Tag: ماحولیات کی خبریں

  • زمین پر برفانی دور شروع ہوسکتا ہے

    زمین پر برفانی دور شروع ہوسکتا ہے

    دنیا بھر کے درجہ حرارت میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ ایک طرف تو زمین کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگائے کھڑا ہے، تو دوسری جانب سائنس دانوں کا دعویٰ ہے کہ جلد ہی زمین پر برفانی دور یعنی آئس ایج کا آغاز بھی ہوسکتا ہے۔

    لندن کی نارتھمبریا یونیورسٹی کے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اگلی ایک دہائی کے دوران زمین پر برفانی دور شروع ہوسکتا ہے جس میں زمین کے تمام بڑے دریا منجمد ہوجائیں گے۔

    یہ پیش گوئی سورج کی مقناطیسی توانائی کی حرکت کو مدنظر رکھتے ہوئے کی گئی ہے۔

    سنہ 1645 سے 1715 کے درمیان منجمد دریائے ٹیمز

    آسٹرو نومی اینڈ جیو فزکس نامی رسالے میں شائع شدہ اس تحقیق میں ماہرین کا کہنا ہے کہ سنہ 2021 سے زمین کے درجہ حرارت میں کمی واقع ہونی شروع ہوجائے گی اور دہائی کے آخر تک زمین برفانی دور کا سامنا کرے گی۔

    ماہرین کی یہ تحقیق اس سے قبل کی جانے والی ایک اور تحقیق کی بنیاد پر کی گئی ہے۔ گزشتہ تحقیق میں سورج کی دو مقناطیسی لہروں کی حرکت کے بارے میں بتایا گیا تھا۔

    حالیہ تحقیق کے مطابق ان مقناطیسی لہروں میں تیزی سے کمی واقع ہوگی جس کا آغاز سنہ 2021 سے ہوگا اور یہ 33 سال تک جاری رہے گا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین پر اس سے پہلے بھی ایک مختصر آئس ایج رونما ہوا تھا جو سنہ 1646 سے 1715 تک رہا تھا۔ اس دوران لندن کا دریائے ٹیمز منجمد دریا میں تبدیل ہوگیا تھا۔

    تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا ہے کہ سورج کی یہ لہریں اور ان کی حرکت ماضی میں تو برفانی دور کا باعث بنیں، تاہم اب یہ عمل کس قدر اثر انگیز ہوسکتا ہے، یہ کہنا مشکل ہے کیونکہ اس کی راہ میں گلوبل وارمنگ یا عالمی حدت حائل ہے۔

    ان کے مطابق یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ مستقبل میں بھی یہ عمل برفانی دور کا باعث بنے گا یا گلوبل وارمنگ کا اثر زیادہ ہوگا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ماضی کی طرح اگر اب بھی یہ عمل برفانی دور کا باعث بنتا ہے تو یہ زمین کے لیے خوش آئند ہوگا کیونکہ اس سے گلوبل وارمنگ کا عمل سست یا رک سکتا ہے۔

    ’30 سال کے اس عرصے میں یقیناً ہم گلوبل وارمنگ کا باعث بننے والے عوامل کو کم کرسکتے ہیں اور اس کا مستقل حل بھی ڈھونڈ سکتے ہیں، اس کے بعد جب زمین معمول کی حالت پر لوٹ آئے گی تو ہمارے پاس موقع ہوگا کہ ہم گلوبل وارمنگ کو کنٹرول میں رکھ سکیں‘۔

  • لینڈ سلائیڈنگ سے بچنے کا طریقہ

    لینڈ سلائیڈنگ سے بچنے کا طریقہ

    تیز بارشوں کے دوران پہاڑی علاقوں میں لینڈ سلائیڈنگ عام ہوجاتی ہے جو بھاری جانی و مالی نقصان کا سبب بنتی ہے، پاکستان میں ایسے واقعات عام ہیں تاہم افریقی ملک کینیا میں لینڈ سلائیڈنگ سے بچنے کا انوکھا طریقہ اختیار کرلیا گیا ہے۔

    کینیا میں لینڈ سلائیڈنگ کے واقعات بہت عام ہیں جو کسانوں کی فصلوں اور بعض اوقات گھروں کو بھی تباہ کردیتے ہیں۔

    ان کسانوں نے اس سے بچنے کے لیے ڈھلوان سطحوں پر بانس کے درخت اگا دیے ہیں۔ بانس کے درخت زمین کی مٹی کو جکڑ کر رکھتے ہیں اور تیز بارشوں میں زمینی کٹاؤ سے حفاظت فراہم کرتے ہیں۔

    یہ درخت جلد نشونما پا کر بہت تیزی سے پھیل جاتے ہیں چنانچہ جلد ہی ڈھلانوں پر ان کا جنگل اگ آتا ہے۔

    یہ درخت گاؤں والوں کو نقصان سے بچانے کے ساتھ ساتھ ان کی کمائی کا ذریعہ بھی ہیں، کسان ان کی لکڑی کاٹ کر فروخت بھی کرتے ہیں جس سے فرنیچر اور گھر وغیرہ بنائے جاتے ہیں۔

    چونکہ یہ درخت جلدی اگ آتے ہیں لہٰذا یہ کسانوں کو باقاعدہ اضافی آمدنی فراہم کرتے ہیں۔

    یاد رہے کہ گزشتہ برس شمالی کینیا میں طوفانی بارشوں سے خطرناک لینڈ سلائیڈنگ ہوئی تھی جس میں 100 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

    لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے 2 لاکھ کے قریب افراد نقل مکانی پر بھی مجبور ہوئے تھے۔

  • خود بخود پودے اگانے والا اسمارٹ گارڈن

    خود بخود پودے اگانے والا اسمارٹ گارڈن

    باغبانی یا زراعت ایسی شے ہے جس کی اہمیت میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بدلتے ہوئے موسموں اور مستقبل میں بڑھتی آبادی اور کم ہوتی غذائی اشیا کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے زیادہ سے زیادہ باغبانی کی ضرورت ہے۔

    تاہم باغبانی ایک وقت طلب کام ہے جس کے لیے آپ کو باغبانی کے طریقوں، موسموں اور پودوں کی افزائش وغیرہ کے بارے میں مکمل معلومات ہونی ضرور ہیں۔

    دو ایسی ہی باغبانی سے نابلد دوستوں نے ایسا پورٹیبل گارڈن تخلیق کیا ہے جس میں بہت معمولی محنت سے مختلف پودے اگائے جاسکتے ہیں۔

    ایک ڈبے میں موجود اس ننھے سے گارڈن میں پودے اگانے کے لیے گول دائرے اور کھاد کے پیکٹ موجود ہیں جن میں پہلے سے بیجوں کی آمیزش کی جا چکی ہے۔

    گارڈن میں پودوں کو پانی دینے کا خود کار نظام اور پودوں کو درکار روشنیاں بھی نصب ہیں۔ آپ کو صرف یہ کرنا ہے کہ گارڈن کے واٹر ٹینک کے خالی ہوجانے کے بعد اسے دوبارہ بھرنا ہوگا۔

    اس گارڈن کو آپ گھر میں کہیں بھی رکھ سکتے ہیں اور اس کے لیے زیادہ جگہ بھی درکار نہیں۔

    یہ گارڈن کم مقدار میں مختلف سبزیاں اور پھل بھی اگا سکتا ہے۔

  • پلاسٹک کو بلامعاوضہ ری سائیکل کرنے والی کمپنی

    پلاسٹک کو بلامعاوضہ ری سائیکل کرنے والی کمپنی

    پلاسٹک کرہ زمین کو گندگی کے ڈھیر میں تبدیل کرنے والی سب سے بڑی وجہ ہے۔ پلاسٹک کو زمین میں تلف ہونے کے لیے ہزاروں سال درکار ہیں اور یہی وجہ ہے کہ پلاسٹک بڑے پیمانے پر استعمال کے باعث زمین کی سطح پر مستقل اسی حالت میں رہ کر اسے گندگی و غلاظت کے ڈھیر میں تبدیل کرچکا ہے۔

    دنیا بھر میں جہاں پلاسٹک کا استعمال کم سے کم کرنے پر زور دیا جارہا ہے وہیں استعمال شدہ پلاسٹک کے کسی نہ کسی طرح دوبارہ استعمال کے بھی نئے نئے طریقے دریافت کیے جارہے ہیں۔

    امریکا کی ایسی ہی ایک کمپنی ٹیرا سائیکل مفت میں ان اشیا کو ری سائیکل یا استعمال کے قابل بناتی ہے جو سخت ہوتی ہیں اور آرام سے ٹوٹ نہیں پاتیں۔ ان اشیا میں پرفیوم کی بوتلیں، استعمال شدہ سگریٹ، پین اور ٹوتھ برش سمیت دیگر اشیا شامل ہیں۔

    پلاسٹک کو ری سائیکل کرنے کے خواہشمند افراد اس کمپنی سے رابطہ کرتے ہیں جس کے بعد یہ کمپنی ان کے گھر پر جا کر استعمال شدہ پلاسٹک وصول کرتی ہے۔

    یہ کمپنی پلاسٹک کو توڑ کر ان اداروں اور افراد کو فراہم کرتی ہیں جو پلاسٹک کو ری سائیکل کرنے کا کام کرتے ہیں۔

    اب تک یہ کمپنی 21 ممالک سے 8 کروڑ افراد سے پلاسٹک جمع کر کے دنیا بھر کی کمپنیوں کو روانہ کر چکی ہے جہاں اس پلاسٹک کو دوبارہ استعمال کے قابل بنایا جارہا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمارے دریا اور سمندر پلاسٹک سے اٹ چکے ہیں اور سنہ 2050 تک ہمارے سمندروں میں آبی حیات اور مچھلیوں سے زیادہ پلاسٹک موجود ہوگا۔

    نیدر لینڈز کے ماحولیاتی ادارے گرین پیس کے مطابق دنیا بھر میں 26 کروڑ ٹن پلاسٹک پیدا کیا جاتا ہے جس میں سے 10 فیصد ہمارے سمندروں میں چلا جاتا ہے۔

    پلاسٹک کی تباہ کاریوں سے متعلق مزید مضامین پڑھیں

  • ’فطرت سے انسانوں کا تعلق ٹوٹ چکا ہے‘

    ’فطرت سے انسانوں کا تعلق ٹوٹ چکا ہے‘

    ڈیووس: معروف محقق اور ماہر ماحولیات سر ڈیوڈ ایٹنبرو کا کہنا ہے کہ فطرت سے ہمارا تعلق تقریباً ٹوٹ چکا ہے اور یہ صورتحال آج سے پہلے کبھی پیش نہیں آئی۔

    سوئٹزر لینڈ کے شہر ڈیووس میں ہونے والے ورلڈ اکنامک فورم میں ماحولیات سے متعلق سیشن منعقد ہوا جس میں معروف محقق اور ماہر ماحولیات سر ڈیوڈ ایٹنبرو اور برطانوی شہزادے ولیم نے شرکت کی۔

    سر ڈیوڈ کو ماحولیات کے شعبے میں کام اور تحقیق کے حوالے سے شاہی خاندان میں بھی خصوصی اہمیت حاصل ہے اور کئی بار ملکہ ان کے کام کو سراہ چکی ہیں۔

    برطانوی شہزادے کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے سر ڈیوڈ کا کہنا تھا کہ اس وقت ہم جتنا فطرت سے لاتعلق ہوگئے ہیں، اتنا آج سے پہلے کبھی نہیں ہوئے۔

    انہوں نے کہا کہ ہم اپنی زمین کو نہایت آسانی سے تباہ کرسکتے ہیں اور ہمیں اس کا ادراک بھی نہیں ہوگا۔

    سر ڈیوڈ کا کہنا تھا کہ فطرت صرف خوبصورتی، دلچسپی یا حیرت کی حد تک محدود نہیں ہے، یہ ہماری زندگی کے لیے ضروری ہے، اور بدقسمتی سے ہم اسے تباہی کے دہانے پر لے جارہے ہیں۔

    سر ڈیوڈ ایٹنبرو ایک طویل عرصے سے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی سے منسلک ہیں جس کے تحت انہوں نے ماحول اور جنگلی حیات پر بے شمار دستاویزی فلمیں اور پروگرام تخلیق کیے ہیں۔

    عالمی اقتصادی فورم میں سر ڈیوڈ کو ماحولیات کے لیے ان کی خدمات کے اعزاز میں ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔

  • ہوا کو صاف کرنے والا اسمارٹ گملا

    ہوا کو صاف کرنے والا اسمارٹ گملا

    امریکی شہر سان فرانسسکو کی ایک ٹیکنالوجی کمپنی نے ایسا گملا تیار کیا ہے جو پودے لگانے کے ساتھ ساتھ ہوا کو صاف کرنے میں بھی مدد دے گا۔

    عالمی ادارہ صحت نے گھروں کے اندر کی آلودگی کو انسانی صحت کے لیے ایک بڑا خطرہ قرار دیا ہے۔ ماہرین کے مطابق گھروں کے اندر موجود ہوا کا معیار تشویش کا سبب بن رہا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ گھروں میں ہوا کی آمد و رفت کے لیے کم جگہ چھوڑی جا رہی ہے۔

    کلیئر نامی کمپنی کی جانب سے بنائے جانے والے ان گملوں میں لگا ننھا سا پنکھا ہوا کو کھینچ کر اندر لے جاتا ہے جہاں اس کے اندر لگا پودا ہوا کو صاف کرتا ہے۔

    اس گملے کی یہ تکنیک ناسا کی ایک تحقیق کی روشنی میں استعمال کی گئی ہے۔

    سنہ 1980 میں ناسا کی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ کچھ پودے پتوں کے بجائے اپنی جڑوں کے ذریعے آس پاس کی ہوا کو صاف کرنے کا عمل سر انجام دیتے ہیں۔

    عام گملے ہوا کو جڑوں تک پہنچنے نہیں دیتے اسی لیے کلیئر نے انہی پودوں کے ذہن میں رکھتے ہوئے یہ گملا ڈیزائن کیا ہے جو ہوا کو کھینچ کر پودے کی جڑوں تک پہنچا دیتا ہے تاکہ وہ اسے صاف کرسکیں۔

    یہ گملا موبائل فون کی ایک ایپلی کیشن کے ذریعے آپ کو باخبر بھی کرتا رہے گا کہ اس وقت آپ کے گھر میں ہوا کی کوالٹی کیا ہے۔

    ہوا کا معیار زیادہ خراب ہونے کی صورت میں یہ آپ کو خبردار بھی کرے گا کہ موجودہ ہوا آپ کے لیے غیر صحت مند ہے۔

  • پانی پینے کے لیے چینی سے بنی بوتلیں

    پانی پینے کے لیے چینی سے بنی بوتلیں

    دنیا بھر میں پانی پینے کے لیے پلاسٹک کی بوتلوں کا استعمال نہایت عام ہے، لیکن یہی پلاسٹک ہماری زمین کو کچرے کا گڑھ بنا رہا ہے۔ پلاسٹک کے نقصانات کو دیکھتے ہوئے اس کا متبادل لانے کے لیے کوششیں کی جارہی ہیں۔

    ایسی ہی ایک کوشش کے تحت ماہرین ایسی بوتل تیار کرنے پر کام کر رہے ہیں جو چینی سے بنائی جارہی ہے۔

    ہمارے زیر استعمال پلاسٹک کی عام بوتلیں پولی کاربونیٹ سے بنائی جاتی ہیں۔ یہ پلاسٹک فون کے کیس، سی ڈی اور ڈی وی ڈی بنانے میں بھی استعمال ہوتا ہے۔

    پولی کاربونیٹ کو خام تیل سے بنایا جاتا ہے جو ماحول کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔

    مزید پڑھیں: پینے کے ساتھ ساتھ ختم ہوجانے والی پانی کی بوتل

    سائنسدان اب ایسا پولی کاربونیٹ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں جس کے بنانے میں چینی استعمال ہو۔

    اس سے قبل بھی چینی سے پلاسٹک بنانے کا تجربہ کیا گیا تھا لیکن اس کے لیے ایک زہریلا کیمیکل فوسیجین درکار تھا۔

    اب یہی کوشش ایک اور نئے طریقے سے کی جارہی ہے۔ نئے طریقہ کار کے تحت چینی اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کو ملایا جارہا ہے۔

    استعمال کے بعد جب اسے پھینک دیا جائے گا تو یہ مٹی میں موجود بیکٹریا سے انزائم کو استعمال کر کے واپس اپنی اصل حالت میں آجائیں گے جس کے بعد باآسانی زمین میں تلف ہوجائیں گے۔

    یہ بوتلیں پائیدار اور ماحول دوست ہوں گی اور زمین کے کچرے میں بھی کمی کریں گی۔

  • آسٹریلیا کی ہیٹ ویو میں چمگادڑوں کی ایک تہائی آبادی کا خاتمہ

    آسٹریلیا کی ہیٹ ویو میں چمگادڑوں کی ایک تہائی آبادی کا خاتمہ

    کینبرا: آسٹریلیا میں تاریخ کی بدترین گرمی سے ملک میں چمگادڑوں کی ایک قسم فلائنگ فاکس کی ایک تہائی آبادی کا خاتمہ ہوگیا۔ چمگادڑوں کی یہ قسم پہلے ہی معدومی کے خطرے کا شکار ہے۔

    رواں برس آسٹریلیا میں درجہ حرارت 42 سینٹی گریڈ سے تجاوز کرگیا جو ان چمگادڑوں کے لیے ناقابل برداشت تھا جس کے بعد ان کی اموات واقع ہونے لگیں۔

    مقامی افراد کا کہنا ہے کہ انہوں نے کئی مردہ چمگادڑیں اپنے گھروں کے لان، سوئمنگ پولز اور دیگر مقامات پر دیکھیں۔

    ویسٹرن سڈنی یونیورسٹی کے محققین کے مطابق 26 اور 27 نومبر کو آسٹریلیا میں شدید گرم درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا جس سے 23 ہزار چمگادڑیں موت کے منہ میں چلی گئیں۔

    ان کے مطابق مرنے والی چمگادڑوں کی تعداد زیادہ بھی ہوسکتی ہے۔

    چمگادڑوں کی یہ قسم فلائنگ فاکس کہلاتی ہے اور ان کی آنکھوں کے گرد ہلکے رنگ کا فر ہوتا ہے۔ یہ پاپا نیو گنی، انڈونیشیا اور سالمون آئی لینڈز میں بھی پائی جاتی ہیں۔

    آسٹریلیا میں یہ چمگادڑیں شمالی کوئنز لینڈ کے ایک مخصوص حصے میں پائی جاتی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ آسٹریلیا میں ان کی تعداد 75 ہزار ہے۔

    یہ چمگادڑیں نہایت کمیاب ہیں اور اس سے قبل طوفانوں میں ان کی بڑی تعداد موت کا شکار ہوجاتی تھی، تاہم اب شدید گرمی بھی ان کے لیے خطرہ ثابت ہورہی ہے جس پر ماہرین تشویش کا شکار ہیں۔

  • قطب جنوبی میں اربوں ٹن برف پگھلنے کا عمل جاری

    قطب جنوبی میں اربوں ٹن برف پگھلنے کا عمل جاری

    دنیا بھر میں رونما ہوتے موسمیاتی تغیر یعنی کلائمٹ چینج نے جہاں بے شمار مسائل کھڑے کردیے ہیں وہیں قطب جنوبی یعنی انٹارکٹیکا میں بھی برف پگھلنے کی رفتار 6 گنا زیادہ ہوگئی ہے۔

    اقوام متحدہ کی جانب سے حال ہی میں جاری کی جانے والی ایک رپورٹ کے مطابق انٹارکٹیکا کی برف سنہ 1979 سے 2017 تک نہایت تیزی سے پگھلی ہے، اس عرصے میں پگھل جانے والی برف اس سے قبل پگھلنے والی برف سے 6 گنا زیادہ ہے۔

    رپورٹ کے مطابق سنہ 1979 سے 1990 تک انٹارکٹیکا کی برف پگھلنے کی مقدار سالانہ 40 ارب ٹن رہی۔

    سنہ 1990 کے بعد سے اس میں مزید اضافہ ہوگیا اور اب انٹارکٹیکا میں سالانہ 250 ارب ٹن برف پگھل رہی ہے۔ ان اعداد و شمار کے لیے سائنسدانوں نے سیٹلائٹ تصاویر کا جائزہ لیا۔

    مزید پڑھیں: آئس برگ کا مستطیل ٹکڑا

    اس سے قبل ایک اور تحقیق میں انکشاف ہوا تھا کہ انٹارکٹیکا میں برف کے نیچے جھیلیں بن رہی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ جھیلیں اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ وہاں موجود برف پگھلنے کے باعث اس کی تہہ کمزور ہو کر چٹخ رہی ہے۔ ماہرین نے اس کی وجہ کلائمٹ چینج کو قرار دیا۔

    ماہرین کے مطابق سنہ 2000 سے اس خطے کی برف نہایت تیزی سے پگھل رہی ہے اور اس عرصہ میں 8 ہزار کے قریب مختلف چھوٹی بڑی جھیلیں تشکیل پا چکی ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ یہ ایک نہایت خطرناک صورتحال ہے کیونکہ اس طرح عالمی سمندروں میں پانی کے مقدار کا توازن بگڑ سکتا ہے اور مختلف سمندروں کی سطح غیر معمولی طور پر بلند ہوجائے گی جس سے کئی ساحلی شہروں کو ڈوبنے کا خدشہ ہے۔

  • زمین کے پھیپھڑوں کی حیثیت رکھنے والے ایمازون جنگل کی سیر کریں

    زمین کے پھیپھڑوں کی حیثیت رکھنے والے ایمازون جنگل کی سیر کریں

    جنوبی امریکا کے ملک برازیل میں واقع ایمازون کے جنگلات زمین کے پھیپھڑوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ دنیا کا سب سے بڑا برساتی جنگل ہے جو برازیل کے علاوہ پیرو، کولمبیا اور دیگر جنوبی امریکی ممالک تک پھیلا ہوا ہے۔

    رین فاریسٹ کی خاصیت رکھنے والے یہ جنگل یعنی جہاں بارشیں سب سے زیادہ ہوتی ہیں، دنیا میں موجود برساتی جنگلات کا 60 فیصد حصہ ہیں۔

    اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ایمازون سمیت دنیا بھر کے رین فاریسٹ تیزی سے ختم ہو رہے ہیں جس سے دنیا بھر کے مون سون کے سائیکل پر منفی اثر پڑے گا۔

    ایمازون جنگل مختلف اقسام کی جنگلی حیات کا مسکن بھی ہے۔

    آج ہم آپ کو اس خوبصورت جنگل کی سیر کروا رہے ہیں۔ 360 ڈگری زاویے پر گھومتی یہ ویڈیو عالمی ادارہ برائے تحفظ جنگلی حیات ڈبلیو ڈبلیو ایف کی جانب سے بنائی گئی ہے۔

    ویڈیو میں جنگل میں بہتی خوبصورت آبشاریں اور ندیاں بھی دکھائی دیں گی۔ اس ویڈیو کے ذریعے آپ کو یوں لگے گا جیسے آپ بذات خود ان خوبصورت جنگلات میں موجود ہیں۔