Tag: مئی وفات

  • شاہد احمد دہلوی: منفرد اسلوب کے حامل ادیب کا تذکرہ

    شاہد احمد دہلوی: منفرد اسلوب کے حامل ادیب کا تذکرہ

    اردو کے صاحبِ طرز ادیب شاہد احمدد ہلوی نے 27 مئی 1967ء کو زندگی کا سفر تمام کیا تھا۔ آج ان کی برسی ہے۔ وہ ایک خاکہ نگار، تذکرہ نویس، مدیر، مترجم اور ماہرِ موسیقی تھے۔

    ان کا تعلق ایک ایسے علمی و ادبی گھرانے سے تھا جس نے اردو ادب کو اپنی نگارشات کی صورت میں مالا مال کیا تھا۔ شاہد احمد دہلوی نام وَر ادیب اور ناول نگار ڈپٹی نذیر احمد کے پوتے، معروف ادیب مولوی بشیر الدین احمد کے فرزند تھے۔

    شاہد احمد دہلوی مشہور ادبی مجلّہ ’’ساقی‘‘ کے مدیر تھے۔ موسیقی سے انھیں عشق تھا اور لکھنا پڑھنا ان کا بہترین مشغلہ۔ دہلی کی بامحاورہ زبان اور اس کا چٹخارہ ان کے اسلوب کا خاصہ ہے۔ ان کی دو کتابیں ’’دہلی کی بپتا‘‘ اور ’’اجڑا دیار‘‘ ان کے اسلوب کی انفرادیت اور قلم کی رنگارنگی کی مثال ہیں۔ ان کے خاکوں کا پہلا مجموعہ ’’گنجینۂ گوہر‘‘ 1962ء میں شایع ہوا اور ’’بزمِ خوش نفساں‘‘ اور ’’طاقِ نسیاں‘‘ ان کی وفات کے بعد منظرِ عام پر آئے۔ ’’دِلّی جو ایک شہر تھا‘‘ اور ’’چند ادبی شخصیتیں‘‘ ان کی دو اہم کتابیں ہیں اور کئی تراجم ان کی زبان دانی اور قابلیت کا نمونہ ہیں۔

    شاہد احمد دہلوی نے رسالہ ’’ساقی‘‘ 1930ء میں دہلی سے جاری کیا تھا اور 1947ء میں ہجرت کر کے پاکستان آئے تو یہاں دوبارہ اسی پرچے کا آغاز کیا۔ 1959ء میں پاکستان رائٹرز گلڈ بنی تو شاہد احمد دہلوی کی کوششیں بھی اس میں شامل تھیں۔ وہ ترقّی پسند تحریک میں شامل رہے اور خوب کام کیا۔

    انھوں نے انگریزی کی متعدد کتب اردو زبان میں منتقل کیں۔ ان میں‌ کہانیاں اور بچّوں کی تعلیم و تربیت سے متعلق کتب اور مضامین بھی شامل ہیں جو ہر لحاظ سے اہم ہیں۔ دہلی گھرانے کے مشہور استاد، استاد چاند خان سے شاہد احمد دہلوی نے موسیقی کی باقاعدہ تربیت حاصل کی تھی۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ یہاں آئے تو ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہو گئے تھے، جہاں وہ ایس احمد کے نام سے موسیقی کے پروگرام پیش کیے۔ شاہد احمد دہلوی نے موسیقی کے موضوع پر بھی لاتعداد مضامین رقم کیے جن کا مجموعہ’’ مضامینِ موسیقی‘‘ کے نام سے اشاعت پذیر ہوا۔

    شاہد احمد دہلوی زبان پر بڑی قدرت رکھتے تھے۔ خصوصاً دلّی کی ٹکسالی زبان پر۔ شاید اس معاملے میں ان کا کوئی حریف نہ تھا۔ ان کا منفرد اسلوب اور ٹکسالی زبان کبھی فراموش نہیں کی جاسکتی۔ حکومت پاکستان نے شاہد احمد دہلوی کو ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں صدارتی اعزاز برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

  • کار ڈرائیور کی بیٹی ناصرہ جس نے "رانی” کے نام سے شہرت حاصل کی

    کار ڈرائیور کی بیٹی ناصرہ جس نے "رانی” کے نام سے شہرت حاصل کی

    رانی کا اصل نام ناصرہ تھا جو اپنے وقت کی مشہور گلوکارہ مختار بیگم کے ڈرائیور کی بیٹی تھی۔ رانی کو مختار بیگم نے پالا اور ان کے ساتھ رہتے ہوئے رانی نے رقص سیکھا اور بطور اداکارہ فلمی دنیا میں قدم رکھا جہاں شہرت اور مقبولیت اس کا مقدر بنی، لیکن رانی اپنی ازدواجی زندگی کے دکھوں اور صدمات سے ایسی نڈھال ہوئی کہ کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہوگئی اور زندگی کا سفر تمام کیا۔

    1941 میں‌ لاہور میں‌ پیدا ہونے والی رانی اردو اور پنجابی فلموں کی مصروف اداکارہ تھی۔ اردو فلموں کی بات کریں تو بطور اداکارہ رانی کی پہلی فلم ہدایت کار انور کمال پاشا کی فلم محبوب تھی جس میں وہ شمیم آرا کے مقابل ثانوی رول میں نظر آئی تھی۔ یہ 1962 کی بات ہے اور اس کے بعد کئی فلموں‌ میں مختلف کردار ادا کیے، لیکن دیور بھابھی جو 1967 میں سنیما کی زینت بنی تھی، وہ مشہور فلم تھی، جس نے اداکارہ کو فلم انڈسٹری کی "رانی” بنا دیا۔ اس فلم میں وحید مراد اور لیجنڈ اداکارہ صبیحہ خانم نے ٹائٹل رولز کیے تھے۔ بعد میں رانی نے دل میرا دھڑکن تیری، بہن بھائی، دیا اور طوفان، شمع اور پروانہ، بہارو پھول برساؤ، امراؤ جان ادا، اک گناہ اور سہی، خون اور پانی جیسی کام یاب فلموں میں‌ اداکاری کے جوہر دکھا کر شائقین کے دل موہ لیے۔

    پنجابی فلموں کی بات کریں تو رانی کو فلم چن مکھناں سے بریک تھرو ملا تھا جب کہ دوسری بڑی پنجابی فلموں میں سجن پیارا، جند جان، مکھڑا چن ورگا، دنیا مطلب دی، ٹیکسی ڈرائیور اور سونا چاندی قابلِ ذکر ہیں۔ اردو فلموں میں کمال، وحید مراد اور شاہد کے ساتھ رانی کو بہت پسند کیا گیا۔

    رانی نے 27 مئی 1993ء کو یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ دی تھی۔ اداکارہ کی ازدواجی زندگی سکون اور راحت سے محروم رہی۔ انھوں نے تین شادیاں کی تھیں۔ اداکارہ پر فلمائے ہوئے تمام ہی گیتوں نے مقبولیت حاصل کی۔ انھوں نے ٹیلی ویژن کے ڈراموں میں‌ بھی اداکاری کے جوہر دکھائے۔ ان میں‌ خواہش اور فریب بہت مشہور ہیں۔ پاکستانی فلم انڈسٹری کی اس مشہور اداکارہ کو لاہور میں مسلم ٹاؤن کے قبرستان میں سپردِ‌ خاک کیا گیا۔

  • آسکر ایوارڈ یافتہ سڈنی پولک کو شہرت ہی نہیں عزّت بھی ملی

    آسکر ایوارڈ یافتہ سڈنی پولک کو شہرت ہی نہیں عزّت بھی ملی

    ’سڈنی ایک ایسے شخص تھے جس نے اس دنیا کو ایک بہتر دنیا بنایا۔‘ یہ الفاظ مشہور امریکی اداکار جارج کلونی نے آسکر ایوارڈ یافتہ ہدایت کار، پروڈیوسر اور اداکار سڈنی پولک کے انتقال پر ادا کیے تھے۔

    سڈنی پولک نے اپنی فلموں میں سماجی اور سیاسی مسائل کو اجاگر کرکے نہ صرف شہرت پائی بلکہ انھیں بہت عزّت اور محبّت بھی ملی۔ 1960 سے 80 کی دہائی تک انھوں نے اپنی فلموں کی بدولت شائقینِ سنیما کی توجہ حاصل کیے رکھی اور ان کے کام کو ناقدین نے بھی خوب سراہا۔

    آسکر ایوارڈ یافتہ ہدایت کار، پروڈیوسر اور اداکار سڈنی پولک 73 برس کی عمر میں امریکا کے مشہور شہر لاس اینجلس میں چل بسے تھے۔ انھیں کینسر کا مرض لاحق تھا۔ سڈنی پولک کا فلمی کیریئر پچاس سال پر محیط رہا جس میں انھوں نے اپنی فلموں کے لیے ہر خاص و عام سے داد سمیٹی اور اپنے کام پر ناقدین سے تعریف و ستائش وصول کی۔

    سڈنی پولک کی مشہور ترین فلموں میں ’ٹوٹسی‘ اور ’آؤٹ آف افریقہ‘ شامل ہیں۔ یہ بلاک بسٹر فلمیں تھیں جن کے ہدایت کار سڈنی پولک تھے۔ انھوں نے ’مائیکل کلیٹن‘ جیسی کام یاب فلم پروڈیوس کی۔ ’ٹوٹسی‘ کے لیے 1982 میں سڈنی کو بہترین ہدایت کار کے آسکر کے لیے نام زد کیا گیا تھا جب کہ ’آؤٹ آف افریقہ‘ وہ بہترین ہدایت کار کا یہ اعزاز اپنے نام کرنے میں‌ کام یاب رہے تھے۔ یہ وہ فلم تھی جسے مجموعی طور پر سات آسکر ایوارڈز دیے گئے تھے۔

    سڈنی پولک 1969 میں ’دے شوٹ ہارسز ڈانٹ دے‘ کے لیے بھی بطور ڈائریکٹر آسکر اعزاز کے لیے نام زد ہوئے تھے۔

    ان کا سنِ پیدائش 1934 ہے اور وہ دسویں جماعت پاس کرنے کے بعد بطور اداکار قسمت آزمائی کے لیے نیویارک پہنچے تھے اور ٹیلی وژن پر اداکاری کا موقع ملا تو وہ آگے بڑھتے چلے گئے۔ 1961 میں سڈنی پولک نے ٹیلی وژن کے لیے پروگرام بنانے کا سلسلہ شروع کیا اور چار برس بعد بطور ہدایت کار ’دا سلنڈر تھریڈ‘ کے عنوان سے ایک فلم بنائی۔ 90 کے عشرے میں سڈنی پولک نے پروڈیوسر کے طور پر کام شروع کیا اور ’دا فرم‘ جیسی ہٹ فلم سامنے آئی۔ ہدایت کار کے طور پر ان کی آخری فلم ’ اسکیچیز آف فرانک گہرے‘ تھی۔ یہ اپنے وقت کے ایک مشہور آرکیٹیکٹ کے بارے میں دستاویزی فلم تھی۔

    26 مئی 2008 کو سڈنی پولک نے ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں‌ موند لی تھیں۔

  • ورسٹائل اداکار ادیب کی برسی

    ورسٹائل اداکار ادیب کی برسی

    برطانوی دورِ حکومت میں ریاست جموں و کشمیر میں آباد مظفر علی کا خاندان معاش کی غرض سے ممبئی منتقل ہو گیا تھا یہ تقسیمِ ہند سے قبل کی بات ہے جہاں مظفر علی نے تعلیمی مدارج طے کرتے ہوئے لکھنے لکھانے کا آغاز کیا وہ اسکرپٹ رائٹر کے طور پر تھیٹر اور بعد میں فلم نگری تک پہنچے اور بڑے پردے پر اداکاری کی۔

    تقسیمِ ہند کے بعد 1962 میں مظفر علی پاکستان چلے آئے اور یہاں فلم انڈسٹری سے وابستہ ہوگئے۔ انھوں نے اداکار کے طور پر شائقین کی توجہ حاصل کی اور اس نگری میں ادیب کے نام سے پہچانے گئے۔ پاکستان میں ان کی پہلی فلم ’دال میں کالا‘ تھی۔ ادیب کو ’عادل‘ نامی فلم نے حقیقی معنوں میں شہرت دی اور اس فلم کی کام یابی کے ساتھ ہی ان کی مصروفیات میں بے حد اضافہ ہوگیا، وہ پاکستان فلم انڈسٹری کے مصروف اداکار تھے جسے زیادہ تر منفی کردار نبھانے کو ملے اور وہ ایک عرصہ تک بطور ولن پردہ سیمیں پر راج کرتے رہے۔

    26 مئی 2006ء کو اداکار ادیب ہم سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ گئے۔ انھیں گردوں اور دل کا عارضہ لاحق تھا۔

    اداکار ادیب کی فنی زندگی کا آغاز اسکرپٹ رائٹنگ سے ہوا تھا جب کہ فلم ’پاک دامن‘ میں ولن کے ایک کردار سے بڑے پردے پر ان کا نیا سفر شروع ہوا تھا۔ پاکستان کے اس مشہور اداکار نے 4 اکتوبر 1928ء کو دنیا میں آنکھ کھولی۔ ان کی فن کارانہ زندگی کا آغاز ایک تھیٹر کمپنی سے بطور مصنّف ہوا تھا، بعد میں انڈین نیشنل تھیٹر میں کام کیا اور ممبئی میں رہتے ہوئے دس فلموں میں‌ اداکاری کے جوہر دکھائے۔ پاکستان آنے کے بعد انھوں نے یہاں کئی فلموں میں یادگار کردار ادا کیے۔ ادیب کی زندگی کی آخری فلم ’مجاجن‘ تھی۔

  • ممتاز ترقی پسند شاعر اور معروف فلمی نغمہ نگار کیفی اعظمی

    ممتاز ترقی پسند شاعر اور معروف فلمی نغمہ نگار کیفی اعظمی

    کیفی اعظمی نے ابتدائی عمر میں رومانوی نظمیں کہیں، لیکن جلد ہی ہندوستان میں سیاسی اور سماجی تبدیلیوں اور انقلابی نعروں نے انھیں بھی قوم پرستی اور آزادی کے ترانے لکھنے پر آمادہ کرلیا۔

    مارکسزم سے متاثر ہونے والے کیفی اعظمی کمیونسٹ پارٹی کے ہمہ وقتی رکن بنے تو اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو انقلابی نظریات اور سیاسی واقعات کے لیے اس طرح استعمال کیا کہ کئی پُراثر اور سوز و گداز سے بھرپور نظمیں سامنے آئیں۔ انھوں نے عوام کے جذبات اور ان کے دکھ سکھ کو اپنی شاعری میں سمویا اور ان کا کلام مقبول ہونے لگا۔ وہ نوعمری میں‌ شاعری کا آغاز کرچکے تھے۔

    وہ انیس، حالی شبلی، اقبال، اور جوش ملیح آبادی سے متاثر نظر آئے۔ سیاسی اور سماجی موضوعات پر شاعری کے ساتھ انھوں نے فلموں کے لیے بھی گیت لکھے جو بہت مقبول ہوئے اور انھیں غیر معمولی شہرت اور کامی یابی ملی۔ کیفی اعظمی فلمی دنیا کے ان گنے چنے ادیبوں میں سے ایک ہیں جنھوں نے نغمہ نگاری کے ساتھ ساتھ فلموں کی کہانیاں، مکالمے اور منظر نامے لکھے۔ وہ ممتاز ترقی پسند شعرا میں شمار ہوئے اور فلم ہیر رانجھا اور کاغذ کے پھول کے گیتوں کے لیے مشہور ہیں۔

    کیفی اعظمی کا تعلق اعظم گڑھ کے ایک گاؤں سے تھا جہاں انھوں نے 15 اگست 1918ء کو آنکھ کھولی۔ ان کا اصل نام سیّد اطہر حسین رضوی تھا۔ ان کے والد زمیندار تھے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد لکھنؤ کے مدرسہ بھیجا گیا، لیکن وہاں خامیوں کی نشان دہی کرتے ہوئے انتظامیہ کے خلاف احتجاج پر نام خارج کر دیا گیا۔ بعد میں‌ انھوں نے لکھنؤ اور الہ آباد یونیورسٹیوں سے فارسی میں دبیر کامل اور عربی میں عالم کی اسناد حاصل کیں۔ اسی زمانے میں ایک لڑکی کے عشق میں گرفتار ہوئے اور تب انھیں لکھنؤ چھوڑنا پڑا اور وہ کانپور چلے گئے جو اس وقت شمالی ہندوستان میں مزدوروں کی تحریک کا سب سے بڑا مرکز تھا۔ یہاں وہ مزدوروں کی تحریک سے وابستہ ہو گئے اور یہیں انھوں نے مارکسزم کا مطالعہ کیا۔ جب کیفی کمیونسٹ بن گئے تو سجّاد ظہیر کے ساتھ بمبئی چلے گئے جہاں پارٹی کے ترجمان "قومی جنگ” میں لکھنے لگے۔ 1943ء میں ان کا پہلا مجموعہ کلام شائع ہوا۔ اکتوبر 1945ء میں حیدر آباد میں ترقی پسند مصنفین کی ایک کانفرنس میں ان کی ملاقات شوکت خانم سے ہوئی اور ان سے شادی ہوگئی۔ آزادی کے بعد کمیونسٹ پارٹی پر مختلف قسم کی پابندیاں عائد ہوئیں اور کارکن گرفتار کیے گئے تو کیفی اعظمی کو بھی روپوشی اختیار کی۔

    اس زمانے میں‌ مفلسی نے بھی ان پر مصائب توڑے۔ کیفی نے فلموں کی طرف توجہ کی تو قسمت نے یاوری کی اور فلموں کے گیت لکھنے کے ساتھ ساتھ مکالمے اور منظر نامے بھی لکھے جن کا خوب معاوضہ ملنے لگا۔ انھیں تین فلم فیئر ایوارڈ ملے۔ کاغذ کے پھول، حقیقت، ہیر رانجھا اور گرم ہوا ان کی اہم فلمیں ہیں۔

    زندگی کے آخری ایّام انھوں نے اپنے گاؤں میں گزارے اور 10 مئی 2002 کو دل کا دورہ پڑنے سے وفات پائی۔

  • مادام بواری کے خالق گستاؤ فلابیر کا تذکرہ

    مادام بواری کے خالق گستاؤ فلابیر کا تذکرہ

    گستاؤ فلابیر انیسویں صدی کا ناول نگار اور ڈراما نویس تھا جسے حقیقت پسند مکتبِ فکر کا نمائندہ کہا جاتا ہے۔ وہ اپنے ناول مادام بواری کے سبب مشہور بھی ہوا اور اسے مطعون بھی کیا گیا۔ اس ناول کی اشاعت پر فلابیر کو مذہبی اور سماجی اقدار کی دھجیاں بکھیرنے، جنسی کج روی اور بے حیائی اخلاقی اقدار کو نقصان پہنچانے کے مقدمے کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

    گستاؤ فلابیر کی تحریروں کو رومانویت پسندی اور حقیقت نگاری کا امتزاج کہا جاتا ہے۔ اس کا باپ پیرس کے قریب ایک گاؤں کے اسپتال میں ڈاکٹر تھا۔ فلابیر 1821ء میں پیدا ہوا۔ وہ زرخیز ذہن کا مالک تھا اور بیک وقت مختلف مکتب ہائے فکر کا پرچارک تھا۔ اس کا تعلق خوش حال گھرانے سے تھا۔ اس کی ماں کا خاندان بھی اعلٰی تعلیم یافتہ تھا۔ فلابیر کی ابتدائی تعلیم علم الادویہ اور سائنس کے میدان میں‌ ہوئی، مگر 1841 میں وہ اپنے والد کی خواہش پر قانون کی تعلیم کے حصول کے لیے پیرس چلا گیا۔ اسی زمانے میں وہ ایک پراسرار بیماری کا شکار ہوا اور اسے مرگی کا مرض تشخیص ہوا۔ 1946 میں‌ فلابیر کے والد کی وفات کے بعد اس کی بہن بھی وفات پاگئی۔ فلابیر اور اس کی ماں نے اپنے گھر میں‌ یتیم بچوں کی پرورش کی اور ان کے درمیان اپنی زندگی گزاری۔

    فلابیر سیرو سیاحت کا دلدادہ تھا اور اس نے کئی ملکوں کا سفر کیا جس نے اس علم اور مشاہدے میں‌ اضافہ کیا۔ وہ ادب کی طرف متوجہ ہوا اور یہاں بھی کمرشل فکشن کے بجائے معیاری ادب تخلیق کیا۔ اس نے اپنے اسلوب اور انداز کو پُراثر بنانے پر خاص توجہ دی اور اس میں‌ کام یاب رہا۔

    فلابیر نے ایک لغت بھی مرتب کی تھی جو اس کی وفات کے بعد شایع ہوئی۔ وہ اپنے ایک ناول کا آدھا کام کرچکا تھا کہ 1880 میں آج ہی کے دن مرگی کا دورہ پڑنے سے وفات پا گیا۔ فلابیر نے پانچ ناول لکھے جو اس کے اسلوب کی وجہ سے پسند کیے جاتے ہیں۔ مادام بواری اس کا بہت مشہور ناول ہے جو 1857 میں‌ شایع ہوا۔ اس ناول کا کئی زبانوں‌ میں‌ ترجمہ ہوچکا ہے جن میں‌ اردو بھی شامل ہے۔ یہ ایک مقامی عورت کے معاشقوں کے المیوں کی روداد ہے۔ مادام بواری کو نہایت عمدہ اور معیاری تخلیق قرار دیا جاتا ہے جس کی ہیروئن ایما بواری غریب ہونے کے باوجود اپنے جذبات کا اظہار کرنے کی جرات رکھتی ہے۔ تاہم اس کی رومان بھری آرزوؤں کو روایت اور سماج کی وجہ سے المیوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔

  • صرف مونا لیزا ہی لیونارڈو ڈاونچی کی وجہِ شہرت نہیں!

    صرف مونا لیزا ہی لیونارڈو ڈاونچی کی وجہِ شہرت نہیں!

    مونا لیزا کا خالق لیونارڈو ڈاونچی مصوّر ہی نہیں ایک ذہین انسان بھی تھا جس نے پانچ صدی پہلے وہ کارنامے انجام دیے جن کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ اس کے تخیل کی اڑان ہی نہیں‌ بلکہ اس کا شعور بھی بلند پرواز تھا۔

    وہ ایک مصوّر، مؤرخ، مجسمہ ساز، انجنیئر، ریاضی دان اور موجد تھا۔ آج لیونارڈو ڈاونچی کا یومِ‌ وفات ہے۔ مونا لیزا کی پینٹنگ کو اس کا لافانی شاہ کار کہا جاتا ہے جس پُراسرار مسکراہٹ آج تک دنیا کے نام ور آرٹسٹوں میں زیرِ بحث آتی ہے اور اسے لیونارڈو ڈاونچی کے کمالِ فن کی عظیم مثال کہا جاتا ہے۔ اسے آئیڈل مین کے لقب سے نوازا گیا۔

    لیونارڈو ڈاونچی نے اٹلی کے ایک قصبے میں 15 اپریل 1452ء کو آنکھ کھولی تھی جہاں اس کے والد کو ایک زمین دار کی حیثیت سے اہمیت دی جاتی تھی۔ لیونارڈو نے تعلیم کے ساتھ مطالعہ کا شغف اپنایا اور 15 برس کی عمر میں معروف مصور آندریا ڈیل ویروشیو کی شاگردی اختیار کرلی، جس کی ورکشاپ میں مصوری و مجسمہ سازی کے ساتھ ٹیکنیکل اور میکینکل کی تعلیم بھی حاصل کی۔ جلد ہی اس کا نام پہچان بنانے لگا۔ لیونارڈو 1482ء میں میلان گیا اور وہاں 17 برس گزار دیے۔ اس عرصے میں اس نے اپنے فنِ مصوّری اور علم کے سبب بڑا رتبہ اور ڈیوک کے مصور اور انجینئر کا خطاب پایا۔ میلان میں فنِ‌ مصوری اور مجسمہ سازی کے علاوہ تعمیر سازی، قلعہ بندی اور فوجی امور میں وہ تکنیکی مشیر بھی رہا۔ اس کے ساتھ ہائیڈرولک اور میکینکل انجینئر کی حیثیت سے بھی کام کیا۔

    لیونارڈو کو سیاسی حالات اور کام کے سبب بھی فرانس، اٹلی اور مختلف علاقوں میں رہنا پڑا اور اس دوران وہ مصوری سے لے کر اپنی دل چسپی اور شوق کے ہر کام کو اپنے تخیل اور ذہنِ رسا کی مدد سے ماہرانہ انداز میں انجام دیتا رہا اور 65 سال کی عمر میں لیونارڈو فرانس کے نوجوان بادشاہ فرانسس اوّل کے قریب ہو گیا۔ فرانس میں قیام کے دوران اس نے زیادہ توجہ سائنسی تحقیق پر دی۔ اس زمانے میں‌ اڑنے والی گاڑی (ہیلی کاپٹر)، روبوٹ، پیرا شوٹ، فریج جیسی ایجادات کا تصور اور ان کے ابتدائی خاکے مع ضروری تفصیل اور ریڑھا بنانے کے حوالے سے لیونارڈو ڈاونچی ہی کا نام لیا جاتا ہے۔

    2 مئی 1519ء کو فرانس ہی میں لیونارڈو ڈاونچی نے اپنی زندگی کا سفر تمام کیا تھا۔

  • نام وَر گلوکار، اداکار اور فلم ساز عنایت حسین بھٹی کا یومِ وفات

    نام وَر گلوکار، اداکار اور فلم ساز عنایت حسین بھٹی کا یومِ وفات

    31 مئی 1999ء کو پاکستان کے نام وَر گلوکار، اداکار اور فلم ساز عنایت حسین بھٹی وفات پاگئے۔ انھوں‌ نے پاکستانی فلمی صنعت کو اپنی آواز میں خوب صورت نغمات کے ساتھ کام یاب فلمیں بھی دیں اور اس شعبے میں بھی نام و مقام بنایا۔

    عنایت حسین بھٹی 1929ء میں گجرات میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے اپنا فلمی سفر بطور گلوکار شروع کیا۔ فلم ہیر اور پھیرے میں ان کی آواز نے شائقین کی توجّہ اپنی جانب مبذول کروالی۔ ان فلموں کے نغمات بے حد مقبول ہوئے۔ 1953ء میں انھوں نے فلم ’’شہری بابو‘‘ میں ایک کردار ادا کیا اور اسی فلم کا ایک نغمہ بھی ریکارڈ کروایا جس نے انھیں‌ بہت شہرت دی۔ 1955ء میں شباب کیرانوی نے انھیں اپنی فلم ’’جلن‘‘ میں مرکزی کردار آفر کیا اور یہ سلسلہ دراز ہوگیا۔ انھوں‌ نے متعدد فلموں میں مرکزی کردار ادا کیے۔

    عنایت حسین بھٹی نے 500 فلموں کے لیے 2500 کے قریب گانے ریکارڈ کرائے اور 400 سے زائد فلموں میں کام کیا، جن میں سے 40 میں شائقینِ سنیما نے انھیں ہیرو کے روپ میں دیکھا اور ان کی اداکاری کو سراہا۔

    عنایت حسین بھٹی نے ذاتی پروڈکشن ہاؤس بھی قائم کیا تھا جس کے بینر تلے 50 فلمیں بنائیں۔ 1967ء میں انھوں نے ’’چن مکھناں‘‘ فلم بنائی تھی جس نے کام یابی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔ اس کے بعد انھوں‌ نے فلم سجن پیارا، دنیا مطلب دی، عشق دیوانہ، سچا سودا سمیت کئی فلمیں بنائیں جو کام یاب رہیں۔

  • پاکستان ٹیلی ویژن کے نام وَر اداکار سبحانی بایونس کی برسی

    پاکستان ٹیلی ویژن کے نام وَر اداکار سبحانی بایونس کی برسی

    آج پاکستان ٹیلی ویژن کے نام وَر اداکار سبحانی بایونس کی برسی ہے۔ سبحانی بایونس کا شمار ان فن کاروں‌ میں ہوتا ہے جنھوں نے اسٹیج اور ریڈیو پر اپنی فن کارانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا اور ٹیلی ویژن پر اپنی اداکاری سے ناظرین کے دل جیتے۔ زندگی کی 77 بہاریں دیکھنے والے سبحانی بایونس 31 مئی 2006ء کو اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔

    سبحانی بایونس 1924ء میں حیدرآباد دکن میں اورنگ آباد کے ایک قصبے میں پیدا ہوئے تھے۔ ہجرت کے بعد انھوں‌ نے کراچی میں‌ سکونت اختیار کی اور یہاں اسٹیج سے فنی سفر کا آغاز کیا۔

    سبحانی بایونس نے ٹیلی ویژن کے مقبول ترین ڈراموں تعلیمِ بالغان، محمد بن قاسم، قصّہ چہار درویش، مرزا غالب بندر روڈ پر، خدا کی بستی، سسّی پنہوں میں کام کیا اور خوب شہرت حاصل کی۔ مرزا غالب کے روپ میں‌ انھیں پی ٹی وی کے شائقین نے بہت سراہا اور یہ کردار یادگار ثابت ہوا، باادب باملاحظہ پی ٹی وی سے نشر ہونے والا ایک مقبول ڈراما تھا جس میں‌ انھوں نے اپنی فطری اور بے ساختہ اداکاری سے ناظرین کے دل موہ لیے اور اسی ڈرامے کے بعد علالت کے باعث اداکاری سے کنارہ کش ہوگئے۔

    سبحانی بایونس اپنی بھاری اور رعب دار آواز کے سبب ریڈیو پاکستان کے کام یاب صدا کاروں میں شمار ہوئے۔ ساتھی فن کار انھیں باکمال فن کار مانتے اور ایک مہربان، ہم درد اور شفیق انسان کے طور پر پہچانتے تھے۔

    سبحانی بایونس کراچی میں عزیز آباد کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • پاکستان کے نام وَر خطّاط صوفی خورشید عالم کی برسی

    پاکستان کے نام وَر خطّاط صوفی خورشید عالم کی برسی

    30 مئی 2004ء کو پاکستان کے نام ور خطّاط صوفی خورشید عالم خورشید رقم لاہور میں وفات پاگئے تھے۔ وہ صوفی خورشید کے نام سے مشہور تھے۔

    صوفی خورشید عالم خورشید کو 1965ء کی جنگ میں‌ جامِ شہادت نوش کرنے والے راجہ عزیز بھٹی کے لوحِ مزار کی خطّاطی کا اعزاز بھی حاصل تھا۔ صوفی صاحب نے کئی موضوعات پر کتابوں اور اپنے دور کے نام ور مصنّفین کی کتابوں کے ٹائٹل کو اپنی خطّاطی سے سجایا۔

    خورشید عالم 1923ء میں کپور تھلہ، بھارت میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد رحمت علی خود بھی ایک اچھے خطّاط تھے۔ مشہور ہے کہ لاہور کے ناشرین کپور تھلہ جاکر ان سے کتابت کرواتے تھے۔ یوں انھیں بھی خوش نویسی کا شوق پیدا ہوا اور اپنے والد کو دیکھ کر خود بھی مشق کرنے لگے۔ ذوق و شوق اور مسلسل مشق نے ان کی لکھائی اور کتابت کو چمکایا اور وہ اس فن میں‌ کامل ہوئے۔

    صوفی خورشید عالم خورشید نے بعدازاں تاج الدّین زریں رقم جیسے نام ور اور عظیم خطّاط کے ادارے سے وابستگی اختیار کرلی تھی جہاں عرصے تک کام کیا، زریں رقم کی وفات کے بعد لاہور کے اکابر خطّاط نے صوفی صاحب کو ان کا جانشین مقرر کردیا تھا۔

    خوش نویسی اور فنِ خطّاطی میں کمال و مہارت رکھنے والے خورشید عالم خورشید رقم نے مختلف اخبارات غالب، آفاق، کوہستان، نوائے وقت، مساوات، ندائے ملت، آزاد اور امروز میں بھی کام کیا تھا اور مینار پاکستان کے بعض کتبات ان کے فن کا نقش ثبت ہے۔

    صوفی صاحب خطّاط ہی نہیں شاعر بھی تھے۔ انھوں نے غزل، نعت و قصیدہ گوئی اور دیگر اصناف میں طبع آزمائی کی۔ وہ مخمور تخلّص کرتے تھے اور مشہور شاعر احسان دانش سے اصلاح لیتے رہے۔

    صوفی صاحب کی نمازِ جنازہ داتا دربار، لاہور میں ادا کی گئی اور انھیں حضوری باغ کے قبرستان میں‌ سپردِ خاک کیا گیا۔