Tag: ماؤنٹ ایورسٹ

  • ڈرونز کے ذریعے ماؤنٹ ایورسٹ سے کچرا اٹھانے کی ویڈیو وائرل

    ڈرونز کے ذریعے ماؤنٹ ایورسٹ سے کچرا اٹھانے کی ویڈیو وائرل

    نیپال میں دنیا کی سب سے اونچی چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ سے ہیوی ڈرونز کے ذریعے کچرا اٹھانے اور صفائی مہم کی ویڈیو سامنے آئی ہے۔

    ماؤنٹ ایورسٹ دنیا کی سب سے بلند چوٹی، ایک بڑے ماحولیاتی مسئلے کا شکار ہے، ہر سال ہزاروں کوہ پیما اور سیاح ایورسٹ پر آتے ہیں، جو اپنے پیچھے بڑی مقدار میں کچرا چھوڑ جاتے ہیں، جس سے اس خطے کا نازک ماحولیاتی نظام خطرے میں ہے۔

    حالیہ رپورٹس کے مطابق، ایورسٹ پر 30 سے 50 ٹن کچرا موجود ہو سکتا ہے، خاص طور پر ساؤتھ کول جیسے بلند کیمپوں پر، جہاں کچرا برف میں جما ہوا ہے۔

    تاہم  اب دنیا کی سب سے بلند چوٹی کی صفائی کی ویڈیو سامنے آئی ہے، ماؤنٹ ایورسٹ پر ہیوی ڈرونز کے ذریعے صفائی کا کام شروع کر دیا گیا ہے، انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ہر سال چوٹی پر کچرا جمع ہو جاتا ہے مگر اس کو نیچے لے جانے کا کوئی موثر اور آسان راستہ موجود نہیں تھا اس لیے ڈرونز کا آئیڈیا اچھا ہے۔

    دو ڈی جے آئی ایف سی تھرٹی ہیوی لفٹر ڈرونز کو 6 ہزار 65 میٹر کی اونچائی پر اڑایا گیا، ڈرونز نے تقریباً 300 کلو گرام کچرا نیچے اتارا، واضح رہے عرصہ دراز سے ایورسٹ نے ’دنیا کے سب سے اونچے کوڑادان ‘ کا نام حاصل کیا ہوا ہے۔

    نیپال میں مقیم منصوبہ تیار کرنے والے ایئر لفٹ ٹیکنالوجی کے ماہر نے کہا کہ ہمارے پاس صفائی مہم کے لیے صرف ہیلی کاپٹر اور افرادی قوت کا آپشن تھا، لہذا اس مسئلے کے حل کیلئے ہم نے اپنے ہیوی لفٹ ڈرون کو کچرا اٹھانے کے لیے استعمال کرنے کا تصور پیش کیا۔

    آلودگی کنٹرول کے سربراہ کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ صرف 10 منٹ میں ایک ڈرون اتنا کچرا اٹھا سکتا ہے جتنا 10 لوگوں کو اٹھانے میں چھ گھنٹے لگتے ہیں۔

    رپورٹ کے مطابق طاقتور ڈرونز کی قیمت تقریباً 20 ہزار ڈالر ہے، لیکن چین کے ہیڈ کوارٹر مینوفیکچرر نے کلین اپ آپریشن کو سپورٹ کرنے کیلئے ڈرونز فراہم کیے، دیگر اخراجات جزوی طور پر مقامی حکام نے برداشت کیے۔

  • نیپالی کوہ پیما نے 31 ویں بار ماؤنٹ ایورسٹ سر کرکے عالمی ریکارڈ توڑ دیا

    نیپالی کوہ پیما نے 31 ویں بار ماؤنٹ ایورسٹ سر کرکے عالمی ریکارڈ توڑ دیا

    نیپالی کوہ پیما نے 31 بار دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کرکے اپنا ہی قائم کردہ ریکارڈ توڑ دیا۔

    نیپالی کوہ پیما کامی ریتا شیرپا نے یہ کارنامہ انجام دیتے ہوئے اپنا ہی ریکارڈ توڑ دیا ہے، جو انہوں نے 2024 میں 29 ویں اور 30ویں بار ماؤنٹ ایورسٹ سر کرکے بنایا تھا۔

    55 سالہ نیپالی شیرپا گائیڈ کامی ریتا کو ایورسٹ مین کے نام سے بھی پہچانا جاتا ہے۔ انہوں نے پہلی بار 1994 میں ماؤنٹ ایورسٹ پر چڑھائی کی تھی اور تب سے یہ سلسلہ چلا آ رہا ہے۔

    سیون سمٹ ٹریکس کے مطابق کامی ریتا نے 22 رکنی بھارتی فوجی ٹیم کی رہنمائی کرتے ہوئے دنیا کی سب سے بلند 8 ہزار 849 میٹر (29 ہزار 32 فٹ) چوٹی روایتی جنوب مشرقی کنارے کے راستے سے سر کی، اس گروپ میں 27 دیگر شیرپا بھی شامل تھے۔

    کامی ریتا نے ناصرف خود چوٹی سر کی بلکہ انہوں نے ٹیم کے آخری رکن تک کی قیادت اور رہنمائی کی۔مہم کے منتظمین، سیون سمٹ ٹریکس نے 31ویں بار دنیا کی بلند ترین چوٹی سر کرنے پر انہیں مبارک باد بھی پیش کی۔

    اس سے قبل پاکستان سے تعلق رکھنے والی کوہ پیما نائلہ کیانی نے نیپال میں واقع دنیا کی تیسری بلند ترین چوٹی کینچن جنگا کو سر کیا تھا، جس کی بلندی 8,650 میٹر ہے۔

    پاکستانی کوہ پیما نائلہ کیانی یہ کارنامہ انجام دینے والی پہلی پاکستانی خاتون کوہ پیما بن گئیں،جنہوں نے آٹھ ہزار میٹر سے بلند بارہ چوٹیاں سر کرلی، وہ ماؤنٹ ایورسٹ، کے ٹو، ناگا پربت سمیت دیگر بلند ترین چوٹیاں بھی سر کرچکی ہیں۔

    ماؤنٹ ایورسٹ پر مہم جوئی کے دوران 2 کوہ پیما ہلاک

    نائلہ کی یہ کامیابی نہ صرف پاکستانی خواتین کے لیے باعثِ فخر ہے بلکہ ملک کے کوہ پیمائی کے شعبے میں ایک نئی تاریخ بھی رقم کر رہی ہے۔

  • ماؤنٹ ایورسٹ پر مہم جوئی کے دوران 2  کوہ پیما ہلاک

    ماؤنٹ ایورسٹ پر مہم جوئی کے دوران 2 کوہ پیما ہلاک

    نیپال میں ماؤنٹ ایورسٹ پر مہم جوئی کے دوران دو غیرملکی کوہ پیما زندگی کی بازی ہار گئے۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق مرنے والوں میں بھارت سے تعلق رکھنے والے سبھراتا گھوش اور فلپائن کے فلپ دوم سانتیاگو شامل ہیں۔

    رپورٹس کے مطابق 45 سالہ سبھراتا گھوش نے دنیا کی بلند ترین چوٹی (8،849 میٹر اور 29 ہزار 32 فٹ) سر کرنے کے بعد واپسی کے دوران ہیلری اسٹیپ پر آخری سانس لی۔

    نیپالی ٹریکنگ کمپنی سنوئی ہورائزن ٹریکس اینڈ ایکسپیڈیشن کا کہنا ہے کہ وہ نیچے آنے سے انکار کر رہے تھے اور اسی دوران ہلاک ہوگئے۔

    ہیلری اسٹیپ ’ڈیتھ زون‘ میں واقع ہے یہ وہ علاقہ ہے جو 8,000 میٹر سے بلند ہوتا ہے، جہاں آکسیجن بہت کم دستیاب ہوتی ہے اور انسانی جسم طویل وقت تک زندہ نہیں رہ سکتا۔

    حکام کا کہنا ہے کہ سبھراتا گھوش کی لاش کو بیس کیمپ تک لانے کی کوششیں شروع کردی گئی ہیں، موت کی حتمی وجہ پوسٹ مارٹم کے بعد ہی معلوم ہو سکے گی۔

    فلپائن کے فلپ دوم سانتیاگو بھی 45 سال کے تھے اور وہ چوٹی سر کرنے کے راستے میں جنوبی کول (South Col) پر جان کی بازی ہار گئے۔

    نیپالی محکمہ سیاحت کے اہلکار کے مطابق سانتیاگو جب چوتھے ہائی کیمپ تک پہنچے تو بہت تھکے ہوئے تھے، وہ اپنے خیمے میں آرام کرتے ہوئے دم توڑ گئے۔

    نیپال نے رواں سیزن میں ماؤنٹ ایورسٹ پر چڑھائی کے لیے 459 پرمٹ جاری کیے ہیں، اب تک تقریباً 100 کوہ پیما اور ان کے گائیڈ کامیابی سے چوٹی سر کر چکے ہیں۔

    واضح رہے کہ رواں ماہ پاکستان کے نوجوان اور باہمت کوہ پیما ساجد علی سدپارہ نے بغیر آکسیجن کے 7ویں بلند ترین چوٹی دھولاگیری Dhaulagiri سر کرکے ایک اور تاریخی کارنامہ سر انجام دیا تھا۔

    رپورٹس کے مطابق پاکستانی کوہ پیما نے جس چوٹی کو سر کیا ہے وہ نیپال میں واقع ہے اور کوہ پیمائی کی دنیا میں اسے ایک خطرناک اور چیلنجنگ پہاڑ سمجھا جاتا ہے۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Sajid Ali Sadpara (@sajidalisadpara)

    سدپارہ کا سوشل میڈیا پلیٹ فارم انسٹاگرام پر اپنے پیغام میں کہنا تھا کہ الحمدللّٰہ دھولاگیری سر کرلی ہے، بغیر آکسیجن اور بغیر کسی مدد کے، اس مہم کو 10 مئی کو کامیابی سے مکمل کیا۔

  • کوہ پیماؤں کے لیے بڑی خوش خبری

    کوہ پیماؤں کے لیے بڑی خوش خبری

    بلند چوٹیوں پر کوہ پیماؤں کے تحفظ کا مسئلہ ہمیشہ موجود رہا ہے، تاہم اب اس مسئلے کے حل کی طرف ایک اہم قدم اٹھایا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق دنیا کی سب سے اونچی چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ پر پہلی ڈرون ڈیلیوری کامیاب ہو گئی ہے، نیپالی ڈرون سروس کمپنی نے بیس کیمپ سے 3 آکسیجن سلنڈر کوہ پیماؤں تک پہنچائے۔

    ماؤنٹ ایورسٹ نے تقریباً 20,000 فٹ کی بلندی پر کوہ پیماؤں نے دنیا کی پہلی ڈرون ڈیلیوری حاصل کی، ڈرون واپسی پر کچرا لانے کے کام بھی آئے گا، یہ ڈرون انتہائی بلندی پر 15 کلو وزن اٹھانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

    اس کامیابی کو بلند چوٹیوں پر کوہ پیماؤں کی بہتر حفاظت اور پائیداری کے ایک نئے دور کا آغاز سمجھا جا رہا ہے، یہ ڈیلیوری رواں برس اپریل میں کی گئی تھی۔ کوہ پیماؤں کو سامان پہنچانے کے لیے ڈرون کا استعمال کرنے کا اپنی نوعیت کا یہ پہلا مشن تھا، اپریل میں ہونے والی پہلی ڈرون ترسیل دراصل اس خیال کو ٹیسٹ کرنے کے لیے کی گئی تھی کہ یہ قابل عمل ہے یا نہیں۔

    اس ترسیل میں فلائی کارٹ 30 نامی ڈرون کا استعمال کیا گیا، جسے ٹیکنالوجی کمپنی DJI نے تیار کیا ہے، اس کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ زیادہ لمبی دوری تک پندرہ کلو گرام وزن کے ساتھ اڑان بھر سکتا ہے۔

  • ویڈیو: ماؤنٹ ایورسٹ کا 360 ڈگری منظر دیکھ کر ہر کوئی حیران

    ویڈیو: ماؤنٹ ایورسٹ کا 360 ڈگری منظر دیکھ کر ہر کوئی حیران

    ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی سے 360 ڈگری کا نظارہ دکھانے والی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر منظر عام پر آئی ہے جس نے صارفین کو حیران کر دیا ہے۔

    اگر زمین پر کوئی ایسی جگہ ہے جہاں سے ہر چیز چھوٹی نظر آتی ہے، تو اسے ماؤنٹ ایورسٹ کہا جاسکتا ہے، جو دنیا کی سب سے اونچی پہاڑی چوٹی ہے، ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی سے 360 ڈگری کا منظر دکھانے والی ویڈیو وائرل ہے۔

    سابقہ ٹوئٹر(ایکس) پر ایک صارف نے یہ دل دہلادینے والی ویڈیو شیئر کی ہے جس میں ماہر کوہ پیماؤں کی ٹیم کو ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی پر دیکھا جاسکتا ہے۔

    بہت سے ٹویٹر صارفین ماؤنٹ ایورسٹ کے اس منظر سے متاثر نظر آئے۔ کیمنٹ سیکشن میں، جہاں کچھ صارفین نے کوہ پیماؤں کی ہمت کی تعریف کی، وہی دوسروں نے ان خطرات اور چیلنجوں کے بارے میں لکھا جن کا سامنا کوہ پیماؤں کو دنیا کی بلند ترین پہاڑی چوٹی پر کرنا پڑتا ہے۔

    اس کے علاوہ گزشتہ ہفتے اسکاٹ لینڈ سے تعلق رکھنے والا 2 سالہ بچہ ماؤنٹ ایورسٹ کے بیس کیمپ تک پہنچنے والا سب سے کم عمر شخص بن گیا۔

  • نیپال: ماؤنٹ ایورسٹ کے قریب ہیلی کاپٹر لاپتہ، 5 غیر ملکیوں سمیت 6 افراد سوار ہیں

    نیپال: ماؤنٹ ایورسٹ کے قریب ہیلی کاپٹر لاپتہ، 5 غیر ملکیوں سمیت 6 افراد سوار ہیں

    نیپال میں ماؤنٹ ایورسٹ کے قریب نجی تجارتی ہیلی کاپٹر لاپتہ ہوگیا، ہیلی کاپٹر میں 5 غیر ملکیوں سمیت  6 افراد سوار ہیں۔

     بھارتی میڈیا کے مطابق نجی تجارتی ہیلی کاپٹر سولوکھمبو سے کھٹمنڈو جا رہا تھا، جس میں 5 غیر ملکی سوار تھے جن کی شناخت میکسیکو کے شہریوں کے طور پر ہوئی ہے۔

    حکام نے بتایا کہ ہیلی کاپٹر  کا منگل کے روز تقریباً صبح 10 بجے  رابطہ منقطع ہوا اور  10:12 بجے (مقامی وقت کے مطابق) ریڈار سے دور ہو گیا۔

    تریبھون بین الاقوامی ہوائی اڈے (ٹی آئی اے) کے منیجر اور انفارمیشن آفیسر نے بتایا کہ ہیلی کاپٹر سولوکھمبو سے کھٹمنڈو جا رہا تھا اور صبح تقریباً 10 بجے کنٹرول ٹاور سے اس کا رابطہ منقطع ہوگیا، ہیلی کاپٹر کا 12 ہزار فٹ سے اوپر کی بلندی پر اچانک رابطہ ٹوٹا ہے۔

    دوسری جانب ہیمالین ٹائمز کے مطابق نجی طیارے کے کپتان سینئر  کپتان چیت بی گرونگ ہے، ہیلی کاپٹر رابطہ سے باہر ہے، ٹاور سے کوئی رابطہ نہیں ہے، آخری بار ہیلی کاپٹر کے وائبر سے صرف ‘ہیلو’ کا پیغام موصول ہوا۔

  • وہ مشہورِ زمانہ مہم جس میں ایک غریب نیپالی نوجوان نے سَر ایڈمنڈ ہلاری کا ساتھ بھرپور دیا

    وہ مشہورِ زمانہ مہم جس میں ایک غریب نیپالی نوجوان نے سَر ایڈمنڈ ہلاری کا ساتھ بھرپور دیا

    1953ء میں کوہ پیما ایڈمنڈ ہلاری (Sir Edmund Hillary) اور ان کے نیپالی مددگار تینزنگ نورگے (Tenzing Norgay) نے ایورسٹ کی چوٹی سَر کی تھی، اور بعد میں برطانوی کوہ پیما ایڈمنڈ ہلاری نے اس خطرناک مہم کا احوال رقم کیا تھا جس کے چند پاروں کا ترجمہ مشہور ہفت روزہ ‘آئینہ’ (نئی دہلی) میں شایع ہوا تھا۔ ملاحظہ کیجیے۔

    27 مئی کو صبح میں جلدی ہی اٹھ بیٹھا، سخت سردی کے باعث تمام رات مشکل سے ہی نیند آئی تھی، اور میری حالت بہت ہی خستہ ہو رہی تھی۔

    میرے ساتھی لو، جارج اور تینزنگ مخروطی خیمہ میں پڑے ہوئے کروٹیں بدل رہے تھے تاکہ سخت سردی کے احساس میں کچھ کمی ہو سکے۔ ہوا بہت تیز تھی اور پوری طاقت سے چل رہی تھی۔ ہوا کی زور دار آواز کے باعث تمام رات گہری نیند سونا ممکن نہیں ہوسکا تھا۔ بستر میں سے ہاتھ نکالنے کو دل تو نہیں چاہتا تھا، لیکن بادلِ ناخواستہ ہاتھ نکالا اور گھڑی دیکھی صبح کے چار بجے تھے۔ دیا سلائی جلائی اور اس کی ٹمٹماتی ہوئی روشنی میں تھرما میٹر دیکھا۔ درجۂ حرارت 35 ڈگری تھا، یعنی نقطۂ انجماد سے 25 ڈگری کم، ہمارا کیمپ کوہِ ایورسٹ کے جنوبی درّہ میں تھا۔

    ہمیں امید تھی کہ ہم اس دن جنوب مشرقی پہاڑی بلندی پر اپنا کیمپ قائم کر سکیں گے، لیکن سخت ہوا کے باعث اس مقام سے روانہ ہونا ہی ناممکن تھا، لیکن ہمیں تیار رہنا تھا تاکہ جوں ہی ہوا کا زور ختم ہو ہم اپنے سفر پر روانہ ہو سکیں۔ میں نے تینزنگ کو بلایا اور اس سے کھانے پینے کے متعلق چند باتیں کہیں، تینزنگ کی عجیب عادت یہ ہے کہ اس کو کبھی کوئی شکایت کرتے ہوئے نہیں سنا گیا، تینزنگ سے باتیں کرنے کے بعد پھر میں اپنے بستر پر لیٹ گیا۔ جلد ہی اسٹوو جلنے کی آواز آئی اور خیمہ کی ہوا میں گرمی پیدا ہوگئی۔ ہم اٹھ بیٹھے۔ ہمارے اندر تازگی پیدا ہوگئی اور ہم بسکٹ کھانے اور گرم پانی پینے لگے جس میں شکر اور لیموں ڈالا گیا تھا۔ گریگوری اور میں اپنے دن کے پروگرام کے متعلق گفتگو کرنے لگے، لیکن ہم پر مایوسی کی ایک کیفیت چھائی ہوئی تھی۔

    9 بج چکے تھے، لیکن ہوا کا زور و شور بدستور تھا۔ میں اپنے گرم کپڑے پہنے ہوئے خیمہ سے باہر نکلا اور اس چھوٹے سے خیمہ کی طرف چلا تھا جس میں جان ہنٹ چارلس ایون اور ٹام بورڈیلن تھے۔ ہنٹ نے اس رائے سے اتفاق کیا کہ ایسے خراب موسم میں آگے بڑھنا ممکن نہیں۔ آنگ ٹیمبا بیمار ہو چکا تھا اور اس کو آگے لے جانا بظاہر ممکن نہیں آتا تھا، اس لیے ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ اس کو ایونس اور بورڈ ویلن کے ساتھ نیچے کیمپ میں بھیج دیا جائے۔ دوپہر کے قریب یہ لوگ ساتویں کیمپ کے لیے روانہ ہو گئے۔ آخری لمحے ہنٹ نے بورڈ ویلن کی کمزور حالت کے باعث اس جماعت کے ساتھ جانے کا فیصلہ کرلیا۔ میں اور وہ ان لوگوں کی مدد کے لیے درّہ کے اوپر تک گئے اور وہاں کھڑے ہوکر ہم نے ان لوگوں کو ساتویں کیمپ کے لیے نیچے جاتے ہوئے دیکھا۔

    تمام دن ہوا کا زور نہیں ٹوٹا اور ہم نے مایوس ہوکر اگلے دن درّہ سے نکل کر اوپری حصہ میں کیمپ قائم کرنے کا فیصلہ کرلیا، کیوں کہ اگر ہم اس درّہ میں پڑے رہتے تو نتیجہ حالات کے اور زیادہ خراب ہونے اور ہماری کمزوری کی صورت میں ظاہر ہوتا۔

    دوسرے دن صبح بھی ہوا کا وہی زور تھا لیکن آٹھ بجے کے قریب اس کے زور میں کمی ہو گئی اور ہم نے روانہ ہونے کا فیصلہ کر لیا لیکن ایک اور مصیبت آن پڑی۔ پیمبا سخت بیمار ہوگیا، وہ آگے نہیں جا سکتا تھا۔ اب صرف ایک قلی رہ گیا ، جو ہمارا سامان لے جا سکتا تھا وہ تھا آنگ نائمبا۔ ہمارے ساتھ تین قلی تھے، اب ان میں سے صرف ایک رہ گیا تھا۔ لیکن ہم آگے بڑھنے کی کوشش کو ترک بھی نہیں کرسکتے تھے۔ اس لیے ہم نے خیمہ خود ہی لے جانے کا فیصلہ کیا۔ ہم نے سامان باندھ لیا، البتہ غیر ضروری چیزوں کو وہیں چھوڑ دیا، یہاں تک کہ بوجھ کو ہلکا کرنے کے لیے ہمیں آکسیجن کے ذخیرے میں بھی کمی کرنی پڑی۔

    پونے نو بجے گریگوری، آنگ نائمبا روانہ ہوگئے، ہر ایک کے پاس چالیس پونڈ وزن تھا اور ہر شخص چار لیٹر فی منٹ کے حساب سے آکسیجن سانس کے ساتھ جذب کر رہا تھا، تینزنگ اور میں بعد کو روانہ ہونے والے تھے تاکہ ہم اس راستے پر جو ہم سے آگے جانے والے بنائیں آسانی سے چل سکیں اور اس طرح ہماری طاقت بھی برقرار رہے اور ہم آکسیجن کا استعمال بھی کم کریں۔ ہم نے اپنے کپڑے، بستر، خوراک اور آکسیجن سیٹ باندھے اور دس بجے روانہ ہوگئے۔

    ہم آہستہ آہستہ طویل ڈھالوں پر چڑھتے رہے، اور برفانی چشمے کے نچلے حصہ تک پہنچ گئے، اس کے بعد ہم اس زینہ پر چڑھنے لگے جو لو نے برف کے چشمہ کے ڈھال پر بنایا تھا، جب ہم اس زینہ پر چڑھ رہے تھے تو برف کے ٹکڑے ہمارے اوپر گر رہے تھے، کیوں کہ ہم سے اوپر لو اور گریگوری برف کو کاٹ کر سیڑھیاں بنا رہے تھے، ہم دوپہر کے وقت جنوب مشرقی پہاڑی پر پہنچ گئے۔ یہاں ہمیں اپنی جماعت کے وہ لوگ مل گئے جو ہم سے آگے جا چکے تھے۔ قریب ہی ہمیں ٹوٹا پھوٹا خیمہ نظر آیا جو سوئزر لینڈ کے کوہ پیماؤں نے گزشتہ سال قائم کیا تھا اور جہاں سے تینزنگ اور لیمبرٹ نے چوٹی پر پہنچنے کی بہادرانہ کوشش کی تھی۔

    یہ جگہ بہت ہی حیرت انگیز تھی۔ چاروں طرف خوب صورت مناظر تھے۔ ہم نے اس مقام پر بہت سے فوٹو لیے، یہاں ہم بہت خوش تھے اور ہمیں یقین تھا کہ ہم جنوب مشرقی پہاڑی پر اپنا خیمہ نصب کرسکیں گے۔ ذخیرہ 27350 فٹ بلندی پر تھا لیکن چوٹی کے مقابلہ میں پھر بھی بہت نیچے تھا اور ہمیں زیادہ اوپر جانا تھا، اس لیے اپنے سامان کے علاوہ ہم نے اس ذخیرے سے بھی کچھ سامان لیا۔ گریگوری نے کچھ آکسیجن بھی لی، لو نے خوراک اور تیل وغیرہ لیا اور میں نے ایک خیمہ لیا، آنگ نائمبا کے پاس تقریبا چالیس پونڈ وزن تھا لیکن ہمارے پاس 35 یا 36 پونڈ وزن تھا۔ ہم آہستہ آہستہ پہاڑی پر چڑھتے رہے، وزن کے باوجود ہم برابر آہستہ آہستہ اوپر چڑھ رہے تھے۔ چٹان بہت ڈھلوان تھی اور لو نے پچاس فٹ تک زینہ بنادیا تھا۔

    تین بجے ہم تھک گئے اور کیمپ قائم کرنے کے لیے جگہ کی تلاش کرنے لگے۔ لیکن کوئی مناسب جگہ نہیں مل سکی اور ہم اوپر چڑھنے پر مصروف ہوئے۔ ہم آہستہ آہستہ چڑھتے رہے لیکن ہمیں پھر بھی کیمپ کے واسطے مناسب جگہ نہیں ملی۔ ہم ناامید ہوتے جارہے تھے کہ تینزنگ کو یکایک خیال آگیا کہ اس مقام پر گزشتہ سال اس نے کہیں کوئی چوڑ اخطہ دیکھا تھا چنانچہ اس نے ہم کو بائیں طرف چلنے کو کہا اور ہم بالآخر ایسی جگہ پہنچ گئے جہاں کیمپ قائم کیا جا سکتا تھا۔

    ڈھائی بج چکے تھے۔ ہم نے یہاں کیمپ قائم کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا، تمام دن لوہسٹے کی شان دار چوٹی کو دیکھتے رہے تھے لیکن اب یہ چوٹی ہمیں اپنے نیچے نظر آرہی تھی، اس وقت ہم 27900 فٹ کی بلندی پر تھے۔ لو، گریگوری اور آنگ نائمبا نے اطمینان کا سانس لیتے ہوئے اپنے وزن زمین پر ڈال دیے۔ وہ تھکے ہوئے تھے لیکن انہیں یہ اطمینان ضرور تھا کہ وہ کافی بلندی تک پہنچ چکے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ دوسرے دن کی کام یاب چڑھائی ان کی ہی کوششوں کے باعث عمل میں آئی، انہوں نے وقت ضائع نہیں کیا اور وہ جنوبی درّہ کے عقب میں چلے گئے۔

    ہم نے اپنے ساتھیوں کو خوش خوش واپس جاتے ہوئے دیکھا، گو ہم تنہا رہ گئے۔ پھر بھی ہمیں اس کام یابی پر مسرت تھی، ہمیں بہت کام کرنا تھا، ہم نے آکسیجن سیٹ علیحدہ کردیے اور کدالوں سے اس جگہ کو صاف کرنے لگے۔ ہم تمام برف کھودنے میں کام یاب ہوگئے، چٹان نظر آنے لگی اور ہم خیمہ کے نصب کرنے کے لیے دو گز لمبے اور ایک گز چوڑے دو ٹکڑے بنا سکے۔ لیکن ان دونوں کی سطح میں ایک فٹ کا فرق تھا، یہاں ہم نے اپنا خیمہ نصب کر دیا، سورج غروب ہونے پر ہم اپنے خیمہ میں داخل ہوگئے، تمام گرم کپڑے پہن لیے اور بستروں میں گھس گئے۔

    چار بجے ہوا خاموش تھی۔ میں نے خیمہ کا دروازہ کھولا اور باہر دیکھا۔ وہاں نیپال کی وادیاں نظر آئیں۔ برفیلی چوٹیاں ہمارے نیچے صبح کی ہلکی روشنی میں چمک رہی تھیں، تینزنگ نے تھیانگ بوش کے بت خانے کی طرف اشارہ کیا۔ جو ہم سے 16 ہزار فٹ نیچے دھندلا دکھائی دے رہا تھا۔

    ساڑھے چھے بجے صبح ہم خیمہ سے نکل کر برف پر آئے، آکسیجن سیٹ اپنی پیٹھ پر لادا اور آکسیجن جذب کرنے لگے۔ چند گہری سانسیں لینے کے بعد ہم پھر چلنے کو تیار ہوگئے۔

    ہم آہستہ آہستہ مستقل بڑھتے چلے جارہے تھے ہمیں رک کر سانسیں لینے کی ضرورت نہیں تھی۔ میں راستہ بناتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا اور تینزنگ میرے پیچھے پیچھے آرہا تھا۔

    جس مقام سے ہم گزر رہے تھے وہ نہایت خطرناک تھا۔ آٹھ ہزار فٹ نیچے ہمیں چوتھا کیمپ نظر آرہا تھا۔ لیکن ہم نے نہ محنت میں کمی اور نہ احتیاط کو ہاتھ سے چھوڑا۔ ایک مرتبہ میں نے دیکھا تینزنگ کے قدم آہستہ پڑنے لگے اور اس کے لیے سانس لینا مشکل ہورہا ہے، تینزنگ کو آکسیجن کے اثرات کا بہت کم احساس تھا، میں نے اس کی حالت دیکھ کر محسوس کیا کہ آکسیجن کی کمی ہوگئی، میں نے اس کی آکسیجن ٹیوب دیکھی تو اس کو برف سے بند پایا، میں نے اس ٹیوب کو صاف کیا اور تینزنگ آکسیجن سانس کے ذریعہ جذب کرسکا، میں نے اپنی ٹیوب دیکھی وہ بھی برف کے باعث بند ہوگئی تھی اس کو بھی میں نے صاف کیا۔

    اسی طرح ایک گھنٹہ چلنے کے بعد ہمیں ایسی مشکل پیش آئی جو بظاہر حل ہوتی ہوئی نہیں معلوم ہوتی تھی، ہمارے سامنے تقریباً چالیس فٹ اونچی ایک چٹان کھڑی تھی جس پر چڑھنا بالکل ناممکن معلوم ہوتا تھا، اس چٹان کو میں ہوائی جہاز کے ذریعے لیے ہوئے فوٹو میں دیکھ چکا تھا، نیز اس کو اپنی دور بین کے ذریعے بھی دیکھ چکا تھا۔ میں نے ہمّت کی اور تینزنگ کو نیچے چھوڑ کر اس نکلی ہوئی برف کو پکڑ کر اور اس شگاف میں اپنے پاؤں کاندھے اور ہاتھ جماتا ہوا آگے اوپر چڑھنا شروع کیا۔ اوپر چڑھتے ہوئے میں یہ دعا بھی کرتا جاتا تھا کہ یہ برف کے چھجے ٹوٹیں نہیں ورنہ سوائے موت کے اور کوئی صورت ہی نہیں تھی۔

    آخر کار میں چٹان کے اوپر پہنچ گیا، تینزنگ بھی اسی طرح اوپر آیا، میں نے پھر سیڑھیاں بنانی شروع کر دیں۔ ایک دوسرا موڑ آیا اور جب میں برف کاٹنے لگا تو میں سوچنے لگا کہ ہم اس طرح کہاں تک بڑھتے چلے جائیں گے اس وقت چوٹی پر پہنچنے کا ہمارا جوش ختم ہوچکا تھا، اور ہم اپنے آپ کو موت سے بچانے کی جدوجہد میں مصروف تھے۔ میں نے اوپر دیکھا اور ایک تنگ حصہ چوٹی تک جاتا ہوا نظر آیا، سخت جمی ہوئی برف میں میں نے تھوڑی دیر اور راستہ بنایا اور ہم دونوں چوٹی پر پہنچ گئے۔

    چوٹی پر پہنچ کر مجھے بڑا سکون محسوس ہوا، ہمارا سفر ختم ہوچکا تھا۔ اب ہمیں نہ برف کو کاٹنا تھا، نہ چٹانوں کو عبور کرنا تھا اور نہ ٹیلوں کو پار کرنا تھا، میں نے تینزنگ کی طرف دیکھا، اس کا چہرہ آکسیجن نقاب اور برف سے چھپا ہوا تھا۔ پھر بھی وہ مجھے چمکتا ہوا نظر آیا۔ وہ اپنے چاروں طرف دیکھ رہا تھا، ہم دونوں نے ہاتھ ملائے، تینزنگ نے اپنے ہاتھ میرے گلے میں ڈال دیے، ہم دونوں نے ایک دوسرے کو تھپتھپایا، یہاں تک کہ ہم تھک گئے، ساڑھے گیارہ بجے تھے اور ڈھائی گھنٹہ میں ہم نے پہاڑ کے اس ابھرے ہوئے حصہ کو طے کیا تھا جو چوٹی سے نیچے واقع تھا۔

    میں نے آکسیجن سیٹ اتار دیا، میرے پاس کیمرہ تھا جس میں رنگین فلم چڑھی ہوئی تھی۔ میں نے اس کو نکالا اور تینزنگ کو کھڑا کر کے اس کا فوٹو لیا۔ تینزنگ کے ہاتھ میں کدال تھی جس پر جھنڈے لہرا رہے تھے، یہ جھنڈے برطانیہ، نیپال ،اقوامِ متحدہ اور ہندوستان کے تھے۔

    تب میں نے اپنے چاروں طرف دیکھا چوٹی سے اردگرد کا ملک صاف نظر آرہا تھا۔ مشرق میں مکالو کی چوٹی تھی، جس پر ابھی تک کوئی نہیں پہنچ سکا تھا۔ ایورسٹ کی چوٹی پر پہنچ کر میری ہمتیں بڑھ گئی تھیں اور میں یہ دیکھنے لگا کہ مکالو کو جانے والا کوئی راستہ موجود ہے یا نہیں۔ بہت دور پہاڑوں میں کنچن جنگا کی چوٹی افق پر دکھائی دے رہی تھی۔ وہاں سے نیپال کا علاقہ صاف نظر آرہا تھا۔ شمال کی طرف وہ مشہور راستہ دکھائی دے رہا تھا جس پر سے میں 1920 اور 1930 میں ایورسٹ پر چڑھنے کی کوشش کی گئی تھی۔

    میں نے اپنے آکسیجن سیٹ کی پھر جانچ کی اور اس کے مطابق واپسی کے سفر کا حساب لگایا۔ اور بالآخر واپس ہو گئے۔

    جب ہم کام یابی سے ڈھلوان حصہ سے اتر کر چٹانی حصہ پر پہنچ گئے تو ہم دونوں نے اطمینان کا سانس لیا۔ ہم بہت تھک چکے تھے۔ ہمیں اب جنوبی درّے تک پہنچنا تھا۔

    یہاں ہمیں ایک مشکل کا سامنا کرنا پڑا، ہمارے جانے کے بعد جو سخت ہوا چلی تھی اس کے باعث ہماری بنائی ہوئی سیڑھیاں ختم ہوچکی تھیں۔ برف بغیر کسی نشان کے تھی، اس لیے ہمیں مجبوراً پھر راستہ بنانا پڑا، بڑی ناخوش گواری سے میں نے پھر برف کاٹنی شروع کی۔ ہوا سخت تیز تھی اور ہر لمحہ یہ خطرہ تھا کہ ہمیں اڑا کر لے جائے گی، دو سو فٹ تک میں نے راستہ بنایا، پھر تینزنگ راستہ بنانے لگا۔ سو فٹ تک اس نے یہ کام کیا۔ کچھ دور کے بعد نرم برف آگئی جس میں چلنا نسبتاً آسان ہوگیا اور ہم جنوبی درّہ پہنچ گئے۔

    ہم ایورسٹ کی چوٹی پر صرف 15 منٹ ٹھہرے، اس وقت ہم پر اپنے سفر کا رد عمل شروع ہو چکا تھا، ہم تیزی کے ساتھ پہاڑوں سے نکل جانا چاہتے تھے۔ ہمارا کام ختم ہو چکا تھا، لیکن ہمیں واپس ہونا تھا اور ان ہی خطرات سے پھر گزرنا تھا، جن سے گزر کر ہم چوٹی تک پہنچنے میں کام یاب ہوئے تھے۔

  • خلا سے ماؤنٹ ایورسٹ کی تصویر

    خلا سے ماؤنٹ ایورسٹ کی تصویر

    دنیا کی سب سے اونچی چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ ان چند مقامات میں سے ایک ہے جو خلا سے بھی دکھائی دیتی ہیں، تاہم حال ہی میں خلا سے لی گئی کچھ تصاویر میں سوشل میڈیا صارفین ماؤنٹ ایورسٹ کو ڈھوندنے میں پریشانی کا شکار ہوگئے۔

    انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن (آئی ایس ایس) میں موجود ناسا کے ایک خلا باز مارک ٹی وینڈی ہے نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر 2 تصاویر پوسٹ کر کے لوگوں کو چیلنج کیا کہ وہ دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ کو اس میں دریافت کریں۔

    انہوں نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ متعدد بار کوشش کرنے کے بعد آخر کار میں اسپیس اسٹیشن سے ماؤنٹ ایورسٹ کو تلاش کرنے میں کامیاب ہوگیا، کیا آپ ان تصاویر میں اسے تلاش کرسکتے ہیں؟

    ماؤنٹ ایورسٹ یقیناً زمین کی سب سے بلند چوٹی ہے مگر جب آپ 17 ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے زمین کے مدار پر سفر کررہے ہوں تو وسیع پس منظر میں وہ آسانی سے گم ہوسکتی ہے اور صحیح موقع پر کیمرا سے تصویر لینا بھی آسان نہیں۔

    اب یہی تصاویر زمین سے 248 میل کی بلندی سے لی گئی ہے جس میں ماؤنٹ ایورسٹ کو تلاش کرنا بہت مشکل ہے تاہم کچھ صارفین کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے اسے ڈھونڈ لیا ہے۔

    ایک صارف اسٹیو رائس نے بتایا کہ وہ ایورسٹ کی تصاویر میں ڈھونڈنے میں کامیاب رہا جس کے لیے اس نے گوگل میپس سے بھی کچھ مدد لی۔

  • دنیا کی سب سے بلند چوٹی سے متعلق اہم خبر

    دنیا کی سب سے بلند چوٹی سے متعلق اہم خبر

    کھٹمنڈو: دنیا کی سب سے بلند چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ کی اونچائی میں اضافہ ہو گیا۔

    تفصیلات کے مطابق ماؤنٹ ایورسٹ کی نئی پیمائش کی گئی ہے، جس میں یہ حیران کن بات سامنے آئی ہے کہ دنیا کی اس مشہور ترین چوٹی کی اونچائی میں 3 فٹ کا اضافہ ہو گیا ہے۔

    نئی پیمائش نیپال اور چین نے کی ہے، اور اب ماؤنٹ ایورسٹ کی اونچائی 8848.86 میٹر (29,031.69 فٹ) ہو گئی ہے۔

    گزشتہ پیمائش کے مطابق ماؤنٹ ایورسٹ کی اونچائی 8848 میٹر تھی، چینی اور نیپالی صدور نے اس پیمائش پر ایک دوسرے کو مبارک باد بھی دی ہے۔

    اس منصوبے کی قیادت کرنے والے اور نیپال کے چیف سروے آفیسر سوشیل ڈانگول نے کہا کہ ہمیں یقین ہے کہ اب تک حاصل ہونے والی یہی ایورسٹ کی سب سے درست اونچائی ہے، یہ ہم پر ایک بہت بڑی ذمہ داری تھی، اور یہ ہمارے لیے بڑے فخر کا لمحہ ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ پیمائش ممکن ہے ایورسٹ کی اسٹینڈرڈ اونچائی بن جائے، کولراڈو یونی ورسٹی کے ماہر ارضیات روگر بلہم کا کہنا ہے کہ یہ بہت مشکل ہوگا کہ اس نئی پیمائش میں بھی بہتری لائی جائے، نیپال کی یہ پیمائش قابل ذکر ہے۔

    دوسری طرف ماہرین ارضیات کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایورسٹ کی درست بلندی ایک متحرک ہدف ہے، یعنی ٹیکٹونک پلیٹوں اور زلزلوں کی وجہ سے اس میں تبدیلی آ سکتی ہے۔

  • جاپان نے ماؤنٹ ایورسٹ پر جوڈو سینٹر قائم کردیا

    جاپان نے ماؤنٹ ایورسٹ پر جوڈو سینٹر قائم کردیا

    کھٹمنڈو: جاپان نے جوڈو کو فروغ دینے کے لئے دنیا کی بلند ترین چوٹی پر انوکھا اہتمام کیا ہے۔

    بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق نیپال میں سطح سمندر سے تقریباً چار ہزار میٹر بلند اسکول میں جوڈو کی مشق کے لیے ایک ہال کھولا گیا ہے، یہ ہال جاپان کے قومی جوڈو ٹیم کے کوچ اور اولمپک گولڈ میڈلسٹ اینوئے کوسے کی سربراہی میں غیر سرکاری تنظیم نے کھولا ہے۔

    کُھم جُنگ نامی گاؤں کے اسکول میں یہ ہال بنایا گیا ہے جو سطح سمندر سے 3 ہزار 790 میٹر بلند ہے، جوڈو کے لئے ضروری سامان تاتامی میٹ اور پریکٹس ویئر کے پچاس پچاس سیٹ ٹرک اور ہیلی کاپٹر کے ذریعے کھٹمنڈو سے گزشتہ ہفتے یہاں پہنچائے گئے تھے۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق اسکول تک جانے والی سڑک کا آخری حصہ گاڑیوں کی آمد و رفت کے لیے بہت تنگ تھا جس کے باعث طلبا نے 10 کلوگرام سے زائد وزنی ایک ایک میٹ اپنے سروں پر اٹھا کر اسکول تک پہنچایا، میٹ بچھاتے ہی بچے خوشی سے نہال ہوگئے اور انہوں نے فوراً کھیل کی مشق شروع کردی۔

    مزید پڑھیں:  کمسن بچے نے والد کی پھنسی گاڑی کو ریسکیو کرلیا، ویڈیو وائرل

    جس جگہ یہ ہال بنایا گیا ہے، اس سے قبل اس کمرے کو کمپیوٹر کلاسز کے لئے استعمال کیا جاتا تھا، تنظیم کا کہنا ہے کہ بلند ترین چوٹی پر جوڈو ہال کھولنے کا مقصد نیپال اور جاپان کے درمیان کھیلوں کو فروغ دینا ہے۔