Tag: مئی برسی

  • پاکستانی فلموں کے اداکار اور دلیپ کمار کے بھائی ناصر خان کا تذکرہ

    پاکستانی فلموں کے اداکار اور دلیپ کمار کے بھائی ناصر خان کا تذکرہ

    یہ تذکرہ ہے ناصر خان کا جنھوں‌ نے قیامِ پاکستان کے بعد یہاں‌ بننے والی پہلی فلم تیری یاد میں‌ بطور اداکار کام کیا تھا۔ وہ عظیم اداکار اور بولی وڈ کے شہنشاہِ جذبات دلیپ کمار کے بھائی تھے۔

    ناصر خان تقسیمِ ہند کے بعد لاہور آگئے۔ پاکستان میں‌ انھوں نے بطور اداکار فلمی دنیا میں قدم رکھا۔ تیری یاد 1948ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ اس کے اگلے سال انھوں نے فلم شاہدہ میں کام کیا اور یہ دونوں فلمیں ناکام رہیں۔ ناصر خان نے 1951ء میں اچانک بھارت جانے کا فیصلہ کرلیا۔ وہاں‌ انھوں نے ممبئی کی فلمی دنیا سے وابستگی اختیار کی۔ ممبئی میں نگینہ اُن کی پہلی فلم تھی۔ اس فلم میں‌ وہ نوتن کے ساتھ نظر آئے۔ یہ بولی وڈ کی کام یاب ترین فلم تھی۔ اداکارہ کے ساتھ ان کی چند مزید فلمیں‌ ریلیز ہوئیں‌ جن میں‌ آغوش اور شیشم شامل ہیں۔ ناصر خان نے اپنے بھائی دلیپ کمار کے ساتھ بھی گنگا جمنا نامی فلم میں‌ اداکاری کے جوہر دکھائے۔ اس فلم کے بعد وہ 1970ء تک اسکرین سے دور رہے اور پھر یادوں‌ کی بارات جیسی فلم سے چھوٹے موٹے کردار نبھانے کا آغاز کیا۔ ناصر خان کی آخری فلم بیراگ تھی جو 1976ء میں‌ ان کی موت کے بعد ریلیز ہوئی۔

    ناصر خان غلام سرور علی خان اور عائشہ بیگم کی اولاد تھے۔ وہ 11 جنوری 1924 کو پیدا ہوئے۔ ناصر خان اپنے بھائی دلیپ کمار سے عمر میں دو سال چھوٹے تھے۔ اداکار ناصر خان کی پہلی شادی ثریا نذیر سے ہوئی تھی جو لیجنڈری فلم میکر نذیر احمد خان کی بیٹی تھیں۔ اللہ نے انھیں‌ ایک بیٹی سے نوازا جس کا نام انھوں نے ناہید خان رکھا۔ ناصر خان نے اپنے وقت کی مشہور اداکار بیگم پارہ سے دوسری شادی کی اور ان کے بطن سے ایک بیٹے کے باپ بنے۔ ان کا بیٹا ایوب خان بھی اداکار بنا۔

    3 مئی 1974ء میں ناصر خان پچاس سال کی عمر میں‌ وفات پاگئے۔

  • اردو غزل کی آبرو مجروح سلطان پوری

    اردو غزل کی آبرو مجروح سلطان پوری

    ہندوستان کے ممتاز ترقّی پسند غزل گو شاعر، اور مقبول فلمی نغمات کے خالق مجروح سلطان پوری 24 مئی 2000ء کو اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے تھے۔

    رفعت سروش کو مجروح کی رفاقت نصیب ہوئی تھی جو ان کی وفات پر اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں‌، ذہن ماضی کے نہاں خانوں میں جاتا ہے، اور مجھے یاد آرہے ہیں بہت سے ایسے لمحے جو مجروح کی ہم نفسی اور رفاقت میں گزرے۔ اوائل 1945ء کی کوئی شام۔ اردو بازار (دہلی) مولانا سمیع اللہ کے کتب خانہ عزیزیہ کے باہر رکھی ہوئی لکڑی کی وہ بنچیں جن پر ہندوستان کے سیکڑوں علماء، شعراء، دانشور، فقیر اور تو نگر بیٹھے ہوں گے۔ میں اپنی قیام گاہ واقع گلی خان خاناں اردو بازار سے نکلا اور حسبِ معمول ٹہلتا ٹہلتا کتب خانہ عزیزیہ پہنچا۔ یہاں مولانا کی باغ و بہار شخصیت ہر شخص کا استقبال کرتی تھی۔ ایک بنچ پر ایک خوش شکل اور خوش لباس، شیروانی میں ملبوس نوجوان کو بیٹھے دیکھا۔ مولانا نے تعارف کرایا یہ ہیں مجروح سلطان پوری۔

    اس زمانے کے ابھرتے ہوئے اور مترنم غزل گو شعرا کو جگر مراد آبادی کی سرپرستی حاصل تھی۔ چاہے شکیل ہوں، راز مراد آبادی ہوں یا خمار بارہ بنکوی اور مجروح سلطانپوری۔ یا بعد میں شمیم جے پوری۔ جگر صاحب اپنے ساتھ نوجوان شعراء کو لے جاتے تھے اور انھیں نمایاں ہونے کا موقع مل جاتا تھا۔ مجروح کی بمبئی میں آمد کے سلسلے میں سید سجاد ظہیر ( بنے بھائی) نے اپنی خود نوشت روشنائی میں لکھا ہے کہ مجروح سلطان پوری جگر صاحب کے ساتھ لگے لگے بمبئی آئے، ترقی پسندوں سے ملے اور پھر ترقی پسند مصنّفین کے لیڈروں میں شامل ہوگئے۔

    مجروح نے کئی ماہ کی جیل کاٹی۔ اس زمانے میں ان کی پریشانیاں بہت بڑھ گئی تھیں۔ یہاں تک ہوا کہ انھوں نے اپنی بیگم کو بطور امداد کچھ روپے بھیجنے کے لیے اپنے کچھ دوستوں کے ناموں کی لسٹ بھیجی جس میں راقم الحروف کا نام بھی شامل تھا۔ ایک دو ماہ بعد راجندر سنگھ بیدی نے مجروح کی مدد کی اور جب تک وہ جیل میں رہے ان کے اخراجات اپنے ذمے لے لیے۔ غرض مجروح سلطان پوری آہستہ آہستہ انجمن ترقی پسند مصنّفین سے عملی طور پر دور ہوتے چلے گئے۔ اور خود انجمن بھی کم فعال رہ گئی تھی۔

    مجروح سلطان پوری اُن خوش نصیب شعراء میں سے ہیں جنھوں نے کم سے کم کہا، اور زیادہ سے زیادہ شہرت حاصل کی۔ جب فلمی دنیا کے رنگ ڈھنگ بدلنے لگے تو اس چیختی چنگھاڑتی دنیا میں” طوطئ مجروح” کی ضرورت کم ہونے لگی اور انھوں نے پھر ادبی دنیا کی طرف سبقت کی۔ وہ واپس آئے اپنی ایک نظم "قلم گوید کے” ساتھ مگراب زمانہ بہت آگے نکل چکا تھا۔ مجروح نے اپنے پرانے سرمایۂ غزل میں بہت کم اضافہ کیا اور ان کی شہرت کا ضامن دراصل ان کا نوجوانی کا کلام ہی ہے۔ بہرحال چند سال پیشتر انھیں غالب ایوارڈ اور پھر اردو کا سب سے بڑا انعام "اقبال سمان” بھی پیش کیا گیا اور وہ آخر دم تک شہرت کی بلند ترین چوٹیوں پر متمکن رہے۔ ان کی اس شہرت میں سیاسی جوڑ توڑ اور کتر بیونت کا کوئی دخل نہیں۔ وہ ایک کھرے انسان اور کھرے شاعر تھے۔ کینہ پروری، بغض و حسد، غیبت اور اس طرح کی دوسری خباثتوں سے ان کا ذہن پاک تھا۔ وہ اپنے کام سے کام رکھتے تھے۔ انھوں نے طویل عمر پائی اور آخر وقت تک کام کرتے رہے۔

    رفعت سروش کے قلم سے نکلی یادوں کا سلسلہ یہاں تھامتے ہوئے اب ہم اس شاعر کے کلام کی خصوصیات اور اُس انفرادیت کی بات کرتے ہیں جس نے مجروح سلطان پوری کو نام و مقام دیا۔ وہ بیسویں صدی کے چوتھے اور پانچویں عشرے میں غزل کی کلاسیکی روایت میں سیاسی رمزیت پیدا کرنے والے ایسے شاعر تھے جس نے ثابت کیا کہ صنفِ غزل میں اپنے تغزّل کو قربان کیے بغیر بھی ہر طرح کے مضامین، جذبات و احساسات اور تصورات کو مؤثر اور دل نشیں پیرائے میں بیان کیا جاسکتا ہے۔ مجروح کا دور ادب میں‌ ترقی پسندی کے عروج کا تھا اور وہ وقت تھا جب نظم کے مقابلہ میں غزل کو کم تَر درجہ دیا جاتا تھا۔ اس ماحول میں مجروح نے غزل کی آبرو کو سلامت رکھا۔ انھوں نے اس صنفِ‌ سخن کو اس کی تمام نزاکت، حسن اور بانکپن کے ساتھ برتا اور اسے تازگی عطا کی۔ وہ اس دور کے ایسے شاعر تھے جس نے اپنا مجموعۂ کلام بھی ’’غزل‘‘ کے نام سے شایع کروایا۔

    مجروح سلطان پوری 1919ء میں اتّر پردیش کے ضلع سلطان پور میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام اسرار حسن خان تھا۔ ان کے والد پولیس میں ملازم تھے اور مجروح اُن کی اکلوتی اولاد تھے جنھیں تحریکِ خلافت کے زیرِ اثر انگریزی تعلیم نہیں دلائی گئی اور مدرسہ میں داخل کروائے گئے۔ وہاں انھوں نے اردو کے علاوہ عربی اور فارسی پڑھی۔ لیکن مدرسہ کے سخت ماحول نے انھیں وہاں سے نکلنے پر مجبور کردیا۔ مجروح نے 1933ء میں لکھنؤ کے طبّیہ کالج میں داخلہ لیا اور حکمت کی سند حاصل کی۔ وہ معاش کی خاطر ٹانڈہ میں مطب قائم کر کے بیٹھے لیکن کام یاب نہیں ہوئے۔ اسی زمانہ میں ان کو ایک لڑکی سے عشق ہو گیا اور جب یہ دل لگی اور دل داری راز نہ رہی تو مجروح رسوائی کے ڈر سے ٹانڈہ چھوڑ کر واپس سلطان پور آئے گئے۔ کالج میں تعلیم کے دوران وہ موسیقی میں دل چسپی لینے لگے تھے اور میوزک کالج میں داخلہ بھی لے لیا تھا، لیکن والد کو خبر ہوئی تو انھوں نے اس سے روک دیا۔ یوں مجروح موسیقی کا شوق پورا نہیں کرسکے۔ 1935 ء میں مجروح سلطان پوری نے شاعری شروع کی۔ پہلی مرتبہ سلطان پور کے ایک مشاعرہ میں انھوں نے غزل پر داد سمیٹی۔ مجروح ان شعراء میں سے تھے جن کا ترنم غضب کا تھا۔ مشاعروں میں شرکت اور اپنے ترنم کی وجہ سے شہرت پانے والے مجروح کو بعد میں جگر مراد آبادی اور پروفیسر رشید احمد صدیقی جیسی ہستیوں کی صحبت نصیب ہوئی اور مجروح کی فکر اور ان کے فن کو نکھارنے میں‌ ان کا بڑا ہاتھ رہا۔

    مجروح سلطان پوری نے فلمی دنیا کے لیے کئی گیت لکھے جو بہت مقبول ہوئے اور انھیں‌ فلم انڈسٹری میں کام ملتا رہا۔ مجروح لگ بھگ پچاس سال فلمی دنیا سے جڑے رہے اور 300 سے زائد فلموں کے لیے گیت لکھے۔

    جگن ناتھ آزاد کہتے ہیں‌ کہ مجروح کی شاعری خیال اور جذبہ کے امتزاج کا اک نگار خانہ ہے جس میں زندگی کے کئی رنگ جھلکتے ہیں۔ انسان کی عظمت پر مجروح کا اٹل یقین زندگی کی ٹھوس حقیقتوں پر مبنی ہے۔ روایت کا احترام اور روایت میں توسیع مجروح کے کلام کی خصوصیت ہے۔ اس میں پیکر تراشی کے نقوش جا بجا اضافہ کرتے چلے جاتے ہیں۔ مشفق خواجہ کے الفاظ ہیں‌ کہ جدید اردو غزل کی تاریخ میں مجروح سلطان پوری کی حیثیت ایک رجحان ساز غزل گو کی ہے۔ انھوں نے غزل کے کلاسیکی مزاج کو برقرار رکھتے ہوئے اسے جس طرح اپنے عہد کے مسائل کا آئینہ دار بنایا وہ کچھ انہی کا حصّہ ہے۔ پرانی اور نئی غزل کے درمیان امتیاز کرنے کے لیے اگر کسی ایک مجموعۂ غزل کی نشان دہی کی جائے تو وہ مجروح سلطان پوری کا مجموعۂ کلام "غزل” ہو گا۔

    اردو کے اس ممتاز شاعر اور معروف گیت نگار کے کئی اشعار آج بھی باذوق لوگوں کو یاد ہوں گے۔ ان کا زبان زدِ عام شعر ہے:

    میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
    لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

    مجروح کی غزل کے چند شعر دیکھیے

    شب انتظار کی کشمکش میں نہ پوچھ کیسے سحر ہوئی
    کبھی اک چراغ جلا دیا، کبھی اک چراغ بجھا دیا

    جفا کے ذکر پہ تم کیوں سنبھل کے بیٹھ گئے
    تمہاری بات نہیں، بات ہے زمانے کی

    جلا کے مشعلِ جاں ہم جنوں صفات چلے
    جو گھر کو آگ لگائے ہمارے ساتھ چلے
    ستونِ دار پہ رکھتے چلو سَروں کے چراغ
    جہاں تلک یہ ستم کی سیاہ رات چلے

    ممبئی میں وفات پانے والے مجروح سلطان پوری کو دادا صاحب پھالکے ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

  • جمیل نقش: ‘وہ آرٹ کے لیے جیے!’

    جمیل نقش: ‘وہ آرٹ کے لیے جیے!’

    آرٹ کے ناقد قدوس مرزا کہتے ہیں کہ ‘اگر ہم جمیل نقش کی زندگی اور آرٹ کو دیکھیں تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ان کے لیے زندگی اور آرٹ میں کوئی فرق نہیں تھا، وہ آرٹ کے لیے جیے۔’ آج جمیل نقش کی برسی ہے۔

    جمیل نقش کو فنِ مصوّری کے ایک لیجنڈ کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا جن کے فن پاروں سے آرٹ میں مصوّر کی مقصدیت، نئی فکر اور اس کے سیاسی اور سماجی شعور کا بھی اظہار ہوتا ہے۔

    پاکستان کے اس نام ور آرٹسٹ کے نزدیک فنِ مصوّری ایک بامقصد اور نہایت سنجیدہ کام رہا جس کے ذریعے وہ اپنی فکر کا اظہار اور سوچ کے مختلف زاویوں کو ہر خاص و عام تک پہنچا سکتے تھے۔ جمیل نقش نے پینٹنگز کے ساتھ خطّاطی کے شاہکار بھی تخلیق کیے اور متعدد کتابوں کے سرورق بنائے۔ ان کی مصوّری میں استعاروں کی خاص بات بامعنیٰ اور نہایت پُراثر ہونا ہے۔ فن پاروں کے منفرد انداز کے علاوہ جمیل نقش نے اسلامی خطاطی میں بھی جداگانہ اسلوب وضع کیا۔ ان کے شان دار کام کی نمائش پاکستان اور بھارت کے علاوہ برطانیہ اور متحدہ عرب امارات میں ہوئی۔ جمیل نقش ایک مصوّر ہی نہیں شعر و ادب کا ذوق بھی رکھتے تھے اور وسیع مطالعہ کے ساتھ بلند فکر انسان تھے۔ وہ مشہور ادبی جریدے سیپ کے لیے بھی پینٹنگز بناتے رہے۔ جمیل نقش نے 1970ء سے 1973ء تک پاکستان پینٹرز گلڈ کی صدارت کا منصب بھی سنبھالا تھا۔

    خداداد صلاحیتوں کے مالک جمیل نقش 1939 میں کیرانہ انڈیا میں پیدا ہوئے اور تقسیم ہند کے بعد لاہور میں رہائش اختیار کر لی۔ جمیل نقش نے میو اسکول آف آرٹ لاہور سے ابتدائی تعلیم حاصل کی تھی۔ بعد میں وہ اپنی طرز کے منفرد مصوّر کہلائے اور اپنے تخلیقی ذہن سے اس فن میں بڑا کمال حاصل کیا۔ ان کے موضوعات ناقدین کی نظر میں اہمیت رکھتے ہیں اور قابلِ‌ ذکر ہیں۔

    جمیل نقش 2019ء میں آج ہی کے دن لندن میں انتقال کر گئے تھے۔ ان کی عمر 80 سال تھی۔ حکومت پاکستان نے انھیں تمغائے حسنِ کارکردگی اور ستارۂ امتیاز سے نوازا اور جمیل نقش کے نام پر میوزیم لاہور میں ان کے فن پارے محفوظ ہیں۔ جمیل نقش نے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا نام روشن کیا اور فنِ مصوری کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔

    جمیل نے جن موضوعات کا چناؤ کیا ان کی اہمیت کئی لحاظ سے ہے۔ ان کے فن پاروں میں‌ گھوڑے، عورت اور کبوتر کو نمایاں دیکھا جاسکتا ہے۔ برہنہ عورت اور محوِ پرواز پرندے ان کا خاص موضوع رہے۔ ان اجسام کو انھوں نے بار بار پینٹ کیا اور انھیں‌ زندگی بخشی۔

  • فاتحِ قسطنطنیہ محمد ثانی جو عالمِ‌ اسلام میں عظیم مجاہد اور فاتح مشہور ہیں

    فاتحِ قسطنطنیہ محمد ثانی جو عالمِ‌ اسلام میں عظیم مجاہد اور فاتح مشہور ہیں

    سلطنتِ عثمانیہ کے حکم رانوں‌ میں سلطان محمد ثانی کا امتیاز فتحِ قسطنطنیہ ہے جس نے عالمِ اسلام میں انھیں‌ وہ عزّت، احترام اور مقام و مرتبہ دیا جو بہت کم سلاطین کو نصیب ہوا ہے۔ وہ سلطان محمد فاتح کے نام سے مشہور ہوئے۔ محمد فاتح کو نہ صرف اسلامی دنیا بلکہ تاریخِ عالم میں بھی ایسے حکم راں کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا جس کی فتح کے ساتھ ہی صدیوں پرانی بازنطینی سلطنت کا خاتمہ ہوگیا تھا۔ آج سلطان محمد فاتح کا یومِ وفات ہے۔

    فتحِ قسطنطنیہ وہ خواب تھا جس کے لیے مسلمانوں کو سات سو سال انتظار کرنا پڑا اور اس عرصہ میں متعدد فوجی مہمّات اور لشکر کشی کی کوششیں ناکام ہوگئی تھیں‌ سلطان محمد فاتح کی قیادت میں اس فتح نے جہاں ترکوں‌ کی سلطنت اور اقتدار کو توقیر اور وسعت بخشی وہیں‌ 1480ء برس تک قائم رہنے والا اقتدار زوال پذیر ہوگیا۔ یہ فتح مسلمانوں اور عیسائیوں کے لیے مذہبی، سیاسی اور معاشرتی طور پر نہایت گہرے اثرات کی حامل تھی جس میں‌ ایک طرف مسلمانوں‌ میں‌ خوشی اور دوسری طرف صلیبیوں‌ کو بڑا صدمہ پہنچا۔

    سلطان محمد فاتح 3 مئی 1481ء کو انتقال کر گئے تھے۔ وہ استنبول میں فاتح مسجد کے احاطے میں ابدی نیند سو رہے ہیں۔ سلطان صرف اپنی فتوحات کی وجہ سے مشہور نہیں ہیں بلکہ انتظامِ سلطنت اور اپنی قابلیت کے باعث بھی جانے جاتے ہیں۔ ان کا دورِ حکومت رواداری اور برداشت کے لیے مشہور رہا۔ 1432ء میں ادرنہ میں‌ پیدا ہونے والے محمد ثانی نے نوجوانی میں‌ سلطنت سنبھالی اور عثمانی فوج کی قیادت کرتے ہوئے محض 21 سال کی عمر میں‌ 1453ء میں قسطنطنیہ فتح کیا جسے آج استنبول کہا جاتا ہے۔ عثمانی فوج کا کئی روزہ محاصرہ اور گولہ باری کے بعد اس فتح کو اُس وقت شہر میں موجود اطالوی طبیب نکولو باربیرو نے یوں‌ بیان کیا کہ سفید پگڑیاں باندھے ہوئے حملہ آور جاں نثار دستے ’بے جگری سے شیروں کی طرح حملہ کرتے تھے اور ان کے نعرے اور طبلوں کی آوازیں ایسی تھیں جیسے ان کا تعلق اس دنیا سے نہ ہو۔’

    اس روز فتح کے بعد جب سلطان محمد شہر میں‌ داخل ہوئے تو وہ سفید گھوڑے پر بیٹھے ہوئے تھے اور ان کا لشکر مع وزراء اور عمائد سب سے بڑے گرجا آیا صوفیہ پہنچا جہاں سلطان نے صدر دروازے پر اتر کر ایک مٹھی خاک اپنی پگڑی پر ڈالی اور بعد میں اسے مسجد میں‌ تبدیل کر دیا گیا۔ اس فتح کے بعد عثمانی سلطنت اپنے بامِ عروج پر پہنچی اور ترکوں نے اگلی چار صدیوں تک تین براعظموں، ایشیا، یورپ اور افریقہ کے مختلف حصّوں پر حکومت کی۔

    محمد فاتح سلطنتِ عثمانیہ کے ساتویں سلطان تھے۔ انھوں نے اپنے دور حکومت میں اینز، گلاتا اور کیفے کے علاقے عثمانی سلطنت میں شامل کیے جب کہ محاصرۂ بلغراد میں بھی حصہ لیا جہاں وہ شدید زخمی ہوگئے تھے۔ 1458ء میں ان کی سلطنت میں موریا کا بیشتر حصّہ اور ایک سال بعد سربیا شامل ہوا۔ 1461ء میں اور اس کے بعد کئی علاقے ترکوں‌ کے زیرِ نگیں‌ ہوئے۔

    محمد ثانی کی پیدائش کے وقت ادرنہ سلطنتِ عثمانیہ کا دارُالحکومت تھا۔ ان کے والد سلطان مراد ثانی اور والدہ کا نام ہما خاتون تھا۔ وہ 11 سال کے تھے جب انھیں اماسیہ بھیج دیا گیا، جہاں محمد ثانی نے حکومت اور انتظامی امور کے ساتھ فنون سیکھے اور تربیت حاصل کی۔ 1451ء میں اپنے والد سلطان مراد ثانی کی وفات کے بعد سلطان محمد ثانی نے دوسری مرتبہ تخت سنبھالا اور سلطنتِ عثمانیہ کو دنیا بھر میں عظمت اور امتیاز عطا کیا۔

    اناطولیہ اور پھر قسطنطنیہ کی فتوحات کے بعد اسے اپنا دارُ الحکومت قرار دے کر محمد ثانی نے یورپ کی طرف پیش قدمی کی اور کئی کام یاب مہمّات کے علاوہ چند علاقوں‌ میں‌ شکست بھی ہوئی، لیکن ان کے دور میں‌ عثمانی سلطنت کا رقبہ خاصا وسیع ہوگیا تھا۔

    محمد ثانی کے بارے میں‌ کہا جاتا ہے کہ وہ علم و ہنر کے قائل اور علما و ہنر مندوں کے سرپرست تھے۔ انھوں نے قسطنطنیہ کی فتح کے بعد اٹلی کے مصوروں اور یونانی دانشوروں کو اپنے دربار میں‌ بلایا اور سب کو اس شہر میں‌ بسنے کی اجازت دی اور بلاتفریق علم و فنون میں‌ یکتا اور قابل شخصیات کو نوازا۔ ان میں سائنس دان، ادیب اور ہنرمند سبھی شامل تھے۔

    محمد ثانی کا دور رواداری اور برداشت کا دور سمجھا جاتا ہے جس میں مفتوح بازنطینیوں کے ساتھ نیک اور مثالی سلوک کیا گیا۔ اس دور میں مسیحیوں اور یہودیوں کو ہر قسم کی آزادی اور خود مختاری حاصل تھی۔

  • یومِ وفات: تذکرہ خواہ مخواہ کا….

    یومِ وفات: تذکرہ خواہ مخواہ کا….

    اردو شاعری میں طنز و مزاح کی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے خواہ مخواہ حیدر آبادی اُن بزلہ سنج شعرا میں شامل ہوئے جنھیں لوگوں نے سندِ قبولیت بخشی اور ان کی سخن طرازیوں پر خوب داد و تحسین سے نوازا۔ آج اس مزاح گو شاعر کی برسی منائی جارہی ہے۔

    نثر یا نظم میں‌ طنز و مزاح کسی بھی معاشرے کے افراد میں جہاں برداشت، تحمل اور بردباری پیدا کرتا ہے، وہیں‌ ان کو زندہ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے زندگی کے آزار سے دور اور پھیکے پن سے نکل کر لمحۂ موجود کو خوش گوار بنانے پر آمادہ کرتا ہے۔ اگر یہ کوشش کوئی شاعر کرے اور اس میں‌ کام یاب ہوجائے تو وہ مقبول بھی ہوجاتا ہے۔ غوث خواہ مخواہ حیدرآبادی ایسے ہی شاعر تھے جن کا انتقال 2 مئی 2017ء کو ہوا۔

    ہندوستان اور بیرونِ ممالک مقیم باذوق اور شعر و ادب سے شغف رکھنے والے افراد کی اکثریت خواہ مخواہ حیدرآبادی کی مداح ہے اور دکنی بولی میں ان کے کلام سے لطف اندوز ہوتی رہی ہے۔ خواہ مخواہ حیدرآبادی کو بالخصوص مشاعروں‌ میں‌ بڑے شوق اور توجہ سے سنا جاتا تھا۔ خواہ مخواہ حیدرآبادی کے اوراقِ‌ زیست کو الٹتے ہوئے طنز و مزاح‌ سے متعلق ڈاکٹر وزیر آغا کی یہ رائے بھی پڑھیے: ’’مزاح نگار اپنی نگاہِ دوربین سے زندگی کی ان ناہمواریوں اور مضحک کیفیتوں کو دیکھ لیتا ہے جو ایک عام انسان کی نگاہوں سے اوجھل رہتی ہیں۔ دوسرے ان ناہمواریوں کی طرف مزاح نگار کے ردعمل میں کوئی استہزائی کیفیت پیدا نہیں ہوتی۔ بلکہ وہ ان سے محظوظ ہوتا اور اس ماحول کو پسند بھی کرتا ہے جس نے ان ناہمواریوں کو جنم دیا ہے۔ چنانچہ ان ناہمواریوں کی طرف اس کا زاویۂ نگاہ ہمدردانہ ہوتا ہے۔ تیسرے یہ کہ مزاح نگار اپنے ’’تجربے‘‘ کے اظہار میں فن کارانہ انداز اختیار کرتا ہے اور اسے سپاٹ طریق سے پیش نہیں کرتا۔‘‘ خواہ مخواہ حیدرآبادی نے بھی زندگی اور مسائل کو فن کارانہ طریقے سے اپنے کلام میں‌ پیش کیا اور اسے ہر طرح‌ کے ابتذال اور سطحی پن سے بھی دور رکھا۔

    خواہ مخواہ حیدرآبادی 1928ء میں حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے۔ وہ نوجوانی میں‌ مشاعرے پڑھنے لگے تھے اور دکن میں‌ اپنی اردو اور دکنی زبان میں‌ مزاحیہ شاعری کے باعث لوگوں میں بہت مقبول ہوئے۔ انہیں مزاحیہ مشاعروں میں خاص طور پر مدعو کیا جاتا تھا بلکہ وہ ہندوستان کے مزاحیہ مشاعروں کا جزوِ لازم تھے۔ خواہ مخواہ ان شعرا میں سے تھے جن کا دکنی زبان مں کلام زباں زدِ عام ہوا۔ ’’نئیں بولے تو سنتے نئیں‘‘ اس شاعر کا وہ کلام ہے جسے ہندوستان اور بیرونِ ملک منعقدہ مشاعروں‌ میں ہمیشہ فرمائش کرکے سنا جاتا تھا۔

    ان کا اصل نام غوث محی الدّین احمد تھا۔ ابتدائی تعلیم حیدرآباد دکن میں پائی اور اردو میڈیم میں ہائی اسکول کا امتحان پاس کیا۔ غوث خواہ مخواہ کو بالخصوص مشرقِ وسطیٰ کے مختلف ممالک میں منعقدہ مشاعروں میں مدعو کیا جاتا تھا اور وہاں تارکینِ وطن کی بڑی تعداد انھیں بڑے شوق سے سنتی تھی۔ ان میں‌ پاک و ہند کے لوگوں کے ساتھ بنگلہ دیشی اور دیگر ممالک کے اردو سمجھنے والے افراد شامل ہیں۔ فالج کے حملے کے بعد اپنی مزاحیہ شاعری سے لوگوں کو ہنسنے پر مجبور کر دینے والے خواہ مخواہ حیدرآبادی چلنے پھرنے معذور اور بولنے سے قاصر تھے۔ خواہ مخواہ حیدرآبادی کی تصانیف میں ’’حرفِ مکرر‘‘، ’’بفرضِ محال‘‘اور ’’کاغذ کے تیشے‘‘ شامل ہیں۔

  • اردو کے ممتاز ادیب اور مزاح نگار مجتبیٰ حسین کا تذکرہ

    اردو کے ممتاز ادیب اور مزاح نگار مجتبیٰ حسین کا تذکرہ

    مجتبیٰ حسین اردو کے ممتاز ادیب اور مزاح نگار تھے جن کا ادبی سفر چار دہائیوں‌ پر محیط ہے۔ ان کی تحریریں شگفتگی اور شائستگی کے ساتھ رمزیت اور برجستگی کا عمدہ نمونہ ہیں۔ ان کے انشائیے بھی طنز و مزاح کی ہلکی آمیزش کے ساتھ زبان کے رچاؤ اور دل کش اسلوب کے سبب پسند کیے جاتے ہیں۔ 27 مئی 2020ء میں بھارت کے اس نام ور ادیب کی زندگی کا سفر ہمیشہ کے لیے تمام ہو گیا تھا۔

    مجتبیٰ حسین 15 جولائی 1936ء کو گلبرگہ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی اور 1956ء میں عثمانیہ یونیورسٹی سے گریجویشن کیا۔ نوجوانی سے ہی طنز و مزاح کی جانب مائل ہوگئے تھے اور حیدرآباد دکن کے روزنامہ سیاست سے وابستگی کے دوران انھوں نے اپنے ادبی سفر کا آغاز کیا۔ بعد ازاں محکمۂ اطلاعات میں ملازمت اختیار کرلی اور پھر دلّی میں مختلف محکموں میں ملازمت کے بعد 1992ء میں ریٹائر ہوگئے۔ ان کا قیام حیدرآباد دکن میں رہا۔

    مجتبیٰ حسین کے یہاں طنز کا پہلو کم دیکھنے کو ملتا ہے۔ ان کا موضوع نوعِ انسانی ہے۔ واقعہ نگاری اور مرقع کشی میں ان کا کمالِ فن عروج پر نظر آتا ہے۔ انھوں نے اپنے مشاہدے کی مدد سے مختلف واقعات کے مضحک پہلوؤں کو اپنی تحریروں میں نہایت خوب صورتی سے اجاگر کیا اور قارئین میں‌ ان کے مضامین اور انشائیے مقبول ہوئے۔ سماج کے مختلف طبقات اور شعبہ ہائے حیات سے متعلق افراد کے طرزِ زندگی، ان کے مسائل اور ان کے مخصوص رویوں، عادات پر ان کی تحریروں کو کتابی شکل میں بہت پذیرائی ملی۔

    سماج ہی نہیں‌ سیاست اور اس کے بطن سے پھوٹنے والے ہنگامے بھی ان کی نظر میں‌ رہے۔ مجتبیٰ حسین کی ایک تحریر سے یہ پارہ ملاحظہ کیجیے۔

    ’’اگر آپ خالص فسادات دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر ہندوستان ہی جائیے۔ یہاں کے فسادات اتنے خالص ہوتے ہیں کہ ان میں کہیں بھی انسانیت کی ملاوٹ نہیں ہوتی۔ اس صفائی سے انسانوں کے سر کاٹے جاتے ہیں اور ان کے جسموں میں چھرے بھونک دیے جاتے ہیں کہ عقل حیران اور نظر دنگ رہ جاتی ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ فرقہ وارانہ فساد ہندوستان کا بڑا قدیم کھیل ہے۔‘‘

    بہرحال، بالآخر اور الغرض ان کے طنزیہ و مزاحیہ مضامین اور انشائیوں کے مشہور مجموعے ہیں۔ انھوں نے سفر نامے بھی تحریر کیے اور کالم بھی لکھے جو بہت مقبول ہوئے، قصہ مختصر، آدمی نامہ، جاپان چلو جاپان چلو اور کئی کتابوں کے مصنّف مجتبیٰ حسین کو ان کی تخلیقی کاوشوں اور ادبی خدمات کے اعتراف میں متعدد انعامات اور اعزازات سے نوازا گیا تھا۔

  • شاہد احمد دہلوی: منفرد اسلوب کے حامل ادیب کا تذکرہ

    شاہد احمد دہلوی: منفرد اسلوب کے حامل ادیب کا تذکرہ

    اردو کے صاحبِ طرز ادیب شاہد احمدد ہلوی نے 27 مئی 1967ء کو زندگی کا سفر تمام کیا تھا۔ آج ان کی برسی ہے۔ وہ ایک خاکہ نگار، تذکرہ نویس، مدیر، مترجم اور ماہرِ موسیقی تھے۔

    ان کا تعلق ایک ایسے علمی و ادبی گھرانے سے تھا جس نے اردو ادب کو اپنی نگارشات کی صورت میں مالا مال کیا تھا۔ شاہد احمد دہلوی نام وَر ادیب اور ناول نگار ڈپٹی نذیر احمد کے پوتے، معروف ادیب مولوی بشیر الدین احمد کے فرزند تھے۔

    شاہد احمد دہلوی مشہور ادبی مجلّہ ’’ساقی‘‘ کے مدیر تھے۔ موسیقی سے انھیں عشق تھا اور لکھنا پڑھنا ان کا بہترین مشغلہ۔ دہلی کی بامحاورہ زبان اور اس کا چٹخارہ ان کے اسلوب کا خاصہ ہے۔ ان کی دو کتابیں ’’دہلی کی بپتا‘‘ اور ’’اجڑا دیار‘‘ ان کے اسلوب کی انفرادیت اور قلم کی رنگارنگی کی مثال ہیں۔ ان کے خاکوں کا پہلا مجموعہ ’’گنجینۂ گوہر‘‘ 1962ء میں شایع ہوا اور ’’بزمِ خوش نفساں‘‘ اور ’’طاقِ نسیاں‘‘ ان کی وفات کے بعد منظرِ عام پر آئے۔ ’’دِلّی جو ایک شہر تھا‘‘ اور ’’چند ادبی شخصیتیں‘‘ ان کی دو اہم کتابیں ہیں اور کئی تراجم ان کی زبان دانی اور قابلیت کا نمونہ ہیں۔

    شاہد احمد دہلوی نے رسالہ ’’ساقی‘‘ 1930ء میں دہلی سے جاری کیا تھا اور 1947ء میں ہجرت کر کے پاکستان آئے تو یہاں دوبارہ اسی پرچے کا آغاز کیا۔ 1959ء میں پاکستان رائٹرز گلڈ بنی تو شاہد احمد دہلوی کی کوششیں بھی اس میں شامل تھیں۔ وہ ترقّی پسند تحریک میں شامل رہے اور خوب کام کیا۔

    انھوں نے انگریزی کی متعدد کتب اردو زبان میں منتقل کیں۔ ان میں‌ کہانیاں اور بچّوں کی تعلیم و تربیت سے متعلق کتب اور مضامین بھی شامل ہیں جو ہر لحاظ سے اہم ہیں۔ دہلی گھرانے کے مشہور استاد، استاد چاند خان سے شاہد احمد دہلوی نے موسیقی کی باقاعدہ تربیت حاصل کی تھی۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ یہاں آئے تو ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہو گئے تھے، جہاں وہ ایس احمد کے نام سے موسیقی کے پروگرام پیش کیے۔ شاہد احمد دہلوی نے موسیقی کے موضوع پر بھی لاتعداد مضامین رقم کیے جن کا مجموعہ’’ مضامینِ موسیقی‘‘ کے نام سے اشاعت پذیر ہوا۔

    شاہد احمد دہلوی زبان پر بڑی قدرت رکھتے تھے۔ خصوصاً دلّی کی ٹکسالی زبان پر۔ شاید اس معاملے میں ان کا کوئی حریف نہ تھا۔ ان کا منفرد اسلوب اور ٹکسالی زبان کبھی فراموش نہیں کی جاسکتی۔ حکومت پاکستان نے شاہد احمد دہلوی کو ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں صدارتی اعزاز برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

  • کار ڈرائیور کی بیٹی ناصرہ جس نے "رانی” کے نام سے شہرت حاصل کی

    کار ڈرائیور کی بیٹی ناصرہ جس نے "رانی” کے نام سے شہرت حاصل کی

    رانی کا اصل نام ناصرہ تھا جو اپنے وقت کی مشہور گلوکارہ مختار بیگم کے ڈرائیور کی بیٹی تھی۔ رانی کو مختار بیگم نے پالا اور ان کے ساتھ رہتے ہوئے رانی نے رقص سیکھا اور بطور اداکارہ فلمی دنیا میں قدم رکھا جہاں شہرت اور مقبولیت اس کا مقدر بنی، لیکن رانی اپنی ازدواجی زندگی کے دکھوں اور صدمات سے ایسی نڈھال ہوئی کہ کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہوگئی اور زندگی کا سفر تمام کیا۔

    1941 میں‌ لاہور میں‌ پیدا ہونے والی رانی اردو اور پنجابی فلموں کی مصروف اداکارہ تھی۔ اردو فلموں کی بات کریں تو بطور اداکارہ رانی کی پہلی فلم ہدایت کار انور کمال پاشا کی فلم محبوب تھی جس میں وہ شمیم آرا کے مقابل ثانوی رول میں نظر آئی تھی۔ یہ 1962 کی بات ہے اور اس کے بعد کئی فلموں‌ میں مختلف کردار ادا کیے، لیکن دیور بھابھی جو 1967 میں سنیما کی زینت بنی تھی، وہ مشہور فلم تھی، جس نے اداکارہ کو فلم انڈسٹری کی "رانی” بنا دیا۔ اس فلم میں وحید مراد اور لیجنڈ اداکارہ صبیحہ خانم نے ٹائٹل رولز کیے تھے۔ بعد میں رانی نے دل میرا دھڑکن تیری، بہن بھائی، دیا اور طوفان، شمع اور پروانہ، بہارو پھول برساؤ، امراؤ جان ادا، اک گناہ اور سہی، خون اور پانی جیسی کام یاب فلموں میں‌ اداکاری کے جوہر دکھا کر شائقین کے دل موہ لیے۔

    پنجابی فلموں کی بات کریں تو رانی کو فلم چن مکھناں سے بریک تھرو ملا تھا جب کہ دوسری بڑی پنجابی فلموں میں سجن پیارا، جند جان، مکھڑا چن ورگا، دنیا مطلب دی، ٹیکسی ڈرائیور اور سونا چاندی قابلِ ذکر ہیں۔ اردو فلموں میں کمال، وحید مراد اور شاہد کے ساتھ رانی کو بہت پسند کیا گیا۔

    رانی نے 27 مئی 1993ء کو یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ دی تھی۔ اداکارہ کی ازدواجی زندگی سکون اور راحت سے محروم رہی۔ انھوں نے تین شادیاں کی تھیں۔ اداکارہ پر فلمائے ہوئے تمام ہی گیتوں نے مقبولیت حاصل کی۔ انھوں نے ٹیلی ویژن کے ڈراموں میں‌ بھی اداکاری کے جوہر دکھائے۔ ان میں‌ خواہش اور فریب بہت مشہور ہیں۔ پاکستانی فلم انڈسٹری کی اس مشہور اداکارہ کو لاہور میں مسلم ٹاؤن کے قبرستان میں سپردِ‌ خاک کیا گیا۔

  • آسکر ایوارڈ یافتہ سڈنی پولک کو شہرت ہی نہیں عزّت بھی ملی

    آسکر ایوارڈ یافتہ سڈنی پولک کو شہرت ہی نہیں عزّت بھی ملی

    ’سڈنی ایک ایسے شخص تھے جس نے اس دنیا کو ایک بہتر دنیا بنایا۔‘ یہ الفاظ مشہور امریکی اداکار جارج کلونی نے آسکر ایوارڈ یافتہ ہدایت کار، پروڈیوسر اور اداکار سڈنی پولک کے انتقال پر ادا کیے تھے۔

    سڈنی پولک نے اپنی فلموں میں سماجی اور سیاسی مسائل کو اجاگر کرکے نہ صرف شہرت پائی بلکہ انھیں بہت عزّت اور محبّت بھی ملی۔ 1960 سے 80 کی دہائی تک انھوں نے اپنی فلموں کی بدولت شائقینِ سنیما کی توجہ حاصل کیے رکھی اور ان کے کام کو ناقدین نے بھی خوب سراہا۔

    آسکر ایوارڈ یافتہ ہدایت کار، پروڈیوسر اور اداکار سڈنی پولک 73 برس کی عمر میں امریکا کے مشہور شہر لاس اینجلس میں چل بسے تھے۔ انھیں کینسر کا مرض لاحق تھا۔ سڈنی پولک کا فلمی کیریئر پچاس سال پر محیط رہا جس میں انھوں نے اپنی فلموں کے لیے ہر خاص و عام سے داد سمیٹی اور اپنے کام پر ناقدین سے تعریف و ستائش وصول کی۔

    سڈنی پولک کی مشہور ترین فلموں میں ’ٹوٹسی‘ اور ’آؤٹ آف افریقہ‘ شامل ہیں۔ یہ بلاک بسٹر فلمیں تھیں جن کے ہدایت کار سڈنی پولک تھے۔ انھوں نے ’مائیکل کلیٹن‘ جیسی کام یاب فلم پروڈیوس کی۔ ’ٹوٹسی‘ کے لیے 1982 میں سڈنی کو بہترین ہدایت کار کے آسکر کے لیے نام زد کیا گیا تھا جب کہ ’آؤٹ آف افریقہ‘ وہ بہترین ہدایت کار کا یہ اعزاز اپنے نام کرنے میں‌ کام یاب رہے تھے۔ یہ وہ فلم تھی جسے مجموعی طور پر سات آسکر ایوارڈز دیے گئے تھے۔

    سڈنی پولک 1969 میں ’دے شوٹ ہارسز ڈانٹ دے‘ کے لیے بھی بطور ڈائریکٹر آسکر اعزاز کے لیے نام زد ہوئے تھے۔

    ان کا سنِ پیدائش 1934 ہے اور وہ دسویں جماعت پاس کرنے کے بعد بطور اداکار قسمت آزمائی کے لیے نیویارک پہنچے تھے اور ٹیلی وژن پر اداکاری کا موقع ملا تو وہ آگے بڑھتے چلے گئے۔ 1961 میں سڈنی پولک نے ٹیلی وژن کے لیے پروگرام بنانے کا سلسلہ شروع کیا اور چار برس بعد بطور ہدایت کار ’دا سلنڈر تھریڈ‘ کے عنوان سے ایک فلم بنائی۔ 90 کے عشرے میں سڈنی پولک نے پروڈیوسر کے طور پر کام شروع کیا اور ’دا فرم‘ جیسی ہٹ فلم سامنے آئی۔ ہدایت کار کے طور پر ان کی آخری فلم ’ اسکیچیز آف فرانک گہرے‘ تھی۔ یہ اپنے وقت کے ایک مشہور آرکیٹیکٹ کے بارے میں دستاویزی فلم تھی۔

    26 مئی 2008 کو سڈنی پولک نے ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں‌ موند لی تھیں۔

  • ممتاز ترقی پسند شاعر اور معروف فلمی نغمہ نگار کیفی اعظمی

    ممتاز ترقی پسند شاعر اور معروف فلمی نغمہ نگار کیفی اعظمی

    کیفی اعظمی نے ابتدائی عمر میں رومانوی نظمیں کہیں، لیکن جلد ہی ہندوستان میں سیاسی اور سماجی تبدیلیوں اور انقلابی نعروں نے انھیں بھی قوم پرستی اور آزادی کے ترانے لکھنے پر آمادہ کرلیا۔

    مارکسزم سے متاثر ہونے والے کیفی اعظمی کمیونسٹ پارٹی کے ہمہ وقتی رکن بنے تو اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو انقلابی نظریات اور سیاسی واقعات کے لیے اس طرح استعمال کیا کہ کئی پُراثر اور سوز و گداز سے بھرپور نظمیں سامنے آئیں۔ انھوں نے عوام کے جذبات اور ان کے دکھ سکھ کو اپنی شاعری میں سمویا اور ان کا کلام مقبول ہونے لگا۔ وہ نوعمری میں‌ شاعری کا آغاز کرچکے تھے۔

    وہ انیس، حالی شبلی، اقبال، اور جوش ملیح آبادی سے متاثر نظر آئے۔ سیاسی اور سماجی موضوعات پر شاعری کے ساتھ انھوں نے فلموں کے لیے بھی گیت لکھے جو بہت مقبول ہوئے اور انھیں غیر معمولی شہرت اور کامی یابی ملی۔ کیفی اعظمی فلمی دنیا کے ان گنے چنے ادیبوں میں سے ایک ہیں جنھوں نے نغمہ نگاری کے ساتھ ساتھ فلموں کی کہانیاں، مکالمے اور منظر نامے لکھے۔ وہ ممتاز ترقی پسند شعرا میں شمار ہوئے اور فلم ہیر رانجھا اور کاغذ کے پھول کے گیتوں کے لیے مشہور ہیں۔

    کیفی اعظمی کا تعلق اعظم گڑھ کے ایک گاؤں سے تھا جہاں انھوں نے 15 اگست 1918ء کو آنکھ کھولی۔ ان کا اصل نام سیّد اطہر حسین رضوی تھا۔ ان کے والد زمیندار تھے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد لکھنؤ کے مدرسہ بھیجا گیا، لیکن وہاں خامیوں کی نشان دہی کرتے ہوئے انتظامیہ کے خلاف احتجاج پر نام خارج کر دیا گیا۔ بعد میں‌ انھوں نے لکھنؤ اور الہ آباد یونیورسٹیوں سے فارسی میں دبیر کامل اور عربی میں عالم کی اسناد حاصل کیں۔ اسی زمانے میں ایک لڑکی کے عشق میں گرفتار ہوئے اور تب انھیں لکھنؤ چھوڑنا پڑا اور وہ کانپور چلے گئے جو اس وقت شمالی ہندوستان میں مزدوروں کی تحریک کا سب سے بڑا مرکز تھا۔ یہاں وہ مزدوروں کی تحریک سے وابستہ ہو گئے اور یہیں انھوں نے مارکسزم کا مطالعہ کیا۔ جب کیفی کمیونسٹ بن گئے تو سجّاد ظہیر کے ساتھ بمبئی چلے گئے جہاں پارٹی کے ترجمان "قومی جنگ” میں لکھنے لگے۔ 1943ء میں ان کا پہلا مجموعہ کلام شائع ہوا۔ اکتوبر 1945ء میں حیدر آباد میں ترقی پسند مصنفین کی ایک کانفرنس میں ان کی ملاقات شوکت خانم سے ہوئی اور ان سے شادی ہوگئی۔ آزادی کے بعد کمیونسٹ پارٹی پر مختلف قسم کی پابندیاں عائد ہوئیں اور کارکن گرفتار کیے گئے تو کیفی اعظمی کو بھی روپوشی اختیار کی۔

    اس زمانے میں‌ مفلسی نے بھی ان پر مصائب توڑے۔ کیفی نے فلموں کی طرف توجہ کی تو قسمت نے یاوری کی اور فلموں کے گیت لکھنے کے ساتھ ساتھ مکالمے اور منظر نامے بھی لکھے جن کا خوب معاوضہ ملنے لگا۔ انھیں تین فلم فیئر ایوارڈ ملے۔ کاغذ کے پھول، حقیقت، ہیر رانجھا اور گرم ہوا ان کی اہم فلمیں ہیں۔

    زندگی کے آخری ایّام انھوں نے اپنے گاؤں میں گزارے اور 10 مئی 2002 کو دل کا دورہ پڑنے سے وفات پائی۔