Tag: مائیں

  • ’بگڑے‘ بچوں کو کیسے سنبھالیں؟ چند مفید مشورے

    ’بگڑے‘ بچوں کو کیسے سنبھالیں؟ چند مفید مشورے

    بچوں کے رویے ویسے بھی کافی پیچیدہ ہوتے ہیں، اور پھر جب وہ جذباتی تبدیلیوں سے گزرتے ہیں تو انھیں کنٹرول کرنا اور مشکل ہو جاتا ہے، بعض بچے تو کافی جارح ہو جاتے ہیں۔

    ایسے میں ضدی اور کچھ مسائل کے شکار بچوں کو نظم و ضبط کا پابند بنانا اکثر ماؤں کے لیے ایک چیلنج ثابت ہوتا ہے، اس سلسلے میں سب سے اہم نکتہ یہ ہوتا ہے کہ خود ماؤں کو بھی نظم و ضبط کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے، اس سلسلے میں چند مؤثر طریقے اور تدابیر بتائی جا رہی ہیں، جن کی مدد سے مائیں بچوں کے رویے میں مثبت تبدیلی لا سکتی ہیں۔

    بچوں کو کب تنہا چھوڑا جائے؟

    بچے کو بدتمیزی یا بہت زیادہ برا برتاؤ کرتے دیکھیں تو ان سے کہیں کہ وہ اس جگہ سے چلے جائیں، جیسا کہ انھیں کمرے میں بھیجا جائے، بچے سے برے رویے کے لیے کچھ نہ کہیں، انھیں تنہا چھوڑ کر خود معلوم کرنے دیں کہ انھیں سزا کیوں دی گئی، یہ ایک کارگر تدبیر ہے۔

    سزا کیا دی جائے؟

    جب آپ دیکھیں کہ اس سزا کے بعد بھی بچے کا برا رویہ برقرار ہے، تو ان سے وہ سہولتیں اور آزادیاں واپس لیں جن سے وہ لطف اندوز ہوتے ہیں، اور انھیں سمجھائیں کہ اگر وہ ان چیزوں کو دوبارہ پانا چاہتے ہیں تو انھیں مناسب طریقے سے برتاؤ کرنا ہوگا۔

    کیا جسمانی سزا دی جائے؟

    مائیں جب بچوں کو بدتمیزی کرتے دیکھتی ہیں تو ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جاتا ہے، لیکن خود پر قابو پائیں اور جسمانی سزا یا چیخنے چلانے سے خود کو روکیں، اس سے آپ کے بچے کو ذہنی صدمہ پہنچ سکتا ہے اور ان کے مستقبل کے لیے یہ کافی نقصان دہ ہو سکتا ہے۔

    غصہ دکھانے والی ماؤں کے عمل کا بچوں پر کچھ اور اثر ہوتا ہے اور پرسکون رہ کر ان سے ڈیل کرنے کے اثرات بالکل مختلف ہوتے ہیں۔ اگر آپ پر سکون رہیں گے تو جلد ہی بچے اپنے رویے کو خود ہی سدھار لیتے ہیں۔

    بچوں کو کب نظر انداز کریں؟

    ماں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے بچے بعض اوقات پریشان کن حرکات کرتے ہیں، ایسے وقت انھیں مکمل طور پر نظر انداز کرنا ضروری ہے، تاکہ انھیں سمجھنے میں مدد ملے کہ وہ اس طرح توجہ حاصل نہیں کر پائیں گے۔ یہ طریقہ انتہائی کارگر ہے۔ تاہم اگر بچہ کسی مسئلے سے دوچار ہو تب نظر انداز کرنا خطرناک ہو سکتا ہے۔

    بچے کے اچھے برتاؤ پر کیا کریں؟

    اچھے برتاؤ پر بچوں کی حوصلہ افزائی ضروری ہے، انھیں اس پر انعام دیں، وہ اس طرح نظم و ضبط میں آ جاتے ہیں، اور ان کا جوش و خروش بھی بڑھتا ہے۔

    ماؤں کے لیے سب سے عام مشورہ

    ہر وقت اپنے بچوں کی شرارتوں اور کمزوریوں کی نشان دہی نہ کریں، کچھ اچھا کرنے پر ان کی تعریف بھی کریں، دوسروں کے سامنے بچوں پر تنقید تو ہرگز نہ کریں، نہ ہی ان کی کمزوریوں کا ذکر کریں، اس سے وہ احساس کمتری میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔

  • بیرون ملک پیدا ہونے والے بچے ماؤں کے ساتھ کویت واپس آنے سے قاصر

    بیرون ملک پیدا ہونے والے بچے ماؤں کے ساتھ کویت واپس آنے سے قاصر

    کویت سٹی: کویت میں رہائشی افراد کے حال ہی میں بیرون ملک پیدا ہونے والے بچے کویت آنے سے قاصر ہوگئے جس سے 400 خاندان شدید مشکلات کا شکار ہیں۔

    کویت نیوز کے مطابق درجنوں تارکین وطن کو ایک شدید انسانی مسئلے کا سامنا ہے جس کی بڑی وجہ ان کی اپنے نوزائیدہ بچوں کو کویت لانے میں ناکامی ہے کیونکہ وہ حال ہی میں پیدا ہوئے تھے جب مائیں گرمیوں کی چھٹیوں پر تھیں۔

    ایسا اس لیے ہو رہا ہے کیونکہ وزارت داخلہ نے اگلے نوٹس تک فیملی ڈیپنڈنٹ اور وزٹ ویزوں سمیت ہر قسم کے ویزوں کے اجرا پر پابندی لگانے کا فیصلہ جاری کیا ہے۔

    ان والدین نے ایک مقامی عربی روزنامے کے ساتھ اپنے انٹرویو کے دوران وزارت داخلہ سے درخواست کی ہے کہ وہ نوزائیدہ بچوں کو انسانی ہمدردی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے فیصلے سے مستثنیٰ قرار دے۔

    تقریباً 400 کے قریب کیسز جن میں زیادہ تر تعداد اسکول ٹیچرز کی ہے اس درخواست کے ساتھ مجاز محکمے کو جمع کروائے گئے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ نومولود بچوں کو اس فیصلے سے خارج کیا جائے۔

    درجنوں تارکین وطن نے وزارت داخلہ سے مطالبہ کیا کہ وہ ایک ایسے انسانی مسئلے کو دیکھیں جو ان کے لیے تشویش کا باعث ہے اور ان کے بیرون ملک پیدا ہونے والے نوزائیدہ بچوں سے متعلق ان کو پریشان کر رہا ہے۔

    ان کا کہنا ہے کہ ان کے مذکورہ بچے ان کے آبائی ممالک میں موسم گرما کی تعطیلات کے دوران پیدا ہوئے ہیں اور یہ کویت میں مجاز حکام کے لیے نئے طریقہ کار کے ساتھ موافق ہے جو اس وقت نافذ العمل ہیں جس کی وجہ سے ایسے ماں یا باپ ملازمت چھوڑنے اور کویت سے باہر نومولود کے ساتھ رہنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔

    تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ اپنی آواز مجاز اتھارٹی تک پہنچانے، اپنے نوزائیدہ بچوں کی ملک میں داخلے کے حوالے سے استثنیٰ حاصل کرنے اور ان کی خاندانی زندگی کو لاحق خطرے کی روشنی میں ان کے حالات کو ہمدردی اور انسانیت کے ساتھ دیکھنے کی خواہش کرتے ہیں۔

  • کونسی سبزی بچوں کو کروناوائرس سے بچا سکتی ہے؟ ماؤں کا دیسی ٹوٹکا

    کونسی سبزی بچوں کو کروناوائرس سے بچا سکتی ہے؟ ماؤں کا دیسی ٹوٹکا

    لندن: برطانیہ میں کچھ مائیں اپنے بچوں کو کروناوائرس سے محفوظ رکھنے کے لیے دیسی ٹوٹکے اپنارہی ہیں۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ماؤں کا خیال ہے کہ پیاز بچوں کو کروناوائرس سے بچا سکتے ہیں۔ برطانیہ میں پیغام رسانی کی سب سے بڑی ایپلیکیشن واٹس ایپ کے ذریعے اس ٹوٹکے کو پھیلایا بھی جارہا ہے۔

    ماؤں نے اس ٹوٹکے کو اپناتے ہوئے کمرے کے چاروں کو کونے میں ایک ایک پیاز رکھے اور یقین کا اظہار کیا کہ اب یہ پیاز بچوں کو کروناوائرس سے محفوظ رکھیں گے۔ خیال رہے کہ مذکورہ ٹوٹکا مفروضوں اور پرانی کہاوتوں پر مشتمل ہے جبکہ سائنس بھی ٹوٹکوں کو من گھڑت اور گڑھی ہوئی باتیں قرار دیتی ہے۔

    واٹس ایپ کے ذریعے پھیلائے جانے والے اس ٹوٹکے میں ماؤں کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ اس طرح پیاز کا استعمال کریں، پیاز میں بکٹیریا کو اپنے اندر سمونے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے، جو ممکنہ طور پر کروناوائرس سے بچانے میں معاون ثابت ہوگی۔ سوشل میڈیا پر چند صارفین کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنی ماں کو بھی ایسا کرتا دیکھا ہے۔

    ایک صارف نے لکھا کہ ان کی ماں کو یہ مشورہ واٹس ایپ کے ذریعے ملا جس کے بعد انہوں نے عمل کرنا شروع کردیا۔ بہت سے صارفین نے اس عمل پر سوالات اٹھاتے ہوئے اسے احمقانہ قرار دیا۔

  • بچوں کو بوتل کے ذریعے دودھ پلانے کا آغاز زمانہ قبل از تاریخ سے ہونے کا انکشاف

    بچوں کو بوتل کے ذریعے دودھ پلانے کا آغاز زمانہ قبل از تاریخ سے ہونے کا انکشاف

    لندن: ماہرین آثار قدیمہ نے انکشاف کیا ہے کہ بچوں کو بوتل کے ذریعے دودھ پلانے کا معاملہ جدید دنیا کے ساتھ نہیں جڑا بلکہ اس کا آغاز تو زمانہ قبل از تاریخ سے ہوا۔

    برطانیہ کی برسٹل یونی ورسٹی کے ماہرین نے اس سلسلے میں سائنسی تحقیق کے بعد کہا ہے کہ کچھ ایسے واضح شواہد ملے ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ تاریخ کے آغاز سے قبل بھی مائیں اپنے بچوں کو بوتل کے ذریعے دودھ پلاتی تھیں۔

    ان کا کہنا ہے کہ ماؤں نے تین ہزار برس سے زاید عرصے قبل اپنے بچوں کو جانوروں کا دودھ بوتل کے ذریعے پلانا شروع کر دیا تھا۔

    اسس سلسلے میں ماہرین آثار قدیمہ نے تین ایسے بوتل نما مٹی کے برتنوں کا معائنہ کیا جو ایک اندازے کے مطابق 12 سو سال قبل از مسیح میں شیرخوار بچوں کے ساتھ دفنائے گئے تھے، ان پر ماہرین کو جانوروں کی چربی اور دودھ کے مولیکیولر فنگر پرنٹ ملے۔

    یہ بھی پڑھیں:  کروڑوں برس قبل گم ہونے والا براعظم دریافت

    برسٹل یونی ورسٹی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ قبل از تاریخ کے بچوں کو جان وروں کا دودھ پلانے کی یہ پہلی شہادت ہے۔

    ماہرین کا خیال ہے کہ جب بچوں کو جان وروں کا دودھ پلانا شروع کر دیا گیا ہوگا تو عورتوں میں مزید بچے پیدا کرنے کی صلاحیت بھی بڑھ گئی ہوگی اور یوں آبادی میں اضافے میں تیزی آ گئی ہوگی۔

    خیال رہے کہ انسان نے دودھ اور اس سے بنی اشیا کا استعمال اندازاً 6 ہزار برس قبل شروع کیا جب کہ انسان نے سات ہزار برس قبل شکار چھوڑ کر کاشت کاری اور جانور پالنا شروع کیا تھا۔

  • وٹامن ڈی بریسٹ کینسر کی شدت میں کمی کے لیے معاون

    وٹامن ڈی بریسٹ کینسر کی شدت میں کمی کے لیے معاون

    وٹامن ڈی ہڈیوں کی مضبوطی کے لیے بے حد ضروری ہے اور یہ بڑھاپے میں ہڈیوں کی کمزوری کی وجہ سے پیدا ہونے والی کئی بیماریوں سے حفاظت فراہم کرسکتا ہے، لیکن طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ وٹامن ڈی خواتین میں بریسٹ کینسر سے اموات کی شرح میں بھی کمی کرتا ہے۔

    ایک تحقیق کے مطابق چھاتی کے سرطان میں مبتلا خواتین وٹامن ڈی کے استعمال سے نہ صرف موت کا شکار ہونے سے بچ سکتی ہیں، بلکہ ان کے کینسر کے شدید ہونے کا خطرہ بھی کم ہوجاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: دوحہ میں بریسٹ کینسر کی تشخیص کے لیے موبائل یونٹ کا قیام

    امریکہ میں ایک طبی تحقیقی ادارے سے وابستہ ڈاکٹر لارنس کا کہنا ہے کہ ان کے مشاہدے میں آیا ہے کہ چھاتی کے سرطان کا شکار وہ خواتین جو وٹامن ڈی کا بھرپور استعمال کرتی تھیں، ان کے کینسر کے بڑھنے اور اس کے باعث موت کا شکار ہونے کا خطرہ 30 فیصد کم تھا۔

    ان کا کہنا ہے کہ وٹامن ڈی چھاتی کے خلیوں کی نشونما میں اضافہ کرتا ہے جبکہ یہ کینسر کے خلیوں کے خلاف مزاحمت کرتا ہے اور ان کی نشونما کو روکتا بھی ہے۔

    ماہرین نے واضح کیا کہ وٹامن ڈی کی کمی دیگر کئی اقسام کے کینسر میں بھی مبتلا کر سکتی ہے۔ انہوں نے تجویز کیا کہ وٹامن ڈی کے حصول کے لیے دودھ، مچھلی اور وٹامن ڈی کے سپلیمنٹس کا استعمال کیا جائے جبکہ دن کا کچھ حصہ دھوپ میں بھی گزارا جائے۔

    واضح رہے کہ بریسٹ کینسر، کینسر کے مریضوں کی ہلاکت کی دوسری بڑی وجہ ہے۔ اس کی شرح ترقی یافتہ ممالک میں زیادہ ہے اور صرف یورپ میں 4 لاکھ سے زائد خواتین اس مرض کا شکار ہیں۔

    مزید پڑھیں: کینسر کو شکست دینے والی ماڈل

    ماہرین کے مطابق غیر متحرک طرز زندگی، موٹاپا، اور ورزش نہ کرنا بریسٹ کینسر کا بڑا سبب ہے جبکہ 30 سال سے کم عمری میں بچوں کی پیدائش اور بچوں کو طویل عرصہ تک اپنا دودھ پلانا خواتین میں بریسٹ کینسر کے خطرے میں کمی کرتا ہے۔

  • والدین کے ساتھ سونا شیر خوار بچوں کی اموات میں کمی میں معاون

    والدین کے ساتھ سونا شیر خوار بچوں کی اموات میں کمی میں معاون

    واشنگٹن: ماہرین کا کہنا ہے کہ شیر خوار بچوں کی اچانک موت کا خطرہ کم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ والدین ایک سال تک بچوں کو اپنے ساتھ ایک ہی کمرے میں سلائیں۔

    امریکی ماہرین کا کہنا ہے کہ والدین ایک سال سے کم عمر بچوں کو اپنے کمرے میں ہی سلائیں لیکن انہیں ان کے پنگھوڑے میں علیحدہ سلایا جائے۔

    ماہرین کے مطابق شیر خوار بچوں کی حفاظت کے لیے سنہ 1990 میں رہنما اصول جاری کیے گئے تھے جن کے مطابق بچوں کو صاف ستھرے بستروں میں سلایا جائے اور سوتے ہوئے ان کے قریب سے تمام کھلونے اور دیگر چیزیں ہٹا دی جائیں۔

    baby-post-1

    ماہرین نے بتایا کہ ان رہنما اصولوں کے باعث شیر خوار بچوں کی اچانک اموات میں 50 فیصد کمی آئی۔

    تاہم اس کے باوجود دنیا بھر میں شیر خوار بچوں کی اموات کی شرح اب بھی بہت زیادہ ہے اور صرف امریکا میں ہر سال 3 ہزار 500 شیر خوار بچے ہلاک ہوجاتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق اس کی وجہ والدین اور بچوں کا ایک ہی بستر پر سونا ہے۔

    ماہرین اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ بچے والدین یا ان کے قریب رکھے گئے کھلونوں کے نیچے دب کر سانس لینے سے محروم ہوسکتے ہیں اور ان کا دم گھٹ سکتا ہے۔

    baby-post-2

    اسی طرح ان کو اڑھائے گئے کمبل اگر بھاری بھرکم ہوں تو بچے کی حرکت کی صورت میں وہ ان کے منہ پر آسکتے ہیں اور ان کی سانس بند ہوسکتی ہے۔

    ماہرین نے تجویز دی ہے کہ اس ضمن میں کم از کم ایک سال تک بے حد محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد بچے خود کو پہنچنے والے نقصان کا اندازہ کر سکتے ہیں اور سوتے ہوئے اپنے اوپر آئی چیزوں کو ہٹا سکتے ہیں۔

  • بچوں کی ذہانت والدہ سے ملنے والی میراث

    بچوں کی ذہانت والدہ سے ملنے والی میراث

    ذہانت ایک خداداد صلاحیت ہے۔ یہ عموماً بغیر کسی وجہ کے کسی بھی شخص میں ہوسکتی ہے۔ بعض دفعہ یہ موروثی بھی ہوتی ہے۔ اگر خاندان میں ذہین افراد کی تعداد زیادہ ہے تو نئی آنے والی نسل بھی ذہین ہوگی۔

    لیکن ماہرین نے حال ہی میں ایک انکشاف کیا ہے کہ موروثی ذہانت کا تعلق دراصل والدہ کی جانب سے ملنے والے جینز سے ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک بچہ اگر ذہین ہے تو اس کا کریڈٹ اس کی والدہ کو جاتا ہے۔

    mothers-2

    یہ نظریہ بڑے پیمانے پر کی جانے والی تحقیق کے بعد سامنے آیا جس کی وضاحت کرتے ہوئے ماہرین نے بتایا کہ نئے جسم کی تشکیل کا سبب بننے والے ایکس کروموسومز جو والدہ میں ہوتے ہیں، اپنے اندر ذہانت کے جینز رکھتے ہیں۔ ان کی موجودگی وائی کروموسومز میں نہیں ہوتی جو کہ والد میں ہوتے ہیں۔

    ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ تحقیق سے پتہ چلا کہ جن بچوں میں اپنی والدہ کی جانب سے موصول ہونے والی ذہانت ضرورت سے زیادہ ہوتی ہے ان کا دماغ اور سر بڑا ہوتا ہے جبکہ ان کا جسم دیگر بچوں کے مقابلے میں چھوٹا ہوتا ہے۔

    مزید پڑھیں: دوران حمل نشہ کرنے والی خواتین کے بچے بدترین مسائل کا شکار

    مزید پڑھیں: دوران حمل پھلوں کا استعمال بچوں کی ذہنی استعداد میں اضافے کا سبب

    تحقیق کے مطابق ذہانت کا تعلق صرف وراثت سے نہیں ہوتا۔ اس کا انحصار بچپن میں میسر ہونے والے ماحول پر بھی ہوتا ہے تاہم اس کا تعلق بھی والدہ سے ہے۔

    جو مائیں بچپن سے اپنے بچوں کو مختلف ذہنی مشقیں کرواتی ہیں اور ان کے ساتھ ایسے کھیل کھیلتی ہیں جس میں دماغ کا استعمال ہوتا ہو ان بچوں کی ذہانت میں نشونما اور اس میں اضافہ ہوتا ہے۔

    mothers-3

    ماہرین نے بتایا کہ جن بچوں کا اپنی والدہ سے گہرا تعلق ہوتا ہے وہ جذباتی طور پر بھی مستحکم ہوتے ہیں اور زندگی کے تمام مسائل کا بہادری سے سامنا کرتے ہیں۔