Tag: ماحولیات کی خبریں

  • بنفشی تتلیوں کی 50 برس بعد واپسی

    بنفشی تتلیوں کی 50 برس بعد واپسی

    انگلینڈ کی کاؤنٹی نورفک میں 50 برس بعد بنفشی رنگ کی تتلیاں واپس لوٹ آئیں، کثرت سے اس علاقے میں پائی جانے والی یہ تتلیاں 70 کی دہائی میں اس علاقے میں معدوم ہوگئی تھیں۔

    بنفشی تتلی برطانیہ میں پائی جانے والی تتلی کی تمام اقسام میں جسامت کے لحاظ سے دوسری بڑی تتلی ہے۔ بنفشی رنگت والے پروں کی حامل اس تتلی کے پروں کا پھیلاؤ 8.4 سیٹی میٹر ہے۔

    اس کے پروں میں بنفشی رنگ کے ساتھ نارنجی رنگ کے دائرے بھی موجود ہوتے ہیں۔

    ان تتلیوں کو آخری بار یہاں 1961 میں دیکھا گیا تھا۔ سنہ 1970 میں یہ اس کاؤنٹی میں مکمل طور پر معدوم ہوگئی تھیں جبکہ پورے برطانیہ میں ان کی آبادی میں 31 فیصد کمی بھی واقع ہوگئی تھی۔ اب 50 برس بعد یہ تتلیاں اس علاقے میں لوٹ آئی ہیں۔

    تتلیوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے ادارے کی کارکن کری کلارک کہتی ہیں، ’یہ جان کر خوشی ہوئی کہ ہماری تحفظ فطرت کی کوششیں رنگ لارہی ہیں اور ہم وہ ماحول دوبارہ لانے میں کامیاب ہوگئے ہیں جہاں تتلیاں پروان چڑھتی ہیں‘۔

    بنفشی تتلیوں کی واپسی کے بعد اب صرف نورفک میں تتلیوں کی 37 مختلف اقسام ہوگئی ہیں۔

  • پاکستانی طالبہ نے ماحول دوست پلاسٹک تیار کرلیا

    پاکستانی طالبہ نے ماحول دوست پلاسٹک تیار کرلیا

    پلاسٹک کرہ زمین کو گندگی کے ڈھیر میں تبدیل کرنے والی سب سے بڑی وجہ ہے کیونکہ پلاسٹک کو زمین میں تلف ہونے کے لیے ہزاروں سال درکار ہیں۔

    یہی وجہ ہے کہ پلاسٹک بڑے پیمانے پر استعمال کے باعث زمین پر اسی حالت میں رہ کر زمین کو گندگی وغلاظت کا ڈھیر بنا چکا ہے۔ دنیا بھر میں جہاں پلاسٹک کا استعمال کم سے کم کرنے پر زور دیا جارہا ہے وہیں پلاسٹک کی متبادل پیکجنگ اشیا بنانے پر بھی کام جاری ہے۔

    ایسی ہی ایک کوشش ایک پاکستانی طالبہ نے بھی کی ہے۔ ڈاکٹر انجم فیروز نامی طالبہ جامعہ کراچی سے فوڈ سائنسز اور ٹیکنالوجی میں پی ایچ ڈی کر رہی ہیں۔ انہوں نے ایسا پلاسٹک تیار کیا ہے جس کی تیاری میں آم کی گٹھلی استعمال ہوئی ہے۔

    آم کی گٹھلی سے تیار ہونے کے بعد یہ پلاسٹک نہ صرف ماحول دوست بلکہ کھائے جانے کے قابل بھی بن گیا ہے، اگر اسے پھینک دیا جائے تو یہ آسانی سے چند لمحوں میں پانی میں حل ہوجائے گا یا چند دن میں زمین میں تلف ہوجائے گا۔

    ڈاکٹر انجم کا خیال ہے کہ چونکہ پاکستان آم کی پیداوار کرنے والا دنیا کا چوتھا بڑا ملک ہے لہٰذا اس پلاسٹک کی تیاری نہایت آسانی سے قابل عمل ہے۔

    خوردنی یا ایڈیبل پلاسٹک کا آئیڈیا نیا نہیں ہے، دنیا بھر میں اس آئیڈیے کے تحت مختلف اشیا سے پلاسٹک کا متبادل تیار کیا جارہا ہے۔

    اس سے قبل امریکن کیمیکل سوسائٹی کے ماہرین نے دودھ کے پروٹین سے پلاسٹک کا متبادل تیار کیا تھا۔ یہ متبادل آکسیجن کو جذب نہیں کرسکتا لہٰذا اس کے اندر لپٹی چیز خراب ہونے کا کوئی خدشہ نہیں۔

    اس پیکنگ کے اندر کافی یا سوپ کو پیک کیا جاسکتا ہے۔ استعمال کرتے ہوئے اسے کھولے بغیر گرم پانی میں ڈالا جاسکتا ہے جہاں یہ پیکنگ بھی پانی میں حل ہوجائے گی۔

    پاکستان میں پہلی بار مقامی طور پر خوردنی پلاسٹک تیار کیا گیا ہے اور اسے نہایت آسانی سے بڑے پیمانے پر تیار کر کے ماحول اور صحت کے لیے نقصان دہ پلاسٹک سے چھٹکارا پایا جاسکتا ہے۔

  • یہ دردناک ویڈیو دیکھ کر آپ کو اپنے انسان ہونے پر شرم آئے گی

    یہ دردناک ویڈیو دیکھ کر آپ کو اپنے انسان ہونے پر شرم آئے گی

    ہم انسانوں نے اس زمین پر اس طرح ترقی کی ہے کہ ہم دوسرے جانداروں کی موجودگی بھی بھلا بیٹھے ہیں۔ زمین کے وسائل کا بے دریغ استعمال اور چیزوں کو ایک بار استعمال کر کے بے دردی سے پھینک دینا ہماری عادت بن چکا ہے۔

    اس معمول میں ہم یہ بھول گئے ہیں کہ ہماری یہ عادتیں اس زمین پر بسنے والے دیگر جانداروں کو بے تحاشہ نقصان پہنچا رہی ہیں۔ ہمارے پھینکے گئے کچرے نے جانوروں اور پرندوں کو موت کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔

    سب سے زیادہ بے رحمانہ رویہ ہمارا پلاسٹک کی طرف ہے جسے ہم ایک بار استعال کر کے پھینک دیتے ہیں۔ پلاسٹک ہزاروں سال تک یونہی زمین پر رہنے والی چیز ہے اور اس کے بے تحاشہ استعمال کی وجہ سے زمین اب ایک پلاسٹک کا کچرا گھر معلوم ہوتی ہے۔

    یہ پلاسٹک جانوروں اور پرندوں کے لیے بھی تباہ کن ثابت ہو رہے ہیں۔ اکثر سمندری و زمینی جانور اور پرندے انہیں کھانے کی اشیا سمجھ کر کھا لیتے ہیں جس کے بعد یہ اشیا ان کے جسم کے اندر پھنس جاتی ہیں۔

    اس کے بعد یہ زہریلا پلاسٹک آہستہ آہستہ اس جاندار کو اس طرح موت کے گھاٹ اتارتا ہے کہ وہ بھوک سے مرتے ہیں تاہم ان کا پیٹ پلاسٹک سے بھرا ہوا ہوتا ہے۔

    زیر نظرویڈیو بھی ایک ایسی ہی ننھی سی معصوم چڑیا کی ہے جسے جانوروں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے کچھ افراد نے بغور دیکھا۔ یہ چڑیا بے چینی کا شکار تھی جبکہ کچھ کھا بھی نہیں پا رہی تھی۔

    جب اس ننھی چڑیا کے جسم کا ایکسرے کیا گیا تو پتہ چلا کہ اس کے اندر پلاسٹک کی بے شمار اشیا موجود تھیں۔ اس کے بعد اس چڑیا کے جسم میں نلکی ڈال کر ابکائی کے ذریعے وہ اشیا باہر نکالی گئیں۔

    زیر نظر ویڈیو اسی پروسس کی ہے جو اتنی دردناک اور تکلیف دہ ہے جسے دیکھ کر ہر حساس شخص یہ سوچنے پر مجبور ہوجائے گا کہ ہمای خود غرضی نے ان معصوم بے زبانوں کو کس حال میں پہنچا دیا۔

  • چینی اور پانی سے بھرا چمچ گھر کے باہر رکھنے کا کیا فائدہ ہے؟

    چینی اور پانی سے بھرا چمچ گھر کے باہر رکھنے کا کیا فائدہ ہے؟

    ہماری زمین پر موجود ہر جاندار نہایت اہمیت کا حامل ہے، زمین پر موجود تمام جاندار آپس میں جڑے ہوئے ہیں لہٰذا کسی ایک جاندار کی نسل کو نقصان پہنچنے یا اس کے معدوم ہوجانے سے زمین پر موجود تمام اقسام کی زندگی خطرے میں آسکتی ہے۔

    انہی میں سے ایک اہم جاندار شہد کی مکھی ہے، خطرناک ڈنک مارنے والی شہد کی مکھیاں ہمارے اس دنیا میں وجود کی ضمانت ہیں اور اگر یہ نہ رہیں تو ہم بھی نہیں رہیں گے۔

    ماہرین کے مطابق ہماری غذائی اشیا کا ایک تہائی حصہ ان مکھیوں کا مرہون منت ہے۔ شہد کی مکھیاں پودوں کے پولی نیٹس (ننھے ذرات جو پودوں کی افزائش نسل کے لیے ضروری ہوتے ہیں) کو پودے کے نر اور مادہ حصوں میں منتقل کرتے ہیں۔ اس عمل کے باعث ہی پودوں کی افزائش ہوتی ہے اور وہ بڑھ کر پھول اور پھر پھل یا سبزی بنتے ہیں۔

    شہد کی مکھیاں یہ کام صرف چھوٹے پودوں میں ہی نہیں بلکہ درختوں میں بھی سر انجام دیتی ہیں۔ درختوں میں لگنے والے پھل، پھول بننے سے قبل ان مکھیوں پر منحصر ہوتے ہیں کہ وہ آئیں اور ان کی پولی نیشن کا عمل انجام دیں۔

    تاہم نسل انسانی کے لیے ضروری یہ ننھی مکھیاں اس وقت کئی خطرات کا شکار ہیں۔ جانوروں کی دیگر متعدد اقسام کی طرح انہیں بھی سب سے بڑا خطرہ بدلتے موسموں یعنی کلائمٹ چینج سے ہے۔ موسمی تغیرات ان کی پناہ گاہوں میں کمی کا سبب بن رہے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں بڑھتی فضائی آلودگی بھی ان مکھیوں کے لیے زہر ہے اور اس کے باعث یہ کئی بیماریوں یا موت کا شکار ہورہی ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق گزشتہ 5 برسوں میں شہد کی مکھیوں کی ایک تہائی آبادی ختم ہوچکی ہے۔

    ان مکھیوں کو کیسے بچایا جاسکتا ہے؟

    معروف محقق اور ماہر ماحولیات سر ڈیوڈ ایٹنبرو کے مطابق ہمارا ایک معمولی سا عمل ان مکھیوں کو بچا سکتا ہے۔ سر ایٹنبرو کو ماحولیات کے شعبے میں کام اور تحقیق کے حوالے سے شاہی خاندان میں بھی خصوصی اہمیت حاصل ہے اور کئی بار ملکہ ان کے کام کو سراہ چکی ہیں۔

    ان کے مطابق شہد کی مکھیاں پھولوں کا رس جمع کرنے کے لیے دور دور نکل جاتی ہیں اور بعض دفعہ وہ تھکن کا شکار ہو کر واپس اپنے چھتے تک نہیں پہنچ پاتیں۔

    ایسے میں اگر ہم اپنے گھر کے لان یا کھلی جگہ میں ایک چمچے میں ایک قطرہ پانی اور چینی کی تھوڑی سی مقدار ملا کر رکھ دیں گے تو یہ محلول ان مکھیوں کی توانائی بحال کر کے واپس انہیں ان کے گھر تک پہنچنے میں مدد دے سکتا ہے۔

    سر ایٹنبرو کے مطابق اگر شہد کی مکھیاں نہ رہیں تو ہم انسان صرف 4 برس مزید زندہ رہ سکیں گے، چنانچہ یہ معمولی سا قدم نہ صرف ان مکھیوں بلکہ ہماری اپنی بقا کے لیے بھی مددگار ثابت ہوگا۔

    نوٹ: بعد ازاں سامنے آنے والی رپورٹس سے علم ہوا کہ سر ڈیوڈ ایٹنبرو کے جس اکاؤنٹ سے یہ معلومات شیئر کی گئیں، وہ جعلی اکاؤنٹ تھا۔ سر ایٹنبرو نے ایسی کوئی بھی تجویز دینے کی تردید کی۔

  • سنہری بالوں والا معصوم بندر

    سنہری بالوں والا معصوم بندر

    کیا آپ سنہری بالوں والے بندر کے بارے میں جانتے ہیں؟

    چین کے جنوبی صوبے یونن میں پائے جانے والے بندر کی ایک قسم کو اپنی ناک اور خوبصورت بالوں کی وجہ سے نہایت منفرد سمجھا جاتا ہے۔ غیر معمولی ہیئت کی ناک کی وجہ سے اسے سنب نوزڈ منکی کہا جاتا ہے۔

    یہ بندر ماحول سے مطابقت کرنے کی زبردست صلاحیت رکھتے ہیں اور منفی درجہ حرارت میں بھی زندہ رہ سکتے ہیں۔

    ان بندروں کو اپنی پناہ گاہوں کے چھن جانے کی وجہ سے معدومی کا خطرہ ہے، اسی خطرے کو دیکھتے ہوئے چین میں ان بندروں کے ڈی این اے کا تجزیہ کیا جارہا ہے تاکہ ان کی حفاظت کے لیے اقدامات اٹھائے جاسکیں۔

    1980 کی دہائی میں ان بندروں کا بے دریغ شکار کیا گیا تاہم اس کے بعد سے ان بندروں کی آبادی میں اضافہ ہوا ہے، لیکن اب بھی ان کی تعداد مستحکم نہیں کہلائی جاسکتی۔

    چین اور میانمار کی سرحد پر رہنے والے ان جانداروں کے تحفظ کے لیے چینی حکومت بڑے پیمانے پر اقدامات کر رہی ہے۔

  • کچرے سے بنے ہوئے آلات موسیقی

    کچرے سے بنے ہوئے آلات موسیقی

    پلاسٹک کرہ زمین کو گندگی کے ڈھیر میں تبدیل کرنے والی سب سے بڑی وجہ ہے کیونکہ پلاسٹک کو زمین میں تلف ہونے کے لیے ہزاروں سال درکار ہیں۔

    یہی وجہ ہے کہ پلاسٹک بڑے پیمانے پر استعمال کے باعث زمین پر اسی حالت میں رہ کر زمین کو گندگی وغلاظت کا ڈھیر بنا چکا ہے۔ دنیا بھر میں جہاں پلاسٹک کا استعمال کم سے کم کرنے پر زور دیا جارہا ہے وہیں استعمال شدہ پلاسٹک کے کسی نہ کسی طرح دوبارہ استعمال کے بھی نئے نئے طریقے دریافت کیے جارہے ہیں۔

    ایک مصری فنکار نے بھی ایسا ہی ایک طریقہ نکالا ہے۔

    مصر سے تعلق رکھنے والا فنکار شیدی رباب کچرے سے آلات موسیقی بناتا ہے۔ رباب ایک موسیقار ہے جبکہ وہ آلات موسیقی بھی بناتا ہے۔

    وہ کچرے سے مختلف پلاسٹک و شیشے کی بوتلوں کو اکٹھا کر کے ان سے ڈرمز، گٹار اور بانسریاں بناتا ہے۔

    رباب کا کہنا ہے کہ اس طرح سے وہ لوگوں کی توجہ مصر میں بڑھتی ہوئی آلودگی اور کچرے کے ڈھیروں کی طرف دلانا چاہتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ لوگ اس بات کو سمجھیں کہ دریاؤں اور سمندروں میں کچرا پھینکنا کس قدر نقصان دہ ہے۔

    دریائے نیل کے مغربی کنارے پر رباب کی سازوں کی دکان موجود ہے جہاں ہر وقت موسیقی کے شیدائیوں کا ہجوم رہتا ہے۔

    رباب ان آلات کو موسیقی سیکھنے والے بچوں میں مفت تقسیم کرتا ہے اور جو بچے موسیقی سیکھنا چاہتے ہیں انہیں سکھاتا بھی ہے۔ اسے اقوام متحدہ سے ینگ چیمپئن آف دا ارتھ پرائز بھی مل چکا ہے۔

    رباب کا عزم ہے کہ وہ اپنے ملک میں پھیلی آلودگی کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کرے اس لیے نہ صرف وہ خود کچرے سے آلات موسیقی تیار کرتا ہے بلکہ دوسروں کو بھی سکھاتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس کے مشن کا حصہ بن سکیں۔

  • جنگلی حیات کو بچانے کے لیے مصنوعی جزیروں کی تعمیر

    جنگلی حیات کو بچانے کے لیے مصنوعی جزیروں کی تعمیر

    دنیا بھر میں روز افزوں ہوتی انسانی ترقی نے ماحول اور جنگلی حیات کے لیے بے شمار خطرات کھڑے کردیے ہیں، تاہم اب ان نقصانات سے نمٹنے کے لیے مختلف اقدامات کیے جارہے ہیں۔

    ایسی ہی ایک کوشش یورپی ملک نیدر لینڈز بھی کر رہا ہے۔ نیدر لینڈز میں سیلابی پانی سے بچاؤ کے لیے بے شمار رکاوٹیں تعمیر کی گئی ہیں کیونکہ ملک کا 2 تہائی حصہ سیلاب کے خطرات کا شکار ہے۔

    ان تعمیرات کی وجہ سے نیدر لینڈز کی ایک بڑی جھیل مارکرمر نہایت آلودہ ہوچکی تھی۔ یہ جھیل مختلف اقسام کی آبی حیات، پرندوں اور جنگلی حیات کا مسکن ہے۔

    تاہم جھیل کا پانی آلودہ ہونے کی وجہ سے یہاں سے اکثر جانور اور پرندے ہجرت کرچکے تھے جبکہ مختلف آبی حیات کی آبادی بھی کم ہوچکی تھی۔

    اب نیدر لینڈز اس جھیل پر 5 جزیرے تعمیر کر رہا ہے تاکہ ان جنگلی حیات کو واپس لایا جاسکے۔ جزیروں کی تعمیر کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر جھیل کی صفائی بھی کی جارہی ہے۔

    نیدر لینڈز کی یہ کوششیں رنگ لارہی ہیں اور یہ جھیل پھر سے حیاتیاتی تنوع سے آباد ہونا شروع ہوگئی ہے۔ ایک وقت میں جنگلی حیات کے لیے خطرہ بنی ہوئی یہ جھیل اب ان کی جنت بن چکی ہے۔

  • ڈولفن کی شکاری کانٹے سے رہائی

    ڈولفن کی شکاری کانٹے سے رہائی

    پلاسٹک کی اشیا اور مچھلی پکڑنے کی ڈوریاں، کانٹے اور جال یوں تو بے ضرر لگتے ہیں تاہم یہ آبی حیات کے لیے نہایت خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔

    اکثر سمندری جانور ان جالوں اور کانٹوں کا شکار نہ بھی ہوں تب بھی ان کی وجہ سے پھنس جاتے ہیں جس کی وجہ سے وہ تیر نہیں سکتے۔ ایسی ہی کچھ صورتحال امریکی ریاست ہوائی کے سمندروں میں پیش آئی۔

    ہوائی کے سمندر میں ڈائیونگ کرتے ہوئے ایک ڈائیور نے دیکھا کہ اس کے قریب تیرتی ڈولفن اپنے ایک بازو کو حرکت نہیں دے پارہی۔ ڈائیور نے غور سے اس کے بازو کا مشاہدہ کیا تو اس نے دیکھا کہ مچھلی پکڑنے کے کانٹے کا ہک ڈولفن کے بازو کے گرد پھنسا ہوا تھا۔

    ڈائیور نے ہک کو پہلے ہاتھ سے نکالنے کی کوشش کی، جب وہ ناکام رہا تو اس نے اپنے سامان سے کٹر نکال کر اس ہک کو کاٹنا شروع کیا۔

    اس دوران ڈولفن صبر سے وہیں موجود رہی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ یہ اسی کی مدد کی جارہی ہے۔

    ڈائیور نے نہایت احتیاط سے اس ہک کو کاٹا اور ڈولفن کے منہ میں اٹکا ہوا تار بھی نکال دیا جس کے بعد ڈولفن کا بازو حرکت کرنے لگا۔ ڈولفن نے شکر گزاری کے اظہار کے طور پر ڈائیور کے گرد چکر لگائے اس کے بعد گہرے سمندروں میں گم ہوگئی۔

  • ہاتھی کی سونڈ میں کیا ہے؟

    ہاتھی کی سونڈ میں کیا ہے؟

    دنیا کا ہر جاندار اپنے اندر کوئی نہ کوئی ایسی جسمانی انفرادیت رکھتا ہے جو ایک طرف تو اسے دوسرے جانداروں سے ممتاز کرتی ہے تو دوسری طرف اسے مختلف خطرات سے بھی بچاتی ہے۔

    ہاتھی کی انفرادیت اس کی لمبی سونڈ ہے۔ کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ ہاتھی کی یہ ناک اپنے اندر کیا کیا خصوصیات رکھتی ہے؟ آئیں آج ہم آپ کو بتاتے ہیں۔

    بظاہر یہ ہاتھی کی ناک ہے لیکن اگر آپ لیبارٹری میں کسی سونڈ کو کاٹ کر دیکھیں تو یہ ناک سے زیادہ انسانی زبان سے مشابہہ نظر آئے گی۔

    دراصل ہاتھی کی سونڈ، کسی دوسرے جانور کی زبان اور ہشت پا یعنی آکٹوپس کے بازو نہایت منفرد اعضا ہیں جنہیں ہائیڈرو اسٹیٹ کہا جاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ مکمل طور پر مسلز سے بنے ہوئے ہیں تاہم سونڈ میں یہ مسلز بہت زیادہ ہوتے ہیں۔

    ایک اندازے کے مطابق ہاتھی کی سونڈ میں 40 ہزار مسلز ہوتے ہیں جبکہ پورے انسانی جسم میں صرف 650 مسلز ہوتے ہیں۔

    ان مسلز کو حرکت کرنے کے لیے ہڈیوں اور جوڑوں کی مدد درکار ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر ورزش کرتے ہوئے جب ہمارے مسلز حرکت کرتے ہیں تو یہ ہڈی اور جوڑ کی مدد سے اوپر اٹھتے ہیں۔

    لیکن ہاتھی کی سونڈ میں کوئی ہڈی یا جوڑ موجود نہیں ہوتا چنانچہ یہ مسلز خود ہی مکمل طور پر حرکت کرتے ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ ہاتھی کی سونڈ نہایت لچکدار اور ہر سمت میں حرکت کرنے کے قابل ہوتی ہے۔

    سونڈ کے یہ مسلز نہایت طاقتور بھی ہوتے ہیں۔ ہاتھی اپنی سونڈ سے بھاری بھرکم اشیا بھی اٹھا سکتا ہے اور ایک معمولی سا چپس بھی بغیر توڑے اٹھا لیتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہاتھی کی سونڈ کی ساخت زبان جیسی ہوتی ہے جبکہ یہ ہاتھ کی طرح کام کرتی ہے تاہم پھر بھی یہ ناک ہی ہے اور نہایت غیر معمولی ناک ہے۔

    کسی بھی جانور کی سونگھنے کی صلاحیت اس کے خلیوں میں موجود اولفیکٹری ریسیپٹرز نامی نیورونز پر منحصر ہوتی ہے اور ہاتھی میں اس کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ہاتھی کی سونڈ میں تقریباً 2 ہزار ریسیپٹرز موجود ہوتے ہیں، اتنی بڑی تعداد کسی اور جاندار میں موجود نہیں۔ ریسیپٹرز کی سب سے زیادہ تعداد (ہاتھی سے کم) بلڈ ہاؤنڈ میں ہوتی ہے جو کہ 800 ہے، انسانوں میں سونگھنے کے لیے صرف 636 ریسیپٹرز موجود ہوتے ہیں۔

    ہاتھی بموں کو بھی سونگھ سکتے ہیں۔ افریقی ملک انگولا میں ایک تحقیق میں دیکھا گیا کہ ہاتھی زیر زمین بچھی بارودی سرنگوں سے بچ کر چلتے تھے کیونکہ وہ اس میں موجود بارودی اجزا کو سونگھ لیتے تھے۔

    اسی طرح ہاتھی اپنی سونڈ کو آنکھوں کی طرح بھی استعمال کرتے ہیں، یہ اپنی سونڈ سے پانی اور غذا ڈھونڈنے، شکاریوں سے بچنے اور دوسرے ہاتھیوں کی آس پاس موجودگی کا تعین کرنے کا کام بھی لیتے ہیں۔

    گہرے پانی میں سے گزرتے ہوئے ہاتھی سونڈ سے اسنارکلنگ بھی کرتے ہیں تاکہ ڈوبنے سے محفوظ رہیں، جبکہ غسل کرتے ہوئے اس سے فوارے کا کام لیتے ہیں۔ ہاتھی ایک دفعہ میں سونڈ میں 10 لیٹر پانی بھر کر اسے فضا میں اچھال سکتے ہیں۔

    اپنی اس ہمہ جہت اور شاندار سونڈ سے ہاتھی خود بھی واقف ہیں، ان کے سامنے اگر آئینہ رکھ دیا جائے تو یہ زیادہ تر وقت اپنی سونڈ کا معائنہ کرتے ہی گزارتے ہیں۔

    کیا آپ اس سے قبل ہاتھی کی سونڈ کی ان خصوصیات سے واقف تھے؟

  • برطانوی شہریوں کی عام سی عادت معصوم پرندوں کی بقا کا سبب بن گئی

    برطانوی شہریوں کی عام سی عادت معصوم پرندوں کی بقا کا سبب بن گئی

    دنیا بھر میں دن بدن تیزی سے ہوتی اربنائزیشن، شہروں کے بے ہنگم پھیلاؤ اور انسانی سرگرمیوں نے پرندوں کی آبادی کو خطرے میں ڈال دیا ہے تاہم برطانوی شہریوں کی ایک عام عادت پرندوں کی بقا کے لیے مددگار ثابت ہورہی ہے۔

    برطانیہ میں ہر دوسرا شہری اپنے گھر کے کھلے حصے میں پرندوں کے لیے دانہ پانی ضرور رکھتا ہے اور ان کی اس عادت سے گزشتہ 5 دہائیوں سے نہایت مثبت اثرات دیکھنے میں آرہے ہیں۔

    ماہرین ماحولیات کے مطابق اس رجحان کی وجہ سے برطانیہ میں پرندوں کی تعداد اور ان کی اقسام میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ گھروں میں خوراک ملنے کی وجہ سے پرندے اب پہلے کے مقابلے میں زیادہ تعداد میں شہروں میں دیکھے جارہے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ گھروں میں پرندوں کے لیے دانہ پانی رکھنے کا رجحان پرندوں پر بھی مثبت تبدیلیاں مرتب کر رہا ہے۔

    پرندے کی ایک قسم گریٹ ٹٹ کی چونچ کی لمبائی میں اعشاریہ 3 ملی میٹر اضافہ بھی دیکھا گیا جس کی وجہ مختلف جالوں اور فیڈرز میں پھنسے کھانے کو نکال کر کھانا تھا۔

    گریٹ ٹٹ

    اسی طرح ایک اور پرندہ بلیک کیپ جو ہر سال موسم سرما میں خوراک کی عدم دستیابی کی وجہ سے اسپین یا افریقہ کی طرف ہجرت کرجاتا تھا، اب یہ موسم برطانیہ میں ہی گزارتا دکھائی دیتا ہے۔

    بلیک کیپ

    تحقیق کے مطابق گھروں میں دانہ پانی رکھنے سے برطانیہ میں موجود پرندوں کی نصف آبادی یعنی تقریباً 19 کروڑ 60 لاکھ پرندوں کی غذائی ضروریات پوری ہورہی ہیں۔

    اس رجحان کی وجہ سے پرندوں کی آبادی میں کئی گنا اضافہ دیکھا جارہا ہے جس میں برطانیہ میں پایا جانے والا ایک عام پرندہ گولڈ فنچ بھی شامل ہے۔ سنہ 1972 میں گھریلو فیڈرز پر آنے والے پرندوں میں گولڈ فنچ کی تعداد صرف 8 فیصد ہوتی تھی اور اب یہ تعداد 87 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔

    تحقیق کے مطابق برطانوی شہری مجموعی طور پر پرندوں کا خیال رکھنے پر ہر سال 33 کروڑ 40 لاکھ پاؤنڈز خرچ کرتے ہیں اور یہ رقم یورپی شہریوں کی اسی مقصد کے لیے خرچ کی جانے والی رقم سے دگنی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ شہروں کے پھیلاؤ اور انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے پرندوں کی 10 لاکھ اقسام معدومی کے قریب ہیں۔ سنہ 1994 سے 2012 تک کئی ممالک میں بھوری چڑیاؤں (ہاؤس اسپیرو) کی تعداد میں 50 فیصد سے زائد کمی واقع ہوچکی ہے۔

    ماہرین کے مطابق بے ہنگم شور شرابہ اور ہجوم کے علاوہ ہمارے شہروں کی روشنیاں بھی معصوم پرندوں کے لیے نقصان دہ ہیں۔