Tag: مئی برسی

  • کیا کوئی شاعر مَر گیا…!

    کیا کوئی شاعر مَر گیا…!

    شاعروں نے رات بھر بستی میں واویلا کیا
    داد کے ہنگامہ سے پورا محلہ ڈر گیا
    اک ضعیفہ اپنے بیٹے سے یہ بولی اگلے روز
    رات کیسا شور تھا کیا کوئی شاعر مر گیا

    یہ مزاحیہ قطعہ اطہر شاہ خان جیدی کا ہے جو شاعر ہی نہیں‌ ایک اسکرپٹ رائٹر، ہدایت کار اور اداکار بھی تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 2020ء میں ہمیشہ کے لیے دنیا سے چلے گئے تھے۔

    اطہر شاہ خان کی پیدائش رام پور کی تھی۔ تقسیم کے بعد پاکستان ہجرت کی تو کراچی میں‌ سکونت پذیر ہوئے۔ انھوں نے اپنے تعلیمی مراحل مختلف شہروں میں مکمل کیے۔ ابتدائی تعلیم لاہور سے حاصل کی اور بعد میں پشاور اور پھر کراچی سے گریجویشن کیا۔ پنجاب یونیورسٹی سے صحافت کے شعبے میں ماسٹرز کی ڈگری لی۔ جیدی اُن کا وہ روپ تھا جس میں انھوں نے اپنے دیکھنے والوں کو قہقہے لگانے پر مجبور کر دیا اور اس کردار کے ذریعے لوگوں کو صاف ستھرا مزاح اور بامقصد تفریح کا موقع دیا۔ ان کے اس کردار کو وہ مقبولیت اور پسندیدگی حاصل ہوئی کہ جیدی ان کے اصل نام کے ساتھ ہی جڑ گیا۔

    ریڈیو پاکستان سے سفر کا آغاز کرنے والے اطہر علی شاہ عرف جیدی نے لگ بھگ بیس برسوں میں سات سو ڈرامے لکھے۔ 70 اور 80 کی دہائی میں وہ نہایت مشہور ہوئے اور ان کے مزاحیہ ڈرامے اور جیدی کا کردار ہر گھر میں‌ پسند کیا جاتا تھا۔ پی ٹی وی پر ان کے ڈراموں میں انتظار فرمائیے، با ادب باملاحظہ ہوشیار، لاکھوں میں تین بہت مقبول ہوئے۔

    اطہر شاہ خان جیدی نے ڈرامہ نگاری کے ساتھ فلمیں بھی لکھیں۔ ان کی پہلی فلم بازی، سپر ہٹ ثابت ہوئی، جس میں فلم اسٹار ندیم اور محمد علی پہلی بار آمنے سامنے آئے اور اس میں اداکارہ نشو کو بھی متعارف کرایا گیا۔ ان کی دیگر فلموں میں گونج اٹھی شہنائی، ماں بنی دلہن، منجی کتھے ڈھاواں شامل ہیں۔ اطہر شاہ خان جیدی نے ڈرامہ نگاری، کردار نگاری اور شاعری میں منفرد شناخت بنائی۔ انھوں نے مزاحیہ شاعر کی حیثیت سے بڑا نام کمایا اور مشاعروں میں انھیں خوب سنا جاتا تھا۔

    ’’جیدی‘‘ ان کا تخلیق کردہ ایک ایسا کردار تھا جو ان کی وجہ شہرت بنا اور ناقابلِ فراموش ثابت ہوا۔ اس کردار کے لیے انھوں نے ایک بڑا سا کوٹ، ایک بڑے فریم کی عینک پہنی اور بولنے کا مخصوص انداز اپنایا جس میں مٹھاس اور ایسی کشش تھی کہ ہر ایک کو جیدی اپنا لگنے لگا، جب کہ اپنے مکالموں اور مخصوص فقروں کی بدولت وہ سبھی کے دل میں‌ گھر کر گئے۔ اطہر شاہ خان نے تھیٹر، ریڈیو، ٹیلی ویژن اور فلموں کے لیے معیاری اسکرپٹ، خاکے لکھے اور ساتھ ساتھ اداکاری کے جوہر بھی دکھائے۔

    2001ء میں اطہر شاہ خان کو حکومت پاکستان کی جانب سے پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازا گیا تھا۔

  • مادام بواری کے خالق گستاؤ فلابیر کا تذکرہ

    مادام بواری کے خالق گستاؤ فلابیر کا تذکرہ

    گستاؤ فلابیر انیسویں صدی کا ناول نگار اور ڈراما نویس تھا جسے حقیقت پسند مکتبِ فکر کا نمائندہ کہا جاتا ہے۔ وہ اپنے ناول مادام بواری کے سبب مشہور بھی ہوا اور اسے مطعون بھی کیا گیا۔ اس ناول کی اشاعت پر فلابیر کو مذہبی اور سماجی اقدار کی دھجیاں بکھیرنے، جنسی کج روی اور بے حیائی اخلاقی اقدار کو نقصان پہنچانے کے مقدمے کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

    گستاؤ فلابیر کی تحریروں کو رومانویت پسندی اور حقیقت نگاری کا امتزاج کہا جاتا ہے۔ اس کا باپ پیرس کے قریب ایک گاؤں کے اسپتال میں ڈاکٹر تھا۔ فلابیر 1821ء میں پیدا ہوا۔ وہ زرخیز ذہن کا مالک تھا اور بیک وقت مختلف مکتب ہائے فکر کا پرچارک تھا۔ اس کا تعلق خوش حال گھرانے سے تھا۔ اس کی ماں کا خاندان بھی اعلٰی تعلیم یافتہ تھا۔ فلابیر کی ابتدائی تعلیم علم الادویہ اور سائنس کے میدان میں‌ ہوئی، مگر 1841 میں وہ اپنے والد کی خواہش پر قانون کی تعلیم کے حصول کے لیے پیرس چلا گیا۔ اسی زمانے میں وہ ایک پراسرار بیماری کا شکار ہوا اور اسے مرگی کا مرض تشخیص ہوا۔ 1946 میں‌ فلابیر کے والد کی وفات کے بعد اس کی بہن بھی وفات پاگئی۔ فلابیر اور اس کی ماں نے اپنے گھر میں‌ یتیم بچوں کی پرورش کی اور ان کے درمیان اپنی زندگی گزاری۔

    فلابیر سیرو سیاحت کا دلدادہ تھا اور اس نے کئی ملکوں کا سفر کیا جس نے اس علم اور مشاہدے میں‌ اضافہ کیا۔ وہ ادب کی طرف متوجہ ہوا اور یہاں بھی کمرشل فکشن کے بجائے معیاری ادب تخلیق کیا۔ اس نے اپنے اسلوب اور انداز کو پُراثر بنانے پر خاص توجہ دی اور اس میں‌ کام یاب رہا۔

    فلابیر نے ایک لغت بھی مرتب کی تھی جو اس کی وفات کے بعد شایع ہوئی۔ وہ اپنے ایک ناول کا آدھا کام کرچکا تھا کہ 1880 میں آج ہی کے دن مرگی کا دورہ پڑنے سے وفات پا گیا۔ فلابیر نے پانچ ناول لکھے جو اس کے اسلوب کی وجہ سے پسند کیے جاتے ہیں۔ مادام بواری اس کا بہت مشہور ناول ہے جو 1857 میں‌ شایع ہوا۔ اس ناول کا کئی زبانوں‌ میں‌ ترجمہ ہوچکا ہے جن میں‌ اردو بھی شامل ہے۔ یہ ایک مقامی عورت کے معاشقوں کے المیوں کی روداد ہے۔ مادام بواری کو نہایت عمدہ اور معیاری تخلیق قرار دیا جاتا ہے جس کی ہیروئن ایما بواری غریب ہونے کے باوجود اپنے جذبات کا اظہار کرنے کی جرات رکھتی ہے۔ تاہم اس کی رومان بھری آرزوؤں کو روایت اور سماج کی وجہ سے المیوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔

  • صرف مونا لیزا ہی لیونارڈو ڈاونچی کی وجہِ شہرت نہیں!

    صرف مونا لیزا ہی لیونارڈو ڈاونچی کی وجہِ شہرت نہیں!

    مونا لیزا کا خالق لیونارڈو ڈاونچی مصوّر ہی نہیں ایک ذہین انسان بھی تھا جس نے پانچ صدی پہلے وہ کارنامے انجام دیے جن کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ اس کے تخیل کی اڑان ہی نہیں‌ بلکہ اس کا شعور بھی بلند پرواز تھا۔

    وہ ایک مصوّر، مؤرخ، مجسمہ ساز، انجنیئر، ریاضی دان اور موجد تھا۔ آج لیونارڈو ڈاونچی کا یومِ‌ وفات ہے۔ مونا لیزا کی پینٹنگ کو اس کا لافانی شاہ کار کہا جاتا ہے جس پُراسرار مسکراہٹ آج تک دنیا کے نام ور آرٹسٹوں میں زیرِ بحث آتی ہے اور اسے لیونارڈو ڈاونچی کے کمالِ فن کی عظیم مثال کہا جاتا ہے۔ اسے آئیڈل مین کے لقب سے نوازا گیا۔

    لیونارڈو ڈاونچی نے اٹلی کے ایک قصبے میں 15 اپریل 1452ء کو آنکھ کھولی تھی جہاں اس کے والد کو ایک زمین دار کی حیثیت سے اہمیت دی جاتی تھی۔ لیونارڈو نے تعلیم کے ساتھ مطالعہ کا شغف اپنایا اور 15 برس کی عمر میں معروف مصور آندریا ڈیل ویروشیو کی شاگردی اختیار کرلی، جس کی ورکشاپ میں مصوری و مجسمہ سازی کے ساتھ ٹیکنیکل اور میکینکل کی تعلیم بھی حاصل کی۔ جلد ہی اس کا نام پہچان بنانے لگا۔ لیونارڈو 1482ء میں میلان گیا اور وہاں 17 برس گزار دیے۔ اس عرصے میں اس نے اپنے فنِ مصوّری اور علم کے سبب بڑا رتبہ اور ڈیوک کے مصور اور انجینئر کا خطاب پایا۔ میلان میں فنِ‌ مصوری اور مجسمہ سازی کے علاوہ تعمیر سازی، قلعہ بندی اور فوجی امور میں وہ تکنیکی مشیر بھی رہا۔ اس کے ساتھ ہائیڈرولک اور میکینکل انجینئر کی حیثیت سے بھی کام کیا۔

    لیونارڈو کو سیاسی حالات اور کام کے سبب بھی فرانس، اٹلی اور مختلف علاقوں میں رہنا پڑا اور اس دوران وہ مصوری سے لے کر اپنی دل چسپی اور شوق کے ہر کام کو اپنے تخیل اور ذہنِ رسا کی مدد سے ماہرانہ انداز میں انجام دیتا رہا اور 65 سال کی عمر میں لیونارڈو فرانس کے نوجوان بادشاہ فرانسس اوّل کے قریب ہو گیا۔ فرانس میں قیام کے دوران اس نے زیادہ توجہ سائنسی تحقیق پر دی۔ اس زمانے میں‌ اڑنے والی گاڑی (ہیلی کاپٹر)، روبوٹ، پیرا شوٹ، فریج جیسی ایجادات کا تصور اور ان کے ابتدائی خاکے مع ضروری تفصیل اور ریڑھا بنانے کے حوالے سے لیونارڈو ڈاونچی ہی کا نام لیا جاتا ہے۔

    2 مئی 1519ء کو فرانس ہی میں لیونارڈو ڈاونچی نے اپنی زندگی کا سفر تمام کیا تھا۔

  • ممتاز عالم، محقّق اور مترجم پروفیسر ڈاکٹر شیخ محمد اقبال کی برسی

    ممتاز عالم، محقّق اور مترجم پروفیسر ڈاکٹر شیخ محمد اقبال کی برسی

    آج فارسی زبان و ادب کے ممتاز عالم، محقّق اور مترجم پروفیسر ڈاکٹر شیخ محمد اقبال کا یومِ وفات ہے۔ 21 مئی 1948ء کو لاہور میں وفات پانے والے ڈاکٹر شیخ محمد اقبال کو ماہرِ تعلیم کی حیثیت سے بھی جانا جاتا ہے۔

    ڈاکٹر شیخ محمد اقبال 19 اکتوبر 1894ء کو جالندھر میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے عربی میں ایم اے کیا اور اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے کیمبرج یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ وہاں مشہور مستشرق پروفیسر ای جی برائون کی نگرانی میں انھوں نے فارسی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

    1922ء میں اورینٹل کالج لاہور سے وابستہ ہونے والے ڈاکٹر شیخ محمد اقبال کو بعد میں فارسی کے صدرِ شعبہ اور پرنسپل کے عہدے پر خدمات انجام دینے کا موقع ملا۔ انھوں نے خود کو بہترین منتظم اور ماہرِ تعلیم کی حیثیت سے منوایا اور اپنے عہدوں فرائض انجام دیتے ہوئے کئی اہم کتابوں کی تدوین و ترتیب کے ساتھ تراجم بھی کیے۔

    ڈاکٹر شیخ محمد اقبال نام ور دانشور دائود رہبر کے والد اور مشہور صدا کار ضیاء محی الدین کے تایا تھے۔ وہ لاہور میں ماڈل ٹائون کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔