Tag: مئی وفات

  • گوئبلز، ہٹلر کا وہ وزیر جو حکومت کے حق میں پروپیگنڈا کرنے کا ماہر تھا!

    گوئبلز، ہٹلر کا وہ وزیر جو حکومت کے حق میں پروپیگنڈا کرنے کا ماہر تھا!

    ہٹلر کی موت کے اگلے روز جوزف گوئبلز نے بھی خود کُشی کر لی تھی۔ جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ میں تبدیل کرنے کے ماہر گوئبلز کو ہٹلر کا ‘وزیر برائے پروپیگنڈا’ کہا جاتا ہے۔ ہٹلر کی کام یابیوں میں گوئبلز کے پروپیگنڈے کا بڑا دخل تھا۔ گوئبلز نے یکم مئی 1945ء کو زہریلا کیپسول چبا کر اپنی زندگی ختم کر لی تھی۔

    30 اپریل کو ہٹلر کی خود کشی کے بعد گوئبلز کی بیوی میگڈا گوئبلز نے اپنے پہلے شوہر سے پیدا ہونے والے بیٹے کو ایک خط ارسال کیا جس میں اسے مطلع کیا کہ وہ اپنے شوہر یعنی گوئبلز اور اپنے بچّوں کے ساتھ خودکشی کرنے والی ہے۔ گوئبلز نے صرف خود کو موت کے سپرد کرنے کا فیصلہ نہیں کیا تھا بلکہ بیوی اور بچّوں کو بھی موت کی نیند سونے پر مجبور کر دیا تھا۔

    یہ یکم مئی کی ایک شام تھی۔ ایک ڈاکٹر نے گوئبلز کے چھے بچّوں، ہیلگا، ہلڈا، ہیلمٹ، ہولڈے، ہیڈا اور ہیڈے کو مارفین دی تاکہ انھیں نیند آجائے۔ یہ چار سے 12 سال کی درمیانی عمر کے تھے۔ بعد میں گوئبلز کی بیوی نے ہائیڈروجن سائینائڈ کے قطرے ان بچّوں کے حلق میں اتار دیے اور وہ سب ابدی نیند سو گئے۔ گوئبلز ایک بنکر میں‌ اپنی بیوی میگڈا کا منتظر تھا۔ یہ کام انجام دے کر وہ بنکر پہنچی اور رات کو ساڑھے آٹھ بجے اس جوڑے سائینائڈ کا کیپسول چبایا اور دم توڑ دیا۔

    سیاست اور جمہوریت کی تاریخ‌ میں جوزف گوئبلز بہت بدنام ہے۔ وہ ایک ایسا بااثر جرمن وزیر تھا جس نے نازی دور میں‌ جرمنی کے عوام کو ہٹلر کی حکومت اور اس کی پالیسیوں کی حمایت کرنے پر قائل کیا۔ اس کے لیے گوئبلز نے جھوٹ گھڑے اور وہ باتیں‌ مشہور کیں جن میں کوئی حقیقت نہ تھی۔ اس نے ہٹلر کو جرمن قوم کا نجات دہندہ ثابت کرنے کے لیے فرضی واقعات اور ایسے قصّے مشہور کیے جن سے حکومتی اقدامات پر اندرونِ ملک بے چینی اور اضطراب کو جگہ نہ ملے۔ اس نے عوام کے دلوں میں یہودیوں کے خلاف نفرت کو بڑھایا اور ہٹلر کو ان کے سامنے اس طرح پیش کیا کہ وہ خود کو اقوامِ‌ عالم میں برتر اور ہٹلر کی قیادت پر فخر کرنے لگے۔

    29 اکتوبر 1897 کو جوزف گوئبلز نے جرمنی کے ایک شہر میں فریڈرک گوئبلز کے گھر میں آنکھ کھولی۔ اس کا باپ کیتھولک عقیدے کا حامل تھا اور ایک فیکٹری میں بطور کلرک کام کرتا تھا۔ گوئبلز کی ماں کا نام کیتھرینا ماریا اوڈن تھا۔ گوئبلز اس جوڑے کی پانچ اولادوں میں‌ سے ایک تھا۔ بچپن میں پولیو وائرس سے متأثر ہونے کے بعد گوئبلز لنگڑا کر چلتا تھا۔ ابتدائی تعلیمی مراحل طے کرنے کے بعد گوئبلز نے 1920 میں ہائیڈلبرگ یونیورسٹی سے جرمن ادب میں‌ ڈگری لی۔ وہ ایک قوم پرست نوجوان تھا۔ زمانۂ طالب علمی میں وہ سوشلسٹ اور کمیونسٹ خیالات رکھتا تھا اور جوانی میں اینٹی بورژوا تھا، لیکن نازی پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے کے بعد گوئبلز قومی امتیاز اور جرمن ہونے کے ناتے احساسِ برتری کا شکار ہوگیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس سے قبل وہ اپنے یہودی اساتذہ کی بڑی قدر کرتا تھا اور اس کے دل میں‌ کسی کے لیے نفرت نہیں‌ تھی۔ پہلی عالمی جنگ چھڑی تو گوئبلز کو فوج میں بھرتی ہونے سے بچ گیا کیوں کہ وہ پولیو سے متأثر تھا۔ 1931ء میں اس نے میگڈا رِٹشل نامی ایک امیر گھرانے کی لڑکی سے شادی کرلی اور اس کے بطن سے چھے بچّوں کا باپ بنا۔

    جوزف گوئبلز نے نازی پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے کے بعد اپنی صلاحیتوں اور نازی کٹّر پن کی وجہ سے اعلیٰ‌ قیادت کی توجہ حاصل کر لی۔ وہ ایک اعلیٰ پائے کا مقرر تھا جس نے پارٹی میں اس کی ترقی کرنے کا راستہ بنایا۔ گوئبلز کو کئی اہم ذمہ داریاں سونپی گئیں اور وہ ان سے بخوبی نمٹتا رہا۔ اس کی مستقل مزاجی، لگن اور صلاحیتوں نے اسے ہٹلر کے قریب کر دیا۔ نازی حکم راں گوئبلز کی تحریر کردہ تقاریر عوام کے سامنے پڑھنے لگا اور اس کی مقبولیت بڑھتی چلی گئی۔ سچ جھوٹ، صحیح اور غلط سے ہٹلر کو کچھ غرض نہ تھی بلکہ وہ پراپیگنڈا پر گوئبلز کی گرفت اور فن تقریر نویسی میں اس کی مہارت سے بہت متاثر تھا۔ یہی وجہ تھی کہ 1926 میں ہٹلر نے گوئبلز کو برلن میں نازی پارٹی کا ضلعی راہ نما مقرر کر دیا۔ جب نازی برسرِ اقتدار آئے تو ہٹلر نے ایک وزارت قائم کی جسے ’چیمبر آف کلچر‘ کی شکل میں عامل بناتے ہوئے گوئبلز کو اس کا سربراہ بنا دیا۔ یہ وزارت پریس اور ادب و فنون کے شعبہ جات کو مکمل طرح‌ سے کنٹرول کرتی رہی اور اسی کے سہارے عوام کی ذہن سازی کی جانے لگی۔ گوئبلز کی کوششوں سے ملک میں نازی ازم کو فروغ اور پذیرائی نصیب ہوئی جب کہ یہودیوں‌ سے نفرت زور پکڑ گئی۔ گوئبلز نے ریڈیو اور فلم کے ذریعے ہٹلر کو نجات دہندہ بنا کر پیش کیا اور اپنی مخالف جماعتوں اور گروہوں کے خلاف اور ہٹلر کے حق میں رائے عامّہ ہموار کی۔

    یہ گوئبلز ہی تھا جس نے 1932ء میں ہٹلر کی صدارتی انتخابی مہم جدید انداز سے چلائی۔ لیکن ہٹلر انتخابات ہار گئے۔ اس کے باوجود جرمن پارلیمان میں نازی پارٹی کی نمائندگی میں اضافہ ہوا اور وہ سب سے بڑی جماعت بن گئی۔ جرمنی میں مخلوط حکومت کے قیام کے بعد ہٹلر کو چانسلر مقرر کیا گیا اور 35 سال کی عمر میں گوئبلز کابینہ میں سب سے کم عمر وزیر کے طور پر شامل تھا۔

    1937ء اور 1938ء میں گوئبلز کا اثر و رسوخ مختلف وجوہات کی بنا پر کچھ کم ہو گیا تھا۔ لیکن وہ آخری وقت تک ہٹلر کے ساتھ رہا۔ گوئبلز کی خودکُشی کے ساتھ ہی ہٹلر اور اس کے دور کے کئی راز اور بہت سے جھوٹ بھی ہمیشہ کے لیے منوں‌ مٹی تلے دفن ہوگئے۔

  • سبحانی بایونس: اسٹیج، ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے سینئر فن کار کا تذکرہ

    سبحانی بایونس: اسٹیج، ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے سینئر فن کار کا تذکرہ

    سبحانی بایونس کا نام اسٹیج اور ریڈیو کے منجھے ہوئے آرٹسٹوں‌ اور ایسے صدا کاروں‌ میں شامل ہے جنھیں‌ ان کی آواز اور منفرد لب و لہجے کی وجہ سے بھی اپنے دور کے فن کاروں میں امتیاز حاصل رہا۔ ملک میں ٹیلی ویژن نشریات کا آغاز ہوا تو انھوں نے ڈراموں میں اپنی بے مثال اداکاری کی بدولت ملک گیر شہرت پائی۔ آج اس باکمال آرٹسٹ کی برسی منائی جارہی ہے۔

    سینئر فن کار سبحانی بایونس کی زندگی کا سفر کراچی میں‌ 31 مئی 2006 کو تمام ہوا۔ وہ اپنے حلقۂ احباب اور فن کار برادری میں‌ ایک منکسر المزاج اور سنجیدہ و متین شخص کے طور پر مشہور تھے۔ ساتھی فن کار انھیں نہایت مہربان دوست اور ہمدرد انسان کے طور پر یاد کرتے ہیں۔

    سبحانی بایونس کا تعلق حیدرآباد دکن (اورنگ آباد) سے تھا۔ وہ 1924 میں پیدا ہوئے تھے۔ تقسیمِ ہند کے بعد کراچی شہر میں سکونت اختیار کرنے والے سبحانی بایونس پی آئی بی کالونی میں‌ رہائش پذیر تھے۔

    اسٹیج ڈراموں سے اداکاری کا آغاز کرنے والے سبحانی بایونس نے ریڈیو پر صداکاری کا شوق پورا کیا، ملک میں پی ٹی وی کی نشریات شروع ہوئیں‌ تو اسکرین پر اپنی اداکاری سے ہر خاص و عام کی توجہ حاصل کی۔

    قیامِ پاکستان کے بعد اسٹیج سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کرنے والے سبحانی بایونس نے ریڈیو اور بعد میں‌ ٹیلی ویژن پر خواجہ معین الدّین جیسے بلیغ ڈراما نگار کے ساتھ بھی کام کیا اور ان کے متعدد ڈراموں میں لازوال کردار ادا کیے، ان میں مشہور ڈرامہ "مرزا غالب بندر روڈ پر” تھا۔ اسی طرح "تعلیمِ بالغاں” میں سبحانی بایونس کا کردار آج بھی کئی ذہنوں‌ میں‌ تازہ ہے۔ سبحانی بایونس نے پاکستان ٹیلی ویژن کے کئی مشہور ڈراموں جن میں‌ خدا کی بستی، تاریخ و تمثیل، قصہ چہار درویش، رشتے ناتے، تنہائیاں، دو دونی پانچ، رات ریت اور ہوا، دائرے، وقت کا آسمان، با ادب باملاحظہ ہوشیار میں کردار نبھا کر ناظرین سے اپنے فن کی داد وصول کی۔ سبحانی بایونس ان فن کاروں‌ میں سے تھے جن کا پرفارمنگ آرٹ کی دنیا میں آج بھی نہایت عزّت اور احترام سے نام لیا جاتا ہے۔ وہ عزیز آباد کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • سڈنی پولک: ہالی وڈ کے آسکر ایوارڈ یافتہ ہدایت کار کا تذکرہ

    سڈنی پولک: ہالی وڈ کے آسکر ایوارڈ یافتہ ہدایت کار کا تذکرہ

    سڈنی پولک کو ہالی وڈ کا لیجنڈ مانا جاتا ہے جنھوں نے ہدایت کار، پروڈیوسر اور اداکار کے طور پر کئی کام یابیاں سمیٹیں اور اپنے فن کا لوہا منوایا۔ آسکر ایوارڈ یافتہ سڈنی پولک 26 مئی 2008 کو انتقال کر گئے تھے۔

    73 برس کے سڈنی پولک کینسر کے مرض میں مبتلا تھے۔ ان کا فلمی کیریئر 50 سال پر محیط رہا، جس میں باکس آفس پر ان کی کئی فلمیں کام یاب ثابت ہوئیں اور سڈنی پولک کے کام کو فلمی ناقدین نے خوب سراہا۔ دنیا بھر میں‌ فلمی صنعت سے وابستہ فن کار اور بالخصوص ہدایت کاری کے شعبے سے وابستہ بڑے نام سڈنی پولک کے کام کا اعتراف کرتے رہے ہیں۔

    ’ٹوٹسی‘ اور ’آؤٹ آف افریقہ‘ وہ بلاک بسٹر فلمیں ہیں جن کی ہدایات سڈنی پولک نے دی تھیں اور ’مائیکل کلیٹن‘ جیسی کام یاب فلم کے پروڈیوسر بھی وہی تھے۔ سڈنی پولک کو ’ٹوٹسی‘ پر 1982 میں بہترین ہدایت کار کے آسکر کے لیے نامزد کیا گیا تھا اور ’آؤٹ آف افریقہ‘ وہ فلم تھی جس پر وہ بہترین ہدایت کار کا آسکر اعزاز لے اڑے تھے۔ سڈنی پولک نے بطور ڈائریکٹر 1969 میں ’دے شوٹ ہارسز ڈانٹ دے‘ میں بھی اپنے فن اور صلاحیتوں کا بہترین اظہار کیا تھا اور اس فلم پر آسکر اعزاز کے لیے نامزد ہوئے تھے۔

    پولک سڈنی نے یکم جولائی 1934 میں امریکہ میں آنکھ کھولی۔ انھوں نے دسویں کے امتحان میں کام یابی حاصل کرنے کے بعد بطور اداکار اپنی قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا اور اس کے لیے نیویارک شہر کا رخ کیا۔ انھوں نے ٹیلیوژن پر اداکاری کی اور 1961 میں اسی میڈیم کے لیے پروگرام بنانے لگے۔ اس کے بعد وہ ’دا سلنڈر تھریڈ‘ نامی فلم کے ہدایت کار کے طور پر سامنے آئے۔ 90 کے عشرے میں سڈنی پولک نے بطور پروڈیوسر فلمیں بنائیں اور ناقدین سے داد وصول کی۔

    پولک کی بطور ہدایت کار آخری دستاویزی فلم ’اسکیچیز آف فرانک گہری‘ تھی۔ یہ مشہور آرکیٹیکٹ کے بارے میں کہانی تھی۔ سڈنی پولک کو سماجی اور سیاسی مسائل پر فلمیں بنانے کے لیے یاد کیا جاتا ہے جو ان کی وجہِ شہرت بھی ہیں اور فلم انڈسٹری کے ساتھ سماجی حلقوں میں ان کی پذیرائی اور توقیر کا باعث بھی ہیں۔

  • سنیل دت: فٹ پاتھ سے فلمی دنیا کے آسمان تک

    سنیل دت: فٹ پاتھ سے فلمی دنیا کے آسمان تک

    قیام پاکستان سے پہلے کا زمانہ بمبئی کی فلمی صنعت کے لئے ایک سنہری دور تھا۔ بڑے بڑے نامور اور کامیاب ہدایت کار، اداکار، موسیقار اور گلوکار اس دور میں انڈین فلمی صنعت میں موجود تھے۔ ہر شعبے میں دیو قامت اور انتہائی قابل قدر ہستیاں موجود تھیں۔

    اس زمانے میں جو بھی فلموں میں کام کرنا چاہتا تھا، ٹکٹ کٹا کر سیدھا بمبئی کا راستہ لیتا تھا۔ ان لوگوں کے پاس نہ پیسہ ہوتا تھا، نہ سفارش اور نہ ہی تجربہ، مگر قسمت آزمائی کا شوق انہیں بمبئی لے جاتا تھا۔ ہندوستان کے مختلف حصوں سے ہزاروں نوجوان اداکار بننے کی تمنا لے کر اس شہر پہنچتے تھے۔

    ان میں سے اکثر خالی ہاتھ اور خالی جیب ہوتے تھے۔ بمبئی جیسے بڑے وسیع شہر میں کسی انجانے کم عمر لڑکے کو رہنے سہنے اور کھانے پینے کے لالے پڑ جاتے تھے۔

    یہی لوگ آج انڈین فلم انڈسٹری کے چاند سورج کہے جاتے ہیں جنہوں نے بے شمار چمک دار ستاروں کو روشنی دے کر صنعت کے آسمان پر جگمگا دیا۔ ( ہندوستان اور پاکستان کے بھی) اکثر بڑے ممتاز، مشہور اور معروف لوگوں کی زندگیاں ایسے ہی واقعات سے بھری ہوئی ہیں۔

    آئیے آج آپ کو ایک ایسے ہی معروف اور ممتاز آدمی کی کہانی سناتے ہیں جسے بر صغیر کا بچہ بچہ جانتا ہے لیکن یہ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ یہ لوگ کون ہیں؟ کہاں سے آئے تھے، اور کیسے کیسے امتحانوں اور آزمائشوں سے انہیں گزرنا پڑا۔

    یہ قصہ سنیل دت کا ہے۔ سنیل دت ہندوستانی لوک سبھا کا رکن رہا، نرگس بھی لوک سبھا کی رکن رہی تھی۔ ہندوستان کی وزیراعظم اندرا گاندھی سے ان کی بہت دوستی تھی اب نرگس رہیں نہ اندرا گاندھی، سنیل دت بھی نہیں رہے۔

    سنیل دت کے بارے میں علی سفیان آفاقی کا یہ مضمون اداکار کے یومِ وفات کی مناسبت سے پیش کیا جارہا ہے۔ بولی وڈ کے معروف اداکار اور کئی کام یاب فلموں کے ہیرو سنیل دت 6 جون 1929 کو جہلم میں‌ پیدا ہوئے تھے۔ ان کی زندگی کا سفر 25 مئی 2005 کو تمام ہوگیا تھا۔

    علی سفیان آفاقی اپنے مضمون میں‌ لکھتے ہیں، 0سنیل دت نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ جب وہ بمبئی پہنچے تو ان کی عمر سترہ اٹھارہ سال تھی۔ یہ انٹرویو بمبئی کی ایک فلمی صحافی لتا چندنی نے لیا تھا اور یہ سنیل دت کا آخری انٹرویو تھا۔ سنیل دت جب بمبئی پہنچے تو ان کی جیب میں پندرہ بیس روپے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ بمبئی میں در بدر پھرتے رہے۔ سب سے پہلا مسئلہ تو سَر چھپانے کا تھا۔ بمبئی میں سردی تو نہیں ہوتی لیکن بارش ہوتی رہتی ہے جو فٹ پاتھوں پر سونے والوں کے لئے ایک مسئلہ ہوتا ہے۔ بارش ہو جائے تو یا تو وہ سامنے کی عمارتوں کے برآمدے وغیرہ میں پناہ لیتے ہیں یا پھر فٹ پاتھوں پر ہی بھیگتے رہتے ہیں۔

    سوال: تو پھر آپ نے کیا کیا۔ کہاں رہے؟
    جواب: رہنا کیا تھا۔ فٹ پاتھوں پر راتیں گزارتا رہا۔ کبھی یہاں کبھی وہاں۔ دن کے وقت فلم اسٹوڈیوز کے چکر لگاتا رہا مگر اندر داخل ہونے کا موقع نہ مل سکا۔ آخر مجھے کالا گھوڑا کے علاقے میں ایک عمارت میں ایک کمرا مل گیا مگر یہ کمرا تنہا میرا نہیں تھا۔ اس ایک کمرے میں آٹھ افراد رہتے تھے جن میں درزی، نائی ہر قسم کے لوگ رات گزارنے کے لئے رہتے تھے۔

    میں نے اپنے گھر والوں سے رابطہ کیا تو انہوں نے مجھے ہر مہینے کچھ روپیہ بھیجنا شروع کر دیا۔ میں نے جے ہند کالج میں داخلہ لے لیا تاکہ کم از کم بی اے تو کرلوں۔ میرا ہمیشہ عقیدہ رہا ہے کہ آپ خواہ ہندو ہوں، مسلمان، سکھ، عیسائی کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں مگر ایک دوسرے سے محبت کریں۔ ہر مذہب محبت اور پیار کرنا سکھاتا ہے۔ لڑائی جھگڑا اور نفرت کرنا نہیں۔ میں کالج میں پڑھنے کے ساتھ ہی بمبئی ٹرانسپورٹ کمپنی میں بھی کام کرتا تھا۔ میں اپنا بوجھ خود اٹھانا چاہتا تھا اور گھر والوں پر بوجھ نہیں بننا چاہتا تھا۔

    ان دنوں بمبئی میں بہت سخت گرمی پڑ رہی تھی۔ اتنی شدید گرمی میں ایک ہی کمرے میں آٹھ آدمی کیسے سو سکتے تھے۔ گرمی کی وجہ سے ہمارا دم گھٹنے لگتا تھا تو ہم رات کو سونے کے لئے فٹ پاتھ پر چلے جاتے تھے۔ یہ فٹ پاتھ ایک ایرانی ہوٹل کے سامنے تھا۔ ایرانی ہوٹل صبح ساڑھے پانچ بجے کھلتا تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ہمیں ساڑھے پانچ بجے بیدار ہوجانا چاہیے تھا۔ ہوٹل کھلتے ہی ہماری آنکھ بھی کھل جاتی تھی۔ ایرانی ہوٹل کا مالک ہمیں دیکھ کر مسکراتا اور چائے بنانے میں مصروف ہوجاتا ۔ ہم سب اٹھ کر اس کے چھوٹے سے ریستوران میں چلے جاتے اور گرم گرم چائے کی ایک پیالی پیتے۔ اس طرح ہم ایرانی ہوٹل کے مالک کے سب سے پہلے گاہک ہوا کرتے تھے۔ وہ ہم سے بہت محبت سے پیش آتا تھا اور اکثر ہماری حوصلہ افزائی کے لئے کہا کرتا تھا کہ فکر نہ کرو، اللہ نے چاہا تو تم کسی دن بڑے آدمی بن جاؤ گے۔ دیکھو جب بڑے آدمی بن جاؤ تو مجھے بھول نہ جانا، کبھی کبھی ایرانی چائے پینے اور مجھ سے ملنے کے لئے آجایا کرنا۔

    دوسروں کا علم تو نہیں مگر میں کبھی کبھی جنوبی بمبئی میں اس سے ملنے اور ایک کپ ایرانی چائے پینے کے لئے چلا جاتا تھا۔ وہ مجھ سے مل کر بہت خوش ہوتا تھا۔ میری ترقی پر وہ بہت خوش تھا۔

    ایرانی چائے پینے کے بعد میں اپنی صبح کی کلاس کے لئے کالج چلا جاتا تھا۔ وہ بھی خوب دن تھے، اب یاد کرتا ہوں تو بہت لطف آتا ہے۔

    ان دنوں میرے پاس زیادہ پیسے نہیں ہوتے تھے، اس لئے میں کم سے کم خرچ کرتا تھا اور کالج جانے کے لئے بھی سب سے سستا ٹکٹ خریدا کرتا تھا۔ بعض اوقات تو میں پیسے نہ ہونے کی وجہ سے اپنے اسٹاپ سے پہلے ہی اتر کر پیدل کالج چلا جاتا تھا۔

    اس وقت ہماری جیب صرف ایرانی کیفے میں کھانے پینے کی ہی اجازت دیتی تھی۔ آج کے نوجوان فائیو اسٹار ہوٹلوں میں جاکر لطف اٹھاتے ہیں مگر ان دنوں ایرانی کیفے ہی ہمارے لئے کھانے پینے اور گپ شپ کرنے کی بہترین جگہ تھی۔ مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوتی تھی کہ ویٹر ایک کے اوپر ایک بارہ چائے کی پیالیاں رکھ کر کیسے گاہکوں کو تقسیم کرتا تھا۔ ایسا تو کوئی سرکس کا جوکر ہی کرسکتا ہے۔ اس کا یہ تماشا بار بار دیکھنے کے لئے بار بار اس سے چائے منگواتا تھا حالانکہ بجٹ اجازت نہیں دیتا تھا۔

    ایرانی ہوٹل اس زمانے میں مجھ ایسے جدوجہد کرنے والے خالی جیب لوگوں کے لئے بہت بڑا سہارا ہوتے تھے۔ میں سوچتا ہوں کہ اگربمبئی میں ایرانی ہوٹل نہ ہوتے تو میرے جیسے ہزاروں لاکھوں لوگ تو مر ہی جاتے۔

    میں پچاس سال کے بعد اپنا آبائی گاؤں دیکھنے گیا جو کہ اب پاکستان میں ہے۔ مجھے یاد ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف نے مجھے مدعو کیا تھا۔ میں نے ان سے درخواست کی کہ میں اپنا آبائی گاؤں دیکھنا چاہتا ہوں۔ وہ بہت مہربان اور شفیق ہیں۔انہوں نے میرے لئے تمام انتظامات کرا دیے۔ میرے گاؤں کا نام خورد ہے ۔ یہ جہلم شہر سے چودہ میل کے فاصلے پر ہے۔ میرا گاؤں دریائے جہلم کے کنارے پر ہے اور یہ بہت خوبصورت جگہ ہے۔ گاؤں سے نکلتے ہی جہلم کے پانی کا بہتا ہوا نظارہ قابل دید ہے۔

    میرے گاؤں میں بہت جوش و خروش اور محبت ملی۔ وہ سب لڑکے جو میرے ساتھ پڑھا کرتے تھے مجھ سے ملنے کے لئے آئے اور ہم نے پرانی یادیں تازہ کیں۔ میں ان عورتوں سے بھی ملا جنہیں میں نے دس بارہ سال کی بچیاں دیکھا تھا مگر اب وہ ساٹھ پینسٹھ سال کی بوڑھی عورتیں ہوچکی تھیں۔ اب میرے ساتھ کھیلنے والی بچیاں نانی دادی بن چکی تھیں۔ انہوں نے بھی بچپن کے بہت سے دلچسپ واقعات اور شرارتوں کی یادیں تازہ کیں۔

    پاکستان سے جانے کے بعد میں کبھی لاہور نہیں آیا۔ کراچی تو آنا ہوا تھا۔ کراچی میں مجھے بے نظیر بھٹو کی شادی میں مدعو کیا گیا تھا۔ میری بیوی نرگس میرا گاؤں دیکھنا چاہتی تھیں۔ میں بھی اپنا گاؤں دیکھنا چاہتا تھا۔ پرانے دوستوں سے مل کر پرانی یادیں تازہ کرنا چاہتا تھا۔ وہ جاننا چاہتی تھیں کہ میں کون سے اسکول میں پڑھتا تھا اور اسکول کس طرح جایا کرتا تھا۔

    میں ڈی اے وی اسکول میں پڑھتا تھا، اور چھٹی جماعت تک گھوڑے پر بیٹھ کر اسکول جاتا تھا، میرا اسکول اٹھ میل دور تھا۔ اسکول جانے کے لئے کوئی دوسرا ذریعہ نہ تھا۔ میرے پتا جی زمیندار تھے۔ ہمارے گھر میں بہت سے گھوڑے تھے۔ مجھے اسکول لے جانے والا گھوڑا سب سے الگ رکھا جاتا تھا۔

    سنیل دت نے اپنی تعلیم کا سلسلہ بھی محنت مزدوری اور جدو جہد کے زمانے میں جاری رکھا تھا جو ایک دانش مندانہ فیصلہ تھا۔ بی اے کرنے کے بعد انہوں نے بہت سے چھوٹے موٹے کام کیے، فٹ پاتھوں پر سوئے لیکن ہمت نہیں ہاری۔

    آپ کو یاد ہوگا کہ ایک زمانے میں "ریڈیو سیلون” سے فلمی گانوں کا ایک پروگرام ہر روز پیش کیا جاتا تھا، جسے پاکستان اور ہندوستان میں موسیقی کے شوقین باقاعدگی سے سنا کرتے تھے۔ سیلون کا نام بعد میں سری لنکا ہوگیا۔ یہ دراصل ایک جزیرہ ہے جنوبی ہندوستان میں تامل ناڈو کے ساحل سے صرف 25 میل کے فاصلے پر۔ انگریزوں کی حکومت کے زمانے میں سارا ہندوستان ایک تھا اور سلطنت برطانیہ کے زمانے میں سیلون کو ہندوستان ہی کا حصہ سمجھا جاتا تھا، اب یہ سری لنکا ہوگیا۔

    ریڈیو سیلون کو اپنا پروگرام پیش کرنے کے لئے ایک موزوں شخص کی ضرورت تھی جو بہترین نغمات پروڈدیوسرز سے حاصل بھی کرسکے۔ سنیل دت نے بھی اس کے لئے درخواست دے دی۔ صورت شکل اچھی تھی اور پنجابی ہونے کے باوجود ان کا اردو تلفظ و لب و لہجہ بہت اچھا تھا۔ اس طرح انہیں منتخب کر لیا گیا اور کافی عرصہ تک وہ ریڈیو سیلون سے گیتوں کی مالا پیش کرتے رہے۔ یہ فلم سازوں کے لئے سستی پبلسٹی تھی، اس لئے بھارتی فلم سازوں نے اس سے بہت فائدہ اٹھایا اور کشمیر سے راس کماری تک ان کے فلمی نغمات گونجنے لگے۔ جب نخشب صاحب پاکستان آئے اور انہوں نے فلم میخانہ بنائی تو اس فلم کے گانے ریڈیو سیلون سے پیش کیے گئے جس کی وجہ سے سننے والے بے چینی سے فلم کی نمائش کا انتظار کرتے رہے لیکن جب فلم ریلیز ہوئی تو بری طرح فلاپ ہوگئی حالانہ ناشاد صاحب نے اس فلم کے نغموں کی بہت اچھی دھنیں بنائی تھیں۔

    ماخوذ از ماہنامہ ‘سرگزشت’ (پاکستان)

  • عہد ساز شخصیت نیاز فتح‌ پوری کا تذکرہ

    عہد ساز شخصیت نیاز فتح‌ پوری کا تذکرہ

    بلاشبہ برصغیر پاک و ہند کا ہر گھرانہ اور ہر وہ ادارہ نیاز فتح پوری کے نیاز مندوں میں شامل رہا جس میں جویانِ علم اور تعلیم و تعلّم کے شیدا موجود تھے۔

    کون تھا جو ان کی علمیت سے مرعوب نہ تھا اور ان کی شخصیت کے سحر میں گرفتار نہ رہا ہو۔ نیاز صاحب کہیں ایک افسانہ نگار کے روپ میں سامنے آتے تو کسی کے لیے دقیق موضوعات پر ان کی گفتگو اہم تھی۔ کوئی فلسفیانہ مسائل کو سلجھانے کے ان کے انداز سے متأثر تھا، کوئی مذہبی اعتقادات اور تاریخی موضوعات پر ان کی مدلّل بحث کو پسند کرتا تھا۔

    ایک زمانہ تھا کہ نیاز صاحب کی نثر کا ڈنکا بجتا تھا۔ افسانے ہی نہیں‌ ان کے ناولٹ اور انشائیے، مذہب اور سائنس سے متعلق ان کے علمی اور تحقیقی مضامین، اس پر ہندوستان بھر میں اٹھائے جانے والے سوالات اور اس کے ذیل میں مباحث کے ساتھ وہ تراجم جو نیاز صاحب کے قلم سے نکلے، ان کی دھوم تھی۔ نیاز فتح پوری کی متنازع فیہ کتاب ’’من و یزداں‘‘ اور رسالہ ’’نگار‘‘ نے برصغیر کے علمی اور ادبی حلقوں کے ساتھ عام قارئین کی فکر کو بلند کیا اور ان کے علم میں خوب اضافہ کیا۔

    نیاز فتح پوری کو عقلیت پسند کہا جاتا ہے جنھوں نے اردو ادب کی مختلف اصناف کو اپنی فکر اور تخلیقات سے مالا مال کیا۔ وہ بیک وقت شاعر، افسانہ نگار، نقّاد، محقق، مفکّر، عالم دین، مؤرخ، ماہر نفسیات، صحافی اور مترجم تھے۔ ان کی تحریریں گوناگوں ادبی اور علمی موضوعات پر اردو زبان کا بے مثال سرمایہ ہیں۔ نیاز فتح پوری کی ادبی اور علمی سرگرمیوں کا میدان بہت وسیع تھا جسے انھوں نے رسالہ ’’نگار‘‘ کے ذریعے عام کیا۔ اس رسالے میں ادب، فلسفہ، مذہب اور سائنس سے متعلق مضامین شایع ہوتے تھے جن کی بدولت مختلف پیچیدہ موضوعات اور ادق مسائل پر مباحث اور غور و فکر کا سلسلہ شروع ہوا۔ نیاز فتح پوری نے جدید نفسیات، ہپناٹزم اور جنسیات پر بھی لکھا اور خوب لکھا۔ 1924 کے نگار میں ’’اہلِ مریخ سے گفتگو کا امکان‘‘ اور ’’جنگ کا نقشہ ایک صدی بعد‘‘ 1935 میں ’’چاند کا سفر‘‘ جیسے مضامین نیاز فتح پوری کی تخلیقی صلاحیتوں، ان کے تجسس اور سائنسی رجحان کا پتا دیتے ہیں۔ عقلیت پسندی کے سبب نیاز صاحب کو سخت مخالفت اور کڑی تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ یہی نہیں‌ بلکہ ان پر مذہبی اور قدامت پرست حلقوں کی جانب سے فتویٰ اور بگاڑ کے الزامات بھی عائد کیے گئے۔

    24 مئی 1966ء کو نیاز فتح پوری کا انتقال ہوگیا تھا۔ ان کی سوانح عمری پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ 28 دسمبر 1884ء کو انھوں نے یوپی کے ضلع بارہ بنکی میں آنکھ کھولی تھی اور شروع ہی سے ان کا رجحان علم و ادب کی جانب رہا۔ غور و فکر کی عادت نے انھیں‌ مختلف موضوعات اور مسائل کو عقل اور دانش کے زور پر الگ ہی انداز سے دیکھنے اور سمجھنے پر آمادہ کیا۔ 1922ء میں نیاز فتح پوری نے علمی و ادبی رسالہ نگار جاری کیا جو تھوڑے ہی عرصے میں اردو داں حلقوں میں روشن خیالی کی مثال بن گیا۔ علّامہ نیاز فتح پوری نے 35 کتابیں یادگار چھوڑی ہیں جن میں من و یزداں، نگارستان، شہاب کی سرگزشت، جمالستان اور انتقادیات بہت مقبول ہیں۔

    رسالہ نقوش کے مدیر محمد طفیل لکھتے ہیں، نیاز صاحب نے جو کچھ بھی امتیاز حاصل کیا۔ وہ اپنے قلم کے سحر سے حاصل کیا۔ لکھنے کے لیے کسی اہتمام کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ باتیں بھی کرتے جاتے ہیں۔ لکھتے بھی جاتے ہیں۔ گلوری منہ میں ہو گی۔ خوں خوں کر کے باتوں میں ساتھ دیں گے۔ ضرورت پڑی تو پیک نگل کر بولیں گے: ’’یہ آپ نے کیسے سمجھ لیا کہ میں کام میں مشغول ہوں۔‘‘ حافظہ بلا کا پایا ہے۔ ہر چیز، ہر کتاب ان کے ذہن میں منتقل ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے بڑے بڑے کام صرف چند دنوں میں کر ڈالے۔ ان کے ہاں آمد ہی آمد ہے۔ آورد نام کو نہیں۔ الفاظ واقعی ہاتھ باندھے کھڑے رہتے ہیں۔ یہ کمال میں نے صرف انیس، جوش اور نیاز میں دیکھا۔ باقی سب کے ہاں کاری گری ہے۔

    نیاز صاحب تقسیمِ ہند کے فوراً بعد نہیں بلکہ 1962ء میں ہجرت کر کے کراچی آئے تھے۔ حکومتِ پاکستان نے انھیں "نشانِ سپاس” سے نوازا تھا۔علّامہ نیاز فتح پوری کراچی میں پاپوش نگر کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • نظم طباطبائی اور شرحِ دیوانِ‌ غالب

    نظم طباطبائی اور شرحِ دیوانِ‌ غالب

    نظم طباطبائی کا نام اردو زبان و ادب میں کلامِ غالب کے شارح اور نئے انداز کی نظمیں کہنے والے شاعر کے طور پر ہمیشہ لیا جاتا رہے گا۔ وہ اپنے دور میں عربی اور فارسی کے استاد کی حیثیت سے بھی پہچانے جاتے تھے۔ آج نظم طباطبائی کی برسی ہے۔

    ان کا نام سیّد حیدر علی اور نظمؔ تخلص تھا۔ نظم طباطبائی نے 1853ء میں لکھنؤ میں آنکھ کھولی۔ وہ ایک قابل اور باصلاحیت طالبِ علم تھے جس نے بہت محنت اور توجہ سے تعلیم حاصل کی۔ نوجوانی ہی میں نظم طباطبائی کی علمیت کا ایسا چرچا ہوا کہ شہزادگانِ اودھ کے اتالیق مقرر ہوگئے۔ بعد میں نظام کالج حیدرآباد میں پروفیسر مقرر ہوئے اور پھر سرکار نظام کی جانب سے نواب حیدر یار جنگ کا خطاب عطا ہوا۔ اسی دور میں عثمانیہ یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا اور دارالترجمہ قائم ہوا جہاں نظمؔ کی قابلیت اور علمی صلاحیتوں کی بناء پر انھیں ادبی ناظر کی حیثیت سے ملازمت ملی۔ وہ تراجم پر نظرِ ثانی کرتے اور ان کی نوک پلک سنوارتے۔

    نظم طباطبائی کی شاعری قدیم اور جدید خیالات کا مجموعہ ہے۔ غزل گوئی سے زیادہ دل چسپی نہیں تھی مگر روزمرّہ محاوروں کے استعمال کا ان کی غزلوں میں اہتمام کیا گیا ہے۔ ان تخلیقات میں دیوانِ طباطبائی، اصطلاحاتِ غالب اور شرح دیوانِ اردوئے غالب شامل ہیں۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ شرحِ دیوانِ غالب ہے اور اس کی اہمیت آج بھی برقرار ہے۔ نظم طباطبائی نے انگریزی شاعری کے منظوم اردو تراجم بھی کیے۔ انہوں نے مشہور انگریزی شاعر تھامس گرے کی نظم کا اردو ترجمہ گورِ غریباں کے نام سے کیا جو ایک کلاسک کی حیثیت رکھتا ہے۔ گرے نے ان مرنے والوں کا درد ناک مرثیہ لکھا ہے جو گمنام جیے اور گمنام مر گئے۔ نظم کی زبان سادہ ہے مگر اس میں غضب کی دل کشی ہے۔ تشبیہات اور استعارے بھی بڑی جاذبیت رکھتے ہیں۔

    نظم طباطبائی آج ہی کے دن 1933ء میں اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے تھے۔

  • ” کسی ذکر نہیں کرنا کہ تم بانڈ کو دیکھا تھا!”

    ” کسی ذکر نہیں کرنا کہ تم بانڈ کو دیکھا تھا!”

    راجر مور 1973ء میں بطور جیمز بانڈ پہلی مرتبہ سامنے آئے اور اگلے بارہ سال تک اس سلسلے کی سات فلموں میں یہ مشہورِ زمانہ کردار نبھاتے رہے۔ شائقین کو یاد ہو گا کہ بطور خفیہ ایجنٹ اُن کے چہرے پر ایک خفیف مسکراہٹ رہتی تھی جو ان کے دشمن کو غصّہ دلاتی تھی۔

    برطانوی اداکار راجر مور کی انفرادیت یہ بھی تھی کہ انھوں نے جیمز بانڈ کے روپ میں اپنے مکالمے لطیف انداز اور طنزیہ پیرائے میں ادا کیے، جیمز بانڈ دیوانوں کو یہ بھی یاد ہو گا کہ راجر مور کس طرح اپنے ابرو اٹھا کر مخصوص انداز میں ڈائیلاگ ادا کرتے تھے۔ ان کی یہی ادا جمیز بانڈ کے روپ میں ان کے مداحوں کی تعداد کو بڑھاتی چلی گئی۔

    اپنی حقیقی زندگی میں بھی راجر مور بذلہ سنج واقع ہوئے تھے۔ آج راجر مور کی وفات کا دن ہے۔ اس مناسبت سے ہم برطانوی اداکار راجر مور سے متعلق 1983 کا ایک واقعہ نقل کررہے ہیں جو ان کے مداحوں کی دل چسپی کا باعث بنے گا۔ ملاحظہ کیجیے۔

    راجر مور نیس کے ہوائی اڈے پر اپنی پرواز کا انتظار کر رہا تھا، اچانک ایک سات برس کے بچّے کی نظر اُس پر پڑی اور وہ ’’جیمز بانڈ‘‘ کو دیکھ کر بے حال ہو گیا، وہ اپنے دادا کے ساتھ ہوائی اڈے پر موجود تھا جو بانڈ کو نہیں جانتے تھے۔ بچّے نے دادا سے فرمائش کی کہ اسے جیمز بانڈ سے آٹو گراف لینا ہے، سو دونوں بانڈ کے پاس گئے اور آٹو گراف مانگا۔ راجر مور نے اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ بچّے کے ٹکٹ پر اپنا نام لکھ دیا اور اس کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار بھی کیا۔ بچّہ خوشی خوشی وہاں سے اپنی سیٹ پر واپس چلا آیا اور جب اس نے دوبارہ ٹکٹ کو دیکھا تو اس پر جیمز بانڈ کا نام نہیں بلکہ راجر مور لکھا ہوا تھا، اس نے دادا کو کہا کہ بانڈ نے اپنا نام غلط لکھ دیا ہے، وہ ایک مرتبہ پھر ’’جیمز بانڈ‘‘ کے پاس گئے اور بچّے نے غلطی کی نشان دہی کی۔ راجر مور نے بچّے کو اپنے قریب کیا، اور چور نظروں سے ادھر ادھر دیکھا، اور پھر سرگوشی کی ’’میں نے جان بوجھ کر اپنا نام راجر مور لکھا ہے، کیوں کہ اگر میں صحیح نام لکھ دوں تو شاید بلو فیلڈ (جیمز بانڈ کا روایتی ولن) مجھے ڈھونڈ لے، اس لیے تم نے کسی ذکر نہیں کرنا کہ تم بانڈ کو دیکھا تھا!‘‘

    یہ سن کر بچّے کا چہرہ تمتما اٹھا۔ اسے محسوس ہوا کہ وہ بھی جیمز بانڈ کا ساتھی ہے اور اس کی یہاں موجودگی کو راز رکھنا ہے۔ کئی برس بعد وہ بچّہ ایک بڑا لکھاری بن گیا اور اتفاق سے ایک موقع ایسا آیا کہ وہ راجر مور کے ساتھ یونیسف کے ایک پراجیکٹ پر کام کرنے پہنچا، شوٹنگ کے بعد اس لکھاری نے راجر مور کو یاد دلایا کہ کئی سال پہلے کس طرح ایئر پورٹ پر اُن کی ملاقات ہوئی تھی اور جب وہ واقعی اسے جیمز بانڈ سمجھتا تھا۔ راجر مور نے کہا کہ اسے وہ ملاقات یاد نہیں۔ کچھ دیر بعد راجر مور نے اس لکھاری کو پاس بلایا، چور نظروں سے ادھر ادھر دیکھا، اپنے مخصوص انداز میں ابرو اٹھائے اور سرگوشی کی: ’’مجھے نیس والا واقعہ یاد ہے، اس وقت جب تم نے مجھے وہ ملاقات یاد دلانے کی کوشش کی تھی، کیمرہ مین ہمارے قریب کھڑے تھے اور ان میں سے کوئی بھی بلو فیلڈ کا ساتھی ہو سکتا تھا، اس لیے میں نے بات دبا دی!‘‘

    جیمز بانڈ کے یادگار کردار نبھانے والے برطانوی اداکار راجر مور نے 89 برس کی عمر میں 23 مئی 2017ء کو انتقال کیا۔ وہ اپنی وفات کے وقت سوئٹزر لینڈ میں مقیم تھے۔ راجر مور 14 اکتوبر 1927ء کو پیدا ہوئے تھے۔

    راجر مور نے سیکرٹ ایجنت جیمز بانڈ کا کردار نبھا کر شہرت کی بلندیوں کو چھوا اور 45 سال کی عمر میں اس سلسلے کی پہلی فلم ’لیو اینڈ لیٹ ڈائی‘ میں اداکاری کی۔ ہالی وڈ سمیت دنیا بھر میں فلم کے ناقدین نے ان کی اداکاری کو سراہا اور اپنے وقت کے مشہور فن کاروں نے جیمز بانڈ کے روپ میں ان کی تعریف کی۔

    اداکار راجر مور اپنی فلاحی سرگرمیوں اور سماجی کاموں کے لیے بھی مشہور تھے۔ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کے برانڈ ایمبیسیڈر کے طور پر ضرورت مند بچّوں کے لیے امداد جمع کرنے میں انھوں نے بڑا کردار ادا کیا۔ وہ بچّوں‌ کے حقوق کے لیے ہمیشہ آواز اٹھاتے تھے۔

    دنیا بھر کے فلم بینوں میں پذیرائی حاصل کرنے والے راجر مور نے چار شادیاں کی تھیں۔ ان کی پہلی شادی 1946 میں ڈون وان اسٹائن سے ہوئی جب کہ دوسری مرتبہ 1953 میںڈورتھی اسکوائرز کو اپنا جیون ساتھی چنا، تیسری شادی 1969 میں اطالوی اداکارہ لیزا مٹولی سے اور 2002 میں کرسٹینا تولسٹرب ان کی زندگی میں شریکِ حیات بن کر آئی تھیں۔

  • وکٹر ہیوگو: انیسویں صدی کا سب سے بڑا فرانسیسی ادیب

    وکٹر ہیوگو: انیسویں صدی کا سب سے بڑا فرانسیسی ادیب

    دنیائے ادب میں وکٹر ہیوگو نے اُن تخلیق کاروں میں جگہ پائی جن کا نام ایک صدی سے زائد عرصہ بیت جانے کے باوجود بھی زندہ ہے۔ اس فرانسیسی ادیب، شاعر اور صحافی نے اپنے ناولوں کی بدولت دنیا بھر میں شہرت حاصل کی۔ آج وکٹر ہیوگو کا یومِ وفات ہے۔

    وکٹر ہیوگو کو اُنیسویں صدی کا سب سے بڑا فرانسیسی ادیب تسلیم کیا جاتا ہے۔ ابتدا میں اس کی شہرت بطور شاعر تھی، لیکن بتدریج وہ ناول نگار اور ڈراما نویس کے طور پر مقبول ہوا اور اس کی کہانیوں‌ نے فرانس کے علمی و ادبی حلقوں کو ہی نہیں‌ بیرونِ ملک بھی پڑھنے والوں کو اپنی جانب متوجہ کرلیا۔ بطور ناول نگار وکٹر ہیوگو نے ادب میں بڑا نام و مرتبہ پایا۔

    26 فروری 1802 کو پیدا ہونے والا یہ عظیم ناول نگار اپنا تخلیقی سفر جاری رکھتے ہوئے عالمی ادب کی رومانوی تحریک سے بھی وابستہ رہا، اور اس کے اثرات، وکٹر ہیوگو کی ذاتی زندگی پر بھی پڑے۔ وہ حسن و جمال کا دلداہ اور فطرت سے محبّت کرتا رہا اور اس کی زندگی میں‌ کئی عورتیں‌ آئیں، لیکن اس کے مزاج کی عکاسی اس کے ناولوں کے کردار کرتے ہیں۔

    وکٹر ہیوگو نے ناول نگاری کے ساتھ اس وقت کئی کھیل بھی تحریر کیے اور شاعری جیسی صنف میں‌ طبع آزمائی بھی کی۔ وہ ہر صنفِ ادب میں اپنی انفرادیت برقرار رکھنے میں کام یاب رہا۔ وکٹر ہیوگو زرخیز ذہن کا مالک تھا۔ اس نے ادب اور صحافت کے علاوہ عملی سیاست بھی کی اور انسانی حقوق کا علم بردار بھی رہا۔

    انیسویں صدی کے اس فرانسیسی ادیب کے ناولوں کا کئی زبانوں میں ترجمہ ہوا جن میں اردو بھی شامل ہے۔ Les Miserables وکٹر ہیوگو کا بہترین ناول شمار ہوتا ہے جسے مختلف ادیبوں نے اردو زبان میں‌‌ ڈھالا ہے اور اس پر فلم بھی بنائی جاچکی ہے۔ اردو کے علاوہ اسے بیس سے زائد زبانوں میں ترجمہ کرکے قارئین تک پہنچایا گیا اور آج بھی اس ناول کو وکٹر ہیوگو کی اہم تصنیف کے طور پر گنا جاتا ہے۔ وکٹر ہیوگو نے 1845 میں یہ ناول لکھنا شروع کیا تھا اور کہتے ہیں کہ 1861 میں وہ اسے مکمل کر سکا۔ اسی طرح The Hunchback of Notre-Dame وہ ناول تھا جس کا اردو زبان میں‌ کبڑا عاشق کے نام سے ترجمہ قارئین میں‌ بہت مقبول ہوا۔ یہ ناول فرانس اور دنیا بھر میں‌ وکٹر ہیوگو کی بہترین تخلیقات میں شمار کیا جاتا ہے۔

    فرانسیسی ادیب وکٹر ہیوگو نے اپنے زمانے کے سماجی حقائق اور رویّوں کے ساتھ معاشرے کے مخلتف روپ اپنی تخلیقات میں‌ پیش کیے جنھیں قارئین کی توجہ حاصل ہوئی‌ اور ناقدین نے بھی اسے سراہا۔

    وکٹر ہیوگو کی زندگی کا سفر 1885 میں‌ پیرس میں آج ہی کے دن تمام ہوا۔

  • بابائے سندھ حیدر بخش جتوئی کا تذکرہ

    بابائے سندھ حیدر بخش جتوئی کا تذکرہ

    حیدر بخش جتوئی عوام میں ’’بابائے سندھ‘‘ کے نام سے پہچانے جاتے ہیں۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ انھیں ہر خاص و عام میں یکساں‌ احترام اور پسندیدگی حاصل تھی۔ لیکن اس ہر دلعزیز اور زندگی میں محنت، لگن اور غریب عوام کے حقوق کی جدوجہد کو وظیفہ بنا لینے والی شخصیت کی خدمات کا اعتراف 30 سال بعد کیا گیا اور ہلالِ امتیاز عطا کیا گیا۔ آج حیدر بخش جتوئی کی برسی ہے۔

    حیدر بخش جتوئی سندھ کے مشہور ہاری راہ نما اور شاعر تھے۔ لاڑکانہ ان کا آبائی علاقہ تھا جہاں وہ سنہ 1900 میں پیدا ہوئے۔ بمبئی یونیورسٹی سے گریجویشن اور آنرز کے بعد سرکاری ملازمت کا سلسلہ شروع ہوا اور ڈپٹی کلکٹر کے عہدے تک پہنچے۔ پیدائش کے فوراً بعد وہ والدہ سے محروم ہوگئے تھے۔ 11 سال کی عمر میں اسکول میں داخل کروایا گیا، جہاں لاڑکانہ کے اس وقت کے ڈپٹی کمشنر آئے تو حیدر بخش جتوئی سے بہت متاثر ہوئے۔ کہتے ہیں کہ انھوں نے حیدر بخش کے والد سے ملاقات کرکے مشورہ دیا کہ ان کا بچّہ غیر معمولی صلاحیت کا حامل ہے، اسے ضرور اعلیٰ تعلیم دلوائیں۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد سندھ مدرسۃُ الاسلام کراچی میں داخل ہوئے، جہاں نمایاں کارکردگی اور دسویں جماعت میں سندھ بھر میں پہلی پوزیشن لی۔ بعد میں گریجویشن اور پھر ممبئی یونیورسٹی سے فارسی میں امتیاز حاصل کیا۔ 23 سال کی عمر میں ان کی شادی ہوگئی تھی۔

    حیدر بخش جتوئی نے محکمۂ ریونیو میں ہیڈ منشی کی حیثیت سے کیریئر کا آغاز کیا لیکن پھر وہ عوام کی خاطر اور ہاریوں کے حقوق کے لیے سرکاری ملازمت چھوڑ کر ہاری تحریک میں شامل ہوگئے۔ 1950 میں ہاری کونسل نے ان کا مرتب کردہ آئین منظور کیا جس کے بعد ان کی جدوجہد کے نتیجے میں قانونِ زراعت منظور ہوا۔ وہ ہاریوں‌ کے حق میں آواز اٹھانے کی پاداش میں جیل بھی گئے۔ عوام اور پسے ہوئے طبقے کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے اور جدوجہد کرنے کی وجہ سے لوگ ان کی بہت عزت کرتے تھے اور انھیں اپنا حقیقی مسیحا اور راہ نما مانتے تھے۔

    حیدر بخش جتوئی نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز انڈین نیشنل کانگریس، تھیوسوفیکل سوسائٹی اور کمیونسٹ پارٹی، ہندوستان کے ایک رُکن کی حیثیت سے کیا۔ وہ کمیونسٹ پارٹی کے وفادار رکن تھے، لیکن ہمیشہ روادارانہ، آزاد خیال اور وسیع فہم و فکر کا مظاہرہ سیاسی پالیسیوں اور مذہبی فلسفیانہ سوچ کے تحت کیا۔

    ہندوستان میں جدوجہدِ آزادی پر انھوں نے ایک شاہکار نظم بھی تخلیق کی تھی۔ حیدر بخش جتوئی نے اپنی سندھی شاعری کا مجموعہ’’ تحفۂ سندھ‘‘ کے نام سے شائع کروایا تھا۔ 65 صفحات کے اس مجموعے میں نظم’’ دریا شاہ‘‘ اور’’شکوہ‘‘ بھی شامل ہیں، جن کا انگریزی میں بھی ترجمہ ہوا۔ 1946ء میں انھوں نے اپنی شاعری کا دوسرا مجموعہ ’’آزادیٔ قوم‘‘ شائع کروایا۔ یہ طویل نظم’’مخمّس‘‘ یعنی پانچ بندوں پر مشتمل ہے اور اس کا موضوع، برصغیر میں برطانوی راج کے خلاف جدوجہد ہے۔ انھوں نے کئی مشاعروں میں بھی شرکت کی، جن میں پاک و ہند اردو مشاعرہ بھی شامل ہے، جس میں حیدر بخش جتوئی نے سندھی نظم پڑھی۔

    کامریڈ حیدر بخش جتوئی ایک زود نویس مصنّف تھے۔ انھوں نے ون یونٹ کے خلاف کئی کتابچے لکھے۔ حیدر بخش جتوئی نے سندھی زبان میں دیگر کتابیں بھی تصنیف کیں۔ 21 مئی 1970 کو حیدر بخش جتوئی انتقال کر گئے تھے۔

  • تحریکِ‌ پاکستان کے مقبول ترین نعرے کے خالق کی برسی

    تحریکِ‌ پاکستان کے مقبول ترین نعرے کے خالق کی برسی

    پروفیسر اصغر سودائی اُس مقبول نعرے کے خالق ہیں جس نے تحریکِ آزادی اور قیامِ‌ پاکستان کی جدوجہد کے لیے مسلمانانِ ہند میں وہ جوش و ولولہ پیدا کیا جس کے آگے کسی بھی طاقت کا ٹھہرنا ناممکن ہی تھا۔ ”پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الا اللہ“ اُن کی نظم کا وہ مصرع تھا جسے مسلمانوں نے حرزِ جاں بنا لیا اور پھر دنیا کے نقشے پر ایک نئی اسلامی ریاست پاکستان کے نام سے ابھری۔ آج اصغر سودائی کا یومِ وفات ہے۔

    پروفیسر اصغر سودائی اردو کے نام وَر شاعر اور ماہرِ تعلیم تھے۔ ان کا اصل نام محمد اصغر تھا۔ 17 ستمبر 1926ء کو پنجاب کے شہر سیالکوٹ میں پیدا ہونے والے اصغر سودائی نے تحریکِ پاکستان کے سرگرم رکن کی حیثیت سے سفر شروع کیا اور 1945ء میں ان کی نظم نے ہندوستان بھر کے مسلمانوں‌ کے دلوں کو گرمایا۔ آج بھی جشنِ آزادی کی تقاریب اور تحریکِ آزادی سے متعلق تحریر و تقریر میں اس نعرے کا ذکر ضرور کیا جاتا ہے۔

    پروفیسر اصغر سودائی نے مرے کالج سیالکوٹ اور اسلامیہ کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی تھی اور پھر سیالکوٹ کے اسلامیہ کالج سے بطور لیکچرار وابستہ ہوئے۔ 1965ء میں اس کالج کے پرنسپل کا عہدہ سنبھالا اور اس کے اگلے برس سیالکوٹ ہی میں علامہ اقبال کالج قائم کیا۔ 1984ء سے 1986ء تک وہ ڈیرہ غازی خان میں ڈائریکٹر ایجوکیشن کے منصب پر فائز رہے۔

    پروفیسر اصغر سودائی کے شعری مجموعوں میں شہِ دو سَرا اور چلن صبا کی طرح شامل ہیں۔ 17 مئی 2008ء کو اصغر سودائی وفات پاگئے تھے، وہ سیالکوٹ میں مدفون ہیں۔