Tag: ماحولیات کی خبریں

  • ایمازون کے جنگلات میں مردہ وہیل دریافت

    ایمازون کے جنگلات میں مردہ وہیل دریافت

    جنوبی امریکا کے ملک برازیل میں واقع ایمازون کے جنگل میں ہمپ بیک وہیل مردہ پائی گئی جس نے ماہرین کو حیران کردیا۔

    11 میٹر طویل اور 10 ٹن وزنی یہ وہیل ایمازون جنگلات کے درمیان ایک جزیرے میں پائی گئی جہاں تیمر کے جنگلات موجود ہیں۔

    گو کہ سمندری حیات کا ساحل پر آجانا کوئی غیر معمولی بات نہیں تاہم ماہرین حیران ہیں کہ یہ وہیل جنگل کے اتنے اندر تک کیسے آگئی۔

    مقامی حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس مقام پر پرندوں کے جھنڈ دیکھے جو وہیل کی لاش کھانے کے لیے وہاں اترے ہوئے تھے۔ پرندوں کو دیکھتے ہوئے انہیں کچھ غیر معمولی حالات کا احساس ہوا جس کے بعد وہ وہاں پہنچے۔

    مزید پڑھیں: قوی الجثہ وہیل کی ہوا میں اچھلتی ہوئی ویڈیو وائرل

    وہیل کی لاش کا معائنہ کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ لاش کئی دن پرانی ہے۔ رناتا ایمن نامی ایک وائلڈ لائف پروفیسر کا کہنا ہے کہ ممکن ہے کہ وہیل ساحل تک آگئی ہو جس کے بعد کسی اونچی لہر نے اسے جنگل میں اٹھا پھینکا ہو۔

    نہ صرف اس وہیل کے جنگل کے اس حصے تک پہنچنے، بلکہ اس علاقے میں وہیل کی موجودگی نے ہی ماہرین کو حیران کر رکھا ہے۔

    ماہرین کے مطابق ہمپ بیک وہیل عام طور پر اگست سے نومبر کے درمیان جنوبی برازیل کے ساحلوں پر ہوتی ہیں۔ ان کا اتنی دور ہزاروں کلومیٹر شمال تک سفر کر کے آنا وہ بھی اس موسم میں نہایت حیران کن ہے۔

    تاحال وہیل کی موت کا سبب بھی اندھیرے میں ہے، مقامی حکام کے مطابق اس مقام تک پہنچنا اور پھر وہاں سے وہیل کی لاش کو اٹھانا نہایت مشکل عمل ہے کیونکہ یہ سارا علاقہ دلدلی ہے۔

  • چٹیل میدانوں میں عقاب اپنا شکار کیسے کرتے ہیں؟

    چٹیل میدانوں میں عقاب اپنا شکار کیسے کرتے ہیں؟

    شکار عقاب کی خاص خصوصیت ہے اور وہ شکار کر کے اپنی خوراک کا بندوبست کرتا ہے، تاہم چٹیل میدانوں میں اسے اپنا شکار تلاش کرنے میں تھوڑی مشکل پیش آسکتی ہے۔

    تاہم قدرت نے اس پرندے کو ایک اور خاصیت سے نوازا ہے، عقاب پرواز کرتے ہوئے بنفشی روشنی کی شعاعوں کو دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

    اس کے باعث وہ زمین کھودنے اور میدانوں میں رہنے والے جانوروں کا پیشاب دیکھ لیتا ہے اور اس کی سیدھ میں چلتے ہوئے سیدھا جانور کے بل میں پہنچتا ہے۔

    تاہم دوسرے جانور بھی خطرے کو بھانپنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور شکاری کی آہٹ پا کر زیر زمین روپوش ہوجاتے ہیں۔ ایسے میں عقاب کو مردہ جانور کی لاشوں پر اکتفا کرنا پڑتا ہے۔

    عقابوں کی پریشانی اس وقت اور بھی بڑھ جاتی ہے جب طوفان کا وقت ہو، اس وقت ان کے پر گیلے ہوجاتے ہیں جن کے سوکھنے تک وہ اڑ نہیں سکتے۔

  • سولر پینل سے بجلی کے ساتھ ساتھ پانی کی بھی پیداوار

    سولر پینل سے بجلی کے ساتھ ساتھ پانی کی بھی پیداوار

    سولر پینل سورج کی روشنی اور حرارت سے بجلی پیدا کرتے ہیں اور توانائی کی ضروریات پوری کرتے ہیں، تاہم حال ہی میں ایک منصوبے میں شمسی پینلز نے پانی بنانے کا کام بھی کیا۔

    تجرباتی طور پر کیے جانے والے اس منصوبے کو بل گیٹس اور جیف بیزوس کی جانب سے 1 ارب ڈالر کا فنڈ حاصل ہوچکا ہے۔

    اس منصوبے میں شمسی پینلز ہوا سے نمی کشید کرتے ہیں اور انہیں استعمال کے قابل پانی میں تبدیل کردیتے ہیں۔

    حاصل کردہ پانی نہایت صاف اور پینے کے قابل ہے۔ 2 شمسی پینل سے 10 لیٹر تک صاف پانی حاصل کیا جاسکتا ہے۔

    خیال رہے کہ ہوا سے پانی کشید کرنے کا خیال نیا نہیں ہیں۔ دنیا بھر میں جیسے جیسے آبی ذخائر میں کمی واقع ہورہی ہے ویسے ویسے پانی حاصل کرنے کے متبادل طریقے ایجاد کیے جارہے ہیں اور ہوا سے پانی کشید کرنا بھی انہی میں سے ایک ہے۔

    اس وقت دنیا کے کئی حصوں میں چھوٹے پیمانے پر اس تکینیک کے ذریعے مختلف منصوبے مقامی آبادی کی آبی ضروریات کو پورا کرر ہے ہیں۔

    ایسی ہی ایک منصوبہ واٹر سیر نامی ٹربائن بھی ہے، دن کے 24 گھنٹے کام کرنے والی یہ ٹربائن فضا میں موجود پانی لے کر اسے پینے کے قابل بناتی ہے اور اس کے لیے اسے کسی قسم کی بجلی، توانائی، یا کیمیکلز کی ضرورت نہیں ہوتی۔

    اس کے زمین کے اوپر لگے بلیڈز ہوا کی طاقت سے گھومتے ہیں اور ہوا کو زمین کے اندر نصب چیمبر میں دھکیلتے ہیں۔ یہ چیمبر مٹی میں دبا ہوتا ہے اور ٹھنڈی مٹی کی وجہ سے خاصا سرد ہوتا ہے۔

    یہ اپنے اندر موجود گرم ہوا کو بھی ٹھنڈا کردیتا ہے اور اس میں موجود پانی قطروں کی صورت میں چیمبر کی دیواروں پر جم جاتا ہے۔

    یہ ٹربائن ہوا چلنے یا نہ چلنے دونوں صورتوں میں کام کرتی ہے اور روزانہ 37 لیٹرز پانی فراہم کرتی ہے۔

  • چھوئی موئی کا پودا انوکھی خصوصیات کا حامل

    چھوئی موئی کا پودا انوکھی خصوصیات کا حامل

    کیا آپ چھوئی موئی کے پودے کے بارے میں جانتے ہیں؟ ذرا سا چھونے پر اپنے پتے بند کردینے والا یہ پودا نہایت انوکھی خصوصیت کا حامل ہے۔

    چھوئی موئی یا حساس پھول کے نام سے مشہور اس پودے کا اصل نام مموسا پڈیکا ہے۔ اس کا اصل علاقہ لاطینی امریکا ہے۔

    جنگل اور درختوں کے درمیان اگنے پر اس پودے کی لمبائی 1 میٹر طویل ہوسکتی ہے۔

    ان پودوں کی سب سے اہم خصوصیت ان کے پتوں کا بند ہوجانا ہے۔ رات کے وقت اور اس وقت جب ان پودوں کو چھوا جائے تو ان کے پتے بند ہوجاتے ہیں۔

    یہ دراصل ان پودوں کا دفاعی نظام ہے، یہ عمل ان خلیات کی وجہ سے ہوتا ہے جو چھونے پر اپنا جمع شدہ پانی تیزی سے خارج کرتے ہیں۔

    یہ پتے اس وقت بند نہیں ہوتے جب تیز ہوا چلے یا پانی کا کوئی قطرہ ان پر گرجائے، صرف چھونے پر ہی یہ پتے بند ہوجاتے ہیں۔ ان پودوں کا یہ دفاعی نظام ہمارے اعصابی نظام سے مماثل ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ پودے یادداشت بھی رکھتے ہیں، باوجود اس کے کہ ان میں نیورونز نہیں پائے جاتے۔ یہ اس لمس کو یاد رکھتے ہیں جو ان کو کوئی نقصان نہیں پہنچاتا، اور دوبارہ اس لمس کے چھونے پر پتے بند نہیں ہوتے۔

    یہ یاداشت صرف ایک ماہ تک کارآمد رہتی ہے۔ یادداشت کے معاملے میں یہ شہد کی مکھیوں سے بھی بہتر ہیں۔

    ان کی جڑوں سے ایک ناخوشگوار بو بھی آتی ہے جو زیر زمین انہیں کیڑے مکوڑوں سے محفوظ رکھتی ہے۔

  • گلوبل وارمنگ سے سمندروں کا رنگ تبدیل

    گلوبل وارمنگ سے سمندروں کا رنگ تبدیل

    دنیا بھر کے درجہ حرارت میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ کا ایک اور نقصان سامنے آگیا، ماہرین کا کہنا ہے کہ گلوبل وارمنگ سمندروں کا رنگ بھی تبدیل کررہا ہے۔

    گلوبل وارمنگ اور کلائمٹ چینج جہاں دنیا بھر میں نقصانات کی تاریخ رقم کر رہا ہے وہیں سمندر بھی اس سے محفوظ نہیں۔

    حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق گلوبل وارمنگ کی وجہ سے نیلے سمندروں کا رنگ مزید نیلا جبکہ سبز سمندروں کا رنگ مزید سبز ہورہا ہے۔

    رنگوں کی یہ تبدیلی سمندروں کے ایکو سسٹم کو متاثر کر رہی ہے۔

    تحقیق کے مطابق سمندروں کو رنگ دینے کی ذمہ دار ایک خوردبینی الجی (کائی) ہے جسے فائٹو پلینکٹون کہا جاتا ہے۔

    یہ الجی سورج کی روشنی کو جذب کرتی ہے اور آکسیجن پیدا کرتی ہے۔ جن سمندروں میں زیادہ فائٹو پلینکٹون موجود ہے وہ سبز جبکہ کم فائٹو پلینکٹون رکھنے والے سمندر نیلا رنگ رکھتے ہیں۔

    سورج کی روشنی میں اضافے کی وجہ سے زمین کے کچھ حصوں کے سمندر گہرے نیلے جبکہ کچھ گہرے سبز ہوتےجارہے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ رنگوں کی یہ تبدیلی فوڈ چین کو متاثر کرے گی۔ یہ جنگلی حیات اور ماہی گیری پر منفی اثرات مرتب کرے گی۔

  • اسلام آباد میں پھل دار پودے لگانے کا فیصلہ

    اسلام آباد میں پھل دار پودے لگانے کا فیصلہ

    اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پھل دار پودے لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے، دارالحکومت میں جلد جامن، آڑو، امرود، لوکاٹ، آلو بخارہ اور چیکو کے پودوں کی شجر کاری کی جائے گی۔

    تفصیلات کے مطابق وزارت قومی صحت نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پھل دار پودے لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ذرائع وزارت صحت کا کہنا ہے کہ ابتدائی مرحلے میں 500 پھل دار پودے لگائے جائیں گے۔

    ذرائع کے مطابق لگائے جانے والے پودوں میں جامن، آڑو، امرود، لوکاٹ، آلو بخارہ اور چیکو کے پودے شامل ہوں گے۔ اس مقصد کے لیے وزارت قومی صحت نے اراضی حاصل کرلی ہے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ پھل دار پورے فضل الحق روڈ کی گرین بیلٹ پر لگائے جائیں گے۔ وزارت صحت اور مقامی آبادی پودوں کی دیکھ بھال کی ذمے دار ہوگی۔

    اس مقصد کے لیے کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) نے گرین بیلٹ وزارت قومی صحت کے حوالے کردی ہے۔

    دارالحکومت میں پھل دار شجر کاری کا یہ منصوبہ وزیر اعظم کے بلین ٹری سونامی منصوبے کا حصہ ہے، دوسرے مرحلے میں مزید مقامات پر بھی پھل دار پودے لگائے جائیں گے۔

    خیال رہے کہ اسلام آباد میں ملبیری درختوں کی بھرمار ہے جو شہریوں میں پولن الرجی پیدا کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔

    سی ڈی اے ان درختوں کو کاٹ کر دیگر درخت لگانے پر بھی کام کر رہی ہے۔

  • سال 2018 تاریخ کا متواتر چوتھا گرم ترین سال

    سال 2018 تاریخ کا متواتر چوتھا گرم ترین سال

    امریکی ماہرین کا کہنا ہے کہ سال 2018 جدید تاریخ کا ایک اور گرم ترین سال تھا اور یہ مسلسل چوتھا سال ہے جس میں درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافہ دیکھا گیا۔

    امریکا کے نیشنل اوشینک اینڈ ایٹموسفیریک ایڈمنسٹریشن (نووا) کی جاری کردہ رپورٹ میں سنہ 1880 سے موسم اور اس میں ہونے والی تبدیلیوں کا جائزہ لیا گیا۔

    رپورٹ کے مطابق سنہ 1880 سے اب تک درجہ حرارت میں مجموعی طور پر 2 ڈگری فارن ہائیٹ یا 1 ڈگری سیلسیئس کا اضافہ دیکھا جارہا ہے۔

    یاد رہے کہ اس سے قبل سال 2014 اور 2015 کو بھی گرم ترین سال قرار دیا گیا، 2016 ان سے بھی زیادہ گرم رہا جبکہ 2017 اور اس کے بعد اب 2018 ایک اور گرم ترین سال ثابت ہوا۔

    رپورٹ کے مطابق رواں برس برفانی خطوں اور قطبین کی برف پگھلنے میں بھی خطرناک اضافہ دیکھا گیا۔ ماہرین کے مطابق گرین لینڈ کی برف جسے قطبین کی سب سے فرسودہ اور پرانی برف کہا جاتا ہے وہ بھی پگھلنا شروع ہوگئی۔

    رپورٹ کی تیاری میں شامل محققین کا کہنا ہے کہ متواتر 4 سال تک درجہ حرارت میں اضافہ برفانی خطوں، سمندروں، آبی ذخائر اور زراعت پر شدید منفی اثرات مرتب کر رہا ہے۔

    خیال رہے کہ 3 دن قبل ہی انٹرنیشنل سینٹر فار انٹگریٹڈ ماؤنٹین ڈیولپمنٹ (آئی سی آئی موڈ) کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ سنہ 2100 تک ہمالیہ اور ہندو کش خطے کی تقریباً ایک تہائی برف پگھل جائے گی جس کے نتیجے میں دریاؤں میں شدید طغیانی پیدا ہوجائے گی۔

    رپورٹ کے مطابق اس پگھلاؤ کے سبب دریائے یانگزے، دریائے میکونگ، دریائے سندھ اور دریائے گنگا میں طغیانی آجائے گی۔

    اس طغیانی سے زراعت کو شدید نقصان پہنچے گا جبکہ آس پاس موجود کئی علاقے صفحہ ہستی سے مٹ سکتے ہیں۔ اس خطے میں تقریباً 25 کروڑ افراد پہاڑی علاقوں میں رہائش پذیر ہیں جبکہ میدانی علاقوں میں رہنے والوں کی تعداد ایک ارب 65 کروڑ ہے۔

  • صدی کے آخر تک ہمالیہ کے پہاڑوں کی برف پگھل جانے کا خدشہ

    صدی کے آخر تک ہمالیہ کے پہاڑوں کی برف پگھل جانے کا خدشہ

    کھٹمنڈو: دنیا بھر میں بڑھتے ہوئے درجہ حرارت یعنی گلوبل وارمنگ کے باعث دنیا کے سب سے اونچے پہاڑی سلسلے ہمالیہ کی ایک تہائی برف سنہ 2100 تک پگھل جانے کا خدشہ ہے۔

    یہ انکشاف انٹرنیشنل سینٹر فار انٹگریٹڈ ماؤنٹین ڈیولپمنٹ (آئی سی آئی موڈ) کی جانب سے جاری کردہ تجزیاتی رپورٹ میں کیا گیا۔ یہ رپورٹ 5 سال کے اندر تیار کی گئی جس میں 22 ممالک اور 185 اداروں کے 350 سے زائد ماہرین کی مدد لی گئی۔

    رپورٹ کے مطابق سنہ 2100 تک ہمالیہ اور ہندو کش کی تقریباً ایک تہائی برف پگھل جائے گی جس کے نتیجے میں دریاؤں میں شدید طغیانی پیدا ہوجائے گی۔

    خیال رہے کہ کوہ ہمالیہ اپنے ذیلی سلسلوں کے ساتھ دنیا کا سب سے اونچا پہاڑی سلسلہ ہے جس میں دنیا کی بلند ترین چوٹیاں بشمول نیپال کی ماؤنٹ ایورسٹ موجود ہیں۔

    8 ہزار میٹر سے بلند دنیا کی تمام چوٹیاں اسی پہاڑی سلسلے میں واقع ہیں۔

    اس سلسلے کی بلندی کو سمجھنے کے لیے یہ جان لینا کافی ہے کہ اس میں 7 ہزار 2 سو میٹر سے بلند 100 سے زیادہ چوٹیاں ہیں جبکہ اس سے باہر دنیا کی بلند ترین چوٹی کوہ اینڈیز میں واقع اکونکا گوا ہے جس کی بلندی صرف 6 ہزار 9 سو 62 میٹر ہے۔

    سائنسدانوں کے مطابق وسیع برفانی تودوں پر مشتمل ہندو کش اور ہمالیہ کا یہ خطہ انٹار کٹیکا اور آرکٹک خطے کے بعد تیسرا قطب ہے۔ یہ خطہ 3 ہزار 5 سو کلو میٹر پر محیط ہے اور پہاڑوں کا یہ سلسلہ افغانستان، بنگلہ دیش، بھوٹان، چین، بھارت، میانمار، نیپال اور پاکستان تک پھیلا ہوا ہے۔

    رپورٹ کے مطابق اس پگھلاؤ کے سبب دریائے یانگزے، دریائے میکونگ، دریائے سندھ اور دریائے گنگا میں طغیانی آجائے گی جہاں کسان خشک سالی کے دوران برفانی تودوں کے پگھلنے سے حاصل ہونے والے پانی پر گزارا کرتے ہیں۔

    اس طغیانی سے زراعت کو شدید نقصان پہنچے گا جبکہ آس پاس موجود کئی علاقے صفحہ ہستی سے مٹ سکتے ہیں۔ اس خطے میں تقریباً 25 کروڑ افراد پہاڑی علاقوں میں رہائش پذیر ہیں جبکہ میدانی علاقوں میں رہنے والوں کی تعداد ایک ارب 65 کروڑ ہے۔

    مذکورہ رپورٹ کی سربراہی کرنے والے فلپس ویسٹر کا کہنا ہے کہ یہ وہ ماحولیاتی بحران ہے جس کے بارے میں کسی نے نہیں سنا۔

    ان کا کہنا تھا کہ گلوبل وارمنگ 8 ممالک تک پھیلے ہوئے ہمالیہ ہندوکش کے سلسلے میں موجود برفانی تودوں سے ڈھکی ہوئی بہت سی چوٹیوں کو ایک صدی میں چٹانوں میں تبدیل کرچکی ہے۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ اگر سنہ 2015 کے پیرس ماحولیاتی معاہدے کے تحت گلوبل وارمنگ کو روکنے کے لیے سخت اقدامات بھی اٹھائے جائیں تب بھی سال 2100 تک خطے کی ایک تہائی سے زائد برف پگھل جائے گی، اور اگر ہم رواں صدی کے دوران گرین ہاؤس گیسز کی روک تھام کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں تو دو تہائی برف پگھل جائے گی۔

  • جھیل پر برف کے پین کیک بن گئے

    جھیل پر برف کے پین کیک بن گئے

    انگلینڈ کی ایک کاؤنٹی یارک شائر میں ایک جھیل پر سخت سردی سے برف کے ’پین کیک‘ بن گئے جس نے لوگوں کو خوشگوار حیرت میں مبتلا کردیا۔

    سخت سردی کے موسم میں جھیلوں اور دریاؤں پر برفانی پین کیکس بن جانا ایسا عمل ہے جو اکثر انٹارکٹیکا کے پانیوں میں دکھائی دیتا ہے۔

    تاہم اب جبکہ یورپ اور امریکا میں ریکارڈ منفی درجہ حرارت نے نظام زندگی معطل کردیا ہے، تو وہاں بھی اکثر جھیلوں پر یہ منظر دکھائی دے رہے ہیں۔

    محکمہ موسمیات کے مطابق پین کیک بننا ایک قدرتی عمل ہے، یہ اس وقت ہوتے ہیں جب پانی کی سطح پر جھاگ پیدا ہو اور سخت سردی کی وجہ سے جم جائے۔

    ماہرین کے مطابق یہ منظر کم ہی نظر آتا ہے۔

    یاد رہے کہ رواں برس امریکا اور یورپ میں شدید سردی ریکارڈ کی جارہی ہے، مختلف علاقوں میں درجہ حرارت منفی میں جاچکا ہے جبکہ برفباری کے باعث پہاڑوں اور جنگلات نے سفید چادر اوڑھ لی ہے۔

  • آب گاہوں کا عالمی دن: کلائمٹ چینج سے آب گاہیں بھی خطرے میں

    آب گاہوں کا عالمی دن: کلائمٹ چینج سے آب گاہیں بھی خطرے میں

    دنیا بھر میں آج آب گاہوں یعنی میٹھے پانی کے ذخائر کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ یہ دن سنہ 1971 میں کیے جانے والے ایک معاہدے (رامسر کنونشن) کی یاد میں ہر سال 2 فروری کو منایا جاتا ہے۔

    رواں برس یہ دن آب گاہیں اور موسمیاتی تغیر (کلائمٹ چینج) کے عنوان سے منایا جارہا ہے۔

    ماہرین ماحولیات کے مطابق آب گاہوں کی اصطلاح بہت وسیع معنوں کی حامل ہے۔ اس میں جھیلیں، دلدل، ساحلی علاقے، جوہڑ، قدرتی ندی نالے، دریا اور ڈیلٹا شامل ہیں۔

    ان آب گاہوں کا ایک اپنا مکمل ماحولیاتی نظام ہوتا ہے جس میں مختلف اقسام کے جان دار زندہ رہنے کے لیے ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ آب گاہیں دراصل زندگی کی پناہ گاہیں ہیں۔

    کینجھر جھیل

    آب گاہوں کے حوالے سے پاکستان عالمی سطح پر اس وقت پہچانا گیا جب 1976 میں پاکستان نے رامسر کنونشن پر دستخط کیے۔ یہ کنونشن ایران کے شہر رامسر میں 1971 میں تشکیل پایا۔

    یہ ایک عالمی سطح کا معاہدہ ہے جس کے تحت آب گاہوں کے تحفظ کے لیے کوششیں اور وسائل مہیا کیے جاتے ہیں۔

    رامسر کنونشن کے تحت عالمی سطح پر ایسی آب گاہوں کی فہرست تیار کی گئی ہے جو متعینہ معیار کے مطابق عالمی اہمیت کی حامل ہیں تاکہ ان آب گاہوں کی حفاظت کے لیے ترجیحی بنیادوں پر منصوبے بنائے جائیں۔

    اس معاہدے پر دستخط کرنے والے ممالک کو تین عہد ایفا کرنے ہوتے ہیں۔

    1: عالمی اہمیت کی آب گاہوں کو رامسر فہرست میں شامل کروانا۔ 2: تمام آب گاہوں کے دانش مندانہ استعمال کے لیے منصوبہ بندی کرنا۔ 3: انواع اور پانی کے مشترکہ نظام کے لیے بین الاقوامی سطح پر تعاون کرنا۔

    ہالیجی جھیل

    جب پاکستان نے اس معاہدے پر دستخط کیے تو ہمارے ملک کی آب گاہوں کا مجموعی رقبہ تقریبا 7 ہزار 8 سو کلو میٹر تھا اور یہاں عالمی معیار کی 8 آب گاہیں تھیں لیکن اب پاکستان میں بین الاقوامی اہمیت کی حامل آب گاہوں یعنی رامسر سائٹس کی تعداد 19 ہوگئی ہے۔

    ان سائٹس میں بلوچستان کا استولا آئی لینڈ، چشمہ بیراج، ہالیجی جھیل، حب ڈیم، انڈس ڈیلٹا، جیوانی، کینجھر جھیل، میانی ہور اور ارماڑا کا ساحل شامل ہیں۔

    ماہرین کے مطابق کلائمٹ چینج کی وجہ سے آب گاہیں بھی خطرے کا شکار ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق کلائمٹ چینج کی وجہ سے آب گاہیں جنگلات سے 3 گنا زیادہ تیزی سے سکڑ رہی ہیں۔