Tag: ماحولیات کی خبریں

  • نایاب سفید بارہ سنگھے نے لوگوں کو حیران کردیا

    نایاب سفید بارہ سنگھے نے لوگوں کو حیران کردیا

    یورپی ملک ناروے میں ایک نہایت نایاب سفید بارہ سنگھے کا بچہ دیکھا گیا جس نے لوگوں کو حیران کردیا۔

    مذکورہ بارہ سنگھا ایک فوٹو گرافر نے دیکھا جو ہائیکنگ کے لیے پہاڑوں پر موجود تھا۔ 24 سالہ فوٹو گرافر کا کہنا تھا کہ برف جیسا سفید ننھا بارہ سنگھا برف میں چھپ گیا تھا اور دکھائی ہی نہیں دیتا تھا۔

    عام بارہ سنگھے کی نسل سے ہی تعلق رکھنے والا یہ انوکھا بارہ سنگھا دراصل جینیاتی بیماری کا شکار تھا جس میں جسم کے رنگ پھیکے پڑجاتے ہیں۔

    اس بیماری میں جسم کو رنگ دینے والے عناصر جنہیں پگمنٹس کہا جاتا ہے کم ہوجاتے ہیں، جس کے بعد جسم کا قدرتی رنگ بہت ہلکا ہوجاتا ہے۔

    مذکورہ بارہ سنگھے کے جسم کے بال سفید جبکہ آنکھوں اور سینگوں کا رنگ قدرتی بھورا ہی تھا۔

    سفید بارہ سنگھے کا ذکر اسکینڈے نیوین ممالک کی لوک کہانیوں میں ملتا ہے۔ اس بارہ سنگھے کو دیکھنا خوش قسمتی کی علامت بھی سمجھا جاتا ہے۔

  • پولینڈ میں عالمی ماحولیاتی کانفرنس کا آغاز

    پولینڈ میں عالمی ماحولیاتی کانفرنس کا آغاز

    یورپی ملک پولینڈ میں سالانہ عالمی ماحولیاتی کانفرنس کوپ 24 کا آغاز ہوگیا ہے۔ کانفرنس کے شرکا پر نتیجہ خیز اقدامات اٹھانے پر زور دینے کے لیے دنیا بھر میں ریلیاں اور احتجاج بھی کیے جارہے ہیں۔

    24 ویں عالمی ماحولیاتی کانفرنس پولینڈ کے شہر کاٹو ویٹسا میں جاری ہے۔

    یاد رہے کہ سنہ 2015 میں ہونے والی عالمی کانفرنس میں امریکا سمیت 195 ممالک نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ وہ مل کر اس پر کام کریں گے کہ عالمی موسمی حدت میں ہوتے اضافے کو 2 ڈگری سے کم رکھا جاسکے۔

    یہ تاریخ ساز معاہدہ پیرس معاہدے کے نام سے جانا جاتا ہے۔

    تاہم سنہ 2017 میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منصب صدارت سنبھالتے ہی اس معاہدے سے علیحدگی کا اعلان کردیا اور اس سے متعلق سال کے آخر تک باضابطہ کارروائی کردی گئی، البتہ معاہدے کے تحت سنہ 2020 تک امریکا معاہدے کا حصہ رہے گا۔

    امریکا کی علیحدگی ایک پریشان کن صورتحال تھی کیونکہ امریکا کاربن اخراج کرنے والا دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔

    عالمی کانفرنس میں شریک سربراہان نے اس بات پر زور دیا کہ کاربن کے اخراج میں کمی کے لیے فوری طور پر مؤثر اقدامات کیے جائیں۔

    دوسری جانب اجلاس کے موقع پر کئی ممالک میں مظاہرے بھی کیے جارہے ہیں جن میں مطالبہ کیا جارہا ہے کہ زمین کو بچانے کے لیے ٹھوس اور نتیجہ خیز اقدامات کیے جائیں۔

  • ہماری نئی غذا ۔ پلاسٹک

    ہماری نئی غذا ۔ پلاسٹک

    اسپین میں بنایا گیا ایک اشتہار دنیا کے خوفناک مستقبل کی طرف اشارہ کر رہا ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ مستقبل میں ہماری خوراک پلاسٹک ہوگی۔

    اس اشتہار میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح ہمارے دریا اور سمندر پلاسٹک سے اٹ چکے ہیں اور سنہ 2050 تک ہمارے سمندروں میں آبی حیات اور مچھلیوں سے زیادہ پلاسٹک موجود ہوگا۔

    نیدر لینڈز کے ماحولیاتی ادارے گرین پیس کے مطابق دنیا بھر میں 26 کروڑ ٹن پلاسٹک پیدا کیا جاتا ہے جس میں سے 10 فیصد ہمارے سمندروں میں چلا جاتا ہے۔

    کچھ عرصہ قبل عالمی اقتصادی فورم نے دنیا بھر کے سمندروں میں پائے جانے والے پلاسٹک کی تعداد پیش کی تھی۔

    عالمی اقتصادی فورم کے مطابق جنوبی بحر اوقیانوس میں پلاسٹک کے 297 ارب ٹکڑے موجود ہیں۔

    جنوبی بحر الکاہل میں 491 ارب پلاسٹک کے ٹکڑے پھینکے گئے ہیں۔

    شمالی بحر اوقیانوس میں 930 ارب پلاسٹک کے ٹکڑے سمندر کو آلودہ کیے ہوئے ہیں۔

    بحرہ ہند میں 1 اعشاریہ 3 کھرب پلاسٹک کے ٹکڑے موجود ہیں۔

    سب سے زیادہ پلاسٹک کے ٹکڑے شمالی بحر اوقیانوس میں موجود ہیں جن کی تعداد 2 کھرب ہے۔

    دنیا کو متاثر کرنے والے اس بڑے مسئلے کی نشاندہی کے باجود تاحال اسے سنجیدگی سے نہیں لیا جارہا، حال ہی میں جاپان اور امریکا ایک معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کر چکے ہیں جو سمندروں کی صفائی سے متعلق تھا۔

    ماہرین کے مطابق اگر فوری طور پر اس سلسلے میں اقدامات نہ اٹھائے گئے تو ہماری غذا اسی اشتہار میں دکھائی گئی جیسی ہوگی اور ہم پلاسٹک کھانے پر مجبور ہوں گے۔

  • اکیلے شیر پر افریقی بلیوں کا حملہ

    اکیلے شیر پر افریقی بلیوں کا حملہ

    ویسے تو ببر شیر اپنی خونخواری اور خطرناکی کی وجہ سے مشہور ہے تاہم بعض اوقات شیر کو بھی مشکل کا سامنا ہوسکتا ہے اور وہ بھی گھر سکتا ہے۔

    بی بی سی ارتھ کی ایک ویڈیو میں ایسے ہی ایک شیر کی مشکل عکسبند کی گئی ہے جو افریقی بلیوں سے ملتی جلتی قسم ہائینا کے غول میں گھر گیا ہے۔

    ہائینا افریقہ میں پائی جانے والی ممالیہ نسل ہے جو بظاہر کتے سے ملتا جلتا ہے لیکن ماہرین کے مطابق عادات و خصلتوں میں یہ بلیوں کے زیادہ قریب ہے۔

    ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ڈھیر سارے ہائینا نے ببر شیر کو گھیر لیا ہے اور اس کی دھاڑ سے خوفزدہ ہوئے بغیر اس پر جھپٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

    یہ ویڈیو بی بی سی ارتھ کے نئے ٹی وی پروگرام ’ڈائنسٹیز‘ کے تحت عکسبند کی گئی ہے۔

    معروف محقق اور ماہر ماحولیات ڈیوڈ ایٹنبرو کا پیش کردہ پروگرام ’ڈائنسٹیز‘ جو کچھ عرصہ قبل ہی شروع کیا گیا ہے، بہت تیزی سے مقبول ہورہا ہے۔ ڈیوڈ اس سے قبل پلینٹ ارتھ اور بلیو پلینٹ نام کی سیریز بھی پیش کرچکے ہیں۔

    اب ان کی نئی سیریز زمین کے سب سے زیادہ خطرے کا شکار 5 جانوروں پینگوئن، بن مانس، ببر شیر، چیتے اور شکاری کتے کی ایک قسم پینٹڈ وولوز کی زندگی کے گرد گھومتی ہے۔

    اس سیریز کی تیاری میں 4 سال کا عرصہ لگا ہے جبکہ سیریز میں ان جانوروں کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو پیش کیا جارہا ہے۔

  • مردہ مچھلیوں سے بحری جہازوں کا ایندھن بنانے کی تیاری

    مردہ مچھلیوں سے بحری جہازوں کا ایندھن بنانے کی تیاری

    اوسلو: ناروے کی سب سے بڑی کروز آپریٹر کمپنی سمندری آلودگی میں کمی اور کلائمٹ چینج سے نمٹنے کے لیے مردہ مچھلیوں سے جہازوں کا ایندھن بنانے کا ارادہ رکھتی ہے۔

    کمپنی کا کہنا ہے کہ بحری جہازوں کے لیے زہریلا فیول آئل استعمال کرنے کے بجائے ماہی گیری کی صنعت میں بچ جانے والی مچھلیوں اور دیگر نامیاتی اجزا کو ملا کر بائیو گیس بنائی جائے گی۔

    کمپنی کے چیف ایگزیکٹو کا کہنا ہے کہ جسے دوسرے لوگ مسئلہ سمجھتے ہیں اسے ہم ایک حل اور ایک ذریعے کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ اس طرح سے حاصل ہونے والے ایندھن کے استعمال سے ان کی کمپنی دنیا کی پہلی کمپنی بن جائے گی جو بحری جہازوں کو فوسل فری ایندھن سے چلائے گی۔

    مزید پڑھیں: دنیا کا سب سے بڑا بحری جہاز آلودگی میں اضافے کا سبب

    کمپنی کے ترجمان کے مطابق مذکورہ منصوبے پر عملدر آمد سنہ 2019 کے آخر تک شروع ہوجائے گا۔ کمپنی سنہ 2021 تک اپنے تمام جہازوں کو اسی ایندھن پر منتقل کر کے ماحول دوست بنانے کا ارادہ رکھتی ہے۔

    ناروے میں ماہی گیری اور جنگلات کی بہت بڑی صنعت ہے جس سے بڑی مقدار میں نامیاتی کچرا حاصل ہوتا ہے۔

    دوسری جانب کروز شپ کمپنیوں کو ماحول کی تباہی کا بڑا ذمہ دار بھی قرار دیا جاتا ہے۔ ایک تحقیق کےمطابق ایک بڑے بحری جہاز کا ایندھن سمندر میں روزانہ اتنی ہی آلودگی پیدا کرتا ہے جتنی سڑک پر 10 لاکھ گاڑیاں روزانہ کی مقدار میں پیدا کرتی ہیں۔

    ناروے میں ٹرانسپورٹ کے کئی ذرائع پہلے ہی ماحول دوست توانائی پر منتقل کیے جاچکے ہیں۔ نارو ے سنہ 2026 تک اپنے تمام بحری جہازوں کے لیے بھی صفر اخراج کا ہدف رکھتا ہے۔

    ناروے میں پہاڑوں سے گھرا ایک تنگ راستہ فیورڈ جو بحری جہازوں کی اہم گزرگاہ ہے، یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں بھی شامل ہے۔

  • اب دیواریں بھی بجلی بنا سکیں گی

    اب دیواریں بھی بجلی بنا سکیں گی

    دنیا بھر میں اس وقت توانائی کے حصول کے لیے ماحول دوست ذرائع کو فروغ دیا جارہا ہے جس میں شمسی توانائی کا ذریعہ سرفہرست ہے۔ حال ہی میں ایک ایسا روغن تیار کیا گیا ہے جو گھر کی دیواروں کو توانائی پیدا کرنے کے ذریعے میں تبدیل کرسکتا ہے۔

    آسٹریلیا کے رائل میلبرن انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے محققین نے ایسا روغن تیار کیا ہے جو کم از کم ایک گھر کی توانائی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے کافی ہوگا۔

    تجرباتی طور پر تیار کیے گئے اس روغن میں ٹائٹینیئم آکسائیڈ (جو عام روغن میں بھی استعمال ہوتا ہے) کے ساتھ ساتھ سینتھٹک مولیبڈنم سلفائیڈ نامی مرکب شامل کیا گیا ہے۔

    یہ مرکب آس پاس کی ہوا سے شمسی توانائی اور نمی کو جذب کرتا ہے، بعد ازاں یہ کیمیائی عمل کے ذریعے اس نمی سے ہائیڈروجن اور آکسیجن کو علیحدہ کردیتا ہے۔

    اب ہائیڈروجن توانائی پیدا کرسکتی ہے اور دیوار کو باآسانی توانائی کی فراہمی کے ذریعے میں تبدیل کردیتی ہے۔

    یہ روغن ہر طرح کے ماحول اور موسم میں کام کر سکتا ہے اور اس وقت اس کی کارکرگی میں اضافہ ہوجائے گا جب اسے کسی آبی ذخیرے جیسے ندی یا تالاب کے نزدیک استعمال کیا جائے گا۔

    ماہرین کا اس روغن کو فی الحال کمرشلی پیش کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

    ان کا کہنا ہے کہ یہ روغن دیوار کے علاوہ کسی بھی سطح جیسے کسی باڑھ، پالتو جانور کے گھر یا شیڈ کو بھی بجلی پیدا کرنے کے ذریعے میں تبدیل کرسکتا ہے۔

  • آلودہ پانی کو پینے کے قابل بنانے کا آسان طریقہ

    آلودہ پانی کو پینے کے قابل بنانے کا آسان طریقہ

    دنیا بھر میں پینے کے لیے صاف پانی کی فراہمی ایک بڑا مسئلہ بنتا جارہا ہے اور عالمی اداروں کے مطابق ترقی پذیر ممالک میں بلند شرح اموات کی بڑی وجہ آلودہ پانی پینا ہے۔

    تاہم پاکستان میں پایا جانے والا ایک عام درخت آلودہ پانی کو بغیر کسی کیمیائی عمل کے صاف کر کے اسے پینے کے قابل بنا سکتا ہے۔

    یہ درخت مورنگا کا درخت ہے جسے سوہانجنا بھی کہا جاتا ہے۔ سوہانجنا ایشیا اور افریقہ دونوں خطوں میں پایا جاتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق سوہانجنا کے بیجوں کو پیس کر پانی میں شامل کردیا جائے تو یہ پانی میں موجود آلودگی کو کافی حد تک ختم کرسکتا ہے۔

    پانی کو صاف کرنا سوہانجنا کی کئی خصوصیات میں سے ایک ہے۔

    خیال رہے کہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں 2 ارب افراد کو میسر پینے کا پانی انسانی فضلے سے آلودہ ہے، پینے کے لیے بالکل ناقابل استعمال اس پانی سے ہر سال 5 لاکھ کے قریب افراد ہلاک ہوجاتے ہیں۔

    سوہانجنا کے درخت صوبہ پنجاب میں بہت بڑی تعداد میں موجود ہیں جبکہ ماہرین نباتات کے مطابق یہ درخت اندرون سندھ کے علاقوں کے لیے بھی موزوں ہے۔

    یہ حیران کن درخت قحط اور خشک سالی کے موسم میں بھی اگ سکتا ہے اور سخت ترین موسمی حالات میں بھی بہت تیزی سے نشونما پاتا ہے۔

  • شمسی توانائی پر انحصار کرنے والوں کے لیے بری خبر

    شمسی توانائی پر انحصار کرنے والوں کے لیے بری خبر

    دنیا بھر میں توانائی کے لیے استعمال کیے جانے والے مختلف ذرائع جیسے بائیو ڈیزل وغیرہ ماحول کو آلودہ کرنے کا سبب بنتے ہیں جس کے بعد اب قابل تجدید توانائی کے ذرائع پر کام کیا جارہا ہے جن میں شمسی توانائی سرفہرست ہے۔

    تاہم حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق فضائی آلودگی شمسی توانائی کے پینلز کی کارکردگی کو کم کرسکتی ہے جس سے بجلی کی پیداوار میں کمی آئے گی۔

    تحقیق کے مطابق فضا میں موجود دھول مٹی اور بائیو ڈیزل (پیٹرول یا اس کے دھویں) کے ذرات شمسی پینلز کی کارکردگی کو 17 سے 25 فیصد کم کرسکتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: دنیا کا سب سے بڑا شمسی توانائی پارک پاکستان میں

    امریکا کی ڈیوک یونیورسٹی میں کی جانے والی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ فضائی آلودگی کے ذرات ان پینلز پر ایک تہہ کی صورت جم جاتے ہیں جس کے بعد انہیں پہنچنے والی سورج کی روشنی کم ہوجاتی ہے اور یوں وہ کم بجلی پیدا کرتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس صورتحال سے بچنے کے لیے شمسی پینلز کی صرف صفائی کرنا کافی نہیں ہوگا۔ جب تک صفائی کا عمل شروع کیا جائے گا تب تک آلودہ ذرات ان پینل کے سسٹم کو نقصان پہنچا چکے ہوں گے۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ کسی علاقے میں آلودگی سے پاک ہوا وہاں پر شمسی پینلز کو 100 فیصد کارکردگی دکھانے کا موقع دے گی یوں وہ علاقے توانائی کے لیے ماحول دشمن ذرائع سے چھٹکارہ حاصل کرلیں گے۔

  • سندھ میں جنگلات کی ایک لاکھ ایکڑ سے زائد زمین بااثر افراد کو الاٹ

    سندھ میں جنگلات کی ایک لاکھ ایکڑ سے زائد زمین بااثر افراد کو الاٹ

    کراچی: صوبہ سندھ میں جنگلات کی ایک لاکھ ایکڑ سے زائد زمین پر قبضہ کر کے زمین با اثر سیاسی افراد کو الاٹ کردی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق محکمہ جنگلات سندھ نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ سندھ میں جنگلات کی ایک لاکھ ایکڑ سے زائد زمین پر قبضہ کیا جاچکا ہے۔

    رپورٹ کے مطابق لاکھوں ایکڑ جنگلات کی زمین با اثر سیاسی افراد کو الاٹ کردی گئی ہے جن کا تعلق سندھ کے مختلف شہروں سے ہے۔

    محکمہ جنگلات نے انکشاف کیا ہے کہ سندھ کے شہر دادو میں 27 ہزار ایکڑ جنگلات کی زمین پر بااثر افراد کا قبضہ ہے، سکھر رینج میں جنگلات کی 23 ہزار ایکڑ زمین پر قبضہ ہے۔

    اسی طرح شکار پور، لاڑکانہ، کھپرو اور خیرپور میں بھی جنگلات کی زمینوں پر مافیا قابض ہیں۔

    محکمہ جنگلات کے مطابق مافیا کے خلاف کیے جانے والے آپریشن میں صرف 15 ہزار 723 ایکڑ زمین واگزار کرائی جاسکی ہے۔

    خیال رہے کہ سندھ میں جنگلات کی تباہی کی بڑی ذمہ دار بے لگام ٹمبر مافیا بھی ہے جس کے آگے حکام بے بس ہیں۔

    یہ ٹمبر مافیا سندھ کے ساحلی علاقوں میں پائے جانے والے قیمتی ترین تیمر کے جنگلات کو نصف سے زیادہ کاٹ چکی ہے۔

    سندھ کے ساحلی شہر کراچی کے ساحل پر واقع مینگرووز یا تیمر کے جنگلات کا شمار دنیا کے بڑے جنگلات میں کیا جاتا ہے۔ یہ جنگلات کراچی میں سینڈز پٹ سے لے کر پورٹ قاسم تک پھیلے ہوئے ہیں۔

    تیمر کا جنگل بیک وقت نمکین اور تازہ پانیوں میں نشونما پاتا ہے اور دریائے سندھ کا زرخیز ڈیلٹا ان ہرے بھرے مینگرووز کا گھر ہے۔

    سنہ 2004 میں بحیرہ عرب میں آنے والے خطرناک سونامی نے بھارت سمیت کئی ممالک کو اپنا نشانہ بنایا تاہم پاکستان انہی تیمر کے جنگلات کی وجہ سے محفوظ رہا۔

    بیسویں صدی کے شروع میں یہ مینگرووز 6 لاکھ ایکڑ رقبے پر پھیلے ہوئے تھے جو ٹمبر مافیا کی من مانی کی وجہ سے اب گھٹتے گھٹتے صرف 1 لاکھ 30 ہزار ایکڑ تک رہ گئے ہیں۔

  • چوہوں کی یلغار کے لیے تیار ہوجائیں!

    چوہوں کی یلغار کے لیے تیار ہوجائیں!

    دنیا بھر میں تیزی سے بڑھتا ہوا درجہ حرارت جہاں ایک طرف تو بے شمار مسائل کھڑے کر رہا ہے وہیں چوہوں کی آبادی میں بھی بے تحاشہ اضافے کا خطرہ ہے۔

    ماہرین ماحولیات کے مطابق دنیا بھر میں مختلف شہروں کا بڑھتا ہوا درجہ حرارت انہیں چوہوں کی افزائش کے لیے ایک آئیڈیل مقام بنا سکتا ہے۔

    اس وقت بے شمار امریکی شہر جیسے نیویارک، شکاگو اور بوسٹن چوہوں میں اضافے کی وجہ سے پریشان ہیں اور ان سے نجات پانے کی مہمات پر لاکھوں ڈالر کی رقم خرچ کر رہے ہیں۔

    کارنل یونیورسٹی کے ایک پروفیسر کے مطابق ایک چوہیا اپنی پیدائش کے صرف ایک ماہ کے بعد بچے پیدا کرنے کے قابل ہوجاتی ہے، جبکہ اس کے حمل کا عرصہ 14 دن ہوتا ہے۔ یعنی ایک چوہیا سال بھر میں 15 ہزار سے 18 ہزار چوہے پیدا کر سکتی ہے۔

    مزید پڑھیں: کیا آپ کو چوہوں سے ڈر لگتا ہے؟

    ایک سروے کے مطابق بوسٹن میں پانی کے ہر ذخیرے میں 25 سے 30 چوہے موجود ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں ان کی بڑی تعداد ہاؤسنگ کمیونٹیز اور مختلف عمارتوں میں رہائش پذیر ہے۔

    بوسٹن کے ایک رہائشی کا کہنا ہے کہ جیسے جیسے چوہوں کی عمر بڑھتی جاتی ہے یہ انسانوں سے ڈر کر بھاگنا بند کردیتے ہیں کیونکہ یہ ان سے مانوس ہوتے جاتے ہیں۔ ’یہ خوفناک بات ہے کہ وہ انسانوں سے ڈرتے بھی نہیں‘۔

    امریکا کے ایک پیسٹ کنٹرول ادارے کے مطابق صرف گزشتہ برس چوہوں کی آبادی میں شکاگو میں 61 فیصد، بوسٹن میں 67 فیصد، سان فرانسسکو میں 174 فیصد، نیویارک میں 129 فیصد اور واشنگٹن میں 57 فیصد اضافہ ہوا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ چوہوں کی آبادی میں اس بڑے اضافے سے پرندوں کو بھی خطرہ لاحق ہے جو آسانی سے بڑے چوہوں کا شکار بن جاتے ہیں۔