Tag: ماحولیات کی خبریں

  • معذور کچھوے کے لیے لیگو وہیل چیئر

    معذور کچھوے کے لیے لیگو وہیل چیئر

    کھلونوں کی مشہور بین الاقوامی کمپنی لیگو ایک معذور کچھوے کو سہارا دینے کا سبب بن گئی۔

    18 سال کا یہ کچھوا سڑک کنارے اس حالت میں پایا گیا کی اس کا سخت خول ٹوٹا ہوا تھا جس کی وجہ سے یہ ٹھیک سے چل نہیں پارہا تھا۔

    گو کہ کچھوؤں کا خول بہت سخت ہوتا ہے تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ سمندر میں اگر یہ کسی کشتی سے ٹکرا جائیں تو ان کا خول باآسانی ٹوٹ جاتا ہے۔

    خول چونکہ کچھوے کے پورے جسم کو حفاظت فراہم کرتا ہے لہٰذا خول ٹوٹنے سے کچھوے کے جسم کے اندرونی اعضا بھی متاثر ہوتے ہیں اور شدید زخمی ہونے کے باعث ان کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔

    سڑک کنارے پائے جانے والے اس زخمی کچھوے کو ویٹرنری کلینک لے جایا گیا جہاں ڈاکٹرز نے دیکھا کہ کچھوے کا خول کسی شدید تصادم کی وجہ سے 7 مقامات سے ٹوٹا ہوا تھا۔

    ڈاکٹرز نے ابتدائی امداد فراہم کرنے کے بعد کچھوے کے لیے ایک وہیل چیئر بنا دی جس کے لیے لیگو بلاکس کو کام میں لایا گیا۔

    ہلکی پھلکی سی یہ وہیل چیئر کچھوے کو توازن اور سہارا فراہم کر رہی ہے اور اس کے باعث کچھوا پھر سے رینگنے کے قابل ہوگیا ہے۔

    کچھوے کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں

  • خاتون انڈیانا جونز کچرا جزیرے کے سفر پر

    خاتون انڈیانا جونز کچرا جزیرے کے سفر پر

    سنہ 80 کی دہائی کا مشہور فلمی کردار انڈیانا جونز جس کی شخصیت اپنے دور کی بہترین اور مقبول ترین افسانوی شخصیت سمجھی جاتی تھی، دور دراز مقامات اور دنیا سے چھپے مقامات کی کھوج لگاتا تھا۔

    ایسی ہی ایک اور خاتون ایک ایسا ہی پوشیدہ مقام منظر عام پر لانے کے لیے محو سفر ہیں جنہیں خاتون انڈیانا جونز بھی کہا جارہا ہے۔

    ایلیسن ٹیل نامی یہ سیاح وہاں کے سفر پر ہیں جہاں جانے کا کوئی سیاح سوچ بھی نہیں سکتا۔

    ایلیسن سیاحت کے لیے بہترین سمجھے جانے والے ملک مالدیپ کے ’کچرا جزیرے‘ کو سامنے لانا چاہتی ہیں۔

    یہ علاقہ مالدیپ کا ایک ویران علاقہ ہے جو کچرے کا ڈھیر بن چکا ہے۔ یہاں پر تمام رہائشی علاقوں کا کچرا لا کر پھنکا جاتا ہے اور یہ پورا علاقہ اب کچرے کا علاقہ بن چکا ہے جس کی طرف توجہ کرنا بے حد ضرور ہوگیا ہے۔

    ایلیسن دنیا کو یہی جزیرہ دکھانے نکلی ہیں۔

    بحرہ ہند کے کنارے واقع اس علاقے میں موجود کچرا سمندر میں بھی جارہا ہے چنانچہ اس مقام پر سمندر گندگی اور کچرے گڑھ بن چکا ہے۔

    بڑے بڑے کچرے کے پہاڑ، کچرے سے بھرا پانی اور یہاں موجود آبی حیات کے اندر سے نکلنے والا زہریلا اور گندا کچرا لوگوں کے ہوش اڑا دینے کے لیے کافی ہے۔

    ایلیسن کہتی ہیں کہ جزیروں کی سیاحت پر جانے والے سیاح سرفنگ کرنا اور پانی میں مختلف کھیل کھیلنا پسند کرتے ہیں، لیکن اس مقام پر یہ سب ایک بھیانک خواب معلوم ہوتا ہے۔

  • پانی کی بچت کرنے والا نلکا

    پانی کی بچت کرنے والا نلکا

    ہم میں سے اکثر افراد اپنے نلکوں سے ضائع ہوتے پانی سے پریشان رہتے ہیں۔ اس کے لیے وہ نلکوں کو کم کھول کر استعمال کرتے ہیں اور اپنے بچوں کو بھی اس کی ترغیب دیتے ہیں۔

    لیکن اس کے باوجود کچھ کاموں خاص طور پر کچن میں پانی ضائع ہونے کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے۔ پھل، سبزیوں اور برتن دھونے میں پانی کی خاصی مقدار خرچ ہوتی ہے جس میں سے 50 فیصد تو ضائع ہی ہوتی ہے۔

    water-post-1

    اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے ایک ’آلٹرڈ‘ نامی امریکی کمپنی نے نلکوں پر لگانے کے لیے ایسا نوزل بنایا ہے جو اس نلکے سے خارج ہونے والے پانی کے استعمال میں 98 فیصد کمی کردیتا ہے۔

    دراصل یہ نوزل نلکے پر لگانے کے بعد پانی کو بے شمار قطروں میں تبدیل کردیتا ہے۔ یہ نوزل پانی کو زیادہ حجم میں بھی نکالتا ہے یعنی اس سے نکلنے والے پانی کی دھار تیز اور پھیلاؤ وسیع ہوگا۔

    اس طریقہ کار کے ذریعہ جب اس نوزل کے نیچے کسی پھل یا سبزی کو دھونے کے لیے رکھا جائے گا تو یہ زیادہ جلدی دھونے کی ضرورت کو پورا کردے گی اور ہم کم وقت میں زیادہ چیزوں کو دھونے کے قابل ہوں گے۔

    water-post-2

    water-post-3

    اسے بنانے والی کمپنی کا کہنا ہے کہ یہ نوزل تیار کر کے وہ ماحول سے محبت کرنے والے ان افراد میں شامل ہوگئے ہیں جو پانی سمیت دنیا بھر کے قدرتی وسائل کو بچانے کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات کا حصہ ہیں۔

    واضح رہے کہ دنیا بھر میں موجود آبی ذخائر میں سے صرف 2 فیصد حصہ ایسا ہے جسے میٹھا پانی کہا جاسکتا ہے اور جو پینے کے قابل ہے۔ یہ پانی دریاؤں اور گلیشیئرز کی صورت میں موجود ہے۔

    مزید پڑھیں: آبی مسائل کے باعث جنوبی ایشیائی ممالک میں تنازعوں کا خدشہ

    لیکن ماہرین کے مطابق میٹھے پانی کے ان ذخائر میں تیزی سے کمی واقع ہو رہی ہے جس کے باعث کئی ممالک میں پانی کی شدید قلت پیدا ہوچکی ہے۔ اگلے چند برسوں میں یہی صورتحال پاکستان سمیت دیگر کئی ملکوں میں پیدا ہوجائے گی۔

    دوسری جانب دنیا میں اس وقت تقریباً ایک ارب افراد ایسے ہیں جو پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں۔

  • سیلاب سے تحفظ دینے والا پارک

    سیلاب سے تحفظ دینے والا پارک

    بنکاک: تھائی لینڈ کے دارالحکومت بنکاک میں ایسا پارک بنایا گیا ہے جو کسی متوقع سیلاب کی صورت میں شہر کو کم سے کم نقصان پہنچنے کا سبب بن سکتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق جنوب مشرقی ایشائی شہروں میں خطرناک بارشوں کے رجحان میں اضافہ ہورہا ہے جس کی وجہ سے سیلابوں کا خطرہ ہے۔ گزشتہ دنوں انڈونیشیا میں بھی خوفناک زلزلہ آیا جس کے بعد سونامی نے بھی شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

    بنکاک میں قائم اس پارک میں ایسے زمین دوز ٹینک بنائے گئے ہیں جن میں بارشوں کا اضافی پانی محفوظ ہوسکتا ہے۔ یہ ٹینک 38 لاکھ لیٹر پانی محفوظ کر سکتے ہیں۔

    ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر سنہ 2040 تک عالمی درجہ حرارت میں 2 فیصد اضافہ نہ بھی ہوا تب بھی سمندر کی سطح میں 20 سینٹی میٹر اضافہ ہوجائے گا جس سے دنیا کے ہر خطے میں سیلابوں کا خطرہ بڑھ جائے گا۔

    ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ سیلابی پانی سے بھرے ہوئے شہر ایک معمول کی صورتحال بھی اختیار کرسکتے ہیں۔

    دوسری جانب بنکاک کے غرق آب ہوجانے کا خدشہ بھی ہے جس کی وجہ سطح سمندر میں اضافے کے ساتھ ساتھ پینے کے لیے زیر زمین پانی کا استعمال کیا جانا بھی ہے جس سے شہر کے دھنسنے کے امکانات ہیں۔

    تحقیقی رپورٹس کے مطابق سنہ 2050 تک بنکاک میں سیلاب کا خطرہ 4 گنا بڑھ جائے گا۔

  • دنیا کا سب سے قوی الجثہ کچھوا

    دنیا کا سب سے قوی الجثہ کچھوا

    دنیا کے سب سے قوی الجثہ کچھوے نے سمندر سے نمودار ہو کر ہلچل مچا دی، لوگ اس کی جسامت دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے۔

    وسطی امریکا کے ایک جزیرے پر نمودار ہونے والا یہ کچھوا لیدر بیک نامی قسم سے تعلق رکھتا تھا۔ کچھوے کی یہ قسم عام کچھوؤں سے جسامت میں بڑی ہوتی ہے تاہم مذکورہ کچھوے کی جسامت حیرت انگیز تھی۔

    یہ مادہ کچھوا انڈے دینے کے موسم میں ساحل پر انڈے دینے آئی تھی اور گڑھا کھود کر انڈے دینے کے بعد واپس جا رہی تھی۔

    اپنے بڑے بڑے ہاتھوں سے ساحل پر رینگتی ہوئی یہ پانی کی طرف گئی اور کبھی نہ آنے کے لیے غائب ہوگئی۔

    خیال رہے کہ دنیا بھر میں ہر سال مادہ کچھوا اگست سے دسمبر کے مہینوں میں انڈے دینے کے لیے ساحلوں پر آتی ہیں۔

    مادہ کچھوا رات کی تاریکی اور سناٹے میں انڈے دینے کے لیے ساحل کی طرف آتی ہے۔ یہاں وہ ریت میں ایک گہرا گڑھا کھودتی ہے، اس کے بعد اس گڑھے میں جا کر انڈے دیتی ہے جن کی تعداد 60 سے 100 کے قریب ہوتی ہے، اس کے بعد وہ اس گڑھے کو دوبارہ مٹی سے ڈھانپ کر واپس سمندر کی طرف چلی جاتی ہے۔

    مزید پڑھیں: سینکڑوں انڈے دینے والی مادہ کچھوا اپنی نسل کو بچانے سے قاصر

    اس تمام عمل میں ایک سے 2 گھنٹے کا وقت لگتا ہے۔

    اب یہ انڈے سورج کی روشنی اور ریت کی گرمائش سے حرارت پا کر خود ہی تیار ہوجاتے ہیں اور ان میں سے ننھے کچھوے باہر نکل آتے ہیں۔ یہ ننھے کچھوے سمندر کی طرف جاتے ہیں۔

    اس سفر میں اکثر ننھے کچھوے ہلاک ہوجاتے ہیں اور 60 سے 100 بچوں میں سے صرف ایک یا 2 ہی سمندر تک پہنچنے میں کامیاب ہو پاتے ہیں جو بعد ازاں طویل عمر پاتے ہیں۔

  • سبزیاں کھانا صحت اور ماحول دونوں کے لیے فائدہ مند

    سبزیاں کھانا صحت اور ماحول دونوں کے لیے فائدہ مند

    کیا آپ جانتے ہیں آج سبزیاں کھانے والوں کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد زراعت کو فروغ دے کر زمین کی زرخیزی میں اضافہ کرنا اور گوشت کی وجہ سے زمین پر پڑنے والے دباؤ کو کم کرنے کی طرف آگاہی دلانا ہے۔

    لوگوں کو سبزیاں کھانے کے فوائد سے آگاہی دینے کا یہ عمل دراصل پورا ماہ چلتا ہے جو یکم اکتوبر سے شروع ہوتا ہے۔ یکم نومبر کو ورلڈ ویگن ڈے منایا جاتا ہے جس کا مقصد ویجی ٹیرین افراد کے طرز زندگی کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔

    آپ نے اکثر افراد کے بارے میں سنا ہوگا کہ یہ ویجی ٹیرین ہیں یعنی صرف سبزیاں کھاتے ہیں، گوشت نہیں کھاتے۔ ایسے افراد عمر کے آخری حصے تک جوان اور فٹ نظر آتے ہیں جبکہ یہ گوشت کھانے والوں کے مقابلے میں زیادہ متحرک ہوتے ہیں۔

    آئیں آج ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ سبزیاں کھانا صحت کے ساتھ ساتھ ہمارے ماحول کے لیے کس طرح فائدہ مند ہے۔


    طبی اثرات

    ایک تحقیق کے مطابق ہفتے میں 3 یا 3 سے زائد بار گوشت کھانے والے افراد میں مختلف کینسر بشمول بریسٹ کینسر کا امکان دوگنا بڑھ جاتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق گوشت میں شامل ہارمونز ہمارے جسم میں موجود ان ہارمونز کی طاقت میں اضافہ کردیتے ہیں جو مختلف اقسام کے کینسر یا ٹیومرز کے خلیات کو نمو دینے میں مدد کرتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: گوشت کھانے سے قبل اس کے خطرناک نقصانات جانیں

    اس کے برعکس سبزیاں ہمیں کسی بھی قسم کا نقصان نہیں پہنچاتیں۔

    خوراک میں سبزیوں کا زیادہ استعمال نہ صرف آپ کو جسمانی طور پر صحت مند رکھتا ہے بلکہ بے شمار بیماریوں جیسے ذیابیطس، بلند فشار خون، کولیسٹرول، موٹاپے وغیرہ سے تحفظ بھی فراہم کرتا ہے۔

    سبزیوں کا استعمال خون کی شریانوں کو بھی صاف رکھتا ہے جس سے خون کی روانی میں کوئی رکاوٹ نہیں پیدا ہوتی۔

    آسٹریلیا کی کوئینز لینڈ یونیورسٹی کی جانب سے کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق سبزیاں کھانا نفسیاتی طور پر بھی فائدہ مند ہے۔ یہ آپ کے دماغ کو پرسکون رکھتی ہیں جبکہ تحقیق کے مطابق 2 سال تک سبزیوں کا مستقل استعمال جذباتی اور نفسیاتی طور پر زیادہ مستحکم بنا سکتا ہے۔


    ماحولیاتی اثرات

    کیا آپ جانتے ہیں گوشت کے حصول کا سبب بننے والے جانور زمین کے لیے کس قدر نقصان دہ ہیں؟

    جنوبی امریکی ملک برازیل اس وقت دنیا کا گوشت برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ اپنی اس تجارتی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے برازیل اب زیادہ سے زیادہ مویشی پال رہا ہے۔

    یہ کاروبار پورے برازیل میں اس قدر وسیع ہوچکا ہے کہ ملک میں قابل رہائش زمینیں کم پڑچکی ہیں اور اب مویشیوں کو رکھنے کے ایمازون کے قیمتی جنگلات کو کاٹا جارہا ہے۔

    گوشت کا سب سے بڑا خریدار امریکا ہے اور یہ برازیل اور دیگر جنوبی امریکی ممالک سے ہر سال 20 کروڑ پاؤنڈز کا گوشت درآمد کرتا ہے۔

    مزید پڑھیں: برگر ہماری زمین کے لیے سخت خطرات کا باعث

    یہاں یہ بات یاد رکھنی بھی ضروری ہے کہ مویشی میتھین گیس کے اخراج کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں جو فضا میں جا کر فضائی آلودگی اور موسم کو گرم کرنے کا سبب بنتی ہے۔

    دنیا بھر کے درجہ حرارت میں شدید اضافے کا ذمہ دار یہ منافع بخش کاروبار صرف جنگلات کے خاتمے کا ہی سبب نہیں۔ روز افزوں اضافہ ہوتی مویشیوں کی اس آبادی کی دیگر ضروریات بھی ہیں۔

    رہائش کے ساتھ ان مویشیوں کو پینے کے لیے پانی، گھاس اور دیگر اناج بھی درکار ہے۔ گوشت کی کسی دکان پر موجود ایک پاؤنڈ کا گوشت، 35 پاؤنڈ زمینی مٹی، ڈھائی ہزار گیلن پانی اور 12 پاؤنڈز اناج صرف کیے جانے کے بعد دستیاب ہوتا ہے۔

    یعنی ایک برگر میں شامل گوشت کی پیداوار کے لیے جتنا پانی استعمال ہوا، وہ کسی انسان کے پورے سال کے غسل کے پانی کے برابر ہے۔

    مویشیوں کی خوراک میں کئی قسم کے اناج شامل ہیں جنہیں اگانے کے لیے ہر سال 17 ارب پاؤنڈز کی مصنوعی کھاد اور کیڑے مار ادویات استعمال کی جاتی ہیں اور یہ دونوں ہی ماحول اور زراعت کو سخت نقصان پہنچانے کا سبب بنتی ہیں۔

    دوسری جانب سبزیاں نہ صرف زمین کی زرخیزی میں اضافہ کرتی ہیں بلکہ سبزیوں کے پودے اور درخت ہماری فضا کو بھی آلودگی سے محفوظ رکھتے ہیں۔

    صاف ستھری سبزیاں حاصل کرنے کا سب سے آسان طریقہ کچن گارڈننگ ہے۔

    اس میں آپ اپنے گھر کی کسی بھی خالی جگہ، یا کسی چھوٹے موٹے گملے میں مختلف اقسام کی سبزیاں اگا سکتے ہیں جو نہ صرف آپ کے گھر کی فضا کو صاف کرنے کا سبب بنیں گی بلکہ کھانے کی مد میں ہونے والے آپ کے اخراجات میں بھی کمی لائے گی۔

    مزید پڑھیں: شہری زراعت، مستقبل کی اہم ضرورت

    ماہرین کے مطابق اس عمل کو مزید بڑے پیمانے پر پھیلا کر شہری زراعت یعنی اربن فارمنگ شروع کی جائے جس میں شہروں کے بیچ میں زراعت کی جاسکتی ہے۔ یہ سڑکوں کے غیر مصروف حصوں، عمارتوں کی چھتوں، بالکونیوں اور خالی جگہوں پر کی جاسکتی ہے۔

    اس زراعت کا مقصد دراصل دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کی غذائی ضروریات پوری کرنا ہے۔ دنیا میں موجود قابل زراعت زمینیں اس وقت دنیا کی تیزی سے اضافہ ہوتی آبادی کی غذائی ضروریات پوری کرنے میں ناکام ہیں۔

    دوسری جانب جن زمینوں پر زراعت کی جارہی ہے ان کی تعداد میں تیزی سے کمی آرہی ہے اور ان کی جگہ بڑی بڑی عمارتیں، گھر اور اسکول وغیرہ بنائے جارہے ہیں۔

    ماہرین کی تجویز ہے کہ شہری زراعت کے ذریعہ شہر کی زیادہ سے زیادہ عمارتوں کی چھتوں کو گارڈن کی شکل میں تبدیل کردیا جائے اور وہاں پھل اور سبزیاں اگائی جائیں۔

    یہی نہیں یہ سر سبز چھتیں شہر سے آلودگی کو بھی کم کریں گی جبکہ شدید گرمیوں کے موسم میں یہ ٹھنڈک فراہم کریں گی اور وہی کام کریں گی جو درخت سر انجام دیتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق شہری زراعت کے طریقے کو اپنا کر اگر کوئی ایک شہر بھی اپنی غذائی ضروریات میں خود کفیل ہوجائے تو اس سے ملکی معیشت کو کافی سہارا ہوسکتا ہے اور کسی ملک کی مجموعی زراعت پر پڑنے والا دباؤ بھی کم ہوسکتا ہے۔

  • اپنے بچوں کو شکار کرنا سکھاتی وہیل مچھلی

    اپنے بچوں کو شکار کرنا سکھاتی وہیل مچھلی

    وہیل کی ایک قسم اورکا سمندر میں اپنے بچے کو کچھوے کا شکار کرنا سکھا رہی ہے جس کی ویڈیو نے جنگلی حیات سے دلچسپی رکھنے والوں کو اپنی جانب راغب کرلیا۔

    نیشنل جیوگرافک کی جانب سے جاری کی جانے والی اس ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ اورکا اپنے شکار یعنی کچھوے کے پیچھے جارہی ہے۔

    ماہرین کے مطابق یہ وہیل اپنے ننھے بچوں کو کچھوؤں کا شکار کرنا سکھا رہی ہے۔

    یہ ویڈیو فرانس سے تعلق رکھنے والے میرین سائنس کے 2 طلبا نے بنائی ہے۔ ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ وہیل تقریباً آدھے گھنٹے تک کچھوے کو گول گول گھماتی رہی اور بعد ازاں اسے ہڑپ کرلیا۔

    اس طرح سے وہ اپنے بچوں کو زندگی بچانے کی تکنیک بھی سکھا رہی تھی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اپنے بچوں کو مختلف عادات سکھانے کی تربیت چند ہی جانور دیتے ہیں اور وہیل ان میں سے ایک ہے۔

    اورکا بہت کم کچھوؤں کا شکار کرتی ہے تاہم اس کے جبڑے کچھوؤں کی پشت کا مضبوط خول توڑنے کی طاقت رکھتے ہیں۔

  • تنہا وہیل کو گود لے لیا گیا

    تنہا وہیل کو گود لے لیا گیا

    وہیل کی ایک قسم ناروہیل کو دوسری قسم کی وہیلوں نے گود لے لیا جس کے بعد تنہا ناروہیل کی تنہائی دور ہوگئی۔

    اپنی لمبی ناک کی خصوصیت رکھنے والی ناروہیل برفانی سمندروں میں پائی جاتی ہے۔

    ناروہیل

    چند روز قبل کینیڈا کے صوبے کیوبک کے سینٹ لارنس دریا میں دیکھا گیا کہ ناروہیل، وہیلز کی ایک اور قسم بیلگوا وہیلز کے گروہ کے ساتھ تیر رہی ہے۔

    ماہرین کے مطابق دونوں اقسام کی وہیلز میں کئی خصوصیات مشترک ہیں یہی وجہ ہے کہ ان وہیلز نے آسانی سے ایک دوسرے کو قبول کرلیا۔

    بیلگوا وہیلز

    بیلگوا وہیلز بھی اسی علاقے میں پائی جاتی ہیں تاہم وہ برفیلے پانی میں نہیں ہوتیں۔ ماہرین نے جس وقت اس انوکھے گروہ کو دیکھا اس وقت ناروہیل اپنے رہائشی مقام یعنی آرکٹک کے سمندر سے 1 ہزار میل دور تھی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ناروہیل نر ہے جس کا ثبوت اس کی اضافی لمبی چونچ ہے جس کی لمبائی ڈیڑھ فٹ ہے۔

    ان کے مطابق وہ نہ صرف دوسری نسل کے وہیلز کے ساتھ خوش ہے بلکہ ان جیسی عادات بھی اپنا رہا ہے جیسے پانی میں بلبے بنانا۔

    ماہرین منتظر ہیں کہ آیا ان دو مختلف اقسام کی وہیلز کا جسمانی ملاپ بھی ہوگا یا نہیں جس کے بعد دونوں قسموں کی ملی جلی نسل وجود میں آئے گی۔

    مزید پڑھیں: وہیل اور ڈولفن کی ملی جلی نسل دریافت

  • گوگل اسٹریٹ ویو اب فضائی آلودگی کا سراغ لگائے گا

    گوگل اسٹریٹ ویو اب فضائی آلودگی کا سراغ لگائے گا

    معروف سرچ انجن گوگل نے اعلان کیا ہے کہ وہ اب دنیا بھر میں فضائی آلودگی کا سراغ لگائے گا، اس کام کے لیے گوگل نے ایک ماحولیاتی ادارے سے شراکت داری کی ہے۔

    سان فرانسکو کے ماحولیاتی ادارے اکلیما کے ساتھ کیے جانے والے اس معاہدے کے تحت گوگل کی اسٹریٹ ویو گاڑیوں میں ادارے کی جانب سے سنسرز نصب کیے جائیں گے جبکہ ماحولیاتی ادارے کی جانب سے انہیں ڈیٹا بھی فراہم کیا جائے گا۔

    اکلیما کے سربراہ ڈیوڈ ہرزی کا کہنا ہے کہ ایک ہی سڑک پر فضا کا معیار بدترین بھی ہوسکتا ہے اور بہترین بھی ہوسکتا ہے، اس کو جانچنے کی ضرورت ہے تاکہ شہری منصوبہ بندی کے ساتھ ساتھ انفرادی طور پر بھی لوگ خود کو پہنچنے والے نقصانات سے بچا سکیں۔

    گوگل کا کہنا ہے کہ یہ تمام معلومات سائنسی و ماحولیاتی تحقیقاتی اداروں کو باآسانی دستیاب ہوں گی تاکہ تحقیقی شعبے میں مزید ترقی ہوسکے۔

    ماہرین کےمطابق کسی شہر میں گاڑیوں کی تعداد میں اضافہ اس شہر کی فضائی آلودگی میں بدترین اضافہ کرسکتا ہے لہٰذا ایسی صورت میں حکام بالا بھی فوراً خبردار ہوسکیں گے اور فضائی آلودگی میں کمی کے لیے اقدامات کرسکیں گے۔

  • صحارا کا صحرا بھی سرسبز بن سکتا ہے

    صحارا کا صحرا بھی سرسبز بن سکتا ہے

    دنیا کا تیسرا اور براعظم افریقہ کا سب سے بڑا صحرا سنہ 2050 تک نصف سے زائد دنیا کی توانائی کی ضروریات پوری کرسکتا ہے اور ساتھ ساتھ خود بھی سرسبز ہوسکتا ہے۔

    حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق سے علم ہوا کہ صحارا میں بڑی تعداد میں شمسی توانائی کے پینلز اور ہوا سے توانائی بنانے والی پن چکیاں نصب کردی جائیں تو یہ آدھی دنیا کی توانائی کی ضروریات پوری کرسکتا ہے۔

    ایک زیر غور منصوبے کے مطابق 35 لاکھ اسکوائر میل کے رقبے پر لگے شمسی توانائی کے پینلز اور پن چکیاں 79 ٹیرا واٹس بجلی پیدا کرسکتے ہیں۔ یہ اس بجلی سے 4 گنا زیادہ ہے جو صرف 2017 میں پوری دنیا میں استعمال کی گئی یعنی 18 ٹیرا واٹ۔

    مزید پڑھیں: دنیا کے سب سے گرم ترین صحرا میں برف باری

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ منصوبہ تکمیل پا گیا تو ہوا سے توانائی بنانے والی ٹربائنز گرم ہوا کو نیچے کی جانب کھینچیں گی۔ اس عمل سے بارشوں میں اضافہ ممکن ہے۔

    تحقیق کے مطابق اس منصوبے سے صحارا میں ابھی ہونے والی بارشیں دگنی ہوسکتی ہیں جس سے صحرا کے سبزے میں 20 فیصد اضافہ متوقع ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ صحرا کی شادابی، بارشوں میں اضافہ، اور ساتھ ساتھ ماحول دوست تونائی کی فراہمی ایسے عوامل ہیں جو افریقہ اور مشرق وسطیٰ کی معیشت، زراعت اور سماجی ترقی میں اضافہ کریں گے۔

    خیال رہے کہ صحرائے صحارا کا کل رقبہ 92 لاکھ کلو میٹر ہے جو امریکا کے رقبے سے زیادہ ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق یہ صحرا غیر فطری پھلاؤ کی وجہ سے انسانی سرگرمیوں کو بھی متاثر کررہا ہے۔

    رپورٹ کے مطابق صحرا جنوب کی جانب حرکت کرتے ہوئے سوڈان اور چاڈ کی حدود میں داخل ہو رہا ہے، جس کے باعث دونوں ملکوں کے سرسبز علاقے خشک ہو رہے ہیں اور فصل اگانے والی زمینیں بھی بنجر ہوتی جارہی ہیں۔

    مزید پڑھیں: صحارا کے صحرا میں قدیم دریا دریافت

    جنرل آف کلائمٹ میں شائع ہونے والی تحقیقی رپورٹ میں بتایا گیا کہ گذشتہ ایک صدی کے دوران صحارا کے رقبے میں ہونے والا اضافہ پاکستان کے رقبے سے بھی زیادہ ہے۔

    ماہرین کے مطابق صحرائے اعظم میں اضافے کی بڑی وجہ ماحولیاتی تبدیلیاں ہیں۔