Tag: ماحولیاتی آلودگی

  • ماحولیاتی آلودگی پھیلانے والی ’بڑی مچھلیاں‘ اب مشکل میں پڑ سکتی ہیں

    ماحولیاتی آلودگی پھیلانے والی ’بڑی مچھلیاں‘ اب مشکل میں پڑ سکتی ہیں

    کراچی: ماحولیاتی آلودگی پھیلانے والی ‘بڑی مچھلیاں’ اب مشکل میں پڑ سکتی ہیں، مختلف قسم کا فضلہ رہائشی علاقوں اور نہروں میں پھینکنے پر اب سخت کارروائی کی جائے گی۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق سندھ حکومت نے صوبے کے اندر گھریلو، صنعتی اور اسپتالوں کا فضلہ رہائشی علاقوں اور نہروں میں پھینکنےوالی بڑی مچھلیوں کے خلاف کارروائی اور ان کو نوٹسز بھیجنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

    سندھ حکومت کے مطابق کراچی میں ٹریٹمنٹ پلانٹ نہ لگانے والی صنعتوں کو پہلے مرحلے پر شوکاز نوٹسز جاری کیے جائیں گے، دوسرے مرحلے پر 30 دن کے بعد ٹریٹمنٹ پلانٹ نہ لگانے والی صنعتوں کو بند کر کے سیل کر دیا جائے گا۔

    صوبائی وزیر برائے ماحولیات، موسمیاتی تبدیلی و ساحلی ترقی اسماعیل راہو نے محکمہ ماحولیات کے متعلق اجلاس کی صدارت کے دوران افسران کو ہدایت کی کہ کارروائیوں کی رپورٹ ماہانہ بنیاد پر جمع کی جائے، چاہے کوئی کتنا بھی طاقت ور کیوں نہ ہو، ماحولیاتی آلودگی پھیلانے والوں کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے گا۔

    انھوں نے کہا کہ اس کچرے اور فضلے کو جلانے سے کئی ماحولیاتی اور صحت کے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔

    ڈی جی سیپا نعیم احمد مغل نے صوبائی وزیر اسماعیل راہو کو بریفنگ میں بتایا کہ سندھ کے اندر صنعتوں میں 200 ٹریٹمنٹ پلانٹ لگ چکے ہیں، مزید 50 کے قریب لگ رہے ہیں، کراچی میں 10 ہزار صنعتوں میں سے 4 ہزار میں ٹریٹمنٹ پلانٹ لگنے ہیں۔

    اسماعیل راہو نے یہ ہدایت بھی کی کہ افسران سڑکوں پر گشت کریں اور دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کو ٹریفک پولیس کے ساتھ مل کر بند کیا جائے، سندھ کے بڑے شہروں کراچی اور حیدر آباد میں پرانی بیٹریاں جلانے والی تمام بھٹیاں مکمل بند کر دی گئی ہیں۔

    اسماعیل راہو کا کہنا تھا کہ کراچی میں ایئر کوالٹی انڈیکس کا 110 جگہوں کا سروے کیا گیا ہے، جس میں کراچی میں ایئر کوالٹی انڈیکس 250 ریکارڈ کیا گیا، جو کافی حد تک خطرناک ہے۔ انھوں نے کہا ڈیفنس، اختر کالونی، پنجاب کالونی اور دیگر علاقوں میں ایئر انڈیکس کوالٹی بہتر ہے، شہری علاقوں کی مین شاہراہوں کے آس پاس پڑی ہوئی مٹی کے اڑنے سے بھی بیماری پھیلتی ہے، متعلقہ ادارے صفائی کو یقینی بنائیں۔

    انھوں نے کہا گھوٹکی اور سانگھڑ میں کاٹن فیکٹریوں سے اڑنے والی ڈسٹ خطرناک ہے، ان کو وارننگ جاری کر دی دی گئی ہے، لاڑکانہ اور دیگر شہروں کے باہر مٹی اڑانے والی 36 رائس ملوں کو وارننگ دی گئی ہے، شہر کے اندر موجود رائس ملوں کو باہر منتقل کرنے اور ڈسٹ کو روکنے کے لیے پلان بنایا جائے، اینٹوں کے بھٹوں کے خلاف بھی سخت کارروائی کی گئی ہے۔

    اسماعیل راہو نے آئندہ اجلاس میں بلدیاتی اداروں، واٹر سیوریج بورڈ، سندھ سالڈ ویسٹ ویسٹ منیجمینٹ، کے ایم سی اور دیگر اداروں کو بھی شریک ہونے کے لیے بلانے کی ہدایت کر دی۔

  • زیر زمین پانی میں‌ جان لیوا اجزا کی موجودگی، لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ جاری

    زیر زمین پانی میں‌ جان لیوا اجزا کی موجودگی، لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ جاری

    لاہور: ہائیکورٹ نے ماحولیاتی آلودگی پر قابونہ پانے کے خلاف درخواستوں پر تحریری فیصلہ جاری کر دیا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق لاہور ہائی کورٹ نے ایک مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنا ریاست کی اوّلین ذمہ داری ہے، حکومت نے آلودگی ختم کرنے کے لیے اقدامات نہیں کیے جو حکومت کی ناکامی ہے۔

    ماحولیاتی آلودگی پر قابو نہ پانے کے خلاف درخواستوں پر جسٹس شاہد کریم نے 53 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنا ریاست کی اوّلین ذمہ داری ہے۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ حکومت نے تحفظ پانی پالیسی کے لیے ٹھوس اقدامات نہیں کیے، فیصلے میں مزید کہا گیا کہ تحفظ پانی پالیسی پر مؤثر عمل درآمد نہ ہونے پر احکامات جاری کیے گئے ہیں۔

    فیصلے کے مطابق زیر زمین پانی آرسینک، آئرن، فلورائیڈ سے آلودہ پایا گیا، زیر زمین پانی کی سطح میں خطرناک حد تک کمی پر واٹر پالیسی پر عمل درآمد کروایا جائے۔

    ماحولیاتی آلودگی سالانہ ڈیڑھ لاکھ اموات کا سبب بن رہی ہے، ہائیکورٹ کے فیصلے میں ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ تیل، کوئلہ جلانے سے سال 2020 میں 70 لاکھ اموات ہوئیں۔

    عدالت نے کہا کہ زیر زمین پانی کا ذخیرہ صرف 25 برس تک کے لیے رہ گیا ہے، پانی ایمرجنسی پالیسی آنے والے نسلوں سے ایک عہد ہے، اس پر عمل کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔

    یاد رہے کہ مئی 2018 میں پاکستان نے ‘واٹر ایمرجنسی’ کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر اس سلسلے میں مؤثر اقدامات نہ کیے گئے تو پانی کی قلت کا بحران ملک کو تباہی کی طرف دھکیل سکتا ہے۔

  • ایران نے جنوبی کوریا کا بحری جہاز پکڑ لیا

    ایران نے جنوبی کوریا کا بحری جہاز پکڑ لیا

    تہران: ایران نے ماحولیاتی آلودگی کے جرم میں جنوبی کوریا کے جھنڈے والا جہاز پکڑ لیا، جب کہ جنوبی کوریا نے ایران سے بحری جہاز فوری طور پر چھوڑنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق ایران کی سپاہ پاسداران انقلاب کی بحریہ نے خلیج فارس میں جنوبی کوریا کا پرچم لگا کر چلنے والی بحری کشتی کو ماحولیات کو آلودہ کرنے کے جرم میں قبضے میں لے لیا ہے۔

    ایران کا کہنا ہے کہ جنوبی کوریا کی کشتی نے عالمی قوانین اور پروٹوکول کی خلاف ورزی کی ہے۔

    پاسداران انقلاب کی بحریہ کی جانب سے یہ کارروائی عالمی قوانین کی خلاف ورزی پر کی گئی، ایران نے جنوبی کورین کشتی پکڑ کر ایک بندرگاہ پر لنگر انداز کر دی ہے۔

    اطلاعات کے مطابق جنوبی کورین کشتی کا نام ہانکوک چیمی ہے جس پر 7 ہزار 200 ٹن کیمیائی تیل لدا ہوا ہے، جب کہ کشتی پر موجود افراد کا تعلق جنوبی کوریا، انڈونیشیا، ویت نام اور میانمار سے بتایا گیا ہے۔

    ایرانی سپاہ نے میری ٹائم آرگنائزیشن کی درخواست اور صوبہ ہرمزگان کے پراسیکیوٹر کے حکم پر کشتی کو پکڑ کر ایرانی بندرگاہ پر لنگر انداز کروا دی۔

    سیئول نے بھی عمان کے سمندر میں ایرانی حکام کے ذریعے جنوبی کوریائی کیمیاوی ٹینکر کے قبضے کی تصدیق کی ہے اور ایران سے اسے فوری طور پر چھوڑنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔

    واضح رہے کہ ایران کی جانب سے یہ کارروائی ایک ایسے وقت ہوئی ہے جب امریکی پابندیوں کی وجہ سے جنوبی کوریائی بینکوں میں ایرانی فنڈز منجمد ہونے پر تہران اور سیئول کے مابین کشیدگی ہے۔

  • زمین، انسان اور موت کی کہانی

    زمین، انسان اور موت کی کہانی

    تحریر: سید امجد حسین بخاری

    کرونا سے متعلق عام رائے یہی ہے کہ یہ وائرس انسانیت کی موت کا پیغام ثابت ہورہا ہے، لیکن غور کریں تو معلوم گا کہ تین ماہ گزرنے کے بعد کرونا وائرس سے ہلاکتوں کی تعداد ایک لاکھ ستر ہزار تک پہنچی ہے۔

    اگر اس تعداد کو دو لاکھ بھی فرض کرلیں تو ماہانہ 67 ہزار جانیں ضایع ہوئیں اور اگر وبا کی شدت برقرار رہتی ہے تو ایک سال کے دوران کم از کم 8 لاکھ افراد اس وائرس کی وجہ سے موت کا شکار ہو سکتے ہیں، لیکن جب ماحولیاتی آلودگی کے مسئلے کی بات کریں تو اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال 70 لاکھ سے زائد افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں جب کہ عالمی معیشت کو سالانہ 50 کھرب ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔ یہی نہیں بلکہ گزشتہ برس کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ صرف آبی آلودگی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بیماریوں کے باعث سالانہ 14 لاکھ انسانی جانیں ضایع ہورہی ہیں۔

    کرونا وائرس سے نمٹنے کے لیے تو کوششیں جاری ہیں، لیکن دنیا بھر میں انسانی جانوں کے لیے سب سے زیادہ خطرہ بننے والی اس "وبا” کو کنٹرول کرنے کے لیے کب کوششیں کی جائیں گی؟

    کرونا وائرس سے پہلے ہی انسان ایسی بیماریوں کا شکار ہیں، جن کا تعلق کسی نہ کسی طرح ماحولیاتی آلودگی سے ہے۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر اس مسئلے پر قابو نہ پایا گیا تو اگلے تیس برسوں میں یعنی 2050 تک اموات کی سب سے بڑی وجہ ماحولیاتی آلودگی ہوگی۔

    زمین کے تحفظ کے لیے دنیا نے 1970 میں کوششوں کا آغاز کیا تھا۔ ان کوششوں کا مقصد یہ تھا کہ انسان کو ماحول کی تباہی سے روکا جائے اور اسی وقت دنیا نے زمین کا عالمی دن منانے کا سلسلہ شروع کیا تھا اور اب ان کوششوں کو پچاس برس مکمل ہوچکے ہیں۔

    اس عرصے میں اگر ماحول کے تحفظ کی انسانی کوششوں کو دیکھا جائے تو مایوسی ہو گی۔ ترقی کے نام پر دنیا بھر میں زمین کو برباد کیا جارہا ہے۔ ترقی کا خواہش مند انسان زمین کے وسائل کا بے دریغ اور بے رحمی سے استعمال کررہا ہے۔ یوں کہہ لیں کہ ہوا میں اڑنے کی خواہش رکھنے والا خود ہی اپنے پَر بھی کاٹ رہا ہے۔

    انسان زمین کے تحفظ کا دعوے دار ہے، وہ خود کو دھرتی کا رکھوالا سمجھتا ہے۔ زمین کے رکھوالے ہی نتائج کی پروا کیے بغیر سمندروں، میدانوں، اور فضا کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ سہولت اور زیادہ منافع کی تلاش میں ہم یہ بھول بیٹھے ہیں کہ انسانوں کو زمین پر زندہ رہنے کے لیے تازہ غذا اور ایک صحت افزا ماحول کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔

    انسان نے ترقی کے لیے صنعتیں لگائیں اور عالمی حدت میں اضافے کا سبب بنا، جس کے نتیجے میں دنیا میں موسمیاتی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ حضرتِ انسان نے اپنی ترقی کے لیے جنگلات کو بھی نہیں بخشا اور پاکستان کی بات کی جائے تو یہاں صرف 4 فی صد رقبے پر جنگلات رہ گئے ہیں۔ اسی طرح رہائشی اور تجارتی مقاصد کے لیے سوچے سمجھے بغیر تعمیرات کے باعث زرعی زمین بھی کم ہوگئی ہے۔

    دنیا ایک بار پھر زمین کا عالمی دن منارہی ہے، یہ دن اس دھرتی سے عہدِ وفا نبھانے کا ہے۔ اس دھرتی سے جس کی چھاتی پر انسان کوئلہ سلگا کر خود بھی جل رہا ہے اور اسے بھی تکلیف دے رہا ہے۔ جس کی مٹی میں انسان بیج بوتا ہے اور اس زمین کی کوکھ سے پودے اگتے ہیں، یہ پودے انسان کی زندگی کو خوشیوں سے بھر دیتے ہیں۔

    آئیے آج عہد کریں کہ ہم اس کرہ ارض کی مرمت کریں گے، اس کے گرد موجود اوزون کی حفاظتی تہ کو مزید مضبوط بنائیں گے۔ اپنی زمین سے وعدہ کریں کہ اس کے سینے پر اب آگ نہیں جلنے دیں گے بلکہ یہاں پھول کھلائیں گے۔ دھوئیں کے بجائے یہاں پھول مہکیں گے۔ اس لاک ڈاؤن کو زمین کی مرمت کا ذریعہ بنائیں، اسے محفوظ بنانے کے لیے اقدامات کریں۔ جان لیں کہ اگر آج ہم نے اپنی دھرتی کو محفوظ نہ بنایا تو ہماری نسلوں کو اس کا خراج ادا کرنا پڑے گا۔

  • بھٹوں کو زگ زیگ ٹیکنالوجی پر منتقل کیا جائے، لاہور ہائی کورٹ

    بھٹوں کو زگ زیگ ٹیکنالوجی پر منتقل کیا جائے، لاہور ہائی کورٹ

    لاہور: لاہور ہائی کورٹ نے اسموگ سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ یہ آنے والی نسلوں کے مستقبل کا معاملہ ہے، معاملے کو سنجیدہ لیا جائے، بھٹوں کو زگ زیگ ٹیکنالوجی پرمنتقل کیا جائے۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائی کورٹ میں نامزد چیف جسٹس مامون رشید شیخ نے اسموگ،ماحولیاتی آلودگی کے خلاف کیس کی سماعت کی۔ عدالت نے سماعت کے دوران اسموگ کے تدارک کے حوالے سے اقدامات کی تفصیلی رپورٹ طلب کر لی۔

    لاہور ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ یہ آنے والی نسلوں کے مستقبل کا معاملہ ہے، معاملے کو سنجیدہ لیا جائے، بھٹوں کو زگ زیگ ٹیکنالوجی پرمنتقل کیا جائے۔

    عدالت نے ریمارکس دیے کہ ماحول دوست گاڑیوں کی ٹیکنالوجی پرعملدرآمد کے لیے کیا اقدامات کیے گئے، دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کے خلاف کیوں کارروائی نہیں کی جا رہی۔

    لاہور ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ ناقص پیٹرول کی فروخت میں ملوث افراد کے خلاف کیا کارروائی کی گئی، عدالت نے شور، دھواں اور ناقص پٹرول کا معاملہ سب کمیٹی کے سامنے رکھنے کا حکم دیا۔

    سرکاری وکیل نے کہا کہ پلاسٹک، ربڑ جلانے کی روک تھام کا نیا قانون لایا جا رہا ہے، عدالت نے استفسار کیا کہ کیا درختوں کی جیو ٹیگنگ ممکن ہے، جس پر سرکاری وکیل نے جواب دیا کہ سیٹلائٹ ٹیکنالوجی کے ذریعے ایسا ممکن ہے۔

    بعدازاں عدالت نے اسموگ کے تدارک کے حوالے سے اقدامات کی تفصیلی رپورٹ طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت ملتوی کر دی۔

  • وزیر اعظم کا 19 بڑے شہروں میں کلین گرین سٹی انڈیکس لانچ کرنے کا اعلان

    وزیر اعظم کا 19 بڑے شہروں میں کلین گرین سٹی انڈیکس لانچ کرنے کا اعلان

    اسلام آباد: وزیر اعظم عمران خان نے 19 بڑے شہروں میں کلین گرین سٹی انڈیکس لانچ کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم عمران خان نے کلین اینڈ گرین پاکستان انڈیکس کا افتتاح کردیا۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ 19 بڑے شہروں میں کلین گرین سٹی انڈیکس لانچ کریں گے، انڈیکس کا مقصد پینے کے صاف پانی کی فراہمی، نکاسی آب کے محفوظ نظام کو یقینی بنانا ہے۔

    وزیر اعظم عمران خان نے ماحولیاتی آلودگی کے خلاف کام کرنے کے بھرپور عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آلودگی خاموش قاتل بن چکی ہے، 35 سال پہلے ہم لاہور کا پانی نلکے سے پیتے تھے، آج لاہور میں سانس تک نہیں لے سکتے۔ لاہور میں آلودگی انتہا کو پہنچ چکی ہے بوڑھے اور بچوں کی زندگیوں کو خطرہ ہے۔

    انہوں نے کہا کہ گزشتہ 10 سالوں میں لاہور سے 70 فیصد درخت کاٹے گئے، ماحولیاتی آلودگی سے بیماریوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔

    وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان ہمارے لیے اللہ کی نعمت ہے، پاکستان میں ہر قسم کا موسم ہے، ہر قسم کا پھل اگ سکتا ہے۔ اللہ نے پاکستان کو قدرتی وسائل سے مالا مال کیا ہے۔ ہم پاکستان کی قدر کریں گے تو سونا اگلے گا۔

    انہوں نے کہا کہ پاکستان دنیا بھر کے لیے سیاحت کا بڑا مرکز بن سکتا ہے۔ ملک تباہ کردیا گیا ہمیں مل کر مسائل کا مقابلہ کرنا ہے۔ گرین چیمپئنز میں تمام طلبہ نے شرکت کرنا ہوگی۔ 19 بڑے شہروں میں کلین گرین سٹی انڈیکس لانچ کریں گے۔ انڈیکس کا مقصد پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور نکاسی آب کے محفوظ نظام کو یقینی بنانا ہے۔

    وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ پنجاب میں بلدیاتی نظام لا رہے ہیں، سندھ میں بھی ترقی بلدیاتی نظام کے بغیر ممکن نہیں۔ بلدیاتی نظام میں پیسہ صوبوں کے ذریعے گاؤں میں منتقل ہوگا۔ گاؤں میں الیکشن ہوں گے، وہ خود فیصلہ کریں گے پیسہ کہاں خرچ کرنا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ نیا پاکستان کے مقصد کو سمجھنے کی ضرورت ہے، نئے پاکستان کا تصور پہلے ذہنوں میں آئے گا، زمین پر بعد میں آئے گا۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم سب مل کر پاکستان کو سرسبز بنائیں۔ ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے پر حکومت کی پوری توجہ ہے، لوگ آہستہ آہستہ ٹیکس دینا شروع کر رہے ہیں پیسہ آ رہا ہے۔ جیسے جیسے پیسہ آئے گا ماحول ٹھیک کرنا ہے، دریاؤں کو صاف کرنا ہے۔

    وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ جو کام اپنی ذات کے لیے کرتے ہیں اس میں اللہ کی برکت نہیں ہوتی۔ انسانوں اور اپنی ذات کے لیے کام دو مختلف نظریے ہیں۔ ذات کی زندگی گرانے والوں سے ملک کو نقصان پہنچ رہا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ گند ڈال کر دریاؤں کو خراب کیا گیا یہ صاف بھی کیے جا سکتے ہیں۔ پہلے لندن میں بھی آلودگی تھی اب اس کی ہوا صاف کردی گئی۔ بچے اور نوجوانوں کو حوصلہ ملے گا تو وہ ماحولیاتی آلودگی میں کردار ادا کریں گے۔ پاکستان کو سرسبز اور صاف بنانے کے لیے سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔

    وزیر اعظم نے مزید کہا کہ پختونخواہ میں 5 سال میں ایک ارب درخت لگائے، ہمیں شہروں میں چن چن کر علاقوں کو سر سبز بنانا ہوگا۔ عوام کو ساتھ ملا کر پاکستان کو صاف اور سرسبز بنائیں گے۔ پاکستان کو ایسا ملک بنائیں گے جس کی مثال دنیا دے گی۔

  • سندھ کا کراچی، پنجاب کا لاہور بھارت کے دہلی سے  بہتر قرار

    سندھ کا کراچی، پنجاب کا لاہور بھارت کے دہلی سے بہتر قرار

    کراچی: ہواؤں میں کتنا زہر بھرا ہے؟ عالمی سطح پر سندھ کے شہر کراچی کو بھارت کے شہر دہلی سے بہتر قرار دے دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق ماحولیاتی آلودگی ناپنے والے انڈیکس میں کراچی آج کا چوتھا آلودہ ترین شہر بتایا گیا ہے، جب کہ فضائی آلودگی پر بھارت کا شہر دہلی پہلے نمبر پر ہے۔

    ایئر کوالٹی انڈیکس کے مطابق کراچی میں زہر آلود فضا کی وجہ سے حد نگاہ بھی متاثر ہے، عالمی انڈیکس میں کراچی میں فضائی آلودگی 177 درجے سے زیادہ ہے، مٹی کے ذرات، گاڑیوں اور فیکٹریوں کا دھواں ہوا میں شامل ہے۔

    عالمی ایئر کوالٹی انڈیکس میں لاہور بھی انڈیا کے شہر دہلی سے بہتر قرار دیا گیا ہے، انڈیکس میں لاہور دوسرے نمبر پر ہے، جب کہ تیسرے نمبر پر ازبکستان کا شہر تاشقند ہے۔

    تازہ ترین:  عالمی سطح پر پاکستان کے لئے ایک اور بڑا اعزاز

    واضح رہے کہ ایئر کوالٹی انڈیکس کے مطابق 150 سے 300 درجے تک فضائی آلودگی انتہائی مضر صحت ہے۔

    ادھر آج پاکستان کو عالمی ماحولیاتی فنڈ کی سربراہی مل گئی ہے، گرین کلائمٹ فنڈ کی سربراہی ملنا ملک کے لیے بڑا اعزاز ہے، سربراہی ملنے سے ماحولیاتی مسائل سے نمٹنے کے لیے مزید فنڈز کا حصول آسان ہو جائے گا۔ اب پاکستان اقوام متحدہ کے زیر انتظام 12 رکنی بورڈ کا سربراہ ہوگا۔

    مشیر ماحولیات ملک امین اسلم کا کہنا تھا کہ عالمی ممالک 100 ارب ڈالر کا فنڈ مختص کریں گے، پاکستان اب تک 140 ملین ڈالرز کا فنڈز لے چکا ہے، سربراہی ملنے سے مزید فنڈز کا حصول آسان ہو جائے گا، پاکستان 10 ارب درخت اگانے کے لیے بھی معاونت حاصل کر سکے گا۔

  • لاہور میں ماحولیاتی آلودگی پر گہری تشویش کا اظہار،27 دسمبر تک رپورٹ طلب

    لاہور میں ماحولیاتی آلودگی پر گہری تشویش کا اظہار،27 دسمبر تک رپورٹ طلب

    لاہور : لاہورہائی کورٹ نے لاہور میں ماحولیاتی آلودگی پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے 27 دسمبر تک واٹر کمیشن سے رپورٹ طلب کر لی اور کہا لاہورمیں آلودگی خطرناک حدتک پہنچ چکی ہے، لگ رہاہے آئندہ دنوں آلودگی بدترین شکل اختیار کر جائے گی۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائی کورٹ میں جسٹس شاہدکریم نے لاہور میں بڑھتی ماحولیاتی آلودگی کے خلاف درخواست پر سماعت کی اور تحریری فیصلہ جاری کیا، جس میں واٹر کمیشن کو ماحولیاتی آلودگی پر 27 دسمبر کو رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا۔

    تحریری فیصلے میں کہا گیا لاہور میں ماحولیاتی آلودگی حالیہ دنوں خطرناک حدتک پہنچ چکی ہے، ایسالگ رہا ہے آئندہ دنوں ماحولیاتی آلودگی بدترین شکل اختیار کر جائے گی، ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر کام کی ضرورت ہے۔

    فیصلے میں کہا گیا بتایا گیا تھا اینٹوں کے بھٹوں کو یکم نومبر سے بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا، ایک عالمی ایجنسی نے لاہور کو آلودہ ترین شہر قرار دے دیا، ڈی جی ماحولیات نے فصلوں کو جلانے کے اقدام کو سموگ کی وجہ اور فیکٹریوں کو بھی ماحولیاتی آلودگی کا سبب قرار دیا۔

    مزید پڑھیں : لاہور میں آلودگی کی بڑی وجہ کیا ؟ فواد چوہدری نے بتادیا

    عدالت کا کہنا ہے ڈی جی ماحولیات نےتسلیم کیاآلودگی پراٹھائےگئےاقدامات ناکافی ہیں، فصلوں کونہ جلانےکےحکم پرعمل کرانامحکمہ زراعت کی ذمہ داری ہے۔

    خیال رہے دنیا میں فضائی آلودگی کے اعتبار سے لاہور دوسرے نمبر پر آگیا، امریکی ائیر کوالٹی انڈیکس کے مطابق فضاء میں گرد کے ذرات (پی ایم 2.5) کی تعداد 35 مائیکرو گرام فی مکعب میٹرسے زیادہ نہیں ہونی چاہیے جبکہ 28ایک موقع پر اکتوبر کو لاہور کی فضاء میں ان ذرات کی تعداد 10 گنا زیادہ پائی گئی۔

    یاد رہے موسم سرما میں پنجاب میں گرد آلود دھند کا سلسلہ جاری رہتا ہے ، ماہر ماحولیات کا کہنا تھا گرد آلود دھند کی بڑی وجہ بھارتی پنجاب بڑی مقدار میں فصلوں کا جلانا اور صنعتوں میں اضافہ ہے۔

  • ماحولیاتی آلودگی سے متعلق کیس کی سماعت گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد تک ملتوی

    ماحولیاتی آلودگی سے متعلق کیس کی سماعت گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد تک ملتوی

    اسلام آباد: سپریم کورٹ میں ماحولیاتی آلودگی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران کمیشن برائے ماحولیات نے رپورٹ جمع کرا دی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں ماحولیاتی آلودگی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ماحولیاتی کمیشن کی جانب سے بتایا گیا کہ وفاق سمیت صوبوں نے اشتراک سے پالیسی پر اتفاق کیا، صوبے ماحولیات پرمشترکہ معیار مقرر کریں گے۔

    ماحولیاتی کمیشن نے بتایا کہ پنجاب میں بھٹوں کے دھویں کا مسئلہ کافی حد تک حل کیا گیا ہے، بھٹے ماحول دوست بنانے پراسٹیٹ بینک 6 فیصد شرح پر قرضے دے رہا ہے۔

    ماحولیاتی کمیشن نے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا کہ ماحولیاتی پالیسی پر گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کو بھی شامل کیا گیا ہے، جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ کیا سفارشات کے لیے قانون سازی کی ضرورت ہے؟۔

    سپریم کورٹ نے استفسار کیا کہ ایڈووکیٹ جنرل آفسز کو سفارشات پرعمل سے متعلق ہدایات ہیں؟ جس پر صوبائی حکومتوں کے وکلا نے بتایا کہ کمیشن سفارشات کے حوالے سے ہمیں کوئی ہدایات نہیں۔

    عدالت عظمیٰ نے کہا کہ اے جی آفسز کی رضامندی کےبغیر سفارشات کوعدالتی حکم کا حصہ نہیں بنایا جاسکتا، جسٹس عظمت سعید نے استفسار کیا کہ فضائی آلودگی کے حوالے سے کیا کچھ ہوا ہے؟۔

    ڈی جی ماحولیات نے بتایا کہ فضائی آلودگی کے حوالے سے سیمینار منعقد کیے گئے ہیں، ہم نے شاپنگ بیگ پر بھی پابندی لگا دی ہے۔

    سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے کہ ماحولیاتی کمیشن کی رپورٹ سپریم کورٹ میں آچکی ہے، چاروں صوبے اور وفاق ماحولیاتی آلودگی کے مسئلے کا حل نکالیں۔

    سپریم کورٹ میں ماحولیاتی آلودگی سے متعلق کیس کی سماعت گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد تک ملتوی کردی۔

  • کراچی کے شہریوں کا فی ہفتہ 5 گرام پلاسٹک کھانے کا انکشاف

    کراچی کے شہریوں کا فی ہفتہ 5 گرام پلاسٹک کھانے کا انکشاف

    کراچی: ایک حالیہ تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ شہرِ قائد کے شہری ایک ہفتے میں 5 گرام پلاسٹک کھاتے ہیں، غذا میں شامل پلاسٹک کے ذرات انسانی زندگی کے لیے جان لیوا بننے لگے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق ڈبلیو ڈبلیو ایف انٹرنیشنل نے پلاسٹک پلوشن کی تازہ تحقیق جاری کر دی ہے، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پلاسٹک کے ذرات انسانی زندگی کے لیے جان لیوا ثابت ہو رہے ہیں۔

    یہ رپورٹ یونی ورسٹی آف نیو کاسل آسٹریلیا کے طلبہ نے عالمی ماحولیات پر تیار کی ہے، رپورٹ کے مطابق کراچی میں پلاسٹک کے بڑھتے ذرات شہریوں کی خوراک کا حصہ بننے لگے ہیں۔

    پلاسٹک کی وجہ سے کراچی کے شہریوں کا غذائی نظام بھی متاثر ہوا ہے، تحقیق کے مطابق ایک ہفتے میں 5 گرام پلاسٹک عام آدمی کی غذا کا حصہ بن رہی ہے، پلاسٹک کی آلودگی سے ہوا، پانی اور مٹی کی کوالٹی بہت متاثر ہے، پلاسٹک کی مقدار مہینے کے اوسطاً 21 گرام اور سال کے 250 گرام کے برابر ہے۔

    ڈبلیو ڈبلیو ایف کا کہنا ہے کہ کلفٹن کے ساحل پر ایک گرام مٹی میں 300 پیس مائیکرو پلاسٹک رپورٹ ہوئے ہیں، تنظیم کے ٹیکنیکل ایڈوائزر معظم خان نے بتایا کہ مائیکرو پلاسٹک سے آبی جانور اور ماحول متاثر ہو رہا ہے۔

    معظم خان نے مزید بتایا کہ ڈبلیو ڈبلیو ایف اس سلسلے میں پاکستان کے 10 شہروں میں آگاہی پروگرام ترتیب دے رہا ہے۔