Tag: ماحولیاتی آلودگی

  • کیا پنجاب کا نیا اسموگ پلان کارآمد ہوگا؟ ایک تجزیہ

    کیا پنجاب کا نیا اسموگ پلان کارآمد ہوگا؟ ایک تجزیہ

    محمد مشتاق نے حال ہی میں پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں اپنے رکشا سے دھوئیں کے اخراج پر روکے جانے کے بعد 2,000 روپے ( 7.20 امریکی ڈالر) کا جرمانہ ادا کیا۔ پیٹرول پہ چلنے والے اس رکشے کی مرمت پر 12,000 روپے ( 43 امریکی ڈالر) لاگت آئے گی، اس لئے مشتاق نے جرمانے سے بچنے کا ایک اور طریقہ تلاش کیا، وہ کہتے ہیں، ” دھواں صرف اس وقت خارج ہوتا ہے جب میں رفتار تیز کرتا ہوں اور اس طرح پولیس کے ہاتھوں پکڑا جا سکتا ہوں، لہذا، میں کم رفتار پر رکشہ چلاتا ہوں۔”

    "پاکستان کے صوبہ پنجاب میں اسموگ کے خاتمے کے لئے ایک پرعزم روڈ میپ کا آغاز کیا گیا ہے، لیکن ماہرین اس پہ قائل نہیں ہیں”

    سچ کہا جائے تو پاکستان کے سب سے امیر اور گنجان آباد صوبے پنجاب میں آٹو رکشے اسموگ کے مسئلے کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہیں۔ پنجاب کی صوبائی حکومت کی ملکیت میں ایک نجی شعبے کی کمپنی، دی اربن یونٹ کی 2023 کی سیکٹرل ایمیشن انوینٹری آف لاہور کے مطابق، آٹورکشہ کا حصّہ شہر میں 153 گیگا گرام (جی جی) اخراج میں سے صرف 4.24 جی جی ہے، جو کہ 3 فیصد سے بھی کم ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ ٹرانسپورٹ سیکٹر میں ریگولیشن کے نفاذ میں سستی ہے، جو لاہور کے اخراج میں 127.22 جی جی یعنی 83 فیصد کی ذمہ دار ہے۔

    ٹرانسپورٹ کا شعبہ لاہور میں فضائی آلودگی کا سب سے بڑا ذمہ دار ہے
    ٹیک کمپنی آئی کیو ایئر نے 2017 اور 2023 کے درمیان دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں لاہور کو پانچویں نمبر پر رکھا۔ وزیراعلیٰ پنجاب، مریم نواز نے ان بڑے مسائل سے نمٹنے کے لیے اکتوبر کے اوائل میں اسموگ کے خاتمے کے لیے ایک روڈ میپ کا آغاز کیا۔ یہ اعلان اسموگ سیزن کے آغاز پر ہوا، جو فروری تک جاری رہتا ہے۔

    اس سال آلودگی مزید بدتر رہی ہے۔ نومبر کے اوائل میں، جب اسکولوں کو مجبوراً بند کرنا پڑا اور ہنگامی اقدامات نافذ کیے گئے، آئی کیو ایئر نے لاہور کو دنیا کا آلودہ ترین شہر قرار دیا۔

    اسموگ پلان کاغذ کی حد تک اچھا ہے
    نئے روڈ میپ میں فصلوں کی باقیات کو جلانے سمیت صوبے کے ٹرانسپورٹ، صنعت، توانائی اور زراعت جیسے آلودگی کے بڑے ذمہ داروں سے نمٹنے کا دعویٰ کیا گیا ہے، اور ساتھ ہی ماہانہ اہداف متعین کئے گۓ ہیں جو اسموگ کے پورے موسم کے دوران مکمّل کئے جائیں گے۔ ماحولیاتی تحفظ، ٹرانسپورٹ، زراعت، صنعت اور صحت کے محکموں کے ساتھ ساتھ پنجاب ہارٹیکلچر اتھارٹی، مقامی حکومتیں اور ضلعی کمشنر ان اہداف پر عمل کرنے کے پابند ہوں گے۔

    منصوبے میں، فیکٹری مالکان کو صنعتی اخراج سے نمٹنے کے لئے آلودگی پر قابو پانے والے آلات نصب کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ افراد، کمپنیوں، کارپوریٹ اداروں اور صنعتوں کے خلاف اسموگ سے متعلق شکایات کے لئے ایک وقف ہیلپ لائن بھی متعارف کرائی گئی ہے۔ اسموگ سے متعلقہ صحت کے مسائل جیسے کہ فالج، پھیپھڑوں کے کینسر اور دائمی پھیپھڑوں کی بیماریوں کے لیے مخصوص وارڈز، اسموگ کاؤنٹرز اور موبائل ہیلتھ یونٹس قائم کئے جائیں گے۔

    اس منصوبے میں کسانوں کے لئے 5,000 ماحول دوست سپر سیڈرز کو سبسڈی دینے کا بھی وعدہ کیا گیا ہے، جس کی لاگت کا 60 فیصد حکومت برداشت کرے گی۔ سپر سیڈر ایک مشین ہے جو گندم اور کھاد کو چاول کی فصل کی باقیات سے ڈھکے ہوئے کھیتوں میں ڈرل کرنے کے لئے بنائی گئی ہے۔ ایسا کرنے سے اس باقیات کو صاف کرنے کی ضرورت ختم ہوجاتی ہے، جس کو جلانے سے موسم سرما میں فضائی آلودگی بڑھ جاتی ہے۔

    ٹرانسپورٹ سے متعلق آلودگی سے نمٹنے کے لئے، روڈ میپ میں گاڑیوں کی فٹنس سے متعلق سخت چیکس شامل ہیں۔ فٹنس سرٹیفکیٹ کے بغیر کسی بھی گاڑی کو اب پنجاب کی سڑکوں پر چلنے کی اجازت نہیں ہے۔

    ملے جلے تاثرات
    ڈائیلاگ ارتھ نے ملک امین اسلم سے رابطہ کیا، جو 2002-2007 تک وزیر برائے ماحولیات رہے، اور 2018-2022 تک وزیر اعظم کے ماحولیاتی تبدیلی کے مشیر رہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پنجاب حکومت کا زیادہ تر منصوبہ صرف “پچھلے منصوبوں کا اعادہ” ہے جو ان سمیت مختلف حکومتوں نے تجویز کیا تھا۔

    اس حوالے سے پنجاب میں منصوبہ بندی و ترقی، ماحولیات کے تحفظ اور موسمیاتی تبدیلی کی وزیر مریم اورنگزیب ڈائیلاگ ارتھ کو بتاتی ہیں، “پچھلی حکومتوں نے اسموگ پر صرف اس وقت توجہ دی جب اس میں شدت آتی تھی۔ ہم سردیاں شروع ہونے سے پہلے اسموگ کو کم کرنے کے لئے کام کر رہے ہیں۔”

    “ہم انوائرنمنٹ پروٹیکشن اتھارٹی (ای پی اے ) کی اصلاح کر رہے ہیں، 500 اہلکاروں پر مشتمل ایک مضبوط ماحولیاتی تحفظ کا دستہ قائم کر رہے ہیں اور لاہور میں 8 مانیٹرنگ یونٹ شامل کر رہے ہیں، اور اس منصوبے کی حمایت ایک مضبوط قانونی ڈھانچہ کرے گا۔”

    اسلم کہتے ہیں کہ ماضی میں سب سے بڑا چیلنج “فنڈنگ ​​کی کمی” تھا۔ تاہم اس بار، مریم اورنگزیب کا کہنا ہے کہ اس منصوبے میں 10.23 بلین روپے (36.76 ملین امریکی ڈالر) کا نمایاں طور پر بڑا اور مہدف بجٹ ہے۔

    “یہ ایک بہت بڑی رقم ہے، ”اسلم نے اعتراف کیا۔ “میں امید کرتا ہوں کہ یہ ٹھوس اقدامات پر خرچ کیا جائے گا جن کی ضرورت ہے، جیسے ہوا کی نگرانی کے نظام کو مضبوط بنانا، جو ہاٹ سپاٹ کی نشاندہی کرنے اور اس کے مطابق ٹریفک کو منظم کرنے کے لئے ضروری ڈیٹا فراہم کرتے ہیں۔”

    ہوا کے معیار کی نگرانی
    آب و ہوا کے ماہر اور پاکستان کے معروف ماحولیاتی وکیلوں میں سے ایک احمد رافع عالم کا کہنا ہے کہ ایکشن پلان کو مؤثر طریقے سے کام کرنے کے لئے پنجاب کو ہوا کے معیار کا مناسب مطالعہ کرنے اور ڈیٹا کا تجزیہ کرنے کے لئے زیادہ تعداد میں فضائی مانیٹر کی ضرورت ہے۔

    وہ ڈائیلاگ ارتھ کو بتاتے ہیں، ’’اس وقت پنجاب میں پانچ یا چھ ریفرنس مانیٹر ہیں، جو لاہور کے حجم کے شہر کے لیے کافی نہیں ہیں، صوبے کو تو چھوڑ دیں۔”

    پنجاب حکومت نے اس بات پر غور کیا ہے اور اس نے صوبے بھر میں مزید 30 “ایڈوانس” ایئر کوالٹی مانیٹر لگانے کے منصوبے کا اعلان کیا ہے۔

    پاکستان میں سینٹر فار اکنامک ریسرچ کے عثمان حق اور عبداللہ محمود بتاتے ہیں کہ ایئر مانیٹر کا معیار اہم ہے۔ وہ ڈائیلاگ ارتھ کو بتاتے ہیں کہ کنزیومر گریڈ مانیٹر کی حد عام طور پر صرف 20-30 میٹر ہوتی ہے، جبکہ انڈسٹریل گریڈ کے سینسر وسیع اور زیادہ درست ریڈنگ فراہم کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کوریج کے درست اعداد و شمار صوبے کو چھوٹے جغرافیائی اکائیوں میں تقسیم کرنے میں مدد کر سکتے ہیں، جس سے مزید ہدفی کارروائی کی جا سکتی ہے۔

    ناقص عمل درآمد
    لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز میں عمرانیات پڑھانے والے عمیر جاوید کو خدشہ ہے کہ ڈیٹا کو بہتر کرنے کے باوجود اس منصوبے کو ” ناقص عمل درآمد ” سے نقصان گا۔

    جاوید نے مشورہ دیا کہ آلودگی پھیلانے والی صنعتوں کو اپنا رویہ تبدیل کرنے پر مجبور کرنے کے بجائے، حکومتی اداروں نے صارفین کو نشانہ بنانے کے لئے “تعزیتی” اقدامات کئے ہیں، جن کا سیاسی اثر بہت کم ہے اور جو اسموگ کا اصل شکار ہوتے ہیں۔ وہ مزید کہتے ہیں، ” اس سے پتا چلتا ہے کہ کیوں اسکولوں اور ریستوراں کو بند کرنا آسان ہے، لیکن آلودگی پھیلانے والی فیکٹریوں کو نہیں” ۔

    جاوید کا کہنا ہے کہ گاڑیوں کے اخراج کو کنٹرول کرنے میں صوبے کی ناکامی اس کی پالیسیوں کے نفاذ میں کمزوریوں کی نشاندہی کرتی ہے۔ کم معیار کے ایندھن پر پابندی جیسے اسٹریٹجک اقدامات بھی ایکشن پلان سے غائب ہیں۔ جب فضائی آلودگی کی سطح ایک “تباہ کن” ہو گئی تب نومبر کے آغاز میں کم معیار کے ایندھن کے استعمال پر پابندی کے لئے اقدامات کئے گئے۔

    کم معیار کا ایندھن، زیادہ تر یورو 2 اور اسمگل شدہ، ہائی سلفر ہائی سپیڈ ڈیزل، ایک دیرینہ مسئلہ رہا ہے۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل حماد نقی نے مزید کہا، “ہم کم معیار کا ایندھن استعمال کررہے ہیں جس پر بہت سے ممالک میں پابندی ہے۔”

    حکمت عملی اور عمل درآمد سے مطلق چیلنجوں پر بات کرتے ہوئے، ایک توانائی ماہر جس نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی، ڈائیلاگ ارتھ کو بتایا کہ آلودگی پھیلانے والی گاڑیاں اچھے معیار کے ایندھن کو خاطر میں نہیں لاتیں، “پاکستان ایندھن کا تیل درآمد کرتا ہے جو [ای یو کے] یورو 5 معیار پر پورا اترتا ہے، لیکن یہ تجارتی گاڑیوں کے لئے فٹنس سرٹیفکیٹ کے سخت نفاذ کی عدم موجودگی کی وجہ سے مطلوبہ نتائج نہیں دیتا۔”

    ناقص عمل درآمد اور پیچیدہ انفراسٹرکچر کی ایک اور مثال، پنجاب میں گاڑیوں کے معائنہ کے صرف 32 اسٹیشن ہیں، جس کی آبادی 127.7 ملین افراد پر مشتمل ہے اور 24 ملین سے زیادہ گاڑیاں ہیں۔ ٹرانسپورٹ اور ماس ٹرانزٹ ڈپارٹمنٹ کے ایک نمائندے (جنہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی ہے ) کے مطابق، “پچھلے سال، تقریباً 1.2 ملین پبلک سروس گاڑیوں میں سے تقریباً 160,000 گاڑیوں جیسے کہ بسیں، وین، آٹورکشہ اور ٹرک جو ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈیپارٹمنٹ کے پاس رجسٹرڈ ہیں کا معائنہ کیا گیا۔”

    ملک امین اسلم کے مطابق، گاڑیوں کے معائنے کے بارے میں یہ سخت موقف اس وقت تک ” محض مؤقف ہی رہے گا ” جب تک کہ بڑے پیمانے پر، “قابل اعتماد اور شفاف” چیکس میں اضافہ نہیں کیا جاتا۔

    مریم اورنگزیب، تاہم، اس بات پر ثابت قدم ہیں، “اگر بیجنگ اپنی سمت تبدیل کر سکتا ہے، تو ہم بھی کرسکتے ہیں۔” تاہم، وہ بھی تسلیم کرتی ہیں کہ یہ ایک دن یا ایک سال میں نہیں ہوگا، اور یہ کہ یہ ایک طویل لڑائی ہے۔ “ اس میں 8-10 سال لگ سکتے ہیں۔”

    (الیفیہ حسین کی یہ تحریر ڈائلاگ ارتھ پر شایع ہوچکی ہے جس کا لنک یہاں دیا جارہا ہے)

  • سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے ماحولیاتی آلودگی کے تمام کیسز کو یکجا کردیا، 3 ہفتوں میں رپورٹس طلب

    سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے ماحولیاتی آلودگی کے تمام کیسز کو یکجا کردیا، 3 ہفتوں میں رپورٹس طلب

    اسلام آباد : سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے ماحولیاتی آلودگی کے تمام کیسز کو یکجا کرتے ہوئے ماحولیاتی آلودگی خاتمے کے اقدامات پر وفاق اور صوبوں سے تین ہفتوں میں رپورٹس طلب کرلیں ۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں ماحولیاتی آلودگی سےمتعلق کیس کی سماعت ہوئی، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 6 رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی۔

    جسٹس جمال مندوخیل،جسٹس محمد علی مظہر ، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس مسرت ہلالی آئینی بینچ میں شامل ہیں۔

    جسٹس مندوخیل نے کہا آج کل اسموگ بہت بڑا ایشو ہے اسموگ کی وجوہات کیا ہیں اس کے خاتمے کا علاج کیا ہے؟ پنجاب اور اسلام آباد میں دیکھیں کیا حالت ہوگئی ،صوبوں کو ساتھ ملا کر چلیں گےتو ہی کچھ نتیجہ نکلے گا، ملک کو لگنے والی بیماریوں میں آلودگی بھی شامل ہے۔

    جسٹس نعیم افغان کا کہنا تھا کہ آنے والی نسلوں کے ساتھ ہم کیا سلوک کر رہے ہیں ہاوسنگ سوسائٹیز کیلئے زرخیز زمین کو ختم کیا جا رہا ہے زرعی زمینوں پر سوسائٹیز بنائی جارہی ہیں ،لاہور ایک طرف سے واہگہ دوسری طرف سے شیخوپورہ تک پھیل گیا ہے،کاشت ختم ہورہی ہےاور ماحول آلودہ ہو رہا ہے۔

    جسٹس نعیم نے ریمارکس دیئے سوسائٹیز کے بجائے فلیٹس کو فروغ کیوں نہیں دیتے، جوعلاقے زلزلے کی زد میں نہیں آتے وہاں ہائی رائز عمارتیں بنائی جائیں، فلیٹ کلچر کو فروغ دیں لازمی نہیں کہ 6،6 کنال کے بنگلے بنائیں۔

    جسٹس مسرت ہلالی کا بھی کہنا تھا کہ ماحولیاتی ایجنسی کےافسران دفاتر سے نکلتے نہیں، ایجنسی اور قانون کی موجودگی کے باوجود ہاؤسنگ سوسائٹیز کی بھرمار ہے، خیبرپختونخوا میں اسکول کی عمارت کیساتھ ماربل فیکٹریاں ہیں۔

    جسٹس محمد علی مظہر نے کہا اگر عدالت نے ہی ماحولیاتی آلودگی کے معاملات دیکھنا ہیں تو اداروں کی کیا ضرورت؟ کیا عدالت کا کام ہے ادارے کی نگرانی کرے کیا عدالت رپورٹ مانگتی رہے گی تو ہی ادارے کام کریں گے؟ ماحولیاتی تبدیلی اتھارٹی کا چیئرمین کیوں تعینات نہیں ہوسکا؟ چیئرمین تعینات ہوگا تو ہی اتھارٹی فعال ہوگی۔

    جسٹس امین الدین نے کہا صرف کاغذی کارروائی سے کام نہیں چلے گا،عملی اقدامات کریں، آئندہ سماعت پر تفصیلی رپورٹس آجائیں تو مقدمہ نمٹا دیں گے۔

    سپریم کورٹ آئینی بینچ نے ماحولیاتی آلودگی کیسز یکجا کردیے اور ماحولیاتی آلودگی خاتمے کے اقدامات پروفاق اور صوبوں سے رپورٹس طلب کرلیں۔

    جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے ماحولیاتی آلودگی کے اثرات ہمارے سامنے ہیں، پنجاب میں اتنی اسموگ ہے کہ کچھ نظر نہیں آرہا، ہم نے ماحولیات کے تحفظ کیلئے کچھ نہیں کیا۔

    بعد ازاں عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی استدعاپرسماعت تین ہفتوں کیلئے ملتوی کردی۔

  • موسمیاتی تبدیلی اور غلط پالیسیاں پاکستان کو غذائی عدم تحفظ کی طرف دھکیل رہی ہیں

    موسمیاتی تبدیلی اور غلط پالیسیاں پاکستان کو غذائی عدم تحفظ کی طرف دھکیل رہی ہیں

    حکومت کی جانب سے گندم کی خریداری کے کوٹے میں کمی کے بعد پاکستان میں کسان گزشتہ چند ماہ سے احتجاج کر رہے ہیں۔ صوبہ سندھ، اپنی فصل کی ابتدائی پیداوار کے ساتھ، مظاہروں کا مرکز رہا ہے، لیکن تعطل موجودہ سال وہاں گندم کی کٹائی مکمل ہونے کے دو ماہ بعد بھی برقرار ہے۔

    سندھ میں قائم ہاری ویلفیئر ایسوسی ایشن کے صدر اکرم خاصخیلی نے ڈائیلاگ ارتھ کو بتایا، “حکومت نے گندم کی خریداری کا ریٹ طے کیا تھا اور اسے گندم کے تھیلے براہ راست کسانوں کو جاری کرنے تھے، لیکن محکمہ خوراک کے کچھ اہلکار مبینہ طور پر یہ تھیلے کک بیکس کے عوض چھوٹے درجے کے تاجروں (پیڑھی) کو فروخت کر رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں، پیڑھی والے کاشتکاروں سے حکومت کی طرف سے مقرر کردہ 100,000 روپے (360 امریکی ڈالر) فی 100 کلو گرام کے نرخ سے کم نرخوں پر گندم خرید رہے ہیں،” سرکاری خریداری مراکز کو گندم کی پیکنگ اور فروخت کے لئے گندم کے تھیلے جاری کئے جاتے ہیں۔

    حکومتی ناکامیوں اور پہلے سے زیادہ غیر متوقع موسم کے امتزاج سے خوراک کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے جبکہ فصلوں کی پیداوار متاثر ہوئی ہے

    خاصخیلی نے مزید کہا کہ اگر حکومت کی جانب سے صورتحال پر بدانتظامی جاری رہی تو اس سے قیمتی فصلوں کو نقصان پہنچے گا، گندم کی دستیابی کے باوجود غذائی عدم تحفظ مزید بڑھے گا۔

    عام طور پر، حکومت کی طرف سے کم سے کم امدادی قیمت پر پیداوار کے تقریباً 20 فیصد، یا 5.6 ​​ملین ٹن گندم کی بڑی خریداری، خریدار کو کچھ پیداوار کا یقین دلاتی ہے اور مارکیٹ ریٹ مقرر کرنے میں مدد ملتی ہے۔ لیکن موجودہ مسئلہ میں موسمیاتی تبدیلی بھی شامل ہے اور کس طرح یہ پاکستان کے زرعی شعبے کو بحران کی طرف دھکیل رہا ہے۔

    2022 کے سیلاب کے بعد زرعی بحران کے دو سال
    موجودہ بحران جولائی تا ستمبر 2022 کے اونچے درجے کےسیلاب سے جڑا ہے جس میں ملک کے ایک تہائی اضلاع ڈوب گئے۔ بتدریج گرم ہوتے سمندر سمیت بہت سے موسمی عوامل، کی وجہ سے شدید بارشیں ہوئیں، جس نے پاکستان کی 15 فیصد زرعی زمین کو معتدل یا شدید طور پر متاثر کیا۔

    صوبہ سندھ کے ضلع دادو میں جوہی جیسے علاقوں میں اس کا اثر کئی موسموں تک رہا۔ ابتدائی تباہی کے چھ ماہ بعد تک پانی بڑی مقدار میں ٹھہرا رہا۔ ایک بیراج بھی ڈھے گیا تھا، اور دو سال تک فعال نہ ہو سکا۔

    44 سالہ طالب گدیہی اور ان کے بھائیوں، جو اس علاقے میں مل کر 350 ایکڑ (141 ہیکٹر) زرعی اراضی کے مالک ہیں، نے ڈائیلاگ ارتھ کو بتایا کہ ان میں سے اکثر نے دو سالوں میں لگاتار چار موسموں تک اپنی زمین کاشت کرنے کے لئے جدوجہد کی۔

    گدیہی نے کہا کہ بیراج کے تباہ ہونے سے اندازاً 100,000 ایکڑ (40,469 ہیکٹر) متاثر ہوا، اور قابل کاشت زمین بنجر ہو گئی ہے۔ “اس صورتحال کے نتیجے میں علاقے سے بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہوئی ہے،” انہوں نے مزید کہا۔

    بڑھتی ہوئی مہنگائی سے درآمدات بڑھ گئی ہیں
    پاکستان بھر میں اس طرح کے اثرات نے ملک کو 2022 میں گلوبل ہنگر انڈیکس میں 99 ویں نمبر سے 2023 میں 102 ویں نمبر پر لانے میں کردار ادا کیا۔ فوڈ اینڈ ایگریکلچرل آرگنائزیشن کے جنوری 2024 کے تجزیے کے مطابق، غربت کی شرح 2022 میں 34 فیصد سے بڑھ کر 2023 میں 39 فیصد ہو گئی، جس کی بڑی وجہ خوراک کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔ اس سے غریب گھرانوں کی قوت خرید میں مزید کمی آئی۔ انٹیگریٹڈ فوڈ سیکیورٹی فیز کی درجہ بندی کے مطابق، 10 ملین سے زیادہ لوگ “اپریل سے اکتوبر 2023 کے درمیان شدید غذائی عدم تحفظ کی اعلی سطح کا سامنا کر رہے تھے”۔

    گندم ملک کی بنیادی خوراک کا 72 فیصد بنتی ہے، اور غذائی تحفظ اور مہنگائی کے مسائل سے نمٹنے کے لیے نگران حکومت نے 2024 کے قومی انتخابات سے قبل 2023 کے آخر میں گندم درآمد کرنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن ہوا یہ کہ اس وقت تک زرعی شعبہ ٹھیک ہو چکا تھا، اور کسانوں کو معمول سے زیادہ پیداوار کی توقع تھی۔ تاہم، چونکہ حکومت پہلے ہی گندم درآمد کر چکی تھی، اس لئے اب وہ کسانوں سے کم خریدنا چاہتی ہے، جس کی وجہ سے احتجاج شروع ہورہے ہیں۔”

    اسلام آباد میں گلوبل کلائمیٹ چینج امپیکٹ اسٹڈیز سینٹر (جی سی آئی ایس سی) میں زراعت، جنگلات اور زمین کے استعمال کے سیکشن کے سربراہ محمد عارف گوہیر نے مارچ میں احتجاج سے قبل، ڈائیلاگ ارتھ کو گندم درآمد کرنے کے فیصلے کی وضاحت دی کہ یہ استطاعت کا مسئلہ ہے۔ اناج کی درآمد سے گندم کی قیمت میں گراوٹ آئی، ڈان کے مطابق، “3,000 روپے اور 3,100 روپے فی 40 کلوگرام کے درمیان جو کہ 2024-2025 کے سیزن کے لئے مقرر کردہ 3,900 روپے فی 40 کلو گرام کم سے کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) سے نمایاں طور پر کم ہے۔” لیکن اس کی وجہ سے دو سال کی سختی کے بعد اچھی کمائی کی امید رکھنے والے کسانوں کی طرف سے احتجاج شروع ہو گیا ہے۔

    گوہیر نے کہا، “خوراک کی افراط زر اور تحفظ سے نمٹنے کا حتمی حل درست زراعت کو اپنانے اور زیادہ پیداوار دینے والے بیجوں کے استعمال میں مضمر ہے۔”

    لیکن ہاری ویلفیئر ایسوسی ایشن کے خاصخیلی نے بتایا کہ کسانوں کو اس سلسلے میں بہت کم یا کوئی اعانت نہیں ملتی۔ “شروع سے آخر تک، کاشتکار بے بس ہیں،” انہوں نے کہا۔ “کاشتکاروں کو معیاری بیجوں، کھادوں اور کیڑے مار ادویات تک رسائی میں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہ اپنی فصلیں کم نرخوں پر فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔ اس سے فصل کی پیداوار اور غذائی تحفظ متاثر ہوتے ہیں۔”

    بدانتظامی اور موسمیاتی تبدیلیوں سے غذائی تحفظ کو خطرہ
    مظاہرے اور گلوبل ہنگر انڈیکس میں پاکستان کی غیر معمولی درجہ بندی دونوں اس بات کو اجاگر کرتے ہیں کہ پاکستان کی غذائی تحفظ اور سماجی استحکام کے لئے زرعی پالیسیاں کتنی اہم ہیں۔ بنیادی میٹرکس کے لحاظ سے، ملک نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ 1947-48 میں، گندم 3,953 ہیکٹر پر بوئی گئی تھی، جس سے 0.848 ٹن فی ہیکٹر پیداوار پر 3,354 ٹن گندم پیدا ہوا تھا۔ 2022-23 تک پاکستان میں 9,043 ہیکٹر پر گندم کی بوائی گئی، جس کی پیداوار 27,634 ٹن تھی جس کی اوسط پیداوار 3.056 ٹن فی ہیکٹر تھی۔

    لیکن اگرچہ پاکستان اب دنیا میں گندم پیدا کرنے والا 7 واں بڑا ملک ہے، لیکن یہ انڈیکس منڈی کے مطابق گندم کی اوسط پیداوار کے لحاظ سے صرف 38 ویں نمبر پر ہے، جس کی اوسط پیداوار 3 میٹرک ٹن فی ہیکٹر ہے۔ نیوزی لینڈ اس وقت 10 میٹرک ٹن فی ہیکٹر کے حساب سے دنیا میں سب سے زیادہ گندم کی اوسط پیداوار رکھتا ہے۔

    فیڈرل منسٹری فار نیشنل فوڈ سیکورٹی اینڈ ریسرچ کے تحت کلائمیٹ، انرجی اینڈ واٹر ریسورس انسٹی ٹیوٹ (سی ای ڈبلیو آر آئی) کے ڈائریکٹر بشیر احمد کے مطابق، پیداواری صلاحیت کو بڑھانے میں ایک بڑھتا ہوا چیلنج موسمیاتی تبدیلی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ پاکستان کا زرعی شعبہ آبپاشی پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے، جس کا 60-70 فیصد برف پگھلنے اور گلیشیئر پگھلنے سے آتا ہے۔

    ستمبر 2022 میں، ایک کسان پاکستان کے کوئٹہ کے قریب سیلاب سے تباہ شدہ باغ میں سڑے ہوئے سیب جمع کر رہا ہے۔ گرمی کی لہروں اور سیلاب سے بارشوں بدلتے پیٹرن اور برفانی تودوں کے غیر متوقع پگھلنے تک، موسمیاتی تبدیلیاں جنوبی ایشیائی ملک میں کسانوں کے لیے زندگی مشکل بنا رہی ہیں (تصویر بشکریہ ارشد بٹ/الامی)

    احمد نے ڈائیلاگ ارتھ کو بتایا کہ اس کے علاوہ بارش کے بدلتے ہوئے پیٹرن نے پانی کی دستیابی اور ذخیرہ کو متاثر کیا ہے، شدید اور مختصر دورانیے کی بارشیں مٹی کے کٹاؤ کا باعث بنتی ہیں۔ اس نے پوٹھوہار کے علاقے اور ملک کے شمالی حصوں میں بارش پر منحصر زراعت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔

    “مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ بارش کے بدلتے ہوئے پیٹرن کے نتیجے میں مختلف فصلوں پر 6-15 فیصد اثر پڑا ہے، خاص طور پر بارش سے چلنے والی فصلیں جیسے گندم، جس میں 15 فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ اس کمی کا تعلق گرمی کی لہروں اور سیلاب کے اثرات سے نہیں ہے،” احمد نے مزید کہا۔

    احمد نے کہا کہ گلگت بلتستان جیسے سرد علاقوں میں، نارنگی جیسے پھل ٹھنڈ کے ناکافی اوقات کی وجہ سے جلدی تیار ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ، آبپاشی کے لئے پانی کی سپلائی میں کمی نے پنجاب میں زیر زمین پانی پر انحصار بڑھا دیا ہے، جس سے زیر زمین پانی کی سطح کم ہو رہی ہے۔

    حل موجود ہیں، لیکن سوال حکومت کی سپورٹ کا ہے
    ویٹ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ سکرنڈ، سندھ میں زرعی سائنس کے ڈائریکٹر اور ایگریکلچرل سائنٹسٹ ظفر علی کھوکھر تجویز کرتے ہیں کہ مقامی بیج کی اقسام اپنی موجودہ پیداواری صلاحیت کو دوگنا کر سکتی ہیں۔ تاہم، معیاری بیج کی تیاری میں طلب اور رسد کے مسائل برقرار ہیں۔

    کھوکھر نے ڈائیلاگ ارتھ کو بتایا ، “ہمارے ادارے نے 80 من گندم فی ایکڑ (7.43 ٹن فی ہیکٹر) پیدا کرنے والی اقسام تیار کی ہیں، جو مسلسل استعمال سے ثابت ہیں۔ بیج کی ضروری فراہمی کو یقینی بنانا ذمہ دار مینوفیکچررز کے ہاتھوں میں ہے۔ فی الحال، بیج کی کل طلب کا صرف 30 فیصد اعلی پیداوار والے گندم کے بیجوں پر مشتمل ہے، جو حکومتی یا نجی کمپنیاں فراہم کرتے ہیں۔

    عامر حیات بھنڈارا، جنہوں نے 2023 میں زراعت کی پیداوار میں بہتری کے لیے وزیر اعظم کی کمیٹی کے رکن کے طور پر کام کیا، نے اس بات پر زور دیا کہ اب کام کرنے کا وقت آگیا ہے۔ “اگر ماضی کی حکومتیں زراعت کے شعبے میں انتہائی اہمیت کے باوجود جدید تکنیک، ٹیکنالوجی اور انکی کسانوں تک رسائی پر توجہ دینے کو ترجیح نہیں دے سکیں، تو اب وقت آگیا ہے کہ اس پر توجہ دی جائے۔”

    ذوالفقار کنبھر کی یہ رپورٹ ڈائیلاگ ارتھ پر شایع ہوئی تھی جسے یہاں پڑھا جاسکتا ہے

  • فالج کا ’ہیٹ ویو‘ سے کیا تعلق ہے، ماہرین کا بڑا انکشاف

    فالج کا ’ہیٹ ویو‘ سے کیا تعلق ہے، ماہرین کا بڑا انکشاف

    دنیا بھر میں ہونے والی موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے گرمی کی شدت میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے، جس کے نتیجے میں متعدد بیماریوں سمیت فالج کے کیسز زیادہ سامنے آرہے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور اب اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ شدید گرمی میں فالج سے موت کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

    اس حوالے سے برطانیہ میں کی جانے والی ایک تحقیق کے نتائج میں بتایا گیا ہے کہ ہیٹ ویو یا انتہائی سخت گرم موسم میں فالج لاحق ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

    ماضی میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ فالج کا حملہ صرف سردیوں میں ہوتا ہے، لیکن اب ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ  فالج نہ صرف سردیوں بلکہ انتہائی گرمی میں بھی ہوسکتا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق یورپی ماہرین نے جرمنی کے ہسپتال کے ڈیٹا پر یہ تحقیق کی کہ شدید گرمی کے موسم میں فالج ہونے کے کتنے خطرات ہوسکتے ہیں؟

    تحقیق کے دوران محققین نے 15سال کے دوران اسپتال میں زیر علاج مریضوں کے ریکارڈ کا جائزہ لیا، سال 2006 سے 2020تل کے مریضوں کی شرح نکالنے کے بعد بیماریوں کا موسم سے موازنہ کیا گیا۔

    محققین کے سامنے یہ بات آئی کہ فالج کے زیادہ تر کیسز مئی سے اکتوبر یعنی گرمی کے موسم میں ریکارڈ کیے گئے جو دیگر مہینوں کے مقابلے میں 85فیصد زائد ہیں۔

    ماہرین کی ٹیم نے اسپتال کے 15 سالہ ریکارڈ میں جن مریضوں کا معائنہ کیا ان کی اوسط عمر 70سال کے لگ بھگ تھی اور اس میں مرد و خواتین دونوں شامل تھے۔

    تحقیق میں یہ جو نتیجہ سامنے آیا اس کے مطابق شدید گرمی خاص طور پر بڑی عمر کے افراد سمیت خواتین اور بچوں پر بھی فالج کا حملہ ہونے کا امکان ہے۔

    محققین کے مطابق انتہائی سخت گرم موسم میں انسانی جسم میں خون کی ترسیل کا نظام بھی متاثر ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں اور متعدد اقسام کے فالج کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔

    ان کیفیات میں برین ہیمبرج جیسی فالج کی خطرناک قسم بھی شامل ہے، اس میں دماغ کی نس پھٹ جاتی ہے جس سے موت واقع ہونا یقینی ہے۔

    ہیٹ اسٹروک سے کیسے محفوظ رہا جائے؟

    موسم گرما میں زیادہ سے زیادہ گھر میں یا کسی ٹھنڈی جگہ میں رہنے کو ترجیح دیں اگر باہر جانا ضروری ہو تو ہلکے پھلکے کپڑوں کا استعمال کریں جن کا رنگ گہرا نہ ہو، پانی ہر وقت اپنے ساتھ رکھیں۔

    اس کے علاوہ زیادہ سے زیادہ پانی پینا عادت بنائیں یا کم از کم دن بھر میں 8 گلاس پانی، پھلوں کے جوس وغیرہ کا استعمال کریں کیونکہ شدید گرمی سے جسم میں نمک کی سطح کم ہوجاتی ہے۔

  • موسمیاتی تبدیلی جنوبی ایشیا میں فضائی انتشار اور ہوا بازی کے لیے خطرات پیدا کر رہی ہے

    موسمیاتی تبدیلی جنوبی ایشیا میں فضائی انتشار اور ہوا بازی کے لیے خطرات پیدا کر رہی ہے

    اس ہفتے، سنگاپور ایئر لائنز کی ایک پرواز کو موسمیاتی تبدیلی کے باعث میں فضا میں شدید انتشار کا سامنا کرنا پڑا۔ طیارے میں سوار ایک مسافر جنہیں دل کا عارضہ تھا، جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور متعدد دیگر افراد زخمی ہوئے۔ یہ واقعہ فضائی انتشار اور ہوا بازی کو لاحق خطرات کے حوالے سے پے در پے ہونے والے واقعات کے تسلسل میں تازہ ترین تھا جن کے باعث اب دنیا بھر کی توجہ موسمیاتی تبدیلی اور ان کے نتیجے میں فضا میں بڑھنے والے انتشار پر مرکوز ہوگئی ہے۔

    ماہرین بڑھتے ہوئے درجۂ حرارت، کاربن کے اخراج اور فضا میں بڑھتے ہوئے انتشار کے درمیان موجود روابط کو اجاگر کرتے ہیں۔ یہ فضائی انتشار یا بے ترتیبی اگر شدید ہوتو اس کا نتیجہ طیاروں میں سوار افراد کے زخمی ہونے کی صورت میں نکل سکتا ہے۔

    یکم مئی 2022 کو، ممبئی سے کولکتہ جانے والی اسپائس جیٹ کی پرواز کو بھی فضا میں اسی طرح کا انتشار، ہنگامہ آرائی یا بے ترتیبی کا سامنا کرنا پڑا، جس سے متعدد افراد زخمی ہوئے۔ کئی مہینے بعد اس پرواز میں زخمی ہونے والے ایک مسافر کی موت بھی واقع ہو گئی۔ ہیمل دوشی، جو اس اسپائس جیٹ کی پرواز میں سوار تھیں، نے اپنی زندگی کے اس بھیانک تجربے کو یاد کرتے ہوئے بتایا، “اچانک جھٹکے نے ہم سب کو گھبراہٹ میں ڈال دیا۔ میں نے اپنے ساتھ بیٹھی ایک بزرگ خاتون کو پکڑ لیا تاکہ وہ اپنی سیٹ سے گرنے سے بچ سکیں۔“

    اسی طرح، 11 جون 2022 کو، پاکستان کے تجارتی دارالحکومت کراچی سے پشاور جانے والی ایئر بلیو کی پرواز کو بھی غیر متوقع طور پر ہنگامہ آرائی کا سامنا کرنا پڑا، جہاز کو لگنے والے جھٹکے اتنے شدید تھے کہ تمام مسافر دہشت زدہ ہو گئے۔ جہاز میں سوار ایک مسافر نسرین پاشا نے بتایا کہ شدید افراتفری کے عالم میں تمام مسافر باآواز بلند تلاوت اور دعا کر رہے تھے اور گرنے سے بچنے کے لیے ایک دوسرے کو پکڑ رکھا تھا۔ نسرین پاشا نے بتایا، “سب کچھ ٹھیک تھا اور ہم ہموار پرواز اور مہمان نوازی سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ لیکن اچانک، پرواز ناہموار اور شدید جھٹکوں کا شکار ہوگئی۔”

    فضائی انتشار کی سائنسی توجیہ اور اثرات
    اسلام آباد میں مقیم ایک سائنس داں محمد عمر علوی کے مطابق، غیر محفوظ آسمانوں کا سبب انسانوں کی جانب سے پیدا کیا گیا ماحولیاتی بگاڑ ہے۔ “اوسط درجۂ حرارت میں اضافے اور جنگلات کی کٹائی کے باعث، ملک کے بڑے شہروں میں اور ان کے آس پاس کا ماحول مزید غیر مستحکم ہو گیا ہے۔ یہ عمل فضا میں حرارت کے غیر متوقع دھاروں کی تشکیل کا باعث بنتا ہے جس کے نتیجے میں غیر متوقع طور پر فضا میں طیاروں کو ہنگامہ خیزی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، خاص طور پر کراچی اور لاہور جیسے بڑے ہوائی اڈوں کے ارد گر۔” ڈاکٹر عمر علوی نے تفصیل سے بتایا۔

    عالمی سطح پر کیے گئے ایک مطالعے، جس کے نتائج 2019 میں یونیورسٹی آف ریڈنگ کے محکمہ موسمیات کی طرف سے شائع کیے گئے تھے، پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں فضا ئی ٹریفک کو بدترین اثرات کا سامنا ہوسکتا ہے ۔طیاروں کو فضا میں فضائی انتشار یا (clear-air turbulence (CAT) کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے جس کے بدترین اثرات مرتب ہوں گے۔ یہ بھی واضح کیا گیا کہ اس قسم کی شدید فضائی ہنگامہ خیزی بادلوں کے بغیر علاقوں میں واقع ہوتی ہے اور مسافروں کے ساتھ ہوائی جہاز کے ڈھانچے پر بھی بدترین اثرات کا سبب بنتی ہے، لیکن بادلوں کی عدم موجودی کی وجہ سے اس کی پیش گوئی کرنا مشکل ہے۔ اس مطالعے نے یہ بھی واضح کیا کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے بڑھتے ہوئے اخراج کی وجہ سے فضا میں گرم ہوا کے دھاروں کی شدت بڑھتی ہے، جس سے عالمی سطح پر ہوائی ٹریفک کے لیے بے ترتیبی (clear-air turbulence (CAT)) میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں، شمالی بحر اوقیانوس جیسی مصروف فضائی حدود متاثر ہو رہی ہے، جہاں 1979 سے 2020 تک شدید فضائی انتشارمیں 55 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

    پاکستان میٹرولوجیکل ڈپارٹمنٹ کے ایک سینیئر اہلکار سردار سرفراز خان نے کہا، “یہ پیش گوئی (فضائی انتشار) بالائی ماحول یعنی (85 کلومیٹر سے 600 کلومیٹرتک) ہوا کے اعداد و شمار کی بنیاد پر کی جاتی ہے جو ریڈیو سونڈ نامی آلے سے حاصل ہوتے ہیں، جو فضا میں 100 گرام کے غبارے کے ساتھ چھوڑا گیا ہوتا ہے۔

    عام طور پر 30,000 فٹ سے اوپر کی سطح پر بہت تیز ہوا کے ساتھ جیٹ اسٹریم جہازوں کے لیے انتشار کا باعث بنتی ہے۔” انہوں نے مزید کہا، “یہ فضائی انتشار یا بے ترتیبی دراصل صرف حرکت پذیر ہوا ہوتی ہے۔ اور ہوا ریڈار میں استعمال ہونے والی الٹرا ہائی فریکوئنسی ریڈیو لہروں سے شفاف ہے۔ لہذا ریڈار پر اس ہوا کی کوئی بازگشت یا نشان دہی نہیں ہوسکتی ہے۔”

    موسمیاتی تبدیلی سے گہرا تعلق
    سائنس داں، جیسے کہ رگھو مرتگوڈے، جو IIT بمبئی میں موسمیاتی تبدیلیوں کے نصاب کے پروفیسر اور میری لینڈ یونیورسٹی کے ایمریٹس پروفیسر ہیں، وہ موسمیاتی تبدیلی اورفضا میں بڑھتی ہوئی ہنگامہ خیزی کے درمیان تعلق کو اجاگر رہے ہیں۔ “گلوبل وارمنگ کے ساتھ، عمودی درجۂ حرارت (بڑھتی ہوئی بلندی کے ساتھ درجہ ءحرارت میں کمی) اور ونڈ پروفائلز (مختلف بلند سطح پر ہوا کی رفتار کے درمیان تعلق) کیونکہ زمین اضافی توانائی سے چھٹکارا پانے کی کوشش کر رہی ہے جو گرین ہاﺅس گیسوں کی وجہ سے زمین پر موجود ہے۔ فضا میں تیز اوپر اور نیچے کی طرف حرکت اور درجۂ حرارت کی سطح میں بھی اضافہ ہوتا ہے، جس سے فضا میں انتشار یا (Clear-air turbulence) تشکیل پاتا ہے۔”

    IIT کھڑگپور کے آب و ہوا کے ایک ماہر اور ماحولیاتی کیمیا دان جے نرائن کٹی پورتھ نے ڈائیلاگ ارتھ کو بتایا، “انسانی سرگرمیوں سے پیدا ہونے والی گلوبل وارمنگ پوری دنیا میں سطح پرموجود ہوا کے درجۂ حرارت میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔ نتیجتاً، شدید موسمی واقعات بھی متواتر اور تباہ کن طور پر رونما ہوتے ہیں۔ اعداد و شمار کو دیکھتے ہوئے یہ خطرہ موجود رہتا ہے کہ عالمی سطح پر ہوا کے درجۂ حرارت میں ہر فی سینٹی گریڈ اضافے کے ساتھ شمالی نصف کرہ کے موسم بہار اور سرما میں معتدل CAT واقعات میں تقریباً % 9 اور خزاں اور گرما میں % 14 اضافہ ہو جائے گا۔ اگر مستقبل میں گرمی کی شدت میں اضافہ ہوتا ہے، تو CAT واقعات کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوگا۔ انہوں نے ابتدائی انتباہی نظام (Early Warning System) کو بہتر بنانے اور ہوائی جہازوں میں ایسے آلات نصب کرنے پر زور دیا جو ایسے واقعات کا اندازہ لگاسکیں ۔ آئی آئی ٹی بمبئی میں ان موضوعات پر تحقیق جاری ہے۔

    ہندوستان کی ارتھ سائنسز کی وزارت کے سابق سکریٹری مادھون نیر راجیون نے کہا کہ مسافروں کو ہوشیار رہنا ہو گا، “فضائی بے ترتیبی میں اضافہ اور اس سے متعلقہ خطرات، جیسے کہ شدید موسمی واقعات وغیرہ، مسافروں کے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت کو اجاگر کرتے ہیں۔ جب کہ ہوا بازی کے شعبے کا کردار اہم ہے جس میں موسمیاتی تبدیلی کو قبول کیا جاتا ہے، ان مسائل سے نمٹنے کے لیے مشترکہ کوشش بہت اہم ہے، پروازوں کی منسوخی کی مالی لاگت بھی فضائی سفر پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے کے لیے فعال اقدامات کی ضرورت پر زور دیتی ہے۔

    پاکستانی موسمیاتی سائنس داں محمد ایوب خان نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی فضائی صنعت کو متعدد طریقوں سے متاثر کر رہی ہے۔ “انتہائی گرمی طیاروں کو گراؤنڈ رکھ سکتی ہے، جب کہ بڑھتی ہوئی حرارت جیٹ اسٹریمز میں تبدیلی کرسکتی ہے جس سے فضا میں مزید بے ترتیبی اور انتشار ہو سکتا ہے، اس کے نتیجے میں ہوائی اڈے کے کارکنوں کی صحت کے لیے خطرات اور ہوائی اڈے کے بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔”

    جنوبی ایشیا میں ہوا بازی کی پھلتی پھولتی صنعت اور خطرات
    یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب ہوائی سفر کی صنعت خاص طور پر جنوبی ایشیا میں نمایاں طور پر ترقی کر رہی ہے۔ انٹرنیشنل ایئر ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن (آئی اے ٹی اے) کی رپورٹ کے مطابق ہوابازی کی صنعت پاکستان کی قومی جی ڈی پی میں 2 ارب امریکی ڈالرز کا اضافہ کررہی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ غیر ملکی سیاحوں کے خرچ سے ملک کے جی ڈی پی میں مزید 1.3 بلین امریکی ڈالر کا اضافہ ہوتا ہے، جو کل 3.3 بلین امریکی ڈالر بنتے ہیں۔

    رپورٹ میں “موجودہ رجحانات” کے منظر نامے کے تحت اگلے 20 سالوں میں پاکستان میں ہوائی نقل و حمل میں 184 فیصد اضافے کی پیش گوئی بھی کی گئی ہے۔ اس کے نتیجے میں 2038 تک اضافی 22.8 ملین فضائی مسافروں کی آمد و رفت بڑھے گی۔ اگر بہتر انتظام کے ذریعے اس بڑھتی ہوئی طلب سے فائدہ اٹھایا گیا تو جی ڈی پی میں تقریباً 9.3 بلین امریکی ڈالر کا اضافہ ہوگا اور ملک کے لیے تقریباً 786,300 ملازمتیں پیدا ہوں گی۔

    ہندوستان میں، IATA نے اگلے 20 سالوں میں% 262 ترقی کی پیش گوئی کی ہے، جس کا مطلب ہے کہ اس کے نتیجے میں 2037 تک 370.3 ملین مسافروں کے اضافی سفر ہوں گے۔ اگر اس طلب کو پورا کیا جائے، تو اس بڑھتی ہوئی مانگ سے GDP میں تقریباً 126.7 بلین امریکی ڈالرز کا اضافہ ہوگا اور تقریباً 9.1 ملین ملازمتیں شامل ہوں گی۔

    ماحول دوست ہوا بازی کی صنعت
    ہوا بازی کی صنعت کو برسوں سے اس کے بڑھتے ہوئے ماحولیاتی اثرات، خاص طور پر فضا میں کاربن کا اخراج جو فضا میں حرارت میں اضافہ کرتا ہے، کے لیے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ لیکن جرمن ایرو اسپیس سینٹر کے ایک محقق، برنڈ کرچر کی ایک نئی تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ ہوائی جہازوں کا ایک اور ضمنی پروڈکٹ – دھوئیں کی وہ سفید دھاریاں(Contrails) جو وہ آسمان پر پینٹ کرتے ہیں – کی گرمی کا اثر اور بھی شدید ہے، جو 2050 تک تین گنا ہو جائے گا۔

    اس تحقیق میں کہا گیا ہے، “طیارے شفاف، ٹھنڈی ہوا میں اونچے اڑتے ہی اپنے مسحور کن دھاریوں کا اخراج کرتے ہیں جن پر دیکھنے میں خوبصورت بادلوں کا گماں ہوتا ہے ۔ پانی کے بخارات ہوائی جہاز سے اخراج کے بعد ارد گرد ٹھنڈی فضا میں تیزی سے گاڑھے ہونے لگتے ہیں اور ایسے بادلوں کی شکل میں جم جاتے ہیں جن میں برف کے ٹکڑے بھی ہوتے ہیں، جو منٹوں یا گھنٹوں تک رہ سکتے ہیں۔ یہ اونچے اڑنے والے بادل بہت زیادہ سورج کی روشنی کو منعکس کرنے کے لیے پتلے ہونے کے باعث ناموزوں ہوتے ہیں، لیکن ان کے اندر موجود برف کے کرسٹل گرمی کو ٹریپ کر لیتے ہیں۔ نچلے درجے کے بادلوں کے برعکس جو خالص ٹھنڈک کا اثر رکھتے ہیں، یہ متضاد بادل آب و ہوا کو گرم کرتے ہیں۔

    ہوا بازی کے کچھ ماہرین جہازوں سے کاربن کے اخراج کو کم کرنے کے لیے سبز ٹیکنالوجی کے شعبے میں تجربہ کر رہے ہیں، اگراس حوالے سے کامیابی حاصل ہو جاتی ہے تو اس کا نتیجہ فضا میں طیاروں کو لاحق خطرات (CAT) میں کمی کی صورت میں نکل سکتا ہے، جو دراصل کاربن کے اخراج سے وقوع پزیر ہوتے ہیں۔

    سارہ قریشی، ایک پاکستانی پائلٹ اور ایروناٹیکل انجینئر ہیں، جن کا مقصد طیاروں کے پرواز کے دوران خارج ہونے والے سفید دھوئیں (Contrails) کی آلودگی کو کم کرنا اور ہوا بازی کی صنعت کو سر سبز بنانا ہے۔

    سارہ قریشی نے برطانیہ کی کینفیلڈ یونیورسٹی (Canfield University) سے ایرو اسپیس انجینئرنگ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے، انہوں نے ہوائی جہاز کے ماحول دوست انجن بنانے کے لیے ایک ایرو انجن کرافٹ کمپنی قائم کی ہے۔یہ انجن ہوائی جہاز سے خارج ہونے والے پانی کے بخارات کو ٹھنڈا کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے، اس لیے یہ آبی بخارات خارج ہونے کے بجائے پانی کی شکل میں جہاز میں جمع ہوتے رہیں گے اور ضرورت پڑنے پر اس پانی کو خشک سالی والے علاقوں میں بارش کے طور پر چھڑکا جا سکتا ہے۔

    پاکستان سے ہوا بازی کے ماہر محمد حیدر ہارون کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ، “پائیدار ہوا بازی کے ایندھن کی پیداوار میں اضافہ ہونا چاہیے۔ ہائیڈروجن اور بیٹری/ بجلی سے چلنے والے ہوائی جہاز 2030 کی دہائی کے آخر میں عالمی ہوا بازی کو زیادہ موثر بنا سکتے ہیں۔ ایندھن کی بچت کرنے والے ہوائی جہازوں کو عالمی سطح پر جدید ترین ٹیکنالوجی کے ساتھ ایئر لائنز میں شامل کیا جانا چاہیے۔“ ہارون کے مطابق، اپ گریڈ شدہ انجن، بہتر ایرو ڈائنامکس، ہلکے کمپوزٹ میٹریل اور بائیو بیسڈ پائیدار ایوی ایشن فیول سبز ہوابازی کی صنعت کے حل میں سے ایک ہے اور یہ اقدامات ہوا بازی کی صنعت میں انقلاب پیدا کرسکتے ہیں۔

    سارہ قریشی نے کہا کہ”جب ہم آسمان کی طرف دیکھتے ہیں تو وہاں صرف ایک صنعت کام کرتی ہے۔ ہم اس بات پر زیادہ توجہ نہیں دیتے کہ ہم سے ایک کلومیٹر اوپر فضا میں کیا ہو رہا ہے۔ یہ ہوا بازی کی آلودگی ایک کمبل کی طرح ہے جو آہستہ آہستہ زمین کی سطح کو ڈھانپ رہا ہے، اور گلوبل وارمنگ میں اپنا حصہ ڈال رہا ہے۔“

    یہ تحقیقی رپورٹنگ پروجیکٹ ایسٹ ویسٹ سینٹر کے زیر اہتمام ”سرحدوں کے آر پار ٹریننگ ورکشاپ“ کا حصہ ہے، جہاں دونوں ممالک کے صحافی سرحد پار موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے مشترکہ مسائل پر کام کرنے کے لیے اکٹھے ہوئے تھے۔

    (چندرانی سنہا، شبینہ فراز کی یہ رپورٹ ڈائیلاگ ارتھ پر شایع ہوچکی ہے جسے اس لنک کی مدد سے پڑھا جاسکتا ہے)

  • ’’کامن ویلتھ ممالک میں بلو اکانومی کو فروغ دیا جارہا ہے‘‘

    ’’کامن ویلتھ ممالک میں بلو اکانومی کو فروغ دیا جارہا ہے‘‘

    کراچی : پاکستان میں تعینات برطانیہ کی ہائی کمشنر جین میریٹ نے کہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے سنجیدہ بنیادوں پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے،بلو اکانومی کو فروغ دیا جارہا ہے۔

    کراچی میں نمائندہ اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے جین میریٹ کا کہنا تھا کہ پوری دنیا میں موسمی تبدیلی کے اثرات سامنے آرہے ہیں، ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کیلئے سب کو مل کر کردارا ادا کرنا ہوگا۔

    برطانوی ہائی کمشنر  نے کہا کہ برطانوی حکومت کی نئی ماحولیاتی پالیسیاں پاکستان کو نئی سمت مہیا کریں گی۔

    ہائی کمشنر جین میریٹ کا مزید کہنا تھا کہ کامن ویلتھ کے تمام ممالک میں بلو اکانومی کو فروغ دیا جارہا ہے۔

    دبئی میں ہونے والی موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے بونے والی کانفرنس میں کنگ چالز کی سربراہی میں وفد شرکت کرے گا۔

  • ماحولیاتی آلودگی کی حوصلہ شکنی کے لئے انوائر منٹل پروٹیکشن ٹریبونل  نے  بڑا فیصلہ

    ماحولیاتی آلودگی کی حوصلہ شکنی کے لئے انوائر منٹل پروٹیکشن ٹریبونل نے بڑا فیصلہ

    اسلام آباد : انوائرمنٹل پروٹیکشن ٹریبونل نے اسلام آباد میں ماحولیاتی آلودگی پھیلانے والے ٹائرپائرولیسس پلانٹ پر جرمانہ عائد کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق ماحولیاتی آلودگی کی حوصلہ شکنی کے لئے انوائرمنٹل پروٹیکشن ٹریبونل نے بڑا فیصلہ کرتے ہوئے اسلام آباد میں ماحولیاتی آلودگی پھیلانے والےٹائرپائرولیسس پلانٹ پر جرمانہ عائد کردیا۔

    ٹریبونل نے سنگجانی کے نجی پلانٹ پر 1 کروڑ 86 لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا اور پلانٹ کے مالک کو 15دن میں جرمانےکی رقم قومی خزانےمیں جمع کرانے کا حکم دے دیا۔

    انوائرمنٹل پروٹیکشن ٹریبونل نے جرمانہ ادانہ کرنے پرزمین فروخت کرکےرقم وصولی کا حکم دیتے ہوے فیصلے میں کہا کہ انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی نے ٹریبیونل میں شکایت درج کرائی،پلانٹ لگانے سے پہلے انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی سے اجازت نہیں لی گئی۔

    فیصلے میں کہا گیا کہ ایجنسی اور اسلام آباد ہائیکورٹ نے ماحولیاتی آلودگی روکنے کا حکم دیا، ای پی اے اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے احکامات پر عملدرآمد نہیں کیا گیا،ممبر انسپکشن اسلام آباد ہائیکورٹ، ای پی اے ،اسسٹنٹ کمشنر نے رپورٹس جمع کرائیں۔

    فیصلے کے مطابق ٹریبونل کے حکم پر اسسٹنٹ کمشنر صدر نے 6 اکتوبر 2022 کو پلانٹ سیل کیا، پلانٹ دوبارہ فعال ہونے کی عوامی شکایات پر 20 اکتوبر کو دوبارہ سیل کیا گیا، پلانٹ کے مالک اور ملازمین کے خلاف تھانہ ترنول میں مقدمہ درج کیا گیا اور پلانٹ کے مالک نے واضح طور پر اسلام آباد ہائیکورٹ کےاحکامات کی خلاف ورزی کی۔

    پلانٹ مالک خود یا وکیل کے ذریعے ٹریبونل کی کسی سماعت میں شریک نہیں ہوئے، پیروی نہ کرنا قانون اور عدالتی احکامات کو خاطر میں نہ لانے کا واضح ثبوت ہے، ماحولیاتی آلودگی پھیلانے پر قانون کے مطابق 10لاکھ روپے کا جرمانہ عائد کیا جاتا ہے، خلاف ورزی جاری رکھنے پر 20 ہزار روپے روزانہ کی بنیاد پرمزید جرمانہ عائد کیا جاتا ہے۔

  • کیماڑی واقعے کا مقدمہ فیکٹری مالکان کے خلاف درج

    کراچی: کیماڑی آلودگی واقعے کا مقدمہ فیکٹری مالکان کے خلاف درج کر لیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق کیماڑی علی محمد گوٹھ میں مبینہ ماحولیاتی آلودگی سے شہریوں کی موت کے واقعے کا مقدمہ موچکو تھانے میں فیکٹری مالکان کے خلاف درج کر لیا گیا۔

    مقدمہ علی محمد گوٹھ کے رہائشی خادم حسین کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے، جس میں 4 فیکٹری مالکان سمیت دیگر کو نامزد کیا گیا ہے۔

    مقدمے کے متن کے مطابق فیکٹریوں سے مضر صحت دھواں، تعفن اور خاک اڑنے سے ماحولیاتی آلودگی پیدا ہوئی، جو انسانی صحت کے لیے جان لیوا ثابت ہوئی۔

    کراچی: کیماڑی میں پُراسرار بخار سے 16 بچوں سمیت 19 افراد انتقال کر گئے

    درخواست گزار کا کہنا تھا کہ ماحولیاتی آلودگی کے باعث ان کی بیوی، بیٹا اور متعدد دیگر افراد بیمار ہو کر دم توڑ گئے۔

  • ایمسٹرڈیم ایئرپورٹ پر لوگوں‌ نے طیاروں کو اڑان بھرنے سے روک دیا

    ایمسٹرڈیم ایئرپورٹ پر لوگوں‌ نے طیاروں کو اڑان بھرنے سے روک دیا

    ایمسٹرڈیم: ماحولیاتی کارکنوں نے ایمسٹرڈیم ایئرپورٹ پر احتجاجاً طیاروں کے آگے دھرنا دے کر انھیں اڑان سے روک دیا۔

    تفصیلات کے مطابق ایمسٹرڈیم میں ماحولیاتی آلودگی کے لیے کام کرنے والوں نے انوکھا احتجاج کیا، ماحولیاتی آلودگی کے خلاف ہوائی اڈے کے اندر نجی جیٹ طیاروں کو اڑان بھرنے سے روک دیا گیا۔

    ہفتے کے روز سفید اوور پہنے ہوئے سینکڑوں ماحولیاتی کارکنوں نے ایمسٹرڈیم کے شیفول ہوائی اڈے پر نجی جیٹ طیاروں کے حامل علاقے پر دھاوا بول کر دھرنا دیا، مظاہرین نے طیاروں کے پہیوں کے سامنے بیٹھ کر انھیں گھنٹوں تک روانہ ہونے سے روکے رکھا۔

    قومی نشریاتی ادارے کے مطابق صورت حال کو قابو کرنے کے لیے ملٹری پولیس حرکت میں آئی تھی، پولیس کو 100 سے زائد مظاہرین کو گرفتار کر کے بسوں میں لے جاتے ہوئے دیکھا گیا۔

    روئٹرز کے مطابق یہ احتجاج مصر میں COP27 موسمیاتی مذاکرات کے سلسلے میں کیا گیا تھا، جسے گرین پیس نامی تنظیم نے منظم کیا اور جس کے تحت ایئرپورٹس کے اندر اور باہر مظاہرے کیے گئے۔

    گرین پیس نیدرلینڈز مہم کے رہنما ڈیوی زلوچ نے کہا کہ ہم کم پروازیں، زیادہ ٹرینیں اور غیر ضروری مختصر فاصلے کی پروازوں اور نجی جیٹ طیاروں پر پابندی چاہتے ہیں۔

  • سعودی دارالحکومت کو محفوظ رکھنے کے لیے بڑا قدم

    سعودی دارالحکومت کو محفوظ رکھنے کے لیے بڑا قدم

    ریاض: سعودی دارالحکومت ریاض کو ماحولیاتی آلودگی سے محفوظ رکھنے کے لیے شہر میں صفائی کی بڑی مہم چلائی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق ریاض میونسپلٹی کے تحت عید الاضحیٰ کے موقع پر شہر کو ماحولیاتی آلودگی سے صاف رکھنے کے لیے صفائی کی وسیع مہم چلائی گئی۔

    سبق ویب سائٹ کے مطابق میونسپلٹی نے اس مہم کے دوران 1980 دورے کیے، شہر میں تمام سلاٹر ہاؤسز کے علاوہ سبزی منڈی اور بکرا منڈی کے بھی دورے کیے گئے۔

    بلدیہ کے مطابق مہم میں مجموعی طور پر 848 صفائی کارکنوں کی خدمات حاصل کی گئی تھیں، اور شہر بھر میں اسپرے کیا گیا۔

    میونسپلٹی کا کہنا ہے کہ صفائی مہم میں 300 مختلف قسم کے آلات استعمال کیے گئے، اور ریکارڈ وقت میں آلائشیں صاف کی گئیں۔