Tag: ماحولیات کی خبریں

  • ماحولیاتی خطرات کو اجاگر کرتے کچرے سے بنے فن پارے

    ماحولیاتی خطرات کو اجاگر کرتے کچرے سے بنے فن پارے

    دنیا بھر میں تیز رفتار صنعتی ترقی جہاں معاشی بہتری لائی، وہیں ماحول کو ناقابل نقصان پہنچنا شروع ہوگیا۔

    اس ترقی کے باعث ہر شے تک ہماری رسائی نہایت آسان ہوگئی اور یہی وجہ ہے کہ ہم نے نہایت بے دردی سے مختلف اشیا کا استعمال کر کے انہیں پھینکنا شروع کردیا اور نتیجتاً چند ہی دہائیوں میں ہماری زمین کچرے کا ڈھیر بن گئی۔

    کئی ایسی اشیا وجود میں آگئیں جو ایک بار استعمال کے بعد پھینک دی جاتی ہیں لیکن زمین پر وہ طویل عرصے تک موجود رہتی ہیں، ان اشیا میں پلاسٹک سر فہرست ہے۔

    اب جبکہ زمین کا کوئی کونا ایسا نہیں جو کچرے سے اٹ نہ چکا ہو، اور سمندر کی معلوم گہرائی تک بھی پلاسٹک پایا جاچکا ہے تو اس کچرے کو صاف کرنے کے لیے مختلف اقدامات کیے جارہے ہیں۔

    عملی اقدامات کے علاوہ کئی افراد ایسے بھی ہیں جو مختلف کوششوں سے اس مسئلے کو اجاگر کر رہے ہیں تاکہ ہر شخص انفرادی طور پر اس کام میں اپنا حصہ ڈال سکے۔

    اسٹیفنی کلگسٹ بھی ایسی ہی فنکارہ ہیں جو کچرے سے مختلف فن پارے تشکیل دے رہی ہیں۔

    اس سے ایک طرف تو وہ کچرے کو دوبارہ استعمال کر کے اپنے حصے کا کام کر رہی ہیں تو دوسری جانب اپنے فن پاروں سے لوگوں میں ماحولیاتی خطرات کا شعور بھی بیدار کر رہی ہیں۔

    اسٹیفنی ان جانوروں اور نباتات کو اپنے فن پاروں میں جگہ دیتی ہیں جو ماحولیاتی خطرات کا شکار ہیں اور تیزی سے معدومی کی طرف گامزن ہیں۔ ان کا موٹیو ہے، ’ فطرت کو واپس پلٹنے دیں، کم خرچ کریں‘۔

    آئیں آپ بھی ان کے کچھ فن پارے دیکھیں۔

     

    View this post on Instagram

     

    Hey there! 😄 I will be taking over @theotherartfair today! While I am most known for my sculptures, I also paint in watercolors, acrylics, oils and do murals. I am most interested in colors, the climate crisis we are facing and the small things in nature. (think mushrooms, insects, bacteria and so on) My work has a cheerful post-apocalytic feel to it, humans have left only their stuff behind and nature is striving again. I am super excited to share a little more about my daily creative live, so be sure to check in at @theotherartfair during the day to know more about my interests and inspirations! #TOAF #toaflondon #TheOtherArtFair #TOAFtakeover #TakeoverTuesday #stephaniekilgast #realartstudio #artstudio #contemporaryartist #artistofinstagram

    A post shared by Stephanie Kilgast (@petitplat) on

  • سوویت دور کے تھیلے پلاسٹک کی آلودگی سے نمٹنے کے لیے معاون

    سوویت دور کے تھیلے پلاسٹک کی آلودگی سے نمٹنے کے لیے معاون

    پلاسٹک کرہ زمین کو گندگی کے ڈھیر میں تبدیل کرنے والی سب سے بڑی وجہ ہے کیونکہ پلاسٹک کو زمین میں تلف ہونے کے لیے ہزاروں سال درکار ہیں۔

    یہی وجہ ہے کہ پلاسٹک بڑے پیمانے پر استعمال کے باعث زمین پر اسی حالت میں رہ کر زمین کو گندگی وغلاظت کا ڈھیر بنا چکا ہے۔ دنیا بھر میں جہاں پلاسٹک کا استعمال کم سے کم کرنے پر زور دیا جارہا ہے وہیں پلاسٹک کی متبادل پیکجنگ اشیا بنانے پر بھی کام جاری ہے۔

    ایسی ہی کوشش روس میں بھی کی جارہی ہے جہاں سوویت یونین کے دور میں استعمال کیے جانے والے تھیلوں کو پھر سے فروغ دیا جارہا ہے۔

    اووسکا نامی یہ تھیلے تاروں سے بنائے جاتے ہیں۔ اس وقت ان تھیلوں کو پلاسٹک کی تباہ کن آلودگی سے نمٹنے کے لیے بہترین خیال کیا جارہا ہے۔

    سوویت دور میں یہ تھیلے نابینا افراد تیار کیا کرتے تھے اور ان سمیت لاکھوں افراد اس کی خرید و فروخت سے منسلک تھے، پلاسٹک کی آمد کے ساتھ ہی اس روزگار سے وابستہ تمام افراد بے روزگار ہوگئے۔

    اب ان تھیلوں کو پھر سے فروغ دینے کا مقصد ان افراد کو روزگار فراہم کرنا اور سب سے بڑھ کر پلاسٹک آلودگی کے اضافے کو روکنا ہے۔

    ان تھیلوں کے دکانوں پر پہنچتے ہی لوگوں کی بڑی تعداد نے انہیں خریدنے میں دلچسپی ظاہر کی۔ کئی افراد کا کہنا تھا کہ انہیں دیکھ کر انہیں اپنا بچپن یاد آگیا جب ان کی دادی ایسے تھیلے استعمال کیا کرتی تھیں۔

    اس وقت صرف روس میں اس نوعیت کے 5 لاکھ تھیلے فروخت ہوچکے ہیں جبکہ انہیں اٹلی بھی بھیجا جارہا ہے۔ اسے استعمال کرنے والوں کا کہنا ہے کہ وہ تحفظ ماحول کے لیے اس کوشش کا حصہ بن کر بے حد خوشی محسوس کر رہے ہیں۔

  • تھری ڈی پرنٹ شدہ پھول جو انسانوں کی بقا کے لیے ضروری ہیں

    تھری ڈی پرنٹ شدہ پھول جو انسانوں کی بقا کے لیے ضروری ہیں

    شہد کی مکھیاں اور دیگر کیڑے مکوڑے اس دنیا میں ہمارے وجود کی ضمانت ہیں، اگر یہ نہ رہیں تو ہم بھی نہیں رہیں گے۔

    ماہرین کے مطابق ہماری غذائی اشیا کا ایک تہائی حصہ شہد کی مکھیوں کا مرہون منت ہے۔ دراصل شہد کی مکھیاں پودوں کے پولی نیٹس (ننھے ذرات جو پودوں کی افزائش نسل کے لیے ضروری ہوتے ہیں) کو پودے کے نر اور مادہ حصوں میں منتقل کرتی ہیں۔

    اس عمل کے باعث ہی پودوں کی افزائش ہوتی ہے اور وہ بڑھ کر پھول اور پھر پھل یا سبزی بنتے ہیں اور ہمیں غذا فراہم کرتے ہیں۔ تاہم گزشتہ دو دہائیوں میں ان مکھیوں کی آبادی میں تیزی سے کمی واقع ہوئی ہے جس نے ماہرین کو تشوش میں مبتلا کردیا ہے۔

    اسی مسئلے کے حل میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے نیدر لینڈز کی ایک طالبہ نے تھری ڈی پرنٹ شدہ پھولوں کو شہروں کے اندر اصل پھولوں کے ساتھ اور درختوں پر نصب کرنے کا کام شروع کیا ہے۔

    یہ پھول بارش کے پانی کو جمع کرتے ہیں اور اپنے اندر پہلے سے موجود چینی کے ساتھ اسے مکس کر کے مکھیوں کی غذائی ضرورت پورا کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق یہ مکھیوں کے لیے اس لیے ضروری ہے کیونکہ شہد کی مکھیاں پھولوں کا رس جمع کرنے کے لیے دور دور نکل جاتی ہیں اور بعض دفعہ وہ تھکن کا شکار ہو کر واپس اپنے چھتے تک نہیں پہنچ پاتیں۔

    ایسے میں ایمرجنسی فوڈ فلاورز کا نام دیے جانے والے ان پھولوں میں موجود چینی، ان مکھیوں کی توانائی بحال کر کے واپس انہیں ان کے گھر تک پہنچنے میں مدد دے سکتی ہے۔

    ایسی ہی ایک تجویز کچھ عرصہ قبل معروف محقق اور ماہر ماحولیات سر ڈیوڈ ایٹنبرو نے بھی دی تھی جب انہوں نے کہا کہ گھر کے لان یا کھلی جگہ میں ایک چمچے میں ایک قطرہ پانی اور چینی کی تھوڑی سی مقدار ملا کر ان مکھیوں کے لیے رکھ دی جائے، تاہم بعد ازاں ان کی یہ فیس بک پوسٹ جعلی ثابت ہوئی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ 5 برسوں میں شہد کی مکھیوں کی ایک تہائی آبادی ختم ہوچکی ہے۔ اگر شہد کی مکھیاں نہ رہیں تو ہم انسان صرف 4 برس مزید زندہ رہ سکیں گے۔

  • چڑیا گھر میں سرخ پانڈا کے ننھے بچوں کا استقبال

    چڑیا گھر میں سرخ پانڈا کے ننھے بچوں کا استقبال

    برطانیہ کے چڑیا گھر میں ایشیائی علاقوں میں پائے جانے والے جانور سرخ پانڈا نے دو جڑواں بچوں کو جنم دیا جس سے ماہرین میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔

    سرخ پانڈا، پانڈا کی ایک نایاب نسل ہے جو مغربی چین، بھارت، لاؤس، نیپال اور برما کے علاقوں میں پایا جاتا ہے۔ اسے سرخ بھالو بلی بھی کہا جاتا ہے اور اس کی خوراک میں بانس کے علاوہ انڈے، پرندے اور کیڑے مکوڑے بھی شامل ہیں۔

    عالمی ادارہ برائے تحفظ فطرت آئی یو سی این کے مطابق سرخ پانڈا کو اپنی پناہ گاہوں یا رہائشی مقامات میں کمی کے باعث بقا کا خطرہ لاحق ہے۔

    گزشتہ 50 برس میں اس پانڈا کی آبادی میں 40 فیصد کمی آئی ہے جس کے بعد دنیا بھر میں اس پانڈا کی تعداد اب صرف 10 ہزار ہے۔ اسے اس کے نرم فر (بالوں) کی وجہ سے غیر قانونی طور پر شکار بھی کیا جاتا ہے۔

    برطانیہ میں اس پانڈا کی افزائش نسل بھی کی جارہی ہے اور انہی اقدامات کے تحت انگلینڈ کے چیسٹر زو میں موجود سرخ پانڈا نے دو جڑواں بچوں کو جنم دیا ہے۔

    ان بچوں کی پیدائش نے سرخ پانڈا کو لاحق خطرات پر متفکر ماہرین میں خوشی کی لہر دوڑا دی ہے۔

  • ہاتھی ہمیں کینسر سے بچا سکتے ہیں

    ہاتھی ہمیں کینسر سے بچا سکتے ہیں

    زمین پر موجود تمام جاندار نسل انسانی کی بقا کے لیے ضروری ہیں، کچھ جاندار انسانوں کی خطرناک بیماریوں کا علاج بھی اپنے اندر رکھتے ہیں۔

    حال ہی میں ایک تحقیق سے پتہ چلا کہ ہاتھی کینسر کے علاج میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ ایک سائنسی جریدے اوندرک میگزین میں شائع ہونے والی تحقیق میں بتایا گیا کہ ہاتھی اور وہیل کو کبھی کینسر نہیں ہوتا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہاتھی کے جینوم میں ٹیومرز سے لڑنے والے جینز اضافی تعداد میں موجود ہوتے ہیں، یہ ٹیومرز پھیل کر کینسر کا سبب بن سکتے ہیں تاہم ہاتھی کے جینز ان ٹیومرز کو طاقتور نہیں ہونے دیتے۔

    تاہم اب جبکہ ہاتھی کو معدوم ہونے کا خطرہ لاحق ہوگیا ہے، ماہرین ان کے اس انوکھے جینز کی معلومات حاصل کرنے کے لیے دوڑ پڑے ہیں۔

    مزید پڑھیں: ہاتھی کی سونڈ میں کیا ہے؟

    اوٹاوہ یونیورسٹی کے پروفیسر جوشوا شپمین کا کہنا ہے کہ انسان ذہین ہیں، لیکن فطرت ان سے بھی زیادہ ذہین ہے۔ فطرت کے لاکھوں کروڑوں سال کے تنوع میں میں ہماری، آج کے جدید دور کی بیماریوں کی علاج چھپا ہے۔

    خیال رہے کہ گزشتہ کچھ عرصے سے ہاتھیوں کے شکار میں بے تحاشہ اضافہ ہوگیا تھا جس کے بعد اس جانور کی نسل معدوم ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا۔

    اس کے شکار کا بنیادی سبب دنیا بھر میں ہاتھی دانت کی بڑھتی ہوئی مانگ تھی جس کے لیے ہاتھی اور گینڈے کا شکار کیا جاتا اور ان کے دانتوں اور سینگ کو مہنگے داموں فروخت کیا جاتا۔

    عالمی ادارہ برائے تحفظ ماحولیات آئی یو سی این کے مطابق ایک عشرے قبل پورے براعظم افریقہ میں ہاتھیوں کی تعداد 4 لاکھ 15 ہزار تھی، لیکن ہاتھی دانت کے لیے ہاتھیوں کے بے دریغ شکار کی وجہ سے اب یہ تعداد گھٹ کر صرف 1 لاکھ 11 ہزار رہ گئی ہے۔

  • کلائمٹ چینج کے باعث پگھلنے والے گلیشیئر کی آخری رسومات

    کلائمٹ چینج کے باعث پگھلنے والے گلیشیئر کی آخری رسومات

    یورپی ملک آئس لینڈ میں ایک 700 سال قدیم گلیشیئر پگھل کر مکمل طور پر ختم ہوگیا، اس موقع پر مقامی افراد کی بڑی تعداد وہاں جمع ہوئی اور افسوس کا اظہار کیا جس کے بعد یہ اجتماع گلیشیئر کی آخری رسومات میں تبدیل ہوگیا۔

    یہ گلیشیئر جسے ’اوکجوکل‘ کا نام دیا گیا تھا 700 برس قدیم تھا اور ایک طویل عرصے سے مقامی افراد کو پینے کا صاف پانی مہیا کر رہا تھا۔ گزشتہ کچھ عرصے سے اس کے حجم میں کمی دیکھی جارہی تھی تاہم چند روز قبل یہ گلیشیئر مکمل طور پر پگھل کر ختم ہوگیا جسےالوداع کہنے کے لیے سینکڑوں لوگ امڈ آئے۔

    گلیشیئر کے خاتمے پر مقامی انتظامیہ نے اس کا باقاعدہ ڈیتھ سرٹیفکیٹ بھی جاری کیا جبکہ اس مقام پر ایک یادگار بھی بنا دی گئی ہے۔

    اس موقع پر جمع ہونے والے شرکا نے مختلف بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جس میں کلائمٹ چینج سے نمٹنے اور زمین سے محبت کرنے کے اقوال درج تھے۔ شرکا نے گلیشیئر کی موت پر چند منٹ کی خاموشی بھی اختیار کی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں موجود مزید 400 گلیشیئرز بھی تیزی سے پگھل رہے ہیں اور بہت جلد یہ مکمل طور پر ختم ہوجائیں گے۔

    ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ آئس لینڈ سمیت دنیا بھر میں واقع گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں اور اگر ان کے پگھلنے کی رفتار یہی رہی تو اگلے 200 برس میں آئس لینڈ کے تمام گلیشیئرز ختم ہوجائیں گے۔

    ایک رپورٹ کے مطابق ایک اور برفانی علاقے گرین لینڈ میں سنہ 2003 سے 2013 تک 2 ہزار 700 ارب میٹرک ٹن برف پگھل چکی ہے۔ ماہرین نے اس خطے کی برف کو نہایت ہی ناپائیدار قرار دیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اس کے پگھلنے کی رفتار میں مزید اضافہ ہوگا۔

    سنہ 2000 سے انٹارکٹیکا کی برف بھی نہایت تیزی سے پگھل رہی ہے اور اس عرصہ میں یہاں 8 ہزار کے قریب مختلف چھوٹی بڑی جھیلیں تشکیل پا چکی ہیں۔

    دوسری جانب قطب شمالی کے برفانی رقبہ میں بھی 6 لاکھ 20 ہزار میل اسکوائر کی کمی واقع ہوچکی ہے۔

  • ہوا کو صاف کرنے کے لیے مصنوعی درخت

    ہوا کو صاف کرنے کے لیے مصنوعی درخت

    فضا کو صاف رکھنے کے لیے درخت بے حد ضروری یں جو تازہ ہوا فراہم کرتے ہیں، تاہم میکسیکو میں فضائی آلودگی سے نمٹنے کے لیے مصنوعی درخت بنا لیا گیا۔

    میکسیکن اسٹارٹ اپ بائیموٹیک نامی کمپنی کی طرف سے بنائے گئے اس مصنوعی درخت کے ذریعے ماحول کو آلودگی سے پاک کرنے کا کامیاب تجربہ کیا گیا۔

    یہ مصنوعی درخت 368 زندہ درختوں کے برابر ہوا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دوسرے مضر اجزا جذب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

    یہ کاربن اور دیگر زہریلے اجزا صاف کرنے کے لیے مائیکرو الجی استعمال کرتا ہے اور آکسیجن سے بھری صاف ہوا واپس فضا میں پھینکتا ہے۔

    اب تک اس طرح کے تین درخت میکسیکو، کولمبیا اور پاناما میں نصب کیے جاچکے ہیں۔

  • انوکھا سیاہ پینگوئن

    انوکھا سیاہ پینگوئن

    آپ نے اب تک سیاہ و سفید معصوم سے پینگوئن دیکھے ہوں گے، لیکن کیا آپ نے مکمل طور پر سیاہ پینگوئن دیکھا ہے؟

    ماہرین نے پہلی بار مکمل طور پر ایک سیاہ پینگوئن دیکھا ہے جسے اپنی نوعیت کا نایاب ترین پینگوئن کہا جارہا ہے۔ اس بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ پینگوئن ایک نایاب جینیاتی بگاڑ میلینزم کا شکار ہے۔

    ہم دیکھتے ہیں کہ انسانوں میں البانزم (یا برص) کا مرض موجود ہوتا ہے۔ یہ مرض انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں کو بھی لاحق ہوجاتا ہے۔ اس مرض میں جسم کو رنگ دینے والے عناصر جنہیں پگمنٹس کہا جاتا ہے کم ہوجاتے ہیں، جس کے بعد جسم کا قدرتی رنگ بہت ہلکا ہوجاتا ہے۔

    اس مرض کا شکار انسان یا جانور سفید رنگت کے حامل ہوتے ہیں۔

    اس کے برعکس میلینزم میں رنگ دینے والے پگمنٹس نہایت فعال ہوتے ہیں جس کے باعث یا تو جسم پر گہرے یا سیاہ رنگ کے دھبے پڑجاتے ہیں، یا پھر پورا جسم سیاہ ہوجاتا ہے۔

    البانزم کی نسبت میلینزم نایاب ترین مرض ہے اور اس کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ میلینزم کی وجہ سے پینگوئن کے پر تقریباً سیاہ ہوچکے ہیں۔

    یہ پہلی بار ہے جب ایک مکمل سیاہ پینگوئن کو کیمرے کی آنکھ میں قید کیا گیا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے جانوروں کا منفرد رنگ انہیں اپنے ساتھیوں میں منفرد بنا دیتا ہے اور وہ شکاریوں کی نظر میں آسکتے ہیں۔ یہ پینگوئن خوش قسمت ہے جو شکاریوں سے بچ کر بلوغت کی عمر تک پہنچنے میں کامیاب رہا۔

  • شیشے کی کھڑکیاں پرندوں کی قاتل بن گئیں، پرندوں کو کیسے بچایا گیا؟

    شیشے کی کھڑکیاں پرندوں کی قاتل بن گئیں، پرندوں کو کیسے بچایا گیا؟

    دنیا بھر میں بلند و بالا عمارات پر لگی شیشے کی کھڑکیاں ہر سال لاکھوں پرندوں کی ہلاکت کا سبب بنتی ہیں جو ان کھڑکیوں سے ٹکرا کر ہلاک ہوجاتے ہیں۔

    پرندے کبھی ان شیشوں کے پار دیکھ کر اسے کھلا ہوا سمجھ کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور کبھی وہ اپنا ہی عکس دیکھ کر تذبذب میں مبتلا ہوجاتے ہیں، نتیجتاً وہ پوری رفتار کے ساتھ آ کر ان شیشوں سے ٹکراتے ہیں اور ہلاک و زخمی ہوجاتے ہیں۔

    کئی سال قبل فطرت سے محبت کرنے والے ایک شخص نے ان پرندوں کے بارے میں سوچا کہ انہیں اس جان لیوا ٹکراؤ سے کس طرح بچایا جائے۔

    اس نے کہیں پڑھا تھا کہ مکڑی کی ایک قسم اورب ویور مکڑی اپنے جالوں کو ایسے دھاگے سے سجاتی ہے جو الٹرا وائلٹ روشنی کی شعاعوں کو منعکس کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسی چیز ہے جو ہم نہیں دیکھ سکتے تاہم پرندے اسے دیکھ سکتے ہیں۔

    یہی وجہ ہے کہ پرندے دور سے ہی مکڑی کے جالوں کو دیکھ لیتے ہیں اور ان سے ٹکرائے بغیر گزر جاتے ہیں۔

    اس تکنیک کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس شخص نے کچھ گلاس مینو فیکچررز کے ساتھ مل کر کام کیا، اور ایسے شیشے بنائے جنہیں الٹرا وائلٹ (یو وی) شعاعوں کو منعکس کرنے والے نشانات سے کوٹ کردیا گیا۔

    یہ نشانات ہمیں نہیں دکھائی دیتے تاہم پرندے ان نشانات کو باآسانی دیکھ لیتے ہیں اور اپنی پرواز کا رخ تبدیل کرلیتے ہیں۔

    شیشہ بننے کے بعد اس کے پروٹو ٹائپ کی جانچ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس کے لیے ایک سرنگ تشکیل دی گئی اور سرنگ کے آخری حصے پر یہ شیشے لگائے گئے۔ ایک طرف یو وی گلاس لگایا گیا جبکہ دوسری طرف عام شیشہ لگایا گیا۔

    تجربے کے لیے سرنگ میں پرندوں کو چھوڑ دیا گیا، پرندوں کے شیشے سے متوقع ٹکراؤ سے بچنے کے لیے شیشوں اور پرندوں کے درمیان ایک جالی بھی لگا دی گئی۔

    ماہرین نے دیکھا کہ پرندوں نے عام شیشے کو کھلا ہوا راستہ سمجھ کر باہر نکلنے کے لیے اسی شیشے کی طرف پرواز کی اور یو وی گلاس کی طرف جانے سے گریز کیا۔ تجربے کے دوران تقریباً 1 ہزار پرندوں نے اسی راستے کا رخ کیا۔

    اس کامیاب تجربے کے بعد مکڑی کے جالوں جیسے ان شیشوں کی تجارتی بنیادوں پر تیاری شروع کردی گئی اور یہ شیشے امریکا اور یورپ کی متعدد عمارات میں نصب کیے جانے لگے۔

  • شمسی پینلز والی سڑک سے بجلی پیدا کرنے کا منصوبہ ناکام کیوں ہوا؟

    شمسی پینلز والی سڑک سے بجلی پیدا کرنے کا منصوبہ ناکام کیوں ہوا؟

    پیرس: فرانس میں 2 سال قبل دنیا کی پہلی سولر ہائی وے کا افتتاح کیا گیا تھا اور ماہرین کو امید تھی کہ یہ سڑک توانائی کے ذرائع میں اہم اضافہ ثابت ہوگی، تاہم اب اسے ایک ناکام ترین منصوبہ قرار دیا جارہا ہے۔

    2 ہزار 800 اسکوائر میٹر پر محیط یہ سڑک دسمبر 2016 میں تیار کی گئی تھی۔ اس منصوبے کو ایک ٹرائل کہا جارہا تھا اور ماہرین کا خیال تھا کہ اگر یہ منصوبہ کامیاب ہوجاتا ہے تو سڑکوں سے بجلی بنانے کا کام بڑے پیمانے پر شروع کردیا جائے گا۔

    تاہم اب 2 سال بعد سامنے آنے والی رپورٹ کے مطابق توقع کے برعکس نہ تو یہ سڑک منافع بخش ثابت ہوئی اور نہ ہی مؤثر، اور 2 سال بعد مکمل طور پر ناکام قرار دی جارہی ہے۔

    سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ اب یہ سڑک ٹوٹ پھوٹ چکی ہے اور اس کی مرمت بھی نہیں کی جاسکتی۔

    رپورٹ میں بتایا گیا کہ سڑک پر نصب کئی شمسی پینلز اپنی جگہ سے ڈھیلے ہوگئے اور اسی وجہ سے ٹوٹ بھی گئے۔ اس سڑک سے یومیہ بنیادوں پر 790 کلو واٹ بجلی پیدا ہونے کا اندازہ لگایا گیا تھا، تاہم یہ صرف اس کے نصف ہی بجلی پیدا کرسکی۔

    بجلی پیدا کرنے کا یہ اندازہ اس بنیاد پر لگایا گیا تھا کہ اگر یہ منصوبہ کامیاب ہو تو مستقبل میں اس سڑک کے آس پاس بسنے والے افراد کی بجلی کی ضروریات یہیں سے پوری کی جاسکیں۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ یہ سڑک بہت پر شور بھی ثابت ہوئی جس کی وجہ سے یہاں پابندی عائد کرنی پڑی کہ اس سڑک پر صرف 70 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گاڑی چلائی جائے۔

    رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ امریکا میں بنائی جانے والی اسی طرز کی سڑک کا بھی یہی حال ہوا، البتہ نیدر لینڈز میں بنائی گئی ایسی سڑک کامیاب منصوبہ قرار دی گئی۔ نیدر لینڈز میں یہ سڑک سائیکلوں کے لیے بنائی گئی تھی اور اس سڑک سے توقعات سے زیادہ بجلی حاصل کی گئی۔

    اس منصوبے کی ناکامی کی وجوہات اور عوامل کے بارے میں تفصیلی غور کیا جارہا ہے، تاہم ابتدائی طور پر ماہرین کا اندازہ ہے کہ شمسی پینلز کو سورج سے توانائی حاصل کرنی ضروری ہے لیکن ایسے وقت میں یہ سڑک ٹریفک سے بھری ہوتی ہے، ممکن ہے کہ یہی وجہ اس سڑک کی ناکامی کا سبب بنی ہو۔