Tag: ماحولیات کی خبریں

  • میرے کمرے میں بندر کیسے آگیا؟

    میرے کمرے میں بندر کیسے آگیا؟

    یورپی ملک آئس لینڈ میں تحفظ جنگلی حیات کی طرف توجہ دلانے کے لیے بنائی جانے والی شارٹ فلم پر سیاسی طور پر متنازعہ ہونے کی وجہ سے پابندی عائد کردی گئی، تاہم اس کے باوجود عام افراد کی جانب سے اسے پذیرائی حاصل ہورہی ہے۔

    شارٹ فلم ایک ننھی بچی اور بندر سے ملتے جلتے ایک جانور اورنگٹن پر مشتمل ہے۔ بچی اپنے کمرے میں اورنگٹن کو دیکھ کر پریشان ہے جو اس کے کھلونوں سے کھیل رہا ہے اور اس کی چیزوں کو پھینک رہا ہے۔

    دروازوں اور کھڑکیوں پر لٹکتے ہوئے اورنگٹن نے کمرے کی کئی قیمتی چیزیں بھی توڑ ڈالی ہیں۔ اس کے بعد جب وہ میز پر بیٹھتا ہے تو وہاں بچی کا شیمپو رکھا ہے جو پام (پھل) سے بنا ہے۔ اسے دیکھ کر اورنگٹن ایک ٹھنڈی آہ بھرتا ہے۔

    ادھر بچی اورنگٹن کو دیکھ کر سخت پریشان ہے اور وہ اسے فوراً اپنے کمرے سے نکل جانے کو کہتی ہے، اورنگٹن دل گرفتہ ہو کر کمرے سے باہر جانے لگتا ہے جس کے بعد بچی اس سے پوچھتی ہے کہ وہ اس کے کمرے میں کیا کر رہا تھا۔

    مزید پڑھیں: اپنی نسل کا وہ واحد جانور جو دنیا بھر میں کہیں نہیں

    اورنگٹن اپنی داستان سناتا ہے کہ وہ جنگلات میں رہتا تھا۔ ایک دن وہاں انسان آگئے جن کے پاس بڑی بڑی مشینیں اور گاڑیاں تھیں۔ انہوں نے درخت کاٹ ڈالے اور جنگل کو جلا دیا تاکہ وہ اپنے کھانے اور شیمپو کے لیے وہاں پام اگا سکیں۔

    ’وہ انسان میری ماں کو بھی ساتھ لے گئے اور مجھے ڈر تھا کہ وہ مجھے بھی نہ لے جائیں چنانچہ میں چھپ گیا‘۔

    اورنگٹن کہتا ہے کہ انسانوں نے میرا پورا گھر جلا دیا، میں نہیں جانتا تھا کہ مجھے کیا کرنا چاہیئے سو میں نے سوچا کہ میں تمہارے ساتھ رہ جاتا ہوں۔

    اورنگٹن کی کہانی سن کر بچی اچھل پڑتی ہے اور وہ عزم کرتی ہے کہ وہ اس اورنگٹن کی کہانی ساری دنیا کو سنائے گی تاکہ پام کے لیے درختوں کے کٹائی کو روکا جاسکے اور اورنگٹن کی نسل کو بچایا جاسکے۔

    اورنگٹن کی نسل کو کیوں خطرہ ہے؟

    جنوب مشرقی ایشیائی جزیروں بورنو اور سماترا میں پایا جانے والا یہ جانور گھنے برساتی جنگلات میں رہتا ہے۔

    تاہم ان جنگلات کو کاٹ کر اب زیادہ سے زیادہ پام کے درخت لگائے جارہے ہیں جو دنیا کی ایک بڑی صنعت کی ضروریات پوری کر رہے ہیں۔

    پام کا پھل کاسمیٹک اشیا، مٹھائیوں اور دیگر اشیائے خوراک میں استعمال ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں اس کے تیل کی مانگ بھی بہت زیادہ ہے۔

    اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے کئی ایشیائی اور یورپی ممالک میں جنگلات کو آگ لگا دی جاتی ہے جس کے بعد وہاں پام کے درخت لگائے جاتے ہیں۔ آگ لگنے کے بعد وہاں موجود جنگلی حیات بے گھر ہوجاتی ہے اور ان کی موت کی شرح میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔

    اورنگٹن بھی انہی میں سے ایک ہے جو اپنی پناہ گاہوں کے تباہ ہونے کا باعث معدومی کے شدید خطرے کا شکار ہے۔

    دوسری جانب آئس لینڈ اب تک وہ پہلا ملک ہے جو مقامی برانڈز پر زور دے رہا ہے کہ وہ اپنی اشیا میں سے پام کا استعمال ختم کردیں۔

    مذکورہ شارٹ فلم بھی آئس لینڈ میں موجود ماحولیاتی تنظیم گرین پیس کی جانب سے بنائی گئی ہے تاہم نشریاتی بورڈ کا کہنا ہے کہ یہ چند نشریاتی قوانین کی خلاف ورزی پر مبنی ہے۔

    اس اینیمیٹڈ فلم کو سوشل میڈیا پر بہت مقبولیت حاصل ہورہی ہے۔ فلم کو ان 25 اورنگٹنز کے نام کیا گیا ہے جو ہر روز اپنی پناہ گاہیں کھونے کے بعد اپنی جان سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔

    فلم کے آخر میں ننھی بچی اورنگٹن کو گلے لگاتے ہوئے کہتی ہے، ’مستقبل لکھا ہوا نہیں ہے، لیکن میں اسے یقینی بناؤں گی کہ وہ ہمارا ہو‘۔

  • جب آپ پیدا ہوئے تو آپ کے شہر میں کتنی گرمی پڑتی تھی؟

    جب آپ پیدا ہوئے تو آپ کے شہر میں کتنی گرمی پڑتی تھی؟

    دنیا بھر میں موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج تیزی سے واقع ہورہا ہے۔ دنیا کے مختلف حصوں کے درجہ حرارت میں اضافہ ہورہا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کلائمٹ چینج کی وجہ انسانی سرگرمیاں ہیں۔ جنگلات کی کٹائی، کاروں اور صنعتوں سے دھویں کا اخراج اور آلودگی میں اضافے نے دنیا بھر کے موسم کو گرم کردیا ہے۔

    کلائمٹ لیب امپیکٹ نے ایک انٹر ایکٹو وضع کیا ہے جو آپ کو بتائے گا کہ آپ کی پیدائش کے وقت آپ کے شہر میں کتنی گرمی پڑتی تھی اور اب اس میں کتنا اضافہ ہوا ہے۔

    یہ دیکھنے کے لیے آپ کو دیے گئے لنک پر جا کر اپنے شہر کا نام اور سنہ پیدائش لکھنا ہوگا جس کے بعد مختلف سالوں میں ہونے والا آپ کے شہر کا درجہ حرارت آپ کے سامنے آجائے گا۔

    یہاں کلک کریں

    اس انٹر ایکٹو کو دیکھنے کے بعد یقیناً آپ پریشانی میں مبتلا ہوگئے ہوں گے کیونکہ آپ کے شہر کا درجہ حرارت آپ کے سنہ پیدائش کے مقابلے میں اس وقت بہت بڑھ گیا ہوگا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کلائمٹ چینج سے کسی حد تک نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ کاربن کے اخراج میں کمی کی جائے اور زیادہ سے زیادہ شجر کاری کی جائے۔

  • انسان کی وجہ سے صرف 50 سال میں زمین کی بے تحاشہ تباہی

    انسان کی وجہ سے صرف 50 سال میں زمین کی بے تحاشہ تباہی

    انسان کو یوں تو اشرف المخلوقات کہا جاتا ہے تاہم یہ اشرف المخلوقات دیگر جانداروں کے لیے کس قدر نقصانات کا باعث بن رہا ہے اس کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں۔

    عالمی ادارہ برائے تحفظ جنگلی حیات ڈبلیو ڈبلیو ایف کی ایک رپورٹ کے مطابق انسان نے صرف 50 سال کے اندر زمین اور اس پر رہنے والے جانداروں کو بے تحاشہ نقصان پہنچایا ہے۔

    رپورٹ کے مطابق صرف 50 سال کے اندر زمین پر رہنے والے 60 فیصد جنگلی حیات، دنیا بھر کے گہرے سمندروں میں پائی جانے والی نصف مونگے کی چٹانیں، اور دنیا کے سب سے بڑے برساتی جنگل ایمیزون کا پانچواں حصہ ختم ہوچکا ہے۔

    ماہرین کے مطابق اس تمام نقصان کی سب سے بڑی وجہ آبی و فضائی آلودگی، موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج اور جنگلی حیات کی رہائش گاہوں کی بربادی ہے۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ سنہ 1970 سے 2014 کے درمیان 4 ہزار اقسام کی جنگلی حیات اور جنوبی اور وسطی امریکا میں ریڑھ کی ہڈی رکھنے والے 89 فیصد جاندار ختم ہوگئیں۔

    مزید پڑھیں: جانوروں کی عظیم معدومی کا ذمہ دار حضرت انسان

    اس کی وجہ ان جانوروں کی پناہ گاہوں یعنی جنگلوں کی بے تحاشہ کٹائی تھی تاکہ وہاں بڑھتی ہوئی انسانی آبادی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے زراعت کی جاسکے۔

    ماہرین کے مطابق انسان اس زمین پر چھٹی عظیم معدومی کا آغاز کر چکا ہے۔

    یاد رہے کہ زمین پر اب تک 5 عظیم معدومیاں رونما ہوچکی ہیں۔ سب سے خوفناک معدومی 25 کروڑ سال قبل واقع ہوئی جب زمین کی 96 فیصد آبی اور 70 فیصد زمینی حیات صفحہ ہستی سے مٹ گئی۔

    آخری معدومی اب سے ساڑھے 6 کروڑ سال قبل رونما ہوئی جس میں ڈائنوسارز سمیت زمین کی ایک تہائی حیاتیات ختم ہوگئی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ہم اگلے 50 سال تک جانوروں کا شکار کرنا، آلودگی پھیلانا اور جنگلات کی کٹائی بند کردیں تب بھی زمین کو اپنی اصل حالت میں واپس لوٹنے کے لیے 30 سے 50 لاکھ سال کا عرصہ درکار ہوگا۔

  • فطرت کی یہ خوبصورت موسیقی آپ کو مسحور کردے گی

    فطرت کی یہ خوبصورت موسیقی آپ کو مسحور کردے گی

    قدرتی مقامات جیسے سمندر، جنگلات اور پہاڑ کے درمیان موجود ہوتے ہوئے آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ فطرت کی آوازیں نہایت پرسکون ہوتی ہیں۔

    خاموش مقامات پر ہوا کی آواز، بارش یا شبنم کے قطروں کا پتوں پر گرنا، پرندوں کی آوازیں اور سمندر کا شور اس قدر مسحور کردیتا ہے کہ بھیڑ بھاڑ اور پرشور مقامات پر واپس جانے کا دل نہیں چاہتا۔

    ایک جاپانی فنکار نے ان آوازوں کے سرور میں اضافہ کرنے کے لیے اس میں ایک انوکھی چیز کا اضافہ کیا۔

    مورہرو ہرانو نامی اس فنکار نے میوزک ڈائریکٹر اور کارپینٹر پر مشتمل اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر ایک بڑا سا آلہ موسیقی تشکیل دیا۔

    زائلو فون کی طرز پر بنائے گئے لکڑی کے اس اسٹرکچر پر ربر کی ایک ننھی سی گیند حرکت کرتی ہے جس سے نہایت خوبصورت موسیقی پیدا ہوتی ہے۔

    مزید پڑھیں: گلہ بانی کے لیے استعمال کی جانے والی مسحور کن موسیقی

    یہ موسیقی فطرت کی اپنی آوازوں کے ساتھ مل کر نہایت ہی سحر انگیز سا ماحول تشکیل دے دیتی ہے۔

    کیا آپ اس خوبصورت موسیقی کو سننا چاہتے ہیں؟

  • پلاسٹک کی بوتلوں سے بنی کشتیاں

    پلاسٹک کی بوتلوں سے بنی کشتیاں

    پلاسٹک کرہ زمین کو گندگی کے ڈھیر میں تبدیل کرنے والی سب سے بڑی وجہ ہے۔ پلاسٹک کو زمین میں تلف ہونے کے لیے ہزاروں سال درکار ہیں اور یہی وجہ ہے کہ پلاسٹک بڑے پیمانے پر استعمال کے باعث زمین کی سطح پر مستقل اسی حالت میں رہ کر اسے گندگی و غلاظت کے ڈھیر میں تبدیل کرچکا ہے۔

    دنیا بھر میں جہاں پلاسٹک کا استعمال کم سے کم کرنے پر زور دیا جارہا ہے وہیں استعمال شدہ پلاسٹک کے کسی نہ کسی طرح دوبارہ استعمال کے بھی نئے نئے طریقے دریافت کیے جارہے ہیں اور ایسی ہی ایک کوشش پلاسٹک کی بوتلوں سے بنی کشتیوں کی صورت میں سامنے آگئی۔

    ان کشتیوں کو بنانے کا آغاز وسطی افریقہ میں واقع ملک کیمرون کے کچھ طلبا نے کیا جس کے بعد یہ براعظم افریقہ میں تیزی سے مقبول ہوتی گئیں۔

    پانی کی پلاسٹک والی استعمال شدہ بوتلوں سے بنائی گئی یہ کشتیاں دیکھنے میں بہت منفرد معلوم ہوتی ہیں۔

    چونکہ پلاسٹک وزن میں ہلکا ہوتا ہے لہٰذا وہ پانی میں ڈوبتا نہیں، لیکن پلاسٹک کی کشتی میں کسی کے بیٹھنے کی صورت میں وہ ڈوب بھی سکتی ہیں، لہٰذا یہاں طبیعات کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسی کشتیاں بنائی گئی ہیں جو سائز میں بڑی ہیں چنانچہ وہ اپنے اوپر پڑنے والے دباؤ کو توازن میں رکھتی ہیں۔

    پلاسٹک کی بے دریغ استعمال ہوتی بوتلوں کی ری سائیکلنگ کے لیے یہ ایک اچھوتا خیال ہے اور یقیناً دیگر ممالک کو بھی اس معاملے میں افریقہ کی تقلید کرنی چاہیئے۔

    پلاسٹک کی تباہ کاریوں سے متعلق مزید مضامین پڑھیں

  • موسم سرما کی پہلی برف باری میں پانڈا خوشی سے سرشار

    موسم سرما کی پہلی برف باری میں پانڈا خوشی سے سرشار

    ہیلونگ ژیانگ: چین میں موسم سرما کی پہلی برف باری ہوئی تو انسان تو انسان، انسانوں کا ایک خوب صورت اور معصوم دوست پانڈا بھی خوشی سے سرشار ہو گیا۔

    یہ واقعہ ہے جمہوریہ چین کے صوبے ہیلونگ ژیانگ کا، جہاں سرما کی پہلی برف گری اور ماحول کا رنگ تبدیل ہو گیا، ہر طرف ماحول خوش گوار ہو گیا۔

    موسم سرما کی برف باری کے خوش گوار اثرات ہیلونگ ژیانگ کے اس خوب صورت اور معصوم پانڈا پر بھی پڑے اور وہ خوشی سے نہال ہو کر برف باری سے لطف اندوز ہونے لگا۔

    شمال مغربی چینی صوبے کے شہر ہربِن کے ایک پارک میں پانڈا برف میں قلابازیاں کھاتے ہوئے اپنی پسند کے رنگ کی گیند کے ساتھ کھیلنے لگا، سیجیا نامی مادہ پانڈا کو سرخ رنگ بہت پسند ہے۔

    بارہ سالہ پانڈا کو 2016 میں چین کے سیچوان صوبے سے یہاں منتقل کیا گیا ہے، اس پارک میں اس کے ساتھ کھیلنے کے لیے دس سالہ نر پانڈا بھی موجود ہے۔

    پانڈا کے کھیلنے کے لیے پارک میں لکڑی کا ایک جھولا بھی لگایا گیا ہے جس پر وہ برف باری کے موسم میں سرشار ہو کر جھولتا ہے۔

  • برفانی الو کا برفیلا جھولا

    برفانی الو کا برفیلا جھولا

    شمالی امریکا میں واقع اونٹاریو جھیل پر برفانی الو دیکھا گیا جو جھیل کی برف پر بیٹھا تھا، اس نایاب منظر نے دیکھنے والوں کو دنگ کردیا۔

    امریکی شہر نیویارک اور کینیڈا کے صوبے اونٹاریو کے سنگم پر واقع اس جھیل میں نہایت حسین منظر دیکھنے میں آیا جب ایک برفانی الو یہاں بیٹھا ہوا دیکھا گیا۔

    برفانی الو جھیل کی جھولتی ہوئی برف پر بیٹھا رہا جس نے دیکھنے والوں کی حیران کردیا۔

    برفانی الو عام الو کی نسل سے ہی تعلق رکھتا ہے اور یہ نایاب پرندہ آرکٹک اور امریکا کے برفانی علاقوں میں پایا جاتا ہے۔

    یہ الو سارا سال آرکٹک کے کناروں پر گزارتے ہیں تاہم سردیوں کے موسم میں یہ غذا کی تلاش میں کینیڈا اور امریکا کی سرحد پر آجاتے ہیں۔

  • آئس برگ کا مستطیل ٹکڑا

    آئس برگ کا مستطیل ٹکڑا

    امریکی خلائی ایجنسی ناسا نے انٹارکٹیکا کے برفانی سمندر میں بہنے والے آئس برگ کے مستطیل ٹکڑے کی تصویر جاری کی ہے جو نہایت حیرت انگیز ہے۔

    ناسا کے تحقیقاتی جہاز سے کھینچی جانے والی یہ تصویر انٹارکٹیکا کے ویڈل سمندر کی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ٹکڑا کسی برفانی تودے سے ٹوٹ کر لگ ہوا ہے۔

    خیال رہے کہ عالمی حدت یعنی گلوبل وارمنگ میں اضافے کے ساتھ برفانی خطے میں موجود گلیشیئرز پگھل رہے ہیں اور تودوں کے مختلف حصوں کے ٹوٹنے کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے۔

    ناسا کے مطابق سال 2016 میں قطب شمالی پر ریکارڈ مقدار میں برف پگھلی ہے جبکہ گرم موسم کے باعث برف ٹوٹ کر بڑے بڑے تودوں کی شکل میں سمندر پر بہہ رہی ہے۔

    ماہرین کے مطابق کہ سنہ 2016 میں گرمیوں کے موسم کے درجہ حرارت میں تو اضافہ ہوا ہی، مگر اس کے ساتھ ساتھ اس برس موسم سرما بھی اپنے اوسط درجہ حرارت سے گرم تھا۔

    یعنی موسم سرما میں قطب شمالی کا جو اوسط درجہ حرارت ہے، گزشتہ برس وہ اس سے 2 سے 3 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ تھا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا میں ہوتی تیز رفتار صنعتی ترقی اور اس کے باعث گیسوں کے اخراج اور درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے اب تک قطب شمال کے برفانی رقبہ میں 620,000 میل اسکوائر کی کمی ہوچکی ہے۔

  • شیشے کی بوتلیں ساحلوں کو بچانے میں معاون

    شیشے کی بوتلیں ساحلوں کو بچانے میں معاون

    کیا آپ جانتے ہیں دنیا بھر کی ساحلی زمین سمندر برد ہورہی ہے جس کی وجہ سے سمندر کا پانی رہائشی آبادیوں کے قریب آرہا ہے اور یوں ساحل پر آباد شہروں کو شدید خطرات لاحق ہیں۔

    ساحلی زمین کے غائب ہونے کی وجہ گلوبل وارمنگ یا عالمی حدت ہے جس سے برفانی پہاڑ یا گلیشیئرز پگھل کر سمندروں میں شامل ہورہے ہیں یوں سمندر کی سطح میں اضافہ ہو رہا ہے۔

    تاہم ہماری روزمرہ زندگی میں استعمال ہونے والی شیشے کی بوتلیں ان ساحلوں کو بچا سکتی ہیں۔

    نیوزی لینڈ کی ایک کمپنی اس سلسلے میں کام کر رہی ہے اور اسے حیرت انگیز نتائج موصول ہورہے ہیں۔

    یہ کمپنی ایک تیز مشین کے ذریعے شیشے کی بوتلوں کو توڑ کر نہایت باریک ذرات میں تبدیل کردیتی ہے۔

    اس کے بعد اس میں شیشہ کے ذرات اور سیلیکا ڈسٹ الگ کرلی جاتی ہے ساتھ ہی بوتلوں پر لگے پلاسٹک اور کاغذ کے لیبلوں کو بھی الگ کرلیا جاتا ہے۔

    الگ ہوجانے کے بعد اس سے نکلنے والی مٹی بالکل ساحلی ریت جیسی ہوتی ہے۔

    ساحل کیوں سمندر برد ہورہے ہیں؟

    اس وقت دنیا بھر کے ساحلوں کا 25 فیصد حصہ سمندر برد ہورہا ہے۔

    اس کی 2 وجوہات ہیں، ایک زمینی کٹاؤ اور دوسرا قدرتی آفات۔ اس کے ساتھ ساتھ ساحلی ریت کو کئی مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے جن میں تعمیرات سرفہرست ہیں۔

    ساحلی ریت کو سڑکیں بنانے، کان کنی کرنے، اور سیمنٹ کی تیاری میں بھی استعمال کیا جاتا ہے جس کے لیے مختلف ساحلوں سے ٹنوں ریت اکٹھی کی جاتی ہے۔

    بعض اوقات ایک ساحل کی ریت اٹھا کر دوسرے ساحل پر بھی ڈالی جاتی ہے تاکہ اس ساحل پر کم ہوجانے والی مٹی کا توازن برابر کیا جاسکے۔

    اس طریقے سے نیوزی لینڈ کے کئی ساحلوں کو دوبارہ سے بحال کیا گیا جو سمندر برد ہونے کے قریب تھے۔

    دوسری جانب سنہ 2017 میں ارما طوفان کے وقت امریکی ریاست فلوریڈا میں 12 ہزار ٹرکوں کے برابر ساحلی ریت نے اپنی جگہ چھوڑ دی اور ہوا میں اڑگئی۔

    اسی طرح کیلیفورنیا کی 67 فیصد ساحلی زمین سنہ 2100 تک سمندر برد ہوجانے کا خدشہ ہے۔

    اس صورت میں دوسرے ساحلوں سے ریت لا کر خطرے کا شکار ساحل پر ڈالی جاتی ہے تاکہ شہری آبادی کو نقصان سے بچایا جاسکے۔

    نیوزی لینڈ کی ساحلی زمین بھی سخت خطرے میں ہے اور یہ پہلی کمپنی ہے جو ایک قابل قبول حل کے ساتھ سامنے آئی ہے۔

    یہ کمپنی اب تک 5 لاکھ بوتلوں سے 147 ٹن ریت حاصل کرچکی ہے۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ 330 ملی لیٹر کی ایک عام بوتل سے 200 گرام ریت حاصل ہوتی ہے۔

    کمپنی کے منتظمین کا کہنا ہے کہ اس طریقہ کار کے ذریعے پہلے وہ نیوزی لینڈ کے ساحلوں کے بچائیں گے اس کے بعد اسے پوری دنیا میں پھیلائیں گے۔

    یہ طریقہ کار نہ صرف ساحلوں کو بچا رہا ہے بلکہ شیشے کی بوتلوں کو کچرے میں پھینکنے کے رجحان کی بھی حوصلہ شکنی کر رہا ہے جس سے شہروں کے کچرے میں کمی واقع ہوسکتی ہے۔

  • چالاک پینگوئن کی چوری آپ کو ہنسنے پر مجبور کردے گی

    چالاک پینگوئن کی چوری آپ کو ہنسنے پر مجبور کردے گی

    برفانی علاقوں میں رہنے والا پرندہ پینگوئن نہایت ہی معصوم سا پرندہ سمجھا جاتا ہے، لیکن جب بات آتی ہے اپنی بقا اور بہتری کی، تو معصوم سے معصوم سے جانور بھی چالاکی دکھانے پر مجبور ہوجاتا ہے۔

    بی بی سی ارتھ نے پینگوئن کی چالاکی کی ایسی ہی ایک ویڈیو عکسبند کی جسے دیکھ کر آپ بے اختیار ہنس پڑیں گے۔

    برفانی زمین سے محفوظ رہنے کے لیے پینگوئن پتھروں کو جمع کر کے اپنے بیٹھے اور سونے کے لیے جگہ تعمیر کرتے ہیں۔

    اس دوران وہ دور و قریب سے چن چن کر ایسے پتھر جمع کرتے ہیں جو انہیں اور ان کے بچوں کو تکلیف سے بچائیں۔

    تاہم پینگوئنز کے گروہ میں ایک ایسا شرارتی پینگوئن ضرور ہوتا ہے جو اس قدر محنت کرنے کے بجائے دوسرے پینگوئنز کے جمع کردہ پتھروں سے اپنا گھر بناتا ہے۔

    یہ چالاک پینگوئن چونکہ خود دوسروں کے پتھر چراتا ہے لہٰذا اس بات سے بھی ہوشیار رہتا ہے کہ کوئی دوسرا پینگوئن اس کے پتھر چرا کر نہ لے جائے۔

    ایسے میں جب وہ پینگوئن دیکھ لیتا ہے جس کے پتھر چرائے جارہے ہوتے ہیں، تو وہ اسے مار کر دور ہٹا دیتا ہے۔

    خیال رہے کہ ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ پینگوئن دنیا میں صرف انٹار کٹیکا کے خطے میں پائے جاتے ہیں جو گلوبل وارمنگ کے باعث متضاد اثرات کا شکار ہے۔

    ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ 2060 تک پینگوئنز کی آبادی میں 20 فیصد کمی واقع ہوسکتی ہے جبکہ اس صدی کے آخر تک یہ معصوم پرندہ اپنے گھر کے چھن جانے کے باعث مکمل طور پر معدوم ہوسکتا ہے۔