Tag: ماحول

  • عوام ماحول دوستی اپنائیں اور ماحول کو بہتر بنائیں: مرتضیٰ وہاب

    عوام ماحول دوستی اپنائیں اور ماحول کو بہتر بنائیں: مرتضیٰ وہاب

    کراچی: عالمی یوم ماحولیات پر مشیر ماحولیات و ساحلی ترقی سندھ مرتضیٰ وہاب کا کہنا ہے کہ گلوبل وارمنگ دراصل گلوبل وارننگ ہے، گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلی کا آسان حل شجر کاری ہے۔

    تفصیلات کے مطابق عالمی یوم ماحولیات پر مشیر ماحولیات و ساحلی ترقی سندھ مرتضیٰ وہاب نے اپنے پیغام میں کہا کہ عوام ماحول دوستی کو اپنائیں اور اسے بہتر بنائیں۔

    مشیر ماحولیات کا کہنا تھا کہ ماحول کی بہتری کے لیے ہر ایک کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، گلوبل وارمنگ دراصل گلوبل وارننگ ہے، گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلی کا آسان حل شجر کاری ہے۔

    مرتضیٰ وہاب کا کہنا تھا کہ درخت گرمی کی شدت کو کم کرتے ہیں اور موسم میں ٹھہراؤ لاتے ہیں، اپنے اور آنے والی نسلوں کے لیے درخت لگائیں اور ماحول بچائیں۔

  • کرونا وائرس سے کہیں زیادہ خطرناک وائرس ہم پر حملہ آور ہوسکتے ہیں!

    کرونا وائرس سے کہیں زیادہ خطرناک وائرس ہم پر حملہ آور ہوسکتے ہیں!

    برلن: ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ہم نے فطرت کی حفاظت نہ کی تو دنیا میں مزید وائرسز سر اٹھائیں گے جو زیادہ تیزی سے پھیلیں گے، زیادہ خطرناک ہوں گے اور زیادہ افراد کو اپنا نشانہ بنائیں گے۔

    جرمنی میں حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ اگر جنگلات اور جنگلی حیات کے دیگر مساکن (ان کے گھروں) کا، پرندوں، جانوروں اور پودوں کی مختلف اقسام کا خیال رکھا جائے تو ہماری دنیا مختلف وباؤں سے محفوظ رہ سکتی ہے۔

    یہ تحقیق جرمن حکومت کے زیر سرپرست ادارے انٹر گورنمنٹل سائنس پالیسی پلیٹ فارم آن بائیو ڈائیورسٹی ایند ایکو سسٹم سروسز کی جانب سے کی گئی ہے۔

    تحقیق میں ماہرین نے انکشاف کیا کہ اس وقت ہماری زمین پر 17 لاکھ کے قریب ایسے غیر دریافت شدہ وائرسز موجود ہوسکتے ہیں جو انسانوں کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ جب ہم جانوروں سے زیادہ تعلق رکھتے ہیں جیسے کہ غیر قانونی تجارت کے لیے ان کا شکار کرنا، ان کی پناہ گاہوں کے قریب جانا، یا پھر جنگلات کو کاٹ کر وہاں نئی تعمیرات بنانا تو ایسے میں ہم ان وائرسز سے قریب آجاتے ہیں نتیجتاً مختلف وباؤں کے پھیلاؤ کا سبب بن سکتے ہیں۔

    اس کی ایک مثال یہی کوویڈ 19 کا کرونا وائرس ہے جو چین کی مچھلی مارکیٹ سے پھیلنا شروع ہوا۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ ان وباؤں سے بچاؤ کے اقدامات، کسی وبا کے پھیل جانے کے بعد اس کی روک تھام کے لیے کیے جانے والے اقدامات سے 100 گنا سستے ہوں گے، تاہم اس کی طرف دنیا کی توجہ کم ہے۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ کرونا وائرس کی وجہ سے صرف جولائی کے مہینے تک عالمی معیشت کو 8.16 ٹریلین (ٹریلین = دس کھرب) کا نقصان ہوچکا ہے، صرف امریکا میں ہونے والے معاشی نقصان کا تخمینہ 16 سو کھرب لگایا گیا ہے۔

    مذکورہ تحقیق نے تحفظ ماحولیات کی اہمیت کو ایک بار پھر واضح کردیا ہے اور اس سلسلے میں ہنگامی اقدامات اٹھانے کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا ہے۔

  • فیس ماسک نگلنے سے معصوم پینگوئن موت کے گھاٹ اتر گیا

    فیس ماسک نگلنے سے معصوم پینگوئن موت کے گھاٹ اتر گیا

    کرونا وائرس کے لاک ڈاؤن کے دوران جب انسانوں نے گھر سے نکلنا بند کردیا تو کچرے اور آلودگی میں بھی کمی واقع ہونے لگی، تاہم اس دوران ضروری قرار دی گئی ایک چیز یعنی فیس ماسک ماحول کے لیے ایک بڑے خطرے کی صورت میں سامنے آرہے ہیں۔

    ایسے ہی غیر ذمہ دارانہ طریقے سے پھینکے گئے ایک فیس ماسک نے ایک معصوم پینگوئن کی جان لے لی جس نے ماسک کو نگل لیا تھا۔

    برازیل کے ساحل پر مردہ پائے گئے اس پینگوئن کا پوسٹ مارٹم کیا گیا تو اس کے جسم میں ایک این 95 فیس ماسک موجود تھا جس نے اس کے پورے معدے کو ڈھانپ لیا تھا۔

    پینگوئن کے مردہ جسم کا ایگزامینیشن کرنے والی ماہر آبی حیات کا کہنا تھا کہ ہمیں اس نوعیت کے حادثات کا خدشہ تھا اور اس حوالے سے ہم نے پہلے ہی دنیا کو آگاہ کردیا تھا۔

    ان کے مطابق یہ واقعہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے پھینکے جانے والے فیس ماسک کس طرح جنگلی و آبی حیات کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور ان کی موت کا سبب بن سکتے ہیں۔

    انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ واقعہ انسانوں کی غیر ذمہ داری کو بھی ظاہر کرتا ہے کہ کس طرح سے اس ماسک کو نامناسب مقام پر پھینکا گیا جو نہ صرف جانوروں بلکہ خود انسانوں کے لیے بھی مضر صحت ہو سکتا ہے۔

    زمین کی جنگلی و آبی حیات کے لیے ایک نہایت بڑا خطرہ پلاسٹک تھا جو کسی طرح زمین میں تلف نہیں ہوتا اور لاکھوں کروڑوں سال تک زمین پر موجود رہ سکتا ہے، یہ پلاسٹک مختلف جانوروں کی موت کا سبب بھی بن رہا تھا۔

    ابھی اس خطرے کا ادراک کرتے ہوئے اس کی روک تھام کے اقدامات کیے جارہے تھے کہ کرونا وائرس کے بعد استعمال شدہ فیس ماسک، دستانے، سینی ٹائزر کی بوتلیں اور دیگر حفاظتی سامان کا کچرا ایک نئے خطرے کی صورت کھڑا ہوگیا۔

    جانوروں کے تحفظ کی تنظیم ڈبلیو ڈبلیو ایف نے جولائی میں وارننگ دی تھی کہ اسپتالوں میں استعمال شدہ حفاظتی لباس یعنی پی پی ای کو غیر محفوظ طریقے سے تلف کرنا ماحول کے لیے نئے خطرات کھڑے کرسکتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ہم کرونا وائرس سے بچاؤ کے حفاظتی سامان کا صرف 1 فیصد بھی غیر ذمہ دارانہ طریقے سے تلف کریں تو ہر ماہ 1 کروڑ فیس ماسک ادھر ادھر پڑے ماحول کو آلودہ اور کچرے و گندگی میں اضافہ کر رہے ہوں گے۔

  • سکھ چین: پاکستان میں‌ پایا جانے والا ایک خوب صورت درخت

    سکھ چین: پاکستان میں‌ پایا جانے والا ایک خوب صورت درخت

    سکھ چین ہماری زبان یا بولی کے دو الفاظ کا مرکب ہے۔

    اسے ایک جملے میں یوں سمجھ لیجیے: ‘‘ہم سب مل جل کر رہنا اور سکھ چین سے زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔’’
    انسان نے اپنی عقل اور فہم کے مطابق، اپنی سہولت اور آسانی دیکھتے ہوئے یا اپنی خواہش، جذبات اور احساسات کے زیرِ اثر دنیا میں موجود بے جان اشیا اور جان داروں کو نام دیے ہیں۔ ہم جس سکھ چین کی بات کررہے ہیں وہ ایک درخت ہے۔

    یہ درخت ایک طرف تو اپنی ٹھنڈی اور گھنی چھاؤں میں ہمیں سستانے کا موقع دیتا ہے اور دوسری جانب یہ ماحول کی بقا اور زمین کی حفاظت میں بھی اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ پاکستان میں یہ درخت جنوبی پنجاب اور سندھ کے ریگستانوں تک نظر آتا ہے۔ اسے ہندوستان اور دیگر علاقوں میں مختلف ناموں سے پہچانا جاتا ہے۔

    کہیں یہ کارنج ہے تو کسی کے لیے پونگ، پونگم اور کوئی اسے ہونگ کے نام سے شناخت کرتا ہے۔ ہمارے یہاں یہ سکھ چین کہلایا جس کی مختلف وجوہ ہیں جس میں سب سے اہم اس درخت کا گھنا اور سایہ دار ہونا ہے۔

    یہ درخت عام طور پر گرم اور مرطوب علاقوں میں پنپتا ہے۔ چین، ملائیشیا اور آسٹریلیا میں بھی سکھ چین پایا جاتا ہے۔ نباتات کے مطاہرین کے مطابق یہ پندرہ اور پچیس میٹر تک اونچا ہوسکتا ہے۔ عموماً اس کا پودا ہر قسم کی زمین میں جڑیں پکڑ لیتا ہے جیسے ریتیلی، چٹانی اور اس جگہ بھی جہاں زمین میں چونا پایا جاتا ہے۔

    سکھ چین ہماری زمین اور ماحول کی بھی حفاظت کرتا ہے۔ اس کی گھنی جڑیں مٹی کا کٹاؤ روکتی ہیں اور ریت کے ٹیلوں کو مستحکم کرنے میں اسے مثالی قرار دیا جاتا ہے۔

  • "یہ سیارہ ہمارا اپنا ہے”: 16 سالہ طالبہ کی اپیل پر دنیا بھر میں مظاہرے

    "یہ سیارہ ہمارا اپنا ہے”: 16 سالہ طالبہ کی اپیل پر دنیا بھر میں مظاہرے

    لندن: ماحولیاتی بگاڑ کے خلاف دنیا بھر میں‌ مظاہرے جاری ہیں، ان مظاہروں کا محرک ایک سولہ سالا سویڈش طالبہ ہے، جو ماحول کے تحفظ کی توانا ترین آواز بن گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق آج  دنیا کے سو بڑوں شہروں میں ہونے والا  احتجاج بین الاقوامی تحریک ’فرائیڈے فار فیوچر‘ کی اپیل پر کی جارہا ہے۔  اس منفرد تحریک کی بنیاد سویڈن کی ٹین ایجر گریٹا تھون برگ نے رکھی.

    ایمنسٹی انٹرنیشنل کا اعلیٰ ترین اعزاز اپنے نام کرنے والی اس بچی کی جدوجہد اور کہانی ٹائم میگزین کے سرورق کی بھی زینت بن چکی ہے۔

    گریٹا تھون برگ کی شہرت کی ابتدا اگست 2018 میں اسٹاک ہولم میں سویڈش پارلیمان کے باہر  ہر جمعے کو  کیے جانے والے احتجاج سے ہوئی، جو وہ اکیلے کیا کرتی تھی۔

    دھیرے دھیرے لوگ اس تحریک میں شامل ہوتے گئے، کاررواں بنتا گیا اور آج سو سے زاید شہروں میں ماحول کو بچانے کے لیے احتجاج جاری ہے۔ 

    احتجاج کا سلسلہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں ہونے والے مظاہروں سے شروع ہوا، بعد ازاں برطانیہ میں‌ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد بینر اٹھائے سڑکوں پر نکلے.

    یہ مظاہرے ایشیا، یورپ، افریقہ اور امریکی براعظموں کے تمام بڑے شہروں میں کیے جا رہے ہیں۔

    اس مہم کے تحت دنیا کے سو دس سے زائد بڑے شہروں میں مظاہروں کا اہتمام کیا گیا ہے، اس وقت بھی مختلف خطوں میں ریلیاں جاری ہیں۔

  • کراچی کے شہریوں کا فی ہفتہ 5 گرام پلاسٹک کھانے کا انکشاف

    کراچی کے شہریوں کا فی ہفتہ 5 گرام پلاسٹک کھانے کا انکشاف

    کراچی: ایک حالیہ تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ شہرِ قائد کے شہری ایک ہفتے میں 5 گرام پلاسٹک کھاتے ہیں، غذا میں شامل پلاسٹک کے ذرات انسانی زندگی کے لیے جان لیوا بننے لگے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق ڈبلیو ڈبلیو ایف انٹرنیشنل نے پلاسٹک پلوشن کی تازہ تحقیق جاری کر دی ہے، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پلاسٹک کے ذرات انسانی زندگی کے لیے جان لیوا ثابت ہو رہے ہیں۔

    یہ رپورٹ یونی ورسٹی آف نیو کاسل آسٹریلیا کے طلبہ نے عالمی ماحولیات پر تیار کی ہے، رپورٹ کے مطابق کراچی میں پلاسٹک کے بڑھتے ذرات شہریوں کی خوراک کا حصہ بننے لگے ہیں۔

    پلاسٹک کی وجہ سے کراچی کے شہریوں کا غذائی نظام بھی متاثر ہوا ہے، تحقیق کے مطابق ایک ہفتے میں 5 گرام پلاسٹک عام آدمی کی غذا کا حصہ بن رہی ہے، پلاسٹک کی آلودگی سے ہوا، پانی اور مٹی کی کوالٹی بہت متاثر ہے، پلاسٹک کی مقدار مہینے کے اوسطاً 21 گرام اور سال کے 250 گرام کے برابر ہے۔

    ڈبلیو ڈبلیو ایف کا کہنا ہے کہ کلفٹن کے ساحل پر ایک گرام مٹی میں 300 پیس مائیکرو پلاسٹک رپورٹ ہوئے ہیں، تنظیم کے ٹیکنیکل ایڈوائزر معظم خان نے بتایا کہ مائیکرو پلاسٹک سے آبی جانور اور ماحول متاثر ہو رہا ہے۔

    معظم خان نے مزید بتایا کہ ڈبلیو ڈبلیو ایف اس سلسلے میں پاکستان کے 10 شہروں میں آگاہی پروگرام ترتیب دے رہا ہے۔

  • آپ کا فیشن ماحول کے لیے نقصان دہ

    آپ کا فیشن ماحول کے لیے نقصان دہ

    اچھا لباس اور اچھے جوتے پہننا خوش ذوقی کی علامت ہے اور شخصیت کی بہتری میں اہم کردار ادا کرتا ہے، تاہم آپ کی یہ خوش لباسی ماحول کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔

    امریکا میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق ہم ہر سال ایک کھرب کپڑے اور 20 ارب جوتے بنا رہے ہیں۔ یہ تعداد 1980 کی دہائی میں بنائے جانے والے کپڑوں اور جوتوں کی تعداد سے 5 گنا زیادہ ہے۔

    ماہرین کے مطابق آج کا فیشن سوشل میڈیا پر چلتے ٹرینڈز کا مرہون منت ہے جو ہر روز بدلتا ہے۔ اس ٹرینڈ کو اپنانے کے لیے ہم خریداری زیادہ کرتے ہیں، تاہم اس خریداری کو پہنتے کم ہیں۔

    ایک اندازے کے مطابق ایک خاتون کسی لباس کو پھینکنے سے پہلے 7 بار استعمال کرتی ہیں۔

    فیشن کے بدلتے انداز اور ہمارا کپڑوں کو استعمال کرنے کا انداز ماحول کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔ آج جس طرح سے ملبوسات کی صنعتیں دن رات کام کر رہی ہیں وہ ہماری زمین کے کاربن اخراج میں 10 فیصد کی حصہ دار ہیں۔

    اسی طرح آبی آلودگی کا 17 سے 20 فیصد حصہ کپڑا رنگنے اور دیگر ٹیکسٹائل شعبوں سے آتا ہے۔

    کپاس کی فصل ٹیکسٹائل کی صنعت کا اہم ستون ہے اور اس وقت ازبکستان دنیا میں کپاس کی پیدوارا کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ چونکہ کپاس کی فصل کو بہت زیادہ پانی درکار ہے لہٰذا کپاس کی بے تحاشہ فصلوں نے ملک کی ایک بڑی جھیل ارل جھیل کو صرف 2 دہائیوں میں خشک کردیا ہے۔

    ارل جھیل

    ارل جھیل دنیا کی چوتھی بڑی جھیل تھی اور اب یہ تاحد نگاہ مٹی اور ریت سے بھری ہوئی ہے۔ دنیا بھر میں موجود میٹھے پانی کا 2.6 فیصد حصہ صرف کپاس کی پیداوار میں استعمال ہوتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹیکسٹائل صنعت کے ماحول پر ان اثرات کو کم کرنے کے لیے آپ بھی کوشش کرسکتے ہیں۔

    وہ کپڑے جو آپ مزید پہننا نہیں چاہتے، پھینکنے کے بجائے اپنے دوستوں کو دیں اور اسی طرح ان سے ان کے استعمال شدہ کپڑے لے لیں۔

    معمولی خراب کپڑوں اور جوتوں کی مرمت کر کے انہیں پھر سے استعمال کے قابل بنائیں۔

    اس وقت کچھ برانڈز ماحول دوست ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ وہ اپنی مصنوعات کی تیاری میں ماحول کو کم سے کم نقصان پہنچائیں، انہیں استعمال کرنے کو ترجیح دیں۔

    معیاری اور مہنگے ملبوسات اور جوتے خریدیں جو زیادہ تر عرصے تک چل سکیں۔

  • موڈ پر حیرت انگیز اثرات مرتب کرنے والے پودے

    موڈ پر حیرت انگیز اثرات مرتب کرنے والے پودے

    گھر یا دفتر میں پودے رکھنا ویسے تو مجموعی طور پر ماحول کو بہتر بناتے ہیں، لیکن کیا آپ جانتے ہیں کچھ پودے اپنے ارد گرد رہنے والے افراد کے اندر مثبت خیالات کو فروغ دیتے ہیں اور حیرت انگیز طور پر مثبت طبی اثرات مرتب کرتے ہیں؟

    آئیں ان پودوں کے بارے میں جانیں۔

    پودینے کا پودا

    بعض لوگ عقیدہ رکھتے ہیں کہ گھر میں پودینے کا پودا رکھنے سے معاشی خوشحالی آتی ہے۔ یہ پودا دفتر یا گھر میں موجود افراد کے درمیان تعلق کو بھی مضبوط کرتا ہے۔

    چنبیلی

    چنبیلی کی دھیمی دھیمی خوشبو ارد گرد موجود افراد کے درمیان محبت کا تعلق مضبوط کرتی ہے۔

    ایلو ویرا

    ایلو ویرا کے پودے کی جہاں بے شمار خصوصیات ہیں وہیں یہ حیرت انگیز پودا منفی ماحول سے محفوظ رکھ کر گھر یا دفتر کی فضا میں مثبت توانائی، خوش قسمتی اور خوشحالی لانے کا سبب بنتا ہے۔

    بعض دفعہ یہ ماحول کی ساری منفیت اپنے اندر جذب کر لینے کے بعد مرجھا بھی جاتا ہے۔

    روز میری

    جامنی رنگ کے ننھے پھولوں والا یہ پودا ہوا کو صاف ستھرا رکھتا ہے۔ یہ کئی بیماریوں سے تحفظ فراہم کرتا ہے جبکہ زخموں اور تکالیف کو مندمل کرنے میں بھی مدد گار ثابت ہوتا ہے۔

    روز میری یادداشت اور موڈ کو بھی بہتر بناتا ہے۔

    لیونڈر

    لیونڈر کے پھولوں کو اپنے سرہانے رکھنے سے آپ پرسکون نیند سو سکتے ہیں۔

    یہ ڈپریشن میں کمی اور دماغ کو پرسکون بناتا ہے، جبکہ کسی مقام پر خوشی اور باہمی اتفاق بڑھنے میں بھی مدد دیتا ہے۔

    اورکڈ

    اورکڈ کے پھول طویل العمر ہوتے ہیں اور کئی روز تک تازہ رہتے ہیں۔ یہ پودا حیرت انگیز طور پر رات کے وقت بھی آکسیجن کا اخراج کرتا ہے لہٰذا اسے اپنے بیڈروم میں رکھنا نہایت مفید ثابت ہوسکتا ہے۔

  • مہکتے ہوئے خوش رنگ پھول بھی ماحول کے لیے نقصان دہ؟

    مہکتے ہوئے خوش رنگ پھول بھی ماحول کے لیے نقصان دہ؟

    مہکتے ہوئے خوش رنگ پھول کسے اچھے نہیں لگتے، ان کی بھینی بھینی خوشبو اپنے قریب رہنے والے افراد کو معطر کردیتی ہے، تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ پھول ہمارے ماحول کے لیے کچھ زیادہ بہتر نہیں ہیں۔

    دنیا بھر میں اگائے جانے والے پھولوں کو دیگر فصلوں کے مقابلے میں زیادہ پانی، کیڑے مار ادویات اور کیمیائی کھاد کی ضرورت ہوتی ہے۔

    نیدر لینڈز یورپ میں پھولوں کی سب سے زیادہ پیداوار کرنے والا ملک ہے۔ یہاں گلاب کے ایک ایکڑ پر 106 کلو گرام کیڑے مار ادویات جبکہ للی کے پھولوں کے ایک ایکڑ پر 135 کلو گرام ادویات چھڑکی جاتی ہیں۔

    پھولوں میں سبزیوں کی فصلوں سے 30 گنا زیادہ پانی بھی استعمال ہوتا ہے۔

    دوسری جانب افریقی ملک کینیا دنیا میں پھولوں کی پیداوار کا تیسرا بڑا ملک ہے۔ یہاں استعمال کی جانے والی ادویات مٹی اور پانی کو بھی زہر آلود کر دیتی ہیں۔

    کینیا میں پھولوں کی سب سے زیادہ افزائش نیواشا جھیل کے کنارے ہوتی ہے جو میٹھے پانی کی ایک بڑی جھیل ہے۔ پانی اور کیڑے مار ادویات کا بہت زیادہ استعمال اس جھیل کو خشک کرنے کا سبب بن رہا ہے۔

    دنیا بھر میں پھولوں کی مانگ کے سبب اس کی برآمدات کی شرح بھی بہت زیادہ ہے۔ پھولوں کو ہوائی جہازوں کے ذریعے برآمد کیا جاتا ہے جس سے ایندھن کا بے تحاشہ استعمال اور کاربن کا اخراج بھی ہوتا ہے۔

    ایک تحقیق کے مطابق صرف ایک عدد پھول اپنی افزائش اور برآمد کے مرحلے کے دوران اتنی کاربن خارج کرتا ہے جتنی کہ ایک دھواں چھوڑتی گاڑی کی چند منٹوں کی ڈرائیو۔

    ماہرین کے مطابق کیڑے مار ادویات کے بغیر اگائے جانے والے پھول ماحول دوست ہوسکتے ہیں جو کم از کم زمین اور پانی کو زہریلا نہیں کرتے۔

  • سبزیاں کھانا صحت اور ماحول دونوں کے لیے فائدہ مند

    سبزیاں کھانا صحت اور ماحول دونوں کے لیے فائدہ مند

    کیا آپ جانتے ہیں آج سبزیاں کھانے والوں کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد زراعت کو فروغ دے کر زمین کی زرخیزی میں اضافہ کرنا اور گوشت کی وجہ سے زمین پر پڑنے والے دباؤ کو کم کرنے کی طرف آگاہی دلانا ہے۔

    لوگوں کو سبزیاں کھانے کے فوائد سے آگاہی دینے کا یہ عمل دراصل پورا ماہ چلتا ہے جو یکم اکتوبر سے شروع ہوتا ہے۔ یکم نومبر کو ورلڈ ویگن ڈے منایا جاتا ہے جس کا مقصد ویجی ٹیرین افراد کے طرز زندگی کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔

    آپ نے اکثر افراد کے بارے میں سنا ہوگا کہ یہ ویجی ٹیرین ہیں یعنی صرف سبزیاں کھاتے ہیں، گوشت نہیں کھاتے۔ ایسے افراد عمر کے آخری حصے تک جوان اور فٹ نظر آتے ہیں جبکہ یہ گوشت کھانے والوں کے مقابلے میں زیادہ متحرک ہوتے ہیں۔

    آئیں آج ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ سبزیاں کھانا صحت کے ساتھ ساتھ ہمارے ماحول کے لیے کس طرح فائدہ مند ہے۔


    طبی اثرات

    ایک تحقیق کے مطابق ہفتے میں 3 یا 3 سے زائد بار گوشت کھانے والے افراد میں مختلف کینسر بشمول بریسٹ کینسر کا امکان دوگنا بڑھ جاتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق گوشت میں شامل ہارمونز ہمارے جسم میں موجود ان ہارمونز کی طاقت میں اضافہ کردیتے ہیں جو مختلف اقسام کے کینسر یا ٹیومرز کے خلیات کو نمو دینے میں مدد کرتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: گوشت کھانے سے قبل اس کے خطرناک نقصانات جانیں

    اس کے برعکس سبزیاں ہمیں کسی بھی قسم کا نقصان نہیں پہنچاتیں۔

    خوراک میں سبزیوں کا زیادہ استعمال نہ صرف آپ کو جسمانی طور پر صحت مند رکھتا ہے بلکہ بے شمار بیماریوں جیسے ذیابیطس، بلند فشار خون، کولیسٹرول، موٹاپے وغیرہ سے تحفظ بھی فراہم کرتا ہے۔

    سبزیوں کا استعمال خون کی شریانوں کو بھی صاف رکھتا ہے جس سے خون کی روانی میں کوئی رکاوٹ نہیں پیدا ہوتی۔

    آسٹریلیا کی کوئینز لینڈ یونیورسٹی کی جانب سے کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق سبزیاں کھانا نفسیاتی طور پر بھی فائدہ مند ہے۔ یہ آپ کے دماغ کو پرسکون رکھتی ہیں جبکہ تحقیق کے مطابق 2 سال تک سبزیوں کا مستقل استعمال جذباتی اور نفسیاتی طور پر زیادہ مستحکم بنا سکتا ہے۔


    ماحولیاتی اثرات

    کیا آپ جانتے ہیں گوشت کے حصول کا سبب بننے والے جانور زمین کے لیے کس قدر نقصان دہ ہیں؟

    جنوبی امریکی ملک برازیل اس وقت دنیا کا گوشت برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ اپنی اس تجارتی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے برازیل اب زیادہ سے زیادہ مویشی پال رہا ہے۔

    یہ کاروبار پورے برازیل میں اس قدر وسیع ہوچکا ہے کہ ملک میں قابل رہائش زمینیں کم پڑچکی ہیں اور اب مویشیوں کو رکھنے کے ایمازون کے قیمتی جنگلات کو کاٹا جارہا ہے۔

    گوشت کا سب سے بڑا خریدار امریکا ہے اور یہ برازیل اور دیگر جنوبی امریکی ممالک سے ہر سال 20 کروڑ پاؤنڈز کا گوشت درآمد کرتا ہے۔

    مزید پڑھیں: برگر ہماری زمین کے لیے سخت خطرات کا باعث

    یہاں یہ بات یاد رکھنی بھی ضروری ہے کہ مویشی میتھین گیس کے اخراج کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں جو فضا میں جا کر فضائی آلودگی اور موسم کو گرم کرنے کا سبب بنتی ہے۔

    دنیا بھر کے درجہ حرارت میں شدید اضافے کا ذمہ دار یہ منافع بخش کاروبار صرف جنگلات کے خاتمے کا ہی سبب نہیں۔ روز افزوں اضافہ ہوتی مویشیوں کی اس آبادی کی دیگر ضروریات بھی ہیں۔

    رہائش کے ساتھ ان مویشیوں کو پینے کے لیے پانی، گھاس اور دیگر اناج بھی درکار ہے۔ گوشت کی کسی دکان پر موجود ایک پاؤنڈ کا گوشت، 35 پاؤنڈ زمینی مٹی، ڈھائی ہزار گیلن پانی اور 12 پاؤنڈز اناج صرف کیے جانے کے بعد دستیاب ہوتا ہے۔

    یعنی ایک برگر میں شامل گوشت کی پیداوار کے لیے جتنا پانی استعمال ہوا، وہ کسی انسان کے پورے سال کے غسل کے پانی کے برابر ہے۔

    مویشیوں کی خوراک میں کئی قسم کے اناج شامل ہیں جنہیں اگانے کے لیے ہر سال 17 ارب پاؤنڈز کی مصنوعی کھاد اور کیڑے مار ادویات استعمال کی جاتی ہیں اور یہ دونوں ہی ماحول اور زراعت کو سخت نقصان پہنچانے کا سبب بنتی ہیں۔

    دوسری جانب سبزیاں نہ صرف زمین کی زرخیزی میں اضافہ کرتی ہیں بلکہ سبزیوں کے پودے اور درخت ہماری فضا کو بھی آلودگی سے محفوظ رکھتے ہیں۔

    صاف ستھری سبزیاں حاصل کرنے کا سب سے آسان طریقہ کچن گارڈننگ ہے۔

    اس میں آپ اپنے گھر کی کسی بھی خالی جگہ، یا کسی چھوٹے موٹے گملے میں مختلف اقسام کی سبزیاں اگا سکتے ہیں جو نہ صرف آپ کے گھر کی فضا کو صاف کرنے کا سبب بنیں گی بلکہ کھانے کی مد میں ہونے والے آپ کے اخراجات میں بھی کمی لائے گی۔

    مزید پڑھیں: شہری زراعت، مستقبل کی اہم ضرورت

    ماہرین کے مطابق اس عمل کو مزید بڑے پیمانے پر پھیلا کر شہری زراعت یعنی اربن فارمنگ شروع کی جائے جس میں شہروں کے بیچ میں زراعت کی جاسکتی ہے۔ یہ سڑکوں کے غیر مصروف حصوں، عمارتوں کی چھتوں، بالکونیوں اور خالی جگہوں پر کی جاسکتی ہے۔

    اس زراعت کا مقصد دراصل دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کی غذائی ضروریات پوری کرنا ہے۔ دنیا میں موجود قابل زراعت زمینیں اس وقت دنیا کی تیزی سے اضافہ ہوتی آبادی کی غذائی ضروریات پوری کرنے میں ناکام ہیں۔

    دوسری جانب جن زمینوں پر زراعت کی جارہی ہے ان کی تعداد میں تیزی سے کمی آرہی ہے اور ان کی جگہ بڑی بڑی عمارتیں، گھر اور اسکول وغیرہ بنائے جارہے ہیں۔

    ماہرین کی تجویز ہے کہ شہری زراعت کے ذریعہ شہر کی زیادہ سے زیادہ عمارتوں کی چھتوں کو گارڈن کی شکل میں تبدیل کردیا جائے اور وہاں پھل اور سبزیاں اگائی جائیں۔

    یہی نہیں یہ سر سبز چھتیں شہر سے آلودگی کو بھی کم کریں گی جبکہ شدید گرمیوں کے موسم میں یہ ٹھنڈک فراہم کریں گی اور وہی کام کریں گی جو درخت سر انجام دیتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق شہری زراعت کے طریقے کو اپنا کر اگر کوئی ایک شہر بھی اپنی غذائی ضروریات میں خود کفیل ہوجائے تو اس سے ملکی معیشت کو کافی سہارا ہوسکتا ہے اور کسی ملک کی مجموعی زراعت پر پڑنے والا دباؤ بھی کم ہوسکتا ہے۔