Tag: مائی بھاگی

  • مائی بھاگی: لوک گلوکارہ کا تذکرہ

    کسی بھی خطّے اور علاقہ کی قدیم روایات اور مخصوص ثقافت کو مقامی گلوکار ہمیشہ سے لوک گیتوں کے ذریعے آگے بڑھانے کا ذریعہ بنے ہیں یہ لوک گیت کسی علاقہ کے لوگوں کے جذبات کا فطری اور براہ راست اظہار ہوتا ہے جو عوام کے ذہنوں میں محفوظ ایک بڑا سرمایہ ہوتا ہے۔ بیسویں صدی کے اواخر میں آنکھ کھولنے والی ایک نسل کی سماعتوں میں‌ آج بھی یہ گیت تازہ ہے جس کے بول تھے، ’’کھڑی نیم کے نیچے…‘‘ مائی بھاگی کی آواز میں‌ ہر اُس فرد نے یہ گیت سنا جو اس کی بولی سے بھی ناواقف تھا۔

    لوک گلوکارہ مائی بھاگی کی آواز کا لوچ، ترنم اور گیت کے بولوں کے مطابق مسرّت کی چہکار یا درد انگیزی ایسی ہوتی کہ سماعتیں اس کی دیوانی ہو جاتی تھیں۔ آج مائی بھاگی کی برسی ہے۔

    مائی بھاگی کا تعلق صحرائے تھر کے شہر ڈیپلو سے تھا جہاں وہ 1920ء میں پیدا ہوئیں تاہم ان کے سنہ پیدائش میں اختلاف ہے۔ والدین نے بھاگ بھری نام رکھا۔ ان کے والد اپنے شہر اور گرد و نواح میں شادی بیاہ، میلوں اور غم کی تقریبات میں‌ سہرے گاتے اور نوحے پڑھتے جو ان کی روزی روٹی کا وسیلہ تھا۔ انھوں نے اپنی بیٹی کو آٹھ دس سال کی عمر ہی سے اپنے ساتھ ان تقریبات میں لے جانا شروع کر دیا تھا۔ جہاں وہ ڈھول بجا کر اپنے باپ کا ساتھ دیتیں‌۔ کچھ وقت گزرا تو مائی بھاگی نے گانا بھی شروع کردیا۔ لوک گیتوں کو گانے کی تربیت ان کے والد نے کی تھی۔

    مائی بھاگی بڑی ہوئیں تو انھیں اپنے گاؤں اور قریبی علاقوں میں‌ تقریبات اور خوشی و غم کے مواقع پر گانے کی اجازت مل گئی۔ مائی بھاگی اَن پڑھ اور شہری زندگی کے طور طریقوں سے ناواقف ضرور تھیں، لیکن خداداد صلاحیتوں کی مالک اس لوک گلوکارہ کو غربت، اور دیہی زندگی کے مسائل نے حالات کا سامنا کرنا اور اعتماد سے جینا ضرور سکھا دیا تھا۔ مائی بھاگی اپنے فن کا مظاہرہ کرتی رہیں اور روزی روٹی کمانے کی سعی جاری رکھی۔ وہ وقت بھی آیا جب وہ اپنی آواز اور فنِ گائیکی کے سبب ملک گیر بلکہ برصغیر میں‌ جہاں‌ جہاں‌ لوک موسیقی سنی جاتی تھی، وہاں بھی مشہور ہوئیں۔ سادہ دل اور منکسرالمزاج مائی بھاگی نے لوگوں‌ کے دلوں میں‌ جگہ پائی۔ انھیں بہت عزّت اور احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ ان کی شادی ہوتھی فقیر سے اس وقت ہوئی جب مائی بھاگی کی عمر سولہ سال تھی۔ ہوتھی فقیر بھی تھرپارکر کے ضلع اسلام کوٹ سے تعلق رکھنے والے لوک فن کار تھے۔

    مائی بھاگی اپنے گیتوں کی موسیقی اور دھنیں بھی خود مرتب کرتی تھیں۔ انھوں نے ڈھاٹکی، مارواڑی اور سندھی زبانوں میں گیت گائے۔ مائی بھاگی کو 1963 میں اس وقت بڑی کام یابی نصیب ہوئی جب وہ اپنے والد کے ساتھ ماروی کے میلے میں موجود تھیں جہاں‌ کئی قابلِ ذکر اور بڑی شخصیات نے ان کو سنا اور ان سے متأثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ اس میلے میں ریڈیو پاکستان حیدرآباد مرکز سے وابستہ آرٹسٹ اور عملہ بھی موجود تھا جس نے مائی بھاگی کی آواز ریکارڈ کی اور بعد میں ریڈیو پر ان کا ٹیپ نشر کر دیا۔ یوں‌ مائی بھاگی کی شہرت ہر طرف پھیل گئی۔ ریڈیو کے سامعین مائی بھاگی کے گیت سننے کی فرمائش کرنے لگے اور تب 1966 میں اس لوک گلوکارہ سے رابطہ کرکے ان کی آواز میں چند گیت ریڈیو پاکستان کے لیے ریکارڈ کیے گئے اور بعد میں مائی بھاگی ٹیلی ویژن پر بھی نظر آئیں۔

    صحرائے تھر کی اس گلوکارہ کو کراچی میں پی ٹی وی کے پروگرام میں‌ پہلی مرتبہ لوگوں نے دیکھا اور یوں ان کا سفر آگے بڑھتا رہا۔ مائی بھاگی نے ریڈیو اور ٹی وی کے لیے درجنوں گیت ریکارڈ کروائے اور ان کے انٹرویو بھی نشریات کا حصّہ بنے-

    9 جولائی 1986 میں مائی بھاگی کو فریضۂ حج کی ادائیگی کے لیے حجازِ مقدس روانہ ہونا تھا، مگر دستِ اجل نے انھیں مہلت نہ دی اور 7 جولائی کو مائی بھاگی سفرِ آخرت پر روانہ ہوگئیں۔ لوک گلوکارہ کو حکومت نے تمغائے حسنِ کارکردگی سے نوازا تھا۔

  • مائی بھاگی: لوک گائیکی کا ایک بڑا نام

    مائی بھاگی: لوک گائیکی کا ایک بڑا نام

    آج کے دن مائی بھاگی اس دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔ لوک گلوکارہ نے پاکستان ہی نہیں بیرونِ ملک بھی اپنے مخصوص انداز اور طرزِ گائیکی کے سبب لوگوں کو اپنا مداح بنا لیا تھا۔

    بیسویں صدی کے اواخر میں آنکھ کھولنے والی ایک نسل کی سماعتوں میں‌ آج بھی یہ گیت تازہ ہے جس کے بول تھے، ’’کھڑی نیم کے نیچے…‘‘ بلکہ ہر اُس فرد نے یہ گیت سنا جو گیت کی بولی سے ناواقف تھا، وہ بھی مائی بھاگی کی آواز کے سحر میں‌ گرفتار ہوا۔ لوک گلوکارہ مائی بھاگی کی آواز کا لوچ، ترنم اور گیت کے بولوں کے مطابق مسرّت کی چہکار یا درد انگیزی ایسی ہوتی کہ سماعتیں اس کی دیوانی ہوجاتی تھیں۔ آج مائی بھاگی کی برسی ہے۔

    مائی بھاگی نے صحرائے تھر کے شہر ڈیپلو میں لگ بھگ 1920ء میں آنکھ کھولی۔ والدین نے بھاگ بھری نام رکھا۔ ان کے والد اپنے شہر اور گرد و نواح میں شادی بیاہ، میلوں اور غم کی تقریبات میں‌ سہرے گاتے اور نوحے پڑھتے جو ان کی روزی روٹی کا وسیلہ تھا۔ انھوں نے اپنی بیٹی کو آٹھ دس سال کی عمر ہی سے اپنے ساتھ ان تقریبات میں لے جانا شروع کر دیا تھا۔جہاں وہ ڈھول بجا کر اپنے باپ کا ساتھ دیتیں‌۔ کچھ وقت گزرا تو مائی بھاگی نے گانا بھی شروع کردیا۔ لوک گیتوں کو گانے کی تربیت ان کے والد نے کی تھی۔

    مائی بھاگی بڑی ہوئیں تو والدین کی اجازت سے اپنے گاؤں اور قریبی علاقوں میں‌ تقریبات اور خوشی و غم کے مواقع پر گانے کے لیے جانے لگیں۔ وہ اَن پڑھ اور شہری زندگی کے طور طریقوں سے ناواقف ضرور تھیں، لیکن خداداد صلاحیتوں کی مالک مائی بھاگی کو غربت، اور دیہی زندگی کے مسائل نے حالات کا مقابلہ کرنا اور اعتماد سے جینا ضرور سکھا دیا تھا۔

    مائی بھاگی نے نہ صرف اپنی آواز اور اپنے فنِ گائیکی کے سبب ملک گیر شہرت حاصل کی بلکہ برصغیر میں‌ جہاں‌ جہاں‌ لوک موسیقی شوق سے سنی جاتی تھی، مائی بھاگی کا فن بھی وہاں‌ تک پہنچا اور انھیں‌ سراہا گیا۔ سادہ دل اور منکسرالمزاج مائی بھاگی نے لوگوں‌ کے دلوں میں‌ جگہ پائی۔ انھیں بہت عزّت اور احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ ان کی شادی ہوتھی فقیر سے اس وقت ہوئی جب مائی بھاگی کی عمر سولہ سال تھی۔ ہوتھی فقیر بھی تھرپارکر کے ضلع اسلام کوٹ سے تعلق رکھنے والے لوک فن کار تھے۔

    مائی بھاگی اپنے گیتوں کی موسیقی اور دھنیں بھی خود مرتب کرتی تھیں۔ انھوں نے ڈھاٹکی، مارواڑی اور سندھی زبانوں میں گیت گائے۔ مائی بھاگی کو 1963 میں اس وقت بڑی کام یابی نصیب ہوئی جب وہ اپنے والد کے ساتھ ماروی کے میلے میں موجود تھیں جہاں‌ کئی قابلِ ذکر اور بڑی شخصیات نے ان کو سنا اور ان سے متأثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ اس میلے میں ریڈیو پاکستان حیدرآباد مرکز سے وابستہ آرٹسٹ اور عملہ بھی موجود تھا جس نے مائی بھاگی کی آواز ریکارڈ کی اور بعد میں ریڈیو پر ان کا ٹیپ نشر کر دیا۔ یوں‌ مائی بھاگی کی شہرت ہر طرف پھیل گئی۔ ریڈیو کے سامعین مائی بھاگی کے گیت سننے کی فرمائش کرنے لگے اور تب 1966 میں اس لوک گلوکارہ سے رابطہ کرکے ان کی آواز میں چند گیت ریڈیو پاکستان کے لیے ریکارڈ کیے گئے اور بعد میں مائی بھاگی ٹیلی ویژن پر بھی نظر آئیں۔

    صحرائے تھر کی اس گلوکارہ کو کراچی میں پی ٹی وی کے پروگرام میں‌ پہلی مرتبہ لوگوں نے دیکھا اور یوں ان کا سفر آگے بڑھتا رہا۔ مائی بھاگی نے ریڈیو اور ٹی وی کے لیے درجنوں گیت ریکارڈ کروائے اور ان کے انٹرویو بھی نشریات کا حصّہ بنے-

    9 جولائی 1986 کو مائی بھاگی کو فریضۂ حج کی ادائیگی کے لیے حجازِ مقدس روانہ ہونا تھا، مگر دستِ اجل میں‌ ان کی موت کا جو پروانہ موجود تھا، اس پر تاریخ 7 جولائی تھی۔ مائی بھاگی حج کے لیے نہیں‌ جاسکیں اور سفرِ آخرت پر روانہ ہوگئیں۔ لوک گلوکارہ کو تمغائے حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا تھا۔

  • مشہور لوک گلوکارہ مائی بھاگی کا تذکرہ

    مشہور لوک گلوکارہ مائی بھاگی کا تذکرہ

    بیسویں صدی کے اواخر میں آنکھ کھولنے والی ایک نسل کی سماعتوں میں‌ آج بھی یہ گیت تازہ ہے جس کے بول تھے، ’’کھڑی نیم کے نیچے…‘‘ بلکہ ہر اُس فرد نے یہ گیت سنا جو گیت کی بولی سے ناواقف تھا، وہ بھی مائی بھاگی کی آواز کے سحر میں‌ گرفتار ہوا۔

    لوک گلوکارہ مائی بھاگی کی آواز کا لوچ، ترنم اور گیت کے بولوں کے مطابق مسرّت کی چہکار یا درد انگیزی ایسی ہوتی کہ سماعتیں اس کی دیوانی ہوجاتی تھیں۔ آج مائی بھاگی کی برسی ہے۔

    مائی بھاگی نے صحرائے تھر کے شہر ڈیپلو میں لگ بھگ 1920ء میں آنکھ کھولی۔ والدین نے بھاگ بھری نام رکھا۔ ان کے والد اپنے شہر اور گرد و نواح میں شادی بیاہ، میلوں اور غم کی تقریبات میں‌ سہرے گاتے اور نوحے پڑھتے جو ان کی روزی روٹی کا وسیلہ تھا۔ انھوں نے اپنی بیٹی کو آٹھ دس سال کی عمر ہی سے اپنے ساتھ ان تقریبات میں لے جانا شروع کر دیا تھا۔جہاں وہ ڈھول بجا کر اپنے باپ کا ساتھ دیتیں‌۔ کچھ وقت گزرا تو مائی بھاگی نے گانا بھی شروع کردیا۔ لوک گیتوں کو گانے کی تربیت ان کے والد نے کی تھی۔

    مائی بھاگی بڑی ہوئیں تو والدین کی اجازت سے اپنے گاؤں اور قریبی علاقوں میں‌ تقریبات اور خوشی و غم کے مواقع پر گانے کے لیے جانے لگیں۔ وہ اَن پڑھ اور شہری زندگی کے طور طریقوں سے ناواقف ضرور تھیں، لیکن خداداد صلاحیتوں کی مالک مائی بھاگی کو غربت، اور دیہی زندگی کے مسائل نے حالات کا مقابلہ کرنا اور اعتماد سے جینا ضرور سکھا دیا تھا۔

    مائی بھاگی نے نہ صرف اپنی آواز اور اپنے فنِ گائیکی کے سبب ملک گیر شہرت حاصل کی بلکہ برصغیر میں‌ جہاں‌ جہاں‌ لوک موسیقی شوق سے سنی جاتی تھی، مائی بھاگی کا فن بھی وہاں‌ تک پہنچا اور انھیں‌ سراہا گیا۔ سادہ دل اور منکسرالمزاج مائی بھاگی نے لوگوں‌ کے دلوں میں‌ جگہ پائی۔ انھیں بہت عزّت اور احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ ان کی شادی ہوتھی فقیر سے اس وقت ہوئی جب مائی بھاگی کی عمر سولہ سال تھی۔ ہوتھی فقیر بھی تھرپارکر کے ضلع اسلام کوٹ سے تعلق رکھنے والے لوک فن کار تھے۔

    مائی بھاگی اپنے گیتوں کی موسیقی اور دھنیں بھی خود مرتب کرتی تھیں۔ انھوں نے ڈھاٹکی، مارواڑی اور سندھی زبانوں میں گیت گائے۔ مائی بھاگی کو 1963 میں اس وقت بڑی کام یابی نصیب ہوئی جب وہ اپنے والد کے ساتھ ماروی کے میلے میں موجود تھیں جہاں‌ کئی قابلِ ذکر اور بڑی شخصیات نے ان کو سنا اور ان سے متأثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ اس میلے میں ریڈیو پاکستان حیدرآباد مرکز سے وابستہ آرٹسٹ اور عملہ بھی موجود تھا جس نے مائی بھاگی کی آواز ریکارڈ کی اور بعد میں ریڈیو پر ان کا ٹیپ نشر کر دیا۔ یوں‌ مائی بھاگی کی شہرت ہر طرف پھیل گئی۔ ریڈیو کے سامعین مائی بھاگی کے گیت سننے کی فرمائش کرنے لگے اور تب 1966 میں اس لوک گلوکارہ سے رابطہ کرکے ان کی آواز میں چند گیت ریڈیو پاکستان کے لیے ریکارڈ کیے گئے اور بعد میں مائی بھاگی ٹیلی ویژن پر بھی نظر آئیں۔

    صحرائے تھر کی اس گلوکارہ کو کراچی میں پی ٹی وی کے پروگرام میں‌ پہلی مرتبہ لوگوں نے دیکھا اور یوں ان کا سفر آگے بڑھتا رہا۔ مائی بھاگی نے ریڈیو اور ٹی وی کے لیے درجنوں گیت ریکارڈ کروائے اور ان کے انٹرویو بھی نشریات کا حصّہ بنے-

    9 جولائی 1986 میں مائی بھاگی کو فریضۂ حج کی ادائیگی کے لیے حجازِ مقدس روانہ ہونا تھا، مگر دستِ اجل نے انھیں مہلت نہ دی اور 7 جولائی کو مائی بھاگی سفرِ آخرت پر روانہ ہوگئیں۔ لوک گلوکارہ کو حکومت نے تمغائے حسنِ کارکردگی سے نوازا تھا۔

  • لوک گلوکارہ مائی بھاگی کا تذکرہ جنھیں‌ تھر کی کوئل بھی کہا جاتا ہے

    لوک گلوکارہ مائی بھاگی کا تذکرہ جنھیں‌ تھر کی کوئل بھی کہا جاتا ہے

    ’’کھڑی نیم کے نیچے…‘‘ وہ گیت تھا جسے تھر کی کوئل مائی بھاگی کی آواز میں ہر اس شخص نے بھی سنا جو معنی و مفہوم سے ناآشنا اور اس زبان سے ناواقف تھا۔ مائی بھاگی کی آواز کا لوچ، ترنم اور گیت کے بولوں کے مطابق مسرت کی چہکار یا درد انگیزی ایسی ہوتی کہ سننے والے اس کے سحر میں کھو جاتے تھے۔ آج مائی بھاگی کی برسی منائی جارہی ہے۔

    مائی بھاگی نے صحرائے تھر کے شہر ڈیپلو میں 1920 کے لگ بھگ آنکھ کھولی تھی۔ والدین نے بھاگ بھری نام رکھا۔ ان کے والد مقامی رسم و رواج کے مطابق شادی بیاہ، میلوں اور غم کی تقریبات میں‌ سہرے اور نوحے گاتے اور اس سے روزی روٹی کا بندوبست کرتے تھے۔ وہ اپنی بیٹی کو آٹھ دس سال کی عمر ہی سے اپنے ساتھ میلوں اور شادی بیاہ کی تقریبات میں لے جانے لگے جہاں مائی بھاگی ان کے ساتھ ڈھول بجا لیتی تھیں اور پھر فنِ گلوکاری کی طرف مائل ہوئیں جس کی تربیت اور تعلیم بھی والدین سے حاصل کی۔

    وہ بڑی ہوئیں تو والد کی اجازت سے گاؤں اور قریبی علاقوں میں‌ تقریبات پر لوک گیت اور سہرے گانے کے لیے جانے لگیں۔ تھر کی مائی بھاگی ناخواندہ اور شہری زندگی کے طور طریقوں سے ناآشنا تھیں، لیکن خداداد صلاحیتوں کی مالک مائی بھاگی نے نہ صرف ملک گیر شہرت حاصل کی بلکہ برصغیر میں‌ جہاں‌ جہاں‌ لوک موسیقی سے محبت کرنے اور اسے سمجھنے والے موجود ہیں، مائی بھاگی کو سنا اور سراہا گیا۔ وہ اپنی سادہ دلی اور انکساری کی وجہ سے بھی لوگوں‌ کے دلوں میں‌ جگہ پاتی تھیں‌ اور انھیں بہت عزّت اور احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ سولہ برس کی عمر میں ان کی شادی ہوتھی فقیر سے ہوگئی تھی جو تھرپارکر کے ضلع اسلام کوٹ کے مشہور لوک فن کار تھے۔

    مائی بھاگی نے جلد ہی اپنے گیتوں کی موسیقی اور دھنیں بھی خود مرتب کرنا شروع کردی تھیں۔ انھوں نے ڈھاٹکی، مارواڑی اور سندھی زبانوں کے گیتوں کو اپنی آواز دی۔ مائی بھاگی نے تھر کے ایک اور مشہور گلوکار استاد مراد فقیر کے ساتھ بھی سرائیکی، مارواڑی، سندھی زبانوں‌ کے لوک گیت گائے۔

    ان کی قسمت کا ستارہ 1963 میں اس وقت چمکا جب انھوں نے اپنے والد کے ساتھ ماروی کے میلے میں کئی قابلِ ذکر اور بڑی شخصیات کے درمیان اپنی آواز کا جادو جگایا اور تھر کی اس آواز نے حاضرین کو مسحور کر دیا۔ وہاں ریڈیو پاکستان حیدرآباد سینٹر کی ٹیم بھی موجود تھی جس نے مائی بھاگی کی آواز کو ریکارڈ کرلیا اور بعد میں جب ریڈیو پر سامعین نے انھیں سنا تو مائی بھاگی کی شہرت ہر طرف پھیل گئی۔ تب 1966 میں ریڈیو پاکستان کے لیے مائی بھاگی کی آواز میں چند لوک گیت ریکارڈ کروائے گئے اور وہ ملک گیر شہرت یافتہ گلوکاروں کی صف میں‌ آ کھڑی ہوئیں۔

    مائی بھاگی نے جب شاہ کار لوک گیت ’’کھڑی نیم کے نیچے…..‘‘ گایا تو ہر طرف ان کی دھوم مچ گئی۔ بعد میں ریڈیو پر ان کے متعدد گیت نشر ہوئے اور جلد ہی صحرا کی یہ گلوکارہ کراچی میں پی ٹی وی پر نظر آئی۔ پہلی مرتبہ لوگوں نے مائی بھاگی کو اسکرین پر دیکھا۔ ریڈیو اور ٹی وی کے لیے درجنوں گیت گانے والی مائی بھاگی کو سندھ میں ہونے والی مختلف موسیقی کی محفلوں اور شادی بیاہ کی تقریبات میں بھی مدعو کیا جاتا تھا اور وہ عام لوگوں‌ میں بھی خاصی مقبول تھیں-

    9 جولائی 1986 کو مائی بھاگی فریضۂ حج کی ادائیگی کے لیے حجاز کو روانہ ہونے والی تھیں، مگر 7 جولائی کو ان کی سانسوں کی مالا ہی ٹوٹ گئی اور انھیں دوسروں کے کاندھے پر اپنی آخری آرام گاہ کا سفر طے کرنا پڑا۔

    حکومتِ پاکستان نے مائی بھاگی کو تمغۂ حسنِ کارکردگی سے نوازا تھا۔

  • مائی بھاگی: صحرائے تھر کی لوک گلوکارہ کو مداحوں سے بچھڑے 35 برس بیت گئے

    مائی بھاگی: صحرائے تھر کی لوک گلوکارہ کو مداحوں سے بچھڑے 35 برس بیت گئے

    تھر میں گویا زندگی لوٹ آئی ہے، چھاجوں پانی برسا ہے اور یہ تو آغاز ہے۔ تھر کے باسی خوشی سے نہال ہیں، مگر 35 سال کے دوران جب بھی ساون کی رُت نے صحرا کو گھیرا، بادل گرجے اور چھما چھم برسے تھر اور اس کے باسیوں نے شدّت سے مائی بھاگی کی آواز میں‌ خوشی کے گیتوں کی کمی بھی محسوس کی ہے۔

    کون ہے جس نے صوبۂ سندھ کی اس گلوکار کا نام اور یہ گیت ”کھڑی نیم کے نیچے“ نہ سنا ہو؟ آج مائی بھاگی کی برسی ہے جن کی آواز کے سحر میں‌ خود صحرائے تھر بھی گرفتار رہا۔ وہ اسی صحرا کے شہر ڈیپلو میں پیدا ہوئی تھیں۔ والدین نے ان کا نام ’’بھاگ بھری‘‘ رکھا۔

    بھاگ بھری نے شادی بیاہ کی تقریبات اور خوشی کے مواقع پر لوک گیت گانے کا سلسلہ شروع کیا تو لوگوں نے انھیں‌ بہت پسند کیا۔ وہ گاؤں گاؤں پہچانی گئیں اور پھر ان کی شہرت کو گویا پَر لگ گئے۔

    7 جولائی 1986ء کو وفات پاجانے والی مائی بھاگی کی تاریخِ پیدائش کا کسی کو علم نہیں‌۔ انھوں نے اپنی والدہ سے گلوکاری سیکھی اور مشہور ہے کہ وہ اپنے گیتوں کی موسیقی اور دھن خود مرتّب کرتی تھیں۔

    مائی بھاگی کو تھر کی کوئل کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے جن کے گائے ہوئے گیت آج بھی کانوں میں رَس گھولتے ہیں۔

    مائی بھاگی کے فنِ گائیکی اور ان کی آواز نے انھیں‌ ریڈیو اور بعد میں‌ ٹیلی ویژن تک رسائی دی۔ انھوں نے تھر کی ثقافت اور لوک گیتوں کو ملک میں ہی نہیں بلکہ بیرونِ ممالک میں بھی اُجاگر کیا۔ مائی بھاگی کی آواز میں‌ ان لوک گیتوں کو سماعت کرنے والوں میں وہ بھی شامل تھے، جو تھری زبان سے ناواقف تھے۔

    1981ء میں حکومتِ پاکستان کی طرف سے انھیں‌ تمغہ حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا تھا۔ ریڈیو پاکستان نے مائی بھاگی کو شاہ عبداللطیف بھٹائی ایوارڈ، قلندر لعل شہباز اور سچل سرمست ایوارڈ سمیت درجنوں اعزازات اور انعامات دیے اور ملک بھر میں انھیں‌ پہچان اور عزّت ملی۔