Tag: ماتا ہری

  • ماتا ہری: نیم عریاں رقص سے شہرت پانے والی ‘ڈبل ایجنٹ’

    ماتا ہری: نیم عریاں رقص سے شہرت پانے والی ‘ڈبل ایجنٹ’

    ماتا ہری کو ایک صدی پہلے آج ہی کے دن فائرنگ اسکواڈ نے عدالت کے حکم پر موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ ماتا ہری کو یورپ کے کئی ممالک میں نہایت اثر و رسوخ کی حامل ایسی عورت کہا جاتا ہے جس نے وہاں کی حکومتوں کو اپنے قدموں پر جھکا رکھا تھا۔

    جاسوسی کی تاریخ میں شاید اب تک سب سے مشہور ‘ہنی ٹریپ’ جاسوس ماتا ہری کو بتایا جاتا ہے جسے پہلی جنگِ عظیم کے بعد بہت شہرت ملی۔ 15 اکتوبر 1917 کی ایک صبح سلیٹی رنگ کی فوجی گاڑی میں ماتا ہری کو پیرس کی مرکزی جیل سے نکال کر اُس مقام پر پہنچایا گیا جہاں اس کی سزائے موت پر عمل درآمد کیا جانا تھا۔ 41 سالہ ولندیزی خاتون ماتا ہری نے ایک لمبا کوٹ اور اپنے سَر پر چوڑا ہیٹ پہن رکھا تھا۔

    ماتا ہری شعلہ جوالہ اور رقص میں بے بدل تھی جس کے چاہنے والوں میں مختلف ممالک کے وزیر، صنعت کار اور فوجی جنرل تک شامل تھے۔ لیکن پھر پہلی جنگِ عظیم چھڑ گئی اور ماتا ہری کو ایک جاسوسہ کے طور پر وہ کام کرنا پڑا جس نے اسے موت کی دہلیز پر پہنچا دیا۔ اُس زمانے میں حکومتیں بھاری معاوضے اور مراعات کا لالچ دے کر جاسوسی کے لیے ایسی شخصیات کو آمادہ کرنے کی کوشش کرتی تھیں جو دشمن ملک کے مقتدر حلقوں میں مقبول ہوں اور اثر و رسوخ کی حامل بھی۔

    ماتا ہری ایک بے باک عورت تھی جو رقص میں‌ مہارت رکھتی تھی اور اپنے دور میں سلیبرٹی بن چکی تھی۔ حسین و جمیل ماتا ہری کو رجھانے کا فن آتا تھا اور اس کے نیم عریاں رقص نے فرانس میں اسے سیاست دانوں اور اشرافیہ کے قریب کردیا تھا۔ دولت اور ہر قسم کی آسائش اس کے قدموں میں تھی۔ لیکن پہلی جنگِ عظیم کے دوران وہ جاسوسی کرنے پر مجبور کردی گئی اور اسے ڈبل ایجنٹ بن کر کام کرنا پڑا۔ گرفتاری کے بعد مقدمہ کا سامنا کرنے والی ماتا ہری پر ‘الزامات’ ثابت ہوگئے اور عدالت نے اسے موت کی سزا سنائی۔ مشہور ہے کہ ماتا ہری نے سزا پر عمل درآمد کرنے والے فائرنگ اسکواڈ کو اپنی آنکھوں پر پٹی باندھنے سے منع کردیا تھا۔

    ماتا ہری کا اصل نام مارگریٹ زیلے تھا جو نیدر لینڈ کے شہر لیووارڈن میں‌ پیدا ہوئی۔ مخلوط النسل زیلے کا سنہ پیدائش 1876ء ہے جس نے ماتا ہری کے نام سے شہرت پائی۔ اس نے یہ نام انڈونیشیا میں قیام کے دوران اپنایا تھا جہاں وہ کم عمری میں شادی کے بعد اپنے شوہر کے ساتھ مقیم تھی۔ ماتا ہری کی شادی زیادہ عرصہ نہ چل سکی اور رشتہ ختم ہونے کے بعد وہ فرانس چلی گئی تھی اور پھر پیرس میں بطورِ رقاصہ وہ سب کو اپنی اداؤں سے زیر کرنے میں‌ کام یاب ہوگئی۔

    مارگریٹ زیلے ایک ولندیزی تاجر کی بیٹی تھی، جس نے ایک فوجی افسر سے اس کی شادی کر دی لیکن 26 سال کی عمر میں‌ ماتا ہری رشتہ ختم کرکے واپس پیرس پہنچ گئی۔ وہ رقص کی ماہر تھی اور وہاں ایک کلب میں نیم عریاں رقص کا مظاہرہ کرنے لگی۔ جلد ہی ماتا ہری اپنے حسن و جمال اور نیم عریاں رقص کی بدولت یورپ بھر میں مشہور ہوگئی۔ اس نے خوب دولت کمائی، لیکن چند سال بعد نجانے کیوں اس کی کشش ماند پڑ گئی۔ ماتا ہری جو مال و دولت اور آسائش کی عادی ہوچکی تھی، لیکن اب اس کے چاہنے والے اس سے دور ہورہے تھے اور وہ مقروض ہوتی چلی گئی۔ زندگی کے اسی موڑ پر ماتا ہری نے جاسوسہ بننے کا فیصلہ کیا۔

    فرانس کے مقتدر حلقوں میں ماتا ہری کے اثر و رسوخ سے فائدہ اٹھانے کے لیے ایک جرمن سفارت کار نے رابطہ کیا اور ماتا ہری کو پرکشش معاوضے پر فرانسیسی حکومت کے اہم راز اسے دینے پر آمادہ کر لیا۔ ماتا ہری کو پیسے سے غرض تھی۔ وہ اپنی اداؤں اور تمام حشر سامانیوں کے ساتھ آسانی سے فرانس کے اعلیٰ حکام اور فوج کے افسران تک رسائی حاصل کرسکتی تھی۔ اس نے ایسا ہی کیا۔

    ابتدائی کام یابیوں نے ماتا ہری کو حوصلہ دیا اور تب اس رقاص جاسوسہ نے فرانسیسی خفیہ ایجنسیوں سے بھی رقم بٹورنے کا فیصلہ کیا۔ وہ ان کے سامنے فرانس کی محب وطن اور خیر خواہ بن گئی اور خود کو جاسوسی کے کام کے لیے پیش کر دیا۔ دوسری طرف فرانسیسی حکام کو پہلے ہی اس پر شبہ تھا اور پھر یہ حقیقیت زیادہ دیر چھپ نہ سکی کہ وہ ڈبل ایجنٹ ہے اور جرمنی کے لیے بھی کام کر رہی ہے۔ فرانس کی جانب سے اسے آزمانے کے لیے متعدد خفیہ مشن سونپے گئے اور ساتھ ہی اس کی کڑی نگرانی بھی کی جانے لگی۔ ایک دن ماتا ہری کو گرفتار کر لیا گیا اور وہ موت کے گھاٹ اتار دی گئی۔

    یہ وہ کہانی ہے جو اس وقت فرانس کی حکومت اور گزشتہ ایک صدی کے دوران جنگوں اور اتحادی افواج کی تاریخ پر مبنی کتب میں رقم کی جاتی رہی ہے، لیکن چند سال پہلے کچھ حقائق کی بنیاد پر کہا گیا کہ ماتا ہری ڈبل ایجنٹ تھی جسے قربانی کا بکرا بنایا گیا۔ اس زمانے کے اخبار مرچ مسالہ لگا کر اپنی رپورٹو‌ں میں بتاتے رہے کہ ماتا ہری اتحادی فوج کے افسروں کو لبھا کر ان سے راز اگلواتی اور جرمن فوج کے حوالے کر دیتی تھی جس کی وجہ سے ہزاروں اتحادی فوجی مارے گئے۔ لیکن ایک صدی بعد فرانسیسی وزارتِ دفاع نے کچھ ایسی دستاویزات جاری کی تھیں جن سے دنیا کی تاریخ کی اس مشہور جاسوسہ کے بارے میں نئے انکشافات ہوئے۔ ان میں ماتا ہری سے تفتیش کی دستاویزات بھی شامل ہیں جو اب نیدرلینڈز میں ماتا ہری کے آبائی شہر کے ایک میوزیم میں محفوظ ہیں۔ بی بی سی پر اس حوالے سے شایع شدہ ایک مضمون کے مطابق گذشتہ برسوں میں کئی تاریخ دان اس جاسوسہ کے دفاع میں سامنے آئے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ ماتا ہری کو اس لیے قربان کر دیا گیا کہ فرانسیسی حکومت کو جنگ میں پے در پے ناکامیوں کا جواز پیدا کرنا تھا۔ اس حوالے سے ایک خط کا بھی ذکر کیا جاتا ہے لیکن حقائق وقت کی دھند میں لپٹے ہوئے ہیں اور چوںکہ یہ جاسوسی اور اتحادی افواج سے متعلق سرگرمیوں اور خفیہ مشن کا معاملہ تھا تو ماتا ہری کی گرفتاری کے بعد کچھ حقائق اور اہم باتیں پوشیدہ ہی رکھی گئیں اور ان کا تحریری یا زبانی کسی کو علم نہیں ہوسکا۔

    ماتا ہری کو پیرس کے مشرقی مضافات میں واقع شیتو دے ونسین میں فائرنگ اسکواڈ نے گولیاں ماری تھیں‌۔ وہ 12 سپاہی تھے جنھوں نے سزائے موت پر عمل درآمد کیا۔ ماتا ہری کی لاش کسی نے وصول نہیں کی اور اسے پیرس کے ایک میڈیکل کالج کو دے دیا گیا جہاں نے انسان کا پوسٹ مارٹم کرنا سیکھا۔ ماتا ہری کا سَر میوزیم آف اناٹومی میں محفوظ کر دیا گیا تھا لیکن بیس سال قبل وہ چوری ہو گیا۔

  • بے باک رقاصہ اور بہادر جاسوس ماتا ہری کے درد ناک انجام کی کہانی

    بے باک رقاصہ اور بہادر جاسوس ماتا ہری کے درد ناک انجام کی کہانی

    کہتے‌ ہیں ماتا ہری نے ایک زمانے میں یورپ کے دارالحکومتوں کو اپنے قدموں پر جھکا رکھا تھا۔ کیا وزیر، مشیر، امرا و صنعت کار اور جنرل سبھی اس کے دیوانے تھے۔ وہ رقص میں بے بدل اور اپنے زمانے کی سلیبرٹی تھی۔

    حسین و جمیل ماتا ہری کو رجھانے کا فن آتا تھا۔ وہ نیم عریاں رقص کے لیے مشہور تھی۔ اس نے سبھی کو اپنی اداؤں سے مار رکھا تھا۔ دولت اور ہر قسم کی آسائش اس کے قدموں میں تھی۔ رقص کی ماہر اور بے باک ماتا ہری کو پہلی جنگِ عظیم کے دوران جاسوسہ اور ڈبل ایجنٹ بن کر کام کرنا پڑا اور یہی اس کی موت کی وجہ بنا۔

    گرفتاری اور ‘الزامات’ ثابت ہونے کے بعد 15 اکتوبر 1917ء کو اس کی موت کی سزا پر عمل کرتے ہوئے شوٹ کردیا گیا۔ مشہور ہے کہ ماتا ہری نے فائرنگ اسکواڈ کو اپنی آنکھوں پر پٹی باندھنے سے منع کردیا تھا۔

    وہ نیدر لینڈز میں کے شہر لیووارڈن میں‌ پیدا ہوئی۔ مخلوط النسل مارگریٹ زیلے کا سنِ پیدائش 1876ء ہے جو ماتا ہری کے نام سے معروف ہے۔ یہ انڈونیشیائی زبان سے آیا ہوا نام تھا جہاں وہ کم عمری میں شادی کے بعد اپنے شوہر کے ساتھ مقیم تھی۔ اس کی یہ شادی زیادہ عرصہ نہ چل سکی اور وہ رشتہ ختم کرکے فرانس چلی گئی۔

    وہ ایک ولندیزی تاجر کی بیٹی تھی، جس نے ایک فوجی افسر سے اسے بیاہ دیا، لیکن 26 سال کی ماتا ہری یہ تعلق توڑ کر پیرس پہنچ گئی۔ وہاں پیٹ بھرنے کے لیے اس نے اپنے حسن اور اداؤں کا سہارا لیا اور ایک کلب میں رقص کرنے لگی۔ جلد ہی اس کے حسن و جمال اور نیم عریاں رقص کا یورپ بھر میں چرچا ہونے لگا۔ اور بعد کے برسوں میں‌ وہ باکمال رقاصہ کہلائی۔ لیکن چند سال بعد اس کی کشش نجانے کیوں ماند پڑ گئی۔ اس دوران اس کے مال و آسائش میں بھی کمی آئی اور وہ مقروض ہوگئی۔ اپنی زندگی کے اسی موڑ پر ماتا ہری نے جاسوسہ بننے کا فیصلہ کیا۔

    ایک جرمن سفارت کار نے اس کو فرانس کے راز جرمن حکومت کو فراہم کرنے پر آمادہ کر لیا تھا۔ ماتا ہری کو پیسے سے غرض تھی۔ وہ اب بھی اپنی حشر سامانیوں کے ساتھ آسانی سے فرانس کے اعلیٰ حکام اور فوج کے افسران تک رسائی حاصل کرسکتی تھی۔

    یہ سلسلہ شروع ہوا تو ماتا ہری نے فرانسیسی خفیہ ایجنسیوں سے بھی رقم بٹورنے کا سوچا اور خود کو جاسوسی کے کام کے لیے پیش کردیا۔ فرانسیسی حکام کو کسی وقت اس پر شبہ ہو چکا تھا کہ وہ جرمنوں کے لیے کام کررہی ہے۔ تاہم اسے متعدد مشن دیے گئے اور ساتھ ہی اس کی نگرانی بھی کی جانے لگی اور ایک دن اسے گرفتار کرلیا گیا۔