Tag: مئی وفات

  • بلبلِ نشریات موہنی حمید کا تذکرہ

    بلبلِ نشریات موہنی حمید کا تذکرہ

    موہنی داس نے نوجوانی میں ریڈیو سے اپنے فنی سفر کا آغاز کیا تھا اور پھر وہ آپا شمیم کے نام سے 35 برس تک اسی میڈیم سے جڑی رہیں۔ اس عرصہ میں انھوں نے ریڈیو کے سامعین کے معیاری اور خوب صورت پروگرام پیش کیے۔

    موہنی داس نے بچّوں کے ہفتہ وار پروگرام کے ساتھ کئی برس تک انھیں اپنی خوب صورت آواز میں کہانیاں بھی سنائیں۔ بچّے ہی نہیں پاکستان بھر میں بڑے بھی آپا شمیم کو بہت شوق سے سنتے تھے۔ امریکا میں قیام کے دوران آج ہی کے دن وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔

    ریڈیو پاکستان کے مقبول ڈراموں کی ہیروئن اور بچوں کے لیے کئی مشہور گیت گانے والی موہنی حمید کو حکومتی سطح پر بھی اعزازات سے نوازا گیا اور ملک اور بیرونِ ملک بھی فن کی دنیا میں مختلف ایوارڈ دیے گئے۔ انھوں نے انار کلی جیسے لازوال ڈرامے کے خالق امتیاز علی تاج کے معروف کھیل ستارہ میں مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ اہلِ ریڈیو نے بجا طور پر موہنی حمید کو بلبلِ نشریات کا خطاب دے رکھا تھا۔

    موہنی داس ایک عیسائی خاندان کی فرد تھیں جن کی شادی 1954 میں ایک روزنامے میں مدیر کی حیثیت سے کام کرنے والے حمید احمد سے ہوئی اور یوں وہ موہنی حمید بن گئیں۔ اس جوڑے کے گھر جنم لینے والی کنول نصیر بھی پاکستان میں ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی صدا کار اور میزبان کے طور پر شہرت رکھتی ہیں۔

    موہنی داس نے 1922 میں ہندوستان کے علاقے بٹالہ کے ایک مسیحی گھرانے میں آنکھ کھولی تھی۔ 1938 میں انھوں نے آل انڈیا ریڈیو بطور ڈرامہ آرٹسٹ شمولیت اختیار کی۔ بعد میں انھوں نے لاہور اسٹیشن سے پروگرام کرنا شروع کردیا اور آپا شمیم بن کر ہر گھر کی گویا ایک فرد بن گئیں۔ پاکستان کے قیام کے بعد وہ یہاں مستقل قیام پذیر ہوئیں اور ریڈیو پر اپنا سفر جاری رکھا۔

    یہ 1957 کی بات ہے جب موہنی حمید کو سال کی بہترین آواز قرار دیا گیا۔ 1963 میں ریڈیو پاکستان لاہور نے ان کی سلور جوبلی منائی اور 1965 میں صدر پاکستان نے انھیں ’’تمغائے امتیاز‘‘ سے نوازا۔ 1969 میں اقوامِ متحدہ نے ایشیا کی معزز خواتین کے ساتھ ان کی تصویر اور تحریر کی نمائش کی۔ 1998 میں جب وہ بیرونِ ملک جا چکی تھیں حکومتِ پاکستان نے ان کے لیے دوسری بار ’’تمغائے امتیاز‘‘ کا اعلان کیا جب کہ 1999 میں پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کی جانب سے موہنی حمید لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ کی حق دار قرار پائیں۔

    16 مئی 2009ء میں موہنی حمید امریکا میں انتقال کرگئی تھیں۔ موہنی حمید کا تعلق صدا کاروں کی اس نسل سے تھا جس میں مصطفٰی علی ہمدانی، اخلاق احمد دہلوی، عزیز الرحمٰن، مرزا سلطان بیگ عرف نظام دین جیسے آرٹسٹ شامل تھے اور نہایت بلند پایہ ادیب اور باکمال ڈرامہ نگار ریڈیو کے لیے لکھا کرتے تھے اور اپنی آواز کا جادو جگاتے تھے جن میں امتیاز علی تاج، رفیع پیر اور شوکت تھانوی جیسے نام شامل ہیں۔ موہنی حمید نے آسمانِ ادب اور آرٹ کی دنیا کے ان ستاروں کے ساتھ کام کرکے خود کو باصلاحیت اور بہترین فن کار ثابت کیا۔ انھیں امتیاز علی تاج اور رفیع پیر جیسی نابغہ شخصیات نے سراہا۔

  • جمیل نقش: ‘وہ آرٹ کے لیے جیے!’

    جمیل نقش: ‘وہ آرٹ کے لیے جیے!’

    آرٹ کے ناقد قدوس مرزا کہتے ہیں کہ ‘اگر ہم جمیل نقش کی زندگی اور آرٹ کو دیکھیں تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ان کے لیے زندگی اور آرٹ میں کوئی فرق نہیں تھا، وہ آرٹ کے لیے جیے۔’ آج جمیل نقش کی برسی ہے۔

    جمیل نقش کو فنِ مصوّری کے ایک لیجنڈ کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا جن کے فن پاروں سے آرٹ میں مصوّر کی مقصدیت، نئی فکر اور اس کے سیاسی اور سماجی شعور کا بھی اظہار ہوتا ہے۔

    پاکستان کے اس نام ور آرٹسٹ کے نزدیک فنِ مصوّری ایک بامقصد اور نہایت سنجیدہ کام رہا جس کے ذریعے وہ اپنی فکر کا اظہار اور سوچ کے مختلف زاویوں کو ہر خاص و عام تک پہنچا سکتے تھے۔ جمیل نقش نے پینٹنگز کے ساتھ خطّاطی کے شاہکار بھی تخلیق کیے اور متعدد کتابوں کے سرورق بنائے۔ ان کی مصوّری میں استعاروں کی خاص بات بامعنیٰ اور نہایت پُراثر ہونا ہے۔ فن پاروں کے منفرد انداز کے علاوہ جمیل نقش نے اسلامی خطاطی میں بھی جداگانہ اسلوب وضع کیا۔ ان کے شان دار کام کی نمائش پاکستان اور بھارت کے علاوہ برطانیہ اور متحدہ عرب امارات میں ہوئی۔ جمیل نقش ایک مصوّر ہی نہیں شعر و ادب کا ذوق بھی رکھتے تھے اور وسیع مطالعہ کے ساتھ بلند فکر انسان تھے۔ وہ مشہور ادبی جریدے سیپ کے لیے بھی پینٹنگز بناتے رہے۔ جمیل نقش نے 1970ء سے 1973ء تک پاکستان پینٹرز گلڈ کی صدارت کا منصب بھی سنبھالا تھا۔

    خداداد صلاحیتوں کے مالک جمیل نقش 1939 میں کیرانہ انڈیا میں پیدا ہوئے اور تقسیم ہند کے بعد لاہور میں رہائش اختیار کر لی۔ جمیل نقش نے میو اسکول آف آرٹ لاہور سے ابتدائی تعلیم حاصل کی تھی۔ بعد میں وہ اپنی طرز کے منفرد مصوّر کہلائے اور اپنے تخلیقی ذہن سے اس فن میں بڑا کمال حاصل کیا۔ ان کے موضوعات ناقدین کی نظر میں اہمیت رکھتے ہیں اور قابلِ‌ ذکر ہیں۔

    جمیل نقش 2019ء میں آج ہی کے دن لندن میں انتقال کر گئے تھے۔ ان کی عمر 80 سال تھی۔ حکومت پاکستان نے انھیں تمغائے حسنِ کارکردگی اور ستارۂ امتیاز سے نوازا اور جمیل نقش کے نام پر میوزیم لاہور میں ان کے فن پارے محفوظ ہیں۔ جمیل نقش نے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا نام روشن کیا اور فنِ مصوری کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔

    جمیل نے جن موضوعات کا چناؤ کیا ان کی اہمیت کئی لحاظ سے ہے۔ ان کے فن پاروں میں‌ گھوڑے، عورت اور کبوتر کو نمایاں دیکھا جاسکتا ہے۔ برہنہ عورت اور محوِ پرواز پرندے ان کا خاص موضوع رہے۔ ان اجسام کو انھوں نے بار بار پینٹ کیا اور انھیں‌ زندگی بخشی۔

  • شہرۂ آفاق شاعرہ ایملی ڈکنسن جو "سنکی” مشہور تھی

    شہرۂ آفاق شاعرہ ایملی ڈکنسن جو "سنکی” مشہور تھی

    ایملی ڈکنسن کی نظمیں‌ غم و اندوہ اور گہری یاسیت کا مرقع ہیں۔ امریکہ میں انگریزی زبان کی یہ سب سے بڑی شاعر تنہائی پسند تھی اور کہتے ہیں کہ وہ اپنے گھر سے کم ہی باہر نکلتی تھی۔

    ایملی ڈکنسن کی خلوت پسندی تو غیرمعمولی یا پریشان کُن نہیں‌ تھی، لیکن وہ پڑوسیوں یا رشتے داروں سے بھی گریزاں رہتی تھی۔ ایملی ڈکنسن لوگوں سے میل جول بڑھانے میں ہمیشہ جھجکتی رہی۔ اسی بنیاد پر مقامی لوگوں کے درمیان وہ ایک سنکی عورت مشہور ہوگئی تھی۔ جواں عمری میں ایملی موت کو ایک بڑا خطرہ تصوّر کرنے لگی تھی۔ اس کی یہ حالت دوسروں پر اُس وقت کھلی جب انھوں نے ایک قریبی عزیز کی موت کے بعد ایملی کو شدید صدمے سے دوچار پایا۔

    انیسویں صدی کی شاعرہ ایملی ڈکنسن نے موضوعات کے برتاؤ اور ہیئت کے تجربات میں جس جدّت کا اظہار کیا، اس نے اگلی صدی میں‌ بھی پڑھنے والوں پر اپنا گہرا اثر چھوڑا۔ تاہم اس شاعرہ کو ابدی نیند سونے کے بعد دنیا بھر میں پہچان مل سکی۔ امریکہ میں ایملی ڈکنسن کو انگریزی زبان کی سب سے بڑی شاعرہ تسلیم کیا جاتا ہے۔

    ایملی ڈکنسن نے 10 دسمبر 1830ء میں امریکی ریاست میساچوسسٹس کے شہر ایمہرسٹ میں‌ آنکھ کھولی تھی۔ اس کے والد ڈیوڈ ڈکنسن پیشے کے اعتبار سے وکیل اور ایمہرسٹ کالج کے ٹرسٹی تھے، اور شہر کی نمایاں شخصیت تھے، لیکن یہ کنبہ مالی طور پر مستحکم نہیں تھا۔ مگر وہ اپنے بچّوں کی اچھی تعلیم و تربیت پر توجہ دیتے تھے اور ان کو کارآمد اور مفید شہری بنانے کی خواہش رکھتے تھے۔ وہ ایک مہذّب اور ڈسپلن کا خیال رکھنے والے انسان تھے اور یہی عادت ایملی ڈکنسن میں‌ بھی منتقل ہوئی تھی۔ اس نے پرائمری کی تعلیم قریبی اسکول سے مکمل کی اور پھر ایمہرسٹ کی اکیڈمی میں داخلہ لیا جہاں 7 برس کے دوران دیگر مضامین کے ساتھ ایملی ڈکنسن نے کلاسیکی ادب بھی پڑھا۔ وہ بچپن ہی سے موسیقی اور پیانو بجانے میں‌ دل چسپی لینے لگی تھی اور بعد میں طالبہ کی حیثیت سے ادب کا مطالعہ کیا۔ اسی زمانے میں اس نے شاعری کا آغاز کیا، مگر ایک عرصہ تک وہ کسی پر بطور شاعرہ نہیں‌ کُھلی تھی۔ ایملی ڈکنسن نے مکتوب نگاری کے ذریعے دوسروں سے رابطہ رکھنا پسند کیا اور اس کے ذریعے دوست بنائے۔

    اگرچہ ایملی ڈکنسن کے شناسا جانتے تھے کہ وہ شاعری کرتی ہے، لیکن اکثریت اس کا کلام پڑھنے سے قاصر تھی۔ ایملی کی موت کے بعد اس کی بہن نے کئی نظمیں کتاب میں یکجا کیں اور 1890 میں‌ اس کا پہلا مجموعہ منظرِ عام پر آیا۔ 1850ء کے اواخر میں سموئیل بولس نامی ایک صحافی اور جریدے کے مدیر سے دوستی کے بعد ایملی ڈکنسن کی چند نظمیں قارئین تک پہنچیں اور یوں اسے بڑا حوصلہ ملا۔ سموئیل اور اس کی بیوی میری ایملی ڈکنسن سے ملنے کے لیے اکثر اس کے گھر آتے تھے۔ اس زمانے میں ڈکنسن نے مذکورہ مدیر کو تین درجن سے زائد خطوط لکھے اور پچاس کے قریب نظمیں‌ ارسال کی تھیں۔ چند نظمیں دیگر رسائل کی زینت بنی تھیں، لیکن یہ قابلِ‌ ذکر تعداد نہیں‌۔

    ایملی ڈکنسن کی اکثر نظمیں موت اور ابدیت کے موضوع پر ہیں جب کہ اپنے ارسال کردہ خطوط میں ان موضوعات کے علاوہ ایملی ڈکنسن نے جمالیات، فطرت، روحانیت اور سماجی معاملات پر اظہارِ‌ خیال کیا ہے۔ اس امریکی شاعرہ کو عام طور پر ایک گوشہ نشیں خاتون اور غم زدہ شاعرہ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

    15 مئی 1886ء کو ایملی وکنسن نے اُس خطرے کا سامنا کیا جس کے تصوّر سے کئی سال تک وہ خوف زدہ رہی تھی۔ ایملی وکنسن کو موت نے ابدی نیند سلا دیا۔ اس نے شادی نہیں‌ کی تھی۔

    تعجب کی بات ہے کہ اس شہرۂ آفاق امریکی شاعرہ کی صرف ایک ہی تصویر دست یاب تھی جو کئی سال کے دوران ادبی رسائل اور ایملی ڈکنسن سے متعلق تحریروں کے ساتھ شایع ہوتی رہی، لیکن 1995ء میں‌ ایک مداح نے نیلام کے دوران ایک تصویر میں‌ شاعرہ کو پہچان کر اسے خرید لیا تھا۔تاہم یہ تصویر بھی اس کے دس سال بعد منظرِ عام پر آئی اور شاعرہ کے آبائی قصبے ایمہرسٹ کے کالج کی جانب سے اعلان میں کیا گیا کہ تحقیق کے بعد یقین سے کہا جا رہا ہے کہ انگریزی کی اس بڑی شاعرہ کی ایک اور تصویر بھی موجود ہے۔ یوں ایملی ڈکنسن کی زندگی کی صرف دو تصویریں ملی ہیں جن میں‌ سے پہلی اس وقت کی ہے جب شاعرہ کی عمر 17 برس تھی۔ دوسری اور دریافت کی گئی تصویر میں ایملی اپنی ایک سہیلی کے ساتھ نظر آرہی ہے جس کا نام کیٹ ٹرنر بتایا گیا ہے۔ یہ تصویر 1859ء کی ہے۔

  • نامہربانوں کی طرح مہربان ہونے والے ابوالخیر کشفی

    نامہربانوں کی طرح مہربان ہونے والے ابوالخیر کشفی

    حضرت ثاقب کانپوری نے کہا تھا کہ

    میری فطرت میں ازل سے ہے محبت کا خمیر
    زندگی میری ہے دنیا میں سراپائے نیاز

    اور یہی وہ تہذیبی ورثہ تھا جو حضرت ثاقب کانپوری نے اپنے بے حد عزیز فرزند ڈاکٹر ابو الخیر کشفی کو منتقل کیا اور جسے بہت دیانت داری سے آپ نے اپنے بچّوں اور اولادِ معنوی میں منتقل کرنے کی کوشش کی۔ اب یہ نصیب کی بات ہے کہ کس نے اس دُرّ بے بہا سے اپنا دامن بھرا اور کون محروم رہا۔ ممتاز شاعر تابش دہلوی نے لکھا تھا، ”ڈاکٹر کشفی میرے استاد ہیں۔ میں نے اُن سے نہ صرف علم حاصل کیا بلکہ اصولی زندگی گزارنے کے آداب بھی سیکھے۔ وہ عزّتِ نفس کے ساتھ نہایت منکسر، صوم و صلوٰۃ کے سختی سے پابند، روحانی احتساب پر شدت سے کاربند، زندگی کے مثبت اصولوں پر سمجھوتہ نہ کرنے پر قائم اور یہی سبق وہ اپنے شاگردوں کو دیتے ہیں۔ میں نہایت خوش نصیب ہوں کہ مجھ کو اُن کی شاگردی کی سعادت حاصل ہے۔“

    ایسے ہی خوش نصیبوں میں میرا شمار بھی ہوتا ہے۔ جامعہ کراچی کے شعبۂ اردو ایم اے سال اوّل کی پہلی کلاس سے آخری ٹیلیفونک ملاقات تک ڈاکٹر صاحب کے بارے میں میرا تجربہ اور تجزیہ یہی رہا کہ

    اُن کے غصّے میں ہے دلسوزی، ملامت میں ہے پیار
    مہربانی کرتے ہیں نامہربانوں کی طرح

    ڈاکٹر صاحب اپنی تدریس کے ابتدائی دور ہی سے سخت گیر اُستاد مشہور تھے۔ جامعہ کراچی کے شعبۂ اردو میں داخلے کے مراحل سے کلاسز کے آغاز تک ڈاکٹر کشفی کے سخت گیر ہونے کی داستان سنتی رہی لیکن میں نے ڈاکٹر صاحب کو سخت گیر سے زیادہ اصول پسند استاد پایا۔ میرا تجربہ اور تجزیہ یہی ہے کہ ڈاکٹر کشفی نہایت شفیق، متین لیکن بذلہ سنج، مہربان، دور اندیش، فرض شناس اور اپنے منصب اور شاگردوں سے نہایت مخلص تھے۔ میرے چند اساتذہ کو بھی آپ کی شاگردی کا فخر حاصل رہا ہے۔ آپ کا بڑا کمال اپنے شاگردوں کی غیر محسوس طریقے سے تربیت ہے۔ مذہب کے شدید طبعی رجحان، متانت اور بذلہ سنجی نے آپ کی شخصیت میں توازن پیدا کر دیا تھا۔ آپ کیسے سخت گیر استاد تھے جو اپنے شاگردوں پر شفقت کی نظر رکھتے، اُن کے مسائل سن کر نہ صرف رنجیدہ ہوتے بلکہ اُن کا ممکنہ حل بھی تلاش کرتے اور اُس وقت آپ کو جو روحانی خوشی محسوس ہوتی وہ دیدنی ہوتی۔ظاہر کی آنکھ سے تماشہ کرنے والوں نے کبھی ڈاکٹر صاحب کے باطن کا اجالا محسوس ہی نہیں کیا۔ ورنہ آپ کی بارعب شخصیت میں ہی آپ کی طبیعت کے گداز کو ضرور محسوس کر لیتے۔

    میری یادوں کے اُفق پر وہ صبح آج بھی پورے آب و تاب کے سا تھ روشن ہے جب جامعہ کراچی کے کوریڈور میں کھڑی میں طلباء و طالبات کے بے رحم اور بے معنی تبصرے سن رہی تھی، مجھ پر کوئی اثر نہ ہوتا دیکھ کر ایک محترمہ نے مجھے خوفزدہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کر ڈالی۔ جس کا رد عمل یوں سامنے آیا کہ میرا عزم بلند اور شوق شدت اختیار کرگیا۔ دیر سے مہر بہ لب ”اقوالِ نفرین“ سن رہی تھی۔ آفرین اُن طالبات پر جس در سے روشنی حاصل کر رہی تھیں اُسی پر بے بنیاد الزامات کے تیر برسا رہی تھیں۔ پھر میرا ضبط بھی جواب دے گیا تو لب کشائی کی جرأت کر ہی ڈالی، ”یہ تو وہی بات ہو گئی آپ آگرہ جائیں تاج محل دیکھے بنا لوٹ آئیں۔“

    ”کیا مطلب“ میری مخاطب نے حیرانی و پریشانی کی ملی جلی کیفیت میں استفہامیہ نظر ڈالی۔

    ”مطلب تو بہت سادہ ہے۔ آپ کے مطابق سَر کشفی کسی کا لحاظ نہیں کرتے، پل بھر میں بے عزّت کر کے رکھ دیتے ہیں، بہت بے رحم ہیں، عجیب و غریب نیچر ہے ان کی، مغرور اور بددماغ آدمی ہیں۔“ یہ بھی تو ممکن ہے کہ آپ کے کسی منفی عمل کا رد عمل ہو، اس سے بڑھ کر بدنصیبی اور کیا ہوگی کہ شعبۂ اردو کے طالب علم ہوتے ہوئے بھی کشفی صاحب کے علمی فیض سے محروم رہیں۔“ یہ میری رائے تھی۔ سن کر خاتون نے طنزیہ کہا، ”یہ آپ اس لیے کہ رہی ہیں کہ آپ نے کشفی صاحب کا نام سنا ہے، ان کی قابلیت کا چرچا سنا ہے، پہلے تجربہ کر لیں اس کے بعد اتنی بڑی بڑی باتیں کیجیے گا۔ محترمہ دور کے ڈھول سہانے ہوتے ہیں۔“ استہزائیہ ہنسی کی سوغات دیتے ہوئے اگلے ہی پل محترمہ یہ جا وہ جا۔ اور اگلے ہی دن ”تجربے“ کا سنہری موقع میسر آگیا جو موصوفہ کے قول کے برعکس نہایت خوش گوار اور یادگار رہا۔ آج بھی وہ وقت یاد آتا ہے تو بے ساختہ مسکراہٹ لبوں پر بکھر جا تی ہے۔

    ایم اے اردو کی تعلیم کے آغاز سے سند لینے تک ڈاکٹر صاحب کے لیے میرے احساسات اور جذبات وہی تھے جو روز اوّل ان کی کلاس میں بیٹھنے کے بعد تھے اور آج بھی میں اس کے زیرِ اثر ہوں۔ یادوں اور باتوں میں گم ہو کر آپ کو ایک دل چسپ واقعہ بتانا تو بھول ہی گئی۔ آپ بھی پڑھیے۔ ہُوا یوں کہ دورانِ لیکچر ڈاکٹر صاحب نے علامہ اقبال کا ایک شعر سنایا

    زندگانی کی حقیقت کوہکن کے دل سے پوچھ
    جوئے شیر و تیشۂ سنگِ گراں ہے زندگی

    اور سوال کیا کہ اس شعر میں کوہکن سے کون مشہور بزرگ مراد ہیں؟ ایک ہم جماعت نے فوراً کھڑے ہو کر جواب دیا ”فرہاد“

    فرہاد کیوں؟ قیس یا وامق کیوں نہیں؟ ڈاکٹر صاحب نے کمال معصومیت سے پوچھا،
    ”سر وہ نہریں کھودتے تھے نا۔“ انکشاف کی اس ساعت نے دھڑکنیں بے ترتیب کر دی تھیں کہ جانے اس احمقانہ جواب پر ڈاکٹر صاحب کا ردعمل کیا ہو گا؟ کلاس میں سناٹا چھا گیا تھا۔ اس سکوت کو ڈاکٹر صاحب نے توڑا جو نہایت تحمل اور اطمینان سے پُرتجسس لہجے میں دریافت کر رہے تھے ”کیوں؟ کیا وہ PWD میں ملازم تھے؟“ ڈاکٹر صاحب کے برجستہ سوال پر تمام احتیاطیں بالائے طاق رکھ دیں۔ وہ بہت بے ساختہ ہنسی تھی جو باوجود شعوری کوشش کے مجھ سے ضبط نہ ہو سکی۔ ادھر ڈاکٹر صاحب کے لبوں پر دھیمی دھیمی اور بھینی بھینی مسکراہٹ بکھری ہوئی تھی۔ اُس روز دہری مسرت میرے حصّے میں آئی تھی۔ ایک تو ڈاکٹر صاحب کی بذلہ سنجی کی اور دوسرے اپنی فتح کی کہ ڈاکٹر صاحب میری توقع کے عین مطابق ثابت ہوئے تھے، یعنی نہایت شفیق اور مہربان۔

    ڈاکٹر صاحب کو بے شمار اشعار ازبر تھے۔ آپ دورانِ لیکچر ایسے برجستہ شعر سناتے کہ لطف دوبالا ہو جاتا۔ آپ کا شعر خوانی کا انداز بہت اچھا تھا۔ آپ کے لیکچر کے دوران سنے جانے والے بے شمار اشعار مجھے آج بھی یاد ہیں۔ ڈاکٹر صاحب سچ بولنا اور سچ سننا بہت پسند کرتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ نے ایک ٹی وی پروگرام میں کہا تھا، ”ہمارا سب سے بڑا بحران کردار کا بحران ہے۔“ بلاشبہ یہ چھوٹا سا فقرہ عہدِ حاضر کا سب سے بڑا سچ ہے اور المیہ بھی۔ اس ایک جملے میں تمام تر معاشرتی بُرائیاں سمٹ آئی ہیں۔ امتحان میں نقل بھی اسی بحران کا حصہ ہے۔ ایک اور واقعہ یاد آ گیا۔

    ڈاکٹر صاحب کا پرچہ تھا، ڈاکٹر صاحب تو کمرۂ امتحان میں نہیں تھے لیکن ڈاکٹر حسن وقار گل اور پروفیسر رضی صاحب موجود تھے۔ علم و عقل کے ہتھیاروں کے بجائے نقل کے ہتھیاروں سے کام لیا جا رہا تھا، اس پر طرہ بہتان تراشی کا ہنگامہ، ایک تھیلی کے چٹے بٹے اس ہنگامے میں پیش پیش تھے۔ بات اتنی بڑھی کہ ڈاکٹر صاحب نے کہہ دیا میرے کمرے سے کلام پاک اُٹھا کر لائیے۔ اُس روز کئی طلباء و طالبات نقل کرتے ہوئے پکڑے گئے۔ وہ ایک پل واقعی میرے لیے فخر و انبساط کا تھا جب رضی بھائی نے کچھ کہا، میں سمجھی مجھ سے کہہ رہے ہیں لیکن آپ نے کہا کہ ”آپ سے نہیں کہہ رہا، نقل کرنے والوں سے کہہ رہا ہوں، اچھا لکھ رہی ہیں لکھتی رہیے۔“ خدا نہ کردہ اگر اس روز میرا شمار نقل کرنے والوں میں ہوتا تو کیا اس طرح اعتماد سے ڈاکٹر صاحب پر قلم اٹھا رہی ہوتی؟

    جب میں نے کوچۂ صحافت میں قدم رکھا، ایک سروے رپورٹ کے سلسلے میں ڈاکٹر صاحب سے رابطہ کیا تو یہ جان کر بہت خوش ہوئے کہ قلم سے میرا رشتہ محض حصولِ علم تک محدود نہ رہا۔ آپ نے بہت حوصلہ افزائی کی اور جب سخنور کی مجلسِ ادارت سے منسلک ہوئی تو ڈاکٹر صاحب نے بہت خوشی کا اظہار کیا۔ سُخنور کے بارے میں اپنی رائے بھی دیتے۔ اس کے وقتی تعطل پر افسوس کرتے لیکن ہمّت نہ ہارنے کی تلقین بھی کرتے۔

    1932ء میں‌ ڈاکٹر سیّد ابوالخیر کشفی کی زندگی کا جو سفر شروع ہوا تھا، وہ 15 مئی 2008ء کی ایک دوپہر کو اختتام پذیر ہوا۔ مختصر علالت کے بعد ڈاکٹر صاحب اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔

    زبان داں، معلم، ادیب و محقق
    اب و جد تھے مرحوم کے کانپوری
    ابو الخیر کشفی کی تاریخ رحلت
    تھے حق فہم فدوی ابو الخیر کشفی
    (راغبؔ مراد آبادی)

    ڈاکٹر سیّد ابوالخیر کشفی پاکستان کے ممتاز نقّاد، محقق، مترجم اور ماہرِ‌ تعلیم تھے۔ کانپور کے اس خاندان کے سیّد شاہ محمد اکبر جو کشفی صاحب کے دادا تھے، عربی، فارسی اور اردو زبان کے عالم مشہور تھے۔ کشفی صاحب کے والد سیّد ابو محمد ثاقب کانپوری بھی اپنے زمانے کے نامور شاعر تھے۔ تقسیمِ ہند کے بعد کشفی صاحب کراچی آگئے اور جامعہ کراچی سے ایم اے اور پھر پی ایچ ڈی کر کے اسی درس گاہ میں تدریس کا سلسلہ شروع کردیا۔ ان کی کتابوں میں ہمارے عہد کے ادب اور ادیب، جدید اردو ادب کے دو تنقیدی جائزے، ہمارے ادبی اور لسانی مسائل، اردو شاعری کا سیاسی و تاریخی پس منظر شامل ہیں۔

    (تحریر: شائستہ زریں ؔ)

  • کیفی اعظمی: رومان سے انقلاب تک ایک سودائی کا تذکرہ

    کیفی اعظمی: رومان سے انقلاب تک ایک سودائی کا تذکرہ

    کیفی اعظمی نے جب تخلیقی سفر کا آغاز کیا تو ابتدا رومانوی نظموں سے ہوئی، لیکن جلد ہی ان کی فکر اور نظریات کا رُخ سیاست اور انقلاب کی طرف ہوگیا۔ وہ زمانہ ہندوستان میں سیاسی اور سماجی تبدیلیوں کا تھا جب کیفی اعظمی نے کمیونسٹ پارٹی کی رکنیت حاصل کی اور قوم پرست کی حیثیت سے آزادی کے ترانے لکھنے لگے۔ آج اردو کے اس ممتاز شاعر، ادیب اور ترقی پسند تحریک کی نام ور شخصیت کا یومِ وفات ہے۔

    مارکسزم سے متاثر ہونے والے کیفی اعظمی کمیونسٹ پارٹی کے ہمہ وقتی رکن بنے تو اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو انقلابی نظریات اور سیاسی واقعات کو بیان کرنے لیے اس طرح استعمال کیا کہ کئی پُراثر اور سوز و گداز سے بھرپور نظمیں سامنے آئیں۔ انھوں نے عوام کے جذبات اور ان کے دکھ سکھ کو اپنی شاعری میں سمویا اور ان کا کلام مقبول ہونے لگا۔

    کیفی اعظمی انیس، حالی شبلی، اقبال، اور جوش ملیح آبادی سے متاثر رہے اور پھر پیٹ کی خاطر فلموں کے لیے گیت لکھنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ ان کے گیت بہت مقبول ہوئے اور بطور شاعر کیفی اعظمی کو غیر معمولی شہرت ملی۔ کیفی اعظمی فلمی دنیا کے ان گنے چنے شعرا میں سے ہیں جنھوں نے نثر میں بھی خوب رنگ جمایا۔ انھوں نے فلموں کی کہانیاں، مکالمے اور منظر نامے لکھے۔ وہ ممتاز ترقی پسند شعرا میں سے ایک تھے جو زندگی میں مسلسل جدوجہد اور اپنے افکار کی خاطر متحرک رہے۔ غور و فکر کی عادت اور مطالعے کے شوق نے انھیں دنیا بھر کا ادب پڑھنے، مختلف نظریات اور تحریکوں سے آگاہی کا موقع دیا اور انھوں نے بامقصد تخلیقی عمل کو اہمیت دی۔ انھیں رومان پرور شاعر کے طور پر ہی نہیں انسان دوست خیالات رکھنے والا تخلیق کار مانا جاتا ہے۔ عملی طور بھی کیفی اعظمی مزدور تحریک کا حصّہ رہے اور کمیونسٹ پارٹی کے سرگرم رکن کے علاوہ وہ صحافت کے پیشے سے بھی وابستہ رہے۔

    کیفی اعظمی کا تعلق اعظم گڑھ کے ایک گاؤں سے تھا۔ انھوں نے 15 اگست 1918ء کو دنیا میں آنکھ کھولی تھی۔ ان کا اصل نام سیّد اطہر حسین رضوی تھا۔ ان کے والد زمیندار تھے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد لکھنؤ کے مدرسہ بھیجا گیا، لیکن وہاں خامیوں کی نشان دہی کرتے ہوئے انتظامیہ کے خلاف احتجاج پر نام خارج کر دیا گیا۔ بعد میں‌ انھوں نے لکھنؤ اور الہ آباد یونیورسٹیوں سے فارسی میں دبیر کامل اور عربی میں عالم کی اسناد حاصل کیں۔ اسی زمانے میں ایک لڑکی کے عشق میں گرفتار ہوئے اور تب انھیں لکھنؤ چھوڑنا پڑا اور وہ کانپور چلے گئے جو اس وقت شمالی ہندوستان میں مزدوروں کی تحریک کا سب سے بڑا مرکز تھا۔ یہاں وہ مزدوروں کی تحریک سے وابستہ ہو گئے اور یہیں انھوں نے مارکسزم کا مطالعہ کیا۔ جب کیفی کمیونسٹ بن گئے تو سجّاد ظہیر کے ساتھ بمبئی چلے گئے جہاں پارٹی کے ترجمان "قومی جنگ” میں لکھنے لگے۔ 1943ء میں ان کا پہلا مجموعہ کلام شائع ہوا۔ اکتوبر 1945ء میں حیدر آباد میں ترقی پسند مصنفین کی ایک کانفرنس میں ان کی ملاقات شوکت خانم سے ہوئی اور ان سے شادی ہوگئی۔ آزادی کے بعد کمیونسٹ پارٹی پر مختلف قسم کی پابندیاں عائد ہوئیں اور کارکن گرفتار کیے گئے تو کیفی اعظمی کو بھی روپوشی اختیار کی۔

    اس زمانے میں‌ مفلسی نے بھی ان پر مصائب توڑے۔ کیفی نے فلموں کی طرف توجہ کی تو قسمت نے یاوری کی اور فلموں کے گیت لکھنے کے ساتھ ساتھ مکالمے اور منظر نامے بھی لکھے جن کا خوب معاوضہ ملنے لگا۔ انھیں تین فلم فیئر ایوارڈ ملے۔ کاغذ کے پھول، حقیقت، ہیر رانجھا اور گرم ہوا ان کی اہم فلمیں ہیں۔

    زندگی کے آخری ایّام انھوں نے بھارت میں اپنے گاؤں میں گزارے جہاں 10 مئی 2002 کو دل کا دورہ پڑنے سے وفات پاگئے۔

    ان کے کلام سے چند جھلکیاں پیشِ خدمت ہیں۔

    تم اتنا جو مسکرا رہے ہو
    کیا غم ہے جس کو چھپا رہے ہو
    آنکھوں میں نمی ہنسی لبوں پر
    کیا حال ہے، کیا دکھا رہے ہو
    بن جائیں گے زہر پیتے پیتے
    یہ اشک جو پیتے جا رہے ہو
    ریکھاؤں کا کھیل ہے مقدر
    ریکھاؤں سے مات کھا رہے ہو

    یہ گیت آپ نے بھی سنا ہو گا۔

    جھکی جھکی سی نظر بے قرار ہے کہ نہیں
    دبا دبا سا سہی دل میں پیار ہے کہ نہیں
    تو اپنے دل کی جواں دھڑکنوں کو گن کے بتا
    مری طرح ترا دل بے قرار ہے کہ نہیں
    وہ پل کہ جس میں محبت جوان ہوتی ہے
    اُس ایک پل کا تجھے انتظار ہے کہ نہیں

    بولی وڈ کی اعزاز یافتہ اور عالمی شہرت کی حامل اداکارہ شبانہ اعظمی اسی شاعرِ بے بدل کی بیٹی ہیں۔ وہ ایک باکمال اداکارہ ہی نہیں بلکہ اپنے والد کی طرح اپنے نظریات اور سیاسی و سماجی افکار و خدمات کی وجہ سے بھارت میں پہچانی جاتی ہیں۔ کیفی اعظمی اپنی بیٹی کو ‘‘منی’’ کہتے تھے۔ شبانہ اعظمی نے اپنے گھر کے ماحول اور اپنی پرورش سے متعلق ایک انٹرویو میں بتایا تھا، ‘‘میری پرورش جس ماحول میں ہوئی وہاں ہر طرف اشتراکیت اور کارل مارکس کی باتیں ہوتی تھیں۔ والدین ترقی پسند تحریک سے وابستہ تھے۔ بچپن ہی سے گھر ادیبوں، شعرا اور دانش وروں کو قریب سے دیکھنے اور ان کی باتیں سننے کا موقع ملا جس نے میرے ذہن پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ میں روایتی عورت کے مقابلے میں سماج کو الگ انداز سے دیکھنے کی عادی ہوگئی۔ وقت کے ساتھ ادب اور پرفارمنگ آرٹ میں دل چسپی بڑھتی چلی گئی اور پھر میں نے اپنے کیریئر کا آغاز بھی اداکاری سے کیا۔ ابو کے لیے میں ہمیشہ ‘‘منی’’ رہی۔ وہ اسی پیار بھرے نام سے مجھے پکارتے تھے۔ آج بھی مجھے ان کی یاد بہت ستاتی ہے۔ میں نے ہمیشہ انھیں کاغذ قلم کے ساتھ ٹیبل پر جھکا ہوا پایا۔ مجھے کم عمری میں تو معلوم ہی نہیں تھا کہ میرے والد کا کام کیا ہے۔ کچھ شعور آیا تو جانا کہ وہ ایک شاعر ہیں اور فلمی صنعت میں ان کا بہت نام اور مقام ہے۔’’

  • طلعت محمود: ایک کام یاب گلوکار اور ناکام فلمی ہیرو

    طلعت محمود: ایک کام یاب گلوکار اور ناکام فلمی ہیرو

    طلعت محمود نے ابتدا میں اپنی فن کارانہ صلاحیتوں کے اظہار کا ذریعہ لکھنؤ میں ریڈیو جیسے اُس زمانے کے مقبول میڈیم کو بنایا اور سامعین میں مقبول ہونے لگے، لیکن پھر اپنے فن کے قدر دانوں اور خیر خواہوں کے مشورے پر بمبئی کی فلم نگری میں قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ ان کی شہرت اور مقبولیت کا سبب بنا۔ طلعت محمود بمبئی کی فلمی دنیا کے آسمان پر بطور گلوکار چمکے اور خوب چمکے۔

    طلعت محمود کو ہندی سنیما کے لیے گلوکاری کے ساتھ درجن سے زائد فلموں میں اداکاری کا موقع بھی ملا، لیکن اس میدان میں وہ شائقین کی توجہ حاصل نہ کرسکے۔ البتہ ساز و آواز کی دنیا میں‌ طلعت محمود کو وہ شہرت اور پذیرائی حاصل ہوئی جو بہت کم گلوکاروں کا مقدر بنی ہے۔ آج بھی ان کے گائے ہوئے فلمی نغمات بہت ذوق و شوق سے سنے جاتے ہیں۔ بالی وڈ کی فلموں کے لیے کئی گیتوں کو اپنی آواز میں امر کر دینے والے طلعت محمود کی آج برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 9 مئی 1998ء کو انتقال کر گئے تھے۔

    لکھنؤ طلعت محمود کا شہر تھا جہاں انھوں نے 24 فروری 1924ء کو آنکھ کھولی۔ ان کے والد کی آواز بھی اچھی تھی اور وہ نعتیں پڑھا کرتے تھے۔ طلعت محمود نے بھی اپنے والد کا اثر لیا اور چھوٹی عمر میں نعتیں پڑھنا شروع کردیں۔ 1940 میں طلعت محمود 16 برس کے تھے جب آل انڈیا ریڈیو، لکھنؤ پر ان کی آواز میں ایک گیت ریکارڈ کیا گیا۔ یہ ان کے فنی سفر کا آغاز تھا اور 1944 میں جب انھیں ایک غیر فلمی گیت گانے کا موقع ملا جس کے بول تھے، ‘تصویر تیری دل میرا بہلا نہ سکے گی’ تو کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ گیت ان کی وجہِ شہرت بن جائے گا۔ طلعت محمود کو ہندوستان بھر میں اس گیت کی بدولت شہرت حاصل ہوئی۔

    وہ ہندوستان کے ایک ایسے مسلمان خاندان کے فرد تھے جس میں فلمیں اور اس کے لیے گانا بجانا معیوب سمجھا جاتا تھا، سو طلعت محمود کو بھی ابتدا میں اپنے گھر اور خاندان میں مخالفت کا سامنا کرنا پڑا، لیکن انھوں نے کسی طرح گھر والوں کو رضامند کرلیا اور اپنا سفر جاری رکھا۔ طلعت محمود شکل و صورت کے اچھے تھے اور اسی لیے انھیں بطور ہیرو بھی فلموں میں سائن کیا گیا، لیکن وہ اس میدان میں کام یاب نہ ہوسکے۔ فلم لالہ رخ، ایک گاؤں کی کہانی، دیوالی کی رات، وارث، سونے کی چڑیا، ٹھوکر میں طلعت محمود نے اپنے وقت کی مشہور ہیروئنوں کے ساتھ کام کیا تھا۔ ان اداکاراؤں میں نوتن، مالا سنہا اور ثریا شامل ہیں۔

    بھارتی فلم انڈسٹری میں بہ طور گلوکار اُن کی پہچان بننے والا نغمہ فلم آرزو کا ‘‘اے دل مجھے ایسی جگہ لے چل جہاں کوئی نہ ہو’’ تھا۔ ایک اور کام یاب فلم داغ کے لیے انھوں نے ‘‘اے میرے دل کہیں اور چل’’ اور ‘‘ہم درد کے ماروں کا’’ جیسے گیت ریکارڈ کروائے جو بہت مقبول ہوئے۔

    اپنی فلمی زندگی میں طلعت محمود نے سب سے زیادہ گانے دلیپ کمار کی فلموں کے لیے ہی گائے: جیسے شامِ غم کی قسم یا حسن والوں کو، اور یہ ہوا یہ رات یہ چاندنی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

    طلعت محمود نے اکثر المیہ گانے گائے ہیں، اور اسی لیے ان کو دکھ اور کرب کا ترجمان کہا جاتا ہے۔ گلوکار طلعت محمود کو بھارت میں فلم فیئر ایوارڈ کے علاوہ حکومت کی جانب سے پدما بھوشن ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔

  • نرگس میں وہ چیز نہیں تھی جسے عام فلمی زبان میں گلیمر کہتے ہیں!

    نرگس میں وہ چیز نہیں تھی جسے عام فلمی زبان میں گلیمر کہتے ہیں!

    ممتاز ترقی پسند شاعر اور مصنّف علی سردار جعفری اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں‌ کہ نرگس دَت موسمِ بہار کی کلی تھی۔ شہرت اور مقبولیت کی ایک خرابی بتاتے ہوئے انھوں نے فلمی ستاروں‌ کے بارے میں لکھا، وہ اپنا توازن کھو دیتے ہیں اور فن اور زندگی کے دوسرے شعبوں کی بڑی ہستیوں کو خاطر میں نہیں لاتے اور جب ان کے عروج کا زمانہ ختم ہو جاتا ہے تو احساسِ کمتری میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ لیکن نرگس کا مزاج یہ نہیں تھا۔ اس نے اپنی انتہائی مقبولیت کے زمانے میں بھی اپنے ذہنی توازن کو برقرار رکھا اور اپنی شخصیت کے وقار کو باقی رکھا۔ آج اسی نرگس دَت کا یومِ‌ وفات ہے جن کا اصل نام فاطمہ رشید تھا۔

    ہندی سنیما کی یہ معروف فن کار فلم انڈسٹری میں نرگس کے نام سے پہچانی گئیں۔ وہ یکم جون 1929 کو کلکتہ میں پیدا ہوئی تھیں۔ نرگس چھے سات برس کی تھیں‌ جب بطور چائلڈ آرٹسٹ کیمرے کا سامنا کیا اور وہ فلم ’’تلاشِ حق‘‘ تھی۔ نرگس کی ماں کا نام جدن بائی تھا جو کلاسیکی موسیقار اور گلوکار تھیں اور ان کا تعلق بنارس کے ایک خاندان سے تھا جب کہ والد موہن چند ایک امیر خاندان کے فرد تھے اور کہا جاتا ہے کہ وہ ایک نو مسلم تھے۔ نرگس کو 14 سال کی عمر میں محبوب خان کی فلم ’’تقدیر‘‘ میں بطور ہیروئن کام کرنے کا موقع ملا اور ان کی جوڑی راج کپور اور دلیپ کمار کے ساتھ آنے والے برسوں‌ میں بے حد مقبول ہوئی۔ راج کپور اور دلیپ کمار دونوں‌ ہی اپنے دور کے مقبول ہیرو تھے۔ نرگس نے ان کے ساتھ فلم’’ انداز‘‘، ’’آوارہ‘‘ اور ’’چوری چوری‘‘ میں بہترین اداکاری کی۔ مگر ان کا کیریئر 1942ء میں فلم “تمنا“ سے شروع ہوتا ہے۔ اداکارہ نرگس نے زیادہ تر خودمختار اور آزاد عورت کے کردار نبھائے اور اپنے فنِ اداکاری کے سبب ہدایت کاروں میں اہمیت حاصل کی۔ آدھی رات (1950ء)، بے وفا (1952ء)، انہونی (1952ء)، آہ (1953ء) اور دیگر فلموں میں ان کی اداکاری کو شائقین نے بہت پسند کیا۔ ایک وقت تھا جب وہ راج کپور جیسے بڑے ہندوستانی فن کار کے قریب ہوگئی تھیں‌، لیکن پھر ان میں‌ ان بن ہوگئی اور نرگس نے اپنے کیریئر کو آگے بڑھانے پر توجہ مرکوز کردی تاہم یہی وہ موڑ بھی تھا جس نے نرگس کو سنیل دت کی محبّت میں مبتلا کردیا۔ نرگس نے راج کپور سے علیحدگی کے بعد پہلی فلم مدر انڈیا سائن کی تھی۔ اس فلم میں نرگس نے اپنی زندگی کی بہترین اداکاری کی۔ یہ فلم ایک عورت کی نوجوان بیوی سے بڑھاپے تک کے سفر کی کہانی ہے، جس میں رومانس تو ہے ہی لیکن ساتھ ساتھ عورت کی استقامت بھی بیان کی گئی ہے جس میں ایک ماں اپنے ہی بیٹے کو گولی مارنے سے گریز نہیں کرتی۔ اس فلم نے انھیں‌ ملک گیر شہرت دی اور مدر انڈیا کے بعد نرگس کے لیے ہر کردار چھوٹا ہو گیا۔ یہ ہندوستانی سنیما کی شاہ کار فلموں میں سے ایک تھی۔ اسی فلم میں‌ سنیل دت نے بھی کردار نبھایا تھا اور وہ دونوں ایک دوسرے کے قریب آئے۔

    اس فلم کی زیادہ تر شوٹنگ مہاراشٹرا اور گجرات میں کی گئی تھی اور اسی دوران ایک حادثہ انھیں قریب لے آیا۔ گجرات میں مدر انڈیا کے ایک سین میں بھوسے کے ڈھیر کو آگ لگائی جانی تھی جس میں‌ چھپے سنیل دت باہر آتے۔ اس موقع پر نرگس جلتے ہوئے بھوسے کے ڈھیر سے گزر رہی تھیں تو شعلوں میں پھنس گئیں۔ سنیل دت نے یہ دیکھا تو شعلوں‌ میں‌ کود کر نرگس کو بچا لیا۔ وہ اس دوران خود بھی جل گئے تھے۔ نرگس اسپتال میں ان کے ساتھ رہیں اور بہت خیال رکھا۔ بعد میں سنیل دت نے انھیں شادی کی پیشکش کی اور پھر دونوں نے زندگی بھر ایک دوسرے کا ساتھ نبھایا۔ اداکار سنجے دت انہی کی اولاد ہیں۔

    شادی کے بعد اداکارہ نرگس نے فلموں میں کام کرنا چھوڑ دیا اور اپنا رخ سماجی کاموں کی طرف کرلیا۔ نرگس نے ایک اچھی بیوی کی طرح نہ صرف سنیل دت کو سنبھالا بلکہ ان کے خاندان کو بھی ایک کیے رکھا۔ وہ سیاست کی دنیا میں بھی سرگرم ہوئیں اور نرگس کو راجیا سبھا کے لیے نامزد کیا گیا تھا۔ نرگس کو کینسر کا مرض لاحق ہو گیا تھا اور پھر 1981ء میں آج ہی کے دن وہ اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے چلی گئیں۔

    علی سردار جعفری لکھتے ہیں، نرگس کے چہرے میں وہ چیز نہیں تھی جس کو عام فلمی زبان میں گلیمر (GLAMOUR) کہا جاتا ہے۔ اس کی پوری شخصیت میں ایک سنجیدگی اور وقار تھا جس کی وجہ سے لوگ احترام کرنے پر مجبور ہو جاتے تھے۔ نرگس کے فن کے پرستاروں میں جواہر لال نہرو اور ترکی کے شاعر ناظم حکمت جیسی عظیم شخصیتیں تھیں۔

    میں نے نرگس کو ایک اچھی اداکارہ کی حیثیت سے سب سے پہلے قریب سے احمد عباس کی فلم ‘انہونی’ میں دیکھا جس کا ایک گیت "دل شاد بھی ہے ناشاد بھی ہے” میں نے لکھا تھا۔ اس میں نرگس کا رول دہرا تھا اور اس نے اپنے فن کے کمال کا پہلا بڑا مظاہرہ کیا تھا۔ اس نے دو لڑکیوں کا کردار ادا کیا تھا جن میں سے ایک "شریف زادی” ہے اور دوسری "طوائف”۔ خواجہ احمد عباس نے اس کہانی میں ماحول کے اثر پر زور دیا تھا۔ یہ فلم عباس کی بہترین فلموں میں شمار کی جاتی ہے۔ اور اس کا شمار نرگس کی بھی بہترین فلموں میں کیا جائے گا۔

    نرگس کے فن میں کیا جادو تھا اس کا مظاہرہ میں نے 1953ء میں دیکھا۔ اکتوبر یا نومبر 1953ء میں پہلا فلمی ڈیلیگیشن ہندوستان سے سوویت یونین گیا۔ ڈیلیگیشن کے لیڈر خواجہ احمد عباس تھے۔ اور اراکین میں بمل رائے، راج کپور، نرگس بلراج ساہنی وغیرہ تھے۔ وہاں راج کپور کی فلم ‘آوارہ’ دکھائی گئی جس کی کہانی خواجہ احمد عباس نے لکھی تھی۔ اس فلم نے سارے سوویت یونین کا دل جیت لیا۔ راج کپور اور نرگس، نرگس اور راج کپور۔ یہ دو نام ہر دل کے ساتھ دھڑک رہے تھے۔ اور ہر طرف فلم کا گانا ‘آوارہ ہوں…ٔ گایا جا رہا تھا۔

    جب میں دسمبر 1953ء میں سوویت یونین گیا تو لوگ مجھ سے پوچھتے تھے آپ نرگس کو جانتے ہیں۔ آپ راجک پور سے ملے ہیں؟ اور جب میں ہاں کہتا تو ان کی نظروں میں میرا وقار بڑھ جاتا تھا۔ ابھی دو تین ماہ پہلے جب میں سوویت یونین گیا تو تقریباً تیس سال بعد بھی نئی نسل کے نوجوان نرگس کے نام سے واقف تھے۔

    نرگس کی آخری اور شہکار فلم ‘مدر انڈیا’ ہے۔ اس میں نرگس کے فن نے اپنی آخری بلندیوں کو چھو لیا ہے۔ ماں کے کردار کے لیے محبوب خاں کی نگاہِ انتخاب نرگس پر پڑی اور وہ سب سے زیادہ صحیح انتخاب تھا۔ اور نرگس نے بھی کمال کر دیا۔ اپنی معراج پر پہنچنے کے بعد نرگس نے فلمی کام ہمیشہ کے لیے ترک کر دیا۔ اس فیصلے میں بھی نرگس کی عظمت جھلکتی ہے۔ وہ چیز جس کو "موہ مایا” کہا جاتا ہے نرگس اس سے بہت بلند تھی۔

    علی سردار جعفری کے مضمون کا یہ آخری پارہ ہے جس میں انھوں نے نرگس اور سنیل دت کی جوڑی کی تعریف کی ہے، وہ لکھتے ہیں: مدر انڈیا نے نرگس کو عظمت کی جو بلندی عطا کی اس کے ساتھ ایک وفادار اور محبت کرنے والا شوہر بھی دیا۔ نرگس کی بیماری کے آخری زمانے میں سنیل دَت نے جس طرح اپنے تن من دھن کے ساتھ نرگس کی خدمت کی ہے اس کی تعریف کرنے کے لیے ہماری زبان میں الفاظ نہیں ہیں۔ نرگس اور سنیل دَت کا فن ان کے بیٹے کو ورثے میں ملا ہے اور اگر سنجے دَت نے اپنی اس وراثت کا احترام کیا تو ایک دن وہ بھی عظمت کی بلندیوں کو چُھو لے گا۔

  • فاتحِ قسطنطنیہ محمد ثانی جو عالمِ‌ اسلام میں عظیم مجاہد اور فاتح مشہور ہیں

    فاتحِ قسطنطنیہ محمد ثانی جو عالمِ‌ اسلام میں عظیم مجاہد اور فاتح مشہور ہیں

    سلطنتِ عثمانیہ کے حکم رانوں‌ میں سلطان محمد ثانی کا امتیاز فتحِ قسطنطنیہ ہے جس نے عالمِ اسلام میں انھیں‌ وہ عزّت، احترام اور مقام و مرتبہ دیا جو بہت کم سلاطین کو نصیب ہوا ہے۔ وہ سلطان محمد فاتح کے نام سے مشہور ہوئے۔ محمد فاتح کو نہ صرف اسلامی دنیا بلکہ تاریخِ عالم میں بھی ایسے حکم راں کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا جس کی فتح کے ساتھ ہی صدیوں پرانی بازنطینی سلطنت کا خاتمہ ہوگیا تھا۔ آج سلطان محمد فاتح کا یومِ وفات ہے۔

    فتحِ قسطنطنیہ وہ خواب تھا جس کے لیے مسلمانوں کو سات سو سال انتظار کرنا پڑا اور اس عرصہ میں متعدد فوجی مہمّات اور لشکر کشی کی کوششیں ناکام ہوگئی تھیں‌ سلطان محمد فاتح کی قیادت میں اس فتح نے جہاں ترکوں‌ کی سلطنت اور اقتدار کو توقیر اور وسعت بخشی وہیں‌ 1480ء برس تک قائم رہنے والا اقتدار زوال پذیر ہوگیا۔ یہ فتح مسلمانوں اور عیسائیوں کے لیے مذہبی، سیاسی اور معاشرتی طور پر نہایت گہرے اثرات کی حامل تھی جس میں‌ ایک طرف مسلمانوں‌ میں‌ خوشی اور دوسری طرف صلیبیوں‌ کو بڑا صدمہ پہنچا۔

    سلطان محمد فاتح 3 مئی 1481ء کو انتقال کر گئے تھے۔ وہ استنبول میں فاتح مسجد کے احاطے میں ابدی نیند سو رہے ہیں۔ سلطان صرف اپنی فتوحات کی وجہ سے مشہور نہیں ہیں بلکہ انتظامِ سلطنت اور اپنی قابلیت کے باعث بھی جانے جاتے ہیں۔ ان کا دورِ حکومت رواداری اور برداشت کے لیے مشہور رہا۔ 1432ء میں ادرنہ میں‌ پیدا ہونے والے محمد ثانی نے نوجوانی میں‌ سلطنت سنبھالی اور عثمانی فوج کی قیادت کرتے ہوئے محض 21 سال کی عمر میں‌ 1453ء میں قسطنطنیہ فتح کیا جسے آج استنبول کہا جاتا ہے۔ عثمانی فوج کا کئی روزہ محاصرہ اور گولہ باری کے بعد اس فتح کو اُس وقت شہر میں موجود اطالوی طبیب نکولو باربیرو نے یوں‌ بیان کیا کہ سفید پگڑیاں باندھے ہوئے حملہ آور جاں نثار دستے ’بے جگری سے شیروں کی طرح حملہ کرتے تھے اور ان کے نعرے اور طبلوں کی آوازیں ایسی تھیں جیسے ان کا تعلق اس دنیا سے نہ ہو۔’

    اس روز فتح کے بعد جب سلطان محمد شہر میں‌ داخل ہوئے تو وہ سفید گھوڑے پر بیٹھے ہوئے تھے اور ان کا لشکر مع وزراء اور عمائد سب سے بڑے گرجا آیا صوفیہ پہنچا جہاں سلطان نے صدر دروازے پر اتر کر ایک مٹھی خاک اپنی پگڑی پر ڈالی اور بعد میں اسے مسجد میں‌ تبدیل کر دیا گیا۔ اس فتح کے بعد عثمانی سلطنت اپنے بامِ عروج پر پہنچی اور ترکوں نے اگلی چار صدیوں تک تین براعظموں، ایشیا، یورپ اور افریقہ کے مختلف حصّوں پر حکومت کی۔

    محمد فاتح سلطنتِ عثمانیہ کے ساتویں سلطان تھے۔ انھوں نے اپنے دور حکومت میں اینز، گلاتا اور کیفے کے علاقے عثمانی سلطنت میں شامل کیے جب کہ محاصرۂ بلغراد میں بھی حصہ لیا جہاں وہ شدید زخمی ہوگئے تھے۔ 1458ء میں ان کی سلطنت میں موریا کا بیشتر حصّہ اور ایک سال بعد سربیا شامل ہوا۔ 1461ء میں اور اس کے بعد کئی علاقے ترکوں‌ کے زیرِ نگیں‌ ہوئے۔

    محمد ثانی کی پیدائش کے وقت ادرنہ سلطنتِ عثمانیہ کا دارُالحکومت تھا۔ ان کے والد سلطان مراد ثانی اور والدہ کا نام ہما خاتون تھا۔ وہ 11 سال کے تھے جب انھیں اماسیہ بھیج دیا گیا، جہاں محمد ثانی نے حکومت اور انتظامی امور کے ساتھ فنون سیکھے اور تربیت حاصل کی۔ 1451ء میں اپنے والد سلطان مراد ثانی کی وفات کے بعد سلطان محمد ثانی نے دوسری مرتبہ تخت سنبھالا اور سلطنتِ عثمانیہ کو دنیا بھر میں عظمت اور امتیاز عطا کیا۔

    اناطولیہ اور پھر قسطنطنیہ کی فتوحات کے بعد اسے اپنا دارُ الحکومت قرار دے کر محمد ثانی نے یورپ کی طرف پیش قدمی کی اور کئی کام یاب مہمّات کے علاوہ چند علاقوں‌ میں‌ شکست بھی ہوئی، لیکن ان کے دور میں‌ عثمانی سلطنت کا رقبہ خاصا وسیع ہوگیا تھا۔

    محمد ثانی کے بارے میں‌ کہا جاتا ہے کہ وہ علم و ہنر کے قائل اور علما و ہنر مندوں کے سرپرست تھے۔ انھوں نے قسطنطنیہ کی فتح کے بعد اٹلی کے مصوروں اور یونانی دانشوروں کو اپنے دربار میں‌ بلایا اور سب کو اس شہر میں‌ بسنے کی اجازت دی اور بلاتفریق علم و فنون میں‌ یکتا اور قابل شخصیات کو نوازا۔ ان میں سائنس دان، ادیب اور ہنرمند سبھی شامل تھے۔

    محمد ثانی کا دور رواداری اور برداشت کا دور سمجھا جاتا ہے جس میں مفتوح بازنطینیوں کے ساتھ نیک اور مثالی سلوک کیا گیا۔ اس دور میں مسیحیوں اور یہودیوں کو ہر قسم کی آزادی اور خود مختاری حاصل تھی۔

  • یومِ وفات: تذکرہ خواہ مخواہ کا….

    یومِ وفات: تذکرہ خواہ مخواہ کا….

    اردو شاعری میں طنز و مزاح کی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے خواہ مخواہ حیدر آبادی اُن بزلہ سنج شعرا میں شامل ہوئے جنھیں لوگوں نے سندِ قبولیت بخشی اور ان کی سخن طرازیوں پر خوب داد و تحسین سے نوازا۔ آج اس مزاح گو شاعر کی برسی منائی جارہی ہے۔

    نثر یا نظم میں‌ طنز و مزاح کسی بھی معاشرے کے افراد میں جہاں برداشت، تحمل اور بردباری پیدا کرتا ہے، وہیں‌ ان کو زندہ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے زندگی کے آزار سے دور اور پھیکے پن سے نکل کر لمحۂ موجود کو خوش گوار بنانے پر آمادہ کرتا ہے۔ اگر یہ کوشش کوئی شاعر کرے اور اس میں‌ کام یاب ہوجائے تو وہ مقبول بھی ہوجاتا ہے۔ غوث خواہ مخواہ حیدرآبادی ایسے ہی شاعر تھے جن کا انتقال 2 مئی 2017ء کو ہوا۔

    ہندوستان اور بیرونِ ممالک مقیم باذوق اور شعر و ادب سے شغف رکھنے والے افراد کی اکثریت خواہ مخواہ حیدرآبادی کی مداح ہے اور دکنی بولی میں ان کے کلام سے لطف اندوز ہوتی رہی ہے۔ خواہ مخواہ حیدرآبادی کو بالخصوص مشاعروں‌ میں‌ بڑے شوق اور توجہ سے سنا جاتا تھا۔ خواہ مخواہ حیدرآبادی کے اوراقِ‌ زیست کو الٹتے ہوئے طنز و مزاح‌ سے متعلق ڈاکٹر وزیر آغا کی یہ رائے بھی پڑھیے: ’’مزاح نگار اپنی نگاہِ دوربین سے زندگی کی ان ناہمواریوں اور مضحک کیفیتوں کو دیکھ لیتا ہے جو ایک عام انسان کی نگاہوں سے اوجھل رہتی ہیں۔ دوسرے ان ناہمواریوں کی طرف مزاح نگار کے ردعمل میں کوئی استہزائی کیفیت پیدا نہیں ہوتی۔ بلکہ وہ ان سے محظوظ ہوتا اور اس ماحول کو پسند بھی کرتا ہے جس نے ان ناہمواریوں کو جنم دیا ہے۔ چنانچہ ان ناہمواریوں کی طرف اس کا زاویۂ نگاہ ہمدردانہ ہوتا ہے۔ تیسرے یہ کہ مزاح نگار اپنے ’’تجربے‘‘ کے اظہار میں فن کارانہ انداز اختیار کرتا ہے اور اسے سپاٹ طریق سے پیش نہیں کرتا۔‘‘ خواہ مخواہ حیدرآبادی نے بھی زندگی اور مسائل کو فن کارانہ طریقے سے اپنے کلام میں‌ پیش کیا اور اسے ہر طرح‌ کے ابتذال اور سطحی پن سے بھی دور رکھا۔

    خواہ مخواہ حیدرآبادی 1928ء میں حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے۔ وہ نوجوانی میں‌ مشاعرے پڑھنے لگے تھے اور دکن میں‌ اپنی اردو اور دکنی زبان میں‌ مزاحیہ شاعری کے باعث لوگوں میں بہت مقبول ہوئے۔ انہیں مزاحیہ مشاعروں میں خاص طور پر مدعو کیا جاتا تھا بلکہ وہ ہندوستان کے مزاحیہ مشاعروں کا جزوِ لازم تھے۔ خواہ مخواہ ان شعرا میں سے تھے جن کا دکنی زبان مں کلام زباں زدِ عام ہوا۔ ’’نئیں بولے تو سنتے نئیں‘‘ اس شاعر کا وہ کلام ہے جسے ہندوستان اور بیرونِ ملک منعقدہ مشاعروں‌ میں ہمیشہ فرمائش کرکے سنا جاتا تھا۔

    ان کا اصل نام غوث محی الدّین احمد تھا۔ ابتدائی تعلیم حیدرآباد دکن میں پائی اور اردو میڈیم میں ہائی اسکول کا امتحان پاس کیا۔ غوث خواہ مخواہ کو بالخصوص مشرقِ وسطیٰ کے مختلف ممالک میں منعقدہ مشاعروں میں مدعو کیا جاتا تھا اور وہاں تارکینِ وطن کی بڑی تعداد انھیں بڑے شوق سے سنتی تھی۔ ان میں‌ پاک و ہند کے لوگوں کے ساتھ بنگلہ دیشی اور دیگر ممالک کے اردو سمجھنے والے افراد شامل ہیں۔ فالج کے حملے کے بعد اپنی مزاحیہ شاعری سے لوگوں کو ہنسنے پر مجبور کر دینے والے خواہ مخواہ حیدرآبادی چلنے پھرنے معذور اور بولنے سے قاصر تھے۔ خواہ مخواہ حیدرآبادی کی تصانیف میں ’’حرفِ مکرر‘‘، ’’بفرضِ محال‘‘اور ’’کاغذ کے تیشے‘‘ شامل ہیں۔

  • خودکشی کرنے والے گوئبلز کا تذکرہ جو پروپیگنڈے کا ماہر تھا

    خودکشی کرنے والے گوئبلز کا تذکرہ جو پروپیگنڈے کا ماہر تھا

    سیاست اور جمہوریت کی تاریخ‌ میں جوزف گوئبلز بہت بدنام ہیں‌۔ وہ ایک ایسے بااثر جرمن وزیر تھے جن کا کام پروپیگنڈہ کرنا تھا۔

    گوئبلز نے نازی دور میں‌ جرمنی کے عوام کو ہٹلر کی حکومت اور اس پالیسیوں کی حمایت پر قائل کرنے کے لیے کئی جھوٹ گھڑے اور وہ باتیں‌ مشہور کیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہ تھا، لیکن وہ سب ہٹلر کی حکومت کو درست اور جرمن قوم کا نجات دہندہ بتاتے تھے۔ گوئبلز نے 1945ء میں‌ آج ہی کے دن اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا تھا۔

    وزیر برائے پروپیگنڈہ جوزف گوئبلز کے بہت سے جھوٹ جرمن عوام کے دلوں میں یہودیوں کے خلاف نفرت کو بڑھانے کا سبب بنے اور ان کے پروپیگنڈے نے لوگوں‌ پر ہٹلر کی عظمت کی دھاک بٹھائی اور وہ اس کے عقیدت مند بن گئے۔

    جوزف گوئبلز 29 اکتوبر 1897 کو جرمنی کے شہر راہٹ میں ایک کیتھولک عقیدے کے حامل فریڈرک گوئبلز کے گھر پیدا ہوئے۔ ان کے والد فیکٹری میں کلرک کے طور پر خدمات انجام دیتے تھے۔ گوئبلز کی والدہ کا نام کیتھرینا ماریا اوڈن تھا اور وہ اس جوڑے کی پانچ اولادوں میں‌ سے ایک تھے۔ بچپن میں پولیو وائرس سے متأثر ہونے کی وجہ سے گوئبلز لنگڑا کر چلتے تھے۔ اس نوجوان نے 1920 میں ہائیڈلبرگ یونیورسٹی سے جرمن ادب میں‌ تعلیمی سند حاصل کی۔ وہ ایک ایسے قوم پرست تھے جو اس معاملے میں‌ نہایت سفاک بھی تھا۔ پہلی عالمی جنگ چھڑی تو گوئبلز پولیو سے متأثر ہونے کی وجہ سے فوج میں بھرتی نہ کیا گیا۔ زمانۂ طالب علمی میں وہ سوشلسٹ اور کمیونسٹ خیالات کے بھی حامل رہے اور جوانی میں اینٹی بورژوا رہے جب کہ نازی پارٹی میں شمولیت کے بعد گوئبلز بھی قومی امتیاز اور جرمنوں کے احساسِ برتری کا شکار ہوگئے۔ کہا جاتا ہے کہ اس سے قبل وہ اپنے یہودی اساتذہ کی بڑی قدر کرتے تھے اور ان کے دل میں‌ کسی کے لیے نفرت نہیں‌ تھی۔ 1931ء میں میگڈا رِٹشل نامی ایک امیر گھرانے کی خاتون سے شادی کرنے کے بعد وہ چھے بچّوں کے باپ بنے۔

    نازی پارٹی میں شمولیت کے بعد جوزف گوئبلز کی زندگی بدل گئی اور وقت کے ساتھ وہ ترقی کرتے ہوئے پارٹی اور اقتدار میں‌ بارسوخ‌ بنے۔ جوزف گوئبلز ایک اعلیٰ پائے کے خطیب تھے اور ان کی یہی صلاحیت پارٹی میں انھیں سب کے درمیان نمایاں کرتی چلی گئی اور گوئبلز کو کئی اہم ذمہ داریاں سونپی گئیں۔ وہ ہٹلر کے قریب ہوتے چلے گئے اور گوئبلز کی لکھی ہوئی تقاریر عوام میں بہت مقبول ہوئیں‌ جو ہٹلر کے سامنے ان کی بڑی خوبی تھی، جھوٹ کو کسی خاص پیرائے میں بیان کرنا اور پراپیگنڈہ میں گوئبلز کی مہارتوں‌ سے ہٹلر بہت متاثر تھا۔ 1926 میں ہٹلر نے گوئبلز کو برلن میں نازی پارٹی کا ضلعی راہ نما مقرر کر دیا۔ نازیوں کے اقتدار پر قبضے کے بعد گوئبلز نے قومی سطح پر پراپیگنڈہ کا آغاز کیا اور اس کام کے مؤثر اور بھرپور نتائج کے حصول کی غرض سے عوامی روشن خیالی کے نام پر وزارت قائم کی گئی جسے ’چیمبر آف کلچر‘ کی شکل میں عامل بنایا گیا اور گوئبلز کو اس کا صدر بنا دیا گیا۔ ایک آمر اور مطلق العنان حکم راں‌ کے دور میں‌ گوئبلز کی یہ وزارت پریس اور فنونِ‌ لطیفہ کو کنٹرول کرتی رہی اور ان میڈیموں‌ کے ذریعے عوام کی ذہن سازی اور پراپیگنڈہ کیا جاتا تھا۔ گوئبلز نے ہٹلر کو جرمن عوام میں مسیحا اور نازیوں کو قوم اور ملک کا اصل محافظ ثابت کرنے کی کوشش کی۔ گوئبلز کی انہی کوششوں‌ کے نتیجے میں نازی ازم کو جرمنی میں پذیرائی حاصل ہوئی اور وہاں‌ یہودیوں‌ سے نفرت بڑھی۔ گوئبلز نے ہٹلر کے مقاصد کی تکمیل کے لیے ریڈیو اور فلم کے اہم میڈیم کو استعمال کیا۔ ریلیوں، نازیوں کی تقاریر اور دیگر تقریبات کی فلمیں میٹنگوں میں دکھائی جانے لگیں اور مخالف جماعتوں اور گروہوں کے خلاف عوام کے دل میں‌ نفرت کے جذبات کو ہوا دی جاتی رہی۔

    یہ گوئبلز ہی تھا جس نے 1932ء میں ہٹلر کی صدارتی انتخابی مہم جدید انداز سے چلائی۔ لیکن ہٹلر انتخابات ہار گئے۔ اس کے باوجود جرمن پارلیمان میں نازی پارٹی کی نمائندگی میں اضافہ ہوا اور وہ سب سے بڑی جماعت بنی۔ جرمنی میں مخلوط حکومت کے قیام کے بعد ہٹلر کو چانسلر مقرر کیا گیا اور 35 سال کی عمر میں گوئبلز کابینہ میں سب سے کم عمر وزیر کے طور پر شامل تھے۔

    1937ء اور 1938ء میں گوئبلز کا اثر و رسوخ مختلف وجوہات کی بنا پر کچھ کم ہو گیا تھا۔ یکم مئی کو گوئبلز نے اپنے تمام بچّوں کو زہر دینے کے بعد اہلیہ سمیت خود کو بھی موت کے سپرد کر دیا اور یوں اس کے ساتھ ہی کئی راز اور بہت سے جھوٹ ہمیشہ کے لیے منوں‌ مٹی تلے دب گئے۔