Tag: مئی وفیات

  • پاکستانی فلموں کے اداکار اور دلیپ کمار کے بھائی ناصر خان کا تذکرہ

    پاکستانی فلموں کے اداکار اور دلیپ کمار کے بھائی ناصر خان کا تذکرہ

    یہ تذکرہ ہے ناصر خان کا جنھوں‌ نے قیامِ پاکستان کے بعد یہاں‌ بننے والی پہلی فلم تیری یاد میں‌ بطور اداکار کام کیا تھا۔ وہ عظیم اداکار اور بولی وڈ کے شہنشاہِ جذبات دلیپ کمار کے بھائی تھے۔

    ناصر خان تقسیمِ ہند کے بعد لاہور آگئے۔ پاکستان میں‌ انھوں نے بطور اداکار فلمی دنیا میں قدم رکھا۔ تیری یاد 1948ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ اس کے اگلے سال انھوں نے فلم شاہدہ میں کام کیا اور یہ دونوں فلمیں ناکام رہیں۔ ناصر خان نے 1951ء میں اچانک بھارت جانے کا فیصلہ کرلیا۔ وہاں‌ انھوں نے ممبئی کی فلمی دنیا سے وابستگی اختیار کی۔ ممبئی میں نگینہ اُن کی پہلی فلم تھی۔ اس فلم میں‌ وہ نوتن کے ساتھ نظر آئے۔ یہ بولی وڈ کی کام یاب ترین فلم تھی۔ اداکارہ کے ساتھ ان کی چند مزید فلمیں‌ ریلیز ہوئیں‌ جن میں‌ آغوش اور شیشم شامل ہیں۔ ناصر خان نے اپنے بھائی دلیپ کمار کے ساتھ بھی گنگا جمنا نامی فلم میں‌ اداکاری کے جوہر دکھائے۔ اس فلم کے بعد وہ 1970ء تک اسکرین سے دور رہے اور پھر یادوں‌ کی بارات جیسی فلم سے چھوٹے موٹے کردار نبھانے کا آغاز کیا۔ ناصر خان کی آخری فلم بیراگ تھی جو 1976ء میں‌ ان کی موت کے بعد ریلیز ہوئی۔

    ناصر خان غلام سرور علی خان اور عائشہ بیگم کی اولاد تھے۔ وہ 11 جنوری 1924 کو پیدا ہوئے۔ ناصر خان اپنے بھائی دلیپ کمار سے عمر میں دو سال چھوٹے تھے۔ اداکار ناصر خان کی پہلی شادی ثریا نذیر سے ہوئی تھی جو لیجنڈری فلم میکر نذیر احمد خان کی بیٹی تھیں۔ اللہ نے انھیں‌ ایک بیٹی سے نوازا جس کا نام انھوں نے ناہید خان رکھا۔ ناصر خان نے اپنے وقت کی مشہور اداکار بیگم پارہ سے دوسری شادی کی اور ان کے بطن سے ایک بیٹے کے باپ بنے۔ ان کا بیٹا ایوب خان بھی اداکار بنا۔

    3 مئی 1974ء میں ناصر خان پچاس سال کی عمر میں‌ وفات پاگئے۔

  • کیا کوئی شاعر مَر گیا…!

    کیا کوئی شاعر مَر گیا…!

    شاعروں نے رات بھر بستی میں واویلا کیا
    داد کے ہنگامہ سے پورا محلہ ڈر گیا
    اک ضعیفہ اپنے بیٹے سے یہ بولی اگلے روز
    رات کیسا شور تھا کیا کوئی شاعر مر گیا

    یہ مزاحیہ قطعہ اطہر شاہ خان جیدی کا ہے جو شاعر ہی نہیں‌ ایک اسکرپٹ رائٹر، ہدایت کار اور اداکار بھی تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 2020ء میں ہمیشہ کے لیے دنیا سے چلے گئے تھے۔

    اطہر شاہ خان کی پیدائش رام پور کی تھی۔ تقسیم کے بعد پاکستان ہجرت کی تو کراچی میں‌ سکونت پذیر ہوئے۔ انھوں نے اپنے تعلیمی مراحل مختلف شہروں میں مکمل کیے۔ ابتدائی تعلیم لاہور سے حاصل کی اور بعد میں پشاور اور پھر کراچی سے گریجویشن کیا۔ پنجاب یونیورسٹی سے صحافت کے شعبے میں ماسٹرز کی ڈگری لی۔ جیدی اُن کا وہ روپ تھا جس میں انھوں نے اپنے دیکھنے والوں کو قہقہے لگانے پر مجبور کر دیا اور اس کردار کے ذریعے لوگوں کو صاف ستھرا مزاح اور بامقصد تفریح کا موقع دیا۔ ان کے اس کردار کو وہ مقبولیت اور پسندیدگی حاصل ہوئی کہ جیدی ان کے اصل نام کے ساتھ ہی جڑ گیا۔

    ریڈیو پاکستان سے سفر کا آغاز کرنے والے اطہر علی شاہ عرف جیدی نے لگ بھگ بیس برسوں میں سات سو ڈرامے لکھے۔ 70 اور 80 کی دہائی میں وہ نہایت مشہور ہوئے اور ان کے مزاحیہ ڈرامے اور جیدی کا کردار ہر گھر میں‌ پسند کیا جاتا تھا۔ پی ٹی وی پر ان کے ڈراموں میں انتظار فرمائیے، با ادب باملاحظہ ہوشیار، لاکھوں میں تین بہت مقبول ہوئے۔

    اطہر شاہ خان جیدی نے ڈرامہ نگاری کے ساتھ فلمیں بھی لکھیں۔ ان کی پہلی فلم بازی، سپر ہٹ ثابت ہوئی، جس میں فلم اسٹار ندیم اور محمد علی پہلی بار آمنے سامنے آئے اور اس میں اداکارہ نشو کو بھی متعارف کرایا گیا۔ ان کی دیگر فلموں میں گونج اٹھی شہنائی، ماں بنی دلہن، منجی کتھے ڈھاواں شامل ہیں۔ اطہر شاہ خان جیدی نے ڈرامہ نگاری، کردار نگاری اور شاعری میں منفرد شناخت بنائی۔ انھوں نے مزاحیہ شاعر کی حیثیت سے بڑا نام کمایا اور مشاعروں میں انھیں خوب سنا جاتا تھا۔

    ’’جیدی‘‘ ان کا تخلیق کردہ ایک ایسا کردار تھا جو ان کی وجہ شہرت بنا اور ناقابلِ فراموش ثابت ہوا۔ اس کردار کے لیے انھوں نے ایک بڑا سا کوٹ، ایک بڑے فریم کی عینک پہنی اور بولنے کا مخصوص انداز اپنایا جس میں مٹھاس اور ایسی کشش تھی کہ ہر ایک کو جیدی اپنا لگنے لگا، جب کہ اپنے مکالموں اور مخصوص فقروں کی بدولت وہ سبھی کے دل میں‌ گھر کر گئے۔ اطہر شاہ خان نے تھیٹر، ریڈیو، ٹیلی ویژن اور فلموں کے لیے معیاری اسکرپٹ، خاکے لکھے اور ساتھ ساتھ اداکاری کے جوہر بھی دکھائے۔

    2001ء میں اطہر شاہ خان کو حکومت پاکستان کی جانب سے پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازا گیا تھا۔

  • نام وَر گلوکار، اداکار اور فلم ساز عنایت حسین بھٹی کا یومِ وفات

    نام وَر گلوکار، اداکار اور فلم ساز عنایت حسین بھٹی کا یومِ وفات

    31 مئی 1999ء کو پاکستان کے نام وَر گلوکار، اداکار اور فلم ساز عنایت حسین بھٹی وفات پاگئے۔ انھوں‌ نے پاکستانی فلمی صنعت کو اپنی آواز میں خوب صورت نغمات کے ساتھ کام یاب فلمیں بھی دیں اور اس شعبے میں بھی نام و مقام بنایا۔

    عنایت حسین بھٹی 1929ء میں گجرات میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے اپنا فلمی سفر بطور گلوکار شروع کیا۔ فلم ہیر اور پھیرے میں ان کی آواز نے شائقین کی توجّہ اپنی جانب مبذول کروالی۔ ان فلموں کے نغمات بے حد مقبول ہوئے۔ 1953ء میں انھوں نے فلم ’’شہری بابو‘‘ میں ایک کردار ادا کیا اور اسی فلم کا ایک نغمہ بھی ریکارڈ کروایا جس نے انھیں‌ بہت شہرت دی۔ 1955ء میں شباب کیرانوی نے انھیں اپنی فلم ’’جلن‘‘ میں مرکزی کردار آفر کیا اور یہ سلسلہ دراز ہوگیا۔ انھوں‌ نے متعدد فلموں میں مرکزی کردار ادا کیے۔

    عنایت حسین بھٹی نے 500 فلموں کے لیے 2500 کے قریب گانے ریکارڈ کرائے اور 400 سے زائد فلموں میں کام کیا، جن میں سے 40 میں شائقینِ سنیما نے انھیں ہیرو کے روپ میں دیکھا اور ان کی اداکاری کو سراہا۔

    عنایت حسین بھٹی نے ذاتی پروڈکشن ہاؤس بھی قائم کیا تھا جس کے بینر تلے 50 فلمیں بنائیں۔ 1967ء میں انھوں نے ’’چن مکھناں‘‘ فلم بنائی تھی جس نے کام یابی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔ اس کے بعد انھوں‌ نے فلم سجن پیارا، دنیا مطلب دی، عشق دیوانہ، سچا سودا سمیت کئی فلمیں بنائیں جو کام یاب رہیں۔

  • پاکستان ٹیلی ویژن کے نام وَر اداکار سبحانی بایونس کی برسی

    پاکستان ٹیلی ویژن کے نام وَر اداکار سبحانی بایونس کی برسی

    آج پاکستان ٹیلی ویژن کے نام وَر اداکار سبحانی بایونس کی برسی ہے۔ سبحانی بایونس کا شمار ان فن کاروں‌ میں ہوتا ہے جنھوں نے اسٹیج اور ریڈیو پر اپنی فن کارانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا اور ٹیلی ویژن پر اپنی اداکاری سے ناظرین کے دل جیتے۔ زندگی کی 77 بہاریں دیکھنے والے سبحانی بایونس 31 مئی 2006ء کو اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔

    سبحانی بایونس 1924ء میں حیدرآباد دکن میں اورنگ آباد کے ایک قصبے میں پیدا ہوئے تھے۔ ہجرت کے بعد انھوں‌ نے کراچی میں‌ سکونت اختیار کی اور یہاں اسٹیج سے فنی سفر کا آغاز کیا۔

    سبحانی بایونس نے ٹیلی ویژن کے مقبول ترین ڈراموں تعلیمِ بالغان، محمد بن قاسم، قصّہ چہار درویش، مرزا غالب بندر روڈ پر، خدا کی بستی، سسّی پنہوں میں کام کیا اور خوب شہرت حاصل کی۔ مرزا غالب کے روپ میں‌ انھیں پی ٹی وی کے شائقین نے بہت سراہا اور یہ کردار یادگار ثابت ہوا، باادب باملاحظہ پی ٹی وی سے نشر ہونے والا ایک مقبول ڈراما تھا جس میں‌ انھوں نے اپنی فطری اور بے ساختہ اداکاری سے ناظرین کے دل موہ لیے اور اسی ڈرامے کے بعد علالت کے باعث اداکاری سے کنارہ کش ہوگئے۔

    سبحانی بایونس اپنی بھاری اور رعب دار آواز کے سبب ریڈیو پاکستان کے کام یاب صدا کاروں میں شمار ہوئے۔ ساتھی فن کار انھیں باکمال فن کار مانتے اور ایک مہربان، ہم درد اور شفیق انسان کے طور پر پہچانتے تھے۔

    سبحانی بایونس کراچی میں عزیز آباد کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • یومِ‌ وفات:‌ فضل محمود ٹیسٹ کرکٹ میں 100 وکٹوں کا ہدف عبور کرنے والے پہلے پاکستانی تھے

    یومِ‌ وفات:‌ فضل محمود ٹیسٹ کرکٹ میں 100 وکٹوں کا ہدف عبور کرنے والے پہلے پاکستانی تھے

    30 مئی 2005ء کو پاکستان کے معروف کرکٹر فضل محمود لاہور میں وفات پاگئے تھے۔ آج فضل محمود کی برسی ہے۔ ٹیسٹ کرکٹ کے آغاز میں انھوں نے اپنی کارکردگی سے پاکستان کو جو کام یابیاں دلوائیں، وہ یادگار ثابت ہوئیں۔ بھارت کے خلاف لکھنؤ ٹیسٹ میں پاکستان کی پہلی کام یابی ہو یا اوول کی شان دار فتح، فضل محمود نے نمایاں‌ کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور آگے رہے۔

    پاکستان میں ٹیسٹ کرکٹر کی حیثیت سے شہرت حاصل کرنے والے فضل محمود 18 فروری 1927ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ اسلامیہ کالج لاہور سے گریجویشن اور پنجاب یونیورسٹی سے معاشیات میں ایم اے کیا۔ 1943ء سے انھوں نے کرکٹ کھیلنا شروع کیا اور 1952ء میں بھارت کا دورہ کرنے والی پاکستان کی پہلی کرکٹ ٹیم کے رکن منتخب ہوئے۔

    فضل محمود نے اپنے کیریئر میں مجموعی طور پر 34 ٹیسٹ میچ کھیلے اور 139 وکٹیں حاصل کیں۔ انھوں نے 10 ٹیسٹ میچوں میں پاکستان کی قیادت کی بھی کی تھی۔ وہ پاکستان کے پہلے کپتان تھے جنھوں نے اپنے پہلے ٹیسٹ میچ میں کام یابی حاصل کی تھی۔

    فضل محمود پاکستان کے پہلے کھلاڑی تھے جنہیں کرکٹ کے کھیل کے لیے مشہور کتاب وزڈن نے سال کے پانچ بہترین کھلاڑیوں میں شمار کیا۔ وہ ٹیسٹ کرکٹ میں 100 وکٹوں کا ہدف عبور کرنے والے بھی پہلے پاکستانی کھلاڑی تھے۔

    حکومتِ پاکستان نے فضل محمود کو صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

  • پاکستان کے نام وَر خطّاط صوفی خورشید عالم کی برسی

    پاکستان کے نام وَر خطّاط صوفی خورشید عالم کی برسی

    30 مئی 2004ء کو پاکستان کے نام ور خطّاط صوفی خورشید عالم خورشید رقم لاہور میں وفات پاگئے تھے۔ وہ صوفی خورشید کے نام سے مشہور تھے۔

    صوفی خورشید عالم خورشید کو 1965ء کی جنگ میں‌ جامِ شہادت نوش کرنے والے راجہ عزیز بھٹی کے لوحِ مزار کی خطّاطی کا اعزاز بھی حاصل تھا۔ صوفی صاحب نے کئی موضوعات پر کتابوں اور اپنے دور کے نام ور مصنّفین کی کتابوں کے ٹائٹل کو اپنی خطّاطی سے سجایا۔

    خورشید عالم 1923ء میں کپور تھلہ، بھارت میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد رحمت علی خود بھی ایک اچھے خطّاط تھے۔ مشہور ہے کہ لاہور کے ناشرین کپور تھلہ جاکر ان سے کتابت کرواتے تھے۔ یوں انھیں بھی خوش نویسی کا شوق پیدا ہوا اور اپنے والد کو دیکھ کر خود بھی مشق کرنے لگے۔ ذوق و شوق اور مسلسل مشق نے ان کی لکھائی اور کتابت کو چمکایا اور وہ اس فن میں‌ کامل ہوئے۔

    صوفی خورشید عالم خورشید نے بعدازاں تاج الدّین زریں رقم جیسے نام ور اور عظیم خطّاط کے ادارے سے وابستگی اختیار کرلی تھی جہاں عرصے تک کام کیا، زریں رقم کی وفات کے بعد لاہور کے اکابر خطّاط نے صوفی صاحب کو ان کا جانشین مقرر کردیا تھا۔

    خوش نویسی اور فنِ خطّاطی میں کمال و مہارت رکھنے والے خورشید عالم خورشید رقم نے مختلف اخبارات غالب، آفاق، کوہستان، نوائے وقت، مساوات، ندائے ملت، آزاد اور امروز میں بھی کام کیا تھا اور مینار پاکستان کے بعض کتبات ان کے فن کا نقش ثبت ہے۔

    صوفی صاحب خطّاط ہی نہیں شاعر بھی تھے۔ انھوں نے غزل، نعت و قصیدہ گوئی اور دیگر اصناف میں طبع آزمائی کی۔ وہ مخمور تخلّص کرتے تھے اور مشہور شاعر احسان دانش سے اصلاح لیتے رہے۔

    صوفی صاحب کی نمازِ جنازہ داتا دربار، لاہور میں ادا کی گئی اور انھیں حضوری باغ کے قبرستان میں‌ سپردِ خاک کیا گیا۔

  • صاحبِ طرز ادیب اور ماہرِ موسیقی شاہد احمد دہلوی کی برسی

    صاحبِ طرز ادیب اور ماہرِ موسیقی شاہد احمد دہلوی کی برسی

    اردو ادب کے صاحبِ طرز ادیب، مدیر، محقّق اور ماہرِ موسیقی شاہد احمد دہلوی 27 مئی 1966 کو وفات پاگئے تھے۔ وہ معروف ناول نگار، شمس العلماء ڈپٹی نذیر احمد کے پوتے اور شاعر و ادیب مولوی بشیر الدین احمد کے فرزند تھے۔

    شاہد احمد دہلوی نے اردو ایک باوقار جریدہ ‘ساقی’ دیا اور اس کے ذریعے علم و ادب، فنون و ثقافت کی خدمت کا سلسلہ جاری رکھا، وہ ترقّی پسند تحریک سے بھی وابستہ رہے۔ دہلی ان کا وطن تھا اور یہی نسبت ان کے نام سے منسلک رہی، قیامِ پاکستان کے بعد شاہد احمد دہلوی کراچی آگئے تھے۔

    شاہد احمد دہلوی انشا پرداز اور باکمال نثار تھے۔ انھوں نے کئی کتابیں یادگار چھوڑیں جو اپنے موضوع کے اعتبار سے اہم اور مصنّف کے منفرد اسلوب اور طرزِ‌ نگارش کا نمونہ ہیں۔ انھوں نے مختلف شخصیات کے خاکے تحریر کرنے کے علاوہ واقعات اور تذکروں کو کتابی شکل دی۔ دلّی کی بپتا اور اجڑا دیار ایسی ہی کتابیں ہیں۔ ان کا ایک کارنامہ انگریزی کی متعدد کتابوں کا اردو ترجمہ ہے۔ شاہد احمد دہلوی نے موسیقی کی بھی باقاعدہ تربیت حاصل کی تھی۔ انھوں نے ریڈیو پاکستان سے وابستگی کے زمانے میں موسیقی کے متعدد پروگرام پیش کیے۔

    ان کے خاکوں کے مجموعے گنجینۂ گوہر، بزمِ خوش نفساں، بزمِ شاہد اور طاقِ نسیاں کے نام سے شائع ہوئے تھے جب کہ موسیقی کے موضوع پر ان کے لاتعداد مضامین کو بھی کتابی شکل میں‌ شایع کیا گیا۔

    حکومت نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔ شاہد احمد دہلوی کراچی میں گلشن اقبال کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • شائقینِ سنیما کے دلوں پر راج کرنے والی ‘رانی’ کی برسی

    شائقینِ سنیما کے دلوں پر راج کرنے والی ‘رانی’ کی برسی

    27 مئی 1993ء کو پاکستانی فلم انڈسٹری کی مشہور اداکارہ رانی کا انتقال ہوگیا تھا۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ ان کا اصل نام ناصرہ تھا جنھوں نے رانی کے نام سے بڑے پردے پر راج کیا۔

    رانی نے 1941ء میں لاہور کے ایک گھر میں آنکھ کھولی۔ ان کے والد اپنے وقت کی مشہور گلوکارہ مختار بیگم کے ڈرائیور تھے۔ وہ اکثر اپنی بیٹی کو مختار بیگم کے گھر لے جایا کرتے تھے اور ایک روز تربیت کی غرض سے رانی کو مختار بیگم کے سپرد کردیا۔ یوں رانی ان کے طفیل فلم انڈسٹری تک پہنچنے میں کام یاب ہوگئیں۔

    1962ء میں ہدایت کار انور کمال پاشا نے انھیں اپنی فلم محبوب میں کاسٹ کام کرنے کا موقع دیا، لیکن آغاز کچھ اچھا نہ ہوا اور اس کے بعد بھی رانی کو متعدد ناکام فلموں نے مایوسی سے دوچار کیا، مگر قسمت نے یاوری کی اورانھیں ایک پنجابی فلم میں‌ کام مل گیا جو کام یاب ثابت ہوئی، اس کے بعد اداکارہ رانی ہیروئن کی حیثیت سے شہرت اور مقبولیت کے مدارج طے کرتی چلی گئیں۔

    اس اداکارہ نے فلم دیور بھابی، بہن بھائی، انجمن، شمع، ایک گناہ اور سہی جیسی کام یاب فلموں کے ساتھ پنجابی زبان میں بنائی گئی 65 فلموں میں بھی شان دار پرفارمنس دی۔

    رانی نے 150 سے زائد فلموں میں کام کیا جن میں اردو اور پنجابی فلمیں‌ شامل ہیں۔ ان کی آخری فلم کالا طوفان تھی جو 1987ء میں پردے پر سجی تھی۔ انھوں نے تین نگار ایوارڈ بھی اپنے نام کیے تھے۔

    اداکارہ رانی کے بارے میں‌ کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے کردار میں ڈوب کر جذبات کا اظہار کرتی تھیں اور کردار کو حقیقیت سے قریب تر لے آتی تھیں۔ فلم انڈسٹری میں جن فن کاروں نے گانوں کی عکس بندی میں اپنے فن کا کمال مظاہرہ کیا، رانی ان میں سرفہرست رہیں۔ ان کی یادگار فلموں میں انجمن، تہذیب، امراؤ جان ادا، ثریا بھوپالی، بہارو پھول برساؤ اور ناگ منی بھی شامل ہیں۔

    فلمی پردے سے دور ہوجانے کے بعد انھوں نے پاکستان ٹیلی وژن کے ڈراموں میں میں بھی اداکاری کی اور اپنی متاثر کن پرفارمنس سے ناظرین کے دل جیتنے میں‌ کام یاب رہیں۔ ان ٹی وی سیریلز میں خواہش اور فریب سرفہرست ہیں۔

    شائقین کے دلوں پر راج کرنے والی اس اداکارہ کی ذاتی زندگی تلخیوں اور الجھنوں کا شکار رہی۔ رانی نے تین شادیاں کیں اور تینوں ناکام رہیں۔ کراچی میں‌ وفات پانے والی رانی کو لاہور کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • یومِ وفات: بایزید ثانی قسطنطنیہ فتح کرنے والے سلطان محمد فاتح کے بیٹے تھے

    یومِ وفات: بایزید ثانی قسطنطنیہ فتح کرنے والے سلطان محمد فاتح کے بیٹے تھے

    سلطنتِ عثمانیہ کے اٹھویں حکم راں بایزید ثانی کو مؤرخین نے سادہ و حلیم مزاج، مذہبی رجحان اور علم و فنون کا دلدادہ لکھا ہے۔ انھیں ایک ایسا نرم خُو اور صلح جُو کہا جاتا ہے جو دلیر اور شجیع تو تھے، لیکن جنگ پسند نہیں تھے۔

    بایزید ثانی آج ہی کے دن 1512ء کو وفات پاگئے تھے۔ 26 مئی کو دنیا سے رخصت ہونے والے بایزید ثانی 21 سال کی عمر میں قسطنطنیہ فتح کرکے بازنطینی سلطنت کا خاتمہ کرنے والے سلطان فاتح کے بیٹے تھے۔

    بایزید ثانی کو تخت نشینی کے موقع پر بھی تنازع کا سامنا کرنا پڑا۔ بایزید ثانی کا عہدِ حکومت خانہ جنگی سے شروع ہوا اور اس کا خاتمہ بھی انتشار اور اندرونی خرابیوں اور حالات کی وجہ سے ہونے والی لڑائیوں پر ہوا۔ بایزید ثانی نے اپنے والد سلطان فاتح کی وفات کے بعد تخت سنبھالا تھا جب کہ ان کا ایک بھائی بھی تخت کا دعوے دار تھا اور یوں تخت نشینی آسان ثابت نہ ہوئی۔

    بایزید ثانی نے کسی طرح اقتدار حاصل کرلیا اور سلطنتِ عثمانیہ کے سلطان کی حیثیت سے 1481ء سے 1512ء تک حکم راں رہے۔ ان کے دور میں سلطنت کی بنیادیں مستحکم ہوئیں، لیکن خانہ جنگیوں کی وجہ سے مشکلات پیش آتی رہیں۔ سلطان بایزید ثانی اپنے عہدِ حکومت میں اندرونی انتشار اور خانہ جنگیوں کے علاوہ ولی عہدی کے مسئلے پر بھی الجھے رہے۔

    بایزید ثانی 1512ء میں اپنے بیٹے سلیم کے حق میں تخت سے دست بردار ہوگئے۔ مشہور ہے کہ وہ زندگی کے ماندہ ایّام ایشیائے کوچک میں گزارنے کی خواہش لیے سفر پر نکلے تھے، لیکن وہاں تک نہ پہنچ سکے اور ان کا انتقال ہوگیا۔

    بایزید ثانی کا مدفن استنبول میں بایزید مسجد کے پہلو میں موجود ہے۔

  • نام ور ستار نواز استاد محمد شریف خان کی برسی

    نام ور ستار نواز استاد محمد شریف خان کی برسی

    26 مئی 1980ء کو پاکستان کے نام ور ستار نواز، استاد محمد شریف خان وفات پاگئے تھے۔ پاکستان میں کلاسیکی موسیقی اور روایتی سازوں کے ماہر فن کاروں اور سازندوں میں ایک نام کاروں استاد محمد شریف خان کا بھی ہے جو 26 مئی 1980ء کو وفات پاگئے تھے۔ ان کا شمار پاکستان کے نام وَر ستار نوازوں میں ہوتا ہے۔

    استاد محمد شریف خان اپنے علاقے کی نسبت سے پونچھ والے مشہور تھے۔ وہ 1926ء میں ضلع حصار میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد بھی موسیقی کے ماہر جن کا نام رحیم بخش تھا۔ وہ مہاراجہ پونچھ کے موسیقی کے استاد تھے۔

    استاد محمد شریف خان کی زندگی کا ابتدائی زمانہ پونچھ میں گزرا۔ اس لیے پونچھ سے ان کی نسبت ان کے نام کا حصّہ بن گئی۔ انھیں ابتدا ہی سے ستار بجانے کا شوق تھا۔ ان کے والد اور اساتذہ نے بھی انھیں موسیقی کی تعلیم دینے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ وہ ستار کے علاوہ وچتروینا بجانے میں بھی مہارت رکھتے تھے۔

    استاد محمد شریف خان پونچھ والے نے کئی راگ بھی ایجاد کیے تھے اور اسی لیے ’’استاد‘‘ کہلاتے تھے۔

    انھیں 14 اگست 1965ء کو حکومتِ پاکستان کی جانب سے صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا گیا۔ لاہور میں وفات پانے والے استاد محمد شریف خان میانی صاحب کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔