Tag: مئی وفیات

  • خواجہ دل محمد: ایک نابغۂ روزگار شخصیت

    خواجہ دل محمد: ایک نابغۂ روزگار شخصیت

    علم و ادب کی دنیا میں خواجہ دل محمد اپنے وقت کے ایک نہایت قابل و باصلاحیت شخصیت مشہور تھے۔ وہ بیک وقت شاعر اور مصنف بھی تھے اور ایک ریاضی داں اور ماہرِ تعلیم بھی۔ آج اگرچہ ان کا تذکرہ شاذ ہی ہوتا ہے لیکن خواجہ صاحب جیسی شخصیات کے علمی و ادبی کارناموں سے انکار نہیں کیا جاسکتا بلکہ وہ علم و ادب کی دنیا کا ایک مثالی نام ہیں۔

    یہ بھی پڑھیے: خواجہ دل محمد کی نظم اور ڈپٹی نذیر احمد کی چوگوشیہ ٹوپی
    کہا جاتا ہے کہ خواجہ صاحب کے مورثِ اعلیٰ کو سلطان محمود غزنوی کے عہد میں مشرف بہ اسلام ہونے کی سعادت نصیب ہوئی اور تب ان کے بزرگ لاہور آکر آباد ہوگئے۔ ان کا آبائی وطن غزنی تھا جب کہ خاندانی پیشہ تجارت۔ اسی خاندان میں خواجہ دل محمد نے لاہور کے کوچہ ’’گیان‘‘ عقب کشمیری بازار میں فروری 1883ء میں آنکھ کھولی۔ وہ خواجہ نظام الدین کے فرزند تھے۔ اس زمانے کے دستور کے مطابق قرآن کی تعلیم پائی اور ناظرہ مکمل کرنے کے بعد اسلامیہ ہائی اسکول شیرانوالہ گیٹ میں میں داخلہ لیا۔ میٹرک تک اسی اسکول سے درجات مکمل کیے۔ یہ وہ دور تھا جب انجمن حمایت اسلام نے اسلامیہ ہائی اسکول کی عمارت کے بالائی حصے میں کالج بھی قائم کیا تھا۔ خواجہ دل محمد نے بعد میں یہیں سے ایف اے اور بی اے کے امتحانات پاس کیے۔ کالج کے زمانے میں شیخ سر عبدالقادر ان کے استادوں میں سے تھے جن کی شخصیت اور علمی قابلیت سے خواجہ دل محمد بھی متاثر ہوئے۔

    خواجہ دل محمد کو ریاضی کے مضمون سے فطری مناسبت اور بہت رغبت تھی۔ اسی مضمون میں 1970ء میں ماسٹرز کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد اسلامیہ کالج ہی میں استاد مقرر ہو گئے۔ علمی دنیا سے ان کی وابستگی ہمیشہ بڑی گہری اور والہانہ رہی۔ وہ نوجوانوں کی تعلیم و تربیت میں گہری دل چسپی لیتے تھے۔ اگرچہ خواجہ دل محمد کی قابلیت اور محنت و لگن کو دیکھتے ہوئے مختلف اوقات میں انھیں گراں قدر مشاہرے پر خدمات انجام دینے کی پیشکش ہوئی۔ لیکن وہ ہمیشہ اسلامیہ کالج سے وابستہ رہے۔ انھوں نے 35 برس تک اس کالج میں تشنگان علم کو فیض یاب کیا۔ 1940ء میں اسی کالج کے پرنسپل مقرر ہوگئے اور 1943 ء میں اپنی ذمہ داریوں سے سبک دوش ہوئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد رجسٹرار ضلع لاہور مقرر ہوئے۔ 1946ء میں خرابیِ صحت کے باعث یہ ذمہ داری چھوڑ دی۔ 27 مئی 1961ء کو خواجہ دل محمد انتقال کرگئے تھے۔

    بحیثیت استاد خواجہ دل محمد بہت کام یاب اور ہر دل عزیز رہے۔ ان کو تدریس کا وسیع تجربہ تھا اور ریاضی جیسا خشک مضمون بہت دل چسپ انداز سے پڑھاتے تھے۔ بحیثیت ریاضی داں ان کی خوب شہرت تھی اور کہتے ہیں‌ کہ اس زمانے میں ان کے پائے کے ماہرِ ریاضیات چند ہی تھے۔

    خواجہ دل محمد ملازمت کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف کے کام بھی انجام دیتے رہے۔ ادبی سفر پر نظر ڈالیں تو وہ شاعری کی خداداد صلاحیت رکھتے تھے۔ انھوں نے ابتدا نعت گوئی سے کی اور بعد میں قومی و اصلاحی نظموں کی وجہ سے بھی پہچانے گئے۔ خواجہ دل محمد کی شاعری کا باقاعدہ آغاز ہی انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسوں میں ولولہ انگیز شاعری سے ہوا۔ طالب علمی کے زمانے میں خواجہ صاحب ان جلسوں میں نظمیں سناتے تھے جہاں اکابر شعرا جیسے حالی، شبلی، ڈپٹی نذیر احمد وغیرہم موجود ہوتے اور اپنا کلام پیش کرتے تھے۔ خواجہ دل محمد کو ان شخصیات سے داد ملی۔ خواجہ صاحب نے ان نظموں کو 1956ء میں ’’حیات نو‘‘ کے نام سے شائع کیا۔

    خواجہ دل محمد کی سیاسی اور سماجی خدمات کا دائرہ بھی وسیع ہے۔ انھوں‌ نے قومی اور سیاسی تحریکوں میں حصہ لیا۔ 1924ء میں خلافت اور کانگریس کی متحدہ کمیٹی کے ٹکٹ پر میونسپل کمیٹی کے الیکشن میں حصہ لیا اور دامے درمے قدمے سخنے مسلمانوں کی مدد کرتے رہے اور اپنی شاعری کے ذریعے مسلمانوں میں آزادی کا جوش اور ولولہ بھی پیدا کرتے رہے۔

    خواجہ دل محمد نے پنجاب یونیورسٹی لاہور کی اعلیٰ جماعتوں کا نصاب تیار کرنے میں بھی حصہ لیا۔ پنجاب یونیورسٹی سنڈیکیٹ کے گیارہ برس تک ممبر اور 24 برس تک فیلو آف پنجاب یونیورسٹی رہے۔ الجبرا اور ریاضی پر ان کی متعدد تصانیف تھیں‌ جو نصاب میں بھی شامل رہیں‌۔ دوسری طرف انجمن حمایت اسلام کے اسلامیہ اسکولوں میں ہندو اور انگریز مصنفین کی کتابیں اس وقت متعارف کروائی گئی تھیں مگر خواجہ دل محمد کی ان تصانیف کی طباعت کے بعد انھیں شامل کرلیا گیا۔ پاکستان بننے کے بعد خواجہ دل محمد کی مرتب کردہ ریاضی کی 32 کتب مختلف مدارج کے نصاب میں شامل رہیں۔

  • جہلم کے سنیل دَت کی آزمائشوں اور جدوجہد کی کہانی

    جہلم کے سنیل دَت کی آزمائشوں اور جدوجہد کی کہانی

    سنیل دت کے آبائی گاؤں کا نام خورد ہے جو جہلم شہر سے چودہ میل کی مسافت پر واقع تھا۔ تقسیم سے قبل 6 جون 1929 کو اسی گاؤں میں سنیل دت نے آنکھ کھولی تھی اور بعد میں وہ بولی وڈ کے معروف اداکار اور فلمی ہیرو بنے۔ سنیل دت 25 مئی 2005 کو چل بسے تھے۔

    معروف صحافی اور ادیب علی سفیان آفاقی نے سنیل دت کی ابتدائی زندگی، ان کے حالات اور فلمی سفر سے متعلق لکھا ہے، قیام پاکستان سے پہلے کا زمانہ بمبئی کی فلمی صنعت کے لئے ایک سنہری دور تھا۔ بڑے بڑے نامور اور کامیاب ہدایت کار، اداکار، موسیقار اور گلوکار اس دور میں انڈین فلمی صنعت میں موجود تھے۔ ہر شعبے میں دیو قامت اور انتہائی قابل قدر ہستیاں موجود تھیں۔

    اس زمانے میں جو بھی فلموں میں کام کرنا چاہتا تھا، ٹکٹ کٹا کر سیدھا بمبئی کا راستہ لیتا تھا۔ ان لوگوں کے پاس نہ پیسہ ہوتا تھا، نہ سفارش اور نہ ہی تجربہ، مگر قسمت آزمائی کا شوق انہیں بمبئی لے جاتا تھا۔ ہندوستان کے مختلف حصوں سے ہزاروں نوجوان اداکار بننے کی تمنا لے کر اس شہر پہنچتے تھے۔ ان میں سے اکثر خالی ہاتھ اور خالی جیب ہوتے تھے۔ بمبئی جیسے بڑے وسیع شہر میں کسی انجانے کم عمر لڑکے کو رہنے سہنے اور کھانے پینے کے لالے پڑ جاتے تھے۔ یہی لوگ آج انڈین فلم انڈسٹری کے چاند سورج کہے جاتے ہیں جنہوں نے بے شمار چمک دار ستاروں کو روشنی دے کر صنعت کے آسمان پر جگمگا دیا۔ ( ہندوستان اور پاکستان کے بھی) اکثر بڑے ممتاز، مشہور اور معروف لوگوں کی زندگیاں ایسے ہی واقعات سے بھری ہوئی ہیں۔

    آئیے آج آپ کو ایک ایسے ہی معروف اور ممتاز آدمی کی کہانی سناتے ہیں جسے بر صغیر کا بچہ بچہ جانتا ہے لیکن یہ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ یہ لوگ کون ہیں؟ کہاں سے آئے تھے، اور کیسے کیسے امتحانوں اور آزمائشوں سے انہیں گزرنا پڑا۔

    یہ قصہ سنیل دت کا ہے۔ سنیل دت ہندوستانی لوک سبھا کا رکن رہا، نرگس بھی لوک سبھا کی رکن رہی تھی۔ ہندوستان کی وزیراعظم اندرا گاندھی سے ان کی بہت دوستی تھی اب نرگس رہیں نہ اندرا گاندھی، سنیل دت بھی نہیں رہے۔

    علی سفیان آفاقی اپنے مضمون میں‌ لکھتے ہیں، سنیل دت نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ جب وہ بمبئی پہنچے تو ان کی عمر سترہ اٹھارہ سال تھی۔ یہ انٹرویو بمبئی کی ایک فلمی صحافی لتا چندنی نے لیا تھا اور یہ سنیل دت کا آخری انٹرویو تھا۔ سنیل دت جب بمبئی پہنچے تو ان کی جیب میں پندرہ بیس روپے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ بمبئی میں در بدر پھرتے رہے۔ سب سے پہلا مسئلہ تو سَر چھپانے کا تھا۔ بمبئی میں سردی تو نہیں ہوتی لیکن بارش ہوتی رہتی ہے جو فٹ پاتھوں پر سونے والوں کے لئے ایک مسئلہ ہوتا ہے۔ بارش ہو جائے تو یا تو وہ سامنے کی عمارتوں کے برآمدے وغیرہ میں پناہ لیتے ہیں یا پھر فٹ پاتھوں پر ہی بھیگتے رہتے ہیں۔

    سوال: تو پھر آپ نے کیا کیا، کہاں رہے؟
    جواب: رہنا کیا تھا۔ فٹ پاتھوں پر راتیں گزارتا رہا۔ کبھی یہاں کبھی وہاں۔ دن کے وقت فلم اسٹوڈیوز کے چکر لگاتا رہا مگر اندر داخل ہونے کا موقع نہ مل سکا۔ آخر مجھے کالا گھوڑا کے علاقے میں ایک عمارت میں ایک کمرا مل گیا مگر یہ کمرا تنہا میرا نہیں تھا۔ اس ایک کمرے میں آٹھ افراد رہتے تھے جن میں درزی، نائی ہر قسم کے لوگ رات گزارنے کے لئے رہتے تھے۔

    میں نے اپنے گھر والوں سے رابطہ کیا تو انہوں نے مجھے ہر مہینے کچھ روپیہ بھیجنا شروع کر دیا۔ میں نے جے ہند کالج میں داخلہ لے لیا تاکہ کم از کم بی اے تو کرلوں۔ میرا ہمیشہ عقیدہ رہا ہے کہ آپ خواہ ہندو ہوں، مسلمان، سکھ، عیسائی کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں مگر ایک دوسرے سے محبت کریں۔ ہر مذہب محبت اور پیار کرنا سکھاتا ہے۔ لڑائی جھگڑا اور نفرت کرنا نہیں۔ میں کالج میں پڑھنے کے ساتھ ہی بمبئی ٹرانسپورٹ کمپنی میں بھی کام کرتا تھا۔ میں اپنا بوجھ خود اٹھانا چاہتا تھا اور گھر والوں پر بوجھ نہیں بننا چاہتا تھا۔

    ان دنوں بمبئی میں بہت سخت گرمی پڑ رہی تھی۔ اتنی شدید گرمی میں ایک ہی کمرے میں آٹھ آدمی کیسے سو سکتے تھے۔ گرمی کی وجہ سے ہمارا دم گھٹنے لگتا تھا تو ہم رات کو سونے کے لئے فٹ پاتھ پر چلے جاتے تھے۔ یہ فٹ پاتھ ایک ایرانی ہوٹل کے سامنے تھا۔ ایرانی ہوٹل صبح ساڑھے پانچ بجے کھلتا تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ہمیں ساڑھے پانچ بجے بیدار ہوجانا چاہیے تھا۔ ہوٹل کھلتے ہی ہماری آنکھ بھی کھل جاتی تھی۔ ایرانی ہوٹل کا مالک ہمیں دیکھ کر مسکراتا اور چائے بنانے میں مصروف ہوجاتا ۔ ہم سب اٹھ کر اس کے چھوٹے سے ریستوران میں چلے جاتے اور گرم گرم چائے کی ایک پیالی پیتے۔ اس طرح ہم ایرانی ہوٹل کے مالک کے سب سے پہلے گاہک ہوا کرتے تھے۔ وہ ہم سے بہت محبت سے پیش آتا تھا اور اکثر ہماری حوصلہ افزائی کے لئے کہا کرتا تھا کہ فکر نہ کرو، اللہ نے چاہا تو تم کسی دن بڑے آدمی بن جاؤ گے۔ دیکھو جب بڑے آدمی بن جاؤ تو مجھے بھول نہ جانا، کبھی کبھی ایرانی چائے پینے اور مجھ سے ملنے کے لئے آجایا کرنا۔ دوسروں کا علم تو نہیں مگر میں کبھی کبھی جنوبی بمبئی میں اس سے ملنے اور ایک کپ ایرانی چائے پینے کے لئے چلا جاتا تھا۔ وہ مجھ سے مل کر بہت خوش ہوتا تھا۔ میری ترقی پر وہ بہت خوش تھا۔ ایرانی چائے پینے کے بعد میں اپنی صبح کی کلاس کے لئے کالج چلا جاتا تھا۔ وہ بھی خوب دن تھے، اب یاد کرتا ہوں تو بہت لطف آتا ہے۔

    ان دنوں میرے پاس زیادہ پیسے نہیں ہوتے تھے، اس لئے میں کم سے کم خرچ کرتا تھا اور کالج جانے کے لئے بھی سب سے سستا ٹکٹ خریدا کرتا تھا۔ بعض اوقات تو میں پیسے نہ ہونے کی وجہ سے اپنے اسٹاپ سے پہلے ہی اتر کر پیدل کالج چلا جاتا تھا۔

    اس وقت ہماری جیب صرف ایرانی کیفے میں کھانے پینے کی ہی اجازت دیتی تھی۔ آج کے نوجوان فائیو اسٹار ہوٹلوں میں جاکر لطف اٹھاتے ہیں مگر ان دنوں ایرانی کیفے ہی ہمارے لئے کھانے پینے اور گپ شپ کرنے کی بہترین جگہ تھی۔ مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوتی تھی کہ ویٹر ایک کے اوپر ایک بارہ چائے کی پیالیاں رکھ کر کیسے گاہکوں کو تقسیم کرتا تھا۔ ایسا تو کوئی سرکس کا جوکر ہی کرسکتا ہے۔ اس کا یہ تماشا بار بار دیکھنے کے لئے بار بار اس سے چائے منگواتا تھا حالانکہ بجٹ اجازت نہیں دیتا تھا۔ ایرانی ہوٹل اس زمانے میں مجھ ایسے جدوجہد کرنے والے خالی جیب لوگوں کے لئے بہت بڑا سہارا ہوتے تھے۔ میں سوچتا ہوں کہ اگربمبئی میں ایرانی ہوٹل نہ ہوتے تو میرے جیسے ہزاروں لاکھوں لوگ تو مر ہی جاتے۔

    میں پچاس سال کے بعد اپنا آبائی گاؤں دیکھنے گیا جو کہ اب پاکستان میں ہے۔ مجھے یاد ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف نے مجھے مدعو کیا تھا۔ میں نے ان سے درخواست کی کہ میں اپنا آبائی گاؤں دیکھنا چاہتا ہوں۔ وہ بہت مہربان اور شفیق ہیں۔ انہوں نے میرے لئے تمام انتظامات کرا دیے۔ میرے گاؤں کا نام خورد ہے ۔ یہ جہلم شہر سے چودہ میل کے فاصلے پر ہے۔ میرا گاؤں دریائے جہلم کے کنارے پر ہے اور یہ بہت خوبصورت جگہ ہے۔ گاؤں سے نکلتے ہی جہلم کے پانی کا بہتا ہوا نظارہ قابل دید ہے۔

    میرے گاؤں میں بہت جوش و خروش اور محبت ملی۔ وہ سب لڑکے جو میرے ساتھ پڑھا کرتے تھے مجھ سے ملنے کے لئے آئے اور ہم نے پرانی یادیں تازہ کیں۔ میں ان عورتوں سے بھی ملا جنہیں میں نے دس بارہ سال کی بچیاں دیکھا تھا مگر اب وہ ساٹھ پینسٹھ سال کی بوڑھی عورتیں ہوچکی تھیں۔ اب میرے ساتھ کھیلنے والی بچیاں نانی دادی بن چکی تھیں۔ انہوں نے بھی بچپن کے بہت سے دلچسپ واقعات اور شرارتوں کی یادیں تازہ کیں۔

    پاکستان سے جانے کے بعد میں کبھی لاہور نہیں آیا۔ کراچی تو آنا ہوا تھا۔ کراچی میں مجھے بے نظیر بھٹو کی شادی میں مدعو کیا گیا تھا۔ میری بیوی نرگس میرا گاؤں دیکھنا چاہتی تھیں۔ میں بھی اپنا گاؤں دیکھنا چاہتا تھا۔ پرانے دوستوں سے مل کر پرانی یادیں تازہ کرنا چاہتا تھا۔ وہ جاننا چاہتی تھیں کہ میں کون سے اسکول میں پڑھتا تھا اور اسکول کس طرح جایا کرتا تھا۔

    میں ڈی اے وی اسکول میں پڑھتا تھا، اور چھٹی جماعت تک گھوڑے پر بیٹھ کر اسکول جاتا تھا، میرا اسکول اٹھ میل دور تھا۔ اسکول جانے کے لئے کوئی دوسرا ذریعہ نہ تھا۔ میرے پتا جی زمیندار تھے۔ ہمارے گھر میں بہت سے گھوڑے تھے۔ مجھے اسکول لے جانے والا گھوڑا سب سے الگ رکھا جاتا تھا۔

    علی سفیان آفاقی مزید لکھتے ہیں: سنیل دت نے اپنی تعلیم کا سلسلہ بھی محنت مزدوری اور جدو جہد کے زمانے میں جاری رکھا تھا جو ایک دانش مندانہ فیصلہ تھا۔ بی اے کرنے کے بعد انہوں نے بہت سے چھوٹے موٹے کام کیے، فٹ پاتھوں پر سوئے لیکن ہمت نہیں ہاری۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ایک زمانے میں "ریڈیو سیلون” سے فلمی گانوں کا ایک پروگرام ہر روز پیش کیا جاتا تھا، جسے پاکستان اور ہندوستان میں موسیقی کے شوقین باقاعدگی سے سنا کرتے تھے۔ سیلون کا نام بعد میں سری لنکا ہوگیا۔ یہ دراصل ایک جزیرہ ہے جنوبی ہندوستان میں تامل ناڈو کے ساحل سے صرف 25 میل کے فاصلے پر۔ انگریزوں کی حکومت کے زمانے میں سارا ہندوستان ایک تھا اور سلطنت برطانیہ کے زمانے میں سیلون کو ہندوستان ہی کا حصہ سمجھا جاتا تھا، اب یہ سری لنکا ہوگیا۔

    ریڈیو سیلون کو اپنا پروگرام پیش کرنے کے لئے ایک موزوں شخص کی ضرورت تھی جو بہترین نغمات پروڈدیوسرز سے حاصل بھی کرسکے۔ سنیل دت نے بھی اس کے لئے درخواست دے دی۔ صورت شکل اچھی تھی اور پنجابی ہونے کے باوجود ان کا اردو تلفظ و لب و لہجہ بہت اچھا تھا۔ اس طرح انہیں منتخب کر لیا گیا اور کافی عرصہ تک وہ ریڈیو سیلون سے گیتوں کی مالا پیش کرتے رہے۔ یہ فلم سازوں کے لئے سستی پبلسٹی تھی، اس لئے بھارتی فلم سازوں نے اس سے بہت فائدہ اٹھایا اور کشمیر سے راس کماری تک ان کے فلمی نغمات گونجنے لگے۔ جب نخشب صاحب پاکستان آئے اور انہوں نے فلم میخانہ بنائی تو اس فلم کے گانے ریڈیو سیلون سے پیش کیے گئے جس کی وجہ سے سننے والے بے چینی سے فلم کی نمائش کا انتظار کرتے رہے لیکن جب فلم ریلیز ہوئی تو بری طرح فلاپ ہوگئی حالانہ ناشاد صاحب نے اس فلم کے نغموں کی بہت اچھی دھنیں بنائی تھیں۔

    (ماخوذ از ماہنامہ ‘سرگزشت’پاکستان)

  • محمد مارما ڈیوک پکتھال: برطانوی نومسلم اور ترجمۂ قرآن

    محمد مارما ڈیوک پکتھال: برطانوی نومسلم اور ترجمۂ قرآن

    ہندوستان کی تاریخ میں برطانوی دور کی اُن شخصیات کا نام بھی پڑھنے کو ملتا ہے، جنھوں نے یہاں اسلام کو بطور مذہب قبول کر کے باقی ماندہ عمر یہیں گزار دی اور یہاں کے لوگوں سے بڑی عزّت اور احترام پایا۔ قرآن مجید کے مترجم، کئی معیاری علمی، ادبی اور تحقیقی کتب کے مصنف اور مشہور صحافی مارما ڈیوک پکتھال بھی انہی میں سے ایک تھے۔

    مارما ڈیوک پکتھال کی پیدائش 1875ء میں انگلستان میں ہوئی۔ انگلستان اور یورپ کی درس گاہوں میں تعلیم پانے والے پکتھال نے بعد میں مصر، ترکی، بیروت، شام اور بیت المقدس کی سیاحت کی اور وہاں کافی عرصہ قیام کیا۔ ان ملکوں میں انھوں نے عربی زبان سے رغبت محسوس کی اور اس کی تحصیل کے بعد اسلامی کتب کا مطالعہ کرنے لگے۔ اس نے اسلام کے بارے میں ان کی معلومات میں اضافہ کیا اور وہ غور و فکر کرنے کے بعد 1914ء میں دائرۂ اسلام میں داخل ہوگئے۔

    محمد مارما ڈیوک پکتھال 1920ء میں بمبئی آئے تھے۔ صحافت ان کا پیشہ تھا۔ وہ مشہور اخبار بمبئی کرانیکل کے ایڈیٹر مقرر ہوئے اور 1924ء تک یہ ذمہ داری نبھاتے رہے۔ ادھر دکن میں انھیں چادر گھاٹ ہائی اسکول کے پرنسپل کی نشست کے لیے پیشکش کی گئی اور کہا گیا کہ اسکول ان کی غیر معمولی قابلیت اور اعلیٰ صلاحیتوں سے استفادہ کرنا چاہتا ہے تو پکتھال نے اس پیشکش کو قبول کیا۔ 1925ء میں وہ حیدرآباد دکن میں اسکول کے پرنسپل ہوکر چلے آئے اور واقعی اپنے زمانہ میں چادر گھاٹ ہائی اسکول کو ایک مثالی درس گاہ بنا دیا۔

    پکتھال کے دور کے اسکول کے ایک طالب علم کا مضمون ماہنامہ ‘سب رس’ حیدرآباد کے 1994ء کے شمارے میں شایع ہوا تھا جس میں وہ لکھتے ہیں کہ پکتھال کے مراسم مصر، ترکی اور برطانیہ کے اعلی عہدیداروں سے تھے، اسی زمانے میں وہ سول سروس کے منتخب افراد کی تربیت بھی کرتے تھے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ ترجمۂ قرآن کے کام میں غرق تھے مگر حیرت ہے کہ اس مصروفیت کے باوجود وہ بلاناغہ سوائے جمعہ کی تعطیل کے، دن بھر مدرسے میں موجود رہتے۔ دوپہر کے وقفے میں نماز ظہر کی امامت بھی کرتے اور اسی گھنٹے میں اسکول کے صحن میں کچھ دیر کے لئے لڑکوں سے بے تکلف گفتگو بھی کرتے تھے۔ ان کی گفتگو میں لطیف ظرافت جھلکتی رہتی تھی۔

    بعد میں‌ پکتھال حیدرآباد میں محکمۂ نظامتِ اطلاعاتِ عامہ اور سول سروس ہاؤس کے نگراں کار بھی مقرر کیے گئے تھے۔

    قرآن پاک کا انگریزی میں ترجمہ پکتھال کا ایک کارنامہ ہے۔ حیدرآباد کی ملازمت کے دوران ترجمے کے کام کو مکمل فرصت اور یکسوئی کے ساتھ انجام دینے کے لیے ان کو پوری تنخواہ کے ساتھ دو سال کی رخصت دی گئی۔ ان کا ترجمہ 1930ء میں The Meanning of tha Glorious Koran کے نام سے بیک وقت لندن اور نیویارک سے شائع ہوا۔

    محمد مارما ڈیوک پکتھال کو ریاست حیدرآباد میں اس ترجمہ کی وجہ سے سَر آنکھوں پر بٹھایا گیا اور عظیم مترجم کے لیے ہر ممکن سہولت فراہم کی گئی۔ یہی نہیں بلکہ اس ترجمے کی تکمیل کے بعد بھی ان سے شایانِ شان سلوک روا رکھا گیا۔ ان کے انتقال کے بعد ان کی بیوہ کا دو سو پونڈ سالانہ وظیفہ تاحیات مقرر کیا گیا۔

    سر راس مسعود نے اپنی ایک تحریر میں لکھا کہ "پکتھال آج کل کی علمی دنیا میں مشاہیر میں شمار کیے جاتے ہیں۔ انھوں نے انگلستان اور یورپ کے دیگر ممالک میں تعلیم پائی ہے۔ انگریزی، جرمن، فرانسیسی اطالوی اور ہسپانوی زبانوں سے واقف ہونے کے علاوہ عربی میں بھی بہت اچھی استعداد رکھتے ہیں۔ وہ 1876ء میں پیدا ہوئے اور انھوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ اسلامی ممالک میں عربوں، ترکوں اور مصریوں کی صحبت میں گزارا ہے۔اسلامی ممالک کے بارے میں ان کی بہت سی تصانیف ہیں۔ انگلستان اور امریکہ کے تمام معتبر اخبارات اور رسائل میں ان کتابوں کی تعریف و توصیف کے ساتھ اس امر کا اعتراف کیا گیا ہے کہ مشرقی ممالک کے حالات اور تمدن کو سمجھنے کے لیے ان کا مطالعہ لازمی ہے۔ یہ کتابیں اس قدر مقبول ہوئی ہیں کہ ان کا ترجمہ فرانسیسی، جرمن ، دینش، ہنگرین اور روسی زبانوں کے علاوہ ایشیا کی متعدد زبانوں میں بھی ہوا ہے۔

    19 مئی 1936ء کو پکتھال وفات پاگئے تھے۔

  • مجتبیٰ‌ حسین:‌ اردو کے معروف ادیب اور مزاح نگار

    مجتبیٰ‌ حسین:‌ اردو کے معروف ادیب اور مزاح نگار

    مجتبیٰ حسین اردو کے ممتاز ادیب اور مشہور مزاح نگار تھے۔ ان کی تحریریں شگفتہ ہی نہیں رمزیت اور برجستگی کا نمونہ ہیں۔ مجتبیٰ حسین نے انشائیے بھی لکھے جنھیں طنز و مزاح کی آمیزش کے سبب بہت پسند کیا گیا۔

    بھارت کے ممتاز ادیب اور مزاح نگار مجتبیٰ حسین کا ادبی سفر چار دہائیوں‌ پر محیط ہے، وہ 27 مئی 2020ء کو انتقال کرگئے تھے۔ مجتبیٰ حسین 15 جولائی 1936ء کو گلبرگہ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی اور 1956ء میں عثمانیہ یونیورسٹی سے گریجویشن کیا۔ نوجوانی سے ہی طنز و مزاح کی جانب مائل ہوگئے تھے اور حیدرآباد دکن کے روزنامہ سیاست سے وابستگی کے دوران انھوں نے اپنے ادبی سفر کا آغاز کیا۔ بعد ازاں محکمۂ اطلاعات میں ملازمت اختیار کرلی اور پھر دلّی میں مختلف محکموں میں ملازمت کے بعد 1992ء میں ریٹائر ہوگئے۔ ان کا قیام حیدرآباد دکن میں رہا۔

    مجتبیٰ حسین کے یہاں طنز کا پہلو کم دیکھنے کو ملتا ہے۔ ان کا موضوع نوعِ انسانی ہے۔ واقعہ نگاری اور مرقع کشی میں ان کا کمالِ فن عروج پر نظر آتا ہے۔ انھوں نے اپنے مشاہدے کی مدد سے مختلف واقعات کے مضحک پہلوؤں کو اپنی تحریروں میں نہایت خوب صورتی سے اجاگر کیا اور قارئین میں‌ ان کے مضامین اور انشائیے مقبول ہوئے۔ سماج کے مختلف طبقات اور شعبہ ہائے حیات سے متعلق افراد کے طرزِ زندگی، ان کے مسائل اور ان کے مخصوص رویوں، عادات پر ان کی تحریروں کو کتابی شکل میں بہت پذیرائی ملی۔

    سماج ہی نہیں‌ سیاست اور اس کے بطن سے پھوٹنے والے ہنگامے بھی ان کی نظر میں‌ رہے۔ مجتبیٰ حسین کی ایک تحریر سے یہ پارہ ملاحظہ کیجیے۔ ’’اگر آپ خالص فسادات دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر ہندوستان ہی جائیے۔ یہاں کے فسادات اتنے خالص ہوتے ہیں کہ ان میں کہیں بھی انسانیت کی ملاوٹ نہیں ہوتی۔ اس صفائی سے انسانوں کے سر کاٹے جاتے ہیں اور ان کے جسموں میں چھرے بھونک دیے جاتے ہیں کہ عقل حیران اور نظر دنگ رہ جاتی ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ فرقہ وارانہ فساد ہندوستان کا بڑا قدیم کھیل ہے۔‘‘

    بہرحال، بالآخر اور الغرض ان کے طنزیہ و مزاحیہ مضامین اور انشائیوں کے مشہور مجموعے ہیں۔ انھوں نے سفر نامے بھی تحریر کیے اور کالم بھی لکھے جو بہت مقبول ہوئے، قصہ مختصر، آدمی نامہ، جاپان چلو جاپان چلو اور کئی کتابوں کے مصنّف مجتبیٰ حسین کو ان کی تخلیقی کاوشوں اور ادبی خدمات کے اعتراف میں متعدد انعامات اور اعزازات سے نوازا گیا تھا۔

  • عقلیت پسند دانش وَر، شاعر، ادیب، اور نقّاد نیاز فتح پوری کا تذکرہ

    عقلیت پسند دانش وَر، شاعر، ادیب، اور نقّاد نیاز فتح پوری کا تذکرہ

    بلاشبہ برصغیر پاک و ہند کے جویانِ علم اور تعلیم و تعلّم کے شیدائی گھرانے اور انجمنیں نیاز فتح‌ پوری کی نیاز مند رہی ہیں۔ ان کی قابلیت، علمی استعداد اور نکتہ رسی کی قائل وہ شخصیات اور بڑے بڑے اسکالرز بھی تھے جن کا نیاز فتح پوری سے مذہبی معاملات اور دینی امور پر شدید اختلاف بہرحال رہا، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ نیاز فتح پوری نے اپنی فکر اور ذوقِ علم کو اپنی تعقل پسندی اور دلائل و براہین سے اس درجہ بلند کر لیا کہ ان کی بات ہر طبقۂ سماج تک پہنچی اور اسے قبول بھی کیا گیا۔ نیاز فتح پوری نے اسلام کے پیغام کو پوری دیانت داری سے سمجھنے کی کوشش کی اور اس کے لیے اپنی عقل کا سہارا لیا۔

    نیاز فتح پوری ہمیں اپنے دور کے ایک جدید صوفی نظر آتے ہیں جن کی فکر پختگی کی حد کو پہنچ کر مذہب کے بنیادی اصولوں کی مظہر اور ترجمان بن گئی جسے نیاز صاحب کے قلم نے اُن کے دل کش اور نہایت متاثر کن اسلوب میں کتاب کر دیا۔

    کون تھا جو نیاز فتح پوری کی علمیت سے مرعوب نہ تھا اور ان کی شخصیت کے سحر میں گرفتار نہ رہا ہو۔ نیاز صاحب کہیں ایک افسانہ نگار کے روپ میں سامنے آتے ہیں تو کہیں مذہب اور زندگی، اصول، قوانین، روایات اور انسانیت سے متعلق دقیق، پُرپیچ اور گنجلک موضوعات پر لیکچر دیتے اور مضامین رقم کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ کوئی فلسفیانہ انداز میں مسائل کا حل نکالنے، بہت سی گتھیاں سلجھانے کے اُن کے انداز سے متأثر تھا تو کسی کو مذہبی اعتقادات اور تاریخی موضوعات پر نیاز فتح‌ پوری کی مدلّل گفتگو اور مباحث میں کشش محسوس ہوتی تھی۔

    ایک زمانہ تھا کہ نیاز صاحب کی نثر کا ڈنکا بجتا تھا۔ افسانے ہی نہیں‌ ان کے ناولٹ اور انشائیے، مذہب اور سائنس کے تال میل پر ان کے مضامین، اور بعد میں اپنی تحریروں پر اعتراضات کے جوابات کے علاوہ مختلف تراجم جو نیاز صاحب نے کیے، ان کا بہت شہرہ تھا۔ نیاز فتح پوری کی متنازع فیہ کتاب ’’من و یزداں‘‘ تھی جب کہ رسالہ ’’نگار‘‘ ان کی ادارت میں‌ برصغیر کے علمی اور ادبی حلقوں کے ساتھ عام قارئین کی فکر اور شعور کو بلند کرتا رہا۔

    نیاز فتح پوری ایک عقلیت پسند کی حیثیت سے مشہور تھے جنھوں نے اردو ادب کی مختلف اصناف کو اپنی فکر اور تخلیقات سے مالا مال کیا۔ وہ شاعر، افسانہ نگار، نقّاد اور محقق تو تھے ہی مگر انھیں ایک مفکّر، عالمِ دین، مؤرخ اور ماہرِ نفسیات بھی کہا جاتا ہے جن کی تحریریں گوناگوں ادبی اور علمی موضوعات پر اردو زبان کا بیش قیمت سرمایہ ہیں۔ نیاز فتح پوری کی ادبی اور علمی سرگرمیوں کا میدان بہت وسیع تھا جسے انھوں نے رسالہ ’’نگار‘‘ کے ذریعے عام کیا۔ یہ وہ رسالہ تھا جس میں ادب کے علاوہ فلسفہ، مذہب اور سائنس پر شان دار تحریریں‌ شایع ہوتی تھیں جس نے اپنے قارئین میں پیچیدہ موضوعات اور ادق مسائل پر مباحث اور غور و فکر کی عادت کو پروان چڑھایا۔ نیاز فتح پوری نے جدید نفسیات، ہپناٹزم اور جنسیات جیسے موضوعات پر قلم اٹھایا اور خوب جم کر لکھا۔

    1924ء کے ایک شمارۂ نگار میں ان کا ’’اہلِ مریخ سے گفتگو کا امکان‘‘ اور ’’جنگ کا نقشہ ایک صدی بعد‘‘ جب کہ 1935ء کی اشاعت میں ’’چاند کا سفر‘‘ جیسا مضمون شایع ہوا تھا اور ان مضامین کا خوب شہرہ ہوا تھا۔ یہ تحریریں ایک طرف نیاز فتح پوری کی تخلیقی صلاحیتوں کے ساتھ ان کی فکر و نظر کی بلندی اور دوسری جانب اس دور میں مصنّف کے سائنسی رجحان کا پتا دیتی ہیں۔

    نیاز صاحب کو عقلیت پسندی کے سبب اپنے دور میں سخت مخالفت اور کڑی تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ مذہبی حلقوں کی جانب سے اُن پر بگاڑ کا الزام عائد کرتے ہوئے فتاویٰ جاری کیے گئے جب کہ قدامت پسند حلقوں کی طرف سے اُن کی بھرپور مخالفت کی جاتی رہی۔

    معروف شاعر، ادیب اور کالم نگار جمیل الدّین عالی نیاز صاحب کے بارے میں لکھتے ہیں: ” فروری 1922ء میں جب علّامہ نیاز فتح پوری نے ترک زبان کی مشہور شاعرہ ”نگار بنت عثمان“ کی انقلابی شاعری سے متاثر ہو کر ”نگار“ جاری کیا تو ان کی نظر سنجیدہ علمی موضوعات پر مرکوز تھی۔ نگار کے ذریعے انہیں تخلیقی و تحقیقی قوتوں کے آزادانہ استعمال کا موقع مل گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے افسانہ، ناول، صحافت، مقالہ نگاری، تنقید، مکتوبات نگاری اور انشا پردازی سب میں ان کا سکّہ چلنے لگا۔ اب وہ ادیب نہ رہے، ادیب ساز بھی ہو گئے اور ان کی علمی اور ادبی شخصیت اتنی وقیع اور واضح ہوگئی کہ ادبی تاریخ کی ترتیب و تدوین میں ان کا کٹر سے کٹر مخالف بھی ان کے نام کو نظر انداز نہیں کرسکتا۔ نیاز کا قلم، انیسویں صدی کی پہلی دہائی سے لے کر 1966ء کے اوائل تک کم و بیش ساٹھ سال چلتا رہا۔ جس زمانے میں ”نگار“ منظر عام پر آیا اس وقت علمی رسائل نہ ہونے کے برابر تھے اور علمی و تحقیقی مضامین لکھنے والوں کی بھی بہت کمی تھی، یہ نگار کا کمال ہ ے کہ اس نے لوگوں میں لکھنے کے شوق کو جلا دی اور اہلِ قلم پیدا کیے جن کی علمی طبقے نے بڑی پذیرائی کی۔ نگار محض ادبی جریدہ نہیں بلکہ ایک ادارہ، ایک رجحان اور ایک قدر تھا۔”

    جہانِ علم و ادب 24 مئی 1966ء کو نیاز فتح پوری سے محروم ہوگیا تھا۔ نیاز صاحب کا وطن یوپی کا ضلع بارہ بنکی تھا جہاں وہ 28 دسمبر 1884ء کو پیدا ہوئے۔ نیاز محمد خان ان کا نام رکھا گیا۔ مدرسہ اسلامیہ فتح پور، رام پور اور بعد میں لکھنؤ کے مشہور دارالعلوم ندوۃ العلماء سے تعلیم حاصل کی۔ شروع ہی سے ان کا رجحان علم و ادب کی جانب رہا اور غور و فکر کی عادت بھی وقت کے ساتھ پختہ ہوگئی۔ تعلیمی مدارج طے کرتے ہوئے مطالعہ اور مشاہدہ کی قوّت نے ان کو اس قابل بنا دیا وہ اپنے خیالات اور مشاہدات کو رقم کرسکیں۔ نیاز صاحب شاعری کا آغاز کیا اور پھر افسانہ بھی لکھنے لگے۔ اس کے ساتھ جب عملی زندگی میں قدم رکھا تو محکمہ پولیس میں بھرتی ہوئے۔ لیکن 1902ء میں سب انسپکٹر ہوئے تھے جب یہ ملازمت ترک کر دی۔ اگلے کئی برس مختلف کام کیے اور پھر 1922ء میں نیاز فتح پوری نے نگار جاری کیا جو تھوڑے ہی عرصے میں روشن خیالی کی مثال بن گیا۔ نیاز صاحب تقسیمِ ہند کے بعد 1962ء میں ہجرت کر کے کراچی آئے تھے اور اسی شہر میں وفات پائی۔

    رسالہ نقوش کے مدیر محمد طفیل لکھتے ہیں، "نیاز صاحب نے جو کچھ بھی امتیاز حاصل کیا۔ وہ اپنے قلم کے سحر سے حاصل کیا۔ لکھنے کے لیے کسی اہتمام کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ باتیں بھی کرتے جاتے ہیں۔ لکھتے بھی جاتے ہیں۔ گلوری منہ میں ہو گی۔ خوں خوں کر کے باتوں میں ساتھ دیں گے۔ ضرورت پڑی تو پیک نگل کر بولیں گے: ’’یہ آپ نے کیسے سمجھ لیا کہ میں کام میں مشغول ہوں۔‘‘ حافظہ بلا کا پایا ہے۔ ہر چیز، ہر کتاب ان کے ذہن میں منتقل ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے بڑے بڑے کام صرف چند دنوں میں کر ڈالے۔ ان کے ہاں آمد ہی آمد ہے۔ آورد نام کو نہیں۔ الفاظ واقعی ہاتھ باندھے کھڑے رہتے ہیں۔ یہ کمال میں نے صرف انیس، جوش اور نیاز میں دیکھا۔ باقی سب کے ہاں کاری گری ہے۔”

    علّامہ نیاز فتح پوری نے 35 کتابیں یادگار چھوڑیں جن میں من و یزداں، نگارستان، شہاب کی سرگزشت، جمالستان اور انتقادیات مقبول ہوئیں۔ حکومتِ پاکستان نے انھیں "نشانِ سپاس” سے نوازا تھا۔

    علّامہ نیاز فتح پوری کینسر کے مرض میں مبتلا ہوگئے تھے۔ انھیں کراچی میں پاپوش نگر کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • وکٹر ہیوگو: فرانس کا سب سے بڑا ناول نگار

    وکٹر ہیوگو: فرانس کا سب سے بڑا ناول نگار

    وکٹر ہیوگو کو بیسویں صدی کا سب سے بڑا فرانسیسی ادیب تسلیم کیا جاتا ہے جس کے ناولوں کا دنیا بھر کی زبانوں‌ میں ترجمہ ہوا اور فلمیں بنائی‌ گئیں۔ وکٹر ہیوگو ناول نگار ہی نہیں بحیثیت شاعر اور صحافی بھی مشہور ہے۔ وکٹر ہیوگو 1885ء میں آج ہی کے دن چل بسا تھا۔

    وکٹر ہیوگو نے اپنے تخلیقی سفر کی ابتدا بطور شاعر کی تھی لیکن پھر وہ نثر نگاری کی طرف متوجہ ہوا اور اس نے ناول نگاری اور ڈرامے لکھنا شروع کیے اور اس کی کہانیاں‌ فرانس کے علمی و ادبی حلقوں اور عام قارئین میں مقبول ہونے لگیں۔ بعد کے برسوں میں وکٹر ہیوگو نے بطور ناول نگار فرانسیسی ادب میں بڑا مقام پایا اور دنیا بھر میں اپنے ناولوں کی بدولت شہرت حاصل کی۔

    عالمی شہرت یافتہ وکٹر ہیوگو 26 فروری 1802ء میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ فوج میں‌ اعلیٰ‌ عہدے پر فائز تھا اور اسی سبب اکثر یہ کنبہ اپنے گھر کے سربراہ کا تبادلہ ہونے پر مختلف شہروں میں رہتا رہا اور انھیں اسپین بھی جانا پڑا۔ یوں وکٹر ہیوگو کو مختلف ماحول اور ثقافت کو دیکھنے کا موقع ملا۔ والدین میں علیحدگی کے بعد وکٹر ہیوگو اپنے والد کے ساتھ رہا۔ بطور نثر نگار وکٹر ہیوگو کا پہلا ناول 1823ء میں شایع ہوا اور عالمی ادب میں اسے رومانوی تحریک سے وابستہ تخلیق کار شمار کیا گیا۔

    وکٹر ہیوگو حسن و جمال کا دلداہ تھا اور اس کی زندگی میں‌ کئی عورتیں‌ بھی آئیں۔ اس ادیب کے مزاج کی عکاسی اس کے ناولوں کے کردار کرتے ہیں۔ وکٹر ہیوگو نے ناول لکھنے کے ساتھ اس وقت کے سب سے مقبول میڈیم یعنی اسٹیج کے لیے کئی کھیل بھی تحریر کیے اور ساتھ ہی شاعری میں طبع آزمائی بھی جاری رکھی۔ وکٹر ہیوگو ہر صنفِ ادب میں اپنی انفرادیت برقرار رکھنے میں کام یاب رہا۔ وہ زرخیز ذہن کا مالک تھا۔ اس نے ادب تخلیق کرنے کے ساتھ صحافت کے علاوہ عملی سیاست میں بھی حصّہ لیا اور انسانی حقوق کے لیے بھی آواز بلند کرتا رہا۔

    Les Miserables وکٹر ہیوگو کا بہترین ناول شمار کیا جاتا ہے جسے اردو زبان میں‌‌ بھی ترجمہ کیا گیا اور اس پر متعدد فلمیں بھی بنائی جاچکی ہیں۔ اردو زبان کے علاوہ یہ ناول اب تک بیس سے زائد زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے اور دنیا بھر میں یہ وکٹر ہیوگو کی اہم تصنیف کے طور پر مشہور ہے۔ یہ ناول اس ادیب نے 1845ء میں لکھنا شروع کیا تھا اور کہتے ہیں کہ اس کی تکمیل 1861ء میں ہوئی۔ باقر نقوی نے بھی اسے اردو کا جامہ پہنایا اور وہ اس شاہکار کے بارے میں لکھتے ہیں، ’’یہ تصنیف بدلتے ہوئے فرانس کی بدحالی کے زمانے کی بہترین عکاس ہے۔ اس پر مستزاد ہیوگو کی باریک بینی نے اس میں چار چاند لگادیے ہیں، اگرچہ ناول بدنصیبی، خستہ حالی، ظلم، بدامنی، بغاوت، سرکشی، سازش،مکاری، لوٹ مار، قتل و خون وغیرہ سے عبارت ہے۔ اس میں جنگ بھی ہے، مذہب بھی ہے اور محبت بھی۔ تاہم اس میں ایسے کردار بھی ہیں جو بے انتہا فیاض ہیں، مذہبی ہیں، نیک نیت والے اور عام شہری ہیں، جنہوں نے اُس دورِ ابتلا میں پریشاں حال لوگوں کے لیے بھلائی کے کام بھی کیے تھے۔ اپنے زمانے میں ہیوگو کو وہی درجہ حاصل تھا جیسا کہ جرمن زبان میں گوئٹے کو اور اردو میں غالب و میر کو ہوا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ مصنف موضوع میں اتنا ڈوب کر اور اتنی باریک تفصیلات کے ساتھ تحریر کرتا ہے گویا وہ فکشن نہیں، تاریخ لکھ رہا ہو۔‘‘

    اس کے علاوہ وکٹر ہیوگو کا The Hunchback of Notre-Dame وہ ناول تھا جس کا اردو زبان میں‌ کبڑا عاشق کے نام سے ترجمہ قارئین میں‌ بہت مقبول ہوا۔ اسے بھی دنیا بھر میں‌ وکٹر ہیوگو کی بہترین تخلیقات میں شمار کیا جاتا ہے۔

    فرانسیسی ادیب وکٹر ہیوگو نے دراصل اپنے زمانے کے سماجی حقائق اور لوگوں کے رویّوں کے ساتھ اجتماعی زندگی کے مخلتف روپ اپنی تخلیقات میں‌ اس طرح‌ پیش کیے کہ وہ قارئین کی توجہ حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ناقدین کو بھی چونکاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے اسے اپنے عہد کے بڑے نقّادوں نے اہمیت دی اور اس کی تخلیقات پر مضامین سپردِ قلم کیے۔

  • حیدر بخش جتوئی: سندھ کے ہاریوں کی آنکھ کا تارا

    حیدر بخش جتوئی: سندھ کے ہاریوں کی آنکھ کا تارا

    کو ’’بابائے سندھ‘‘ کہا جاتا ہے۔ انھیں ہر طبقۂ عوام میں یکساں‌ احترام اور پسندیدگی حاصل تھی اور انھیں عوام نے یہ لقب دیا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ حیدر بخش جتوئی کی زندگی غریب عوام کے حقوق کے لیے جدوجہد میں گزری جس نے انھیں ہر دل عزیز شخصیت بنا دیا تھا۔ آج ہلالِ امتیاز پانے والے کامریڈ حیدر بخش جتوئی کی برسی ہے۔

    حیدر بخش جتوئی صوبۂ سندھ کی ایک سیاسی، سماجی اور علمی و ادبی شخصیت تھے اور انھیں ہاری راہ نما اور شاعر کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ لاڑکانہ ان کا آبائی علاقہ تھا جہاں وہ سنہ 1900ء میں پیدا ہوئے تھے۔ ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد حیدر بخش جتوئی نے بمبئی یونیورسٹی سے گریجویشن اور آنرز کی تکمیل کی، جس کے بعد سرکاری ملازمت اختیار کی لیکن جلد ہی اسے خیرباد کہہ دیا۔ پیدائش کے فوراً بعد وہ والدہ کی آغوش سے محروم ہوگئے تھے۔ 11 سال کے ہوئے تو اسکول میں داخل کروایا گیا، جہاں ایک موقع پر لاڑکانہ کے اس وقت کے ڈپٹی کمشنر آئے۔ حیدر بخش جتوئی سے ڈپٹی کمشنر نے کچھ بات کی تو اندازہ ہوا کہ بچّہ نہایت قابل اور پُراعتماد ہے۔ کہتے ہیں کہ انھوں نے حیدر بخش کے والد سے ملاقات کی اور انھیں کہا کہ حیدر بخش غیر معمولی صلاحیت کا حامل ہے، اس کی تعلیم و تربیت پر خاص‌ توجہ دیں اور اعلیٰ تعلیم دلوائیں۔ حیدربخش جتوئی نے سندھ کے مشہور ادارے مدرسۃُ الاسلام سے کراچی میں تعلیمی مراحل طے کرتے ہوئے نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور دسویں جماعت میں سندھ بھر میں پہلی پوزیشن لی۔ بعد میں گریجویشن اور پھر ممبئی یونیورسٹی سے فارسی میں امتیاز حاصل کیا۔ 23 سال کی عمر میں ان کی شادی ہوگئی۔

    حیدر بخش جتوئی نے محکمۂ ریونیو میں ہیڈ منشی کی حیثیت سے ملازمت کا آغاز کیا لیکن اس دور میں سیاسی تحریکوں اور سماجی تغیرات نے انھیں ایک انقلابی کے طور پر ابھرنے کا موقع دیا اور وہ عوام، خاص طور پر ہاریوں کے حقوق کی جنگ لڑنے کے لیے سرکاری ملازمت سے الگ ہوکر ہاری تحریک کا حصّہ بن گئے۔ انھیں کامریڈ پکارا جانے لگا تھا، 1950 میں ہاری کونسل نے انہی کا مرتب کردہ آئین منظور کیا تھا جس کے بعد حیدر بخش جتوئی اور ساتھیوں کی جدوجہد رنگ لائی اور قانونِ زراعت منظور ہوا۔ وہ ہاریوں‌ کے حق میں آواز اٹھانے کی پاداش میں جیل بھی گئے۔ حیدر بخش جتوئی عوام اور پسے ہوئے طبقے کے حق میں اپنی جدوجہد کی وجہ سے لوگوں میں‌ مقبول ہوئے اور سندھ میں‌ انھیں عوام اپنا حقیقی مسیحا اور راہبر مانتے تھے۔

    حیدر بخش جتوئی نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز انڈین نیشنل کانگریس، تھیوسوفیکل سوسائٹی اور کمیونسٹ پارٹی، ہندوستان کے ایک رُکن کی حیثیت سے کیا۔ وہ کمیونسٹ پارٹی کے وفادار رکن تھے، لیکن ہمیشہ روادارانہ، آزاد خیال اور وسیع فہم و فکر کا مظاہرہ سیاسی پالیسیوں اور مذہبی فلسفیانہ سوچ کے تحت کیا۔

    ہندوستان کی جدوجہدِ آزادی پر ان کی ایک نظم کو شاہکار تخلیق کہا جاتا ہے۔ حیدر بخش جتوئی نے اپنی سندھی شاعری کا مجموعہ’’ تحفۂ سندھ‘‘ کے نام سے شائع کروایا تھا۔ جو صرف 65 صفحات کا ہے اور اس مجموعے میں نظم’’ دریا شاہ‘‘ اور’’شکوہ‘‘ بھی شامل ہیں، جن کا انگریزی میں بھی ترجمہ ہوا۔ 1946ء میں انھوں نے اپنی شاعری کا دوسرا مجموعہ ’’آزادیٔ قوم‘‘ شائع کروایا۔ یہ طویل نظم’’مخمّس‘‘ یعنی پانچ بندوں پر مشتمل ہے اور اس کا موضوع، برصغیر میں برطانوی راج کے خلاف جدوجہد ہے۔ انھوں نے کئی مشاعروں میں بھی شرکت کی، جن میں پاک و ہند اردو مشاعرہ بھی شامل ہے، جس میں حیدر بخش جتوئی نے سندھی نظم پڑھی تھی۔

    کامریڈ حیدر بخش جتوئی ایک زود نویس مصنّف تھے۔ انھوں نے ون یونٹ کے خلاف کئی کتابچے لکھے۔ حیدر بخش جتوئی نے سندھی زبان میں دیگر کتابیں بھی تصنیف کیں۔

    حیدر بخش جتوئی 21 مئی 1970 کو وفات پاگئے تھے۔

  • اقبال متین: اردو زبان کا البیلا افسانہ نگار

    اقبال متین: اردو زبان کا البیلا افسانہ نگار

    ارضِ دکن کے بے مثال اور البیلے افسانہ نگار اقبال متین نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز شعر گوئی سے کیا تھا۔ لیکن چند سال بعد ان کی شناخت اُن کی افسانہ نگاری بن گئی۔ انھوں نے سماجی جبر اور استحصال کو اپنا موضوع بنایا اور اردو ادب کو کئی متاثر کن افسانے دیے۔

    اقبال متین 2 فروری 1929ء کو حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام سید عبد القادر ناصر اور والدہ کا نام سیدہ آصفیہ بیگم تھا۔ اقبال متین کو شروع ہی سے علمی و ادبی ماحول میسر آیا تھا ار انھوں‌ نے انٹرمیڈیٹ تک تعلیم حاصل کی۔ اقبال متین کی پہلی کہانی ’’چوڑیاں‘‘ تھی جو 1945ء میں ’’ادبِ لطیف‘‘ لاہور میں شائع ہوئی۔ رسالہ ’’ادبِ لطیف‘‘ لاہور کے مدیر احمد ندیم قاسمی تھے جو اردو افسانے کے صف اول کے لکھنے والوں میں امتیازی حیثیت اور نام و مرتبہ رکھتے تھے۔ ان کا یہ رسالہ بھی اس دور کے اہم رسالوں میں سے ایک تھا۔ گویا اقبال متین کی کہانی کا اس رسالہ میں شائع ہونا ان کے لیے تو ایک اعزاز سے کم نہ تھا اور ساتھ ہی انھیں اپنے مستقبل کے لیے ایک سند بھی حاصل ہو گئی تھی۔ ’’ادبِ لطیف‘‘ کے بعد ان کی کہانیاں’’ادبی دنیا‘‘ ، ’’نیا دور‘‘ اور ’’افکار‘‘ میں شائع ہونے لگی تھیں۔

    اقبال متین نے شاعری مکمل طور پر ترک تو نہیں کی لیکن شاعری سے زیادہ کہانیوں پر توجہ دی اور ادبی حلقوں میں متاثر کن اور کام یاب افسانہ نگار کے طور پر جگہ بنائی۔ بھارت کے اس معروف اردو ادیب نے افسانہ اور ناول کے ساتھ خاکے اور مضمون بھی لکھے جو کتابی شکل میں شایع ہوئے۔ اقبال متین کا ناول ’’چراغ تہ داماں 1976ء‘‘ ، ’’سوندھی مٹی کے بت 1995ء‘‘ (خاکے)، ’’باتیں ہماریاں‘‘ 2005ء (یادیں)، ’’اعتراف و انحراف 2006ء‘‘ (مضامین )، جب کہ ’’اجالے جھروکے میں ‘‘ (مضامین) 2008ء میں شائع ہوئے۔

    5 مئی 2015ء کو دکن میں‌ انتقال کرنے والے اقبال متین کو بھارت میں اردو اکادمی اور دوسری انجمنوں کی جانب سے متعدد ادبی اعزازات اور انعامات سے نوازا گیا۔

  • ‘ببّو’ جسے اب یاد کرنے والا کوئی نہیں!

    ‘ببّو’ جسے اب یاد کرنے والا کوئی نہیں!

    عشرت سلطانہ عرف ببّو کسی زمانے میں ساگر فلم کمپنی کی مشہور ہیروئن ہوا کرتی تھی۔ 1914ء میں دلّی میں پیدا ہوئی تھی۔ طبیعت بچپن سے اداکاری، رقص و موسیقی کی جانب مائل تھی اس لیے فلم لائن میں چلی گئی۔ اچھی اداکارہ ہونے کے ساتھ اچھی سنگر بھی ثابت ہوئی۔ ہیروئن اور ویمپ کا کردار یکساں خوبی کے ساتھ نبھایا کرتی تھی۔

    اُن دنوں بھی بہت ہنس مکھ تھی، جس محفل میں جاتی اُسے زعفران زار بنا دیا کرتی تھی۔ پہلی بار فلم ’دوپٹہ‘ میں ایک چھوٹا سا رول ملا تھا جو اس نے خوش اسلوبی سے نبھا دیا۔ پھر بڑے کردار ملنے لگے اور فلمیں کامیاب ہوتی چلی گئیں۔ جسم تھوڑا بھاری تھا لیکن اس کی سُریلی آواز نے لوگوں کو دیوانہ بنا رکھا تھا۔

    ’جاگیردار‘ اور ’گرامو فون سنگر‘ فلموں کے باعث بڑی مشہور ہو گئی۔ اس کا یہ گانا بچّے بچّے کی زبان پر تھا ’’پجاری میرے مندر میں آؤ‘‘ ایک اور نغمہ تمھیں نے مجھ کو پریم سکھایا….سوئے ہوئے ہردے کو جگایا، بہت پاپولر ہوا تھا۔

    ایک بار اس کی ایک فلم دیکھ کر بمبئی کے گورنر نے اس کی تعریف کی تھی جس کی وجہ سے وہ مغرور ہو گئی اور اس کے نخرے بڑھنے لگے۔ اپنے وفا شعار شوہر کو چھوڑ کر چلتے پھرتے تعلقات پر یقین کرنے لگی۔ بالآخر حسن ڈھلنے کے دن آ گئے اور مٹاپا جسم پر چھا گیا تو سب نے آنکھیں پھیر لیں، کام ملنا بند ہو گیا۔ ملک کا بٹوارہ ہو گیا تو قسمت آزمائی کے لیے لاہور چلی گئی اور وہاں پاکستان کی فلم انڈسٹری میں مقام پیدا کرنے کی کوشش کی۔ چند فلموں میں کام کرنے کے بعد وہاں بھی مارکیٹ ختم ہو گئی۔ کام حاصل کرنے کی کوشش میں وہ اسٹوڈیوز کے چکّر کاٹتی رہتی تھی۔ فلم ’مغلِ اعظم‘ میں سنگ تراش کا کردار عمدگی سے نبھانے کے باوجود جب اداکار کمار کو بھی اداکاری کے میدان میں دشواری محسوس ہونے لگی تو وہ بھی پاکستان چلا گیا۔

    ایک دن اُس کا کسی اسٹوڈیو میں اپنی پرانی ہیروئن ببّو سے سامنا ہوا تو دونوں گلے ملے۔ کمار بار بار ’’میری ببّو، میری ببّو‘‘ کہہ کر پرانے دنوں کی یاد تازہ کرتا رہا۔ دونوں کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ بمبئی میں تب کیسے اچھے دن تھے اور اب کتنا مایوس کر دینے والا ماحول تھا۔ ببّو کے پاؤں جب فلم انڈسٹری سے اکھڑ گئے اور کوشش بسیار کے باوجود کام نہ ملا تو اُس نے شراب کی ناجائز درآمد اور برآمد کا دھندا شروع کر دیا، پکڑی گئی تو نہ گھر کی رہی نہ گھاٹ کی۔ آخر کار گمنام موت نصیب ہوئی۔ اب اُسے یاد کرنے والا کوئی نہیں۔

    (از قلم وشو ناتھ طاؤس)

  • سیّد مراتب علی کا تذکرہ جنھوں‌ نے کئی کمپنیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری پر آمادہ کیا

    سیّد مراتب علی کا تذکرہ جنھوں‌ نے کئی کمپنیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری پر آمادہ کیا

    ہندوستان میں تحریکِ آزادی اور مسلم لیگ کو مضبوط کرنے کے لیے اسباب اور مالی وسائل مہیا کرنے والوں میں ایک نام سیّد مراتب علی کا بھی ہے جن کا ذکر بہت کم ہوتا ہے۔ وہ قائدِ اعظم محمد علی جناح کی قریبی دوست تھے۔ سید مراتب علی نے قیامِ پاکستان کی جدوجہد کو کام یاب بنانے کے لیے اپنی دولت خرچ کی اور دل کھول کر مسلم لیگ کے لیے مالی عطیات دیے۔

    سیّد مراتب علی 1882ء میں متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سید وزیر علی شاہ کاروبار سے وابستہ تھے اور دکان چلانے کے ساتھ ساتھ ٹھیکیداری کرتے تھے۔ یوں مراتب علی بھی محنتی اور کاروباری سوجھ بوجھ کے حامل تھے اور دکان کو اپنے بھائی کے ساتھ مل کر چلایا۔ مراتب علی کا شمار شمالی ہندوستان کی کام یاب مسلمان کاروباری شخصیات میں‌ ہوا۔ 22 مئی 1961ء کو سید مراتب علی وفات پاگئے تھے۔

    ابتدا میں ان کے والد نے لاہور میں کاروبار شروع کیا تھا۔ بعد ازاں وہ اپنے کنبے کے ساتھ فیروز پور چھاؤنی منتقل ہوگئے اور صدر بازار میں ایک دکان کھولی اور مختلف کاموں کے ٹھیکے بھی لینے لگے۔ ان کے بیٹے سید مراتب علی شاہ نے بھی تعلیم مکمل کر کے کاروبار میں ہاتھ بٹانا شروع کیا۔ ان کے ساتھ ان کا دوسرا بھائی بھی موجود ہوتا تھا۔ جب والد نے اپنے ان دونوں بیٹوں کو اس قابل پایا کہ وہ ان کا کاروبار اچھی طرح‌ دیکھ سکتے ہیں، تو فیروز پور چھاؤنی کی دکان ان پر چھوڑ کر ٹھیکیداری پر توجہ دینے لگے۔ والد کے انتقال کے بعد سیّد مراتب علی شاہ نے اپنے بھائی کے ساتھ مل کر کاروبار کو سنبھالا اور بہت کم عرصہ میں اپنی دیانت داری اور محنت و لگن سے انگلش آرمی یونٹوں تک رسائی حاصل کرلی اور ان کے لیے مختلف خدمات انجام دینے لگے۔ 1902ء میں سید مراتب علی کو ایک انگلش رجمنٹ میں کافی شاپ کا ٹھیکہ ملا اور کچھ عرصہ بعد دوسری کافی شاپس کے ٹھیکے بھی ان کو دے دیے گئے۔ اس ترقی کے ساتھ سید مراتب علی شاہ آرمی اور اہلِ علاقہ میں ایمان دار اور نیک نیّت بھی مشہور ہوچکے تھے۔ ان کی یہی شہرت انھیں سیاسی اور سماجی امتیاز عطا کرنے کی بنیاد بنی۔ 1907ء میں امیر حبیب اللہ خاں، والی افغانستان نے ہندوستان کا دورہ کیا تھا۔ ان کی پذیرائی کے لیے ایک استقبالیہ کمیٹی تشکیل دی گئی۔ سید مراتب علی شاہ کو نہ صرف اس کمیٹی کا ممبر چن لیا گیا بلکہ شاہی پارٹی کے تمام افراد کے خورد و نوش کا انتظام انہی کے سپرد ہوا۔ پہلے فیروزپور چھاؤنی کے فوجی افسروں تک بات محدود تھی، اب وہ حکومتِ ہند کی نظروں میں آگئے۔

    1908ء میں‌ سید مراتب علی شاہ نے انارکلی لاہور میں پنجاب ہاؤس کے نام سے کاروبار کا آغاز کیا۔ یہاں بھی ان کی نیک نامی خوب کام آئی اور ان کا کاروبار لاہور سے جھانسی، لکھنؤ اور بریلی کی چھاؤنیوں تک پھیل گیا۔ اسی دوران جارج پنجم کی تخت نشینی کے سلسلے میں ایک اجلاس دربار دہلی منعقد ہوا جس میں شہر کے ایسے بڑے کاروباری افراد اور مختلف شخصیات بھی مدعو تھے۔ وہاں ان کی کارکردگی کو سراہا گیا۔ جنگِ عظیم چھڑنے کے بعد ہندوستان بھر میں‌ ملٹری اسٹیشنوں پر کسی نہ کسی شکل میں سید مراتب علی کی خدمات ضرور لی جارہی تھیں۔ وہ مسلمانوں کی سیاسی جماعتوں اور قیادت کے بھی قریب ہوگئے۔ 1934ء میں حکومت ہند نے ایک تجارتی وفد افغانستان بھیجا جس میں سید مراتب علی شاہ بھی شامل تھے۔ 1935ء میں ریزرو بنک آف انڈیا کا سینٹرل بورڈ آف ڈائریکٹر قائم ہوا تو وہ اس کے رکن بنے۔ 1936 سے لے کر تقسیمِ ہند تک ایلکلی اینڈ کیمیکل کارپوریشن آف انڈیا لمیٹڈ کے ڈائریکٹر اور 1940ء سے لے کر اپنی وفات تک ایچی سن کالج لاہور کے بورڈ آف گورنرز کے رکن رہے۔

    1942ء میں سید مراتب علی آل انڈیا مسلم چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے نائب صدر منتخب ہوئے تھے۔ 1944ء میں انڈین چیمبرز آف کامرس لاہور کے صدر بنے۔ حکومت برطانیہ نے 1929ء میں انھیں "خان بہادر” اور 1940ء میں "سَر” کا خطاب دیا۔ وہ عملی سیاست سے دور رہے لیکن قیامِ پاکستان کی کوششوں کے لیے اپنی کاروباری اور سماجی حیثیت کو استعمال اور مال و دولت کو خوب خرچ کیا۔ قائداعظم محمد علی جناح کے حکم پر تحریک کے لیے رقم دیتے رہے۔مسلم لیگ کی کوئی تحریک، کانفرنس یا کمیٹی ایسی نہ تھی جس سے آپ کا تعلق نہ تھا۔ قیام پاکستان کے بعد 1948ء میں وہ اس دو رکنی وفد کے رکن نام زد ہوئے جسو ریزرور بنک آف انڈیا سے پاکستان کا پچاس کروڑ روپیہ وصول کرنے کے لیے تشکیل دیا گیا تھا۔ بعد ازاں اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے پہلے مرکزی بورڈ کے رکن بنے اور آخری سانس تک آپ مرکزی بورڈ کے ممبر رہے۔ پاکستان میں‌ مہاجرین کی آباد کاری ایڈوائزری کے چیئرمین کی حیثیت سے بھی سید مراتب علی نے خدمات انجام دیں۔ پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے والی کئی بڑی کمپنیاں اُن کی دعوت پر ہمارے معاشی نظام کا ستون بنیں۔