Tag: ماحولیات کی خبریں

  • کلائمٹ چینج اب اسکولوں میں پڑھایا جائے گا

    کلائمٹ چینج اب اسکولوں میں پڑھایا جائے گا

    اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے اسکولوں میں موسموں میں ہونے والے تغیرات یعنی کلائمٹ چینج اور اس کے اثرات کے حوالے سے تعلیم دینے کا فیصلہ کرلیا گیا۔

    یہ اقدام وزارت برائے کلائمٹ چینج اور وزارت تعلیم کی مشترکہ کوششوں سے اٹھایا جارہا ہے جس میں انہیں تحفظ ماحولیات کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں اور کلائمٹ چینج ماہرین کی معاونت حاصل ہے۔

    منصوبے کے تحت وفاقی دارالحکومت کے 400 اسکولوں میں کلائمٹ چینج کے حوالے سے تعلیم دی جائے گی جبکہ مختلف تربیتی ورکشاپس اور ٹریننگز کا بھی انعقاد کیا جائے گا۔

    ترجمان برائے محکمہ کلائمٹ چینج محمد سلیم کا کہنا ہے کہ کلائمٹ چینج کے حوالے سے انسانی رویوں میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے سب سے بہترین جگہ اسکول ہیں جہاں سے اس تبدیلی کا آغاز کیا جاسکتا ہے۔

    محمد سلیم کے مطابق یہ اقدام وزیر اعظم عمران خان کے شروع کیے گئے پروگرام کلین گرین پاکستان موومنٹ کا حصہ ہے۔

    مذکورہ پروگرام کے تحت وفاقی دارالحکومت کے سرکاری اسکولوں میں کلائمٹ چینج، تحفظ ماحولیات، پانی کے بچاؤ اور صفائی ستھرائی کے بارے میں تعلیم دی جائے گی۔ اس پروگرام سے ایک لاکھ کے قریب بچے کلائمٹ چینج کے بارے میں تعلیم حاصل کرسکیں گے۔

    ترجمان کے مطابق مذکورہ پروگرام کو بہت جلد پورے ملک میں شروع کیا جائے گا اور ملک کے تمام اسکولوں میں کلائمٹ چینج کی تعلیم دی جائے گی۔

  • کیا ہوا جب شیر نے کچھوے کا شکار کرنا چاہا؟

    کیا ہوا جب شیر نے کچھوے کا شکار کرنا چاہا؟

    کسی بھی انسان کی زندگی میں تیز رفتاری، اور عقلمندی دو ایسے عوامل ہیں جو اس کی بقا کے ضامن ثابت ہوتے ہیں۔ جب زندگی اور موت کے حالات پیدا ہوتے ہیں تو کوئی بھی ایسا کام کر گزرتا ہے جس کی عام حالات میں اس سے توقع بھی نہیں کی جاسکتی۔

    ایسا ہی کچھ احوال جانوروں کا بھی ہے جو اپنی محدود صلاحیت و عقل میں اپنی بقا کی راہ تلاش کرتے رہتے ہیں۔ جانور انسانوں کی طرح اشرف المخلوقات نہیں لہٰذا قدرت نے انہیں فطری طور پر ایسے اعضا و صلاحیتیں دی ہوئی ہیں جو انہیں مشکل حالات سے بچا سکتی ہیں۔

    ایسا ہی ایک منظر اس وقت دیکھنے میں آیا جب ایک شیر نے اپنے سے کمزور کچھوے کو اپنا نوالہ بنانے کی کوشش کی۔ اپنی سست رفتاری کے لیے مشہور کچھوا بھاگ کر یا چھپ کر اپنی جان کیا بچاتا، ایسے میں خدا کا دیا ہوا ایک تحفہ اس کے کام آگیا۔

    کچھوے نے اپنی ڈھال یعنی سخت خول میں پناہ لے لی۔ شیر نے بہت کوشش کی کہ خول کے اندر سے کچھوے کا منہ پکڑ کر باہر نکالے لیکن سخت خول اس کی راہ کی رکاوٹ بنا رہا۔

    تھک ہار کر شیر نے کچھوے کو، جو اس کے لیے اب ایک پتھر جیسا تھا، پھینکا اور دوسرے شکار کی تلاش میں چل پڑا۔ کچھوے نے کچھ دیر بعد خول سے اپنا منہ اور بازو نکالا اور پھر سے اپنی منزل کی جانب رینگنے لگا۔

  • اربوں پرندوں کی ہلاکت کی وجہ شکاری بلیاں نہیں، تو پھر کون ہے؟

    اربوں پرندوں کی ہلاکت کی وجہ شکاری بلیاں نہیں، تو پھر کون ہے؟

    دنیا بھر میں پرندوں کی ہلاکت میں تشویش ناک اضافہ ہوگیا ہے، ایک تحقیق کے مطابق صرف امریکا اور کینیڈا میں گزشتہ 50 برس میں لگ بھگ 3 ارب کے قریب پرندے ہلاک ہوچکے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ان پرندوں کی ہلاکت کی وجہ شکاری بلیاں یا دیگر جانور نہیں، بلکہ انسانوں کی بنائی ہوئی شیشے کی کھڑکیاں ہیں۔

    ترقی یافتہ ممالک میں بلند و بالا شیشے کی عمارات شاید کسی شہر کی ترقی اور جدت کا ثبوت تو ہوسکتی ہیں، تاہم یہ عمارات معصوم پرندوں کے لیے کسی مقتل سے کم نہیں ہوتیں۔

    پرندے کبھی ان شیشوں کے پار دیکھ کر اسے کھلا ہوا سمجھ کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور کبھی وہ اپنا ہی عکس دیکھ کر تذبذب میں مبتلا ہوجاتے ہیں، نتیجتاً وہ پوری رفتار کے ساتھ آ کر ان شیشوں سے ٹکراتے ہیں اور ہلاک و زخمی ہوجاتے ہیں۔

    ان شیشوں سے ٹکرا کر ہلاک ہونے والے پرندوں کی تعداد سالانہ لاکھوں کروڑوں میں چلی جاتی ہے۔ یہ ہلاکتیں زیادہ تر مہاجر پرندوں کی ہوتی ہے جو اچانک ایک نئے ماحول میں آکر ویسے ہی اجنبیت کا شکار ہوتے ہیں۔

    وہ سستانے کے لیے کسی درخت کو دیکھ کر اس کی جانب لپکتے ہیں لیکن دراصل وہ شیشے پر درخت کا عکس ہوتا ہے اور وہ اس شیشے سے دھڑام سے ٹکرا جاتے ہیں۔

    کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے کچھ طریقے اپنائے جارہے ہیں۔

    سب سے پہلا کام وہاں یہ کیا گیا کہ عمارتوں کی تعمیر میں شیشے کا استعمال کم سے کم کردیا گیا ہے۔ روشنی کے گزر کے لیے عمارتوں کو شیشے سے سجانے کے بجائے کھلا رکھا جارہا ہے۔

    وہاں پر شیشوں پر نشانات بنائے جارہے ہیں جس سے پرندوں کو اندازہ ہوجاتا ہے کہ ان کے سامنے کھلی جگہ نہیں بلکہ ایک دیوار ہے۔

    شیشے کی کھڑکیوں کو ڈھانپنے کے لیے شٹرز اور شیڈز کا استعمال فروغ دیا جارہا ہے تاکہ شیشوں کا عکس پرندوں کو اپنی طرف متوجہ نہ کرے۔

    شیشے کے سامنے اندھیرا کردینا بھی معاون ثابت ہوسکتا ہے تاکہ پرندے روشنی کی جانب نہ لپکیں۔

    ماہرین کے مطابق ان طریقوں کو اپنا کر ایک عمارت جو سالانہ 100 پرندوں کی ہلاکت کا سبب بنتی تھی، اب یہ شرح بے حد کم ہو کر سالانہ ایک یا دو پرندوں کی ہلاکت تک محدود ہوگئی۔

    مزید پڑھیں: شیشے کی کھڑکیوں سے پرندوں کو کیسے بچایا گیا؟

  • کچرے سے آلودہ کراچی کے لیے سنگاپور بہترین مثال

    کچرے سے آلودہ کراچی کے لیے سنگاپور بہترین مثال

    کراچی کے کچرے نے نہ صرف شہریوں بلکہ ارباب اختیار کو بھی پریشان کر رکھا ہے کہ روزانہ پیدا ہونے والے لاکھوں ٹن کچرے کو کیسے اور کہاں ٹھکانے لگایا جائے۔

    نہ صرف کراچی بلکہ کچرے سے پریشان دنیا کے ہر شہر کو اس معاملے میں سنگاپور کے نقش قدم پر چلنا چاہیئے۔

    براعظم ایشیا کا سب سے جدید، ترقی یافتہ اور خوبصورت ترین ملک سنگاپور نہایت چھوٹا سا ملک ہے اور یہاں کچرے کے بڑے بڑے ڈمپنگ پوائنٹس بنانے کی قطعی جگہ نہیں۔

    سنگاپور کی صفائی ستھرائی مغربی ممالک کو بھی پیچھے چھوڑ دیتی ہے، آئیں دیکھتے ہیں کہ سنگاپور اپنے کچرے کو کس طرح ٹھکانے لگاتا ہے۔

    سنگاپور میں روزانہ کی بنیاد پر ہر جگہ سے کچرا اکٹھا کیا جاتا ہے۔ پورے ملک سے اکٹھا کیا جانے والا کچرا ایک بڑی سی عمارت میں لایا جاتا ہے۔

    اس عمارت میں اس کچرے کو جلایا جاتا ہے، یہاں جلنے والی آگ سال کے 365 دن جلتی رہتی ہے، 1000 ڈگری سیلسیئس پر جلنے والی یہ آگ سب کچھ جلا دیتی ہے۔

    کچرے جلانے کے اس عمل سے بجلی پیدا کی جاتی ہے، یہ عمارت سنگاپور میں توانائی پیدا کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔

    اور سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ اس عمارت سے نکلنے والا دھواں ماحول کو ذرہ برابر بھی نقصان نہیں پہنچاتا۔

    دراصل اس عمارت میں صرف مزدور یا کاریگر موجود نہیں ہوتے جو آگ جلا کر کچرا اس میں پھینک دیں، یہاں سائنسدان اور اپنے شعبے کے ماہرین موجود ہوتے ہیں جو اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ یہاں سے نکلنے والا دھواں صاف ستھرا ہو۔

    زہریلے دھوئیں کو صاف یا فلٹر کرنے کا عمل جدید سائنسی بنیادوں پر استوار اور نہایت پیچیدہ ہے، اور اس مشکل عمل کے بعد اس عمارت کی چمنیوں سے خارج سے ہونے والی ہوا بالکل صاف ستھری ہوتی ہے۔

    اس عمارت میں 90 فیصد کچرا جل کر غائب ہوجاتا ہے، صرف 10 فیصد راکھ کی صورت میں باقی رہ جاتا ہے۔ اس راکھ کو دور دراز واقع انسانی ہاتھوں سے بنائے گئے ایک جزیرے پر لے جایا جاتا ہے اور پانی میں ڈال دیا جاتا ہے۔

    یہ پانی سمندر اور دریاؤں سے بالکل الگ تھلگ ہے لہٰذا اس میں ڈالی جانے والی راکھ یہیں رہتی ہے۔

    سنگاپور کی اس حکمت عملی سے وہ پلاسٹک جسے غائب ہونے میں 500 برس لگتے ہیں، 1 دن میں غائب ہوجاتا ہے۔

    اور یہ سارا عمل اس قدر صاف ستھرا ہے کہ سنگاپور کا قدرتی ماحول اور حسن برقرار ہے، جنگلی و آبی حیات اور نباتات تیزی سے نشونما پا رہے ہیں اور جنگل سرسبز ہیں۔

  • بغیر دھاریوں والا انوکھا زیبرا

    بغیر دھاریوں والا انوکھا زیبرا

    دھاری دار جسم کا حامل زیبرا براعظم افریقہ میں پایا جاتا ہے، حال ہی میں ایک انوکھے زیبرا کو کیمرے نے عکسبند کیا جسے دیکھ کر ماہرین خوشگوار حیرت میں پڑ گئے۔

    کینیا کے ایک ریزرو میں دیکھا جانے والا یہ ننھا زیبرا اپنے خاندان کے دیگر زیبروں سے کچھ مختلف ہے۔ اس کے جسم پر سیاہ و سفید دھاریوں کے بجائے سفید دھبے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق زیبرے کے جسم کی یہ انفرادیت ایک نایاب جینیاتی بگاڑ میلینزم کی وجہ سے ہے۔

    ہم دیکھتے ہیں کہ انسانوں میں البانزم (یا برص) کا مرض موجود ہوتا ہے۔ یہ مرض انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں کو بھی لاحق ہوجاتا ہے۔ اس مرض میں جسم کو رنگ دینے والے عناصر جنہیں پگمنٹس کہا جاتا ہے کم ہوجاتے ہیں، جس کے بعد جسم کا قدرتی رنگ بہت ہلکا ہوجاتا ہے۔

    اس مرض کا شکار انسان یا جانور سفید رنگت کے حامل ہوتے ہیں۔

    اس کے برعکس میلینزم میں رنگ دینے والے پگمنٹس نہایت فعال ہوتے ہیں جس کے باعث یا تو جسم پر گہرے یا سیاہ رنگ کے دھبے پڑجاتے ہیں، یا پھر پورا جسم سیاہ ہوجاتا ہے۔

    البانزم کی نسبت میلینزم نایاب ترین مرض ہے اور اس کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ زیبرا اس بگاڑ کے باعث نہایت انفرادیت کا حامل ہے اور یہ اس طرح کا، اب تک دیکھا جانے والا واحد زیبرا ہے۔

  • خوبصورت دکھنے والا یہ جاندار نہایت خطرناک ہوسکتا ہے

    خوبصورت دکھنے والا یہ جاندار نہایت خطرناک ہوسکتا ہے

    ہمارے سمندروں میں مختلف اقسام کے جاندار پائے جاتے ہیں، کچھ جاندار انسانوں اور دیگر جانداروں کے دوست ہوتے ہیں اور کچھ ان کے لیے خطرناک۔ پرتگیز مین آف وار نامی جاندار کا شمار بھی سخت خطرناک جانوروں میں ہوتا ہے۔

    یہ رنگین جانور دیکھنے میں بہت خوبصورت معلوم ہوتا ہے، لیکن یہ اتنا ہی خطرناک ہے۔ یہ ایک دن میں 100 مچھلیوں کو قتل کرسکتا ہے۔

    یہ جاندار سمندر کی سطح پر طفیلیئے کی زندگی گزارتا ہے یعنی اس کا انحصار دیگر جانوروں پر ہوتا ہے۔

    اس کے جسم کا ایک ترچھا حصہ سمندر کی اوپری سطح پر رہتا ہے، یہ حصہ بحری جہاز کے بادبان کی طرح ہوتا ہے جو طوفانی لہروں میں بھی اسے سنبھالے رکھتا ہے۔

    پانی کے اندر اس کے 30 میٹر طویل بازو پھیلے رہتے ہیں، ہر بازو میں زہریلے ڈنک والے بے شمار خلیات موجود ہوتے ہیں۔

    اس کا ایک بازو ایک مچھلی کو باآسانی قتل کرسکتا ہے، کبھی کبھار اس کا ڈنک انسان کو بھی قتل کرسکتا ہے۔

  • چیونٹی آپ کے باس سے بہتر مینیجر ثابت ہوسکتی ہے

    چیونٹی آپ کے باس سے بہتر مینیجر ثابت ہوسکتی ہے

    کیا آپ نے کبھی چیونٹیوں کی قطار کو بغور دیکھا ہے؟ ایک سیدھی قطار میں ایک کے پیچھے ایک چلتی ہوئی یہ چیونٹیاں بظاہر بہت منظم معلوم ہوتی ہیں، لیکن اس کے علاوہ بھی یہ اپنے اندر بہت سی خصوصیات رکھتی ہیں۔

    کہا جاتا ہے کہ ایک چیونٹی، ایک اوسط درجے کے (انسان) باس یا مینیجر سے کہیں زیادہ عقل مند ہوتی ہے۔ اگر کسی کو لوگوں کی رہنمائی کی ذمہ داری سونپی جائے تو اسے چاہیئے کہ وہ چیونٹیوں کی عادات کا بغور مطالعہ کرے۔

    آئیں دیکھتے ہیں کہ اس ننھی سی جاندار میں ایسی کیا خصوصیات ہیں۔

    چیونٹیاں بے حد منظم طریقے سے اپنی رہائش رکھتی ہیں۔ ان کا طرز رہائش ایک منظم طور پر قائم کیے گئے شہر کی زندگی سے خاصا ملتا جلتا ہے۔

    چیونٹیاں کمیونٹیز کی شکل میں آبادیاں قائم کرتی ہیں۔ ایک کمیونٹی دوسری کمیونٹی سے نہ صرف روابط قائم رکھتی ہے بلکہ موقع پڑنے پر چیونٹیوں کی پوری کمیونٹی دوسری کمیونٹی سے باقاعدہ جنگ کرنے کے لیے بھی نکل کھڑی ہوتی ہے۔

    چیونٹیوں کی ایک سربراہ ہوتی ہے جسے ملکہ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ ملکہ دیگر چیونٹیوں کو بتاتی ہے کہ انہیں کیا کرنا ہے، کیسے کرنا ہے اور کب کرنا ہے۔

    اس ملکہ کے علاوہ یہاں نچلے درجے کا کوئی مینیجر یا باس نہیں ہوتا۔ جب کسی چیونٹی کو کسی کھانے کی شے کا پتہ چلتا ہے کہ تو یکدم وہی لیڈر بن جاتی ہے اور بقیہ چیونٹیاں اس کے پیچھے چل پڑتی ہیں۔

    ان کی ایک اور خاصیت جو آج کی جدید زندگی میں اپنانے کی سخت ضرورت ہے، وہ یہ ہے کہ چیونٹیاں کسی فرد واحد کو خوش رکھنے یا ان کی خوشامد کرنے کے بجائے صرف اپنے کام اور مقصد (عموماً خوراک ڈھونڈنے) سے مطلب رکھتی ہیں۔

    اس کے برعکس جدید دور کی انسانی زندگی میں کام کرنے سے زیادہ فکر اس بات کی کی جاتی ہے کہ اپنے سے اوپر لوگوں کو کس طرح خوش رکھا جائے۔

    کسی چیونٹی کو جب کسی کھانے کی شے کا سراغ ملتا ہے تو وہ اپنے پیچھے مخصوص نشانات چھوڑتی ہوئی جاتی ہے جس کی دیگر چیونٹیاں بھی پیروی کرتی ہیں۔ اس طرح کم وقت میں پوری کمیونٹی خوراک کی بڑی مقدار حاصل کرنے میں کامیاب رہتی ہے جس سے ان کی محنت اور وقت کا ضیاع نہیں ہوتا۔

    چیونٹیوں کی ایک اور عادت اپنے آپ کو ہر قسم کے حالات کے مطابق تیزی سے ڈھال لینا ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ ہر قسم کے حالات میں باآسانی سروائیو کرجاتی ہیں۔

  • اوزون کی حفاظت کا عالمی دن: ہمارا سائباں چھن جانے کے قریب

    اوزون کی حفاظت کا عالمی دن: ہمارا سائباں چھن جانے کے قریب

    دنیا بھر میں آج کرہ ارض کو سورج کی تابکار شعاعوں سے بچانے والی اوزون تہہ کی حفاظت کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ یہ تہہ سورج کی خطرناک شعاعوں کو براہ راست زمین پر آنے سے روکے ہوئے ہے۔

    اوزون آکسیجن کی وہ شفاف تہہ ہے جو سورج کی خطرناک تابکار شعاعوں کو نہ صرف زمین کی طرف آنے سے روکتی ہے بلکہ زمین پر اس کے نقصان دہ اثرات کا خاتمہ بھی کرتی ہے۔ اوزون کی تہہ کا 90 فیصد حصہ زمین کی سطح سے 15 تا 55 کلومیٹر اوپر بالائی فضا میں پایا جاتا ہے۔

    سنہ 1970 میں مختلف تحقیقات سے پتہ چلا کہ انسانوں کے بنائے ہوئے مرکبات کی زہریلی گیسیں اوزون کی تہہ کو تباہ کر رہی ہیں۔ تباہی سے مراد اس کی موٹائی میں کمی ہونا یا اس میں شگاف پڑنا ہے۔

    سنہ 1974 میں امریکی ماہرین ماحولیات نے اوزون کی تہہ کے تحفظ سے متعلق آگاہی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے واضح کیا کہ اوزون کی تہہ کو لاحق خطرات کے باعث اگلے 75 سالوں میں اس تہہ کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ خاتمے کی صورت میں نہ صرف دنیا بھر کا درجہ حرارت انتہائی حد تک بڑھ جائے گا بلکہ قطب جنوبی میں برف پگھلنے سے چند سالوں میں دنیا کے ساحلی شہر تباہ ہو جائیں گے۔

    دسمبر 1994 میں اقوام متحدہ نے آج کے دن کو اوزون کی حفاظت کے دن سے منسوب کیا جس کا مقصد اس تہہ کی اہمیت کے بارے میں شعور و آگاہی پیدا کرنا ہے۔

    اوزون کو کس چیز سے خطرہ لاحق ہے؟

    دنیا کی تیز رفتار ترقی نے جہاں کئی ممالک کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں لاکھڑا کیا وہیں اس ترقی نے ہماری زمین پر ناقابل تلافی خطرناک اثرات مرتب کیے۔

    ہماری فیکٹریوں سے خارج ہونے والی زہریلی گیس کاربن مونو آکسائیڈ ہماری فضا میں موجود آکسیجن کے ساتھ مل کر کاربن ڈائی آکسائیڈ میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ کاربن کا اخراج ہماری اور ہماری زمین کی صحت کے لیے نہایت مضر ہے اور یہ اوزون پر بھی منفی طور سے اثر انداز ہو رہا ہے۔

    اس کا سب سے زیادہ اثر برف سے ڈھکے انٹار کٹیکا کے علاقے میں ہوا جہاں اوزون کی تہہ میں گہرا شگاف پیدا ہوگیا۔ اوزون کو نقصان کی وجہ سے اس علاقے میں سورج کی روشنی پہلے کے مقابلے میں زیادہ آنے لگی جس سے ایک تو اس علاقہ کے اوسط درجہ حرارت میں اضافہ ہوا دوسری جانب برف کے تیزی سے پگھلنے کے باعث سمندروں کی سطح میں اضافہ ہوا جس سے دنیا بھر میں شدید سیلاب آنے کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔

    تاہم گزشتہ برس ماہرین نے تصدیق کی کہ انٹار کٹیکا کے اوپر اوزون میں پڑنے والا شگاف رفو ہورہا ہے اور 2050 تک یہ پہلے کی طرح مکمل ٹھیک ہوجائے گا۔

    اوزون کی تہہ کو ان چیزوں سے بھی نقصان پہنچتا ہے۔

    جنگلات کا بے دریغ کٹاؤ

    سڑکوں پر دھواں دینے والی گاڑیوں اور ویگنوں کے استعمال میں اضافہ

    کوڑا کرکٹ کو جلانے کے بعد اس سے نکلنے والا زہریلا دھواں

    کلورو فلورو کاربن یعنی سی ایف سی مرکبات کا استعمال۔ یہ گیس انرجی سیور بلب، ڈیپ فریزر، ریفریجریٹرز، کار، ایئر کنڈیشنر، فوم، ڈرائی کلیننگ، آگ بجھانے والے آلات، صفائی کے لیے استعمال ہونے والے کیمیکل اور فیومیگیشن میں ہوتا ہے۔

    اوزون تہہ کی تباہی کی صورت میں کیا ہوگا؟

    اوزون کی تہہ تباہ ہونے یا اس کی موٹائی میں کمی ہونے کی صورت میں یہ نقصانات ہوں گے۔

    دنیا بھر کے درجہ حرارت میں شدید اضافہ

    عالمی سمندروں کی سطح میں اضافہ

    دنیا بھر میں سیلابوں کا خدشہ اور ساحلی شہروں کے مکمل طور پر صفحہ ہستی سے مٹ جانے کا خدشہ

    سورج کی تابکار شعاعوں کا زمین پر براہ راست آنا جس سے انسانوں و جانوروں میں جلدی بیماریوں اور مختلف اقسام کے کینسر میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

    شدید گرمی سے درختوں اور پودوں کو نقصان

    گرم موسم کے باعث زراعت میں کمی جس سے کئی علاقوں میں قحط اور خشک سالی کا خدشہ ہے

    ٹھنڈے علاقوں میں رہنے والے جانوروں کی نسل معدوم ہونے کا خدشہ

    اوزون کو بچانے کے لیے کیا کیا جائے؟

    اوزون کی حفاظت ماحول دوست گیسوں کے حامل برقی آلات اور مشینری کے استعمال سے ممکن ہے۔

    ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں طویل المدتی شہری منصوبہ بندی کی ضرورت ہے جس کے تحت کھلے، ہوادار گھر بنائے جائیں اور ان میں سبزہ اگایا جائے تاکہ وہ ٹھنڈے رہیں اور ان میں رہائش پذیر افراد کم سے کم توانائی کا استعمال کریں۔

    نقصان دہ گیسز کا کم سے کم اخراج ہی اس ضروری تہہ کی حفاظت کرسکتا ہے۔

    رفو گری کے 32 سال

    رواں برس اس دن کا مرکزی خیال ’رفو گری کے 32 سال‘ رکھا گیا ہے۔

    آج سے 3 دہائیاں قبل سنہ 1987 میں اقوام متحدہ کے زیر نگرانی 150 سے زائد ممالک نے ایک معاہدے پر دستخط کیے جسے مونٹریال پروٹوکول کہا جاتا ہے۔

    دراصل ماہرین نے دیکھا کہ تیز رفتار ٹیکنالوجی نے جہاں ہمیں انرجی سیور بلب، ڈیپ فریزر، ریفریجریٹرز اور ایئر کنڈیشنر کا تحفہ دیا ہے، تو ان میں کلورو فلورو کاربن یعنی سی ایف سی مرکبات کا بے تحاشہ استعمال کیا جارہا ہے جو بالآخر ہماری فضا میں خارج ہورہا ہے۔

    یہ زہریلی گیسز اوزون کو بری طرح نقصان پہنچا رہی تھیں۔ مونٹریال پروٹوکول میں انہی گیسز کے کم استعمال کا عزم کیا گیا۔ اب 3 دہائیوں بعد اس معاہدے کے 99 فیصد اہداف کو حاصل کرلیا گیا۔

  • ایمازون جنگل کی ہولناک آتشزدگی میں طویل ترین درخت کیسے محفوظ رہے؟

    ایمازون جنگل کی ہولناک آتشزدگی میں طویل ترین درخت کیسے محفوظ رہے؟

    زمین کے پھیپھڑوں کی حیثیت رکھنے والے برازیل کے بارانی جنگلات ایمازون میں لگنے والی آگ نے پوری دنیا کو تشویش میں مبتلا کردیا تھا، تاہم حال ہی میں ایک نئی دریافت نے ماہرین میں خوشی کی لہر دوڑا دی ہے۔

    برازیلی اور برطانوی سائنسدانوں کی جانب سے کی جانے والی تحقیق میں سامنے آیا کہ ایمازون جنگل میں موجود طویل ترین درخت ہولناک آتشزدگی کے باوجود محفوظ رہے۔

    یہ درخت جنہیں ڈینیزیا ایکسیلا کہا جاتا ہے، 288 فٹ طویل ہوتے ہیں جبکہ ان کا قطر 5.50 میٹر ہوتا ہے۔

    ماہرین نے ان کی موجودگی ایریل سینسرز کے ذریعے کی جانے والی تحقیق کے دوران دریافت کی جو آتشزدگی کے بعد جنگلات کی تباہی کا جائزہ لینے کے لیے کی جارہی تھی۔

    انہوں نے کہا کہ آتشزدگی سے ہونے والے نقصانات کے بعد ان درختوں کی دریافت ایک خوش آئند بات ہے۔ یہ درخت جنگل کے اس حصے میں موجود تھے جو آگ کی پہنچ سے دور تھا۔

    اس وقت دنیا کے طویل ترین درخت امریکی ریاست کیلی فورنیا کے ریڈ ووڈز کو قرار دیا جاتا ہے جو 379 فٹ طویل ہوتے ہیں، تاہم ڈینیزیا ایکسیلا ایمازون میں پائے جانے والے طویل ترین درخت ہیں۔

    خیال رہے کہ گزشتہ برس برازیل کے جنگل میں 78 ہزار 383 مرتبہ آگ لگنے کے واقعات پیش آئے جو 2013 کے بعد سے سب سے زیادہ ہیں۔

    اگست 2019 میں لگنے والی آگ 2 ہفتے تک جاری رہی، ابتدائی اندازوں کے مطابق صرف 2019 میں ہونے والی آتشزدگیوں سے ایمازون کے 906 ہزار ہیکٹر پر موجود درخت جل کر خا ک ہوگئے ہیں۔

  • 140 لیٹر پانی سے تیار ہونے والا کافی کا ایک کپ

    140 لیٹر پانی سے تیار ہونے والا کافی کا ایک کپ

    کیا آپ روزانہ صبح اٹھ کر کافی پیتے ہیں؟ تو کیا آپ جانتے ہیں آپ کی ایک کپ کافی میں کتنا پانی شامل ہوتا ہے؟ شاید آپ کہیں کہ ایک کپ، لیکن درحقیقت آپ کی ایک کپ کافی میں 140 لیٹر پانی شامل ہوتا ہے۔

    اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت کے مطابق ایک کپ کافی میں استعمال ہونے والے بیجوں کو اگانے، تیار کرنے اور منزل مقصود تک پہنچانے کے لیے 140 لیٹر پانی استعمال ہوتا ہے۔

    درحقیقت زراعت پانی استعمال کرنے والا سب سے بڑا شعبہ ہے۔ زمین پر موجود صاف پانی کا 70 فیصد حصہ زراعت میں استعمال کیا جاتا ہے۔ گویا آپ کے سامنے رکھی کھانے پینے کی کوئی بھی شے کئی سو لیٹر پانی سے اگائی گئی۔

    جب ہم کوئی کھانے پینے کی شے پھینکتے یا ضائع کرتے ہیں تو اس کئی سو لیٹر پانی کو بھی ضائع کرتے ہیں جو کسی بھی طرح ایک احسن عمل نہیں ہے۔

    صرف کافی ہی نہیں ہر خوردنی شے بے تحاشہ پانی کے استعمال کے بعد اس حالت میں ہمارے سامنے ہوتی ہے کہ اسے کھایا جاسکے۔ جیسے گائے کا ایک کلو گوشت 15 ہزار 415 لیٹر پانی کے استعمال کے بعد حاصل ہوتا ہے۔

    اسی طرح ایک سیب 70 لیٹر پانی کے استعمال کے بعد تیار ہوتا ہے۔

    پانی کا اس قدر استعمال کرنے میں زراعت واحد شعبہ نہیں، فیشن انڈسٹری بھی کچھ اسی طرح پانی استعمال کرتی ہے۔

    فیشن کی صنعت ایک سال میں اتنا پانی استعمال کرتی ہے کہ اس سے اولمپک سائز کے 3 کروڑ 20 لاکھ سوئمنگ پولز بھرے جا سکتے ہیں۔

    آپ کے روزمرہ استعمال کی ایک سادی ٹی شرٹ بنانے میں 2 ہزار 720 لیٹر جبکہ ایک جینز بنانے میں 10 ہزار لیٹر پانی استعمال ہوتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق پانی بچانے اور ماحول دوست بننے کے لیے ضروری ہے کہ مختلف اشیا کو کم سے کم خریدا جائے اور پھینکنے کے بجائے کسی اور طرح استعمال کیا جائے۔