Tag: مئی وفات

  • یومِ وفات:‌ امیر اللہ تسلیم کے اشعار کو ضربُ‌ المثل کا درجہ حاصل ہے

    یومِ وفات:‌ امیر اللہ تسلیم کے اشعار کو ضربُ‌ المثل کا درجہ حاصل ہے

    تسلیم، اردو زبان کے ان شعراء میں سے ہیں جن کے کئی اشعار کو ضرب المثل کا درجہ حاصل ہے۔ اپنے زمانے میں تسلیم نے نہ صرف اپنے کلام کی بدولت نام پایا بلکہ وہ ایک وضع دار، مشرقی روایات کے دلدادہ اور رکھ رکھاؤ والے انسان مشہور تھے جن کی زندگی عسرت اور تنگی میں بسر ہوئی۔

    تسلیم نے لکھنوی ماحول میں آنکھ کھولی تھی۔ اگرچہ ان کے حالاتِ زندگی بہت کم دست یاب ہیں‌، لیکن سنہ پیدائش 1819ء بتایا جاتا ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہر طرف شعر و سخن کا چرچا تھا۔ لکھنؤ میں ادنیٰ سے اعلیٰ تک ہر کوئی باذوق اور ادب کا شائق۔ اس ماحول میں‌ تسلیم بھی تہذیب کا مرقع اور دین دار شخصیت کے طور پر مشہور ہوئے۔ عربی اور فارسی کی کتابیں‌ انھوں‌ نے اپنے والد اور بھائی سے گھر پر پڑھی تھیں۔

    تسلیم کی زندگی بڑی مشکل تھی۔ مالی مسائل اور تکالفی ان کا مقدر بنی رہیں، لیکن افلاس اور تنگ دستی کے باوجود صبر شکر ان کا وظیفہ رہا۔ ادبی تذکروں میں‌ آیا ہے کہ کبھی امیر اللہ تسلیم کو کسی شاگرد نے بیزاری سے بات کرتے اور کسی کو جھڑکتے نہیں‌ دیکھا۔ وہ ہمیشہ مخاطب کی دل جوئی کرتے اور شاگردوں کو وقت اور توجہ دیتے تھے۔ پہلی بیوی کی وفات کے بعد تسلیم نے دوسری شادی کی تھی۔ نماز روزے کے پابند تھے اور دینی امور کا بہت خیال رکھتے تھے۔

    احمد حسین ان کا نام رکھا گیا تھا، لیکن امیر اللہ کے نام سے مشہور ہوئے اور شاعری میں تسلیم تخلّص اختیار کیا۔ منگلیسی، فیض آباد کا نواحی علاقہ تھا جہاں وہ پیدا ہوئے۔ تسلیم نے شاعری کے ساتھ فنِ خوش نویسی میں کمال حاصل کیا۔ وہ فنِ‌ خوش نویسی میں‌ استاد مشہور تھے۔ اصغر علی نسیم کے شاگرد ہوگئے جو اپنے دور کے ایک استاد شاعر گزرے ہیں۔ تسلیم کے والد محمد علی شاہ کے عہد میں فوج میں ملازم تھے۔ انھوں نے اپنی پیرانہ سالی میں درخواست کی تھی کہ ان کی جگہ بیٹے احمد حسین یعنی تسلیمؔ کو رکھ لیا جائے اور یہ درخواست قبول کرلی گئی۔ سو، تسلیم ایک پلٹن میں شامل ہوئے جسے واجد علی شاہ کے عہد میں ایک واقعے کے بعد ختم کر دیا گیا۔ تسلیم فارغ کیے جانے کے بعد شعرائے شاہی کے زمرے میں داخل ہو کر 30 روپیہ ماہوار پانے لگے۔ گزر بسر کا یہ سلسلہ زوالِ سلطنت کے ساتھ ہی ٹوٹ گیا۔

    تسلیم نے رام پور کا رخ کیا تاکہ وہاں‌ انھیں کوئی ملازمت مل جائے اور زندگی کی گاڑی کھینچ سکیں۔ لیکن نامراد لکھنؤ لوٹ آئے۔ یہاں انھوں‌ نے نول کشور کے مطبع میں نوکری کی کوشش کی اور کام یاب ہوئے۔ بعد میں نواب علی خاں نے ریاست کا انتظام سنبھالا تو تسلیم کو رام پور طلب کرلیا جہاں وہ ڈپٹی انسپکٹر، مدارس مقرر ہوئے۔ تسلیم کو ازراہِ قدر دانی آخری وقت تک پینشن ملتی رہی۔

    فنِ شاعری میں‌ ان کے استاد نسیم دہلوی تھے۔ تسلیم کو اپنے استاد سے بہت عقیدت اور لگاؤ رہا اور ان کی بڑی عزّت کرتے تھے۔ ان کے فیوض و برکات کا تذکرہ بھی تسلیم نے بہت شدّت سے کیا ہے۔ ایک روایت ہے کہ نسیم نے خواب دیکھا کہ وہ کسی عمیق کنویں سے پانی بھر رہے ہیں اور ڈول اس قدر گراں ہے کہ کھینچا نہیں‌ جاتا، تب انھوں نے اپنے شاگرد تسلیم کو پکارا کہ تم جا کر اس کو کھینچ لو۔ تسلیم آگے بڑھے اور ڈول کھینچ لیا۔ اس پر ان کے استاد نسیم دہلوی نے کہا کہ یہ کنواں‌ اس دشوار فن سے تعلق رکھتا ہے۔

    امیر اللہ تسلیم 28 مئی 1911ء کو لکھنؤ میں وفات پاگئے تھے۔ ان کے تین دیوان اور متعدد مثنویاں یادگار ہیں۔ مولانا حسرت موہانی انہی کے ایک مشہور اور قابل شاگرد تھے۔

  • شاہد احمد دہلوی:‌ اردو کا صاحبِ طرز ادیب

    شاہد احمد دہلوی:‌ اردو کا صاحبِ طرز ادیب

    اردو کے صاحبِ طرز ادیب شاہد احمدد ہلوی نے خاکہ نگاری، تذکرہ نویسی اور تراجم کے ساتھ ادبی صحافت میں بھی نام پیدا کیا۔ وہ ایک جید موسیقار بھی تھے۔ 27 مئی 1967ء کو وفات پانے والے شاہد احمد دہلوی نے کئی کتابیں یادگار چھوڑیں اور دہلی کی با محاورہ زبان اور اس کا چٹخارہ ان کے اسلوب کا خاصہ ہے۔ آج شاہد احمد دہلوی کی برسی ہے۔

    شاہد احمد دہلوی کا تعلق ایک ایسے علمی و ادبی گھرانے سے تھا جس نے اردو ادب کو اپنی نگارشات کی صورت میں مالا مال کیا۔ وہ اردو کے نام وَر ادیب اور مشہور ناول نگار ڈپٹی نذیر احمد کے پوتے اور معروف ادیب مولوی بشیر الدین احمد کے فرزند تھے۔ شاہد احمد دہلوی 1906ء میں دہلی میں‌ پیدا ہوئے۔ وہ ایک خوش حال گھرانے کے فرد تھے۔ تعلیم و تربیت کے مراحل طے کرتے ہوئے جس علمی و ادبی ماحول میں‌ ان کی پرورش ہوئی، اس نے شاہد احمد دہلوی کو بھی لکھنے لکھانے پر آمادہ کیا۔ موسیقی سے انھیں عشق تھا اور لکھنا پڑھنا ان کا بہترین مشغلہ۔

    شاہد احمد دہلوی مشہور ادبی مجلّہ ’’ساقی‘‘ کے مدیر تھے۔ دہلی کی بامحاورہ زبان پر ان کی جو گرفت تھی وہ انھیں ہم عصروں میں ممتاز کرتی ہے۔ ان کی دو کتابیں ’’دہلی کی بپتا‘‘ اور ’’اجڑا دیار‘‘ اس اسلوب میں ان کی انفرادیت کی مثال ہیں۔ جہاں تک فن موسیقی کا تعلق ہے تو عوام الناس کی اکثریت ان کی زندگی کے اس گوشے سے روشناس نہیں۔ شاہد احمد دہلوی جہاں اردو کے ایک فقید المثال ادیب تھے، وہاں وہ کلاسیکی موسیقی کے ایک جید عالم اور عامل بھی تھے۔ انہیں بچپن ہی سے موسیقی سے لگاؤ تھا۔ میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد انہوں نے کلاسیکی موسیقی کی باقاعدہ تربیت حاصل کرنا شروع کر دی۔ ان کے پہلے استاد پنڈت لکشمن پرشاد تھے۔ ان کے بعد انہوں نے برصغیر کے عہد ساز اور نابغہ روزگار سارنگی نواز استاد بندو خاں کے برادر نسبتی استاد چاند خاں دہلوی سے موسیقی کی تعلیم حاصل کی۔ 1937ء میں شاہد احمد دہلوی نے ایس۔ احمد کے نام سے کلاسیکی گائیک کی حیثیت سے آل انڈیا ریڈیو دہلی کے پروگراموں میں شرکت کرنا شروع کر دیا اور 1947ء تک وہ مسلسل موسیقی کے پروگراموں میں حصہ لیتے رہے۔

    شاہد احمد دہلوی نے رسالہ ’’ساقی‘‘ 1930ء میں دہلی سے جاری کیا تھا اور 1947ء میں ہجرت کر کے پاکستان آئے تو یہاں دوبارہ اسی پرچے کا آغاز کیا۔ 1959ء میں پاکستان رائٹرز گلڈ بنی تو شاہد احمد دہلوی کی کوششیں بھی اس میں شامل تھیں۔ وہ ترقّی پسند تحریک میں شامل رہے اور خوب کام کیا۔ انھوں نے انگریزی کی متعدد کتب اردو زبان میں منتقل کیں۔ ان میں‌ کہانیاں اور بچّوں کی تعلیم و تربیت سے متعلق کتب اور مضامین بھی شامل ہیں جو ہر لحاظ سے اہم ہیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد کراچی آئے تو ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہو گئے تھے، جہاں ایس احمد کے نام سے موسیقی کے پروگرام پیش کیے۔ شاہد احمد دہلوی نے موسیقی کے موضوع پر بھی لاتعداد مضامین رقم کیے جن کا مجموعہ’’ مضامینِ موسیقی‘‘ کے نام سے اشاعت پذیر ہوا۔ ان کے خاکوں کا پہلا مجموعہ ’’گنجینۂ گوہر‘‘ 1962ء میں شایع ہوا اور ’’بزمِ خوش نفساں‘‘ اور ’’طاقِ نسیاں‘‘ ان کی وفات کے بعد منظرِ عام پر آئے۔ ’’دِلّی جو ایک شہر تھا‘‘ اور ’’چند ادبی شخصیتیں‘‘ ان کی دو اہم کتابیں ہیں اور کئی تراجم ان کی زبان دانی اور قابلیت کا نمونہ ہیں۔

    حکومت پاکستان نے شاہد احمد دہلوی کو ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں صدارتی اعزاز برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

  • سڈنی پولک: بڑا فن کار، بڑا آدمی

    سڈنی پولک: بڑا فن کار، بڑا آدمی

    ’سڈنی ایک ایسے شخص تھے جس نے اس دنیا کو ایک بہتر دنیا بنایا۔‘ مشہور امریکی اداکار جارج کلونی نے یہ الفاظ آسکر ایوارڈ یافتہ ہدایت کار، پروڈیوسر اور اداکار سڈنی پولک کے انتقال پر ادا کیے تھے۔

    عالمی شہرت یافتہ سڈنی پولک کو فلم کے پردے سماجی اور سیاسی مسائل کو اجاگر کرنے پر نہ صرف لوگوں نے بہت سراہا بلکہ ان کی عزّت اور وقار میں بھی اضافہ ہوا۔ فلم کی دنیا میں‌ کئی لوگوں نے جگہ بنائی اور خوب کام کیا، لیکن سڈنی پولک نے خود کو سب سے منفرد ثابت کیا۔ 1960 سے 80 کی دہائی تک انھوں نے اپنی فلموں کی بدولت شائقینِ سنیما کی توجہ حاصل کیے رکھی اور ناقدین سے بھی داد سمیٹی۔

    سڈنی پولک 2008ء میں آج ہی کے دن چل بسے تھے۔ وہ 73 برس کے تھے۔ لاس اینجلس میں وفات پانے والے سڈنی پولک کو کینسر کا مرض لاحق تھا۔ ان کا فلمی کیریئر پچاس سال پر محیط رہا جس میں انھوں نے اپنی فلموں کے لیے ہر خاص و عام سے داد سمیٹی۔

    سڈنی پولک کی مشہور ترین فلموں میں ’ٹوٹسی‘ اور ’آؤٹ آف افریقہ‘ شامل ہیں۔ یہ بلاک بسٹر فلمیں تھیں جن کے ہدایت کار سڈنی پولک تھے۔ انھوں نے ’مائیکل کلیٹن‘ جیسی کام یاب فلم پروڈیوس کی۔ ’ٹوٹسی‘ کے لیے 1982 میں سڈنی کو بہترین ہدایت کار کے آسکر کے لیے نام زد کیا گیا تھا جب کہ ’آؤٹ آف افریقہ‘ وہ بہترین ہدایت کار کا یہ اعزاز اپنے نام کرنے میں‌ کام یاب رہے تھے۔ یہ وہ فلم تھی جسے مجموعی طور پر سات آسکر ایوارڈز دیے گئے تھے۔

    سڈنی پولک 1969 میں ’دے شوٹ ہارسز ڈانٹ دے‘ کے لیے بھی بطور ڈائریکٹر آسکر اعزاز کے لیے نام زد ہوئے تھے۔

    ان کا سنہ پیدائش 1934 تھا۔ وہ دسویں جماعت پاس کرنے کے بعد بطور اداکار قسمت آزمائی کے لیے نیویارک گئے اور ٹیلی وژن پر اداکاری کرنے کا موقع ملا تو خود کو منوایا اور پھر فلم کی دنیا میں قدم رکھا۔ 1961 میں سڈنی پولک نے ٹیلی وژن کے لیے پروگرام بنانے کا سلسلہ شروع کیا اور چار برس بعد بطور ہدایت کار ’دا سلنڈر تھریڈ‘ کے عنوان سے ایک فلم بنائی۔ 90 کے عشرے میں سڈنی پولک نے پروڈیوسر کے طور پر کام شروع کیا اور ’دا فرم‘ جیسی ہٹ فلم سامنے آئی۔ ہدایت کار کے طور پر ان کی آخری فلم ’ اسکیچیز آف فرانک گہرے‘ تھی۔ یہ اپنے وقت کے ایک مشہور آرکیٹیکٹ کے بارے میں دستاویزی فلم تھی۔

  • وہ فن کار جسے پی ٹی وی کا دلیپ کمار کہا گیا!

    وہ فن کار جسے پی ٹی وی کا دلیپ کمار کہا گیا!

    طلعت حسین پاکستان کے ان فن کاروں میں سے ایک ہیں جو ریڈیو، ٹیلی ویژن اور پاکستانی فلم انڈسٹری پر اپنی گہری چھاپ چھوڑ گئے۔

    طلعت صاحب کی پہچان ان کی آواز اور وہ انداز تھا جس نے سبھی کو اپنا اسیر کر لیا۔ ایسا نہیں ہے کہ ان کی ادکاری کم درجے کی تھی۔ وہ اداکاری میں بھی کمال مہارت رکھتے تھے مگر قدرت کی ودیعت کردہ آواز نے انھیں کمال درجے کا آرٹسٹ بنا دیا جب کہ ان کے دور عروج میں پی ٹی وی ریڈیو پاکستان یا اسٹیج پر ان کی طرح صدا کاری کے فن میں یکتا آرٹسٹ ڈھونڈنے سے نہیں ملتا تھا۔

    اکثر اشتہارات میں پس پردہ ان کی آواز گونجتی تھی تو نہ چاہتے ہوئے بھی لوگوں اس اشتہار کی طرف متوجہ ہو جاتے تھے۔ ہمیں بچپن کے ادوار میں تو پتا ہی نہ چلا کہ یہ اس شخص کی آواز ہے جسے ہم اکثر اسکرین پر دیکھتے آئے ہیں بعد میں جب آرٹس کونسل کے چکر لگائے اور وہاں کچھ کورسز کیے تو ہم پر عقدہ کھلا کہ آواز کے یہ جادوگر تو مشہور اداکار طلعت حسین ہیں۔

    آج بھی یاد ہے ریڈیو آر جے بننے کے لیے ہم نے آرٹس کونسل میں ایک کورس جوائن کیا تو ہمارے ٹرینر ہمیں طلعت حسین کی آواز سنایا کرتے تھے کہ یہ شخص جس طرح الفاظ کو پیراہن عطا کرتا ہے، وہ کمال ہے۔

    ایک وقت تھا کہ طلعت حسین پس پردہ آواز کے لیے سب سے زیادہ معاوضہ لینے والے آرٹسٹ شمار ہوتے تھے، اشتہار ساز ادارے انھیں منہ مانگے معاوضے پر سائن کرتے اور ایسا کیوں نہ ہوتا کہ نہ صرف طلعت صاحب کی اداکاری کمال تھی بلکہ جب وہ اپنی آواز کی گمبھیرتا اور طلسماتی اثر کے ساتھ مکالمے ادا کرتے تو سننے والے ورطۂ حیرت میں پڑ جاتے تھے۔

    اگر اداکاری کی بات کی جائے تو طلعت حسین کا الفاظ کی ادائیگی کا سلیقہ، قرینہ اور برجستہ ڈائیلاگ ڈلیوری کے سبب انھیں پی ٹی وی کا دلیپ کمارکہا جاتا تھا، ’ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم!‘ اس مصرعے کی جیتی جاگتی تصویر تھے طلعت حسین! کیوں کہ اب ان کے پائے کا کوئی اداکار انڈسٹری میں نظر نہیں آتا۔

    لیجنڈ اداکار کی ڈائیلاگ ڈیلوری کمال تھی، کہاں لفظ پر زور دینا ہے کہاں آہستگی سے بات کرنا ہے اور فن کارانہ بدن بولی انھیں وہ معنویت عطا کرتی تھی جس نے ناظرین کے دلوں کو چھو لیا۔ اسی بنا پر انھیں پاکستان ٹیلی ویژن کا ’دلیپ کمار‘ کہا گیا۔

    دلیپ کمار نے اداکاری میں جسمانی حرکات اور بدن بولی کو جس نہایت اچھوتے اور منفرد انداز میں کیمرے کے سامنے پیش کیا، وہ اپنی مثال آپ تھا۔ وہ سین کے دوران چلتے ہوئے، رک کر اور خاص انداز سے ڈائیلاگ بولتے تھے اور دیکھنے والے دیوانے ہوجاتے تھے، یہی ادا طلعت نے بھی اپنائی اور پاکستان میں بالخصوص ٹی وی انڈسٹری پر چھا گئے۔

    یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ طلعت حسین اچھی طرح سمجھتے تھے کہ ٹی وی، فلم اور ریڈیو کے میڈیم میں اداکاری کی مختلف ڈیمانڈز ہوتی ہیں۔ طلعت حسین کے مطابق ریڈیو میں صرف ڈائیلاگ سے کام چل جائے گا لیکن ٹی وی یا فلم میں جذبات کے اظہار کے لیے باڈی لینگویج یا بدن بولی کافی اہمیت کی حامل ہے۔

    طلعت حسین اداکاری اور تھیٹر کی تعلیم حاصل کرنے انگلینڈ بھی گئے۔ انھوں نے لالی ووڈ اور بالی ووڈ سمیت برطانوی ٹی وی کیلئے بھی کام کیا، لیجنڈ اداکار کو ستارہ امتیاز، پرائیڈ آف پرفارمنس سمیت متعدد ایوارڈز سے نوازاگیا، پرچھائیاں، بندش، طارق بن زیاد، دیس پردیس، مہرالنسا، ہوائیں، دی کاسل، ایک امید، ٹائپسٹ، انسان اورآدمی اور کشکول ان کے مشہور ڈرامے تھے۔

    لیجنڈ اداکار کی مشہور فلموں میں گمنام، ایک سے بڑھ کر ایک، اشارہ، چراغ جلتا رہا، محبت مر نہیں سکتی، لاج، قربانی، کامیابی، بندش، پروجیکٹ غازی، بانی پاکستان کی زندگی پر بنائی گئی فلم جناح شامل ہیں۔

    اداکار طلعت حسین کے پاس کتابوں کا خزانہ تھا وہ کتابیں پڑھنے کے کافی شوقین تھے۔ انگریزی ادب اور اردو ادب سے خاص لگاؤ تھا، انھیں ایسے افراد میں شمار کیا جاسکتا تھا جن کے ہاتھ میں ہمیشہ کتاب رہتی تھی۔

    لیجنڈ اداکار کے انتقال پر اداکارہ بشریٰ انصاری کا کہنا تھا کہ طلعت حسین باکمال اداکار اور بڑی شخصیت تھے۔ میرے لکھے ڈرامے انھوں نے پڑھے جس پر مجھے فخر ہے۔ وہ انتہائی مہذب شخصیت تھے جنھوں نے کبھی اپنے منہ سے کوئی بے جا لفظ نہیں نکالا۔

    فلم اور ٹی وی کے معروف اداکار جاوید شیخ نے طلعت حسین کے انتقال کو شوبز انڈسٹری کا بڑا نقصان قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ بہت نفیس آدمی تھے، جن سے بہت کچھ سیکھا۔ ان کی بیماری کے دوران ان سے ملنے کے لیے جانے کا ارادہ تھا لیکن افسوسناک اب یہ حسرت ہی رہے گی۔

    عثمان پیرزادہ کا کہنا تھا کہ طلعت حسین میرے خاندان کا حصہ تھے جن کے انتقال پر بہت افسوس ہے لیکن وہ ہمیشہ ہمارے ساتھ رہیں گے۔ بہروز سبزواری نے کہا کہ طلعت حسین کی پہچان ان کی آواز تھی۔ طلعت حسین اس پائے کے فنکار تھے کہ اب ان کی جگہ کوئی اور نہیں لے سکتا۔

    اداکار سہیل احمد نے کہا کہ طلعت حسین کی وفات سے ہونے والا نقصان کبھی پورا نہیں ہوگا۔ انھوں نے اپنی پوری زندگی کبھی اپنے اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ ان جیسا فنکار آئندہ کبھی ملتا نظر نہیں آ رہا۔

    پی ٹی وی کے جنرل منیجر امجد حسین شاہ کا کہنا تھا کہ طلعت حسین نے ٹی وی، ریڈیو اور تھیٹر پر بہت کام کیا۔ میں خوش قسمت ہوں کہ ان کے ساتھ کام کا موقع ملا۔ وہ اس مزاج کے تھے کہ چاہے جتنی طبیعت خراب ہو، کام سے منع نہیں کرتے تھے۔

    تقسیم ہند سے قبل 1940 میں بھارت میں پیدا ہونے والے طلعت حسین کی عمر 80 سال سے زائد تھی، وہ کافی عرصے سے علیل تھے انھیں ڈیمنشیا کا مرض لاحق تھا۔ وہ طویل عرصہ علالت کے بعد 26 مئی کو کراچی میں انتقال کرگئے۔ انھیں ڈی ایچ اے فیز 8 کے قبرستان سپرد خاک کیا گیا۔

  • زیبُ النّسا: مغل شہزادی جنھیں یورپی مصنّفین نے بدنام کرنے کی کوشش کی!

    زیبُ النّسا: مغل شہزادی جنھیں یورپی مصنّفین نے بدنام کرنے کی کوشش کی!

    ہندوستان میں مغلیہ دور کی تاریخ اور جن بااثر شخصیات کا ذکر اکثر کیا جاتا ہے، ان میں شہزادی زیبُ النّسا بھی شامل ہیں۔ وہ ہندوستان کے بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کی پہلی اولاد اور چہیتی بیٹی تھیں۔

    زیبُ النّسا کا سنہ پیدائش 1638ء ہے۔ انھوں نے 1652ء سے 1657ء تک کا بیشتر عرصہ اپنے والد کے ساتھ دکن میں گزرا جہاں وہ صوبے دار تھے۔ 1658ء میں اورنگزیب بادشاہ بنے تو اپنے کنبے کو دولت آباد سے دلّی طلب کیا کہ وہ بھی جشن میں شریک ہوں۔ زیبُ النّسا ان کی چہیتی بیٹی تھیں۔ باپ نے انھیں دلّی آنے کے بعد ’پادشاہ بیگم‘ کا خطاب دیا۔ اس منصب کے ساتھ انھیں وسیع جاگیر عطا ہوئی اور مؤرخین کے مطابق وہ چار لاکھ روپے سالانہ وظیفہ بھی پاتی تھیں۔
    شہزادی زیب النسا مطالعہ کا شوق رکھتی تھیں۔ انھیں منصب اور اپنے بااثر ہونے کا لحاظ تو بہت تھا، مگر وہ دربار کے معاملات میں یا سازشوں میں دل چسپی نہیں رکھتی تھیں۔ تاہم وہ وقت بھی آیا جب محلّاتی سازشوں نے بادشاہ کو شہزادی سے ناراض کردیا اور وہ ان کی معتوب ٹھہریں لیکن بعد میں ان کی صفائی سامنے آگئی تھی۔

    ایک فرانسیسی مستشرق خاتون اینی کری نیکی نے لکھا ہے کہ وہ تصوف میں فرید الدّین عطار اور جلال الدین رومی کے مکتبہ فکر سے تعلق رکھتی تھیں۔ ’وہ حساب، جغرافیہ ، شہسواری، نیزہ بازی اور شمشیر زنی میں اپنے بھائیوں اور کسی بھی ہم عمر عم زاد سے کم نہ تھیں۔’

    شبلی نعمانی جیسے عظیم مؤرخ، نقاد، شاعر اور انشا پرداز نے زیب النسا کے کمالاتِ علمی اور عام اخلاق و عادات کے بارے میں لکھا ہے، تمام مؤرخین نے بہ تصریح لکھا ہے کہ زیب النساء علوم عربیہ اور فارسی زبان دانی میں کمال رکھتی تھی۔ نستعلیق، نسخ اورشکستہ خط نہایت عمدہ لکھتی تھی۔ لیکن اس کی تصنیفات سے آج کوئی چیز موجود نہیں۔ عام طور پر مشہور ہے کہ وہ مخفی تخلص کرتی تھی۔ اور دیوان مخفی جو چھپ کر شائع ہو چکا ہے اسی کا ہے۔ لیکن یہ صحیح نہیں۔ کسی تاریخ یا تذکرہ میں اس کے تخلص یا دیوان کا ذکر نہیں۔

    اس سے انکار نہیں ہوسکتا کہ وہ شاعر تھی لیکن معلوم ہوتا ہے کہ اس کا کلام ضائع ہوگیا۔ اسی تذکرہ میں ملا سعید اشرف کے حال میں لکھا ہے کہ زیب النساء کی بیاض خاص ایک خواص کے ہاتھ سے جس کا نام ارادت فہم تھا، حوض میں گر پڑی۔

    زیب النسا کی تصنیفات و تالیفات سے زیب المنشات کا ذکر البتہ تذکروں میں آیا ہے۔ تذکرہ الغرائب کے مصنف نے لکھا ہے کہ میں نے اس کو دیکھا ہے، زیب النساء کے خطوط اور رقعات کا مجموعہ ہے۔

    شہزادی کی علم پروری کے شبلی لکھتے ہیں، زیب النساء نے خود کوئی تصنیف کی ہو یا نہ کی ہو لیکن اس نے اپنی نگرانی میں اہلِ فن سے بہت سی عمدہ کتابیں تصنیف کرائیں۔ ایک جگہ وہ رقم طراز ہیں، زیب النساء کا دربار حقیقت میں ایک اکادمی (بیت العلوم) تھی۔ ہر فن کے علما اور فضلا نوکر تھے جو ہمیشہ تصنیف اور تالیف میں مصروف رہتے تھے۔ یہ کتابیں عموماً اس کے نام موسوم ہوتی تھیں یعنی ان کتابوں کے نام کا پہلا جزو زیب کا لفظ ہوتا تھا۔ اس سے اکثر تذکرہ نویسوں کو دھوکہ ہوا ہے اور انہوں نے وہ کتابیں زیب النسا کی تصنیفات میں شمار کیں، زیب النسا نے جو کتابیں تصنیف کرائیں ان میں زیادہ قابل ذکر تفسیر کبیر کا ترجمہ ہے۔ یہ مسلم ہے کہ تفسیروں میں امام رازی کی تفسیر سے زیادہ جامع کوئی تفسیر نہیں۔ اس لئے زیب النسا نے ملا صفی الدین آردبیلی کو، جو کشمیر میں مقیم تھے، حکم دیا کہ اس کا فارسی میں ترجمہ کریں۔ چنانچہ اس کا نام زیب التفاسیر رکھا گیا۔ بعض تذکرہ نویسوں نے غلط لکھ دیا ہے کہ وہ زیب النساء کی مستقل تصنیف ہے۔ زیب النسا نے تصنیف و تالیف کا جو محکمہ قائم کیا تھا اس کے ساتھ ایک عظیم الشان کتب خانے کا ہونا بھی ضروری تھا۔ جس سے مصنفین فائدہ اٹھا سکیں۔ چنانچہ بیگم موصوف نے ایک نہایت عظیم الشان کتب خانہ قائم کیا۔

    شہزادی کے بارے میں ایک مضمون میں ممتاز ادیب اور افسانہ نگار زاہدہ حنا نے لکھا، اورنگزیب عالم گیر کی سب سے بڑی بیٹی شہزادی زیب النسا نے اپنے پردادا شہنشاہ اکبر جیسی بے مثال یادداشت پائی تھی‘ شاید یہی وجہ ہے کہ تین برس کی عمر میں اسے قرآن کی متعدد آیات یاد ہوچکی تھیں۔ مسلمانوں کی روایت کے مطابق چار برس، چار ماہ اور چار دن کی عمر میں اس کی رسم بسم اللہ ہوئی اور اسے ایک ایسی حافظۂ قرآن مریم کے سپرد کردیا گیا جو نیشا پوری تھی اور اپنے شوہر شکر اللہ کشمیری کے ساتھ ہندوستان آئی تھی۔ زیب النساء نے سات برس کی عمر میں قرآن حفظ کرلیا تو شہزادہ اورنگ زیب کے لیے پہلی اولاد کے حوالے سے یہ ایک یادگار واقعہ تھا۔ لڑکیوں کے حفظِ قرآن پر اس طرح خوشی نہیں منائی جاتی تھی لیکن اورنگ زیب نے اس موقع پر ایک شاندار تقریب منعقد کی اور اسے یادگار بنا دیا۔ اورنگ زیب کی بے پایاں مسرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حافظہ مریم کو 30 ہزار اشرفیاں بہ طور انعام دی گئیں اور غریبوں میں بڑے پیمانے پر روپے تقسیم کیے گئے۔

    شہزادی زیب النسا نے شادی نہیں کی تھی اور بعض تاریخی تذکروں میں ان کے عشق کا ایک قصہ آیا ہے جس سے شہزادی کا امیج خراب ہوتا ہے۔ اس حوالے سے شبلی نے لکھا ہے کہ شہزادی کے بارے میں غلط باتیں مشہور کرنے میں زیادہ ہاتھ یورپی مصنفین کا ہے جنھوں نے مغلیہ خاندان کی غلط تصویر پیش کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں، زیب النسا نے شادی نہیں کی۔ عام طور پر مشہور ہے کہ سلاطین تیموریہ لڑکیوں کی شادیاں نہیں کرتے تھے۔ اس غلط روایت کو یورپین مصنفوں نے بہت شہرت دی ہے اور اس سے ان کو شاہی بیگمات کی بدنامی پھیلانے میں بہت مدد ملی ہے، لیکن یہ قصہ ہی سرے سے بے بنیاد ہے۔ خود عالمگیر کی دوبیٹیاں زبدۃ النساء بیگم اور مہرالنساء بیگم سپہر شکوہ اور ایزد بخش (پسر شہزادہ مراد) سے بیاہی تھیں۔ چنانچہ مآثر عالمگیری میں دونوں شادیوں کی تاریخیں اورمختصر حالات لکھے ہیں اور خاتمہ کتاب میں بھی اس کا ذکر کیا ہے۔ عالمگیر زیب النساء کی نہایت عزت کرتا تھا۔ جب وہ کہیں باہر سے آتی تھی تو اس کے استقبال کے لئے شہزادوں کو بھیجتا تھا۔ سفر و حضر میں اس کو ساتھ رکھتا تھا۔ کشمیر کے دشوار سفر میں بھی وہ ساتھ تھی۔ لیکن جب عالمگیر دکن گیا تو اس نے غالباً علمی زندگی کی وجہ سے پائے تخت کو چھوڑنا مناسب نہ سمجھا، اس کی چھوٹی بہن زینت النساء عالمگیر کے ساتھ آگئی چنانچہ اس کا نام بار بار واقعات میں آتا ہے۔ زیب النسا نے دلّی میں قیام کیا اور وہیں پیوند زمین ہوئی۔

    زیب النسا کے متعلق متعدد جھوٹے قصّے مشہور ہوگئے ہیں جن کو یورپین مصنفوں نے اور زیادہ آب و رنگ دیا ہے۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ زیب النسا اور عاقل خاں سے عاشقی اور معشوقی کا تعلق تھا اور زیب النسا اس کو چوری چھپے سے محل میں بلایا کرتی تھی۔ ایک دن عالمگیر محل میں موجود تھا کہ اس کو پتہ لگا کہ عاقل خاں محل میں ہے اور حمام کی دیگ میں چھپا دیا گیا ہے۔ عالمگیر نے انجان بن کر اسی دیگ میں پانی گرم کرنے کا حکم دیا۔ عاقل خاں نے اخفائے راز کے لحاظ سے دم نہ مارا اور جل کر رہ گیا۔ عاقل خاں کا مفصل تذکرہ مآثر الامرا میں موجود ہے اور چونکہ شاعر تھا، تمام تذکروں میں بھی اس کے حالات مذکور ہیں۔ لیکن اس واقعہ کا کہیں نام و نشان نہیں۔

    زیب النسا نے عالمگیر کی حکومت کے 48 ویں سال دلّی میں انتقال کیا۔ مؤرخین کے مطابق 26 مئی 1702ء کو وہ دارِ بقا کو لوٹ گئیں اور عالمگیر اس وقت دکن کی فتوحات میں مصروف تھے، یہ خبر سن کر سخت غم زدہ ہوئے۔ بے اختیار آنکھوں سے آنسو نکل پڑے۔ مآثر عالمگیر میں لکھا ہے کہ ’معلوم ہوا کہ نواب تقدیس زیب النسا بیگم اللہ سے پیوست ہوگئیں۔ بادشاہ کا دل اس خبر سے بھر آیا اور آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ وہ بے طاقتی کی وجہ سے بے قرار تھے۔ صبر کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ بادشاہ نے سید امجد خان، شیخ عطااللہ، حافظ خان کو حکم دیا کہ وہ غریبوں میں شہزادی کے نام پر صدقات اور خیرات تقسیم کریں اور بیگم کا مقبرہ تیس ہزاری میں بنائیں جو ان کا متروکہ بھی ہے۔‘

    زیب النسا کی تدفین کے بارے میں دو رائے پائی جاتی ہیں۔ مولوی نور احمد چشتی (مصنف تحقیقات چشتی)، مرزا حیرت دہلوی، رائے بہادر کنہیا لال ہندی، شمس علماء خان بہادر اور سید محمد لطیف کے مطابق شہزادی کو لاہور میں دفن کیا گیا۔

    مختلف تحقیقی حوالوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ زیب النسا کی قبر لاہور میں نہیں سلیم گڑھ دلّی میں تھی۔ مرزا سنگین بیگ نے اپنی کتاب ’سیر المنازل‘ میں لکھا کہ ’کابلی دروازے کے باہر شارع عام پر تکیہ بھولو شاہ کے شمال کی جانب زیب النسا کا مقبرہ اور لال پتھر کی مسجد ہے۔

    سر سید احمد خان کی کتاب ’آثار الصنادید‘سے بھی زیب النسا کے مقبرے کی دلی میں موجودگی کی تصدیق ہوتی ہے، تاہم 1875 میں راجپوتانہ ریلوے تعمیر ہوئی تو یہ مقبرہ مسمار کر دیا گیا۔ مزار کی مسماری کے بعد زیب النسا کی قبر کو آگرہ میں شہنشاہ اکبر کے مزار کے قریب منتقل کیا گیا تھا۔ سو زیب النسا کے مزارکی لاہور میں موجودگی تاریخی حوالوں سے ثابت نہیں ہوتی۔ لاہور کے علاقے نواں کوٹ میں ان کے نام سے منسوب مزار میں کوئی اور دفن ہے۔ مگر کون، یہ تحقیق طلب ہے۔

  • پرکاش مہرا: ایک کام یاب فلم ڈائریکٹر اور نغمہ نگار

    پرکاش مہرا: ایک کام یاب فلم ڈائریکٹر اور نغمہ نگار

    پرکاش مہرا بولی وڈ کے وہ ہدایت کار تھے جن کی ایک فلم نے امیتابھ بچن کو ‘اینگری ینگ مین’ اور ‘سپر اسٹار’ بنا دیا تھا۔ 17 مئی 2009ء کو پرکاش مہرا چل بسے تھے اور امیتابھ بچن زندگی کے ان آخری لمحات میں بھی پرکاش مہرا کے ساتھ تھے۔

    13 جولائی 1939ء کو پرکاش مہرا نے اتر پردیش کے شہر بجنور میں آنکھ کھولی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جس میں سنیما کا جادو ہندوستانیوں پر چل چکا تھا۔ اپنے وقت کے کئی بڑے فلم ساز، باکمال فن کار اور بڑے بڑے تخلیق کار فلم انڈسٹری میں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کررہے تھے اور ان کی فلمیں زبردست کام یابیاں سمیٹ رہی تھیں۔ متحدہ ہندوستان کے نوجوان سنیما کے دیوانے تھے اور جن کو موقع ملتا وہ فلم انڈسٹری میں کام کرنے کی خاطر اس وقت کے فلمی مرکز بمبئی پہنچ جاتے۔ پرکاش مہر بھی تقسیمِ ہند کے بعد بطور اداکار قسمت آزمانے ممبئی پہنچے تھے۔ یہ 60 کی دہائی تھی۔ ان کے کریئر کا آغاز فلم اجالا اور پروفیسر جیسی فلموں سے ہوا۔ لیکن پھر وہ ہدایت کاری کی طرف چلے گئے۔ 1968ء میں ایک فلم ‘حسینہ مان جائے گی’ ریلیز ہوئی اور یہ بطور ہدایت کار پرکاش مہرا کی پہلی فلم تھی۔ اس فلم میں ششی کپور نے دہرا کردار ادا کیا تھا۔ اس فلم کے بعد پرکاش مہرا نے پلٹ کر نہیں دیکھا اور شان دار کام کی بدولت فلمی دنیا میں‌ نام و مقام بنایا۔

    1973ء میں فلم زنجیر ریلیز ہوئی جو نہ صرف پرکاش مہرا کے لیے بلکہ امیتابھ بچن کے کریئر میں بھی سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس فلم کا معاہدہ امیتابھ بچن نے ایک روپیہ میں کیا تھا۔زنجیر ریلیز ہوئی اور ہر طرف دھوم مچ گئی۔ اس شان دار آغاز کے بعد امیتابھ اور پرکاش مہرا کی سپر ہٹ فلموں کا گویا سلسلہ ہی چل نکلا۔ فلم لاوارث، مقدر کا سکندر، نمک حلال، شرابی، ہیرا پھیری اور دیگر فلموں نے باکس آفس پر تہلکہ مچا دیا۔

    امیتابھ بچن کا بولی وڈ کے ہدایت کاروں اور پروڈیوسروں میں پرکاش مہرا سے ایک خاص اور گہرا جذباتی تعلق تھا۔ پرکاش مہرا ہندی فلموں کے کام یاب ترین ہدایت کار اور فلم ساز تھے جن کا ایک حوالہ نغمہ نگاری بھی ہے۔ پرکاش مہرا مشہور فلمی شاعر انجان سے بہت زیادہ متاثر تھے اور ان سے گہری دوستی بھی تھی۔ انجان نے پرکاش کی شاعری سن کر ان کے بارے میں کہا تھا کہ ان کی شاعری بہت مقبول ہوگی۔ پرکاش نے بعد اپنی کئی فلموں میں اپنے تحریر کردہ گیت شامل کیے جن میں او ساتھی رے، تیرے بنا بھی کیا جینا…، لوگ کہتے ہیں میں شرابی ہوں، جوانی جانِ من. حسین دلربا، دل تو ہے دل، دل کا اعتبارکیا کیجے وغیرہ شامل ہیں۔

    فلمی دنیا میں‌ یہ بات بڑی مشہور ہوئی تھی کہ ان کی زیادہ تر فلموں کا ہیرو لاوارث ہوتا ہے، اکثر لوگ پرکاش مہرا سے اس پر تعجب کا اظہار کرتے اور اس کا سبب دریافت کرتے، لیکن پرکاش مہرا اس سوال پر ہنستے ہوئے لوگوں کو ٹال دیتے تھے۔

    بولی وڈ کے اس باکمال ہدایت کار فلم ساز کی ذاتی زندگی کا ایک بڑا المیہ بچپن میں ماں کے انتقال کے بعد والد کا دماغی توازن کھو دینا تھا اور اس کی وجہ سے پرکاش مہرا نے اپنی زندگی کے ابتدائی دنوں کو ایک قسم کی محرومی اور تکلیف کے احساس کے ساتھ گزارا تھا۔ باپ کی یہ دیوانگی شاید انھیں ایک قسم کے لاوارث ہونے کا احساس دلاتی تھی اور شاید پرکاش مہرا نے اپنے اسی دکھ کو فلموں میں ایک لاوارث ہیرو کی شکل میں پیش کیا۔

    سال 2001ء میں فلم "مجھے میری بیوی سے بچاوٴ” کے بعد پرکاش مہرا کا فلمی سفر گویا تمام ہوگیا تھا۔ یہ فلم بری طرح‌ فلاپ ہوگئی تھی ان کی شریکِ حیات بھی انہی دنوں ان کا ساتھ چھوڑ گئیں جس کا پرکاش مہرا کو بہت دکھ تھا۔ وہ اپنی زندگی میں جن لوگوں سے قریب رہے اور دوستی کی، اسے تاعمر نبھایا۔

  • عبد الرّؤف عروج: اردو شاعری اور ادبی تحقیق کا ایک بھولا بسرا نام

    عبد الرّؤف عروج: اردو شاعری اور ادبی تحقیق کا ایک بھولا بسرا نام

    عبد الرّؤف عروج ترقی پسند شاعروں کے اس گروہ سے تھا، جس نے تقسیمِ ہند کے بعد باقاعدہ لکھنا شروع کیا۔ عروج کی شاعری اور ان کے مضامین اس زمانے کے تقریباً تمام بڑے ادبی پرچوں اور جرائد میں شایع ہوئے۔ علمی و ادبی حلقوں میں وہ بطور شاعر اور ادبی محقق مشہور ہوئے۔ صحافت کو اپنا ذریعۂ معاش بنایا تو اس میدان میں‌ بھی بڑا خونِ جگر صرف کیا۔ آج عبدالرّؤف عروج کی برسی ہے۔ وہ 17 مئی 1990ء کو انتقال کرگئے تھے۔

    عبدالرّؤف عروج اس زمانے کے آدمی تھے جس میں محنت اور لگن کسی بھی تخلیق کار کا بنیادی وظیفہ ہوا کرتا تھا اور وہ ستائش و صلے کی تمنّا سے بے نیاز اپنے کام میں مگن رہتے تھے۔

    5 جنوری 1932ء کو عروج نے اورنگ آباد (مہا راشٹر) میں آنکھ کھولی۔ تقسیمِ ہند کے بعد وہ پہلے لاہور اور پھر کراچی میں سکونت پزیر ہوئے۔ اس شہر میں انھوں‌ نے متعدد جرائد و اخبارات کے لیے کام کیا۔ ان میں روزنامہ امروز، روزنامہ مشرق، انجام، حریت اور ماہنامہ نیا راہی کے نام لیے جاسکتے ہیں۔

    عروج نے شاعری میں غزل اور نظم دونوں اصناف میں اپنے خیالات اور احساسات کا اظہار کیا۔ ان کا کلام اپنے پیرایۂ اظہار کی وجہ سے زندہ اور متحرک شعری قوّت بنا۔ اردو زبان و ادب میں انھوں‌ نے شعری تصانیف کے علاوہ اپنے علمی و تحقیقی کام پر مبنی متعدد کتب جن میں اُردو مرثیہ کے پانچ سو سال (1961ء)، میر اور عہد میر (1969ء)، خسرو اور عہدِ خسرو (1975ء)، اقبال اور بزمِ اقبال حیدرآباد دکن (ستمبر1978ء)، مصحفی کی مثنوی نگاری، فارسی گو شعرائے اُردو اور رجال اقبال (1988ء) یادگار چھوڑیں۔ تاہم ان کا شعری سرمایہ بہت کم ہے جس میں‌ ان کا ایک شعری مجموعہ چراغ آفریدم کے نام سے شائع ہوا۔

    امیر خسرو اور اردو مرثیہ پر ان کی کتب کو اردو زبان میں اہم خیال کیا جاتا ہے۔ ان کی ایک غزل ملاحظہ کیجیے

    آج یادوں نے عجب رنگ بکھیرے دل میں
    مسکراتے ہیں سرِ شام سویرے دل میں
    یہ تبسم کا اُجالا، یہ نگاہوں کی سحر
    لوگ یوں بھی تو چھپاتے ہیں اندھیرے دل میں
    صورتِ بادِ صبا قافلۂ یاد آیا
    زخم در زخم کھلے پھول سے میرے دل میں
    یاس کی رات کٹی آس کا سورج چمکا
    پھر بھی چمکے نہ کسی روز سویرے دل میں
    دھیان کی شمع کی لو تیز بھی کر دیتے ہیں
    اکثر اوقات تری یاد کے پھیرے دل میں
    نہ ملی فرصتِ آسائشِ تعبیر عروج
    ایک مدت سے ہیں خوابوں کے بسیرے دل میں

    عبد الرؤف عروج کراچی میں گلشنِ اقبال کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • موہنی حمید کا تذکرہ جو ‘شمیم آپا’ کے نام سے مشہور تھیں!

    موہنی حمید کا تذکرہ جو ‘شمیم آپا’ کے نام سے مشہور تھیں!

    موہنی حمید کا نام ریڈیو پاکستان سے ہوا کے دوش پر پھیلتی ہوئی ان کی مسحور کُن آواز کی بدولت ہر گھر میں پہنچا اور ان کا ہر پروگرام بہت شوق سے سنا جانے لگا۔ وہ بچّوں اور بڑوں میں شمیم آپا مشہور ہوگئیں۔ ریڈیو پاکستان کو زندگی کے 35 سال دینے والی موہنی حمید 16 مئی 2009ء میں‌ انتقال کر گئی تھیں۔ انھیں بلبلِ نشریات کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔

    نوجوانی میں موہنی داس کے نام سے اپنے فنی سفر کا آغاز کرنے والی اس براڈ کاسٹر نے کئی ریڈیائی ڈراموں کے لیے اداکاری اور بچّوں کے لیے پروگرام کیے اور انھیں اپنی آواز میں گیت سنانے کے علاوہ ہر شام کہانیاں بھی سناتی رہیں۔

    امرتسر کے ایک علاقہ میں موہنی داس نے عیسائی گھرانے میں 1922ء میں آنکھ کھولی تھی۔ قیامِ‌ پاکستان کے بعد 1954 میں ان کی شادی حمید احمد سے ہوئی جو ایک صحافی تھے اور شادی کے بعد موہنی حمید بن گئیں۔ امریکہ کی ریاست واشنگٹن میں وفات پانے والی موہنی حمید کی بیٹی کنول نصیر بھی پاکستان کی مشہور و معروف براڈ کاسٹر اور نیوز اناؤنسر تھیں۔ موہنی حمید کا تعلق صدا کاروں کی اس نسل سے تھا جس میں مصطفی علی ہمدانی، اخلاق احمد دہلوی، عزیز الرحمٰن، نسرین محمود، خالدہ ارجمند، عبداللطیف مسافر، مرزا سلطان بیگ عرف نظام دین اور محمد حسین جیسے فن کار شامل تھے۔ یہی وہ زمانہ تھا جب امتیاز علی تاج، رفیع پیر اور شوکت تھانوی جیسے ڈرامہ نگار بھی ریڈیو کے مختلف پروگراموں میں اپنی آواز کا جادو جگاتے تھے۔ اسی دور میں موہنی نے فن کی دنیا میں اپنے انداز اور شخصیت کی بدولت لوگوں کے دلوں میں‌ جگہ بنائی۔ وہ آل انڈیا ریڈیو لاہور سے 1938 میں صدا کاری کا آغاز کر کے سامعین میں پہچان تو بنا ہی چکی تھیں لیکن تقسیم کے بعد وہ پاکستانی کی پہلی براڈ کاسٹر بنیں اور انھیں شمیم آپا کے طور پر بڑی مقبولیت حاصل ہوئی۔ 1957 میں ان کی آواز سال کی بہترین آوازوں میں سے ایک قرار دی گئی۔ 1963 میں ریڈیو پاکستان لاہور نے ان کی سلور جوبلی منائی اور اس موقع پر بی بی سی (برٹش براڈ کاسٹنگ کارپوریشن) نے اپنی اردو نشریات میں انہیں ’’گولڈن وائس آف ایشیا‘‘ قرار دیا۔ 1965 میں موہنی حمید کو صدرِ پاکستان نے ’’تمغائے امتیاز‘‘ سے نوازا۔ 1977 میں موہنی حمید ریٹائرمنٹ کے بعد امریکا چلی گئی تھیں۔

  • ایملی ڈکنسن: موت کے بعد شہرت اور مقبولیت پانے والی شاعرہ

    ایملی ڈکنسن: موت کے بعد شہرت اور مقبولیت پانے والی شاعرہ

    ایملی ڈکنسن کو انگریزی زبان کی سب سے بڑی شاعرہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ انیسویں میں اس شاعرہ نے جس طرح موضوعات کے برتاؤ کے ساتھ ہیئت کے تجربات کیے وہ اس کی شاعری کو اگلی صدی کی شاعری بناتی ہے۔ ایملی ڈکنسن کی نظموں‌ میں یاسیت کا گہرا رنگ نظر آتا ہے جب کہ وہ خود بھی تنہائی پسند اور اپنی ذات میں گم رہنے والی لڑکی تھی۔

    امریکہ کی اس عظیم شاعرہ کو مقامی لوگ اس کی خلوت پسندی اور عام میل جول نہ رکھنے کی وجہ سے سنکی عورت کہتے تھے۔ بظاہر ایملی کی تنہائی پسندی غیرمعمولی یا پریشان کُن تو نہیں‌ تھی، لیکن وہ اپنے پڑوسیوں یا رشتے داروں سے بھی بات چیت نہیں کرتی تھی بلکہ ان کا سامنا کرنے سے کتراتی تھی۔ ایملی ڈکنسن جواں عمری میں موت کو اپنے اور دوسرے انسانوں کے لیے ایک بڑا عفریت تصوّر کرنے لگی تھی۔ اس کی یہ ذہنی حالت دوسروں پر اُس وقت کھلی جب ایک قریبی عزیز کی موت کے بعد انھوں نے ایملی کو شدید صدمے سے دوچار پایا۔

    ایملی ڈکنسن کی شاعری نے اس کے عہد ہی نہیں، اگلی صدی میں‌ بھی اس کے قارئین کے ذہنوں پر اپنا اثر چھوڑا۔ لیکن ایملی ڈکنسن کی شہرت اور دنیا بھر میں پہچان کا سفر اس کی موت کے بعد شروع ہوا۔ 10 دسمبر 1830ء میں ایملی ڈکنسن امریکی ریاست میساچوسسٹس کے شہر ایمہرسٹ میں‌ پیدا ہوئی تھی۔ اس کے والد ڈیوڈ ڈکنسن پیشے کے اعتبار سے وکیل اور ایمہرسٹ کالج کے ٹرسٹی تھے، اور شہر کی نمایاں شخصیت تھے اگرچہ یہ خاندان مالی طور پر مستحکم نہیں تھا، اس کے باوجود اس کے والد اپنے بچّوں کی تعلیم و تربیت پر توجہ دیتے ہوئے انھیں کارآمد اور مفید شہری بنانے کی خواہش رکھتے تھے۔ وہ ایک مہذّب اور اصولوں کی پاس داری کرنے والے انسان تھے۔ انھوں نے اپنی بیٹی ایملی ڈکنسن کو پرائمری کی تعلیم کے لیے قریبی اسکول میں داخل کروایا اور بعد میں اسے ایمہرسٹ کی اکیڈمی میں بھیجا جہاں 7 برس کے دوران ایملی ڈکنسن نے دیگر مضامین کے ساتھ کلاسیکی ادب بھی پڑھا۔ وہ بچپن ہی سے موسیقی اور پیانو بجانے میں‌ دل چسپی لینے لگی تھی جب کہ ایک طالبہ کی حیثیت سے ادب کا مطالعہ کرنے کے بعد وہ شاعری کی جانب متوجہ ہوئی اور نظمیں لکھنے لگی مگر ایک عرصہ تک اس کے قریبی لوگ بھی یہ نہیں جانتے تھے کہ وہ ایک تخلیق کار ہے۔ ایملی ڈکنسن کو مکتوب نگاری کا بھی شوق تھا اور شاید یہ سب لکھنے لکھانے میں دل چسپی اور قلم سے محبت کی وجہ سے تھا۔ بہرحال، اس نے قلمی دوستیاں کیں اور خط کتابت کے ذریعے علمی و ادبی شخصیات سے رابطہ رکھا۔ اس کے باوجود زندگی میں ایملی ڈکنسن کو بطور شاعرہ بہت کم لوگ جان سکے۔ 1850ء کے اواخر میں سموئیل بولس نامی ایک صحافی اور جریدے کے مدیر سے اس کا رابطہ ہوا اور اس طرح ایملی ڈکنسن کی چند نظمیں قارئین تک پہنچیں جس نے ایملی ڈکنسن کو خوشی اور حوصلہ دیا۔ بعد میں سموئیل اپنی اہلیہ کے ساتھ ایملی ڈکنسن سے ملنے کئی مرتبہ اس کے گھر بھی آیا۔ ایملی ڈکنسن نے اسے تین درجن سے زائد خطوط بھی لکھے تھے اور لگ بھگ پچاس نظمیں‌ ارسال کی تھیں۔ ایملی ڈکسنن کی متعدد نظمیں بھی اس دور کے چند ادبی پرچوں کی زینت بنی تھیں، تاہم ان کی تعداد قابلِ‌ ذکر نہیں‌۔ 15 مئی 1886ء میں ایملی ڈکنسن کا انتقال ہوگیا اور تب اس کی بہن نے نظموں کو اکٹھا کر کے کتابی شکل میں شایع کروایا تو ایملی ڈکنسن امریکہ بھر میں پہچانی گئی۔ یہ 1890 کی بات ہے۔

    ایملی ڈکنسن کی اکثر نظمیں موت اور ابدیت کے موضوع پر ہیں جب کہ اپنے ارسال کردہ خطوط میں ان موضوعات کے علاوہ ایملی ڈکنسن نے جمالیات، فطرت، روحانیت اور سماجی معاملات پر اظہارِ‌ خیال کیا ہے۔

    ایملی ڈکنسن نے شادی نہیں‌ کی تھی۔ تعجب خیز امر یہ ہے کہ اس شہرۂ آفاق امریکی شاعرہ کی صرف ایک ہی تصویر دست یاب تھی جو کئی سال تک ادبی رسائل میں اس شاعرہ سے متعلق مضامین کے ساتھ شایع ہوتی رہی، لیکن 1995ء میں‌ کہیں نیلامی کے دوران ایک تصویر میں‌ کسی مداح نے ایملی ڈکنسن کو پہچان کر وہ تصویر خرید لی۔ لیکن دس سال تک اسے منظرِ عام پر نہیں لایا۔ بعد میں‌ تحقیق سے معلوم ہوا کہ یہ ایملی ڈکنسن ہی کی تصویر ہے جس میں وہ اپنی ایک سہیلی کے ساتھ موجود ہے۔ یہ تصویر اس وقت بنائی گئی جب ایملی ڈکنسن 17 برس کی تھی۔ یوں اب امریکہ میں انگریزی زبان کی سب سے بڑی شاعرہ کہلانے والی ایملی ڈکنسن دو تصویریں دست یاب ہیں۔ دوسری تصویر 1859ء میں کھینچی گئی تھی۔

  • نوشاد: موسیقی کی دنیا کا ساحر

    نوشاد: موسیقی کی دنیا کا ساحر

    نوشاد کو موسیقارِ‌ اعظم کہا جاتا ہے۔ وہ فلم اور سنگیت کی دنیا کے ایسے جادوگر تھے جس نے بہت کم عمری میں سنگیت سے اپنا ناتا جوڑا اور موسیقی کے فن میں اپنی جادوگری سے سماعتوں کو اسیر کرتے چلے گئے۔ نوشاد شاعر بھی تھے۔

    5 مئی 2006ء کو نوشاد انتقال کر گئے تھے۔ ان کا پورا نام نوشاد علی تھا۔ 25 دسمبر1919ء کو نوشاد نے لکھنؤ کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولی۔ سُر سنگیت سے ان کے جڑنے کا قصّہ بھی بہت دل چسپ ہے۔ بولی وڈ کے کئی بڑے ناموں اور مقبول ترین آوازوں نے نوشاد کی موسیقی کے بل پر انڈسٹری پر راج کیا۔

    نوشاد کو ان کا ذوق و شوق اور فنِ موسیقی میں دل چسپی ساز و آلاتِ‌ موسیقی کے قریب تو لے گئی لیکن باقاعدہ تربیت اور سیکھنے کا سلسلہ استاد غربت علی، استاد یوسف علی اور استاد ببن صاحب کے زیرِ سایہ شروع ہوا۔ 1937 میں نوشاد ممبئی پہنچ گئے اور 1940ء میں فلم پریم نگر سے اپنے فنی سفر کا آغاز کیا۔ اس وقت فلمی دنیا میں استاد جھنڈے خان ایک بڑا نام تھا اور انھوں نے نوشاد کی راہ نمائی کی۔ 1944ء میں فلم رتن ریلیز ہوئی جو نوشاد کے فنی کیریئر کا ایک سنگِ میل ثابت ہوئی اور اسی کے بعد ان کا نام فلموں کی کام یابی کی ضمانت بن گیا۔

    نوشاد کو فنِ موسیقی میں یہ نام و مرتبہ اور فلمی دنیا میں یہ عروج ہمیشہ اس لیے ملا کہ انھوں نے محنت اور لگن کے ساتھ اپنے کام میں تجربات کو اہمیت دی۔ انھوں نے کلاسیکی موسیقی اور لوک سنگیت کو اس انداز سے عوام کے سامنے پیش کیا کہ آج بھی ان کا سنگیت کانوں میں رس گھول رہا ہے۔

    موسیقار نوشاد نے اپنے بچپن میں بہ صد اشتیاق پہلا قدم لکھنؤ کی ‘بھوندو اینڈ کمپنی میں رکھا تو خود انھیں اور اس دکان کے مالک کو بھی نہیں معلوم تھا کہ وہ جس بچّے کو اپنی دکان پر جھاڑ پونچھ کے لیے رکھ رہا ہے، وہ کل ہندوستان کی ایک مشہور شخصیت بنے گا اور اس کا نام اونچے درجے کے کلاکاروں میں شامل ہوگا۔

    سُر سنگیت کے اس عالی مقام فن کار کی 67 فلموں کے لیے ترتیب دی گئی موسیقی نے انھیں دادا صاحب پھالکے سمیت کئی بڑے ایوارڈز دلوائے۔ اپنے فن کی بنیاد پر نوشاد نے بے شمار داد و تحسین سمیٹی، توصیفی کلمات سنے اور ان پر کئی مضامین لکھے گئے جب کہ نوشاد کی طبیعت میں سادگی اور عاجزی غالب رہی۔ موسیقار نوشاد نے اپنی زندگی اور فن کی دنیا کے کئی دل چسپ اور انوکھے قصّے بھی اپنی سرگزشت میں بیان کیے ہیں۔ یہاں ہم ان کی آپ بیتی سے دو پُرلطف واقعات نقل کررہے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

    "ان دنوں مجھ پر کام کا ایسا جنون سوار رہتا کہ اپنا ہوش نہ رہتا۔ ہر وقت، ہر لمحہ کسی گیت کی دھن، کسی گیت کے بول میرے ہوش و حواس پر چھائے رہتے۔ ایسے عالم میں مجھ سے بڑی بڑی حماقتیں بھی سرزد ہوتیں۔ میں نے دادر میں فلیٹ کرائے پر لیا تھا، مگر ایک روز کسی گیت کی دھن سوچتا ہوا سیدھا پریل کی جھونپڑ پٹی کی چال میں پہنچ گیا۔ بڑے اطمینان کے ساتھ کوٹ وغیرہ اتارا اور بستر پر دراز ہو گیا۔ آنکھیں موندے دھن کو سجانے سنوارنے میں مصروف تھا کہ ایک عورت کمرے میں داخل ہوئی۔ وہ مجھے دیکھ کر چونکی۔ اس نے مراٹھی زبان میں مجھ سے پوچھا۔ ’’تم کون ہو؟‘‘ میں اس سوال پر ہڑبڑا کر اٹھا، اپنا کوٹ اٹھایا اور دوڑ لگا دی۔ بھاگتے بھاگتے بس اسٹینڈ پر آیا، بس پکڑی اور دادر کے مکان پر پہنچا۔ گھر آ کر اپنی حماقت پر ہنسی بھی آئی اور یہ سوچ کر جسم میں لرزہ بھی پیدا ہوا کہ کسی غیر کے مکان میں کسی غیر عورت کی موجودگی میں داخل ہونے کی بہت بڑی سزا بھی مل سکتی تھی۔”

    موسیقار نوشاد نے کتاب میں ایک یہ قصّہ بھی تحریر کیا ہے جو فن سے ان کی محبّت اور جنون کی عکاسی کرتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

    "اپنے کام کی سرمستی میں ایک مرتبہ لوکل ٹرین میں سفر کر رہا تھا۔ ایک ہاتھ میں سگریٹ تھا اور دوسرے ہاتھ میں وہ نوٹ بک جس میں گیت تھے۔ جب سگریٹ کی وجہ سے انگلی جلنے لگی تو میں نے اپنی دانست میں سگریٹ چلتی ٹرین سے پھینک دیا، کچھ لمحے بعد احساس ہوا کہ انگلیاں اب بھی جل رہی ہیں تو پتہ چلا کہ سگریٹ کی جگہ نوٹ بک چلتی ٹرین سے پھینک دی ہے۔ پریل قریب تھا۔ اسٹیشن پر اترا اور ٹرین کی پٹڑی کے ساتھ چلتے چلتے کھار پہنچا۔ وہاں مجھے اپنی نوٹ بک پڑی مل گئی۔ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ نوٹ بک مل گئی کیوں کہ اس میں وہ گیت بھی تھا جو دوسرے دن مجھے ریکارڈ کرانا تھا۔ ”

    بھارت کے اس عظیم موسیقار کا فلمی سفر 48 سال پر محیط رہا۔ نوشاد کی موسیقی میں‌ فلم مغلِ اعظم، انداز، میلہ، آن، اعلان، انمول گھڑی، انوکھی ادا، مدر انڈیا، گنگا جمنا، پاکیزہ اور رام اور شیام مشہور فلمیں ثابت ہوئیں‌۔