھا، اس کے باوجود اس کے والد اپنے بچّوں کی تعلیم و تربیت پر توجہ دیتے ہوئے انھیں کارآمد اور مفید شہری بنانے کی خواہش رکھتے تھے۔ وہ ایک مہذّب اور اصولوں کی پاس داری کرنے والے انسان تھے۔ انھوں نے اپنی بیٹی ایملی ڈکنسن کو پرائمری کی تعلیم کے لیے قریبی اسکول میں داخل کروایا اور بعد میں اسے ایمہرسٹ کی اکیڈمی میں بھیجا جہاں 7 برس کے دوران ایملی ڈکنسن نے دیگر مضامین کے ساتھ کلاسیکی ادب بھی پڑھا۔ وہ بچپن ہی سے موسیقی اور پیانو بجانے میں‌ دل چسپی لینے لگی تھی جب کہ ایک طالبہ کی حیثیت سے ادب کا مطالعہ کرنے کے بعد وہ شاعری کی جانب متوجہ ہوئی اور نظمیں لکھنے لگی مگر ایک عرصہ تک اس کے قریبی لوگ بھی یہ نہیں جانتے تھے کہ وہ ایک تخلیق کار ہے۔ ایملی ڈکنسن کو مکتوب نگاری کا بھی شوق تھا اور شاید یہ سب لکھنے لکھانے میں دل چسپی اور قلم سے محبت کی وجہ سے تھا۔ بہرحال، اس نے قلمی دوستیاں کیں اور خط کتابت کے ذریعے علمی و ادبی شخصیات سے رابطہ رکھا۔ اس کے باوجود زندگی میں ایملی ڈکنسن کو بطور شاعرہ بہت کم لوگ جان سکے۔ 1850ء کے اواخر میں سموئیل بولس نامی ایک صحافی اور جریدے کے مدیر سے اس کا رابطہ ہوا اور اس طرح ایملی ڈکنسن کی چند نظمیں قارئین تک پہنچیں جس نے ایملی ڈکنسن کو خوشی اور حوصلہ دیا۔ بعد میں سموئیل اپنی اہلیہ کے ساتھ ایملی ڈکنسن سے ملنے کئی مرتبہ اس کے گھر بھی آیا۔ ایملی ڈکنسن نے اسے تین درجن سے زائد خطوط بھی لکھے تھے اور لگ بھگ پچاس نظمیں‌ ارسال کی تھیں۔ ایملی ڈکسنن کی متعدد نظمیں بھی اس دور کے چند ادبی پرچوں کی زینت بنی تھیں، تاہم ان کی تعداد قابلِ‌ ذکر نہیں‌۔ 15 مئی 1886ء میں ایملی ڈکنسن کا انتقال ہوگیا اور تب اس کی بہن نے نظموں کو اکٹھا کر کے کتابی شکل میں شایع کروایا تو ایملی ڈکنسن امریکہ بھر میں پہچانی گئی۔ یہ 1890 کی بات ہے۔

    ایملی ڈکنسن کی اکثر نظمیں موت اور ابدیت کے موضوع پر ہیں جب کہ اپنے ارسال کردہ خطوط میں ان موضوعات کے علاوہ ایملی ڈکنسن نے جمالیات، فطرت، روحانیت اور سماجی معاملات پر اظہارِ‌ خیال کیا ہے۔

    ایملی ڈکنسن نے شادی نہیں‌ کی تھی۔ تعجب خیز امر یہ ہے کہ اس شہرۂ آفاق امریکی شاعرہ کی صرف ایک ہی تصویر دست یاب تھی جو کئی سال تک ادبی رسائل میں اس شاعرہ سے متعلق مضامین کے ساتھ شایع ہوتی رہی، لیکن 1995ء میں‌ کہیں نیلامی کے دوران ایک تصویر میں‌ کسی مداح نے ایملی ڈکنسن کو پہچان کر وہ تصویر خرید لی۔ لیکن دس سال تک اسے منظرِ عام پر نہیں لایا۔ بعد میں‌ تحقیق سے معلوم ہوا کہ یہ ایملی ڈکنسن ہی کی تصویر ہے جس میں وہ اپنی ایک سہیلی کے ساتھ موجود ہے۔ یہ تصویر اس وقت بنائی گئی جب ایملی ڈکنسن 17 برس کی تھی۔ یوں اب امریکہ میں انگریزی زبان کی سب سے بڑی شاعرہ کہلانے والی ایملی ڈکنسن دو تصویریں دست یاب ہیں۔ دوسری تصویر 1859ء میں کھینچی گئی تھی۔

  • حسرتؔ موہانی: شاعری، صحافت اور سیاست کے میدان کا رئیس

    حسرتؔ موہانی: شاعری، صحافت اور سیاست کے میدان کا رئیس

    یہ تذکرہ ہے حسرتؔ موہانی کا جن کی فکر اور فن کی کئی جہات ہیں اور ان کی شخصیت کے بھی کئی رُخ۔ اردو ادب میں وہ ایک شاعر، ادیب اور صحافی ہی نہیں بلکہ مجاہدِ آزادی کی حیثیت سے بھی مشہور تھے۔ حسرتؔ موہانی اردو ادب کا ایک بڑا نام ہیں جن کی آج برسی منائی جارہی ہے۔ 13 مئی 1951ء کو حسرتؔ اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے تھے۔

    چھوٹا سا قد، لاغر بدن، گندمی رنگت پر چیچک کے داغ، چہرہ پر داڑھی، سر پر کلا بتونی ٹوپی، پرانی وضع کے چار خانے کا انگرکھا، تنگ پاجامہ جس کے پائنچے ٹخنوں سے اُونچے ہوتے تھے، ایک ہاتھ میں چھڑی اور ایک ہاتھ میں پاندان۔ یہ حسرتؔ کا حلیہ تھا جو ادبی محافل اور سیاسی اجتماعات میں نظر آتے تھے۔ حسرتؔ ایک محقّق، نقّاد اور تذکرہ نگار بھی تھے۔

    نہیں آتی تو یاد ان کی مہینوں تک نہیں آتی
    مگر جب یاد آتے ہیں تو اکثر یاد آتے ہیں

    جنوں کا نام خرد پڑ گیا، خرد کا جنوں
    جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

    حسرتؔ کے یہ اشعار دیکھیے اور اردو کے ممتاز شاعر اور نقّاد فراق گورکھپوری کی حسرت کے کلام پر ایک مضمون سے چند سطور پڑھیے؛ "معاصرین بلکہ ہر دور کے اچھے متغزلین، سب کی شاعری میں وہ چیز موجود ہے جسے ہم رس کہتے ہیں لیکن اردو غزل کی تاریخ میں حسرت سے زیادہ یا حسرت کے برابر رسیلی شاعری ہرگز کہیں اور نہ ملے گی۔ میر سوز اور ان کے ہمنواؤں کے ہاتھوں جس طرح کی اردو غزل نے جنم لیا تھا حسرت نے اسے کنیا سے کامنی بنا دیا۔ یہ کام ایک پیدائشی فن کار (Born Master) کا ہے۔ یہ شاعری قدرِ اوّل سے ذرا اتری ہوئی سہی لیکن یہ کارنامہ قدر اوّل کی چیز ہے۔ حسرت کے کلام میں ایک ایسی صفت ہے جو ان کے معاصرین میں نہیں ہے، یعنی وہ صفت جسے اہلِ لکھنو مزہ کہتے ہیں۔ حسرت کے کلام میں باسی پن شاید پیدا ہو ہی نہیں سکتا۔”

    ترقّی پسند تحریک کے سرداروں میں شامل سیّد سجّاد ظہیر نے ’’روشنائی‘‘ میں حسرتؔ کا ذکر یوں کیا ہے کہ ’’ہمارے ملک میں اگر کوئی ایسی ہستی تھی، جسے ہر قسم کے تکلّف، بناوٹ، مصنوعی اور رسمی آداب سے شدید نفرت تھی، اور جو اس بات کی پروا کیے بغیر کہ لوگ اس کی بات کا بُرا مانیں گے یا ناراض ہو جائیں گے، سچّی بات کہنے اور اس کے مطابق عمل کرنے سے کبھی نہیں جھجکتی تھی، تو وہ حسرتؔ موہانی کی ہستی تھی۔‘‘

    حسرتؔ کے والد کا نام سیّد ازہر حسن اور والدہ شہر بانو تھیں۔ حسرتؔ کی پیدایش کے سال میں کچھ اختلاف پایا جاتا ہے، لیکن بیش تر تذکرہ نویسوں‌ نے جنوری 1880ء اور وطن موہان بتایا ہے۔ اُن کا نام سیّد فضل الحسن رکھا گیا۔ خوش حال گھر کے فرد تھے جس کی فضا عمومی طور پر مذہبی تھی اور حسرتؔ بھی ابتدا ہی سے نماز روزہ اور دیگر دینی تعلیمات پر عمل کرنے لگے تھے۔ حسرتؔ کی والدہ اور نانی دونوں ہی فارسی اور اُردو پر نہ صرف قدرت رکھتی تھیں بلکہ شعری و ادبی ذوق بھی اعلیٰ پائے کا تھا۔ چوں کہ ان دو خواتین کی زیرِ تربیت حسرتؔ کا ابتدائی وقت گزرا، لہٰذا اُن میں بھی شعر و ادب سے دل چسپی پیدا ہو گئی۔ طبیعت میں ذہانت اور شوخی بھی بدرجۂ اتم موجود تھی۔ اُس زمانے کے رواج کے عین مطابق حسرتؔ کی تعلیم و تربیت کا سلسلہ گھر سے شروع ہوا۔ قابل اساتذہ نصاب کے مطابق عربی، فارسی درسیات اور اُردو اسباق کے لیے گھر آ کر تعلیم دیا کرتے۔ ان کی تعلیم اور صحبت کا اثر یہ ہوا کہ حسرتؔ کو نو عمری ہی سے فروعِ دین کا شوق پیدا ہوگیا۔ قرآنِ پاک کی تکمیل کر لی اور پھر فتح پور، ہسوہ کے اسکول میں داخل کروا دیا گیا۔ یہاں عربی و فارسی کے علاوہ انگریزی کی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔ حسرتؔ مشرقی اور مغربی تعلیم سے بہرہ وَر ہونے لگے۔ مڈل کے امتحان میں حسرتؔ نے اوّل درجے میں کام یابی حاصل کی اور ان کو وظیفہ عطا کیا گیا۔ چوں کہ اُس وقت موہان میں مڈل سے آگے کی تعلیم کے لیے کوئی اسکول موجود نہ تھا، لہٰذا حسرتؔ کو 1893ء میں میٹرک کی تعلیم کے لیے فتح پور بھیجا گیا۔ فتح پور میں حسرتؔ نے کم و بیش پانچ برس گزارے۔ اس دوران قابل اساتذہ اور ادبی شخصیات سے اُن کا میل جول رہا اور حسرت نے جو شاعری شروع کرچکے تھے، ان کی صحبت سے خوب فیض اٹھایا۔ 1899ء میں حسرتؔ گورنمنٹ ہائی اسکول، فتح پور سے عربی، فارسی، اُردو اور ریاضی میں امتیازی شان کے ساتھ درجۂ اوّل میں کام یاب ہوئے اور ایک بار پھر سرکاری وظیفے کے مستحق قرار پائے۔ حسرتؔ کی کام یابی کی یہ خبر گزٹ میں شایع ہوئی۔ اسی اثناء میں حسرتؔ کی شادی بھی انجام پا گئی۔ بیوی سمجھ دار اور پڑھی لکھی خاتون تھیں اور شادی کے بعد حسرتؔ علی گڑھ چلے گئے جہاں صحبتوں کا تو پوچھنا ہی کیا۔ سیّد سجّاد حیدر یلدرمؔ اور مولانا شوکت علی سے ہر وقت کا ملنا جلنا رہتا۔ 1901ء میں حسرتؔ نے انٹرمیڈیٹ کے امتحان میں کام یابی حاصل کی اور دو سال بعد ایک ادبی رسالہ، ’’اُردوئے مُعلّیٰ‘‘ جاری کیا جس میں ان کی اہلیہ نے اُن کا ہاتھ بٹایا اور اسی زمانے میں حسرتؔ جو عملی سیاست میں یک گونہ دل چسپی محسوس کرنے لگے تھے کالج کی سطح پر طلباء سرگرمیاں انجام دینے لگے۔ وہ اپنے ساتھیوں‌ کو لے کر مطالبات اور احتجاج میں اتنا آگے چلے گئے کہ کالج انتظامیہ نے ان کو تین بار ہاسٹل سے نکالا۔ ان کی سرگرمیاں انھیں کسی انقلابی تبدیلی کا خواہاں ظاہر کرتی تھیں۔ اسی اثنا میں حسرت نے گریجویشن کا امتحان بھی پاس کر لیا۔ 1904ء میں حسرتؔ نے پہلی بار کانگریس کے کسی اجلاس میں شرکت کی اور یوں باقاعدہ طور پر ایک سیاسی کارکن کی حیثیت سے ان کا سفر شروع ہوا۔ حسرتؔ نے اسی زمانے میں ’’آل انڈیا مسلم لیگ‘‘ کے قیام کے باوجود اس جماعت کا ساتھ نہ دیا۔ یہ ان کے نظریاتی اور سیاسی اختلاف کا معاملہ تھا۔ لیکن چند برس بعد ہی حسرتؔ نے کانگریس سے بھی علیحدگی اختیار کر لی۔ ادھر ان کے رسالے میں ایک مضمون میں‌ انگریز حکومت کی حکمتِ عملی پر جارحانہ انداز میں تنقید کے بعد حسرتؔ کو حراست میں لے لیا گیا اور ان پر غدّاری کا مقدّمہ بن گیا۔ حکومت نے کتب خانہ اور پریس ضبط کر لیا۔ مقدّمہ چلا اور حسرت کو دو برس قید اور جرمانہ 500 روپے کیا گیا۔

    1909ء میں حسرتؔ نے ایک بار پھر ’’اُردوئے مُعلّیٰ‘‘ کا اجراء کرنا چاہا، مگر کوئی پریس رسالہ چھاپنے کی ہمّت نہیں کر پا رہا تھا۔ تب انھوں نے خود اس کام کا آغاز کیا اور وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ مل کر پریس کے سارے کام خود کرنے لگے۔ ’’اُردوئے مُعلّیٰ‘‘ اپنی روش پر گام زن رہا۔ مگر ایک اور موقع وہ آیا کہ رسالہ پھر عتاب کا شکار ہو گیا۔ حسرتؔ نے ہمّت ہارنے کے بجائے عجب قدم اٹھایا۔ وہ دکان کھول کر بیٹھ گئے جہاں علاوہ سودیشی کپڑوں کے دیگر اشیاء بھی موجود ہوتیں۔

    حسرتؔ کا سیاسی نظریہ بہت واضح تھا کہ انگریزوں سے آزادی کے لیے عملی جدوجہد کی جائے۔ 1913ء ہی میں ’’مسجدِ کانپور‘‘ کا سانحہ رونما ہوگیا جس میں بہت سی جانیں ضایع ہوئیں۔ اسی پر ایک تحریک چلی، اور اس تحریک کے راہ نماؤں میں حسرتؔ بھی شامل تھے۔1916ء میں حکومت نے جوہرؔ اور ابوالکلام آزاد کو حراست میں لیا، تو حسرتؔ میدان میں نکلے، مگر ان کو بھی پابندِ سلاسل کر دیا گیا۔ برطانوی حکومت حسرتؔ کی شہرت سے خائف بھی تھی اور یہ بھی سمجھتی تھی کہ ہندوستان میں ہندو اور مسلمان دونوں کا حسرتؔ کو یکساں قدر کی نگاہ سے دیکھنا، خطرے سے کم نہیں۔ بالآخر مئی 1918ء میں حسرتؔ کی سزا کی مدّت پوری ہوئی اور وہ رہا کیے گئے۔ 1919ء میں’’ جلیانوالہ باغ‘‘ کا سانحہ پیش آیا۔ حسرتؔ کا برطانوی حکومت کے خلاف اور انگریزوں سے آزادی کا مطالبہ کرتے ہوئے ہندوستانی عوام کو سیاسی طور پر بیدار کرنے کا سلسلہ جلسے، جلوس، کانگریس اور مسلم لیگ سے اتفاق اور اختلاف کے ساتھ جاری تھا کہ 1922ء میں ایک بار پھر گرفتار کر لیے گئے اور اس کا سبب کانگریس کی خلافت کانفرنس اور مسلم لیگ کے جلسوں میں باغیانہ تقاریر تھیں۔ انھیں قیدِ بامشقّت سنائی گئی۔ دو سال بعد رہائی ملی اور 1925ء میں‌ سال کے آخر میں کانپور میں ’’آل انڈیا کمیونسٹ کانفرنس‘‘ منعقد ہوئی، جس کی پشت پر حسرتؔ موجود تھے۔ اب انھوں نے خود کو ’’مسلم اشتراکی‘‘ کہنا شروع کردیا۔ اس سیاسی سفر کے علاوہ 1936ء میں ’’انجمنِ ترقی پسند مصنّفین‘‘ کا قیام عمل میں آیا تو حسرتؔ نے لکھنؤ کی پہلی کانفرنس میں بھی شرکت کی۔ 1937ء میں حسرتؔ کی اہلیہ کا انتقال ہوگیا اور پھر خاندان کی ایک بیوہ سے نکاح کرنے کے بعد مغربی ممالک کے دورے پر گئے۔ وہاں برطانوی سیاسی راہ نماؤں سے ملاقاتیں کیں، ہاؤس آف کامنز کے جلسے میں تقریر کی اور وہاں ہندوستانیوں کی آواز بنے رہے۔ یہاں‌ تک کہ ہندوستان تقسیم ہوگیا اور حسرتؔ نے بھارت ہی میں رہنا پسند کیا۔ 1950ء میں اپنی زندگی کا آخری اور تیرہواں حج ادا کرنے والے حسرت بیماری کے سبب اگلے سال انتقال کرگئے۔

    حسرتؔ کی تصنیفات و تالیفات میں ’’متروکاتِ سُخن‘‘، ’’معائبِ سخن‘‘، ’’محاسنِ سخن‘‘، ’’نوادرِ سخن‘‘،’’نکاتِ سخن‘‘،’’دیوانِ غالبؔ(اردو) مع شرح‘‘، ’’کلّیاتِ حسرتؔ‘‘، ’’قیدِ فرنگ‘‘، ’’مشاہداتِ زنداں‘‘ اور کئی مضامین شامل ہیں۔

  • فلابیئر: وہ مصنّف جس کے ناول نے فرانسیسی سماج کو مشتعل کر دیا!

    فلابیئر: وہ مصنّف جس کے ناول نے فرانسیسی سماج کو مشتعل کر دیا!

    مشہور نقاد اور شاعر ایزرا پاؤنڈ نے کہا تھا کہ ’’جو فلابیئر کی نثر سے واقف نہیں، اور جس نے ’’مادام بواری‘‘ کا مطالعہ نہیں کیا وہ نہ اچھی شاعری کرسکتا ہے نہ اچھی نثر لکھ سکتا ہے۔‘‘ اس ستائش کی روشنی میں اگر فرانسیسی ادیب فلابیئر کے ناول ’’مادام بواری‘‘ کی بات کی جائے تو اسے شہرۂ آفاق ناول کہا جاتا ہے جس کا دنیا کی کئی زبانوں میں‌ ترجمہ ہوا۔ ان میں اردو بھی شامل ہے۔ فلابیئر کا یہ ناول متنازع ثابت ہوا اور اسے مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔

    گستاف فلابیئر کو انیسویں صدی کا ایک حقیقت نگار کہا جاتا ہے جس نے 1880ء میں آج ہی کے دن ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موند لی تھیں۔ 1858ء میں اپنے ناول کی اشاعت کے بعد مقدمہ میں فتح فلابیئر کی ہوئی تھی۔ فلابیئر اپنے ایک خط میں‌ لکھتا ہے: ’’ میں جانتا ہوں کہ میں ان دنوں جو کچھ لکھ رہا ہوں اسے کبھی بھی مقبولیت حاصل نہ ہو گی، لیکن میرے نزدیک اس بات کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ لکھنے والا خود اپنے لیے لکھے، حسن آفرینی کا یہی ایک طریقہ ہے۔‘‘

    فلابیئر وہ فرانسیسی ناول نگار تھا جو ادیب کی تخلیقی آزادی کو غیر معمولی اہمیت دیتا تھا۔ اسے ایک حقیقت نگار کے طور پر پہلی مرتبہ پہچانا تو گیا، مگر یہ حتمی بات نہیں ہے کہ حقیقت نگاری کا باضابطہ آغاز کس مصنّف کیا۔ محققین یہ تو مانتے ہیں کہ حقیقت نگاری کا آغاز فرانس سے ہوا تھا، لیکن اس ضمن میں متعدد ادیبوں‌ کے نام لیے جاتے ہیں۔ تاہم فلابیئر ان ناول نگاروں‌ میں شامل ہے جسے مادام بواری کی اشاعت کے بعد ادب میں بڑا نام و مرتبہ حاصل ہوا۔

    فلابیئر کے اس ناول کو شاہکار مانا جاتا ہے جس کا مرکزی خیال کچھ یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ رومان، اس ناول کی ہیروئن اور اس کے شوہر کو زوال پذیر کر دیتا ہے۔ یہ عورت کے معاشقے کی داستان ہے جو اس سماج کی نظروں میں مذہب، روایات اور عام اخلاقی قدروں کی پامالی کے مترادف تھا۔ اسی لیے مصنّف کے ساتھ اس ناول کے ناشر اور مطابع کے خلاف عدالت میں کیس دائر کردیا گیا، لیکن فریق یہ ثابت نہ کرسکا کہ ناول کا مواد کس طرح سماجی قدروں کی پامالی کا باعث، زنا کاری کی ترویج اور شادی کے بندھن کے تقدس کو پامال کررہا ہے؟ دراصل اس ناول میں جنسی اعمال و افعال کی تفصیل جس قدر کھل کر بیان کی گئی تھی، پہلے ایسا نہیں ہوا تھا۔ لوگوں نے اسے مصنّف کی بے باکی اور ذہنی عیاشی تصور کیا اور ناول پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ اس ضمن میں‌ مؤقف یہ تھا کہ مصنّف نے بدکاری کو اس طرح پیش کیا ہے جیسے یہ کوئی مقدس کام ہو اور اس کے کردار کو اپنے فعل پر ندامت ہی نہیں ہے۔ یہ اُس دور کا فرانس تھا جس میں مرد اور عورت کے تعلقات کو اس قدر کھل کر بیان کرنا کسی کے لیے بھی آسان نہیں‌ تھا۔ مگر گستاف فلابیئر نے یہ جرأت کی۔ بعد میں فلابیئر کو تمام الزامات سے بری کردیا گیا۔

    وہ ایک شاعرہ لوسی کولٹ سے طوفانی قسم کے عشق کے لیے بھی مشہور ہوا مگر اس سے شادی نہیں‌ کر سکا۔ یہ شاعرہ خود بھی ایک متنازع خاتون تھی۔ لوسی کولٹ ایک موسیقار (Colet) کی بیوی تھی جسے پیرس کے ادبی حلقوں میں شہرت حاصل تھی۔ فلابیئر سے وہ پانچ سال بڑی تھی اور پہلی ملاقات ہی میں فلابیئر اس پر فریفتہ ہوگیا تھا۔ لوسی کولٹ خود بھی فلابیئر سے مل کر اس کی گرویدہ ہو گئی تھی۔ ان کے درمیان خط کتابت کا سلسلہ شروع ہوا مگر ان کے شہر مختلف تھے اور پھر یہ عشق ختم ہوگیا۔

    گستاف فلابیئر کی تحریروں کو رومانویت پسندی اور حقیقت نگاری کا امتزاج کہا جاتا ہے۔ وہ پیرس کے قریب ایک گاؤں کے اسپتال کے ڈاکٹر کی اولاد تھا۔ فلابیر 1821ء میں پیدا ہوا۔ وہ زرخیز ذہن کا مالک تھا۔ فلابیئر چوں کہ ایک خوش حال گھرانے کا فرد تھا تو اس کی تعلیم و تربیت پر بھی خاص توجہ دی گئی۔ اس نے علم الادویہ اور سائنس کے میدان میں‌ تعلیم مکمل کی اور 1841 میں اسے قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے والدین نے پیرس بھیج دیا۔ اسی زمانے میں فلابیئر کو مرگی کی تشخیص ہوئی۔ والد کی وفات کے بعد اس کی ایک بہن کا بھی انتقال ہوگیا۔ فلابیئر کی ماں نے خاص طور پر بیٹے کی بیماری کا علم ہونے کے بعد اس پر بڑی توجہ دی۔

    فلابیئر سیرو سیاحت کا دلدادہ تھا۔ اس نے کئی ملکوں کا سفر کیا جس سے اس کے علم اور تجربات میں‌ اضافہ ہوا۔ فلابیئر ادب کی طرف متوجہ ہوا تو اس نے معیاری ادب تخلیق کرنے پر توجہ دی۔ وہ اپنے اسلوب اور انداز کو پُراثر بنانے میں‌ کام یاب رہا۔

    فرانس کے اس باصلاحیت ادیب نے ایک لغت بھی مرتب کی تھی جو اس کی وفات کے بعد شایع ہوئی۔ فلابیئر اپنی زندگی کے آخری ایّام میں ایک ناول لکھ رہا تھا جو اس کی موت کی وجہ سے ادھورا رہ گیا۔

  • شمیم حنفی: ادب کی دنیا کا ایک معتبر نام، ایک بہترین استاد

    شمیم حنفی: ادب کی دنیا کا ایک معتبر نام، ایک بہترین استاد

    اردو کے ممتاز ادیب، نقّاد، ڈرامہ نگار، شاعر اور مترجم پروفیسر شمیم حنفی چھے مئی 2021 کو انتقال کر گئے تھے۔ وہ نئی دہلی میں مقیم تھے۔ آج شمیم حنفی کی تیسری برسی ہے۔

    شمیم حنفی کو ان کے وطن بھارت ہی نہیں پاکستان کے علمی و ادبی حلقوں میں بھی بڑی قدر و منزلت حاصل رہی اور ان کی ادبی فکر اور تخلیقات کو ہمیشہ سراہا گیا۔

    بحیثیت ادبی ناقد مشرقی شعریات پر ان کی نگاہ بہت گہری تھی۔ خصوصیت کے ساتھ شاعر مشرق علّامہ اقبالؔ کے فکری مباحث کا مطالعہ انھوں نے بہت باریک بینی سے کیا تھا۔ وہ اقبال کی شاعرانہ عظمت کے معترف تھے۔ ان کی کتاب ’اقبال اور عصرِ حاضر کا خزانہ‘ بھی ان کی یادگار ہے۔ پروفیسر شمیم حنفی اردو تنقید کے ساتھ ساتھ شاعری اور فنونِ لطیفہ سے بھی غیر معمولی وابستگی رکھتے تھے۔ شمیم حنفی کی کتابوں میں جدیدیت کی فلسفیانہ اساس، نئی شعری روایت، تاریخ تہذیب اور تخلیقی تجزیہ، اردو ثقافت اور تقسیم کی روایت، خیال کی مسافت اور قاری سے مکالمہ خصوصیت کے ساتھ قابلِ ذکر ہیں۔

    وہ بھارت میں‌ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبۂ اردو میں استاد رہے اور پروفیسر ایمریٹس مقرر ہوئے۔ پروفیسر صاحب جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ڈین فیکلٹی آف ہیومنٹیز اینڈ لینگویجز کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ پروفیسر شمیم حنفی فروغِ اردو کے اہم ادارے ’ریختہ‘ اور ’جشنِ ادب‘ کے سرپرست بھی تھے۔ وہ 2010 سے غالب اکیڈمی، نئی دہلی کے صدر کے عہدے پر بھی فائز رہے تھے۔

    شمیم حنفی 17 مئی 1938 کو اتر پردیش کے علاقہ سلطان پور میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے 1967 میں الہ آباد یونیورسٹی سے ایم اے، 1972 میں پی ایچ ڈی اور 1976 میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی سے ڈی لٹ کیا تھا۔

    وہ متعدد کتابوں کے مصنف تھے۔ انہوں نے مولانا ابوالکلام آزاد کی انگریزی کتاب ’انڈیا ونز فریڈم‘ کا اردو میں ترجمہ بھی کیا۔ ان کی دیگر کتابوں میں منٹو: حقیقت سے افسانے تک‘، ’غالب کی تخلیقی حسیت‘، ’آزادی کے بعد دہلی میں اردو خاکہ‘ اور ’غزل کا نیا منظر نامہ‘ شامل ہیں۔انہوں نے بچوں کے لیے بھی کتابیں لکھیں اور متعدد کتب کے ترجمے بھی کیے۔

  • نوشاد: موسیقی کی دنیا کا ساحر

    نوشاد: موسیقی کی دنیا کا ساحر

    نوشاد کو موسیقارِ‌ اعظم کہا جاتا ہے۔ وہ فلم اور سنگیت کی دنیا کے ایسے جادوگر تھے جس نے بہت کم عمری میں سنگیت سے اپنا ناتا جوڑا اور موسیقی کے فن میں اپنی جادوگری سے سماعتوں کو اسیر کرتے چلے گئے۔ نوشاد شاعر بھی تھے۔

    5 مئی 2006ء کو نوشاد انتقال کر گئے تھے۔ ان کا پورا نام نوشاد علی تھا۔ 25 دسمبر1919ء کو نوشاد نے لکھنؤ کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولی۔ سُر سنگیت سے ان کے جڑنے کا قصّہ بھی بہت دل چسپ ہے۔ بولی وڈ کے کئی بڑے ناموں اور مقبول ترین آوازوں نے نوشاد کی موسیقی کے بل پر انڈسٹری پر راج کیا۔

    نوشاد کو ان کا ذوق و شوق اور فنِ موسیقی میں دل چسپی ساز و آلاتِ‌ موسیقی کے قریب تو لے گئی لیکن باقاعدہ تربیت اور سیکھنے کا سلسلہ استاد غربت علی، استاد یوسف علی اور استاد ببن صاحب کے زیرِ سایہ شروع ہوا۔ 1937 میں نوشاد ممبئی پہنچ گئے اور 1940ء میں فلم پریم نگر سے اپنے فنی سفر کا آغاز کیا۔ اس وقت فلمی دنیا میں استاد جھنڈے خان ایک بڑا نام تھا اور انھوں نے نوشاد کی راہ نمائی کی۔ 1944ء میں فلم رتن ریلیز ہوئی جو نوشاد کے فنی کیریئر کا ایک سنگِ میل ثابت ہوئی اور اسی کے بعد ان کا نام فلموں کی کام یابی کی ضمانت بن گیا۔

    نوشاد کو فنِ موسیقی میں یہ نام و مرتبہ اور فلمی دنیا میں یہ عروج ہمیشہ اس لیے ملا کہ انھوں نے محنت اور لگن کے ساتھ اپنے کام میں تجربات کو اہمیت دی۔ انھوں نے کلاسیکی موسیقی اور لوک سنگیت کو اس انداز سے عوام کے سامنے پیش کیا کہ آج بھی ان کا سنگیت کانوں میں رس گھول رہا ہے۔

    موسیقار نوشاد نے اپنے بچپن میں بہ صد اشتیاق پہلا قدم لکھنؤ کی ‘بھوندو اینڈ کمپنی میں رکھا تو خود انھیں اور اس دکان کے مالک کو بھی نہیں معلوم تھا کہ وہ جس بچّے کو اپنی دکان پر جھاڑ پونچھ کے لیے رکھ رہا ہے، وہ کل ہندوستان کی ایک مشہور شخصیت بنے گا اور اس کا نام اونچے درجے کے کلاکاروں میں شامل ہوگا۔

    سُر سنگیت کے اس عالی مقام فن کار کی 67 فلموں کے لیے ترتیب دی گئی موسیقی نے انھیں دادا صاحب پھالکے سمیت کئی بڑے ایوارڈز دلوائے۔ اپنے فن کی بنیاد پر نوشاد نے بے شمار داد و تحسین سمیٹی، توصیفی کلمات سنے اور ان پر کئی مضامین لکھے گئے جب کہ نوشاد کی طبیعت میں سادگی اور عاجزی غالب رہی۔ موسیقار نوشاد نے اپنی زندگی اور فن کی دنیا کے کئی دل چسپ اور انوکھے قصّے بھی اپنی سرگزشت میں بیان کیے ہیں۔ یہاں ہم ان کی آپ بیتی سے دو پُرلطف واقعات نقل کررہے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

    "ان دنوں مجھ پر کام کا ایسا جنون سوار رہتا کہ اپنا ہوش نہ رہتا۔ ہر وقت، ہر لمحہ کسی گیت کی دھن، کسی گیت کے بول میرے ہوش و حواس پر چھائے رہتے۔ ایسے عالم میں مجھ سے بڑی بڑی حماقتیں بھی سرزد ہوتیں۔ میں نے دادر میں فلیٹ کرائے پر لیا تھا، مگر ایک روز کسی گیت کی دھن سوچتا ہوا سیدھا پریل کی جھونپڑ پٹی کی چال میں پہنچ گیا۔ بڑے اطمینان کے ساتھ کوٹ وغیرہ اتارا اور بستر پر دراز ہو گیا۔ آنکھیں موندے دھن کو سجانے سنوارنے میں مصروف تھا کہ ایک عورت کمرے میں داخل ہوئی۔ وہ مجھے دیکھ کر چونکی۔ اس نے مراٹھی زبان میں مجھ سے پوچھا۔ ’’تم کون ہو؟‘‘ میں اس سوال پر ہڑبڑا کر اٹھا، اپنا کوٹ اٹھایا اور دوڑ لگا دی۔ بھاگتے بھاگتے بس اسٹینڈ پر آیا، بس پکڑی اور دادر کے مکان پر پہنچا۔ گھر آ کر اپنی حماقت پر ہنسی بھی آئی اور یہ سوچ کر جسم میں لرزہ بھی پیدا ہوا کہ کسی غیر کے مکان میں کسی غیر عورت کی موجودگی میں داخل ہونے کی بہت بڑی سزا بھی مل سکتی تھی۔”

    موسیقار نوشاد نے کتاب میں ایک یہ قصّہ بھی تحریر کیا ہے جو فن سے ان کی محبّت اور جنون کی عکاسی کرتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

    "اپنے کام کی سرمستی میں ایک مرتبہ لوکل ٹرین میں سفر کر رہا تھا۔ ایک ہاتھ میں سگریٹ تھا اور دوسرے ہاتھ میں وہ نوٹ بک جس میں گیت تھے۔ جب سگریٹ کی وجہ سے انگلی جلنے لگی تو میں نے اپنی دانست میں سگریٹ چلتی ٹرین سے پھینک دیا، کچھ لمحے بعد احساس ہوا کہ انگلیاں اب بھی جل رہی ہیں تو پتہ چلا کہ سگریٹ کی جگہ نوٹ بک چلتی ٹرین سے پھینک دی ہے۔ پریل قریب تھا۔ اسٹیشن پر اترا اور ٹرین کی پٹڑی کے ساتھ چلتے چلتے کھار پہنچا۔ وہاں مجھے اپنی نوٹ بک پڑی مل گئی۔ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ نوٹ بک مل گئی کیوں کہ اس میں وہ گیت بھی تھا جو دوسرے دن مجھے ریکارڈ کرانا تھا۔ ”

    بھارت کے اس عظیم موسیقار کا فلمی سفر 48 سال پر محیط رہا۔ نوشاد کی موسیقی میں‌ فلم مغلِ اعظم، انداز، میلہ، آن، اعلان، انمول گھڑی، انوکھی ادا، مدر انڈیا، گنگا جمنا، پاکیزہ اور رام اور شیام مشہور فلمیں ثابت ہوئیں‌۔

  • ‘ببّو’ جسے اب یاد کرنے والا کوئی نہیں!

    ‘ببّو’ جسے اب یاد کرنے والا کوئی نہیں!

    عشرت سلطانہ عرف ببّو کسی زمانے میں ساگر فلم کمپنی کی مشہور ہیروئن ہوا کرتی تھی۔ 1914ء میں دلّی میں پیدا ہوئی تھی۔ طبیعت بچپن سے اداکاری، رقص و موسیقی کی جانب مائل تھی اس لیے فلم لائن میں چلی گئی۔ اچھی اداکارہ ہونے کے ساتھ اچھی سنگر بھی ثابت ہوئی۔ ہیروئن اور ویمپ کا کردار یکساں خوبی کے ساتھ نبھایا کرتی تھی۔

    اُن دنوں بھی بہت ہنس مکھ تھی، جس محفل میں جاتی اُسے زعفران زار بنا دیا کرتی تھی۔ پہلی بار فلم ’دوپٹہ‘ میں ایک چھوٹا سا رول ملا تھا جو اس نے خوش اسلوبی سے نبھا دیا۔ پھر بڑے کردار ملنے لگے اور فلمیں کامیاب ہوتی چلی گئیں۔ جسم تھوڑا بھاری تھا لیکن اس کی سُریلی آواز نے لوگوں کو دیوانہ بنا رکھا تھا۔

    ’جاگیردار‘ اور ’گرامو فون سنگر‘ فلموں کے باعث بڑی مشہور ہو گئی۔ اس کا یہ گانا بچّے بچّے کی زبان پر تھا ’’پجاری میرے مندر میں آؤ‘‘ ایک اور نغمہ تمھیں نے مجھ کو پریم سکھایا….سوئے ہوئے ہردے کو جگایا، بہت پاپولر ہوا تھا۔

    ایک بار اس کی ایک فلم دیکھ کر بمبئی کے گورنر نے اس کی تعریف کی تھی جس کی وجہ سے وہ مغرور ہو گئی اور اس کے نخرے بڑھنے لگے۔ اپنے وفا شعار شوہر کو چھوڑ کر چلتے پھرتے تعلقات پر یقین کرنے لگی۔ بالآخر حسن ڈھلنے کے دن آ گئے اور مٹاپا جسم پر چھا گیا تو سب نے آنکھیں پھیر لیں، کام ملنا بند ہو گیا۔ ملک کا بٹوارہ ہو گیا تو قسمت آزمائی کے لیے لاہور چلی گئی اور وہاں پاکستان کی فلم انڈسٹری میں مقام پیدا کرنے کی کوشش کی۔ چند فلموں میں کام کرنے کے بعد وہاں بھی مارکیٹ ختم ہو گئی۔ کام حاصل کرنے کی کوشش میں وہ اسٹوڈیوز کے چکّر کاٹتی رہتی تھی۔ فلم ’مغلِ اعظم‘ میں سنگ تراش کا کردار عمدگی سے نبھانے کے باوجود جب اداکار کمار کو بھی اداکاری کے میدان میں دشواری محسوس ہونے لگی تو وہ بھی پاکستان چلا گیا۔

    ایک دن اُس کا کسی اسٹوڈیو میں اپنی پرانی ہیروئن ببّو سے سامنا ہوا تو دونوں گلے ملے۔ کمار بار بار ’’میری ببّو، میری ببّو‘‘ کہہ کر پرانے دنوں کی یاد تازہ کرتا رہا۔ دونوں کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ بمبئی میں تب کیسے اچھے دن تھے اور اب کتنا مایوس کر دینے والا ماحول تھا۔ ببّو کے پاؤں جب فلم انڈسٹری سے اکھڑ گئے اور کوشش بسیار کے باوجود کام نہ ملا تو اُس نے شراب کی ناجائز درآمد اور برآمد کا دھندا شروع کر دیا، پکڑی گئی تو نہ گھر کی رہی نہ گھاٹ کی۔ آخر کار گمنام موت نصیب ہوئی۔ اب اُسے یاد کرنے والا کوئی نہیں۔

    (از قلم وشو ناتھ طاؤس)

  • نرگس کا تذکرہ جنھیں ‘مدر انڈیا’ نے لازوال شہرت ہی نہیں وفادار جیون ساتھی بھی دیا!

    نرگس کا تذکرہ جنھیں ‘مدر انڈیا’ نے لازوال شہرت ہی نہیں وفادار جیون ساتھی بھی دیا!

    فلم ‘راکی’ کی نمائش 7 مئی 1981ء کو ہونا تھی اور کینسر کے مرض میں مبتلا نرگس دَت اپنے بیٹے کی پہلی فلم کے پریمیئیر میں ہرحالت میں‌ شرکت کرنا چاہتی تھیں‌، لیکن اجل نے انھیں مہلت نہیں دی۔ 3 مئی کو نرگس کا انتقال ہوگیا۔

    بولی وڈ اداکارہ نرگس دَت اپنے ایک مضمون میں لکھتی ہیں، "مجھے اپنی زندگی میں‌ ہمیشہ اطمینان رہا کیوں کہ جس چیز کی میں نے خواہش کی وہ حاصل ہوگئی۔ میں نے زندگی کے مختلف روپ دیکھے ہیں اور طرح طرح کے تجربات جمع کیے ہیں۔ غم اور خوشی دونوں کو میں نے پرکھا ہے اور اس سے مجھ میں‌ حیات کا عرفان پیدا ہوا ہے۔ جب زمانے کے ستائے اور درد کے ماروں سے واسطہ پڑا تو ان سے میں نے یہ سیکھا کہ مشکلات اور مصائب کا سامنا کس پامردی سے کیا جاتا ہے۔ لیکن اس کے لیے اپنے اندر بھی ایک روحانی طاقت کا پایا جانا شرط ہے۔ اور یہ روحانی طاقت یقیناً اپنی ماں سے مجھے ورثہ میں‌ ملی ہے جس نے میرے ذہن و مزاج کی تشکیل میں ایک اہم کردار ادا کیا اور مجھے اس قابل بنایا کہ میں ایک بامقصد اور کام یاب زندگی گزار سکوں۔

    نرگس کا اصل نام فاطمہ رشید تھا جو سنیل دَت کی شریکِ سفر بنیں۔ سنیل دت بولی وڈ میں اداکاری کے ساتھ فلم ساز اور ہدایت کار کے طور پر بھی مشہور ہوئے۔ نرگس تو ڈاکٹر بننا چاہتی تھیں، لیکن فلمی دنیا نے انھیں یہ موقع نہیں دیا۔ وہ پہلی فلم کے بعد چاہتے ہوئے بھی آفرز پر انکار نہ کرسکیں۔ لیکن بعد میں انھوں‌ نے سیاست کی دنیا میں‌ ضرور قدم رکھا اور اپنی وفات تک راجیہ سبھا کی رکن رہیں۔

    نرگس اپنے ایک مضمون میں رقم طراز ہیں: قسمت کے فیصلے بھی عجیب ہوتے ہیں۔ میں نے ہمیشہ شدّت سے چاہا تھا کہ ڈاکٹر بنوں لیکن فلم تقدیر کے بعد پانسے ہی پلٹ گئے۔ یکے بعد دیگرے میری فلمیں کام یاب ہوتی گئیں اور ڈاکٹر بننے کا پھر کبھی خیال نہیں‌ آیا، کیوں‌ کہ ایک اداکارہ جنم لے چکی تھی جو تیزی سے سرگرمِ سفر تھی۔

    نرگس دَت کی فلموں میں آمد، حسن و جمال اور ذاتی زندگی پر فلموں سے وابستہ کئی بڑے ناموں اور اہلِ قلم نے مضامین اور کتابیں‌ لکھیں۔ انہی میں اردو کے ممتاز ترقی پسند شاعر اور مصنّف علی سردار جعفری بھی شامل ہیں۔ علی سردار جعفری لکھتے ہیں‌، نرگس دَت موسمِ بہار کی کلی تھی۔ شہرت اور مقبولیت کی ایک خرابی بتاتے ہوئے مصنّف نے فلمی ستاروں‌ کے بارے میں لکھا، وہ اپنا توازن کھو دیتے ہیں اور فن اور زندگی کے دوسرے شعبوں کی بڑی ہستیوں کو خاطر میں نہیں لاتے اور جب ان کے عروج کا زمانہ ختم ہو جاتا ہے تو احساسِ کمتری میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ لیکن نرگس کا مزاج یہ نہیں تھا۔ اس نے اپنی انتہائی مقبولیت کے زمانے میں بھی اپنے ذہنی توازن کو برقرار رکھا اور اپنی شخصیت کے وقار کو باقی رکھا۔

    آج نرگس دَت کا یومِ‌ وفات ہے اور ہندی سنیما کی یہ معروف فن کار فلم انڈسٹری میں صرف نرگس کے نام سے پہچانی گئیں۔ یکم جون 1929 کو نرگس کلکتہ میں پیدا ہوئی تھیں۔ نرگس چھے سات برس کی تھیں‌ جب بطور چائلڈ آرٹسٹ کیمرے کا سامنا کیا اور وہ فلم ’’تلاشِ حق‘‘ تھی۔ نرگس کی ماں کا نام جدن بائی تھا جو کلاسیکی موسیقار اور گلوکار تھیں اور ان کا تعلق بنارس کے ایک خاندان سے تھا جب کہ والد موہن چند ایک امیر خاندان کے فرد تھے اور کہا جاتا ہے کہ وہ ایک نو مسلم تھے۔ نرگس کو 14 سال کی عمر میں محبوب خان کی فلم ’’تقدیر‘‘ میں بطور ہیروئن کام کرنے کا موقع ملا اور ان کی جوڑی راج کپور اور دلیپ کمار کے ساتھ آنے والے برسوں‌ میں بے حد مقبول ہوئی۔ راج کپور اور دلیپ کمار دونوں‌ ہی اپنے دور کے مقبول ہیرو تھے۔ نرگس نے ان کے ساتھ فلم’’ انداز‘‘، ’’آوارہ‘‘ اور ’’چوری چوری‘‘ میں بہترین اداکاری کی۔ مگر ان کا کیریئر 1942ء میں فلم “تمنا“ سے شروع ہوتا ہے۔ اداکارہ نرگس نے زیادہ تر خودمختار اور آزاد عورت کے کردار نبھائے اور اپنے فنِ اداکاری کے سبب ہدایت کاروں میں اہمیت حاصل کی۔ آدھی رات (1950ء)، بے وفا (1952ء)، انہونی (1952ء)، آہ (1953ء) اور دیگر فلموں میں ان کی اداکاری کو شائقین نے بہت پسند کیا۔ ایک وقت تھا جب وہ راج کپور جیسے بڑے ہندوستانی فن کار کے قریب ہوگئی تھیں‌، لیکن پھر ان میں‌ اَن بَن ہوگئی اور نرگس نے اپنے کیریئر کو آگے بڑھانے پر توجہ مرکوز کردی تاہم یہی وہ موڑ بھی تھا جس نے نرگس کو سنیل دت کی محبّت میں مبتلا کر دیا۔ نرگس نے راج کپور سے علیحدگی کے بعد پہلی فلم مدر انڈیا سائن کی تھی۔ اس فلم میں نرگس نے اپنی زندگی کی بہترین اداکاری کی۔ یہ فلم ایک عورت کی نوجوان بیوی سے بڑھاپے تک کے سفر کی کہانی ہے، جس میں رومانس تو ہے ہی لیکن ساتھ ساتھ عورت کی استقامت بھی بیان کی گئی ہے جس میں ایک ماں اپنے ہی بیٹے کو گولی مارنے سے گریز نہیں کرتی۔ اس فلم نے انھیں‌ ملک گیر شہرت دی اور مدر انڈیا کے بعد نرگس کے لیے ہر کردار چھوٹا ہو گیا۔ یہ ہندوستانی سنیما کی شاہ کار فلموں میں سے ایک تھی۔ اسی فلم میں‌ سنیل دت نے بھی کردار نبھایا تھا اور وہ دونوں ایک دوسرے کے قریب آئے۔

    اس فلم کی زیادہ تر شوٹنگ مہاراشٹرا اور گجرات میں کی گئی تھی اور اسی دوران ایک حادثہ انھیں قریب لے آیا۔ گجرات میں مدر انڈیا کے ایک سین میں بھوسے کے ڈھیر کو آگ لگائی جانی تھی جس میں‌ چھپے سنیل دت باہر آتے۔ اس موقع پر نرگس جلتے ہوئے بھوسے کے ڈھیر سے گزر رہی تھیں تو شعلوں میں پھنس گئیں۔ سنیل دت نے یہ دیکھا تو شعلوں‌ میں‌ کود کر نرگس کو بچا لیا۔ وہ اس دوران خود بھی جل گئے تھے۔ نرگس اسپتال میں ان کے ساتھ رہیں اور بہت خیال رکھا۔ بعد میں سنیل دت نے انھیں شادی کی پیشکش کی اور پھر دونوں نے زندگی بھر ایک دوسرے کا ساتھ نبھایا۔ اداکار سنجے دت انہی کی اولاد ہیں۔

    شادی کے بعد اداکارہ نرگس نے فلموں میں کام کرنا چھوڑ دیا اور اپنا رخ سماجی کاموں کی طرف کرلیا۔ نرگس نے ایک اچھی بیوی کی طرح نہ صرف سنیل دت کو سنبھالا بلکہ ان کے خاندان کو بھی ایک کیے رکھا۔ وہ سیاست کی دنیا میں بھی سرگرم ہوئیں اور نرگس کو راجیا سبھا کے لیے نامزد کیا گیا۔

    علی سردار جعفری لکھتے ہیں، نرگس کے چہرے میں وہ چیز نہیں تھی جس کو عام فلمی زبان میں گلیمر (GLAMOUR) کہا جاتا ہے۔ اس کی پوری شخصیت میں ایک سنجیدگی اور وقار تھا جس کی وجہ سے لوگ احترام کرنے پر مجبور ہو جاتے تھے۔ نرگس کے فن کے پرستاروں میں جواہر لال نہرو اور ترکی کے شاعر ناظم حکمت جیسی عظیم شخصیتیں تھیں۔

    میں نے نرگس کو ایک اچھی اداکارہ کی حیثیت سے سب سے پہلے قریب سے احمد عباس کی فلم ‘انہونی’ میں دیکھا جس کا ایک گیت "دل شاد بھی ہے ناشاد بھی ہے” میں نے لکھا تھا۔ اس میں نرگس کا رول دہرا تھا اور اس نے اپنے فن کے کمال کا پہلا بڑا مظاہرہ کیا تھا۔ اس نے دو لڑکیوں کا کردار ادا کیا تھا جن میں سے ایک "شریف زادی” ہے اور دوسری "طوائف”۔ خواجہ احمد عباس نے اس کہانی میں ماحول کے اثر پر زور دیا تھا۔ یہ فلم عباس کی بہترین فلموں میں شمار کی جاتی ہے۔ اور اس کا شمار نرگس کی بھی بہترین فلموں میں کیا جائے گا۔

    نرگس کے فن میں کیا جادو تھا اس کا مظاہرہ میں نے 1953ء میں دیکھا۔ اکتوبر یا نومبر 1953ء میں پہلا فلمی ڈیلیگیشن ہندوستان سے سوویت یونین گیا۔ ڈیلیگیشن کے لیڈر خواجہ احمد عباس تھے۔ اور اراکین میں بمل رائے، راج کپور، نرگس بلراج ساہنی وغیرہ تھے۔ وہاں راج کپور کی فلم ‘آوارہ’ دکھائی گئی جس کی کہانی خواجہ احمد عباس نے لکھی تھی۔ اس فلم نے سارے سوویت یونین کا دل جیت لیا۔ راج کپور اور نرگس، نرگس اور راج کپور۔ یہ دو نام ہر دل کے ساتھ دھڑک رہے تھے۔ اور ہر طرف فلم کا گانا ‘آوارہ ہوں…ٔ گایا جا رہا تھا۔

    جب میں دسمبر 1953ء میں سوویت یونین گیا تو لوگ مجھ سے پوچھتے تھے آپ نرگس کو جانتے ہیں۔ آپ راجک پور سے ملے ہیں؟ اور جب میں ہاں کہتا تو ان کی نظروں میں میرا وقار بڑھ جاتا تھا۔ ابھی دو تین ماہ پہلے جب میں سوویت یونین گیا تو تقریباً تیس سال بعد بھی نئی نسل کے نوجوان نرگس کے نام سے واقف تھے۔

    نرگس کی آخری اور شاہ کار فلم ‘مدر انڈیا’ ہے۔ اس میں نرگس کے فن نے اپنی آخری بلندیوں کو چھو لیا ہے۔ ماں کے کردار کے لیے محبوب خاں کی نگاہِ انتخاب نرگس پر پڑی اور وہ سب سے زیادہ صحیح انتخاب تھا۔ اور نرگس نے بھی کمال کر دیا۔ اپنی معراج پر پہنچنے کے بعد نرگس نے فلمی کام ہمیشہ کے لیے ترک کر دیا۔ اس فیصلے میں بھی نرگس کی عظمت جھلکتی ہے۔ وہ چیز جس کو "موہ مایا” کہا جاتا ہے نرگس اس سے بہت بلند تھی۔

    علی سردار جعفری کے مضمون کا یہ آخری پارہ ہے جس میں انھوں نے نرگس اور سنیل دت کی جوڑی کی تعریف کی ہے، وہ لکھتے ہیں: مدر انڈیا نے نرگس کو عظمت کی جو بلندی عطا کی اس کے ساتھ ایک وفادار اور محبت کرنے والا شوہر بھی دیا۔ نرگس کی بیماری کے آخری زمانے میں سنیل دَت نے جس طرح اپنے تن من دھن کے ساتھ نرگس کی خدمت کی ہے اس کی تعریف کرنے کے لیے ہماری زبان میں الفاظ نہیں ہیں۔ نرگس اور سنیل دَت کا فن ان کے بیٹے کو ورثے میں ملا ہے اور اگر سنجے دَت نے اپنی اس وراثت کا احترام کیا تو ایک دن وہ بھی عظمت کی بلندیوں کو چُھو لے گا۔

  • سیّد مراتب علی کا تذکرہ جنھوں‌ نے کئی کمپنیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری پر آمادہ کیا

    سیّد مراتب علی کا تذکرہ جنھوں‌ نے کئی کمپنیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری پر آمادہ کیا

    ہندوستان میں تحریکِ آزادی اور مسلم لیگ کو مضبوط کرنے کے لیے اسباب اور مالی وسائل مہیا کرنے والوں میں ایک نام سیّد مراتب علی کا بھی ہے جن کا ذکر بہت کم ہوتا ہے۔ وہ قائدِ اعظم محمد علی جناح کی قریبی دوست تھے۔ سید مراتب علی نے قیامِ پاکستان کی جدوجہد کو کام یاب بنانے کے لیے اپنی دولت خرچ کی اور دل کھول کر مسلم لیگ کے لیے مالی عطیات دیے۔

    سیّد مراتب علی 1882ء میں متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سید وزیر علی شاہ کاروبار سے وابستہ تھے اور دکان چلانے کے ساتھ ساتھ ٹھیکیداری کرتے تھے۔ یوں مراتب علی بھی محنتی اور کاروباری سوجھ بوجھ کے حامل تھے اور دکان کو اپنے بھائی کے ساتھ مل کر چلایا۔ مراتب علی کا شمار شمالی ہندوستان کی کام یاب مسلمان کاروباری شخصیات میں‌ ہوا۔ 22 مئی 1961ء کو سید مراتب علی وفات پاگئے تھے۔

    ابتدا میں ان کے والد نے لاہور میں کاروبار شروع کیا تھا۔ بعد ازاں وہ اپنے کنبے کے ساتھ فیروز پور چھاؤنی منتقل ہوگئے اور صدر بازار میں ایک دکان کھولی اور مختلف کاموں کے ٹھیکے بھی لینے لگے۔ ان کے بیٹے سید مراتب علی شاہ نے بھی تعلیم مکمل کر کے کاروبار میں ہاتھ بٹانا شروع کیا۔ ان کے ساتھ ان کا دوسرا بھائی بھی موجود ہوتا تھا۔ جب والد نے اپنے ان دونوں بیٹوں کو اس قابل پایا کہ وہ ان کا کاروبار اچھی طرح‌ دیکھ سکتے ہیں، تو فیروز پور چھاؤنی کی دکان ان پر چھوڑ کر ٹھیکیداری پر توجہ دینے لگے۔ والد کے انتقال کے بعد سیّد مراتب علی شاہ نے اپنے بھائی کے ساتھ مل کر کاروبار کو سنبھالا اور بہت کم عرصہ میں اپنی دیانت داری اور محنت و لگن سے انگلش آرمی یونٹوں تک رسائی حاصل کرلی اور ان کے لیے مختلف خدمات انجام دینے لگے۔ 1902ء میں سید مراتب علی کو ایک انگلش رجمنٹ میں کافی شاپ کا ٹھیکہ ملا اور کچھ عرصہ بعد دوسری کافی شاپس کے ٹھیکے بھی ان کو دے دیے گئے۔ اس ترقی کے ساتھ سید مراتب علی شاہ آرمی اور اہلِ علاقہ میں ایمان دار اور نیک نیّت بھی مشہور ہوچکے تھے۔ ان کی یہی شہرت انھیں سیاسی اور سماجی امتیاز عطا کرنے کی بنیاد بنی۔ 1907ء میں امیر حبیب اللہ خاں، والی افغانستان نے ہندوستان کا دورہ کیا تھا۔ ان کی پذیرائی کے لیے ایک استقبالیہ کمیٹی تشکیل دی گئی۔ سید مراتب علی شاہ کو نہ صرف اس کمیٹی کا ممبر چن لیا گیا بلکہ شاہی پارٹی کے تمام افراد کے خورد و نوش کا انتظام انہی کے سپرد ہوا۔ پہلے فیروزپور چھاؤنی کے فوجی افسروں تک بات محدود تھی، اب وہ حکومتِ ہند کی نظروں میں آگئے۔

    1908ء میں‌ سید مراتب علی شاہ نے انارکلی لاہور میں پنجاب ہاؤس کے نام سے کاروبار کا آغاز کیا۔ یہاں بھی ان کی نیک نامی خوب کام آئی اور ان کا کاروبار لاہور سے جھانسی، لکھنؤ اور بریلی کی چھاؤنیوں تک پھیل گیا۔ اسی دوران جارج پنجم کی تخت نشینی کے سلسلے میں ایک اجلاس دربار دہلی منعقد ہوا جس میں شہر کے ایسے بڑے کاروباری افراد اور مختلف شخصیات بھی مدعو تھے۔ وہاں ان کی کارکردگی کو سراہا گیا۔ جنگِ عظیم چھڑنے کے بعد ہندوستان بھر میں‌ ملٹری اسٹیشنوں پر کسی نہ کسی شکل میں سید مراتب علی کی خدمات ضرور لی جارہی تھیں۔ وہ مسلمانوں کی سیاسی جماعتوں اور قیادت کے بھی قریب ہوگئے۔ 1934ء میں حکومت ہند نے ایک تجارتی وفد افغانستان بھیجا جس میں سید مراتب علی شاہ بھی شامل تھے۔ 1935ء میں ریزرو بنک آف انڈیا کا سینٹرل بورڈ آف ڈائریکٹر قائم ہوا تو وہ اس کے رکن بنے۔ 1936 سے لے کر تقسیمِ ہند تک ایلکلی اینڈ کیمیکل کارپوریشن آف انڈیا لمیٹڈ کے ڈائریکٹر اور 1940ء سے لے کر اپنی وفات تک ایچی سن کالج لاہور کے بورڈ آف گورنرز کے رکن رہے۔

    1942ء میں سید مراتب علی آل انڈیا مسلم چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے نائب صدر منتخب ہوئے تھے۔ 1944ء میں انڈین چیمبرز آف کامرس لاہور کے صدر بنے۔ حکومت برطانیہ نے 1929ء میں انھیں "خان بہادر” اور 1940ء میں "سَر” کا خطاب دیا۔ وہ عملی سیاست سے دور رہے لیکن قیامِ پاکستان کی کوششوں کے لیے اپنی کاروباری اور سماجی حیثیت کو استعمال اور مال و دولت کو خوب خرچ کیا۔ قائداعظم محمد علی جناح کے حکم پر تحریک کے لیے رقم دیتے رہے۔مسلم لیگ کی کوئی تحریک، کانفرنس یا کمیٹی ایسی نہ تھی جس سے آپ کا تعلق نہ تھا۔ قیام پاکستان کے بعد 1948ء میں وہ اس دو رکنی وفد کے رکن نام زد ہوئے جسو ریزرور بنک آف انڈیا سے پاکستان کا پچاس کروڑ روپیہ وصول کرنے کے لیے تشکیل دیا گیا تھا۔ بعد ازاں اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے پہلے مرکزی بورڈ کے رکن بنے اور آخری سانس تک آپ مرکزی بورڈ کے ممبر رہے۔ پاکستان میں‌ مہاجرین کی آباد کاری ایڈوائزری کے چیئرمین کی حیثیت سے بھی سید مراتب علی نے خدمات انجام دیں۔ پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے والی کئی بڑی کمپنیاں اُن کی دعوت پر ہمارے معاشی نظام کا ستون بنیں۔