Tag: ماحولیات کی خبریں

  • دنیا کی خطرناک ترین بلی

    دنیا کی خطرناک ترین بلی

    کیا آپ جانتے ہیں دنیا کی خطرناک ترین بلی کون سی ہے؟

    افریقہ کے کئی ممالک میں پائی جانے والی ایک چھوٹی سی بلی جسے گائرا یا سیاہ پاؤں والی (بلیک فوٹڈ کیٹ) کہا جاتا ہے، کو دنیا کی خطرناک ترین بلی مانا جاتا ہے۔

    یہ جسامت میں دنیا کی سب سے چھوٹی جنگلی بلی ہے، اس کے جسم پر سیاہ دھبے بھی موجود ہوتے ہیں۔

    یہ بلی اپنے شکار کی تلاش میں ایک رات میں 20 میل کا سفر طے کرسکتی ہے۔ ایک بار یہ اپنے شکار کو تاڑ لے تو شکار کا بچنا مشکل ہوتا ہے۔

    اس بلی کے 60 فیصد شکار کامیاب ہوتے ہیں اور نشانے کی اسی درستگی کی وجہ سے اسے دنیا کی خطرناک ترین بلی مانا جاتا ہے۔

    جسم پر سیاہ دھبوں والی اس بلی کی تعداد میں تیزی سے کمی واقع ہورہی ہے اور اسے معدومی کے خطرے کا شکار جانوروں کی فہرست میں رکھا گیا ہے۔

  • 90 سالہ کچھوے سے ملیں

    90 سالہ کچھوے سے ملیں

    اپنی سست روی کے لیے مشہور کچھوا اپنی طویل العمری کی وجہ سے بھی مشہور ہے، آج ہم آپ کو ایسے ہی ایک طویل عمر پانے والے کچھوے سے ملوا رہے ہیں جس کی عمر 90 سال ہے۔

    امریکی ریاست ٹیکساس کے سان مارکوس دریا میں فلمبند کیا گیا یہ کچھوا پہلی نظر میں کوئی عجیب الخلقت سا جانور معلوم ہوتا ہے اور اس کی وجہ اس کے جسم پر اگ آنے والی کائی ہے۔

    اسی کائی کی بنیاد پر لگائے گئے ماہرین کے اندازے کے مطابق اس کچھوے کی عمر لگ بھگ 90 سال ہے۔ کچھوے کو ایک طالبہ نے فلمبند کیا جو اپنے یونیورسٹی اسائنمنٹ کے سلسلے میں وہاں موجود تھی۔

    کچھوا زمین پر پائے جانے والے سب سے قدیم ترین رینگنے والے جانداروں میں سے ایک ہے۔ یہ ہماری زمین پر آج سے لگ بھگ 21 کروڑ سال قبل وجود میں آیا تھا۔

    کچھوؤں کی اوسط عمر بہت طویل ہوتی ہے۔ عام طور پر ایک کچھوے کی عمر 30 سے 50 سال تک ہوسکتی ہے۔ بعض کچھوے 100 سال کی عمر بھی پاتے ہیں۔ سمندری کچھوؤں میں سب سے طویل العمری کا ریکارڈ 152 سال کا ہے۔

    کچھوا دنیا کے تمام براعظموں پر پایا جاتا ہے سوائے براعظم انٹار کٹیکا کے۔ اس کی وجہ یہاں کا سرد ترین اور منجمد کردینے والا موسم ہے جو کچھوؤں کے لیے ناقابل برداشت ہے۔

    دراصل کچھوے سرد خون والے جاندار ہیں یعنی موسم کی مناسبت سے اپنے جسم کا درجہ حرارت تبدیل کرسکتے ہیں، تاہم انٹارکٹیکا کے برفیلے موسم سے مطابقت پیدا کرنا ان کے لیے ناممکن ہے۔

  • ببول کے پتوں سے بنا پلاسٹک

    ببول کے پتوں سے بنا پلاسٹک

    پلاسٹک کرہ زمین کو گندگی کے ڈھیر میں تبدیل کرنے والی سب سے بڑی وجہ ہے کیونکہ پلاسٹک کو زمین میں تلف ہونے کے لیے ہزاروں سال درکار ہیں۔

    یہی وجہ ہے کہ پلاسٹک بڑے پیمانے پر استعمال کے باعث زمین پر اسی حالت میں رہ کر زمین کو گندگی وغلاظت کا ڈھیر بنا چکا ہے۔ دنیا بھر میں جہاں پلاسٹک کا استعمال کم سے کم کرنے پر زور دیا جارہا ہے وہیں پلاسٹک کی متبادل پیکجنگ اشیا بنانے پر بھی کام جاری ہے۔

    ایسی ہی ایک کوشش میکسیکو کی ایک سائنس دان سینڈرا اورٹز نے بھی کی ہے جنہوں نے ببول / کیکر کے پتوں سے متبادل پلاسٹک تیار کیا ہے۔ سینڈرا کا کہنا ہے کہ یہ پلاسٹک بائیو ڈی گریڈ ایبل یعنی زمین میں تلف ہوجانے والا، غیر زہریلا اور کھانے کے قابل ہے۔

    اس پلاسٹک کو بنانے کے لیے سینڈرا نے ببول کے پتوں کو کاٹ کر ان کا جوس نکالا اور ان میں غیر نقصان دہ کیمیکلز کی آمیزش کی، اس کے بعد اسے ایک سپاٹ سطح پر پھیلا دیا، خشک ہونے کے بعد یہ محلول ایک پیکجنگ کی شکل اختیار کرگیا۔

    یہ پلاسٹک زمین میں 1 ماہ میں تلف ہوسکتا ہے جبکہ صرف چند دن میں پانی میں حل ہوسکتا ہے۔ اس دوران اگر اسے جانور یا پرندے کھالیں تو یہ روایتی پلاسٹک کے برعکس ان کے لیے نقصان دہ بھی نہیں ہوگا۔

    سینڈرا کے مطابق اسے مختلف رنگوں اور سائز میں بنایا جاسکتا ہے جبکہ اس کی موٹائی میں بھی کمی یا اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ اس پلاسٹک کو بنانے کے لیے سینڈرا کو 10 روز لگے تاہم ان کا کہنا ہے کہ اگر اسے کمرشل بنیادوں پر فیکٹری میں تیار کیا جائے تو یہ اس سے بھی کم مدت میں تیار ہوسکتا ہے۔

    ببول کے جس پودے سے یہ پلاسٹک بنایا گیا ہے وہ میکسیکو کا مقامی پودا ہے اور میکسیکو میں اس پودے کی 300 اقسام پائی جاتی ہیں۔ سینڈرا مختلف اقسام پر ریسرچ کر رہی ہیں کہ کون سی قسم پلاسٹک بنانے کے لیے زیادہ موزوں ہوسکتی ہے۔

  • ایک دن میں 35 کروڑ پودے لگانے کا عالمی ریکارڈ

    ایک دن میں 35 کروڑ پودے لگانے کا عالمی ریکارڈ

    افریقی ملک ایتھوپیا نے ایک دن میں 35 کروڑ پودے لگا کر سب سے زیادہ پودے لگانے کا عالمی ریکارڈ قائم کرلیا، اس سے قبل ایک دن میں سب سے زیادہ پودے لگانے کا ریکارڈ بھارت کے پاس تھا۔

    ایتھوپیا نے موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج سے نمٹنے کے لیے تاریخ ساز قدم اٹھاتے ہوئے صرف 12 گھنٹوں میں 35 کروڑ پودے لگائے ہیں۔ اس شجر کاری مہم کا افتتاح ایتھوپین وزیر اعظم ابی احمد نے کیا۔

    ایک دن میں سب سے زیادہ پودے لگانے کا ریکارڈ اس سے قبل بھارت کے پاس تھا جس نے سنہ 2017 میں ایک دن میں ساڑھے 6 کروڑ پودے لگائے تھے۔

     

    ایتھوپیا رواں برس اکتوبر تک 4 ارب پودے لگانے کا عزم رکھتا ہے تاکہ ملک میں سبزے میں اضافہ کیا جاسکا اور کلائمٹ چینج کے نقصانات میں کمی کی جاسکے۔

    ایک رپورٹ کے مطابق 19 ویں صدی کے آخر تک ایتھوپیا میں جنگلات کے رقبے میں 30 فیصد کمی دیکھنے میں آئی، ملک میں موجود جنگلات کو بڑے پیمانے پر کاٹا گیا تاکہ جلانے کے لیے لکڑی اور زراعت کے لیے زمین حاصل کی جاسکے۔

    اس وقت ایتھوپیا کے 4 فیصد سے بھی کم رقبے پر جنگلات موجود ہیں۔ ماہرین کے مطابق جنگلات میں کمی کے باعث ایتھوپیا سمیت دیگر افریقی ممالک میں خشک سالی اور قحط کا خطرہ بھی بڑھ گیا ہے۔

  • کیا آپ نے برفانی سونامی کے بارے میں سنا ہے؟

    کیا آپ نے برفانی سونامی کے بارے میں سنا ہے؟

    ہماری زمین پر موجود برفانی علاقے اپنے علیحدہ جغرافیائی عوامل اور مظاہر رکھتے ہیں جو کم ہی دنیا کی سامنے آتے ہیں۔ ان ہی میں اسے ایک برف کا سونامی بھی ہے۔

    ہم نے اب تک سونامی کے بارے میں سنا ہے جو نہایت خوفناک قسم کا سیلاب ہے، یہ اپنی راہ میں آنے والی ہر شے کو بہا کر لے جاتا ہے اور میلوں تک تباہی و بربادی کی داستان چھوڑ دیتا ہے۔

    برفانی سونامی بھی کچھ ایسی ہی خصوصیات رکھتا ہے تاہم یہ کم رونما ہوتا ہے اور اس کے آگے بڑھنے کا دائرہ کار بھی کم ہوتا ہے۔

    برف کا سونامی اس وقت آسکتا ہے جب تیز ہوائیں چل رہی ہوں یا برفانی سمندر کے کرنٹ میں تبدیلی پیدا ہو۔ اس وقت سمندر پر موجود برف کے بڑے بڑے تودے تیزی سے ساحل کی طرف آنے لگتے ہیں۔

    برف تیزی سے زمین سے ٹکراتی ہے اور آگے بڑھتی چلی جاتی ہے، اس دوران اس کا دباؤ اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ یہ سونامی اپنے راستے میں آنے والی چیزوں کو باآسانی تباہ کرسکتا ہے۔

    یہ سونامی ساحل پر برف کی 12 میٹر تک بلند دیواریں کھڑی کرسکتا ہے۔ برف کا یہ سونامی عموماً سخت سردی کے دوران آسکتا ہے جب تیز ہوائیں یا معمول سے زیادہ برف باری موسم کی شدت میں اضافہ کردیں۔

    برفانی سمندر کے علاوہ یہ ان علاقوں میں بھی رونما ہوسکتا ہے جہاں موسم سرما کے دوران شدید برف باری ہوتی ہو اور دریا اور سمندر برف بن جاتے ہوں۔

    زیر نظر ویڈیوز رواں برس موسم سرما کی ہیں جب یہ انوکھا منظر برفانی علاقوں کے شہریوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔

  • طاقتور بننے کے لیے لومڑی کے ننھے بچوں کی لڑائی

    طاقتور بننے کے لیے لومڑی کے ننھے بچوں کی لڑائی

    سرد علاقوں میں پائی جانے والی برفانی لومڑی کے ننھے منے بچے اپنے والدین کے زیر نگرانی اپنے بھٹ سے نکل آئے، ان بچوں کو اگر زندہ رہنا ہے تو آپس میں لڑ کر اپنی طاقت میں اضاف کرنا ہوگا۔

    برفانی لومڑی آرکٹک، الاسکا، کینیڈا، گرین لینڈ، روس، اور اسکینڈے نیوین ممالک کے برفانی حصوں میں پائی جاتی ہے۔ یہ سفید، بھورے اور سیاہ رنگ کی ہوتی ہیں۔

    یہ لومڑی اپنے نرم و ملائم فر کی وجہ سے بے حد مشہور ہے اور اکثر اوقات ان لومڑیوں کو فر کے حصول کے لیے شکار کیا جاتا ہے جس کی داستان نہایت لرزہ خیز ہے۔

    لومڑی کے ننھے بچوں کی جسامت بلی کے جتنی ہوتی ہے، یہ بچے آپس میں لڑنے کا کھیل کھیلتے ہیں جس سے ایک تو ان کی طاقت اور قوت مدافعت میں اضافہ ہوتا ہے، دوسرا یہ تعین کرتا ہے کہ کون زیادہ طاقتور ہے جو بڑا ہو کر غول کی سربراہی کرے گا۔

    اس دوران نر لومڑی ان کی نگرانی کرتا ہے جبکہ مادہ لومڑی خوراک کی تلاش میں نکلتی ہے، یہ زیادہ تر پہاڑوں کے آس پاس اڑنے والے پرندوں کا شکار کرتی ہے۔

    سردیوں کے موسم میں ان لومڑیوں کو شکار کے لیے خاصے مشکل مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے، چونکہ ان لومڑیوں کی زندگی کا انحصار لڑائی بھڑائی اور شکار پر ہے لہٰذا ننھے بچے بچپن سے ہی اس کی تربیت پانا شروع کردیتے ہیں۔

  • دنیا کے نایاب ترین پرندے کی تعداد میں دگنا اضافہ

    دنیا کے نایاب ترین پرندے کی تعداد میں دگنا اضافہ

    رواں برس نیوزی لینڈ کے نایاب ترین پرندے پراکیٹ کی افزائش نسل میں حیران کن اضافہ دیکھا گیا جس کے بعد ماہرین کی ان کو لاحق خطرات کے حوالے سے پریشانی کم ہوگئی۔

    نیوزی لینڈ میں پایا جانے والا یہ پرندہ جسے مقامی زبان میں کاکاریکی کاراکا کہا جاتا ہے، ہمارے یہاں موجود آسٹریلن چڑیاؤں سے ملتا جلتا ہے۔

    یہ پرندہ صرف نیوزی لینڈ میں پایا جاتا ہے اور کچھ عرصے قبل اسے پورے ملک میں دیکھا جاتا رہا، تاہم گزشتہ صدی کے دوران اس پرندے کی آبادی میں خطرناک کمی واقع ہوئی۔

    سنہ 1993 میں انہیں معدوم سمجھ لیا گیا تاہم اس کے بعد اکا دکا پرندے نظر آئے جس کے بعد اس پرندے کو بچانے کی کوششیں شروع کردی گئیں۔

    رواں برس اس پرندے کی افزائش نسل میں بے حد اضافہ دیکھنے میں آیا، ماہرین کے مطابق اس سیزن میں 150 نئے پرندوں نے جنم لیا اور اب کچھ عرصے بعد افزائش نسل کے قابل پرندوں کی تعداد دگنی ہوجائے گی۔

    ماہرین نے جنگلات میں اس پرندے کے 31 نئے گھونسلے دیکھے اور یہ پچھلے ایک دو سال میں بنائے جانے والے گھونسلوں سے 3 گنا زیادہ ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ان پرندوں کو درختوں میں کمی کے ساتھ ساتھ دیگر شکاری جانوروں سے بھی خطرہ ہے۔ جنگلوں میں پھرتے چوہے اور جنگلی بلیاں ان پرندوں کو اپنی خوراک بنالیتی ہیں۔

    اب انہیں امید ہے کہ اگر ان پرندوں کی افزائش نسل کی شرح یہی رہی تو یہ خوبصورت پرندہ پھر سے پورے نیوزی لینڈ میں دیکھا جاسکے گا۔

  • معدومی تیز رفتار چیتے کو پچھاڑنے کے قریب

    معدومی تیز رفتار چیتے کو پچھاڑنے کے قریب

    دنیا بھر میں آج چیتوں کا عالمی دن منایا جارہا ہے، تحفظ جنگلی حیات کے ادارے ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق دنیا بھر کے جنگلات میں اس وقت صرف 3 ہزار 900 چیتے موجود ہیں۔

    امریکا کی نیشنل اکیڈمی آف سائنس کی ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق بیسویں صدی کے آغاز میں دنیا بھر میں کم از کم 1 لاکھ چیتے موجود تھے لیکن اب ان کی تعداد میں خطرناک کمی واقع ہوچکی ہے۔

    لندن کی زولوجیکل سوسائٹی کا کہنا ہے کہ چیتا اپنی جس تیز رفتاری کے باعث مشہور ہے، اسی تیز رفتاری سے یہ معدومی کی جانب بڑھ رہا ہے۔

    ماہرین کے مطابق چیتوں کی معدومی کے خطرے کی وجوہات میں ان کی پناہ گاہوں (عموماً گھنے جنگلات) میں کمی کے ساتھ ساتھ ان کے شکار (دیگر جنگلی حیات) میں کمی اور ان کا اپنا شکار ہوجانا شامل ہے۔

    چیتے کا شکار ان کے جسمانی اعضا کے حصول کے لیے کیا جاتا ہے، بعض اوقات ننھے چیتوں کو زندہ پکڑ کر ان کی غیر قانونی تجارت کی جاتی ہے، یہ وہ تجارت ہے جس میں خطرناک جنگلی جانوروں کو گھروں میں پال کر ان کی جنگلی جبلت کو ختم کردیا جاتا ہے۔

    چیتوں کے لیے ایک اور خطرہ ان کے غیر قانونی فارمز بھی ہیں۔ یہ فارمز ایشیائی ممالک میں موجود ہیں جو چڑیا گھروں سے الگ قائم کیے جاتے ہیں اور بظاہر ان کا مقصد چیتوں کا تحفظ کرنا ہے۔ لیکن درحقیقت یہاں چیتوں کو ان کے جسمانی اعضا کی غیر قانونی تجارت کے لیے رکھا جاتا ہے جو ایک منافع بخش کاروبار ہے۔ چیتوں کے جسمانی اعضا دواؤں میں استعمال ہوتے ہیں۔

    ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق ایشیا میں تقریباً 200 چیتوں کے فارمز موجود ہیں جن میں سے زیادہ تر چین، ویتنام اور تھائی لینڈ میں موجود ہیں۔ ان فارمز میں 8000 کے قریب چیتے موجود ہیں جو جنگلوں اور فطری ماحول میں رہنے والے چیتوں سے دگنی تعداد ہے۔

    ایک رپورٹ کے مطابق ان فارمز میں انسانوں کی صحبت میں پلنے والے چیتے آرام دہ زندگی کے عادی ہوجاتے ہیں اور اگر انہیں جنگل میں چھوڑ دیا جائے تو ان کے لیے زندگی گزارنا مشکل ہوتا ہے۔ ان فارمز کو غیر قانونی قرار دے کر انہیں بند کرنے کا مطالبہ تو کیا جارہا ہے تاہم عالمی ادارے اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ ان فارمز کی بندش سے پہلے چیتوں کی رہائش کے لیے متبادل جگہ قائم کی جائے۔

    اس وقت چیتوں کی سب سے زیادہ آبادی بھارت میں موجود ہے جہاں 2 ہزار 226 چیتے ہیں۔ چیتوں کی آبادی والے دیگر ممالک میں روس، انڈونیشیا، ملائیشیا، نیپال، تھائی لینڈ، بنگلہ دیش، بھوٹان، چین، ویتنام، لاؤس اور میانمار شامل ہیں۔

  • ننھے منے بلونگڑوں نے ماہرین کے لیے امید کی نئی کرن جگا دی

    ننھے منے بلونگڑوں نے ماہرین کے لیے امید کی نئی کرن جگا دی

    اسکاٹ لینڈ میں معدومی کے خطرے کا شکار جنگلی بلی کے ننھے منے بلونگڑوں نے اپنی نسل کے لیے امید کی نئی کرن جگا دی، یہ مخصوص جنگلی بلیاں اب تعداد میں صرف 35 رہ گئی ہیں۔

    اسکاٹ لینڈ سمیت برطانیہ کے مختلف علاقوں میں پائی جانے والی اس جنگلی بلی کو اسکاٹش وائلڈ کیٹ کہا جاتا ہے۔ یہ دنیا کی نایاب ترین بلی ہے۔

    اسکاٹش بلی جنگلی بلیوں کے خاندان میں سب سے بڑی جسامت رکھنے والی بلی ہے، اس کی جسامت عام بلیوں سے دگنی ہوتی ہے۔

    کچھ عرصے قبل تک پورے برطانیہ میں ان بلیوں کی تعداد 1 سے 2 ہزار تھی تاہم ماہرین کے مطابق ان میں سے صرف 400 بلیاں ہی ایسی تھیں جو اس جینیاتی معیار پر پورا اترتی تھیں جو جنگلی بلی کے لیے مخصوص ہے۔

    گزشتہ کچھ عرصے میں ان بلیوں کی تعداد میں خاصی کمی واقع ہوچکی ہے، یہ بلیاں اب صرف شمالی اور مشرقی اسکاٹ لینڈ تک محدود ہوگئی ہیں اور ایک اندازے کے مطابق ان کی تعداد اب صرف 35 ہے۔

    اسکاٹ لینڈ میں اب ان کو ایک بریڈنگ سینٹر میں رکھا گیا ہے جہاں محفوظ ماحول میں ان کی افزائش نسل کی جارہی ہے۔

    ماہرین کا ارادہ ہے کہ اس بلی کی تعداد مستحکم ہونے کے بعد اسے واپس اس کے گھر یعنی جنگلوں میں چھوڑ دیا جائے گا۔

  • شدید گرمی سے یورپ کے برفانی پہاڑوں میں جھیل نمودار ہوگئی

    شدید گرمی سے یورپ کے برفانی پہاڑوں میں جھیل نمودار ہوگئی

    جنوبی وسطی یورپ کے اہم پہاڑی سلسلے الپس کی بلندیوں پر ایک جھیل دریافت کی گئی ہے جس نے ماہرین کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔

    یہ جھیل برائن میسٹر نامی ایک کوہ پیما نے دریافت کی، جھیل الپس پہاڑی سلسلے کے سب سے بلند پہاڑ ماؤنٹ بلانک پر دیکھی گئی اور یہ سطح سمندر سے 11 ہزار 100 فٹ بلند ہے۔

    ماہرین کے مطابق اس جھیل کی تشکیل اس ہیٹ ویو کی وجہ سے ہوئی جس نے گزشتہ ماہ پورے یورپ کو بری طرح متاثر کیا۔ کوہ پیما میسٹر کا کہنا تھا کہ یہ نہایت خطرناک صورتحال ہے۔ صرف 10 دن کی شدید گرمی نے برفانی پہاڑ کو پگھلا کر ایک جھیل تشکیل دے دی۔

    میسٹر کا کہنا تھا کہ جس وقت وہ اس مقام پر پہنچے اس سے صرف 10 دن قبل ہی ایک اور کوہ پیما اس علاقے میں پہنچا تھا۔ اس وقت یہ حصہ برف سے ڈھکا ہوا تھا اور یہاں کسی جھیل کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔ صرف 10 دن میں یہاں ایک جھیل نمودار ہوگئی۔

     

    View this post on Instagram

     

    Time to sound the alarm… The problem here? These two pictures were taken only 10 days apart… It was taken earlier on June 28th, the second one was shared by Paul Todhunter. Only 10 days of extreme heat were enough to collapse, melt and form a lake at the base of the Dent du Géant and the Aiguilles Marbrées That I know, this is the first time anything like that as ever happened. Southern Europe and the Alps have been struck by a massive heatwave with temperature ranging from 40 to 50 degrees, the below 0 freezing altitude was as high as 4,700m (15,400ft) and during the day temperatures as high as 10 degrees Celsius (50 F) were felt on top of Mont Blanc 4,810m (15,780ft)… This is truly alarming glaciers all over the world are melting at an exponential speed… My interview with @mblivetv can be found here! https://montblanclive.com/radiomontblanc/article/massif-du-mont-blanc-un-petit-lac-se-forme-a-plus-de-3000-m-daltitude-48453 #climbing #climber #climb #frenchalps #savoie #savoiemontblanc #hautesavoie #outdoors #globalwarming #mountaineering #mountains #mountain #montagne #montaña #montagna #montanhismo #mountaineer #alpinist #alpinism #alpinisme #alpinismo #alpi #alps #environment #savetheplanet #climatechange #montblanc @patagonia @beal.official @millet_mountain @blueiceclimbing

    A post shared by Bryan Mestre (@bryanthealpinist) on

    انہوں نے کہا کہ یہ اس قدر بلند حصہ ہے کہ یہاں پر صرف برف کی موجودگی ممکن ہے، ’جب ہم یہاں جاتے ہیں تو ہماری بوتلوں میں موجود پانی جم جاتا ہے‘۔

    یاد رہے کہ گزشتہ دنوں یورپ میں آنے والی ہیٹ ویو کے دوران کئی شہروں میں درجہ حرارت 46 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا تھا، شدید گرمی کے باعث کئی افراد کی ہلاکتیں بھی سامنے آئیں۔

    یہ پہلی بار نہیں ہے کہ کلائمٹ چینج کی وجہ سے ہونے والی شدید گرمی کے باعث گلیشیئرز پر جھیلیں دیکھی جارہی ہیں۔ ماہرین اس سے قبل برفانی خطے انٹارکٹیکا میں بھی جھیلیں بننے کی تصدیق کر چکے ہیں۔

    کچھ عرصہ قبل برطانوی ماہرین نے سیٹلائٹ سے موصول ہونے والی ہزاروں تصویروں اور ڈیٹا کی بغور چھان بین کے بعد اس بات کی تصدیق کی تھی کہ قطب جنوبی یعنی انٹارکٹیکا میں برف کے نیچے جھیلیں بن رہی ہیں۔

    ماہرین کے مطابق یہ جھیلیں اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ وہاں موجود برف پگھلنے کے باعث اس کی تہہ کمزور ہو کر چٹخ رہی ہے۔

    ایک تحقیق کے مطابق سنہ 2000 سے انٹارکٹیکا کی برف نہایت تیزی سے پگھل رہی ہے اور اس عرصہ میں یہاں 8 ہزار کے قریب مختلف چھوٹی بڑی جھیلیں تشکیل پا چکی ہیں۔