Tag: ماحولیات

  • ملک میں زیادہ بارشوں کی پیشگوئی موجود تھی لیکن ہم سائنس کو سنجیدہ نہیں لیتے، ماہر ماحولیات

    ملک میں زیادہ بارشوں کی پیشگوئی موجود تھی لیکن ہم سائنس کو سنجیدہ نہیں لیتے، ماہر ماحولیات

    ماہر ماحولیات ڈاکٹر زنیب نعیم نے کہا ہے کہ ملک میں زیادہ بارشوں کی پیشگوئی موجود تھی لیکن ہم سائنس کو سنجیدہ نہیں لیتے۔

    خیبرپختونخوا میں کلاؤڈ برسٹ سے قیامت صغریٰ برپا ہونے کے بعد ماہر ماحولیات ڈاکٹر زینب نعیم نے کہا ہے کہ ملک میں درجہ حرات بڑھ رہا ہے، موسمیاتی تبدیلی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

    انھوں نے کہا ملک میں زیادہ بارشوں کی پیشگوئی بھی موجود تھی لیکن ہم سائنس کو سنجیدہ نہیں لیتے، غلط اندازے لگانے اور بر وقت مناسب انتظامات نہ کرنے سے تباہی ہوتی ہے۔

    زینب نعیم نے کہا ملک میں پانی کے ذخائر خشک ہو رہے ہیں، ہمیں 2 انتہاؤں کا سامنا ہے، خشک سالی یا شدید سیلاب، دونوں انتہاؤں سے نمٹنے کے لیے ہمارے پاس انتظامات نہیں ہیں، زیادہ بارشوں کی پیشگوئی بھی موجود تھی لیکن ہم نے سیریس نہیں لیا، ہم سائنس کو سیریس نہیں لیتے، غلط اندازوں سے تباہی آتی ہے، موحولیاتی تبدیلی کے لیے بھی پلاننگ کی ضرورت ہے۔

    واضح رہے کہ خیبرپختونخوا میں قیامت صغریٰ کے مناظر دیکھے جا رہے ہیں، 350 سے زائد افراد جاں بحق ہو گئے ہیں، سیکڑوں زخمی ہیں اور درجنوں انسان لاپتا ہیں، بونیر میں قدرتی آفت سے تاریخ کی سب سے بڑی تباہی ہوئی ہے، بادل پھٹنے کے بعد آبی ریلے درجنوں گھر مکینوں سمیت بہا لے گئے ہیں، کھیت کھلیان اجڑ گئے، مال مویشی برباد ہو گئے۔


    کلاؤڈ برسٹ : کیا بادل پھٹنے کی پیش گوئی کی جاسکتی ہے؟


    بونیر میں 220 لاشیں نکال لی گئی ہیں، بونیر میں طوفانی بارش سوئے ہوئے مکینوں کے لیے موت بن کر آئی، درجنوں افراد ریلے میں بہہ گئے، سوات میں بھی درجنوں گھر بہہ گئے ہیں۔ لوگوں کو بلند مقامات پر پناہ لینا پڑی، بونیر میں بارشوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے جس سے امدادی کارروائیوں میں مشکلات کا سامنا ہے، اور اب تک ایک ہزار افراد کو ریسکیو کیا جا چکا ہے۔

    کلاؤڈ برسٹ کے بعد انتظامی المیہ بھی جنم لینے لگا ہے، پیاروں کو گنوانے، سامان کھونے والے متاثرین صبح سے بھوکے پیاسے بے یارو مددگار حکومتی امداد کے منتظر ہیں، مقامی افراد کا کہنا ہے کہ ڈی ایچ کیو اسپتال میں صبح سے ڈاکٹر نہیں تھے، دوپہر ایک بجے کے بعد آئے، اسپتال کا جنریٹر بھی کام نہیں کر رہا تھا۔

  • پاکستان کے ختم ہوتے گلیشیئرز: بقا کا برفانی بحران

    پاکستان کے ختم ہوتے گلیشیئرز: بقا کا برفانی بحران

    پاکستان کے شمالی علاقوں میں واقع برفانی گلیشئرز نہ صرف قدرتی حسن کا شاہکار ہیں بلکہ ملک کے دریاؤں، زراعت، توانائی اور انسانی زندگی کے لیے ایک بنیادی وسیلۂ حیات کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مگر افسوس کہ موسمیاتی تبدیلی کے مہلک اثرات نے ان برفانی خزانوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔

    پاکستان کے گلیشئرز خاموش مگر زندہ نشانیاں ہیں جو ہمیں خبردار کر رہی ہیں کہ وقت ختم ہو رہا ہے

    آج پاکستان ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں گلیشئرز کی پگھلنے کی رفتار خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے، اور اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو یہ بحران ہماری آنے والی نسلوں کی زندگی کو خشک، بنجر اور عدم استحکام سے دوچار کر سکتا ہے۔

    پاکستان دنیا کے ان چند خوش قسمت ممالک میں شامل ہے جن کے پاس 7200 سے زائد گلیشئرز موجود ہیں، جو دنیا کے سب سے بڑے غیر قطبی برفانی ذخائر میں شمار ہوتے ہیں۔ بیافو، بالتورو، سیاچن، پسو اور ہسپر جیسے گلیشئرز نہ صرف قدرتی عجوبے ہیں بلکہ پاکستان کے دریاؤں، خاص طور پر دریائے سندھ، کے پانی کی اصل بنیاد بھی ہیں۔

    پاکستان میں اس وقت اندازاً 7200 سے زائد گلیشیئرز موجود ہیں، جن میں سے تقریباً 80 فیصد گلیشئرز تیزی سے پگھلنے کے عمل سے گزر رہے ہیں۔ شمالی علاقوں میں درجۂ حرارت میں 1.5 سے 2 ڈگری سینٹی گریڈ تک کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ مئی و جون 2025 میں گلگت اور ہنزہ میں غیر معمولی گرمی کی لہریں آئیں، جنہوں نے گلیشئرز کے غیر موسمی پگھلاؤ کو مزید بڑھا دیا۔

    2024–2025 کے دوران، اقوام متحدہ اور مقامی اداروں کی رپورٹس کے مطابق، پاکستان میں 33 سے زائد گلیشئرز ایسے زونز میں آ چکے ہیں جہاں گلشیل لیک آؤٹ فلیش فلڈز(GLOFs) کا شدید خطرہ لاحق ہے۔ 2024-25 کے دوران گلگت بلتستان اور چترال میں کم از کم 9 بڑے GLOF واقعات ریکارڈ ہوئے، ان حادثات کے نتیجے میں اب تک 12 ہزار سے زائد افراد متاثر ہو چکے ہیں، جن میں گھروں کی تباہی، زرعی اراضی کا نقصان، اور بنیادی ڈھانچے کی بربادی شامل ہے، جب کہ ہزاروں لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔ اقوامِ متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (UNEP) اور پاکستان میٹ ڈیپارٹمنٹ کی حالیہ رپورٹس کے مطابق 2025 تک پاکستان کے 80 فیصد گلیشئرز میں پگھلاؤ کے آثار واضح ہو چکے ہیں جب کہ بیافو، ست پارہ، چوغولنگما جیسے گلیشئرز کی برف میں سالانہ 1.2 میٹر تک کمی نوٹ کی گئی جب کہ کئی گلیشئرز اپنی سطح کا 20 تا 25 فیصد حصہ کھو چکے ہیں۔

    دنیا بھر میں بڑھتا ہوا گرین ہاؤس ایفیکٹ پاکستان کے برفانی علاقوں کو براہِ راست متاثر کر رہا ہے

    دنیا بھر میں بڑھتا ہوا گرین ہاؤس ایفیکٹ پاکستان کے برفانی علاقوں کو براہِ راست متاثر کر رہا ہے۔ ٹرانسپورٹ، لکڑی جلانے اور صنعتوں سے اٹھنے والے ذرات گلیشئرز پر جمع ہو کر سورج کی حرارت کو جذب کرتے ہیں اور برف کو تیز رفتاری سے پگھلاتے ہیں جب کہ شمالی علاقوں میں بے قابو ہوتی سیاحتی سرگرمیاں، پلاسٹک ویسٹ اور تعمیرات، ماحولیاتی نظام کو نقصان پہنچانے کا سبب بن رہی ہیں۔

    گلیشیئرز کے پگھلاؤ کے نتیجے میں پانی کا بہاؤ وقتی طور پر تو ضرور پر بڑھے گا، لیکن آنے والی دہائیوں میں پاکستان میں شدید پانی کی قلت متوقع ہے۔ پاکستان کی زراعت، جو دریائے سندھ پر انحصار کرتی ہے، اس سے تباہ ہو سکتی ہے۔ ہمارے ہائیڈرو پاور کا انحصار دریاؤں پر ہے، اور پانی کی کمی کی صورت میں بجلی کی شدید قلت اور لوڈشیڈنگ کا سامنا ہو سکتا ہے۔ گلیشیئرز کے پگھلاؤ سے پیدا ہونے والے سیلاب دیہاتی علاقوں کو اجاڑ سکتے ہیں۔ پہاڑی علاقوں سے ماحولیاتی پناہ گزین شہروں کی جانب نقل مکانی کر سکتے ہیں۔

    GLOF-11 پروجیکٹ کے تحت وارننگ سسٹمز کی تنصیب، نیشنل کلائمیٹ چینج پالیسی 2021 اور ایڈاپٹیشن پلانز جیسے اقدامات کے ذریعے جہاں گلیشیئر کے پگھلاؤ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بحران میں کمی لائی جا سکتی ہے وہیں مقامی کمیونٹیز میں آگاہی کی کمی، محدود تحقیق و ڈیٹا شیئرنگ، پائیدار سیاحت اور فضلہ مینجمنٹ کے فقدان کے چیلنجیز کو حل کرنا بھی ضروری ہو گا۔

    گلیشیئر مانیٹرنگ کے لیے جدید ٹیکنالوجی استعمال کرنے کے ساتھ، شمالی علاقوں میں ماحول دوست سیاحت کو فروغ دیا جائے۔ مقامی افراد کو موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کی تربیت دی جائے، قومی و صوبائی سطح پر ماحولیاتی ایمرجنسی کا اعلان کیا جائے، صنعتی آلودگی اور سیاہ کاربن کے خلاف سخت اقدامات کیے جائیں۔

    پاکستان کے گلیشیئرز خاموش مگر زندہ نشانیاں ہیں جو ہمیں خبردار کر رہی ہیں کہ وقت ختم ہو رہا ہے۔ اگر ہم نے آج بھی سنجیدہ اقدامات نہ کیے تو پانی، خوراک، توانائی اور انسانی زندگی کے بحرانوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ماحولیاتی جنگ اب برف کے محاذ پر لڑی جا رہی ہے، اور اس میں خاموشی شکست کی علامت ہے۔

  • کاربن کا 75 فی صد اخراج کرنے والے 10 ممالک ہی 85 فی صد گرین فنانس لے جا رہے ہیں، مصدق ملک

    کاربن کا 75 فی صد اخراج کرنے والے 10 ممالک ہی 85 فی صد گرین فنانس لے جا رہے ہیں، مصدق ملک

    اسلام آباد: وفاقی وزیر مصدق ملک نے عالمی سطح پر آنے والی موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث پاکستان کے شدید متاثر ہونے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کے وہ ممالک جو سب سے زیادہ کاربن اخراج کے لیے ذمہ دار ہیں، وہی ممالک گرین فنانس کا زیادہ تر حصہ لے جا رہے ہیں، جو نا انصافی ہے۔

    قدرتی آفات کے خطرے میں کمی لانے کے موضوع پر منعقدہ پاکستان کے دوسرے ایکسپو کے آغاز پر خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر موسمیات اور ماحولیات مصدق ملک نے کہا پاکستان میں گرمی بڑھتی جا رہی ہے، گلاف (برفانی جھیل میں آنے والے سیلاب) کے واقعات کی تعداد زیادہ ہو گئی ہے،قدرتی آفات آتی ہیں لیکن ہم تیار نہیں ہوتے۔

    انھوں نے اپیل کی ہے کہ آفات سے لوگوں کی اموات کے بارے میں سوچیں، سندھ کا بڑا حصہ سیلاب میں بہہ گیا، ہمیں ان سب مسائل کو ختم کرنا ہوگا۔


    پاکستان اور امریکا کا دو طرفہ تجارت اور سرمایہ کاری کو وسعت دینے کے عزم کا اظہار


    مصدق ملک نے کہا دنیا میں صرف 2 ممالک 45 فی صد کاربن کا اخراج کرتے ہیں، 1 ملک تمام ماحولیاتی معاہدوں سے نکل گیا ہے، اور یہ ملک دنیا میں اپنی اجارہ داری بنا کر بیٹھا ہے، یہ جتنی بھی آلودگی پھیلا لیں کوئی ان سے نہ پوچھے، جب کہ دنیا کے دیگر 10 ممالک 75 فی صد کاربن کا اخراج کرتے ہیں۔

    وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ اس ساری صورت حال میں انصاف کا فقدان نظر آتا ہے، یہ وہی 10 ممالک ہیں جو 85 فی صد گرین فنانس لے جاتے ہیں، اس سب میں افریقی جنوبی ایشیائی ممالک کہاں ہیں؟ پاکستان گلوبل ولیج میں نظر نہیں آتا۔

    انھوں نے کہا چین دنیا کی 70 فی صد سولر ٹیکنالوجی بیچتا ہے، فن لینڈ نے جنگلات بچانے کے لیے اقدامات کیے، ایسے میں دنیا بھر کے لیے گرین پاکستان کے دروازے کھلے ہیں، ہمیں بھی پاکستان میں گرین جابز پیدا کرنا ہوں گی۔

     

  • ’فوسل فیول پیدا کرنے والے ممالک آستین کے سانپ ہیں‘ کوپ 92 میں احتجاج

    ’فوسل فیول پیدا کرنے والے ممالک آستین کے سانپ ہیں‘ کوپ 92 میں احتجاج

    باکو: آذربائیجان میں جاری کوپ 29 اجلاس کے دوران سماجی تنظیم نے انوکھا احتجاج کرتے ہوئے فوسل فیول پیدا کرنے والے ممالک کو آستین کے سانپ قرار دیا۔

    تفصیلات کے مطابق آذربائیجان میں جاری کوپ ٹوئنٹی نائن میں سماجی تنظیموں نے مطالبہ کیا ہے کہ امیر ممالک موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے فنڈگ بڑھائیں، باکو میں جاری اجلاس کے دوران سماجی کارکنان کا بین الاقوامی برادری کے خلاف احتجاج کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

    مظاہرین نے کہا کہ گرین ہاؤس گیسز کا اخراج کرنے والے ممالک موسمیاتی تبدیلی سے متاثر ممالک کے ساتھ انصاف کریں اور ان کی مدد کریں۔ کوپ ٹوئنٹی نائن میں ایک سماجی تنظیم نے فوسل فیول پیدا کرنے والوں کو آستین کا سانپ قرار دیا اور ہال میں دیوہیکل غبارے سے بنا سانپ بھی لے کر آئے۔

    مظاہرین نے کہا کہ فوسل فیول پیدا کرنے والی کمپنیاں کلائمٹ ایکشن میں رکاوٹ ڈال کر پیسہ کما رہی ہیں۔ دریں اثنا مظاہرین نے اس بار اجلاس میں اپنے مظاہرے کے لیے پیدا کیے گیے مشکل حالات کا بھی ذکر کیا، مظاہروں میں شامل لوگوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے حالیہ برسوں میں اقوام متحدہ کے منتظمین کی جانب سے سخت قوانین کے رجحان کو محسوس کیا ہے، جن میں COPs کا انعقاد ایسے ممالک میں کیا جانے لگا ہے جہاں کی حکومتیں مظاہروں اور سول سوسائٹی کی شرکت کے خلاف سخت طرز عمل اپناتی ہیں۔

  • کراچی کے درخت کہاں گئے؟ ایک فکر انگیز ویڈیو رپورٹ

    کراچی کے درخت کہاں گئے؟ ایک فکر انگیز ویڈیو رپورٹ

    کراچی شہر میں جان لیوا ہیٹ ویو کے اثرات بار بار سامنے آ رہے ہیں، ماحولیاتی تبدیلیوں پر کام کرنے والے ادارے نے یہ قابل تشویش انکشاف کیا ہے کہ کراچی کے رقبے کے لحاظ سے درختوں کی تعداد ایک فی صد سے بھی کم رہ گئی ہے۔

    ماہرین ماحولیات کراچی میں درختوں کی اہمیت کے حوالے سے کہتے ہیں کہ شہر میں ہیٹ ویو کی وجہ درختوں کی کٹائی اور شجر کاری نہ ہونے کے برابر ہونا ہے۔

    کراچی میں کتنے درخت؟

    ماہرین ماحولیات کے مطابق شہر میں درخت تقریباً ایک فی صد سے بھی کم رہ گئے ہیں، ایک رپورٹ کے مطابق کراچی میں کچھ دہائیوں پہلے تک کراچی میں رقبے کے لحاظ سے درختوں کا حصہ تقریباً 6 فی صد تک تھا، جو 2013 میں 3 فی صد ہو گیا تھا۔

    شہر میں بے ہنگم تعمیرات اور ترقیاتی کاموں کی وجہ سے حال ہی میں یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ شاید اب یہ تین فی صد بھی نہ رہا ہو، جس کی وجہ سے شہر کا درجہ حرارت بڑھتا جا رہا ہے۔

    ہیٹ ویو کی وجہ؟

    کراچی میں ہیٹ ویو پر جاری تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ہلاکتوں کی وجہ ’اربن ہیٹ آئی لینڈ ایفیکٹ‘ سے ہوئی، اسی بنا پر ہیٹ ویو کی ایک وجہ درختوں کی کٹائی اور شجر کاری کا کم ہونا بتایا جاتا ہے۔

    سیٹلائٹ کے نقشے ظاہر کرتے ہیں کہ جن شہری علاقوں میں درختوں کی قلت ہوتی ہے وہاں درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے۔ یو این ایچ آئی کے مطابق شہری علاقوں میں گرمی کا اثر دیہی علاقوں کی نسبت زیادہ محسوس ہوتا ہے۔

    بین الاقوامی ماہرین ماحولیات کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق کراچی گزشتہ کئی سالوں سے ہیٹ آئی لینڈ ایفیکٹ سے بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ کلفٹن اربن فارسٹ کے خالق مسعود لوہار کہتے ہیں کہ بے ہنگم تعمیراتی منصوبوں نے شہر سے درختوں کا صفایا کر دیا ہے۔

    ہر انسان کے حصے میں کتنے درخت؟

    امریکی یالے یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق اس وقت زمین پر 30 کھرب درخت ہیں، جن میں تیزی سے کمی آ رہی ہے۔ دنیا کی آبادی اس وقت 6 ارب ہے، یعنی ہر شخص کے حصے میں 422 درخت آتے ہیں۔ روس اس سلسلے میں سرفہرست ہے جہاں ایک شخص کے حصے میں 641 درخت آتے ہیں، جب کہ بھارت میں 28 درخت ایک شخص کے حصے میں آتے ہیں۔

    دوسری طرف ایک ماہر ماحولیات کے مطابق ہر ایک پاکستانی کے حصے میں 4 سے بھی کم درخت رہ گئے ہیں، پاکستان میں سرکاری اور نجی سطح پر پودے لگائے ضرور جاتے ہیں مگر ان کے درخت بننے تک کا سفر اہمیت رکھتا ہے۔

    دنیا درختوں سے محروم ہوئی تو؟

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ دنیا کو درختوں سے محروم کر دینے سے دنیا کے پورے نظام کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے، کیوں کہ درختوں کی کمی سے نہ صرف مقامی ماحول متاثر ہوتا ہے، بلکہ لوگوں کا روزگار، معیشت اور خوراک سب پہلوؤں پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

    انھوں نے بتایا کہ دنیا بھر کے 50 فی صد پودے اور جانور اپنی رہائش کے لیے درختوں پر انحصار کرتے ہیں، مگر انسانوں کی جانب سے ترقی کے نام پر درختوں کا صفایا کیا جا رہا ہے۔

    کراچی شہر کے ہر حصے میں درختوں کی کٹائی اور بے ہنگم تعمیرات نے اس شہر کو کنکریٹ کا جنگل بنا دیا ہے، درخت کی موجودگی انسانی بقا سے منسلک ہے، میگا پروجیکٹ کے نام پر درختوں کے کٹائی نے اس شہر کے باسیوں سے سانس لینے کا حق تک چھین لیا ہے۔

    موسمیاتی تبدیلوں کی بنا پر کراچی میں گرمی کی شدت کو روکنے کے لیے ہر سطح پر درختوں کی اہمیت کو اجاگر کرنے کی ضروت ہے۔

  • رائے: جنوبی ایشیا کو کرائیوسفیئر کے تحفظ اور علاقائی استحکام کے لئے متحد ہونا ہوگا

    رائے: جنوبی ایشیا کو کرائیوسفیئر کے تحفظ اور علاقائی استحکام کے لئے متحد ہونا ہوگا

    اس سال ماحولیات کا عالمی دن ایسے وقت میں منایا جا رہا ہے جب گزشتہ چھ ماہ کے دوران جنوبی ایشیا میں قومی انتخابات اس خطے کے تین اہم ممالک پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت میں ہوئے۔

    قیادت کی گرما گرمی اور الیکشن مہم کی بیان بازی میں جنوبی ایشیا کی مشترکہ تاریخ، ثقافت اور ماحولیات کو نظر انداز کیا گیا۔ خطے کے ممالک کے درمیان تعاون کی کمی کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے- یہ سادہ سی حقیقت اس قدر اہم ہے کہ اگر ہم نے مل کر کام نہ کیا تو اس خطے میں رہنے والے تمام لوگوں کا مستقبل آب و ہوا سے پیدا ہونے والی آفات کی وجہ سے خطرے میں پڑ جائے گا۔

    عائشہ خان لکھتی ہیں کہ جنوبی ایشیا میں موسمیاتی تبدیلی کے مسائل ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، لیکن اپنی سماجی و ثقافتی مماثلتوں کے باوجود یہ دنیا کا سب سے کم باہمی تعلق والا خطہ ہے۔

    موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کی وجہ سے اِن ممالک کو زیادہ مؤثر طریقے سے مل کر تعاون کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ موسمیاتی تبدیلی قومی حدود سے قطع نظر عالمی سطح پر ہر کسی کو متاثر کرتی ہے۔ جب ایک مسئلہ دوسرے کی طرف لے جاتا ہے اور صورت حال کو مزید خراب کرتا ہے۔ اور یہ کیفیت ڈومینو اثر کو پیدا کرتی ہے جس سے موسمیاتی تبدیلی کے نتائج مزید سنگین ہو جاتے ہیں۔

    جنوبی ایشیا میں خطرات کا سلسلہ پہاڑوں سے شروع ہوتا ہے اور سمندر کی طرف جاتا ہے، جس کے درمیان کی ہر چیز متاثر ہوتی ہے۔ یہ خطہ اچانک رونما ہونے والے جغرافیائی تغیرات، مختلف آب و ہوا کے علاقوں اور ماحولیاتی نظام کی ایک متنوع رینج سے بھی نشان زد ہے، جو مل کر برصغیر کی پیچیدہ جیوفزیکل اکائی تشکیل دیتے ہیں۔

    شمالی اور جنوبی قطبوں کے بعد تیسرا قطب منجمد پانی کے سب سے زیادہ ذخائر رکھتا ہے۔ یہ نو ممالک میں 4.2 ملین مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے اور تبتی سطح مرتفع، ہمالیہ، قراقرم، ہندوکش، پامیر اور تیان شان پہاڑوں کو گھیرے ہوئے ہے۔ یہاں جو کچھ ہوتا ہے وہ اس علاقے تک محدود نہیں رہے گا۔ اِن موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کا یہ سلسلہ مقامی اور عالمی موسمیاتی نظام کو متاثر کرے گا۔ انسانی ٹائم اسکیل پر وہ لمحہ جب کرائیوسفیئر (زمین کے وہ حصے جہاں پانی منجمد ہے) نمایاں طور پر تبدیل ہوتا ہے (ٹپنگ پوائنٹ) آہستہ آہستہ ہوتا نظر آتا ہے۔ لیکن ایک بار جب یہ ایک خاص حد کو عبور کر لیتا ہے تو اس کے اثرات رک نہیں سکتے اور یہ زمین کے نظام میں بڑی تبدیلیوں کا باعث بن سکتا ہے۔ تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ وقت کے ساتھ پھیلنے والی ایسی تبدیلیوں کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر معدومیت ہوسکتی ہے۔آج کچھ لوگوں کو خدشہ ہے کہ کرہ ارض اپنی چھٹی معدومیت کی طرف بڑھ رہا ہے۔

    جنوبی ایشیا بار بار آنے والی ان شدید آفات سے نمٹنے کے لئے کس حد تک تیار ہے؟ کیا معمول کے مطابق کام کرنا اب بھی ایک قابل عمل آپشن ہے؟ یہ کچھ سوالات ہیں جن کو حل کرنے کی ضرورت ہے اس سے پہلے کہ کوئی بھی مکالمہ شروع کیا جائے تاکہ تعاون پر بات چیت کے لئے راہ نکالی جا سکے۔ اب سے پہلے ماضی میں صورتحال کو برقرار رکھنا ممکن تھا کیونکہ علاقائی ممالک، اگرچہ بڑھتی ہوئی مشکلات کے باوجود، ماحولیاتی خدمات میں خلل اور موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے مسائل کو سنبھالنے کے قابل تھے۔ لیکن اب صورتِ حال واضح نہیں ہے کہ آیا وہ یہ کام جاری رکھ سکتے ہیں یا نہیں۔

    تاہم، موجودہ عالمی اخراج اور ضروری تخفیف کی کوششوں کے درمیان بڑھتا ہوا گیپ جو کہ کرہ زمین کو 1.5 سینٹی گریڈ کی محفوظ حد کے اندر رہنے کے لئےچاہیے وہ پہنچ سے باہر ہو رہا ہے۔ خطے میں صورتحال غیر یقینی ہے اور تیزی سے بدل رہی ہے۔ دو ارب آبادی والے اِس خطے میں عدم استحکام کے دنیا پر تباہ کن اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ انفرادی ممالک کی اِس خطرے سے نمٹنے کی صلاحیتیں ناکافی معلوم ہوتی ہیں۔

    زمین کی غیر خطی آب و ہوا کے رد عمل کی تاریخ غیر یقینی صورتحال میں اضافہ کرتی ہے، جس سے معمول کے مطابق موسمیاتی اِقدامات کے بجائے نئے حل تلاش کرنا ضروری ہوجاتا ہے جو خطرات کو کم کرتے ہیں۔

    نئی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ گلوبل وارمنگ نے جنوبی ایشیا کے بلند و بالا پہاڑوں میں برف کے پگھلنے کی شرح کو تیز کردیا ہے۔ اگر ہم زمین کے درجہ حرارت کو تبدیل کرتے رہیں (جیسے تھرموسٹیٹ کے درجہ حرارت کو اوپر نیچے کرتے رہنا) تو یہ بالآخر بہت تیزی سے بہت زیادہ برف پگھلنے کا سبب بنے گا۔ اس سے سمندر کی سطح میں ایک بڑا اضافہ ہوسکتا ہے جسے ہم روکنے یا پلٹنے کے قابل نہیں ہوں گے۔

    لہذا، جغرافیائی سیاسی فالٹ لائنوں کے باوجود، پانی تعاون کے لئے ایک زبردست کیس فراہم کرتا ہے۔ ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش کے پہاڑوں (ایچ کے ایچ) کی برف اور گلیشیئرز زندگی کے وسیلے کے طور پر کام کرتے ہیں جو 10 دریاؤں کے بیسن کو برقرار رکھتے ہیں اور 1.9 ارب لوگوں کو سہارا دیتے ہیں۔ ایک مربوط نقطہ نظر کی عدم موجودگی خطے کو اُن خطرات کا سامنا کرنے کے لئے ہوشیار اور تیار نہیں کرتی ہے جو مستقبل میں آہستہ ، اچانک اور انتہائی موسمیاتی واقعات سے جنم لے سکتے ہیں۔

    انٹرنیشنل سینٹر فار انٹیگریٹڈ ماؤنٹین ڈیویلپمنٹ کی حالیہ رپورٹ، ایلیوٹنگ ریور بیسن گورننس اینڈ کوآپریشن ان ایچ کے ایچ ریجن، مشکلات کے ساتھ ساتھ بیسن کے حوالے سے تعاون کو مضبوط کرنے کے لئے درکار اقدامات کی یاد دہانی ہے۔ یہ کامیاب پالیسیاں بنانے اور اس کے مؤثر نفاذ کو یقینی بنانے کے لئے حکومتی کردار پر روشنی ڈالتا ہے۔ رپورٹ کے کچھ کلیدی مسائل واٹر گورننس فریم ورک تیار کرنے، خواتین واٹر پروفیشنلز کے لئے مواقع پیدا کرنے، موجودہ علم کو دستاویزی شکل دینے، مشترکہ نقطہ نظر اور اوزاروں کو اپنانے کی حوصلہ افزائی کرنے اور عوام پر مرکوز نقطہ نظر کی حمایت کرنے سے متعلق ہیں جو جامع اور وسیع بنیاد ہوں۔

    پہاڑی ماحولیاتی نظام اور برادریوں کے بغیر منجمد پانی اور برف کے بارے میں کوئی بات چیت نہیں ہوسکتی ہے۔ تبدیلیوں، مشکلات اور آفتوں کے محاذ پر زندگی بسر کرنے والی پہاڑی برادریوں میں بہت سی مماثلتیں پائی جاتی ہیں جو سرحدوں کو کاٹتی ہیں اور مشترکہ مشکلات پیش کرتی ہیں۔ زراعت کے لئے پگھلے ہوئے پانی پر زیادہ انحصار برادریوں کو زیادہ غیر محفوظ بنادیتا ہے۔ زیادہ اونچائی اور فصلوں کا مختصر موسم زراعت کے لئے استعمال ہونے والے پگھلے ہوئے پانی کے وقت اور مقدار میں تغیر کو جذب کرنے کے لئے بہت کم گنجائش چھوڑتا ہے۔ ہائیڈرولوجی پیٹرن میں تبدیلیوں کے پہاڑی برادریوں کی زندگیوں پر بے شمار اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ غذائی قلت، نقل مکانی، قابل کاشت زمین کا نقصان اور غربت میں اضافہ پانی کے بہاؤ کے انداز میں تبدیلی سے جڑے کچھ موروثی خطرات ہیں۔

    علاقے کی زیادہ تر آبادی پیشہ کے اعتبار سے زراعت، مویشیوں اور ماہی گیری پر انحصار کرتی ہے۔ کسی بھی طرح کی اچانک موسمی رکاوٹیں کمیونٹیز کو چاہے وہ اوپری طرف رہتی ہوں یا نیچے کی طرف دونوں کو متاثر کرتی ہیں جس سے ایک رد عمل کا سلسلہ شروع ہوتا ہے جو سماجی توازن کو بگاڑتا ہے، مفاد پرست گروہوں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کرتا ہے اور اختلافات اور تصادم کا باعث بنتا ہے۔

    جنوبی ایشیا میں اوسطاً 25 سالہ نوجوان ایک اہم ڈیموگرافک (مطالعہ جمہور)کا حصہ ہے جو معاشرے کو تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اِن نوجوانوں کے نئے نقطہ نظر اور عزائم سماجی ترقی کو بہت فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔ تاہم، اگر دولت کی غیر مساوی تقسیم اور وسائل اور مواقع تک محدود رسائی جیسے اِن کے خدشات پر توجہ نہیں دی گئی تو بدامنی کا خطرہ بھی ہے۔

    اس سے پہلے کہ موقع ہاتھ سے نکل جائے، جنوبی ایشیا کے لئے اب بھی وقت ہے کہ وہ اپنے ماضی پر نظرثانی کرے، حال کا تجزیہ کرے اور محفوظ مستقبل کے لئے منصوبہ بندی کرے۔

    جنوبی ایشیا میں موسمیاتی تبدیلیوں کی حرکیات ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں، لیکن اپنی سماجی و ثقافتی مماثلتوں کے باوجود باہمی تعاون کے فقدان کے باعث یہ دنیا کا سب سے کم مربوط خطہ ہے، جو اپنے لوگوں کو بڑھتے ہوئے خطرات سے دوچار کرتا ہے۔

    سماجی اصول اس بات کا تعین کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں کہ لوگ مشکل وقت کا کیسے سامنا کریں گے۔خوراک کی بڑھتی ہوئی قلّت اور بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ، جنوبی ایشیا کے لئے ہمدردی، افہام و تفہیم اور احترام کی ثقافت کو فروغ دینا ضروری ہے جو اس کی مشترکہ تاریخ کے ثقافتی اقدار کی علامت ہو۔

    نومبر میں آذربائیجان میں ہونے والی موسمیاتی کانفرنس جنوبی ایشیا کو عالمی ماحولیاتی تشخیص میں کرائیوسفیئر (زمین کے وہ حصے جہاں پانی منجمد ہے) کی شمولیت کی وکالت کرنے کے لئے متحد ہونے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ یہ ہماری پہاڑی برف کی حفاظت کے لئے تعاون کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ خطے کی ماحولیاتی سالمیت کے تحفظ کے لئے سول سوسائٹی کو اپنی کوششیں تیز کرنی چاہئیں۔ اگر تیسرا قطب بربادی کا شکار ہوتا ہے تو یہ پورے خطے کے لئے تباہی کا باعث بنے گا۔

    (عائشہ خان کی یہ تحریر ڈائیلاگ ارتھ پر شایع ہوچکی ہے اور اس لنک کی مدد سے پڑھی جاسکتی ہے)

  • صنعت کار ہوشیار، ماحولیات کو نقصان پہنچانے والی صنعتوں کے خلاف اب کارروائی ہوگی

    صنعت کار ہوشیار، ماحولیات کو نقصان پہنچانے والی صنعتوں کے خلاف اب کارروائی ہوگی

    کراچی: شہر قائد میں اب ماحولیات کو نقصان پہنچانے والی صنعتوں کے خلاف کارروائی ہوگی، غیر ٹریٹ شدہ فضلے کو سیوریج میں ڈالنے والی صنعتیں سیپا قوانین کی زد میں آئیں گی۔

    ڈی جی ادارہ تحفظ ماحولیات سندھ نعیم احمد مغل نے کہا ہے کہ کراچی کی تمام تجارتی اور صنعتی انجمنوں کو گندے پانی کی صفائی کے پلانٹ کی تنصیب کا حکم نامہ جاری کیا گیا ہے، اور سیپا قوانین کا اطلاق بحیرہ عرب میں غیر ٹریٹ شدہ فضلے کے اخراج کو روکنے کے لیے کیا گیا ہے۔

    انھوں نے کہا گندہ اور صنعتی پانی سمندری ماحولیاتی نظام اور حیات کو مسلسل نقصان پہنچا رہا ہے، سندھ ماحولیاتی تحفظ ایکٹ 2014 کا سیکشن 11 تمام صنعتوں، کاروبار اور دیگر اداروں کو ہوا، پانی اور زمین کی آلودگی سے بچانے کا پابند بناتا ہے، جب کہ سیکشن 21 کے ضوابط کو نافذ کرنے اور عمل نہ کرنے والے لوگوں کے خلاف کارروائی کرنے کا اختیار دیتا ہے۔

    سیپا کے مطابق وہ صنعتیں جو ان ضوابط کی پابندی نہیں کرتیں اور ضروری صفائی کے پلانٹ نصب نہیں کرتیں، قانونی نتائج کا سامنا کریں گی۔

  • سعودی عرب کا اسمارٹ سٹی ماحولیاتی پناہ گاہ بننے کے لیے تیار

    سعودی عرب کا اسمارٹ سٹی ماحولیاتی پناہ گاہ بننے کے لیے تیار

    ریاض: سعودی عرب کے زیر تعمیر اسمارٹ سٹی نیوم کے مجموعی رقبے کا 95 فیصد حصہ ماحولیات و جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے مختص کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

    نیوم الصیلہ میں عربی بارہ سنگھے، عرب صحرائی غزال، پہاڑی غزال اور پہاڑی بکرے کو محفوظ کرنے کے لیے ایک فیسلٹی بھی تیار کرے گا۔

    یہ ریزرو دنیا میں جنگلی حیات کی بحالی کے سب سے بڑے پروگراموں میں سے ایک ہوگا، یہ وزیٹرز کو پودوں اور جنگلی حیات کی ترقی اور بحالی کے لیے نیوم کے پروگراموں کے بارے میں جاننے کی اجازت دے گا۔

    یہ اعلان دوسرے تبوک فورم میں کیا گیا جس کا اہتمام نیوم نے کیا تھا۔

    فورم کے دوران حکام نے مختلف شعبوں میں شروع کرنے والے پروگرامز، جن میں سماجی ذمہ داری، اسپورٹس، سیاحت، میڈیا، کیریئر گائیڈنس منیجمنٹ، انسانی وسائل، معاہدے اور خریداری، مہمان نوازی، تعلیم اور اسکالر شپ شامل ہیں، پر روشنی ڈالی۔

    سعودی عرب نیوم میں دی لائن سٹی جیسے منصوبوں کے ذریعے اپنے عزائم کو بڑھا رہا ہے، یہ شہر 200 میٹر چوڑا، 170 کلومیٹر طویل اور سطح سمندر سے 500 میٹر بلند ہوگا۔

    نیوم کا ڈیزائن زیرو گریویٹی اربنزم کے ایک نئے تصور پر مبنی ہے، رہائشیوں کو شہر میں بغیر کسی رکاوٹ کے تین سمتوں اوپر، نیچے اور دفاتر، اسکولوں، پارکوں اور اس پار تک فوری رسائی فراہم کرنے کے قابل بناتا ہے۔

    دا لائن سٹی سہ جہتی طریقے سے منظم کیا جائے گا، دفاتر، تجارتی مراکز، بنیادی ضروریات فراہم کرنے والے اداروں اور شہریوں کی رہائش کے درمیان کم سے کم فاصلہ رکھا جائے گا۔

    دا لائن کے باشندوں کو کسی بھی مطلوبہ پوائنٹ تک جانے کے لیے پانچ منٹ سے زیادہ نہیں لگیں گے، یہ سڑکوں اور معمول کی مواصلات سے متعلق بنیادی ڈھانچے سے آزاد شہر ہوگا۔

    لائن کا منفرد ماڈیولر ڈیزائن اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ پانچ منٹ کی واک میں تمام سہولتوں تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔

    ایک جدید ڈیزائن کا استعمال کرتے ہوئے جس میں کم سے کم جگہ اور کم پانی کی ضرورت ہوتی ہے، ہائیڈروپونکس باغات روایتی زراعت کے طریقوں کے نصف وقت میں پھل، سبزیاں اور پھول اگائیں گے۔

    نیوم میں کئی میگا پراجیکٹس جاری ہیں جن میں سے ایک تروجینا ہے جو عراقی برطانوی آرکیٹیکٹ زاہا حدید کی جانب سے ڈیزائن کیا گیا ہے۔

    یہ ایک سال بھر کے موسم سرما کے سپورٹس کمپلیکس ہے، یہ گلف کوآپریشن کونسل کے علاقے میں پہلا آؤٹ ڈور سکی ریزورٹ ہوگا جو 2029 میں ایشین ونٹر گیمز کی میزبانی کے لیے تیار ہے۔

  • پارٹی میں غبارے لگانے والوں کے لیے بھارتی اداکارہ کا اہم پیغام

    پارٹی میں غبارے لگانے والوں کے لیے بھارتی اداکارہ کا اہم پیغام

    معروف بھارتی اداکارہ دیا مرزا نے اپنی پارٹیز میں غبارے لگانے والوں کو اہم یاد دہانی کروا دی۔

    دیا مرزا نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ انسٹاگرام پر نئی ویڈیو پوسٹ کی۔

    ویڈیو میں وہ کہہ رہی ہیں کہ لوگ سنگل یوز (ایک دفعہ استعمال کے بعد پھینک دیے جانے والے) پلاسٹک کے بارے میں بات کرتے ہیں، کوئی پارٹی ہو تو اس میں پلاسٹک کا استعمال نہیں کرتے جیسے پلاسٹک کے کپ، پلیٹ اور بیگ وغیرہ۔

    اداکارہ نے کہا کہ لیکن ایسے لوگوں کے لیے ایک یاد دہانی ہے کہ ایسی پارٹی میں غبارے پھر بھی استعمال کیے جاتے ہیں، غبارے بھی پلاسٹک سے بنے ہیں اور یہ ری سائیکل بھی نہیں کیے جاسکے۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Dia Mirza Rekhi (@diamirzaofficial)

    خیال رہے کہ دیا مرزا اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ماحولیات کی خیر سگالی سفیر ہیں اور اکثر و بیشتر ماحولیاتی مسائل سے آگاہی سے متعلق تصاویر اور ویڈیوز شیئر کرتی رہتی ہیں۔

  • دریائے سندھ کی نایاب نابینا ڈولفن کو ہلاک کرنے پہ 5 سال قید کی سزا

    کراچی: صوبہ سندھ کے شہر سکھر کی مقامی عدالت نے دریائے سندھ کی نایاب نابینا ڈولفن کو ہلاک کرنے والے ملزم کو، 5 سال قید اور ڈھائی لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنا دی۔

    تفصیلات کے مطابق سکھر کی سیشن عدالت میں محکمہ جنگلی حیات کی جانب سے دائر کردہ کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا۔

    سنہ 2021 میں منور میرانی نامی شخص کے جال میں نایاب بلائنڈ ڈولفن پھنس کر مر گئی تھی جس کے بعد وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ کی جانب سے ملزم کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

    ایڈیشنل سیشن جج نے جرم ثابت ہونے پر ملزم منور میرانی کو قید اور جرمانے کی سزا سنا دی، ملزم کو بلائنڈ ڈولفن مارنے کے جرم میں 5 سال قید اور ڈھائی لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی ہے۔

    خیال رہے کہ دریائے سندھ کی نابینا ڈولفن جسے سندھی زبان میں بھلن بھی کہا جاتا ہے، دنیا کی نایاب ترین قسم ہے جو صرف دریائے سندھ اور بھارت کے دریائے گنگا میں پائی جاتی ہے۔ یہ ڈولفن قدرتی طور پر اندھی ہوتی ہے اور پانی میں آواز کے سہارے راستہ تلاش کرتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کی ڈولفنز کی نسل میں معمولی سا فرق ہے جس کے باعث انہیں الگ الگ اقسام قرار دیا گیا ہے۔

    نایاب نسل کی نابینا ڈولفن اکثر دریائے سندھ سے راستہ بھول کر نہروں میں آ نکلتی ہیں اور کبھی کبھار پھنس جاتی ہیں۔ اس صورت میں ان کو فوری طور پر نکال کر دریا میں واپس بھیجنا بہت ضروری ہوتا ہے ورنہ ان کی موت یقینی ہو جاتی ہے۔

    راستہ بھولنے اور دیگر خطرات کے باعث اس ڈولفن کو اپنی بقا کا خطرہ لاحق ہے اور ان کی تعداد میں تیزی سے کمی کے باعث عالمی ادارہ تحفظ فطرت (آئی یو سی این) نے اسے معدومی کے خطرے کا شکار جانداروں کی فہرست میں رکھا ہے۔

    ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ دریائے سندھ میں کیمیائی مادوں اور دیگر آلودگی کے ساتھ ساتھ ڈیموں کی تعمیر، ڈولفن کا مچھلیاں پکڑنے کے لیے بچھائے گئے جالوں میں حادثاتی طور پر پھنس جانا، میٹھے پانی کے بہاؤ میں کمی واقع ہونا اور گوشت اور تیل حاصل کرنے کے لیے ڈولفن کا شکار اس کی نسل کو ختم کرنے کا باعث بن رہا ہے۔