Tag: ماحولیاتی مسائل

  • رائے: نقصانات اور تباہی کی مالیات کا معاملہ کوپ 29 میں اہمیت کا حامل ہوگا

    رائے: نقصانات اور تباہی کی مالیات کا معاملہ کوپ 29 میں اہمیت کا حامل ہوگا

    علی توقیر شیخ

    مصر میں 2022 میں ہونے والی اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی کانفرنس (کوپ 27) میں نقصان اور تباہی فنڈ کا اعلان پاکستان کے لئے ایک اہم سفارتی کامیابی تھی، اور گزشتہ سال کوپ 28 میں متحدہ عرب امارات میں اس کو باضابطہ شکل دی گئی تھی۔ نقصان اور تباہی موسمیاتی تبدیلی کے ایسے ناقابل تلافی نقصانات کی نشاندہی کرتا ہے جو ماحولیاتی نظام کی موافقت کی صلاحیت سے باہر ہیں۔ یہ پچھلے دو سالوں میں نقصان اور تباہی کی مالیات کا مرکزی نقطہ بن چکا ہے، حالانکہ اسے ابھی مکمل طور پر فعال نہیں کیا جا سکا ہے۔

    افسوس کی بات یہ ہے کہ مختص کئے گئے فنڈز انتہائی ناکافی ہیں، جو تقریباً 700 ملین امریکی ڈالر پر مشتمل ہیں، جبکہ 2030 تک تخمینہ شدہ ضرورت 290 سے 580 بلین امریکی ڈالر کے درمیان ہے۔

    ترقی پذیر ممالک جیسے کہ پاکستان کو نقصان اور تباہی کے مالیاتی ڈھانچے کو سمجھنا چاہیے تاکہ اس کو عملی جامہ پہنایا جا سکے، کیونکہ یہ موضوع آنے والے کوپ اجلاس میں مرکزی حیثیت اختیار کرے گا

    نقصان اور تباہی کے معاملے سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لئے پاکستان جیسے ممالک کو نقصان اور تباہی فنڈ (ایل ڈی ایف) سے پہلے دو بنیادی میکینزمز (کسی سلسلے کے طریقِ عمل) کو سمجھنا ہوگا: وارسا انٹرنیشنل میکینزم (ڈبلیو آئی ایم) اور سینٹیاگو نیٹ ورک۔ یہ تینوں میکینزمز مل کر ترقی پذیر ممالک کو نقصان اور تباہی کا جواب دینے کے قابل بنانے کے لئے بنیادی ڈھانچہ تشکیل دیتے ہیں۔ ڈبلیو آئی ایم اور سینٹیاگو نیٹ ورک مالیاتی ادارے نہیں ہیں۔ وارسا انٹرنیشنل میکینزم ایک رابطہ پلیٹ فارم ہے جو نقصان اور تباہی سے نمٹنے کے طریقوں پر تکنیکی مدد اور رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ دوسری جانب سینٹیاگو نیٹ ورک نقصان اور تباہی سے نمٹنے کی صلاحیت بڑھانے کا ایک اقدام ہے۔ آذربائیجان کے شہر باکو میں کوپ 29میں ہونے والی بات چیت میں اِن کا باہمی تعلق اور متعلقہ سپرد کردہ اِختیارات مرکزی اہمیت کے حامل ہوں گے۔

    وارسا انٹرنیشنل میکینزم، جو 2013 میں قائم کیا گیا تھا، ایک جامع فریم ورک پیش کرتا ہے جس سے سینٹیاگو نیٹ ورک اور نقصان اور تباہی فنڈ دونوں تیار کئے گئے تھے۔ یہ ترقی پذیر ممالک کو موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے مسائل کو سمجھنے اور ان سے نمٹنے میں مددکے لئے مختلف شعبوں پر کام کر رہا ہے اور یہ اِدارہ مندرجہ ذیل پانچ اہم نقصان اور تباہی فنڈ کے شعبوں میں تکنیکی مطالعات کا پیش رو ہے: (1) موسم میں سست روی سے ہونے والی تبدیلی سے رونما ہونے والے واقعات ( 2) غیر اقتصادی نقصانات (3) جامع رسک مینجمنٹ (4) نقل مکانی اور (5) اِقدامات اور اِمداد۔ اِن مطالعات نے کئی طریقہ کار اور رہنما اصولوں کی ترقی میں معاونت کی ہے، جن سے مختلف ماحولیاتی نظاموں میں کمیونٹیز کی قیادت میں چلنے والے منصوبوں کی جانچ اور آزمائش کو ممکن بنایا جا سکا ہے۔

    اِن مطالعات نے شریک ممالک کی تکنیکی صلاحیتوں میں اضافہ کیا ہے، کیونکہ وہ نقصان اور تباہی (موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات) کو موافقت (موسمیاتی تبدیلی کے لئے تیاری اور نمٹنے کے لئے اقدامات) سے الگ کرنے میں مدد کرتے ہیں، یہ ظاہر کرتا ہے کہ کس طرح موسمیاتی تبدیلی کا جدید سائنسی مطالعہ نقصان اور تباہی کو روکنے، کم سے کم کرنے اور حل کرنے سے متعلق پالیسیز بنانے میں مددگار ہوسکتا ہے۔ اس تکنیکی مواد نے نقصان اور تباہی کو موافقت سے الگ کرنے کے عمل کو بھی متحرک کیا ہے تاکہ اقوام متحدہ کے موسمیاتی تبدیلی کے فریم ورک کنونشن کے تحت ایک علیحدہ مالیاتی سلسلہ باآسانی قائم کیا جا سکے۔

    افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان کی کمزور تکنیکی صلاحیت اور وزارتِ اُمورِ خارجہ (جو وارسا انٹرنیشنل میکینزم ایگزیکٹو کمیٹی میں پاکستان کی نمائندگی کرتی ہے) اور وزارت موسمیاتی تبدیلی (ایم او سی سی) جو کہ سانتیاگو نیٹ ورک میں پاکستان کی نمائندگی کرتی ہے کے درمیان ہم آہنگی کے فقدان نے اس کی موثر شمولیت میں رکاوٹیں کھڑی کی ہیں۔ نتیجتاً، ہماری موسمیاتی اور دیگر شعبوں کی پالیسیاں، بشمول نیشنل ڈٹرمنڈ کنٹریبیوشن NDCs اور قومی موافقتی منصوبہ، اِن پانچ اہم شعبوں کی نقصان اور تباہی کی کارروائی سے متاثر نہیں ہو رہی ہیں۔ اس لئے ہو سکتا ہے کہ پاکستان کے منصوبے موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے مسائل سے نمٹنے کے لئے اتنے موثر نہ ہوں۔ پاکستان کی تکنیکی گروپوں سے عدم موجودگی قومی استعداد کار بڑھانے کا ایک موقع پہلے ہی ضائع کر رہی ہے۔

    2019 میں وارسا انٹرنیشنل میکینزم کے تحت قائم کیا گیا سینٹیاگو نیٹ ورک ایک اہم قدم ہے جس کا مقصد خاص طور پر پاکستان جیسے کمزور ممالک کو تکنیکی معاونت فراہم کرنا ہے۔ اس کے دیگر مقاصد میں تکنیکی معاونت کی سہولت فراہم کرنا، ممالک کو متعلقہ تنظیموں، نیٹ ورکس اور ماہرین سے جوڑنا ہے۔ فی الحال، یہ اِدارہ 2022 میں عملی طور پر فعال ہونے کے بعد سے اب تک اپنی سرگرمیوں کو مسلسل بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔

    اپنی تحدیدات کے باوجود، جن میں محدود عملہ اور مالی وسائل شامل ہیں، یہ نیٹ ورک کمزور ممالک کی مدد کے لحاظ سے اہمیت رکھتا ہے تاکہ وہ منفی موسمیاتی اثرات کا سامنا کرنے کے لئے ہدفی تکنیکی معاونت، تبادلہ علم، اور صلاحیت کی تعمیر کے ذریعے کوششیں کر سکیں۔ سینٹیاگو نیٹ ورک کی کوششیں اِن ممالک کی مدد میں زیادہ اہمیت اختیار کریں گی تاکہ وہ نقصان اور تباہی فنڈ سے مؤثر طریقے سے مالی معاونت تک رسائی حاصل کرنے اور اِسے استعمال کرنے کی صلاحیت پیدا کر سکیں۔ یہ سینٹیاگو نیٹ ورک کے کردار کو محض تکنیکی معاونت سے آگے بڑھائے گا۔ مستقبل میں وارسا انٹرنیشنل میکینزم کا عملی کردار کوپ 24 کے بعد سے ایک متنازعہ مسئلہ رہا ہے، جس میں سی او پی / سی ایم اے اختیارات پر بحث اب بھی جاری ہے۔ معاہدے کی اِس کمی نے وارسا انٹرنیشنل میکینزم کے طویل مدتی وژن پر بامعنی پیش رفت کو روک دیا ہے۔

    گزشتہ سال دبئی میں ہونے والی موسمیاتی کانفرنس کوپ28 اِن موسمیاتی مالیاتی میکینزمز کے لئے ایک اہم موڑ ثابت ہوئی۔ سینٹیاگو نیٹ ورک کے لئے، مباحثہ میں اس معاملے پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا کہ اسے کس طرح نقصان اور تباہی فنڈ کے ساتھ مزید مربوط کیا جائے تاکہ تکنیکی امداد سے لے کر مالی مدد تک مسلسل تعاون کو یقینی بنایا جاسکے۔ پاکستان نے کامیابی کے ساتھ نقصان اور تباہی فنڈ اور سینٹیاگو نیٹ ورک دونوں کے اختیاری ڈھانچے میں ایک نشست حاصل کی جس کی نمائندگی نقصان اور تباہی فنڈ میں اِس مصنف نے اور سینٹیاگو نیٹ ورک میں وزارتِ موسمیات کے سکریٹری نے کی۔ وزارتِ موسمیاتی تبدیلی میں افسران کی بار بار تعیناتی اور تبادلوں نے سینٹیاگو نیٹ ورک میں پاکستان کی شرکت کو مزید متاثر کیا ہے۔

    جبکہ وارسا انٹرنیشنل میکینزم جامع فریم ورک کے طور پر کام کرتا ہے، سینٹیاگو نیٹ ورک تکنیکی مدد پر توجہ مرکوز کرتا ہے، اور نقصان اور تباہی فنڈ ٹھوس موسمیاتی اِقدامات کو نافذ کرنے کے لئے درکار مضبوط مالیاتی بنیاد کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ سہ فریقی ڈھانچہ موسمیاتی خطرات سے نمٹنے کے لئے ایک جامع نقطہ نظر کی عکاسی کرتا ہے۔ اِن تینوں میکینزمز کی موجودگی قومی اور بین الاقوامی سطح پر باہمی طور پر متّفق حکمت عملیوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے جس سے ممالک کو اپنی آب و ہوا کی حکمت عملیوں کو ہم آہنگ کرنے اور تینوں شعبوں میں مدد حاصل کرنے کے مواقع ملتے ہیں۔ جیسے جیسے یہ میکینزمز پختہ ہوتے ہیں، وہ اُن ممالک کے درمیان فرق کو ختم کرنے میں مدد کر سکتے ہیں جو موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور جنہیں وسائل کی اَشد ضرورت ہوتی ہے۔

    باکو میں کوپ 29 میں، اِن تین میکینزمز کے مابین باہمی تعامل دوبارہ اُبھرنے کی توقع ہے۔ اہم مباحثوں میں ممکنہ طور پر مدد تک رسائی کے لئے واضح معیارات قائم کرنا اور فیصلہ سازی کے عمل میں شفافیت کو یقینی بنانا شامل ہوگا۔ امکان ہے کہ تینوں میکینزمز کے درمیان زیادہ سے زیادہ انضمام پر زور دیا جائے گا، جس میں دیگر دو میکینزمز کو اسٹریٹجک رہنمائی فراہم کرنے کے لئے وارسا انٹرنیشنل میکینزم کی صلاحیت کو مضبوط بنانے پر توجہ مرکوز کی جائے گی، تاکہ ہم آہنگی کو یقینی بنایا جا سکے اور اِن کے اجتماعی اثرات کو بڑھایا جا سکے۔ اس میں نقصان اور تباہی فنڈ کی مالی امداد کے ساتھ ساتھ سینٹیاگو نیٹ ورک کے ذریعے تکنیکی مدد تک رسائی حاصل کرنے کے لئے ممالک کے لئے لائحہ عمل کو ہموار کرنا شامل ہوسکتا ہے۔ غیر اقتصادی نقصان اور تباہی (این ای ایل ڈی) جیسے شعبوں میں مداخلت کے اثرات کی پیمائش کے لئے ٹھوس طریقہ کار تیار کرنا، اِن میکینزمز کی مدد سے اِن کی قدر کا مظاہرہ کرنے اور جاری تعاون کو برقرار رکھنے کے لئے بہت اہم ہوگا۔

    مزید برآں، سینٹیاگو نیٹ ورک میں شامل شراکت داروں کے نیٹ ورک کو وسعت دینا اور نقصان اور تباہی فنڈ کے لئے مالی وسائل کی نوعیت کو متنوع بنانا، اِن دونوں نکات کو ایجنڈے میں شامل کئے جانے کا امکان ہے۔ اس بات پر زیادہ توجہ دی جاسکتی ہے کہ یہ میکینزمز کس طرح غیر اقتصادی نقصان اور تباہی (این ای ایل ڈی)، جیسے ثقافت اور حیاتیاتی تنوع کے نقصان کو بہتر طریقے سے حل کرسکتے ہیں۔ ایک اور اہم پہلو یہ یقینی بنانا ہے کہ نقصان اور تباہی مالیات (ایل ڈی فنانس) کو نیو کلیکٹو کوانٹیفائیڈ گولز (این سی کیو جیز) میں ضم کیا جائے۔ تاہم، ترقی یافتہ ممالک نے اب تک این سی کیو جی فریم ورک کے اندر کسی مخصوص نقصان اور تباہی مالیاتی اہداف کو شامل کرنے کی مخالفت کی ہے۔

    جیسے جیسے آب و ہوا کے اثرات میں شدت آتی جائے گی، عالمی برادری کی اِن میکینزمز کو چلانے اور ہم آہنگ کرنے کی صلاحیت مشکل ہو جائےگی۔ باکو میں کوپ 29 میں ہونے والے مباحثے نقصان اور تباہی فنڈ کے لئے موسمیاتی مالیات کے مستقبل کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرے گی۔ موسمیاتی تبدیلی کے محاذ پر کام کرنے والوں کو بروقت، موثر اور جامع مدد فراہم کرنے میں اِن میکینزمز کی تاثیر عالمی یکجہتی کے لئے ایک لٹمس ٹیسٹ (حقیقت کی جانچ) کا کام کرے گی۔

    (یہ رپورٹ ڈائلاگ ارتھ پر شایع ہوچکی ہے جسے اس لنک کی مدد سے پڑھا جاسکتا ہے)

  • ‘آب و ہوا کی تبدیلی کے مسائل کے بارے میں سست روی سے کچھ حاصل نہیں ہوگا’

    ‘آب و ہوا کی تبدیلی کے مسائل کے بارے میں سست روی سے کچھ حاصل نہیں ہوگا’

    جب رومینہ خورشید عالم نے اپریل 2024 میں عہدہ سنبھالا تو وہ اس سے وابستہ ذمہ داریوں سے بخوبی واقف تھیں۔ سینیٹر شیری رحمان کی کوپ 27 میں ترقی پذیر ممالک کے لئے نقصان اور تباہی فنڈ قائم کرنے سے متعلق مذاکرات کی تاریخی قیادت اور دیگر پیشروؤں کی اعلیٰ کارکردگی کے ساتھ اس عہدے سے وابستہ توقعات کافی زیادہ ہیں۔ رحمان سے پہلے، سابق وزیر ماحولیات اور معروف موسمیاتی وکیل، ملک امین اسلم، پہلے ہی پاکستان کے موسمیاتی چیلنجز کو عالمی سطح پر پیش کرچکے ہیں۔

    پاکستان نقصان اور تباہی فنڈ کے معاوضے کا منتظر ہے، اس دوران موسمیاتی رابطہ کار رومینہ خورشید عالم نے ڈائیلاگ ارتھ کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں ملک کے موسمیاتی چیلنجوں سے نمٹنے اور کوپ 29 کے حوالے سے تیاری کے بارے میں اپنے وژن پر گفتگو کی

    رومینہ خورشید عالم اپنے پیشروؤں کی طرف سے رکھی گئی بنیادوں کی اہمیت کو تسلیم کرتی ہے اور ساتھ یہ بھی جانتی ہیں کہ آگے ایک طویل سفر ہے۔ نمایاں پیش رفت کے باوجود، پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرے سے دوچار مملک میں سے ایک ہے۔ شدید اور متواتر موسمی واقعات کے ساتھ، قوم کو ایک مشکل جنگ کا سامنا ہے۔ اگرچہ حالیہ مالیاتی بجٹ میں مالی سال 2024-25 کے لئے موسمی طور پر حساس علاقوں کے لئے مختص کئے گئے فنڈز میں اضافہ کیا گیا ہے، لیکن بہت سے چیلنجز بدستور موجود ہیں۔

    کوپ 29 قریب ہے اور ملک ایسے موڑ پر ہے جہاں اسے احتیاط سے منصوبہ بند پالیسیوں اور فیصلہ کن کارروائی کی ضرورت ہے۔

    ڈائیلاگ ارتھ کے ساتھ اپنے انٹرویو میں موسمیاتی رابطہ کار (کلائمیٹ کوآرڈینیٹر) رومینہ خورشید عالم نے اپنے پیشروؤں کو سراہا اور اپنے کیریئر کے سفراوراہداف کا خاکہ پیش کیا۔ وہ اپنا تعارف بطور ایک پر عزم موسمیاتی کارکن کراتی ہیں جوکہ پاکستان کے ماحولیاتی چیلنجوں سے نمٹنے کے کا جذبہ رکھتی ہیں۔

    انہوں نے بتایا، ” میرا تعلق ایک مسیحی گھرانے سے ہے، میں نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز 2005 میں پرائم منسٹر یوتھ پروگرام سے کیا۔ 2008 تک میں مسلم لیگ ن کے گوجرانوالہ چیپٹر کی سیکرٹری جنرل رہی۔ بطور مسیحی اور بعد میں اسلام قبول کرنے کے بعد بھی پارٹی سے میری وابستگی برقرار رہی‘‘۔

    انہوں نے اپنے عہدے کو مؤثر طریقے سے استعمال کرنے کی اہمیت پر زور دیا، “ وزیر اعظم میرے باس ہیں؛ مجھے موسمیاتی چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے اپنا اختیار استعمال کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ طاقت کی تعریف اس کے استعمال میں پوشیدہ ہے۔ میں اپنے اہداف کو جارحانہ طریقے سے حاصل کرنے میں یقین رکھتی ہوں، میرے نزدیک غیر فعالیت سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔”

    ڈائیلاگ ارتھ: آپ نے آب و ہوا کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے اپنا اختیار استعمال کرنے کی بات کی ہے۔ اپنے موجودہ کردار میں آپ کے پاس کس قسم کا اختیار ہے؟ آپ اصل میں کتنی طاقت رکھتی ہیں؟

    رومینہ خورشید عالم: موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی کوآرڈینیشن پر وزیر اعظم کی رابطہ کار کی حیثیت سے، میں نے پاکستان کے ماحولیاتی چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے اہم اقدامات کی قیادت کی ہے۔ میرے کام میں موسمیاتی پالیسیوں کو نافذ کرنا، ماحولیاتی نظم و نسق کو بڑھانا، اور لچکدار منصوبوں کے لیے بین الاقوامی تعاون حاصل کرنا شامل ہے۔ میری توجہ پلاسٹک کے فضلے، پانی کے تحفظ، اور قابل تجدید توانائی کے بارے میں بیداری پیدا کرنے پر بھی مرکوز ہے۔

    تاہم، میرا کردار مشاورت اور سہولت کار کا ہے، ایگزیکٹو نہیں ہے۔ میں اثر و رسوخ استعمال کرسکتی ہوں اور رابطے وضع کرسکتی ہوں لیکن پالیسی کے نفاذ اور وسائل کی تقسیم کے لئے وزارتوں اور محکموں پر انحصار کرتی ہوں۔

    آپ کی توجہ اس وقت کن اہم مسائل پر مرکوز ہے اور کون سے بڑے اقدامات پائپ لائن میں ہیں؟

    ہماری توجہ فعال صوبائی تعاون کے ساتھ، موسمیاتی اثرات کے مقابلے میں پاکستان کی مطابقت بڑھانے کے لئے نیشنل اڈاپٹیشن پلان پر عملدرآمد کی قیادت پرمرکوز ہے۔ کوششوں میں پائیدار ترقی کے لئے موسمیاتی مالیات کو متحرک اور استعمال کرنے کی حکمت عملی تیار کرنا اور کاربن ٹریڈنگ کے لئے ایک فریم ورک کو حتمی شکل دینا شامل ہے تاکہ اخراج کو کم کیا جا سکے اور گرین ماحول دوست ٹیکنالوجی کی حوصلہ افزائی کی جا سکے۔ آلودگی کو روکنے کے لئے پلاسٹک پر پابندی کے ضوابط کو نافذ کرنا بھی ایک ترجیح ہے۔ مزید برآں، ایسے منصوبوں کو آگے بڑھانا جو ماحولیاتی پائیداری کو صنعتی کاموں میں ضم کریں اور عوامی بیداری بڑھانے اور اسٹیک ہولڈرز کو موسمیاتی اقدامات میں شامل کرنے کے لئے میڈیا کی حکمت عملی تیار کرنا اہم اقدامات ہیں۔

    کوپ 29 قریب ہے اور پاکستان کا اس پر کافی انحصار ہے۔ سربراہی اجلاس کے لئے ملک کے بنیادی اہداف کیا ہیں اور آپ انہیں پیش کرنے کی کیا تیاری کررہی ہیں؟

    کوپ 29 کے لئے پاکستان کے اہداف میں موسمیاتی مالیات میں اضافہ یقینی بنانا ہے، خاص طور پر کمزور خطوں میں موافقت اور لچک کے منصوبوں کے لئے۔ ملک کا مقصد اپنے نیشنل اڈاپٹیشن پلان کو فروغ دینا، موسمیاتی تبدیلی سے ہونے والے نقصانات اور تباہی کا ازالہ کرنا اور پائیدار منصوبوں میں سرمایہ کاری راغب کرنے کے لئے کاربن مارکیٹ کی پالیسی کو حتمی شکل دینا ہے۔ ہم محدود افرادی قوت کے باوجود فنڈنگ ​​کی منظوری اور اربوں ڈالرز کے لئے 25 سے 30 پروجیکٹس تیار کر رہے ہیں۔

    بین الاقوامی شراکت داری کو مضبوط بنانا اور موسمیاتی انصاف کی وکالت، بشمول مالیات اور ٹیکنالوجی کی منتقلی میں ترقی پذیر ممالک کے ساتھ منصفانہ سلوک بھی ترجیحات میں شامل ہیں۔

    تیاری میں وزارتوں اور اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ رابطہ، موسمیاتی اثرات پر ڈیٹا اور تحقیق کو مرتب کرنا، اعلیٰ سطح کی سفارت کاری، اور کوپ 29 میں پاکستان کے اہداف کو مؤثر طریقے سے پیش کرنے کےلئے ایک جامع مواصلاتی حکمت عملی تیار کرنا شامل ہے۔

    سابقہ وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی، شیری رحمان نے 2022 کے سیلاب کے بعد نقصان اور تباہی کے فنڈ کی وکالت میں اہم پیش رفت کی۔ کیا پاکستان کو اس اقدام سے کوئی مالی مدد ملی ہے اور موجودہ صورتحال کیا ہے؟

    پاکستان میں 2022 کے تباہ کن سیلاب کے بعد، سابق وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی شیری رحمان نے کوپ 27 میں نقصان اور تباہی کے فنڈ کے قیام کی پرزور اپیل کی۔ اس فنڈ کا مقصد پاکستان جیسے ممالک کی مدد کرنا تھا جو موسمیاتی تبدیلیوں سے غیر متناسب طور پر متاثر ہیں۔

    کوپ 27 کے دوران نقصان اور نقصان کے فنڈ پر باضابطہ طور پر اتفاق کیا گیا، جو ترقی پذیر ممالک کے لیے ایک اہم کامیابی ہے۔ تاہم، فنڈ کو فعالیت کی رفتار سست ہے ،اس کی ساخت، حکمرانی، اور فنڈز تک رسائی کے معیار کے حوالے بات چیت جاری ہے۔ پاکستان، اس پر تیزی سے عملدرآمد کے لئے ان مذاکرات میں فعال طور پر شامل رہا ہے، تاکہ کمزور ممالک کو بروقت امداد مل سکے۔

    پاکستان ان پانچ ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں کا سب سے زیادہ شکار ہیں۔ حکومت موسمیاتی خدشات کو اپنی وسیع تر توانائی، اقتصادی اور مالیاتی پالیسیوں میں کیسے ضم کر رہی ہے؟

    پاکستان چیلنجوں کا سامنا کرنے کے باوجود بتدریج آب و ہوا کے مسائل کو اپنی توانائی، اقتصادی اور مالیاتی پالیسیوں میں ضم کر رہا ہے۔ متبادل اور قابل تجدید توانائی کی پالیسی (2019) کا مقصد 2030 تک 60 فیصد صاف توانائی حاصل کرنا ہے، جس میں شمسی، ہوا اور پن بجلی پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ نیشنل الیکٹرک وہیکلز (ای وی) پالیسی فضائی آلودگی اور معدنی ایندھن پر انحصار کو کم کرنے کے لئے الیکٹرک وہیکلز کے استعمال کو فروغ دیتی ہے۔ گرین فنانسنگ کے اقدامات، جیسے قابل تجدید توانائی کی فنانسنگ اسکیم اور پاکستان کے پہلے گرین بانڈ کا اجراء ، پائیدار توانائی کی سرمایہ کاری کو سپورٹ کرتے ہیں۔

    اقتصادی منصوبہ بندی میں بشمول موسمیاتی کارروائی (ایس ڈی جی 13)، سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گولز شامل ہیں، اور کمزور گروہوں پر موسمیاتی اثرات کو تسلیم کیا گیا ہے، ساتھ ہی نیشنل اڈاپٹیشن پلان (این اے پی ) اور موسمیاتی لچکدار زراعت کے اقدامات ان مسائل کو حل کرتے ہیں۔ احساس پروگرام جیسے سماجی تحفظ کے نیٹ ورک خواتین اور پسماندہ کمیونٹیز میں موسمیاتی اثرات سے پیدا ہونے والی غربت کو کم کرنے پر ہیں۔ محدود وسائل اور نفاذ کے مسائل سمیت چیلنجز برقرار ہیں، لیکن جامع اور مساوی آب و ہوا کی پالیسیوں کے لئے عزم بھی برقرار ہے۔

    فضائی آلودگی سے متعلق پاکستان کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے علاقائی تعاون کتنا اہم ہے اور اس تعاون کو فروغ دینے کے لئے کیا اقدامات کئے جا رہے ہیں؟

    ماحولیاتی چیلنجوں جیسے فضائی آلودگی، ہمالیائی ماحولیاتی نظام کے انتظام، اور آبی وسائل کے مسائل سے نمٹنے کے لئے علاقائی تعاون بہت ضروری ہے۔

    فضائی آلودگی پورے جنوبی ایشیائی خطے کو متاثر کرتی ہے، جس کی نگرانی، ٹیکنالوجی کے اشتراک اور اخراج کے معیارات میں مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ ہمالیائی ماحولیاتی نظام کا انتظام، پانی اور حیاتیاتی تنوع کے لئے اہم ہے، اور مشترکہ تحقیق اور تحفظ کا مطالبہ کرتا ہے۔ قلت اور تنازعات سے نمٹنے کے لیے باہمی تعاون کے ساتھ پانی کے وسائل کا انتظام ضروری ہے۔

    پاکستان علاقائی اقدامات میں فعال طور پر مصروف ہے جیسے ماحولیاتی انتظام کے لئے ساؤتھ ایشیا کوآپریٹو انوائرمنٹ پروگرام (ایس اے سی ای پی) میں شرکت، انڈس واٹر ٹریٹی کے تحت بھارت کے ساتھ بات چیت کا انعقاد کررہا ہے، اور تحقیق اور تعاون کے لئے ہمالین یونیورسٹی کنسورشیم (ایچ یو سی) کا رکن ہے۔ دو طرفہ اور کثیر الجہتی معاہدے بھی ماحولیاتی مسائل میں مددگار ہیں۔ ان تعاون پر مبنی کوششوں کو مضبوط بنانا خطے میں پائیداری اورمطابقت کو یقینی بنانے کے لئے اہم ہے۔

    (یہ تحریر ڈائلاگ ارتھ پر شایع ہوچکی ہے جس کا لنک یہاں دیا جارہا ہے)

  • روئے زمین اور زندگی سے متعلق پریشان کُن حقائق اور انکشافات

    روئے زمین اور زندگی سے متعلق پریشان کُن حقائق اور انکشافات

    تیز رفتار صنعتی ترقی اور تجارتی سرگرمیوں کے ساتھ انسان نے روئے زمین اور اس کے قدرتی ماحول کی طرف سے جو غفلت برتی، اس نے زمین اور اس پر بسنے والی ہر نوع کی مخلوق کو سنگین خطرات سے دوچار کردیا ہے۔ سائنس داں مسلسل خبردار کررہے ہیں کہ اگر انسان نے اپنے اس مسکن کو محفوظ بنانے کی کوشش نہ کی تو اس ہولناک اور بھیانک نتائج سامنے آئیں گے، لیکن عالمی ادارے، ترقی یافتہ اور مال دار ممالک اس مسئلے پر اجلاسوں‌ کے انعقاد اور تقاریر سے آگے بڑھتے نظر نہیں آتے۔

    کیا آپ جانتے ہیں‌ کہ موسمی تغیرات اور یہ ماحولیاتی تبدیلیاں کس نوع کی ہیں اور کیا آپ کو اس مسئلے کی سنگینی کا اندازہ ہے؟

    ماحولیاتی تغیرات سے متعلق یہ حقائق اور ماہرین کے انکشافات پریشان کُن ہیں۔

    اقوامِ متحدہ ایک رپورٹ میں کہا گیا تھاکہ سمندر اور منجمد خطوں کو اس دور میں جتنا نقصان ہو رہا ہے اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا۔

    عالمی ادارے سے وابستہ سائنس دانوں کے مطابق سمندروں کی سطح مسلسل اور تیزی سے بلند ہو رہی ہے، برف پگھل رہی ہے جب کہ انسانوں کی نقل و حرکت کے بڑھ جانے سے بہت سی جنگلی حیات اپنا مسکن تبدیل کرنے پر مجبور ہوگئی ہے۔

    سائنس دانوں‌ کے مطابق سمندروں کا پانی گرم سے گرم تَر ہو رہا ہے اور برفانی خطے تیزی سے پگھل رہے ہیں جس کے اثرات روئے زمین پر بسنے والی ہر مخلوق پر پڑیں گے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ 1970 سے سمندر کے گرم ہونے کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا، اب تک جاری ہے۔ سمندر انسانوں کی سرگرمیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی حدّت کا 90 فی صد جذب کرچکے ہیں اور ان کے گرم ہونے کی رفتار 1993 کے بعد سے دگنی ہو گئی ہے۔

    قطب شمالی اور قطب جنوبی کے برفانی ذخائر 2007 سے 2016 کے درمیان تیزی سے پگھلے ہیں اور یہ سلسلہ اکیسویں صدی میں‌ بھی جاری رہے گا۔

    دنیا کے کچھ علاقوں کے گلیشیئر اس صدی کے تمام ہونے تک 80 فی صد پگھل چکے ہوں گے۔

    سائنس دانوں نے خبردار کیا ہے کہ برف کے پگھلنے سے جو پانی سمندر میں مسلسل داخل ہو رہا ہے، وہ سمندروں کی سطح بلند کررہا ہے اور یہ ساحلی آبادی کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔

    اقوامِ متحدہ سے وابستہ سائنس دان مسلسل خبردار کررہے ہیں‌ کہ سمندروں کے بلند درجہ حرارت کے سبب دنیا کو تباہ کن اور خوف ناک طوفانوں‌ کا سامنا کرنا پڑے گا اور ناگہانی آفات کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ ماہرین کے مطابق اس کے نتیجے میں‌ سمندر سے دور آباد انسانوں کا طرزِ زندگی بھی متاثر ہو گا۔

    کاربن ڈائی آکسائیڈ کے مسلسل اخراج کو زمین کے ماحول کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے ماہرین کہتے ہیں کہ یہ سمندری حیات کے لیے بھی ہلاکت خیز اور تباہ کن ثابت ہورہا ہے۔ سمندری جاندار اپنا ٹھکانہ بدلیں‌ گے۔ آبی جاندار بڑھتی ہوئی آلودگی اور مضرِ صحّت اجزا کے سبب انسانوں کی خوراک بن کر انھیں بیمار کرسکتے ہیں۔

  • کراچی کی بڑھتی آبادی، ماحولیاتی مسائل پر قابو پانا ضروری ہے: وزیرِ اعظم

    کراچی کی بڑھتی آبادی، ماحولیاتی مسائل پر قابو پانا ضروری ہے: وزیرِ اعظم

    کراچی: وزیرِ اعظم عمران خان نے کراچی کے مسائل پر اظہارِ تشویش کرتے ہوئے کہا ہے کہ کراچی کی بڑھتی آبادی اور ماحولیاتی مسائل پر قابو پانا ضروری ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وزیرِ اعظم عمران خان نے کراچی کے مسائل پر اظہارِ تشویش کیا ہے، ایک اعلیٰ سطح اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ کراچی کی بڑھتی آبادی اور ماحولیاتی مسائل پر قابو پانا ضروری ہے۔

    [bs-quote quote=”مسائل کے حل کے لیے وفاق صوبائی حکومت کی مدد کرے گی۔” style=”style-8″ align=”left” author_name=”وزیرِ اعظم عمران خان”][/bs-quote]

    وزیرِ اعظم نے کہا کہ مسلسل کم ہوتے گرین ایریاز کا تحفظ یقینی بنایا جا سکتا ہے، مسائل کے حل کے لیے طویل المدت منصوبہ بندی کی جائے۔

    اجلاس میں گرین لائن منصوبے سمیت کراچی میں وفاقی منصوبوں کا جائزہ لیا گیا، وفاق کے مختلف ترقیاتی منصوبوں پر پیش رفت کا بھی جائزہ لیا گیا۔

    گورنر سندھ عمران اسماعیل اور معاونِ خصوصی افتخار درانی اور ندیم افضل چن بھی اجلاس میں شریک تھے، عمران خان نے کہا کہ سندھ، کراچی میں ترقیاتی منصوبوں سے عوامی مسائل دور کرنا چاہتے ہیں۔

    وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ مسائل کے حل کے لیے وفاق صوبائی حکومت کی مدد کرے گی، منصوبوں کے لیے وفاق، صوبائی حکومت کا مل کر کام کرنا ضروری ہے۔

    یہ بھی پڑھیں: پرانا کراچی واپس آگیا،امید ہے پرانا پاکستان بھی واپس آئے گا‘ مراد علی شاہ

    اجلاس میں گرین لائن منصوبے پر پیش رفت اور اس کی فعالیت کے حوالے سے وزیرِ اعظم کو تفصیلی بریفنگ دی گئی، کراچی پیکج کے تحت دیگر منصوبوں کا بھی جائزہ لیا گیا۔

    وزیرِ اعظم نے کہا کہ بڑے شہروں کے منصوبوں میں ماحولیات کے عنصر کو مدِ نظر رکھا جائے، اس کے لیے لانگ ٹرم منصوبہ بندی ضروری ہے، تاکہ گرین ایریاز کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔