Tag: ماحولیات کی خبریں

  • کراچی کے شہریوں کا فی ہفتہ 5 گرام پلاسٹک کھانے کا انکشاف

    کراچی کے شہریوں کا فی ہفتہ 5 گرام پلاسٹک کھانے کا انکشاف

    کراچی: ایک حالیہ تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ شہرِ قائد کے شہری ایک ہفتے میں 5 گرام پلاسٹک کھاتے ہیں، غذا میں شامل پلاسٹک کے ذرات انسانی زندگی کے لیے جان لیوا بننے لگے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق ڈبلیو ڈبلیو ایف انٹرنیشنل نے پلاسٹک پلوشن کی تازہ تحقیق جاری کر دی ہے، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پلاسٹک کے ذرات انسانی زندگی کے لیے جان لیوا ثابت ہو رہے ہیں۔

    یہ رپورٹ یونی ورسٹی آف نیو کاسل آسٹریلیا کے طلبہ نے عالمی ماحولیات پر تیار کی ہے، رپورٹ کے مطابق کراچی میں پلاسٹک کے بڑھتے ذرات شہریوں کی خوراک کا حصہ بننے لگے ہیں۔

    پلاسٹک کی وجہ سے کراچی کے شہریوں کا غذائی نظام بھی متاثر ہوا ہے، تحقیق کے مطابق ایک ہفتے میں 5 گرام پلاسٹک عام آدمی کی غذا کا حصہ بن رہی ہے، پلاسٹک کی آلودگی سے ہوا، پانی اور مٹی کی کوالٹی بہت متاثر ہے، پلاسٹک کی مقدار مہینے کے اوسطاً 21 گرام اور سال کے 250 گرام کے برابر ہے۔

    ڈبلیو ڈبلیو ایف کا کہنا ہے کہ کلفٹن کے ساحل پر ایک گرام مٹی میں 300 پیس مائیکرو پلاسٹک رپورٹ ہوئے ہیں، تنظیم کے ٹیکنیکل ایڈوائزر معظم خان نے بتایا کہ مائیکرو پلاسٹک سے آبی جانور اور ماحول متاثر ہو رہا ہے۔

    معظم خان نے مزید بتایا کہ ڈبلیو ڈبلیو ایف اس سلسلے میں پاکستان کے 10 شہروں میں آگاہی پروگرام ترتیب دے رہا ہے۔

  • فیس کی جگہ پلاسٹک کی اشیا طلب کرنے والا اسکول

    فیس کی جگہ پلاسٹک کی اشیا طلب کرنے والا اسکول

    ہماری زمین کو آلودہ کرنے والی سب سے بڑی وجہ پلاسٹک اس وقت دنیا بھر کے ماہرین کے لیے درد سر بن چکا ہے، اس پلاسٹک کے کچرے کو ختم کرنے کے لیے دنیا بھر میں مختلف کوششیں کی جارہی ہیں۔

    ایسی ہی کوشش بھارت کا ایک اسکول بھی کر رہا ہے جو بچوں کو تعلیم دینے کے عوض ان سے فیس کے بجائے استعمال شدہ پلاسٹک وصول کر رہا ہے۔

    بھارتی ریاست آسام کا یہ گاؤں غریب افراد پر مشتمل ہے اور یہاں کے لوگ اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ جب یہاں پر یہ اسکول کھولا گیا تو صرف 20 بچوں کا داخلہ ہوا۔

    صورتحال کو دیکھتے ہوئے اسکول نے تمام بچوں کے لیے تعلیم مفت کردی تاہم شرط رکھ دی گئی کہ ہر بچہ ہر ہفتے کم از کم 25 پلاسٹک کی اشیا اسکول میں جمع کروائے گا۔

    یہ پلاسٹک شہر میں ری سائیکلنگ فیکٹریوں کو دے دیا جاتا ہے جو اس سے نئی اشیا بنا لیتی ہیں۔

    ریاست آسام میں لوگ موسم سرما میں آگ جلانے کے لیے پلاسٹک کا استعمال کرتے ہیں جس سے نہایت زہریلے دھوئیں کا اخراج ہوتا ہے۔ اس اسکول کی پلاسٹک وصول کرنے کی پالیسی سے اب اس رجحان میں کمی آرہی ہے جبکہ گلی کوچوں کی بھی صفائی کی جارہی ہے۔

    ایک اندازے کے مطابق بھارت میں روزانہ 26 ہزار ٹن پلاسٹک پیدا کیا جارہا ہے جو استعمال کے بعد پھینک دیا جاتا ہے اور یوں بھارت میں کچرے اور آلودگی میں اضافہ ہورہا ہے۔

    تاہم بھارت اب سلسلے میں اقدامات کر رہا ہے اس کا عزم ہے کہ سنہ 2022 تک سنگل استعمال پلاسٹک کو ختم کردیا جائے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمارے دریا اور سمندر پلاسٹک سے اٹ چکے ہیں اور سنہ 2050 تک ہمارے سمندروں میں آبی حیات اور مچھلیوں سے زیادہ پلاسٹک موجود ہوگا۔

    نیدر لینڈز کے ماحولیاتی ادارے گرین پیس کے مطابق دنیا بھر میں 26 کروڑ ٹن پلاسٹک پیدا کیا جاتا ہے جس میں سے 10 فیصد ہمارے سمندروں میں چلا جاتا ہے۔

  • معدوم شدہ جانور اچانک ’گمشدہ شہر‘ سے دریافت ہوگئے

    معدوم شدہ جانور اچانک ’گمشدہ شہر‘ سے دریافت ہوگئے

    وسطی امریکی ملک ہونڈرس کے گھنے جنگلات میں وہ سینکڑوں جاندار پائے گئے جنہیں اب تک معدوم سمجھا جاتا رہا تھا۔

    ہونڈرس کے موسکیشا جنگل میں واقع مضافاتی علاقہ جسے ’لوسٹ سٹی آف دا منکی گاڈ‘ یا ’سفید شہر‘ کہا جاتا ہے حیاتیاتی تنوع کی بہترین مثال ہے۔ اس جنگل میں چمگادڑ، تتلیوں، اور دیگر حشرات الارض کی سینکڑوں اقسام موجود ہیں۔

    سنہ 2017 میں حیاتیاتی تحفظ کے لیے کام کرنے والے ایک ادارے کی تحقیقاتی ٹیم نے اس علاقے کا تحقیقاتی دورہ کیا، اس دورے کے دوران 3 ہفتوں تک مختلف مقامات کا سفر کیا گیا اور وہاں کا جائزہ و تحقیق کی گئی۔

    اس دورے کے دوران جنگلات میں قدیم کھنڈرات بھی دریافت ہوئے۔ دورے کی مکمل رپورٹ اسی ہفتے جاری کی گئی ہے جس نے دنیا بھر کو حیران کردیا۔

    رپورٹ کے مطابق اس جنگل میں کئی ایسی جانداروں کی اقسام موجود ہیں جنہیں اب تک معدوم سمجھا جاتا رہا۔ اس دریافت میں کچھ ایسی حیاتیاتی اقسام بھی سامنے آئیں جو ہونڈرس میں بالکل اجنبی تھیں اور اس سے پہلے ان کی موجودگی کے بارے کسی کو علم نہیں تھا۔

    رپورٹ کے مطابق اس علاقے سے پرندوں کی 189 اقسام، تتلیوں کی 94، حشرات الارض کی 56، 40 چھوٹے اور 30 بڑے ممالیہ جانوروں کی اقسام سامنے آئی ہیں۔ بڑے ممالیہ جانوروں میں جیگوار اور پوما (شیر کی اقسام) بھی شامل ہیں۔

    اس کے ساتھ ہی پودوں، مچھلیوں اور کیڑے مکوڑوں کی درجنوں اقسام بھی سامنے آئیں۔ اس دریافت کے بعد تحقیقاتی ٹیم شدید حیرانی کا شکار ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ان جانداروں کی یہاں موجوگی کی وجہ یہ ہے کہ یہ شہر اب تک اپنی اصل حالت میں برقرار ہے اور یہاں انسانی مداخلت بہت کم ہوئی۔ اس کی وجہ سے یہاں کی جنگلی حیات کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔

    ہونڈرس میں اس علاقے کی حفاظت کے لیے ہمیشہ سے اہم اقدامات اٹھائے گئے ہیں اور ٹمبر مافیا اور غیر قانونی سرگرمیوں کے خطرے کے باوجود یہ علاقہ اپنی اصل حیثیت برقرار رکھنے میں کامیاب رہا ہے۔

  • ہاتھی اور مینڈک کے درمیان یہ انوکھا رشتہ جان کر آپ حیران رہ جائیں گے

    ہاتھی اور مینڈک کے درمیان یہ انوکھا رشتہ جان کر آپ حیران رہ جائیں گے

    یوں تو اس زمین پر موجود تمام جانداروں کا وجود دوسرے جانداروں کے لیے بے حد ضروری ہے اور ہر جاندار دوسرے سے کسی نہ کسی طرح جڑا ہوا ہے، تاہم حال ہی میں ایک ایسی دریافت سامنے آئی جس نے ماہرین کو بھی حیران کردیا۔

    میانمار کے جنگلوں میں تحقیق کرنے والے چند ماہرین نے دیکھا کہ وہاں موجود ہاتھی، جنگل کے مینڈکوں کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ کا سبب تھے۔ یہ پناہ گاہ ہاتھی کے پاؤں سے بننے والا گڑھا تھا جہاں مینڈکوں نے رہنا شروع کردیا تھا۔

    ماہرین کے مطابق ہاتھی کے پاؤں سے پڑنے والا گڑھا بارشوں میں جب پانی سے بھر جاتا ہے تو اس وقت یہ ننھے مینڈکوں کے لیے نہایت محفوظ پناہ گاہ ثابت ہوسکتا ہے۔

    مادہ مینڈک یہاں پر انڈے دیتی ہیں اور انڈوں سے بچے نکلنے کے بعد ننھے مینڈک طاقتور ہونے تک انہی تالاب نما گڑھوں میں رہتے تھے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ چونکہ ہاتھی کے وزن کی وجہ سے اس کے پاؤں سے پڑنے والا گڑھا خاصا گہرا ہوتا ہے لہٰذا یہ خاصے وقت تک قائم رہتا ہے اور اس دوران دوسرے جانوروں کے لیے فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔

    ایسی ہی صورتحال اس سے قبل افریقی ملک یوگنڈا مں بھی دیکھی گئی تھی جہاں ہاتھی کے پاؤں سے بننے والے گڑھوں میں ننھے مینڈک اور دیگر کیڑے مکوڑے بھی مقیم تھے۔

    ماہرین نے ہاتھیوں کی اس خاصیت کی وجہ سے انہیں ایکو سسٹم انجینئرز کا نام دیا ہے۔

    مزید پڑھیں: تتلیاں کچھوؤں کے آنسو پیتی ہیں

    ان کا کہنا ہے کہ ہاتھی ایکو سسٹم کا ایک اہم حصہ ہیں۔ یہ بیجوں کے پھیلانے اور اس طرح کے عارضی تالاب تشکیل دینے میں معاون ثابت ہوتے ہیں جبکہ یہ اپنی خوراک کے لیے درختوں کی شاخوں کو توڑتے ہیں جس سے بعد ازاں دیگر جانور بھی فائدہ اٹھاتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ایک تعلق اس بات کا ثبوت ہے کہ حیاتیاتی تنوع کی ایک ایک کڑی اور ایک ایک رکن نہایت اہم ہے اور اس بات کا متقاضی ہے کہ حیاتیاتی تنوع کے پورے سلسلے کی حفاظت کی جائے۔

  • سال کا طویل ترین دن زمین کے طویل القامت جانور کے نام

    سال کا طویل ترین دن زمین کے طویل القامت جانور کے نام

    آج دنیا بھر میں تیزی سے معدومی کی طرف بڑھتے زرافوں کے تحفظ کے حوالے سے عالمی دن منایا جارہا ہے۔ سنہ 1980 سے اب تک اس معصوم جانور کی آبادی میں 40 فیصد کمی واقع ہوچکی ہے۔

    اس دن کو منانے کا آغاز عالمی فاؤنڈیشن برائے تحفظ زرافہ جی سی ایف نے کیا جس کے تحت ہر سال، سال کے سب سے لمبے دن یعنی 21 جون کو زمین کے سب سے طویل القامت جانور کا دن منایا جاتا ہے۔

    زرافہ ایک بے ضرر جانور ہے جس کا گھر افریقہ کے جنگلات ہیں۔ عالمی ادارہ برائے تحفظ فطرت آئی یو سی این نے زرافے کو معدومی کے خطرے کا شکار جانوروں کی فہرست میں شامل کردیا ہے۔

    زرافے کی گردن لمبی کیوں ہوتی ہے؟

    کیا آپ جانتے ہیں کہ زرافے کی گردن لمبی کیوں ہوتی ہے؟ ایک عام خیال ہے کہ زرافہ دراصل اپنی غذائی عادات کے باعث اس قد تک پہنچا۔

    درختوں کی اونچی شاخوں سے پتے کھانے کے لیے زرافے نے خود کو اونچا کرنا شروع کیا اور ہر نسل پچھلی نسل سے لمبی ہوتی گئی۔ یوں زرافہ دنیا کا لمبا ترین جانور بن گیا۔ لیکن سائنسدانوں کے مطابق ممکنہ طور پر یہ نظریہ غلط ہے۔

    کچھ عرصہ قبل جاری کی جانے والی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ زرافے کی گردن ممکنہ طور پر جنسی وجوہات کے باعث لمبی ہوئی۔

    تحقیقاتی رپورٹ میں یہ نظریہ پیش کیا گیا کہ ممکن ہے زرافے مادہ زرافوں کے حصول کے لیے آپس میں لڑتے ہوں، لڑنے کے دوران وہ اپنی گردنیں آپس میں بھڑاتے ہوں اور اسی وجہ سے ان کی گردنیں لمبی ہوگئیں۔

    مزید پڑھیں: کیا آپ نے زرافوں کو لڑتے دیکھا ہے؟

    رپورٹ میں 1968 میں شائع ہونے والی ایک اور تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ نر زرافوں کے سینے سے اوپر کے حصہ کی عجیب ساخت ان کے کسی خاص قسم کی لڑائی میں ملوث ہونے کی نشاندہی کرتی ہے۔

    سائنسدانوں نے اس بات کی تصدیق تو نہیں کی کہ زرافوں کی آپس کی لڑائی صرف مادہ کے حصول کے لیے ہی ہوتی تھی، تاہم وہ اس بات پر متفق ہیں کہ ان کے بیچ کوئی وجہ تنازعہ تھا جس کے باعث یہ آپس میں لڑتے تھے۔

    معدومی کی طرف گامزن

    آئی یو سی این کے مطابق لگ بھگ 35 سال قبل دنیا بھر میں زرافوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے زائد تھی تاہم اب یہ تعداد گھٹ کر صرف 98 ہزار رہ گئی ہے۔

    کچھ عرصہ قبل زرافوں کے تحفظ کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع کی گئی جس میں بتایا گیا کہ زرافوں کی آبادی میں سب سے زیادہ کمی افریقہ کے صحرائی علاقوں سے ہوئی اور بدقسمتی سے یہ اتنی خاموشی سے ہوئی کہ کسی کی نظروں میں نہ آسکی۔

    رپورٹ کے مطابق ان جانوروں کی معدومی کی دو بڑی وجوہات ہیں۔

    ایک تو ان کی پناہ گاہوں کو انسانوں کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے زرعی زمینوں میں تبدیل کردینا جس کے باعث یہ اپنے فطری گھر سے محروم ہوجاتے ہیں، دوسرا ان کے گوشت کے لیے کیا جانے والا ان کا شکار، جس کی شرح جنوبی سوڈان میں سب سے زیادہ ہے۔

    آئی یو سی این کی سرخ فہرست کے نگران کریگ ہلٹن کا کہنا ہے کہ تنازعوں اور خانہ جنگیوں سے انسانوں کے ساتھ اس علاقے کا ماحول اور وہاں کی جنگلی حیات بھی متاثر ہوتی ہے اور بدقسمتی سے براعظم افریقہ کا بڑا حصہ ان کا شکار ہے۔

    علاوہ ازیں موسموں میں تبدیلی یعنی کلائمٹ چینج اور قحط، خشک سالی وغیرہ بھی زرافوں سمیت دیگر جانوروں کی معدومی کی وجہ ہیں۔

    اقوام متحدہ نے منتبہ کیا ہے کہ انسانوں کی وجہ سے دنیا کی جنگلی حیات شدید خطرات کا شکار ہے جس میں سب سے بڑا خطرہ ان کی پناہ گاہوں سے محرومی ہے۔ مختلف جنگلی حیات کی پناہ گاہیں آہستہ آہستہ انسانوں کے زیر استعمال آرہی ہیں۔

  • پینٹاگون کا کاربن اخراج کئی ممالک سے بھی زیادہ

    پینٹاگون کا کاربن اخراج کئی ممالک سے بھی زیادہ

    دنیا بھر میں اس وقت کاربن اخراج ایک بڑا مسئلہ ہے جس کو کم سے کم کرنے کے لیے مختلف اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں تاہم امریکی محکمہ دفاع کے بارے میں حال ہی میں جاری ہونے والی ایک تحقیق نے دنیا بھر کے ماہرین کو تشویش میں مبتلا کردیا۔

    امریکا اس وقت سب سے زیادہ کاربن اخراج کرنے والے ممالک میں دوسرے نمبر پر ہے۔ حال ہی میں کی گئی ایک تحقیق سے پتہ چلا کہ امریکی محکمہ دفاع کا ہیڈ کوارٹر پینٹاگون، اس وقت صنعتی ممالک جیسے سوئیڈن اور پرتگال سے زیادہ کاربن اخراج کر رہا ہے۔

    امریکا کی براؤن یونیورسٹی کی جانب سے کی جانے والی تحقیق میں بتایا گیا کہ پینٹاگون نے سنہ 2017 میں 59 ملین میٹرک ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ اور مختلف گرین ہاؤس (نقصان دہ) گیسز خارج کیں۔ یہ مقدار سوئیڈن اور پرتگال جیسے کئی چھوٹے ممالک کے کاربن اخراج سے زیادہ ہے۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ اسلحے کے استعمال اور اس کی نقل و حرکت میں اس ادارے کی 70 فیصد توانائی استعمال ہوتی ہے جس کا زیادہ حصہ جیٹ اور ڈیزل فیول پر خرچ ہوتا ہے۔

    پینٹاگون کی جانب سے تاحال اس تحقیق پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔

    اس سے قبل پینٹاگون بذات خود موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دے چکا ہے۔

    کچھ عرصہ قبل کی جانے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ کلائمٹ چینج کے باعث امریکا میں مستقل آنے والے سمندری طوفانوں اور سطح سمندر میں اضافہ فوجی اڈوں، ان کے تحت چلائے جانے والے آپریشنز اور یہاں موجود تنصیبات کو متاثر کرے گا۔

    ماہرین کے مطابق 2050 تک یہ اڈے سیلاب سے 10 گنا زیادہ متاثر ہوں گے اور ان میں سے کچھ ایسے ہوں گے جو روز پانی کے تیز بہاؤ یا سیلاب کا سامنا کریں گے۔

    ان 18 اڈوں میں سے 4، جن میں کی ویسٹ کا نیول ایئر اسٹیشن، اور جنوبی کیرولینا میں میرین کورپس ڈپو شامل ہیں، صدی کے آخر تک اپنا 75 سے 95 فیصد رقبہ کھو دیں گے۔

  • صحرا زدگی اور قحط سے حفاظت کا عالمی دن

    صحرا زدگی اور قحط سے حفاظت کا عالمی دن

    آج دنیا بھر میں صحرا زدگی اور قحط سے حفاظت کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد خشک سالی اور قحط کے اثرات میں کمی اور صحرا زدگی کے عمل کی روک تھام سے متعلق آگاہی و شعور بیدار کرنا ہے۔

    رواں برس اس دن کا مرکزی خیال ہے، ’مستقبل کو مل کر اگائیں‘۔

    صحرا زدگی ایک ایسا عمل ہے جو ایک عام زمین کو آہستہ آہستہ خشک اور بنجر کردیتا ہے جس کے بعد ایک وقت ایسا آتا ہے کہ یہ مکمل طور پر صحرا میں تبدیل ہوجاتی ہے۔

    یہ عمل اس وقت شروع ہوتا ہے جب کسی علاقے میں خشک سالی پیدا ہوجائے، کسی مقام سے بڑے پیمانے پر جنگلات کو کاٹ دیا جائے، یا زراعت میں ایسے ناقص طریقہ کار اور کیمیائی ادویات استعمال کی جائیں جو زمین کی زرخیزی کو ختم کر کے اسے بنجر کردیں۔

    براعظم افریقہ اس وقت سب سے زیادہ صحرا زدگی سے متاثر ہے۔

    اقوام متحدہ کے مطابق دنیا میں اس وقت 25 کروڑ افراد صحرا زدگی کے نقصانات سے براہ راست متاثر ہو رہے ہیں۔ علاوہ ازیں 1 سو ممالک اور 1 ارب افراد صحرا زدگی کے خطرے کا شکار ہوجانے کی زد میں ہیں۔

    اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ برائے خوراک و زراعت کے مطابق دنیا بھر میں ہر 1 منٹ میں 23 ایکڑ زمین صحرا زدگی کا شکار ہو کر بنجر ہو رہی ہے۔

    عالمی اداروں کی رپورٹس کے مطابق دنیا بھر میں جاری خانہ جنگیاں بھی صحرا زدگی کو رونما کرنے کی ایک بڑی وجہ ہیں جو کسی علاقے کو پہلے قحط زدہ بناتی ہیں، زراعت کو نقصان پہنچاتی ہیں، پھر بالآخر وہ زمین صحرا میں تبدیل ہوجاتی ہے جہاں کچھ بھی اگانا ناممکن ہوجاتا ہے۔

    علاوہ ازیں دنیا بھر کے موسموں میں ہونے والا تغیر یعنی کلائمٹ چینج، شدید گرم درجہ حرارت اور پانی کے ذخائر میں تیزی سے ہوتی کمی بھی زمین کو خشک کر رہی ہے اور صحرا زدگی کا عمل تیز ہوتا جارہا ہے۔

    ماہرین کے مطابق صحرا زدگی سے بچنے کا حل یہ ہے کہ زمینوں پر زیادہ سے زیادہ درخت اگائے جائیں تاکہ یہ زمین کو بنجر ہونے سے روک سکیں۔ اس کے لیے غیر آباد زمینیں بہترین ہیں جہاں کاشت کاری یا باغبانی کی جاسکتی ہے۔

  • بجٹ 20-2019: کلائمٹ چینج کے لیے ساڑھے 7 ارب روپے مختص

    بجٹ 20-2019: کلائمٹ چینج کے لیے ساڑھے 7 ارب روپے مختص

    اسلام آباد: رواں برس پیش کیے جانے والے 70 کھرب 22 ارب کے بجٹ 20-2019 میں موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کے لیے ساڑھے 7 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق بجٹ 20-2019 میں پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے تحت کلائمٹ چینج ڈویژن کے لیے 7 ارب 57 کروڑ 90 لاکھ روپے کی رقم مختص کی گئی ہے جو ملک میں جاری مختلف اسکیمز اور منصوبوں پر خرچ کی جائے گی۔

    اس رقم میں سے 7 ارب 51 کروڑ کی رقم نئے منصوبوں کے لیے رکھی گئی ہے جبکہ 6 کروڑ کی رقم پہلے سے جاری منصوبوں پر خرچ کی جائے گی۔

    بجٹ دستاویز کے مطابق وزارت کلائمٹ چینج میں ڈیڑھ کروڑ کی لاگت سے کلائمٹ چینج رپورٹنگ یونٹ قائم کیا جائے گا جبکہ ساڑھے 7 کروڑ روپے کی رقم دس ارب درخت منصوبے کے لیے رکھی گئی ہے۔

    2 کروڑ روپے ماحولیات سے مطابقت رکھنے والی اربن ہیومن سیٹل منٹس کے لیے، 32 لاکھ روپے جیومیٹک سینٹر فار کلائمٹ چینج کے قیام کے لیے اور 1 کروڑ 60 لاکھ روپے پاکستان واش اسٹریٹجک پلاننگ اینڈ کوآرڈینیشن سیل کے قیام کے لیے رکھے گئے ہیں۔

    زمین کو صحرا زدگی سے روکنے کے لیے سسٹین ایبل لینڈ میجمنٹ پروجیکٹ کے لیے بھی ڈھائی کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔

    خیال رہے کہ 2 روز قبل پیش کیے جانے والے بجٹ کا حجم 70.22 کھرب روپے ہے۔

    بجٹ میں ترقیاتی کاموں کے لیے 1800 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جبکہ ٹیکس وصولیوں کا ہدف 550 ارب رکھا گیا ہے۔ وفاقی بجٹ کا خسارہ 3560 ارب روپے ہوگا۔

  • کیا آپ بھی ہر ہفتے ایک کریڈٹ کارڈ کھاتے ہیں؟

    کیا آپ بھی ہر ہفتے ایک کریڈٹ کارڈ کھاتے ہیں؟

    کیا آپ ہر ہفتے ایک کریڈٹ کارڈ تناول فرماتے ہیں؟ یہ سوال سننے میں تو عجیب سا لگتا ہے تاہم ماہرین نے حال ہی میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ہم میں سے ہر شخص مختلف غذائیں کھانے کے ساتھ ساتھ کریڈٹ کارڈ بھی کھا رہا ہے۔

    عالمی ادارہ ماحولیات ڈبلیو ڈبلیو ایف نے حال ہی میں ایک مہم شروع کی ہے جس میں انہوں نے لوگوں کو آگاہ کیا کہ ان کی غذا میں پلاسٹک کی اچھی خاصی مقدار موجود ہوتی ہے اور وہ تقریباً ہر ہفتے ایک کریڈٹ کارڈ جتنا پلاسٹک کھا رہے ہیں۔

    ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق اس وقت دنیا کا ہر انسان ہفتے میں 5 گرام پلاسٹک کھا رہا ہے اور یہ مقدار ایک کریڈٹ کارڈ جتنی ہے۔

    تحقیق کے مطابق ہر انسان سال میں کم از کم 1 لاکھ پلاسٹک کے چھوٹے ذرات (مائیکرو پلاسٹک) کھا رہا ہے جو اس کی غذا میں شامل ہوتے ہیں۔ یہ مقدار ماہانہ 21 گرام اور سالانہ 250 گرام بنتی ہے۔

    لیکن یہ پلاسٹک کہاں سے آرہا ہے؟

    تحقیق کے مطابق اس وقت ہماری زمین پر استعمال ہونے والے پلاسٹک میں سے 80 لاکھ ٹن پلاسٹک سمندروں میں جارہا ہے۔

    ان میں پلاسٹک کے نہایت ننھے منے ذرات بھی ہوتے ہیں جنہیں مائیکرو پلاسٹک کہا جاتا ہے۔ یہ مزید چھوٹے ٹکڑوں میں بٹ کر نینو ذرات میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ چونکہ یہ بہت چھوٹے ہوتے ہیں لہٰذا یہ ہر قسم کے فلٹر پلانٹ سے باآسانی گزر جاتے ہیں اور جھیلوں، دریاؤں اور مٹی میں شامل ہوجاتے ہیں۔

    زراعتی مٹی میں شامل پلاسٹک ہمارے کھانے پینے کی اشیا بشمول سبزیوں اور پھلوں میں شامل ہوجاتا ہے جبکہ سمندروں میں جانے والا پلاسٹک مچھلیوں اور دیگر آبی حیات کی خوراک بن جاتا ہے۔

    بعد ازاں جب یہ مچھلیاں پک کر ہماری پلیٹ تک پہنچتی ہیں تو ان میں پلاسٹک کے بے شمار اجزا موجود ہوتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمارے دریا اور سمندر پلاسٹک سے اٹ چکے ہیں اور سنہ 2050 تک ہمارے سمندروں میں آبی حیات اور مچھلیوں سے زیادہ پلاسٹک موجود ہوگا۔

    نیدر لینڈز کے ماحولیاتی ادارے گرین پیس کے مطابق دنیا بھر میں 26 کروڑ ٹن پلاسٹک پیدا کیا جاتا ہے جس میں سے 10 فیصد ہمارے سمندروں میں چلا جاتا ہے۔

  • جائنٹ پانڈا روس پہنچ گیا

    جائنٹ پانڈا روس پہنچ گیا

    ماسکو: چین کی پانڈا ڈپلومیسی کے تحت جائنٹ پانڈا روس کے دارالحکومت ماسکو پہنچ گیا، معصوم پانڈا کو دیکھنے کے لیے لوگوں کی بڑی تعداد امڈ آئی۔

    چینی صدر زی جن پنگ کے دورہ ماسکو کے موقع پر چین سے 2 جائنٹ پانڈا بھی ماسکو پہنچ گئے، چین کی جانب سے پانڈا ڈپلومیسی روس کے ساتھ تعلقات کو مزید بہتر کرنے کی ایک کوشش ہے۔

    چین سے لائے گئے پانڈا کی تعداد 2 ہے جن کی چڑیا گھر میں رونمائی کے موقع پر چینی صدر اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن بھی موجود تھے۔

    یاد رہے کہ پانڈا صرف چین میں پایا جاتا ہے جہاں اس کی معدوم ہوتی نسل کو دیکھتے ہوئے ہنگامی اقدامات اٹھائے گئے جس کے بعد اب پانڈا کی نسل مستحکم درجے پر آگئی ہے۔

    چین اب اسے امریکا سمیت دوسرے ممالک میں بھی بھیج رہا ہے جسے پانڈا ڈپلومیسی کہا جاتا ہے۔

    اس سے ایک طرف تو چین کے بین الاقوامی تعلقات خوشگوار ہوتے ہیں، دوسری جانب پانڈا کی ختم ہوتی نسل کو بھی دیگر مقامات اور آب و ہوا سے متعارف کروایا جاتا ہے تاکہ وہ مختلف موسموں سے مطابقت کرتے ہوئے اپنی نسل میں اضافہ کریں۔