Tag: مئی وفات

  • صاحبِ طرز ادیب اور ماہرِ موسیقی شاہد احمد دہلوی کی برسی

    صاحبِ طرز ادیب اور ماہرِ موسیقی شاہد احمد دہلوی کی برسی

    اردو ادب کے صاحبِ طرز ادیب، مدیر، محقّق اور ماہرِ موسیقی شاہد احمد دہلوی 27 مئی 1966 کو وفات پاگئے تھے۔ وہ معروف ناول نگار، شمس العلماء ڈپٹی نذیر احمد کے پوتے اور شاعر و ادیب مولوی بشیر الدین احمد کے فرزند تھے۔

    شاہد احمد دہلوی نے اردو ایک باوقار جریدہ ‘ساقی’ دیا اور اس کے ذریعے علم و ادب، فنون و ثقافت کی خدمت کا سلسلہ جاری رکھا، وہ ترقّی پسند تحریک سے بھی وابستہ رہے۔ دہلی ان کا وطن تھا اور یہی نسبت ان کے نام سے منسلک رہی، قیامِ پاکستان کے بعد شاہد احمد دہلوی کراچی آگئے تھے۔

    شاہد احمد دہلوی انشا پرداز اور باکمال نثار تھے۔ انھوں نے کئی کتابیں یادگار چھوڑیں جو اپنے موضوع کے اعتبار سے اہم اور مصنّف کے منفرد اسلوب اور طرزِ‌ نگارش کا نمونہ ہیں۔ انھوں نے مختلف شخصیات کے خاکے تحریر کرنے کے علاوہ واقعات اور تذکروں کو کتابی شکل دی۔ دلّی کی بپتا اور اجڑا دیار ایسی ہی کتابیں ہیں۔ ان کا ایک کارنامہ انگریزی کی متعدد کتابوں کا اردو ترجمہ ہے۔ شاہد احمد دہلوی نے موسیقی کی بھی باقاعدہ تربیت حاصل کی تھی۔ انھوں نے ریڈیو پاکستان سے وابستگی کے زمانے میں موسیقی کے متعدد پروگرام پیش کیے۔

    ان کے خاکوں کے مجموعے گنجینۂ گوہر، بزمِ خوش نفساں، بزمِ شاہد اور طاقِ نسیاں کے نام سے شائع ہوئے تھے جب کہ موسیقی کے موضوع پر ان کے لاتعداد مضامین کو بھی کتابی شکل میں‌ شایع کیا گیا۔

    حکومت نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔ شاہد احمد دہلوی کراچی میں گلشن اقبال کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • شائقینِ سنیما کے دلوں پر راج کرنے والی ‘رانی’ کی برسی

    شائقینِ سنیما کے دلوں پر راج کرنے والی ‘رانی’ کی برسی

    27 مئی 1993ء کو پاکستانی فلم انڈسٹری کی مشہور اداکارہ رانی کا انتقال ہوگیا تھا۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ ان کا اصل نام ناصرہ تھا جنھوں نے رانی کے نام سے بڑے پردے پر راج کیا۔

    رانی نے 1941ء میں لاہور کے ایک گھر میں آنکھ کھولی۔ ان کے والد اپنے وقت کی مشہور گلوکارہ مختار بیگم کے ڈرائیور تھے۔ وہ اکثر اپنی بیٹی کو مختار بیگم کے گھر لے جایا کرتے تھے اور ایک روز تربیت کی غرض سے رانی کو مختار بیگم کے سپرد کردیا۔ یوں رانی ان کے طفیل فلم انڈسٹری تک پہنچنے میں کام یاب ہوگئیں۔

    1962ء میں ہدایت کار انور کمال پاشا نے انھیں اپنی فلم محبوب میں کاسٹ کام کرنے کا موقع دیا، لیکن آغاز کچھ اچھا نہ ہوا اور اس کے بعد بھی رانی کو متعدد ناکام فلموں نے مایوسی سے دوچار کیا، مگر قسمت نے یاوری کی اورانھیں ایک پنجابی فلم میں‌ کام مل گیا جو کام یاب ثابت ہوئی، اس کے بعد اداکارہ رانی ہیروئن کی حیثیت سے شہرت اور مقبولیت کے مدارج طے کرتی چلی گئیں۔

    اس اداکارہ نے فلم دیور بھابی، بہن بھائی، انجمن، شمع، ایک گناہ اور سہی جیسی کام یاب فلموں کے ساتھ پنجابی زبان میں بنائی گئی 65 فلموں میں بھی شان دار پرفارمنس دی۔

    رانی نے 150 سے زائد فلموں میں کام کیا جن میں اردو اور پنجابی فلمیں‌ شامل ہیں۔ ان کی آخری فلم کالا طوفان تھی جو 1987ء میں پردے پر سجی تھی۔ انھوں نے تین نگار ایوارڈ بھی اپنے نام کیے تھے۔

    اداکارہ رانی کے بارے میں‌ کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے کردار میں ڈوب کر جذبات کا اظہار کرتی تھیں اور کردار کو حقیقیت سے قریب تر لے آتی تھیں۔ فلم انڈسٹری میں جن فن کاروں نے گانوں کی عکس بندی میں اپنے فن کا کمال مظاہرہ کیا، رانی ان میں سرفہرست رہیں۔ ان کی یادگار فلموں میں انجمن، تہذیب، امراؤ جان ادا، ثریا بھوپالی، بہارو پھول برساؤ اور ناگ منی بھی شامل ہیں۔

    فلمی پردے سے دور ہوجانے کے بعد انھوں نے پاکستان ٹیلی وژن کے ڈراموں میں میں بھی اداکاری کی اور اپنی متاثر کن پرفارمنس سے ناظرین کے دل جیتنے میں‌ کام یاب رہیں۔ ان ٹی وی سیریلز میں خواہش اور فریب سرفہرست ہیں۔

    شائقین کے دلوں پر راج کرنے والی اس اداکارہ کی ذاتی زندگی تلخیوں اور الجھنوں کا شکار رہی۔ رانی نے تین شادیاں کیں اور تینوں ناکام رہیں۔ کراچی میں‌ وفات پانے والی رانی کو لاہور کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • نام ور ستار نواز استاد محمد شریف خان کی برسی

    نام ور ستار نواز استاد محمد شریف خان کی برسی

    26 مئی 1980ء کو پاکستان کے نام ور ستار نواز، استاد محمد شریف خان وفات پاگئے تھے۔ پاکستان میں کلاسیکی موسیقی اور روایتی سازوں کے ماہر فن کاروں اور سازندوں میں ایک نام کاروں استاد محمد شریف خان کا بھی ہے جو 26 مئی 1980ء کو وفات پاگئے تھے۔ ان کا شمار پاکستان کے نام وَر ستار نوازوں میں ہوتا ہے۔

    استاد محمد شریف خان اپنے علاقے کی نسبت سے پونچھ والے مشہور تھے۔ وہ 1926ء میں ضلع حصار میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد بھی موسیقی کے ماہر جن کا نام رحیم بخش تھا۔ وہ مہاراجہ پونچھ کے موسیقی کے استاد تھے۔

    استاد محمد شریف خان کی زندگی کا ابتدائی زمانہ پونچھ میں گزرا۔ اس لیے پونچھ سے ان کی نسبت ان کے نام کا حصّہ بن گئی۔ انھیں ابتدا ہی سے ستار بجانے کا شوق تھا۔ ان کے والد اور اساتذہ نے بھی انھیں موسیقی کی تعلیم دینے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ وہ ستار کے علاوہ وچتروینا بجانے میں بھی مہارت رکھتے تھے۔

    استاد محمد شریف خان پونچھ والے نے کئی راگ بھی ایجاد کیے تھے اور اسی لیے ’’استاد‘‘ کہلاتے تھے۔

    انھیں 14 اگست 1965ء کو حکومتِ پاکستان کی جانب سے صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا گیا۔ لاہور میں وفات پانے والے استاد محمد شریف خان میانی صاحب کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • اردو کے ممتاز شاعر جعفر طاہر کی برسی

    اردو کے ممتاز شاعر جعفر طاہر کی برسی

    اردو کے ممتاز شاعر جعفر طاہر 25 مئی 1977ء کو انتقال کرگئے تھے۔ جعفر طاہر کا شمار ان شعرا میں ہوتا ہے جنھوں نے غزل کو روایتی دائرے سے نکال کر تازگی بخشی اور اس صنفِ سخن کو تخلیق کے نئے آہنگ کے ساتھ وسعت عطا کی۔

    29 مارچ 1917ء کو جھنگ میں پیدا ہونے والے جعفر طاہر نے وہیں ابتدائی تعلیم کے مراحل طے کیے اور پھر برّی فوج سے منسلک ہوگئے۔ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد ریڈیو پاکستان راولپنڈی سے وابستہ ہوئے اور اپنی وفات تک یہ تعلق برقرار رکھا۔

    جعفر طاہر کے شعری مجموعے ہفت کشور، ہفت آسمان اور سلسبیل کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے تھے۔ ہفت کشور وہ شعری مجموعہ ہے جس پر 1962ء میں طاہر جعفر نے آدم جی ادبی انعام حاصل کیا تھا۔

    جعفر طاہر کی غزلوں کے موضوعات اور ان کا اسلوب بھی اپنی انفرادیت کے سبب انھیں تخلیقی وفور سے مالا مال اور ثروت مند ظاہر کرتا ہے۔ جعفر طاہر کی ایک غزل ملاحظہ کیجیے۔

    یہ تمنا تھی کہ ہم اتنے سخنور ہوتے
    اک غزل کہتے تو آباد کئی گھر ہوتے

    دوریاں اتنی دلوں میں تو نہ ہوتیں یا رب
    پھیل جاتے یہ جزیرے تو سمندر ہوتے

    اپنے ہاتھوں پہ مقدر کے نوشتے بھی پڑھ
    نہ سہی معنیٰ ذرا لفظ تو بہتر ہوتے

    ہم اگر دل نہ جلاتے تو نہ جلتے یہ چراغ
    ہم نہ روتے جو لہو آئنے میں پتھر ہوتے

    ہم اگر جام بکف رقص نہ کرتے رہتے
    تیری راہوں میں ستارے نہ گُلِ تر ہوتے

    صورتیں یوں تو نہ یاروں کی رلاتی رہتیں
    اے غمِ مرگ یہ صدمے تو نہ دل پر ہوتے

    ہم رہے گرچہ تہی دست ہی جعفر طاہرؔ
    بس میں یہ بات بھی کب تھی کہ ابو ذر ہوتے

    راولپنڈی میں وفات پانے والے اردو کے اس ممتاز شاعر کو جھنگ میں ان کے آبائی قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • نام وَر ترقّی پسند غزل گو شاعر مجروح سلطان پوری کا یومِ وفات

    نام وَر ترقّی پسند غزل گو شاعر مجروح سلطان پوری کا یومِ وفات

    مجروح سلطان پوری کا شمار اردو کے ممتاز ترقّی پسند غزل گو شعرا میں ہوتا ہے جو 24 مئی 2000ء کو ممبئی میں‌ وفات پاگئے تھے۔

    مجروح سلطان پوری کا تعلق بھارت سے تھا۔ وہ 1919ء میں اتّر پردیش کے ضلع سلطان پور میں پیدا ہوئے تھے۔ خاندانی نام اسرار حسن خان تھا اور مجروح تخلّص۔ وہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے۔ والد محکمہ پولیس میں‌ ملازم تھے۔ اس زمانے میں تحریکِ خلافت زوروں پر تھی۔ وہ انگریزوں اور ان کی زبان سے نفرت کا دور تھا۔ والد نے انھیں‌ بھی کسی اسکول میں بھیجنے اور انگریزی کی تعلیم دینے کے بجائے ایک مدرسہ میں داخل کروا دیا جہاں مجروح نے اردو کے علاوہ عربی اور فارسی پڑھی۔ تاہم مدرسے کے ماحول میں خود کو نہ ڈھال سکے اور تعلیم ادھوری چھوڑ دی۔ 1933ء میں لکھنؤ کے ایک کالج سے حکمت میں سند حاصل کی اور مطب کرلیا، لیکن یہ تجربہ ناکام رہا۔ اسی زمانے میں مجروح موسیقی میں دل چسپی لینے لگے تھے اور پھر 1935 ء میں شاعری شروع کردی۔ مشاعروں میں ان کا ترنم بھی مشہور تھا۔

    مجروح کو جگر مراد آبادی اور پروفیسر رشید احمد صدیقی کی رفاقت نصیب ہوئی۔ اس وقت کے دیگر شعرا نے بھی ان کی حوصلہ افزائی کی، جگر صاحب انھیں اپنے ساتھ مشاعروں میں لے جانے لگے تھے جہاں‌ اپنے کلام کی بدولت مجروح سلطان پوری نے اپنی منفرد پہچان بنائی، ممبئی کے ایک مشاعرے میں ایک نام وَر فلم ڈائریکٹر نے ان کا کلام سنا تو فلموں کے لیے گیت لکھنے پر آمادہ کر لیا اور ان کا یہ سفر نہایت کام یاب رہا۔

    مجروح نے کئی برس ہندوستان کی فلم نگری کے لیے گیت تحریر کیے جو بہت مقبول ہوئے۔ 1965ء میں انھیں فلم دوستی کے سپر ہت گیت "چاہوں گا میں تجھے سانجھ سویرے” پر بہترین نغمہ نگار کا فلم فیئر ایوارڈ دیا گیا۔ 1993ء میں بھارت کی فلم انڈسٹری کا سب سے بڑا "دادا صاحب پھالکے ایوارڈ” بھی ان کے نام ہوا۔

    جگن ناتھ آزاد کے مطابق مجروح کی شاعری خیال اور جذبہ کے امتزاج کا اک نگار خانہ ہے جس میں زندگی کے کئی رنگ جھلکتے ہیں۔ انسان کی عظمت پر مجروح کا اٹل یقین زندگی کی ٹھوس حقیقتوں پر مبنی ہے۔ روایت کا احترام اور روایت میں توسیع مجروح کے کلام کی خصوصیت ہے۔

    ان کا کلام ہر خاص و عام میں مقبول تھا، مجروح کے کئی اشعار کو ضرب المثل کا درجہ حاصل ہے اور تقریر سے تحریر تک یہ اشعار موضوع کا حصّہ ہوتے ہیں۔ ان کے چند مشہور شعر ملاحظہ کیجیے۔

    میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
    لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

    جلا کے مشعلِ جاں ہم جنوں صفات چلے
    جو گھر کو آگ لگائے ہمارے ساتھ چلے

    جفا کے ذکر پہ تم کیوں سنبھل کے بیٹھ گئے
    تمہاری بات نہیں بات ہے زمانے کی

    ستونِ دار پہ رکھتے چلو سَروں کے چراغ
    جہاں تلک یہ ستم کی سیاہ رات چلے

  • یومِ وفات: اداکار ظفر مسعود اپنے زمانۂ عروج اور عین عالمِ شباب میں عالمِ جاوداں کو سدھار گئے تھے

    یومِ وفات: اداکار ظفر مسعود اپنے زمانۂ عروج اور عین عالمِ شباب میں عالمِ جاوداں کو سدھار گئے تھے

    پاکستان ٹیلی ویژن کے چند اداکار ایسے بھی ہیں جنھوں نے گویا راتوں رات شہرت کے ہفت آسمان طے کرلیے، لیکن فن کی دنیا میں اپنے زمانۂ عروج اور عین عالمِ شباب میں فرشتۂ اجل کے آگے بے بس ہوکر منوں مٹی تلے جا سوئے۔ ظفر مسعود ایسے ہی اداکار تھے جو 24 مئی 1981ء کو عالمِ جاوداں کو سدھار گئے۔ وہ قاہرہ میں ٹریفک کے ایک حادثے میں زندگی کی بازی ہار گئے۔

    ظفر مسعود نے پاکستان ٹیلی وژن کے مشہور ترین ڈراموں خدا کی بستی، زیر زبر پیش، انکل عرفی، آبگینے، بندش اور کرن کہانی میں اپنی کمال اداکاری سے ناظرین کو محظوظ سے کیا اور مقبولیت حاصل کی تھی۔ انھوں نے مشہور ڈرامہ سیریز ایک محبت سو افسانے کے چند ڈراموں میں بھی کردار نبھائے تھے جو یادگار ثابت ہوئے۔ ظفر مسعود نے تین اردو اوردو پنجابی فلموں میں بھی کام کیا تھا۔

    پاکستان ٹیلی ویژن اور فلم کے اس باکمال اداکار نے قاہرہ کی ایک شپنگ کمپنی میں ملازمت اختیار کرلی تھی، جہاں قیام کے دوران ان کی کار کو حادثہ پیش آیا اور اس حادثے میں ظفر مسعود زندگی سے محروم ہوگئے۔ وہ کراچی کے ایک قبرستان میں ابدی نیند سورہے ہیں۔

    ظفر مسعود نے ڈرامہ سیریل خدا کی بستی میں نوشہ کا کردار ادا کیا تھا۔ یہ ایک مشکل کردار تھا جسے انھوں نے نہایت خوبی سے نبھایا اور ایک اداکار کی حیثیت سے اپنی صلاحیتوں کو منوانے میں کام یاب رہے۔ ظفر مسعود کی فطری اداکاری نے سبھی کو اپنا گرویدہ بنالیا۔ یہ ڈرامہ سیریل دوسری بار اسکرین پر پیش ہوا تو اس میں‌ نوشہ کا کردار بہروز سبزواری نے نبھایا۔

  • نابغۂ روزگار علّامہ نیاز فتح پوری کی برسی

    نابغۂ روزگار علّامہ نیاز فتح پوری کی برسی

    نیاز فتح پوری اردو کے نام وَر ادیب، نقّاد، صحافی اور ماہرِ‌ لسانیات تھے جو 24 مئی 1966ء کو اس دارِ فانی سے رخصت ہوئے۔ انھیں برصغیر پاک و ہند میں ممتاز عقلیت پسند دانش وَر کی حیثیت سے بھی جانا جاتا ہے۔

    علّامہ نیاز فتح پوری 28 دسمبر 1884ء کو فتح پور، سہوہ میں پیدا ہوئے تھے۔ علم و ادب کے رسیا تھے۔ غور و فکر کی عادت نے انھیں‌ مختلف موضوعات پر لکھنے اور قلم کی طاقت کو آزمانے پر اکسایا۔ 1922ء میں نیاز فتح پوری نے ایک ادبی جریدہ نگار جاری کیا جو تھوڑے ہی عرصے میں اردو میں روشن خیالی کی ایک مثال بن گیا۔ علّامہ نیاز فتح پوری نے 35 کتابیں یادگار چھوڑی ہیں جو ان کے فکر و فن اور انشا پردازی کا عمدہ نمونہ ہیں۔ وہ شاعر اور افسانہ نگار بھی تھے اور مؤرخ و ماہر مترجم بھی۔ ہمہ جہت نیاز فتح پوری کی کتاب من و یزداں، نگارستان، شہاب کی سرگزشت، جمالستان اور انتقادیات علمی و ادبی حلقوں میں بہت مقبول ہیں۔ انھیں بعض نظریات اور روشن خیالی کے سبب تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

    علّامہ نیاز فتح پوری کی کئی تحریریں مختلف اخبار اور جرائد میں شایع ہوئیں جن سے اردو زبان و ادب میں نئے موضوعات اور فکری مباحث نے جنم لیا۔

    کراچی میں‌ وفات پانے والے علّامہ نیاز فتح پوری کو پاپوش نگر کے قبرستان میں سپردِ‌ خاک کیا گیا۔

  • مشہور مزاحیہ اداکار رنگیلا کی 16 ویں برسی آج منائی جارہی ہے

    مشہور مزاحیہ اداکار رنگیلا کی 16 ویں برسی آج منائی جارہی ہے

    24 مئی 2005ء کو مشہور مزاحیہ اداکار رنگیلا اپنے مداحوں سے ہمیشہ کے لیے جدا ہوگئے تھے۔ آج رنگیلا کی سولہویں برسی ہے۔

    رنگیلا کا اصل نام سعید علی خان تھا، وہ 1937ء میں ننگر ہار، افغانستان میں پیدا ہوئے تھے۔ بعد میں ان کا خاندان پشاور منتقل ہوگیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد رنگیلا لاہور چلے آئے اور وہاں پینٹر کے طور پر کام کرنے لگے۔ لاہور میں‌ انھیں فلمیں دیکھنے کا موقع ملا جس نے انھیں اداکاری کی طرف مائل کیا۔

    1957ء میں ہدایت کار عطا اللہ ہاشمی کی فلم داتا میں ایک مختصر سا کردار نبھاکر رنگیلا نے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا۔ بعدازاں شباب کیرانوی کی فلم ثریا اور اشفاق ملک کی فلم گہرا داغ نے انھیں مقبول مزاحیہ اداکار بنا دیا۔ 1968ء میں ریلیز ہونے والی فلم سنگ دل کو ان کے فلمی کیریئر کا ایک نیا موڑ کہا جاتا ہے۔ اس کے اگلے چند برس بعد رنگیلا نے ذاتی پروڈکشن ہائوس کھول لیا اور اپنی فلم کے لیے کہانی بھی خود لکھی اور پروڈیوسر بھی بنے۔ ان کی فلم نے زبردست کام یابی حاصل کی۔ ان کی فلموں عورت راج، سونا چاندی اور انسان اور گدھا کو خوب پذیرائی ملی۔

    رنگیلا نے کامیڈین کے طور پر شہرت حاصل کرنے اور انڈسٹری میں‌ اپنی جگہ بنانے کے بعد خود کو بحیثیت فلم ساز، ہدایت کار نہ صرف منوایا بلکہ زبردست کام یابیاں‌ سمیٹیں، انھوں نے گلوکاری بھی کی اور فلموں کے لیے اپنی آواز میں گانے بھی ریکارڈ کروائے تھے۔

    رنگیلا نے مجموعی طور پر 660 فلموں میں کام کیا جن میں اردو، پنجابی اور بعض فلموں‌ کے ڈبل ورژن شامل ہیں۔ رنگیلا کو فلمی دنیا میں‌ متعدد اعزازات سے نوازا گیا جب کہ حکومتِ پاکستان کی جانب سے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا گیا تھا۔

  • عظیم حکم راں، بہترین منتظم اور مصلح شیر شاہ سوری کی برسی

    عظیم حکم راں، بہترین منتظم اور مصلح شیر شاہ سوری کی برسی

    شیر شاہ سوری کو برصغیر کی اسلامی تاریخ کا ایک عظیم حکم راں، سپہ سالار، بہترین منتظم اور مصلح کہا جاتا ہے۔ تاریخ داں ان کے طرزِ حکم رانی، عدل و انصاف، رعایا کی فلاح و بہبود انتظامات اور ریاست میں‌ ترقی و خوش حالی کے لیے اقدامات کو مثالی قرار دیتے ہیں۔ شیر شاہ سوری 22 مئی 1545ء کو وفات پاگئے تھے۔

    شیر شاہ سوری نے اپنی جدوجہد سے ہندوستان میں اپنی سلطنت قائم کی تھی۔ شمالی ہندوستان پر انھوں نے صرف پانچ سال حکومت کی، لیکن تاریخ پر انمٹ نقوش چھوڑے۔ مؤرخین کے مطابق ان کا حسنِ انتظام بعد کے فرماں رواؤں کے لیے مثال بنا اور انھوں نے بھی ملک گیری کے لیے شیر شاہ سوری کے طرزِ حکم رانی سے استفادہ کیا۔

    شیر شاہ سوری کی تاریخِ پیدائش میں اختلاف ہے، لیکن مؤرخین کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ وہ 1486ء میں حصار(موجودہ بھارتی ریاست ہریانہ) میں پیدا ہوئے۔
    ان کا اصل نام فرید خان تھا جو حسن خان کی پہلی نرینہ اولاد تھے۔ ان کے بزرگ سلطان بہلول لودھی کے زمانے میں ہندوستان آئے تھے، جنھوں نے دربار میں‌ جگہ پائی اور جاگیریں حاصل کیں۔

    شیر شاہ کے والد نے بھی اپنے بزرگوں کی طرح درباروں اور امرائے سلطنت کی خدمت اور ملازمتیں کرکے بڑی بڑی جاگیریں اپنے نام کیں۔ شیر شاہ کسی طرح ایک افغان حکم راں کا قرب حاصل کرنے میں کام یاب ہوگئے۔ کہتے ہیں کہ انھوں نے اسی حکم راں کو شیر کے حملے سے بچایا تھا اور اس درندے کو ایک ہی وار میں‌ ڈھیر کردیا تھا جس پر انھیں شیر خان کا خطاب عطا کیا گیا جو ان کی شناخت بن گیا۔ بعد میں جاگیریں اور بڑے بڑے علاقوں کا انتظام چلانے کے بعد اپنے ساتھیوں کی مدد سے مخالفین کو شکست دے کر سلطنت قائم کرنے میں کام یاب ہوگئے۔

    گرینڈ ٹرنک روڈ المعروف جی ٹی روڈ شیر شاہ سوری کا ہی کارنامہ ہے۔ آگرہ سے برہان پور، آگرہ سے جودھ پور اور چتور تک اور لاہور سے ملتان تک سڑک اور ان راستوں پر سرائے کی تعمیر بھی اسی حکم راں کی یادگار ہیں۔ مؤرخین کے مطابق ان مقامات پر ٹھنڈے اور گرم پانی کے انتظامات کیے گئے تھے جب کہ سرائے میں گھوڑوں کے کھانے پینے کا بھی انتظام کیا گیا تھا، مسافروں کے مال و اسباب کی حفاظت کے لیے چوکیدار مقرر کیا گیا تھا۔ شیر شاہ سوری نے سڑکوں کے کنارے درخت بھی لگوائے تھے تاکہ مسافر اس کی چھاؤں میں آرام کر سکیں۔

    شیر شاہ سوری ایک جنگ کے دوران بارود پھٹنے سے زندگی سے محروم ہوگئے۔ وہ 60 سال کے تھے جب یہ حادثہ پیش آیا جس میں ان کے ساتھ کئی سپاہی بھی ہلاک ہوئے۔ شیر شاہ سوری کا مقبرہ بھارت کے شہر سہسرام میں‌ ہے۔

  • یومِ‌ وفات: داؤد چاند پاکستان کی پہلی فلم ’’تیری یاد‘‘ کے ہدایت کار تھے

    یومِ‌ وفات: داؤد چاند پاکستان کی پہلی فلم ’’تیری یاد‘‘ کے ہدایت کار تھے

    22 مئی 1975ء کو پاکستان کی پہلی فلم ’’تیری یاد‘‘ کے ہدایت کار دائود چاند دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ ہدایت کار کی حیثیت سے داؤد چاند کی بنائی ہوئی یہ فلم ستمبر 1948ء میں‌ ریلیز ہوئی تھی اور اسے قیامِ پاکستان کے بعد یہاں بننے والی اوّلین فلم قرار دیا جاتا ہے۔

    دائود چاند کا تعلق بھارت کے صوبے گجرات (کاٹھیا واڑ) سے تھا۔ وہ 1907ء میں پیدا ہوئے تھے۔ عالمِ شباب میں بمبئی اور پھر کلکتہ چلے گئے جہاں اندرا مووی ٹون میں ملازمت اختیار کرلی اور اپنی لگن اور محنت سے پہلے اداکاری اور پھر ہدایت کاری کے شعبے میں مہارت حاصل کی اور فلم انڈسٹری میں اپنی صلاحیتوں کو منوایا۔

    انھوں نے فلم سسی پنوں سے ہدایت کاری کا باقاعدہ آغاز کیا۔ اس کے بعد دائود چاند نے چند مزید فلموں کی ہدایت کاری دی اور پھر لاہور چلے آئے۔ قیامِ پاکستان کے بعد جب دیوان سرداری لعل نے ’’تیری یاد‘‘ بنانے کا اعلان کیا تو ہدایت کاری کے لیے دائود چاند کا انتخاب کیا، اس فلم کے بعد داؤد چاند نے ہچکولے، مندری، سسی، مرزاں صاحباں، حاتم، مراد اور دیگر فلمیں بنائیں۔

    لاہور میں انتقال کرنے والے دائود چاند مقامی قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔