Tag: مئی وفیات

  • برصغیر کے نام وَر گلوکار طلعت محمود کی برسی

    برصغیر کے نام وَر گلوکار طلعت محمود کی برسی

    طلعت محمود کو بھارتی فلم انڈسٹری میں درجن سے زائد فلموں میں اداکاری کا موقع ملا، لیکن شائقین نے انھیں سندِ قبولیت نہ بخشی، تاہم سُر، ساز اور آواز کی دنیا میں‌ انھیں وہ شہرت اور پذیرائی حاصل ہوئی جو بہت کم گلوکاروں کو نصیب ہوتی ہے۔ آج بھی ان کی آواز میں فلمی نغمات بہت ذوق و شوق سے سنے جاتے ہیں۔ طلعت محمود کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 9 مئی 1998ء کو دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

    طلعت محمود 24 فروری 1924ء کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد کی آواز بھی اچھی تھی اور وہ نعتیں پڑھا کرتے تھے۔ طلعت محمود نے بھی چھوٹی عمر میں نعتیں پڑھنا شروع کردی تھیں۔ 1940 میں طلعت محمود 16 برس کے تھے جب انھوں نے آل انڈیا ریڈیو، لکھنؤ پر اپنی آواز میں ایک گیت ریکارڈ کروایا تھا۔

    1944 میں ایک غیر فلمی گیت ‘تصویر تیری دل میرا بہلا نہ سکے گی’ سے ان کی شہرت پورے برصغیر میں پھیل گئی۔ وہ شکل و صورت کے اچھے تھے اور اسی لیے انھیں بطور ہیرو بھی فلموں میں سائن کیا گیا، لیکن ناکامی ہوئی۔ لالہ رخ، ایک گاؤں کی کہانی، دیوالی کی رات، وارث، سونے کی چڑیا، ٹھوکر وہ فلمیں ہیں جن میں طلعت محمود نے اپنے وقت کی مشہور ہیروئنوں کے ساتھ کام کیا۔ ان میں نوتن، مالا سنہا اور ثریا شامل ہیں۔

    بھارت میں فلم انڈسٹری میں بہ حیثیت گلوکار ان کی شہرت کا آغاز آرزو نامی فلم کے گیت ‘‘اے دل مجھے ایسی جگہ لے چل جہاں کوئی نہ ہو’’ سے ہوا۔ فلم داغ کے لیے انھوں نے ‘‘اے میرے دل کہیں اور چل’’ اور ‘‘ہم درد کے ماروں کا’’ جیسے گیت گائے اور اپنے فن کو منوایا۔

  • معروف اداکارہ طلعت صدیقی انتقال کر گئیں

    معروف اداکارہ طلعت صدیقی انتقال کر گئیں

    کراچی: پاکستان فلم انڈسٹری کی معروف اداکارہ طلعت صدیقی دُنیا سے رخصت ہوگئیں۔ انھیں فلمی صنعت کی ایک پُروقار شخصیت، دھیمے لب و لہجے اور مخصوص آواز کی مالک اداکارہ کے طور پر پہچانا جاتا تھا۔ طلعت صدیقی کے انتقال کی خبر ان کی بھانجی اور معروف گلوکارہ فریحہ پرویز نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر دی۔

    سینئر اداکارہ کی دو بیٹیاں عارفہ صدیقی اور ناہید صدیقی بھی فن اور شوبزنس کی دنیا سے وابستہ رہی ہیں، عارفہ صدیقی ماضی میں فلم اور ٹیلی ویژن پر اداکارہ اور گلوکارہ کی حیثیت سے کام کرچکی ہیں جب کہ ناہید صدیقی نام ور کتھک ڈانسر ہیں، طلعت صدیقی کی ایک بہن ریحانہ صدیقی بھی کئی فلموں میں معاون اداکارہ کے طور پر کام کرچکی ہیں۔

    فریحہ پرویز نے فیس بک پر طلعت صدیقی کے انتقال کی خبر دیتے ہوئے لکھاکہ ’’میری خالہ طلعت صدیقی صاحبہ آج خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔ اللہ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔‘‘

    اداکارہ طلعت صدیقی نے اپنے کیریئر کا آغاز ریڈیو پاکستان کراچی سے کیا تھا۔ ان کی پہلی فلم ’’ہمیں بھی جینے دو‘‘(1963) تھی جس میں وہ بطور گلوکارہ متعارف ہوئیں جب کہ بطور اداکارہ پہلی فلم ’’میخانہ‘‘(1964) تھی۔ طلعت صدیقی نے 70 کے قریب فلموں میں کام کیا لیکن انھوں نے اس دور کی روایتی ہیروئن کی طرح کوئی کردار نہیں نبھایا۔ طلعت صدیقی کی مشہور فلموں میں ’دل نشین‘، ’حیدر سلطان‘ اور ’کالیا‘ شامل ہیں۔

  • یومِ‌ وفات: پاکستان کی مشہور مغنیہ زاہدہ پروین کا تذکرہ

    یومِ‌ وفات: پاکستان کی مشہور مغنیہ زاہدہ پروین کا تذکرہ

    صوفیانہ کلام اور طرزِ گائیکی میں “کافی” کو ایک مشکل صنف شمار کیا جاتا ہے، جو نہایت مقبول بھی ہے۔ زاہدہ پروین نے اس فن میں خود کو کچھ اس طرح منوایا کہ آج بھی اس کی مثال نہیں ملتی۔ زاہدہ پروین 7 مئی 1975ء کو وفات پاگئی تھیں۔

    1925ء میں امرتسر میں پیدا ہونے والی زاہدہ پروین نے موسیقی کی ابتدائی تعلیم استاد بابا تاج کپورتھلہ والے سے حاصل کی، استاد حسین بخش خاں امرتسر والے سارنگی نواز سے گائیکی کے رموز سیکھے، اور بعد میں‌ استاد عاشق علی خان پٹیالہ والے کی شاگرد بنیں۔ ان کے استادوں میں اختر علی خان بھی شامل ہیں۔

    زاہدہ پروین نے یوں تو سبھی کلام گایا، مگر بعد میں خود کو خواجہ غلام فرید کی کافیوں تک محدود کر لیا تھا۔ وہ ان کے کلام کی شیدا تھیں اور بہت عقیدت اور لگائو رکھتی تھیں۔

    زاہدہ پروین کا کافیاں گانے کا منفرد انداز انھیں اپنے دور کی تمام آوازوں میں ممتاز کرتا ہے۔ انھوں نے کافیوں کو کلاسیکی موسیقی میں گوندھ کر کچھ اس طرز سے پیش کیا کہ یہی ان کی پہچان، مقام و مرتبے کا وسیلہ بن گیا۔

    معروف شاعرہ اور ادیب شبنم شکیل نے زاہدہ پروین کے بارے میں لکھا ہے:

    ”زاہدہ جن کو آج کل کے لوگ شاہدہ پروین کی والدہ کی وجہ سے جانتے ہیں، بہت بڑی گلوکارہ تھیں۔ انھیں کافیاں، غزلیں، گانے اور نیم کلاسیکل میوزک پر گہرا عبور حاصل تھا۔ آپ نے ان کے کئی گانے سنے ہوں گے۔ ایک تو سلیم گیلانی کا ”بیتی رُت نہ مانے عمریا بیت گئی“ پھر سیف صاحب کی مشہور غزل ”مری داستانِ حسرت وہ سنا سنا کے روئے“ اور ایک کافی کیا حال سناواں دل دا، کوئی محرم راز نہ ملدا ایسی لازوال چیزیں انھوں نے اور بھی بہت سی گائیں۔

    وہ ایک درویش صفت عورت تھیں اور معمولی سے کپڑے پہن کر ریڈیو آ جاتی تھیں۔ شکل و صورت کی بھی بہت ہی معمولی تھیں۔ گہرا سانولا رنگ، چھوٹا سا قد لیکن جب وہ گانا گاتی تھیں تو دنیا مسحور ہو جاتی تھی۔

    زاہدہ پروین ‌میانی صاحب قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • نام وَر ادیب، شاعر اور نقّاد پروفیسر شمیم حنفی انتقال کرگئے

    نام وَر ادیب، شاعر اور نقّاد پروفیسر شمیم حنفی انتقال کرگئے

    اردو کے ممتاز ادیب، نقّاد، ڈراما نگار، شاعر اور مترجم ڈاکٹر شمیم حنفی انتقال کرگئے۔ ان کی عمر 81 برس تھی۔ شمیم حنفی کا شمار اردو کے نام وَر نقّادوں میں کیا جاتا ہے۔

    شمیم حنفی 1938ء میں سلطان پور(یو پی) میں پیدا ہوئے تھے اور ان دنوں دہلی میں مقیم تھے۔ بھارت سے تعلق رکھنے والے شمیم حنفی نے الٰہ آباد یونیورسٹی سے ایم اے اردو اور ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی تھی۔ انھیں زمانہ طالبِ علمی میں جن صاحبانِ علم و فضل سے سیکھنے کا موقع ملا ان میں فراق گورکھپوری، احتشام حسین، ستیش چندر دیب جیسی شخصیات شامل ہیں۔

    تعلیم مکمل کرنے کے بعد شمیم حنفی چھے سال علی گڑھ یونیورسٹی میں تدریس سے منسلک ہوئے اور بعد میں جامعہ ملیہ اسلامیہ سے وابستہ ہوگئے، وہ 2003ء میں اپنی ریٹائرمنٹ تک اس تعلیمی ادارے سے وابستہ رہے۔

    شمیم حنفی نے تنقید کے علاوہ خاکے، ڈرامے اور کالم بھی لکھے۔ انھوں‌ نے تراجم اور کئی اہم کتابوں کی ترتیب و تدوین کا کام بھی انجام دیا۔

    شمیم حنفی کو بھارت اور پاکستان کے علاوہ اردو ادب کے حوالے سے عالمی سطح پر منعقدہ تقاریب میں مدعو کیا جاتا تھا۔ انھوں نے پاکستان میں منعقدہ عالمی اردو کانفرنس کے علاوہ متعدد ادبی تقاریب میں شرکت کی اور زبان و ادب کی ترویج و فروغ کے لیے کوشاں رہے۔

    شمیم حنفی کی تصانیف اردو ادب کا بیش قیمت سرمایہ ہیں۔ ’’جدیدیت کی فلسفیانہ اساس‘‘، ’’غزل کا نیا منظر نامہ‘‘، ’’کہانی کے پانچ رنگ‘‘، ’’اردو کلچر اور تقسیم کی وراثت‘‘، ’’سرسید سے اکبر تک‘‘، ’’منٹو حقیقت سے افسانے تک‘‘، ’’اقبال کا حرفِ تمنا‘‘، اور خاکوں کی کتاب ’’ہم سفروں کے درمیان‘‘ ان کی چند نہایت اہم اور قابلِ ذکر کتب ہیں۔ شمیم حنفی نے تراجم کے علاوہ ڈرامے اور بچّوں کے لیے بھی کہانیاں تخلیق کیں۔

  • زمزمۂ حیات اور غزال و غزل کے شاعر سراج الدّین ظفر کا تذکرہ

    زمزمۂ حیات اور غزال و غزل کے شاعر سراج الدّین ظفر کا تذکرہ

    6 مئی 1972ء کو اردو کے معروف شاعر سراج الدّین ظفر وفات پاگئے تھے۔ وہ دنیائے ادب میں اپنے منفرد لب و لہجے اور اسلوب کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔

    جہلم میں‌ پیدا ہونے والے سراج الدّین ظفر کا تعلق ایک علمی و ادبی گھرانے سے تھا۔ والدہ بیگم زینب عبدالقادر اردو کی مشہور مصنفہ تھیں جب کہ نانا فقیر محمد جہلمی سراج الاخبار کے مدیر تھے اور ان کی کتاب حدائقُ الحنیفہ ایک بلند پایہ تصنیف تسلیم کی جاتی ہے۔

    سراج الدین ظفر نے شاعری تخلیق کرنے کے ساتھ افسانے بھی لکھے۔ انھیں منفرد لب و لہجے کا شاعر کہا جاتا ہے۔ نئی زمینیں اور ادق قافیے ان کے کلام کی خوب صورتی اور ان کے فن کی انفرادیت کا ثبوت ہیں۔ ان کی شاعری کے دو مجموعے زمزمہ حیات اور غزال و غزل منظرِ عام پر آچکے ہیں۔ غزال و غزل وہ مجموعہ تھا جس کے لیے 1968ء میں انھیں آدم جی ادبی انعام دیا گیا۔ سراج الدین ظفر کی شاعری میں حسن و شباب اور رندی و سرمستی کے موضوعات ملتے ہیں۔

    ان کی ایک غزل کے چند اشعار دیکھیے۔

    موسمِ گل ترے انعام ابھی باقی ہیں
    شہر میں اور گل اندام ابھی باقی ہیں

    اور کھل جا کہ معارف کی گزر گاہوں میں
    پیچ، اے زلف سیہ فام ابھی باقی ہیں

    اک سبو اور کہ لوحِ دل مے نوشاں پر
    کچھ نقوشِ سحر و شام ابھی باقی ہیں

    ٹھہر اے بادِ سحر، اس گلِ نورستہ کے نام
    اور بھی شوق کے پیغام ابھی باقی ہیں

    اٹھو اے شب کے غزالو کہ سحر سے پہلے
    چند لمحاتِ خوش انجام ابھی باقی ہیں

    اردو زبان کے اس نام ور شاعر کی ابدی آرام گاہ کراچی میں ہے۔

  • سلطان محمد فاتح کا نام عالمِ اسلام کے لیے جرات و شجاعت کا نقشِ عظیم ہے

    سلطان محمد فاتح کا نام عالمِ اسلام کے لیے جرات و شجاعت کا نقشِ عظیم ہے

    سلطان محمد فاتح (سلطان محمد الثانی) عالمِ‌ اسلام کے وہ عظیم مجاہد اور سپہ سالار ہیں‌ جنھوں‌ نے 21 سال کی عمر میں قسطنطنیہ فتح کرکے بازنطینی سلطنت کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کردیا تھا۔ سلطان محمد فاتح 3 مئی 1481ء کو انتقال کر گئے تھے۔ وہ استنبول میں فاتح مسجد کے پہلو میں ابدی نیند سو رہے ہیں۔

    محمد فاتح صرف اپنی فتوحات کی وجہ سے مشہور نہیں ہیں بلکہ انتظامِ سلطنت اور اپنی قابلیت کے باعث بھی جانے جاتے ہیں۔ ان کا دورِ حکومت رواداری اور برداشت کے لیے مشہور ہے۔

    وہ 1432ء میں پیدا ہوئے اور نوجوانی میں‌ انتظامِ سلطنت سنبھالا۔ عثمانی سلطنت میں قسطنطنیہ کی فتح کے بعد انھیں سلطان الفاتح کے لقب سے پہچانا گیا۔ سلطان محمد ثانی کو اس فتح کے بعد عالمِ اسلام میں‌ زبردست عقیدت اور پذیرائی حاصل ہوئی۔

    محمد فاتح نے اپنے دور میں کئی علاقے فتح کیے اور عثمانی سلطنت کو مضبوط کیا۔

    محمد ثانی عظیم فاتح ہونے کے ساتھ ساتھ علم و ہنر کی سرپرستی کے لیے بھی مشہور تھے۔ کہتے ہیں‌ کہ ان کے دور میں یونانی مصور اور دانشور بھی دربار کا حصّہ تھے اور علم و فنون سے وابستہ کئی قابل شخصیات ان کے ساتھ رہیں۔

  • یومِ‌ وفات: دیواریں اور جنگل جیسے ڈراموں سے شہرت پانے والے منصور بلوچ کا تذکرہ

    یومِ‌ وفات: دیواریں اور جنگل جیسے ڈراموں سے شہرت پانے والے منصور بلوچ کا تذکرہ

    پاکستان ٹیلی ویژن کے سنہری دور میں جہاں کئی فن کار اپنی لاجواب اداکاری کے سبب پہچانے گئے، وہیں وہ اپنے منفرد لب و لہجے اور آواز و انداز کی وجہ سے بھی مشہور ہوئے اور منصور بلوچ انہی میں سے ایک‌ ہیں۔ منصور بلوچ 3 مئی 1994ء کو لاہور میں وفات پا گئے تھے۔

    آج ٹیلی ویژن ڈراموں اور فلموں کے اس مشہور و معروف اداکار کی برسی منائی جارہی ہے۔

    1942ء میں پیدا ہونے والے منصور بلوچ کا تعلق سندھ کے شہر نواب شاہ سے تھا۔ لاہور میں وفات پانے والے منصور بلوچ کو اسی ضلع نواب شاہ کے ایک گاؤں میں سپردِ خاک گیا گیا۔

    منصور بلوچ نے متعدد سندھی فلموں اور ڈراموں میں‌ کام کیا۔ ان کے فنی سفر کا آغاز بھی سندھی زبان میں بننے والی ایک فلم سے ہوا تھا، بعد میں انھیں‌ پاکستان ٹیلی وژن پر ڈراموں‌ میں‌ اداکاری کے جوہر دکھانے ملا اور وہ پی ٹی وی کے ناظرین کو اپنی لاجواب اداکاری کے سبب متوجہ کرنے میں کام یاب رہے۔

    منصور بلوچ کو ٹیلی وژن کے مقبول ترین ڈراما سیریل دیواریں اور جنگل میں ان کے کرداروں کی وجہ سے گویا راتوں رات شہرت نصیب ہوئی۔ ڈراما سریل دیواریں میں‌ ان کی شان دار پرفارمنس کو ناظرین نے بہت سراہا اور یہ ایک یادگار ڈراما ثابت ہوا۔ منصور بلوچ کو ان کی کردار نگاری پر پی ٹی وی ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔