Tag: مئی وفیات

  • ممتاز عالم، محقّق اور مترجم پروفیسر ڈاکٹر شیخ محمد اقبال کی برسی

    ممتاز عالم، محقّق اور مترجم پروفیسر ڈاکٹر شیخ محمد اقبال کی برسی

    آج فارسی زبان و ادب کے ممتاز عالم، محقّق اور مترجم پروفیسر ڈاکٹر شیخ محمد اقبال کا یومِ وفات ہے۔ 21 مئی 1948ء کو لاہور میں وفات پانے والے ڈاکٹر شیخ محمد اقبال کو ماہرِ تعلیم کی حیثیت سے بھی جانا جاتا ہے۔

    ڈاکٹر شیخ محمد اقبال 19 اکتوبر 1894ء کو جالندھر میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے عربی میں ایم اے کیا اور اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے کیمبرج یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ وہاں مشہور مستشرق پروفیسر ای جی برائون کی نگرانی میں انھوں نے فارسی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

    1922ء میں اورینٹل کالج لاہور سے وابستہ ہونے والے ڈاکٹر شیخ محمد اقبال کو بعد میں فارسی کے صدرِ شعبہ اور پرنسپل کے عہدے پر خدمات انجام دینے کا موقع ملا۔ انھوں نے خود کو بہترین منتظم اور ماہرِ تعلیم کی حیثیت سے منوایا اور اپنے عہدوں فرائض انجام دیتے ہوئے کئی اہم کتابوں کی تدوین و ترتیب کے ساتھ تراجم بھی کیے۔

    ڈاکٹر شیخ محمد اقبال نام ور دانشور دائود رہبر کے والد اور مشہور صدا کار ضیاء محی الدین کے تایا تھے۔ وہ لاہور میں ماڈل ٹائون کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • کیا مشہور مہم جُو اور جہاز راں کرسٹوفر کولمبس ایک شاطر اور بدقماش شخص تھا؟

    کیا مشہور مہم جُو اور جہاز راں کرسٹوفر کولمبس ایک شاطر اور بدقماش شخص تھا؟

    تاریخ کے اوراق میں کرسٹوفر کولمبس کو ایک ایسا مہم جُو اور جہاز راں لکھا گیا ہے جو ذہین اور چالاک بھی تھا۔ یہی نہیں‌ امریکا کی دریافت کا سہرا بھی اسی کے سَر ہے۔

    مؤرخین متفق ہیں کہ وہ پہلا یورپی جہاز راں تھا جس نے پندرھویں صدی عیسوی میں امریکا دریافت کیا، لیکن اس پر شکوک و شبہات کا اظہار بھی کیا جاتا ہے اور کرسٹوفر کولمبس سے متعلق مشہور واقعات اور مختلف باتوں کی صحّت بھی مشکوک ہے۔

    کولمبس 20 مئی 1506ء کو دنیا سے رخصت ہوگیا تھا۔ اس کا سنِ پیدائش 1451ء بتایا جاتا ہے۔ اٹلی کے شہر جینیوا (Genoa) میں پیدا ہونے والے کولمبس نے نوعمری ہی میں اسپین کے کیتھولک بادشاہوں کے دربار تک رسائی حاصل کر لی تھی۔ کولمبس کو بہادر اور ذہین شخص کہا جاتا ہے جس نے خود کو ایک مہم جُو کے طور پر متعارف کروایا۔ کولمبس نے شاہی سرپرستی میں بحرِ اوقیانوس کے چار بحری سفر مکمل کیے۔ کہا جاتا ہے کہ ایسے ہی ایک بحری سفر کے دوران کولمبس نے پہلی بار امریکا کی سرزمین پر قدم رکھا تھا۔

    اس زمانے میں بادشاہت کے زیرِ اثر نو آبادیوں کا قیام اور سمندر کے راستے نئی منڈیوں تک رسائی حاصل کرکے تجارت کو فروغ دیا جارہا تھا۔ چناں چہ اسپین کے بادشاہوں نے کولمبس کو یہ ذمہ داری سونپی تھی۔

    مشہور ہے کہ کرسٹوفر کولمبس 1492ء کو وسطی امریکا پہنچا تھا۔ یہ اکتوبر کا مہینہ اور تاریخ 12 تھی۔ اسی لیے براعظم امریکا کے متعدد ملکوں میں اسے "کولمبس ڈے” کے طور پر منایا جاتا ہے۔ لاطینی امریکا کے علاوہ اٹلی اور اسپین میں بھی کولمبس ڈے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ وہاں اسے تہذیبی اور ثقافتی یادگار کی حیثیت حاصل ہے، مگر اسی خطّے میں چند ملک میں نہ تو کولمبس کو یاد کیا جاتا ہے اور نہ ہی لوگ کولمبس ڈے مناتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ کولمبس ایسی شخصیت نہیں جس کے لیے کوئی دن مخصوص کیا جائے اور اسے عزّت اور احترام سے یاد کیا جائے۔

    اس مخالفت کی کئی وجوہ ہیں‌۔ بعض مؤرخین نے کولمبس سے متعلق اپنی کھوج اور تحقیق کے بعد جو واقعات تحریر کیے ہیں، وہ اسے ہیرو کے بجائے ایک ظالم، مفاد پرست اور سفاک شخص ظاہر کرتے ہیں۔ تاہم دنیا بھر میں‌ کتابیں کولمبس کی کام یاب بحری مہمّات اور اس کے کارناموں سے بھری پڑی ہیں۔ تاہم صنف مارک ڈیر جیسے متعدد مصنّفین نے اسے ایک وحشی، ظالم اور غارت گر لکھا ہے۔ یہی نہیں بلکہ بعض مؤرخین کے مطابق امریکا کولمبس کی دریافت نہیں۔ اس نے کبھی اس سرزمین پر قدم نہیں‌ رکھا۔

    کولمبس کے مخالفین کے مطابق اس جہاز راں نے اپنی بحری مہمّات کے دوران جہاں بھی قیام کیا، وہاں مقامی لوگوں کی خدمات اور ان سے قیام و طعام کی سہولت حاصل کرنے کے باوجود انھیں‌ نقصان پہنچایا۔ وہ لوگوں کو غلام بنالیا کرتا تھا، ان سے جبری مشقت لیتا، وہ اور اس کے ساتھی قبائلی عورتوں سے جنسی زیادتی کے مرتکب ہوئے۔ کولمبس اپنی مہمّات کے دوران قبائلیوں کو دھوکا دے کر ان کے زیورات اور سونا ہتھیا لیتا تھا۔ اس طرح کی کئی باتیں اور قصّے مشہور ہیں‌ جو اس نام وَر مہم جُو کو بدقماش اور سفاک ثابت کرتے ہیں۔

  • پاکستانی فلم انڈسٹری کے باکمال موسیقار اے حمید کی برسی

    پاکستانی فلم انڈسٹری کے باکمال موسیقار اے حمید کی برسی

    پاکستانی فلم انڈسٹری کے لیے لازوال اور سدا بہار دھنیں تخلیق کرنے والے اے حمید 20 مئی 1991ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج اے حمید کی برسی ہے۔ ان کا پورا نام شیخ عبدُالحمید تھا جنھیں فلمی صنعت میں اے حمید کے نام سے پہچانا جاتا ہے

    وہ 1924ء میں امرتسر میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد شیخ محمد منیر موسیقی کا اعلیٰ ذوق رکھتے تھے اور انھوں نے دو فلموں کی موسیقی بھی ترتیب دی تھی۔ یوں اے حمید میں بھی سُر ساز کا شوق، موسیقی اور گائیکی کا ذوق پیدا ہوا اور انھوں نے اسی فن میں نام و مقام حاصل کیا۔

    اے حمید کے فلمی کیریئر کا آغاز فلم انجام سے ہوا۔ فلمی دنیا میں موسیقار کی حیثیت سے ان کی شہرت کا آغاز ہدایت کار ایس ایم یوسف کی فلم سہیلی سے ہوا۔ اے حمید کی دیگر فلموں میں رات کے راہی، اولاد، آشیانہ، شریکِ حیات، پیغام، دوستی، جواب دو، ثریا بھوپالی، انگارے، بیگم جان اور نیا انداز سرِفہرست ہیں۔ انھوں نے بہترین موسیقار کا نگار ایوارڈ بھی حاصل کیا تھا۔ انھیں یہ ایوارڈ "چٹھی ذرا سیاں جی کے نام لکھ دے” جیسے خوب صورت گیت کی لازوال دھن تخلیق کرنے پر دیا گیا تھا۔

    پاکستانی فلموں کے دیگر مقبول گیتوں میں "ہم بھول گئے ہر بات مگر تیرا پیار نہیں بھولے، کہیں دو دل جو مل جاتے بگڑتا کیا زمانے کا، تھا یقیں کہ آئیں گی یہ راتاں کبھی، کس نام سے پکاروں کیا نام ہے تمہارا، یہ وادیاں یہ پربتوں کی شاہ زادیاں” شامل ہیں جن کی دھنیں اے حمید کی تخلیق کردہ ہیں۔

    پاکستان فلم انڈسٹری کے اس باکمال موسیقار کو راولپنڈی کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔ اے حمید نے اردو کے علاوہ متعدد پنجابی فلموں کی موسیقی بھی ترتیب دی۔

  • جی جاؤ تو کیا مر جاؤ تو کیا، عبید اللہ علیم کا تذکرہ

    جی جاؤ تو کیا مر جاؤ تو کیا، عبید اللہ علیم کا تذکرہ

    18 مئی 2008 کو اردو کے ممتاز شاعر عبید اللہ علیم نے ہمیشہ کے لیے آنکھیں‌ موند لی تھیں۔ وہ اپنے وقت کے مقبول شعرا میں سے ایک تھے جنھیں‌ مشاعروں میں بڑے ذوق و شوق سے سنا جاتا تھا۔

    عبید اللہ علیم 12 جون 1939ء کو بھوپال میں پیدا ہوئے تھے۔ 1952ء میں ان کا خاندان ہجرت کرکے پاکستان آگیا۔ علیم نے یہاں تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اور ایم اے کرنے کے ساتھ علمی و ادبی حلقوں میں اپنی شاعری کے ذریعے پہچان بنائی، ان کا کلام پاکستان کے معروف گلوکاروں نے گایا۔

    عبیداللہ علیم کے شعری مجموعوں میں چاند چہرہ ستارہ آنکھیں کو بہت پذیرائی ملی اور شعروسخن کی دنیا میں یہ مجموعہ ان کی شناخت بنا۔ اس کے علاوہ ان کا کلام ویران سرائے کا دیا، نگار صبح کی امید کے نام سے بھی کتابی شکل میں شایع ہوا۔ علیم کے ان مجموعہ ہائے کلام پر مشتمل کلیات بھی ’’یہ زندگی ہے ہماری‘‘ کے نام سے شایع ہوچکی ہے۔ ان کا ایک شعر ملاحظہ کیجیے

    عزیز اتنا ہی رکھو کہ جی سنبھل جائے
    اب اس قدر بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے

  • یومِ‌ وفات: رقاص ہی نہیں‌ بلبل چوہدری ناول نگار بھی تھے

    یومِ‌ وفات: رقاص ہی نہیں‌ بلبل چوہدری ناول نگار بھی تھے

    آج پاکستان کے مشہور رقاص بلبل چوہدری کا یومِ وفات ہے۔ 17 مئی 1954ء کو ہمیشہ کے لیے دنیا چھوڑ جانے والے بلبل چوہدری سرطان کے مرض میں مبتلا تھے۔

    رقص، پرفارمنگ آرٹ کی وہ شکل ہے جسے اعضا کی شاعری بھی کہا جاتا ہے۔ یہ آرٹ اور ثقافت کی ایک خوب صورت شکل ہی نہیں بلکہ بعض خطّوں میں‌ رقص کو عبادت کا درجہ حاصل ہے اور اسے روحانی سکون کا ایک ذریعہ خیال کیا جاتا ہے۔ بلبل چوہدری کو اسی فن کی بدولت دنیا بھر میں شہرت اور پذیرائی حاصل ہوئی۔

    1919ء میں بوگرا میں آنکھ کھولنے والے بلبل چوہدری کا اصل نام رشید احمد چوہدری تھا۔ والد ان کے پولیس انسپکٹر تھے اور چٹاگانگ کے ایک قصبے کے رہائشی تھے۔

    بلبل چوہدری بچپن ہی سے فنونِ لطیفہ میں‌ دل چسپی لینے لگے تھے۔ جلد ہی انھوں‌ نے رقص کو اپنالیا۔ زمانہ طالبِ علمی میں اسٹیج پر پرفارم کرنے کا موقع ملا اور جب کالج میں‌ قدم رکھا تو وہاں اورینٹل فائن آرٹس ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھی۔

    بلبل چوہدری کے لیے زمانہ طالبِ علمی ہی سے رقص محض تفریحِ طبع کا ذریعہ اور تماشا نہیں تھا بلکہ وہ اسے باقاعدہ فن کے طور پر اہمیت دیتے تھے اور سمجھتے تھے کہ اس فن کو باقاعدہ سیکھنے، سکھانے اور فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ یہی وجہ تھی کہ انھوں نے ہندوستان میں تھیٹر کی مشہور تنظیم انڈین پیپلز تھیٹریکل ایسوسی ایشن سے ناتا جوڑ لیا اور اس پلیٹ فارم سے جو بیلے ترتیب دیے ان کی شہرت امریکا اور یورپ تک جا پہنچی تھی۔

    بلبل چوہدری نے 1943ء میں ایک ہندو رقاصہ سے شادی کی تھی جنھوں نے قبولِ اسلام کے بعد ان کے ساتھ پاکستان آنے کا فیصلہ کیا۔ یہاں انھوں نے مشرقی اور مغربی پاکستان میں تھیٹر اور اسٹیج پر پرفارمنس دی اور خوب شہرت حاصل کی۔

    بلبل چوہدری کو بہترین رقاص اور اس فن کے فروغ کے لیے ان کی کوششوں کے اعتراف میں صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی سے عطا کیا گیا تھا۔

    انھیں اردو زبان و ادب سے بھی لگاؤ تھا۔ بلبل چوہدری کا ایک ناول اور متعدد مختصر کہانیاں بھی شایع ہوچکی ہیں۔

  • تحریکِ پاکستان کے مقبول ترین نعرے کے خالق اصغر سودائی کی برسی

    تحریکِ پاکستان کے مقبول ترین نعرے کے خالق اصغر سودائی کی برسی

    آج پروفیسر اصغر سودائی کی برسی منائی جارہی ہے جو ”پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الا اللہ“ جیسے مقبول نعرے کے خالق ہیں۔ ان کی ایک نظم کا یہ مصرع نعرے کی صورت ہندوستان کے طول و عرض میں‌ یوں گونجا کہ اسے تحریکِ پاکستان کی روح تصور کیا جانے لگا اور مسلمانوں نے اسے حرزِ جاں بنا لیا۔

    پروفیسر اصغر سودائی اردو کے نام وَر شاعر اور ماہرِ تعلیم تھے جن کا اصل نام محمد اصغر تھا۔ وہ 17 ستمبر 1926ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ وہ تحریکِ پاکستان کے سرگرم رکن تھے۔ اصغر سودائی نے 1945ء میں ایک نظم لکھی جس کا مصرع نعرے کی صورت مسلمانانِ ہند کے دل میں اتر گیا اور آزادی کی بنیاد بنا۔ آج بھی جشنِ آزادی کی تقاریب میں اور تحریکِ آزادی اور قیامِ پاکستان سے متعلق تحریر و تقریر میں اس نعرے کا ذکر لازمی ہوتا ہے جس نے مسلمانوں میں‌ ایک نئی روح پھونکی اور جوش و ولولہ پیدا کیا تھا۔

    پروفیسر اصغر سودائی نے مرے کالج سیالکوٹ اور اسلامیہ کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی اور گورنمنٹ اسلامیہ کالج سیالکوٹ سے بطور لیکچرار وابستہ ہوگئے۔ 1965ء میں وہ اس کالج کے پرنسپل بنے۔ 1966ء میں انھوں نے سیالکوٹ میں علامہ اقبال کالج قائم کیا۔

    پروفیسر اصغر سودائی کے شعری مجموعوں میں شہِ دو سَرا اور چلن صبا کی طرح شامل ہیں۔

    17 مئی 2008ء کو اصغر سودائی انتقال کرگئے، وہ سیالکوٹ میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • یومِ وفات: معروف صدا کارہ موہنی حمید کو بلبلِ نشریات بھی کہا جاتا تھا

    یومِ وفات: معروف صدا کارہ موہنی حمید کو بلبلِ نشریات بھی کہا جاتا تھا

    16 مئی 2009ء کو ریڈیو پاکستان کی مشہور صدا کار موہنی حمید وفات پاگئی تھیں۔ انھیں بلبلِ نشریات بھی کہا جاتا تھا۔

    موہنی حمید بچّوں میں آپا شمیم کے نام سے معروف تھیں۔ انھوں نے کئی ریڈیو ڈراموں میں‌ کام کیا اور بچوں کے لیے کئی گیت بھی گائے۔ موہنی حمید کی بیٹی کنول نصیر بھی ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی معروف صدا کار اور نیوز اناؤنسر تھیں۔

    موہنی حمید نے موہنی داس کے نام سے نوجوانی میں ریڈیو پر کام شروع کیا تھا اور 35 سال تک ریڈیو پاکستان لاہور سے بچوں کے ہفتہ وار پروگرام میں آپا شمیم کا کردار نبھاتی رہیں۔

    وہ 1922ء میں امرتسر میں پیدا ہوئی تھیں۔ آل انڈیا ریڈیو، لاہور سے صدا کاری کا آغاز کیا اور اپنی دل کش آواز کے سبب جلد سامعین میں مقبول ہوگئیں۔ انھیں متعدد اعزازات سے نوازا گیا تھا جن میں ریڈیو پاکستان کا اعزاز گولڈن مائیک، گریجویٹ ایوارڈ اور حکومت پاکستان کی جانب سے تمغۂ امتیاز شامل ہیں۔

  • نام وَر ادیب، شاعر اور ماہرِ تعلیم ابوالخیر کشفی کی برسی

    نام وَر ادیب، شاعر اور ماہرِ تعلیم ابوالخیر کشفی کی برسی

    نام وَر ادیب، محقّق، نقّاد، شاعر اور ماہرِ تعلیم شاعر سید ابوالخیر کشفی 15 مئی 2008ء کو وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ ابوالخیر کشفی نے ادب کی مختلف اصناف میں تخلیقی اور علمی و تحقیقی کاموں کے علاوہ ملک میں قومی زبان کے فروغ اور تعلیم و تدریس کے حوالے سے گراں قدر خدمات انجام دیں۔

    سید ابوالخیر کشفی نے 12 مارچ 1932ء کو کان پور کے ایک علمی و ادبی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ان کے دادا سید شاہ محمد اکبر عربی، فارسی اور اردو زبانوں‌ پر عبور رکھتے تھے اور اس زمانے کے مشہور عالم تھے جب کہ والد سید ابو محمد ثاقب کان پوری کا شمار نام ور شعرا میں ہوتا تھا۔ اس طرح شروع ہی سے کشفی صاحب کو علمی و ادبی ماحول ملا جس نے انھیں‌ بھی لکھنے لکھانے کی طرف راغب کیا۔

    تقسیمِ ہند کے بعد ہجرت کرکے کراچی آنے والے ابُوالخیر کشفی نے جامعہ کراچی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ عملی زندگی کا سفر تدریس سے شروع کیا اور ساتھ ہی ادبی مشاغل اور سرگرمیاں بھی جاری رکھیں۔

    اردو شاعری کا سیاسی و تاریخی پس منظر، ان کے مقالے کی کتابی شکل ہے جب کہ دیگر کتب میں ہمارے عہد کا ادب اور ادیب، جدید اردو ادب کے دو تنقیدی جائزے، ہمارے ادبی اور لسانی مسائل کے بعد خاکوں کا مجموعہ یہ لوگ بھی غضب تھے سامنے آیا۔ اس کے علاوہ بھی ان کی متعدد کتب شایع ہوئیں جو علم و ادب کا خزانہ ہیں، انھوں نے کئی مضامین سپردِ قلم کیے جو اردو زبان کے فروغ، تعلیمی نظام اور تدریس سے متعلق نسلِ نو اور اساتذہ کی راہ نمائی اور تربیت پر ان کے نظریات اور تجربات کا نچوڑ ہیں۔

    سید ابوالخیر کشفی کو جامعہ کراچی کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • مجید امجد: اردو نظم کو جدید لہجے اور متنوع موضوعات سے آراستہ کرنے والا شاعر

    مجید امجد: اردو نظم کو جدید لہجے اور متنوع موضوعات سے آراستہ کرنے والا شاعر

    مجید امجد کا شمار جدید اردو نظم کے عظیم شعرا میں ہوتا ہے۔ وہ 11 مئی 1974ء کو وفات پاگئے تھے۔ آج اردو زبان کے اس نام وَر شاعر کی برسی ہے۔

    مجید امجد 29 جون 1914ء کو جھنگ میں پیدا ہوئے۔ پنجاب یونیورسٹی سے گریجویشن کرنے کے بعد صحافت کا شعبہ اپنایا اور عملی زندگی میں قدم رکھا۔ بعد ازاں سرکاری ملازمت اختیار کر لی۔ وہ محکمہ خوراک سے وابستہ ہوگئے تھے۔

    مجید امجد کا شمار اردو کے اہم نظم گو شعرا میں ہوتا ہے۔ ان کی شاعری کے موضوعات متنوع اور لہجہ و آہنگ جدید ہے جس نے انھیں اپنے دور کے شعرا میں‌ ممتاز کیا۔ مجید امجد کا اسلوب منفرد اور نہایت خوب صورت تھا جس نے انھیں ہر خاص و عام میں‌ مقبول کیا۔

    ان کے متعدد شعری مجموعے شائع ہوئے جن میں شبِ رفتہ، شبِ رفتہ کے بعد، چراغِ طاقِ جہاں، طاقِ ابد اور مرے خدا مرے دل کے نام سرِفہرست ہیں۔ ان کی نظموں کے عنوانات ان کے تخیل کی دین اور نظمیں حالات و واقعات کے ساتھ سماج کے مختلف پہلوؤں پر ان نظر اور گرفت کی عمدہ مثال ہیں۔ مجید امجد کا ایک مشہور شعر دیکھیے۔

    میں روز ادھر سے گزرتا ہوں کون دیکھتا ہے
    میں جب ادھر سے نہ گزروں گا کون دیکھے گا

  • انقلابی نظموں کے خالق کیفی اعظمی کی برسی

    انقلابی نظموں کے خالق کیفی اعظمی کی برسی

    کیفی اعظمی ہندوستان کے نام وَر اور مقبول قوم پرست شاعر تھے جو 10 مئی 2002ء کو ہمیشہ کے لیے اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ کیفی اعظمی نے اپنی انقلابی نظموں اور آزادی کی امنگ و ترنگ سے بھرے ترانوں سے ہندوستان کے عوام میں جوش و ولولہ پیدا کیا اور ترقی پسند مصنفّین میں اپنے نظریات اور تخلیقات کے سبب ممتاز ہوئے۔

    انھوں نے ملکی اور غیر ملکی سیاسی واقعات پر پُراثر نظمیں لکھیں۔ ان کی شاعری میں عوام کے سکھ دکھ اور ان کی زندگی نمایاں ہوتی ہے۔ طبقاتی تصادم اور سماجی استحصال ان کی شاعری کا موضوع رہا۔ وہ انیس، حالی، شبلی، اقبال، اور جوش ملیح آبادی سے متاثر تھے۔ کیفی اعظمی فلمی دنیا کے ان گنے چنے قلم کاروں میں سے ایک ہیں جنھوں نے نغمہ نگاری کے ساتھ ساتھ فلموں کی کہانیاں، مکالمے اور منظر نامے لکھے۔

    کیفی اعظمی 1918ء میں اعظم گڑھ کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سید اطہر حسین رضوی تھا۔ انھوں نے عربی اور فارسی کی اسناد حاصل کیں اور مطالعے سے اپنے علم میں اضافہ کرتے رہے۔ کیفی اعظمی نے کم عمری میں‌ شاعری شروع کردی تھی، ابتدائی دور میں انھوں نے رومانوی نظمیں لکھیں، لیکن بعد میں ان کی شاعری پر انقلابی فکر غالب ہوگئی۔

    مطالعے کے شوق نے انھیں مارکسزم، کمیونزم اور دیگر نظریات کی طرف متوجہ کیا اور اپنے وقت کے مشہور اور نام ور ترقی پسند مصنّفین کا ساتھ نصیب ہوا تو وہ کمیونسٹ پارٹی کے ہمہ وقتی کارکن بن گئے۔ اب ان پر مزدوروں اور عوام کی حالت بدلنے اور سماج کی فرسودہ و کہنہ روایات کو ختم کرنے کی دھن سوار ہو گئی تھی جس کا اظہار قلم کے ذریعے کرنے لگے۔ کیفی اعظمی ممبئی منتقل ہوئے تو 1943ء میں ان کا پہلا مجموعہ کلام شائع ہوا۔ وہ ترقی پسند مصنفّین کے اجلاسوں میں شرکت کرتے رہے اور تخلیقی سفر بھی جاری رکھا۔

    اس زمانے میں عوام اور بالخصوص نوجوانوں میں انگریزوں کے خلاف غم و غصّہ اور آزادی کی خواہش زور پکڑ رہی تھی اور ایسے میں‌ جن ترقی پسند قلم کاروں کو مقبولیت مل رہی تھی، ان میں کیفی اعظمی بھی شامل تھے۔ ترقی پسندوں کے خلاف کارروائیاں شروع ہوئیں تو کیفی اعظمی کو بھی روپوشی اور مالی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ بعد کے برسوں میں انھوں نے فلمی گیت لکھے اور نام بنایا۔ اسی دوران مکالمے اور منظر نویسی کا بھی سلسلہ شروع ہو گیا اور وہ فلمی دنیا میں مصروف ہوگئے۔ کیفی اعظمی نے فلم نگری کے کئی اعزازات بھی اپنے نام کیے۔
    کیفی اعظمی ترقی پسند تحریک اور ترقی پسند شاعری میں ممتاز اور غیر معمولی اہمیت رکھتے ہیں۔ ان کی شاعری اور خاص طور پر نظمیں فکر و فن کے معیار کے اعتبار سے اردو شاعری میں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔