Tag: ماحولیات کی خبریں

  • کلائمٹ چینج سے سمندر کی تہہ کو نقصان

    کلائمٹ چینج سے سمندر کی تہہ کو نقصان

    کلائمٹ چینج جہاں دنیا بھر میں نقصانات کی تاریخ رقم کر رہا ہے وہیں سمندر کی تہہ بھی اس سے محفوظ نہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق کلائمٹ چینج کی وجہ سے سمندر کی تہہ کو بے حد نقصان پہنچ رہا ہے جس سے آبی حیات کو خطرات لاحق ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین پر موجود زیادہ تر کاربن سمندر کی تہہ میں تحلیل ہوجاتی ہے۔ سمندر کی تہہ میں کیلشیئم کاربونیٹ موجود ہوتی ہے اور یہ دونوں گیسیں مل کر سمندر میں کاربن کو توازن میں رکھتے ہیں۔

    تاہم فضا میں کاربن کی بڑھتی ہوئی مقدار کی وجہ سے یہ توازن خراب ہورہا ہے۔

    اب سمندر کی تہہ میں کاربن کی مقدار زیادہ اور کیلشیئم کاربونیٹ کی کم ہوگئی ہے جس سے سمندر کی تہہ میں تیزابیت بڑھ رہی ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ عمل سمندر کی تہہ میں پائی جانے والی آبی حیات و نباتات کے لیے سخت خطرناک ہے۔

    سمندر میں بڑھنے والی تیزابیت سے مونگے کی چٹانیں بھی خطرے کی زد میں ہیں جبکہ ان چٹانوں پر انحصار کرنے والی آبی حیات کو خطرات لاحق ہیں۔

    مزید پڑھیں: مرتی ہوئی مونگے کی چٹانوں کو بچانے کی کوشش

    سائنسی ماہرین کا کہنا ہے کہ پوری زمین پر موجود سمندر کی تہہ کا مکمل جائزہ لینا تو مشکل ہے تاہم ایک اندازے کے مطابق سمندر کی 40 فیصد زمین کاربن کے اس اضافے سے بری طرح متاثر ہورہی ہے۔

  • 20 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سینگیں مارنے والی بھیڑ

    20 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سینگیں مارنے والی بھیڑ

    کیا آپ نے بگ ہارن بھیڑ کے بارے میں سنا ہے؟

    شمالی امریکہ کے مغربی پہاڑوں میں پائی جانے والی جسیم جنگلی بھیڑ اپنے انوکھے سینگوں کی وجہ سے مشہور ہے۔ خم دار سینگ رکھنے والی اس بھیڑ کا نام بھی اس کے سینگوں کی مناسبت سے رکھا گیا ہے۔

    اس بھیڑ کے سینگوں کا وزن 14 کلو گرام کے قریب ہوتا ہے جبکہ خود اس کا وزن 140 کلو گرام ہوتا ہے۔

    جب یہ بھیڑیں آپس میں لڑتی ہیں تو اپنے وزنی سینگ آپس میں بھڑاتی ہیں۔ یہ بھیڑ 20 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اپنے مقابل کو اپنے سینگ مارتی ہیں اور اگر اس کے مقابلے میں انسان ہو تو فوری طور پر اس کی موت واقع ہوسکتی ہے۔

    اس رفتار پر نر بھیڑ گھنٹوں تک لڑتے رہتے ہیں جس کی زیادہ تر وجہ مادائیں ہوتی ہیں۔

    ان بھیڑوں کے سر کے ڈھانچے میں ہڈیوں کی دوہری تہہ ہوتی ہے جس کی وجہ سے یہ سینگوں کے زور دار جھٹکے کو باآسانی سہہ جاتے ہیں۔

    آپس میں لڑنے والے بھیڑوں کی عمریں 7 سے 8 برس ہوتی ہیں کیونکہ اس عمر تک ان کے سینگ طاقتور اور سر ان جھٹکوں کو سہنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔ اس سے کم عمر بھیڑ ایسی جان لیوا لڑائیوں کے قابل نہیں ہوتے۔

  • ننھے کچھوؤں کی بقا کی جدوجہد آپ کو حیران کردے گی

    ننھے کچھوؤں کی بقا کی جدوجہد آپ کو حیران کردے گی

    کیا آپ جانتے ہیں مادہ کچھوا ایک وقت میں 60 سے 100 انڈے دیتی ہے تاہم ان انڈوں میں سے نکلنے والا صرف ایک بچہ ہی زندہ رہ پاتا ہے اور طویل عمر پاتا ہے؟

    ان ننھے بچوں کو انڈوں سے نکلنے کے بعد اپنی بقا کی جدوجہد خود ہی کرنی ہوتی ہے جس میں اکثر یہ اپنی جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔

    مادہ کچھوا ساحل پر ایک گڑھے میں انڈے دینے کے بعد اس گڑھے کو ڈھانپ کر چلی جاتی ہے اور دوبارہ کبھی واپس نہیں آتی، وقت پورا کرنے کے بعد انڈوں سے بچے نکل آتے ہیں، اب ان بچوں کو سمندر تک پہنچنا ہوتا ہے اور یہ ان کے لیے خطرناک چیلنج ہوتا ہے۔

    سمندر تک پہنچنے کے راستے میں ساحل پر موجود مختلف جانور اور پرندے ان بچوں کی تاک میں ہوتے ہیں۔ ساحل پر پھرتے آوارہ کتے اور کوے باآسانی ان ننھے بچوں کو پکڑ لیتے ہیں اور انہیں کھا جاتے ہیں۔

    اسی طرح ساحل پر موجود کیکڑے بھی گو کہ جسامت میں ننھے کچھوؤں سے چھوٹے ہی ہوتے ہیں تاہم یہ نومولود بچوں کے مقابلے میں طاقتور ہوتے ہیں اور آرام سے انہیں کھینچ کر اپنے بل میں لے جاسکتے ہیں۔

    ننھے کچھوے ان کیکڑوں سے جان چھڑا کر بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کھینچا تانی میں کبھی وہ ناکام ہوجاتے ہیں اور کبھی کامیاب۔

    ایسے موقع پر اگر ساحل پر کچھ لوگ موجود ہوں تو اکثر لوگ ان ننھے کچھوؤں کو پکڑ کر بازار میں بیچ دیتے ہیں یا پالنے کے لیے گھر لے آتے ہیں، جہاں یہ چند دن جینے کے بعد بالآخر مر جاتے ہیں۔

    سمندر تک پہنچنے کے بعد بھی کم گہرے پانی میں کوئی چیل غوطہ لگا کر انہیں اپنے پنجوں میں دبا کر لے جاتی ہے۔ اپنے انڈے سے نکلنے کے بعد جب یہ کچھوے سمندر تک پہنچتے ہیں تو ان کی تعداد بہ مشکل ایک یا دو ہوتی ہے۔

    ننھے کچھوؤں کی اس ساری جدوجہد کو آپ بی بی سی کی اس ویڈیو میں دیکھ سکتے ہیں۔

    کچھوؤں کو لاحق خطرات کے بارے میں تفصیل سے پڑھیں

  • درختوں کے زیر زمین نیٹ ورک کا نقشہ تیار

    درختوں کے زیر زمین نیٹ ورک کا نقشہ تیار

    آپ نے ڈبلیو ڈبلیو ڈبلیو یعنی ورلڈ وائیڈ ویب کے بارے میں تو ضرور سنا ہوگا، لیکن کیا آپ نے کبھی ووڈ وائیڈ ویب کا نام سنا ہے؟

    ووڈ وائیڈ ویب وہ نیٹ ورک ہے جو درختوں کو آپس میں جوڑے رکھتا ہے، یہ دراصل درختوں کی جڑوں کے درمیان اگی ہوئی فنجائی ہوتی ہے جو درختوں کے نیٹ ورک کی حیثیت رکھتی ہے۔

    یہ فنجائی مٹی سے نمکیات لے کر درختوں کو فراہم کرتی ہے جبکہ درخت غذا بنانے کے دوران جو شوگر بناتے ہیں انہیں یہ فنجائی مٹی میں جذب کردیتی ہے۔ اس نیٹ ورک کے ذریعے درخت ایک دوسرے سے نمکیات اور کیمیائی اجزا کا تبادلہ بھی کرتے ہیں۔

    اب ماہرین نے اس نیٹ ورک کا ایک مفصل نقشہ تیار کرلیا ہے۔ اسٹینڈ فورڈ یونیورسٹی کی جانب سے تیار کردہ اس نقشے کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی حیثیت ویسی ہی ہے جسے دماغ کے ایم آر آئی اسکین کی۔

    جس طرح دماغ کا ایم آر آئی اسکین یہ سمجھنے میں مدد دیتا ہے کہ دماغ کس طرح کام کرتا ہے، اسی طرح یہ نیٹ ورک بتاتا ہے کہ جنگلات کس طرح کام کرتے ہیں اور یہ موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج پر کس طرح ردعمل دیں گے۔

    یہ نقشہ تیار کرنے کے لیے 70 ممالک کے 10 لاکھ سے زائد جنگلات کا مطالعہ کیا گیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ دنیا کے 60 فیصد درخت ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق یہ نقشہ بتاتا ہے کہ کس طرح کے ایکو سسٹم میں کس طرح کے درخت نشونما پاسکیں گے جس کی وجہ سے دنیا بھر میں کی جانے والی شجر کاری مہمات کو مزید کامیاب بنایا جاسکے گا۔

    یہ نیٹ ورک کیا کام کرتا ہے؟

    زیر زمین درختوں کا نیٹ ورک خاصا اہمیت رکھتا ہے جو درختوں کے درمیان نمکیات اور خوراک کے تبادلے کا کام کرتا ہے۔ درخت کسی بھی مشکل صورتحال میں اسی نیٹ ورک کے ذریعے ایک دوسرے کو ہنگامی پیغامات بھی بھیجتے ہیں۔

    ان پیغامات میں درخت اپنے دیگر ساتھیوں کو خبردار کرتے ہیں کہ وہ قریب آنے والے کسی خطرے جیسے بیماری، حشرات الارض یا قحط کے خلاف اپنا دفاع مضبوط کرلیں۔

    اس نیٹ ورک کے ذریعے پھل دار اور جاندار درخت، ٹند منڈ اور سوکھے ہوئے درختوں کو نمکیات اور کاربن بھی فراہم کرتے ہیں۔

    اسی طرح اگر کبھی کوئی چھوٹا درخت، قد آور ہرے بھرے درختوں کے درمیان اس طرح چھپ جائے کہ سورج کی روشنی اس تک نہ پہنچ پائے اور وہ اپنی غذا نہ بنا سکے تو دوسرے درخت اسے غذا بھی پہنچاتے ہیں۔

    بڑے درخت اس نیٹ ورک کے ذریعے ان نو آموز درختوں کی نشونما میں بھی مدد کرتے ہیں جو ابھی پھلنا پھولنا شروع ہوئے ہوتے ہیں۔

    لیکن کیا ہوگا جب درختوں کو کاٹ دیا جائے گا؟

    اگر جنگل میں بڑے پیمانے پر درختوں کی کٹائی کردی جائے، یا موسمیاتی تغیر یعنی کلائمٹ چینج یا کسی قدرتی آفت کے باعث کسی مقام کا ایکو سسٹم متاثر ہوجائے تو زیر زمین قائم درختوں کا یہ پورا نیٹ ورک بھی متاثر ہوتا ہے۔

    یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی ایک تار کے کٹ جانے سے پورا مواصلاتی نظام منقطع ہوجائے۔ اس صورت میں بچ جانے والے درخت بھی زیادہ عرصے تک قائم نہیں رہ سکتے اور تھوڑے عرصے بعد خشک ہو کر گر جاتے ہیں۔

  • دنیا کے کئی شہر دھنسنے لگے

    دنیا کے کئی شہر دھنسنے لگے

    دنیا بھر میں زیر زمین سے نکالے جانے والے ذخائر اور سطح سمندر میں اضافے نے دنیا کے کئی ساحلی شہروں کا مستقبل داؤ پر لگا دیا ہے اور یہ شہر آہستہ آہستہ دھنسنا شروع ہوگئے ہیں۔

    اس کی ایک وجہ بلند و بالا عمارات کی تعمیر بھی ہے جس کی ایک مثال تھائی لینڈ کا دارالحکومت بینکاک ہے۔ بینکاک اپنے اسکائی اسکریپرز کے بوجھ تلے دھنس رہا ہے اور صرف اگلے 15 برس میں یہ شہر زیر آب آسکتا ہے۔

    اس شہر میں کئی دہائیوں تک زمینی پانی یعنی گراؤنڈ واٹر نکالا گیا جس کے بعد زمین کی نیچے کی سطح کسی حد تک کھوکھلی اور غیر متوازن ہوگئی ہے۔

    اور صرف بینکاک ہی اس خطرے کا شکار نہیں۔ دنیا کے 6 مزید بڑے شہر اسی خطرے سے دو چار ہیں۔

    انڈونیشیا کا دارالحکومت جکارتہ نصف سے زیادہ سطح سمندر سے نیچے ہوچکا ہے جس کے باعث اب ملک کا دارالحکومت تبدیل کرنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔

    ہر سال یہ شہر 25 سینٹی میٹر مزید نیچے چلا جاتا ہے اور ماہرین کا اندازہ ہے کہ 95 فیصد شہر سنہ 2050 تک زیر آب آسکتا ہے۔

    فلپائن کا دارالحکومت منیلا بھی اسی خطرے کا شکار ہے جس کی 1 کروڑ 30 لاکھ آبادی پینے اور زراعت کے لیے گراؤنڈ واٹر استعمال کرتی ہے۔ یہاں کی اہم زراعت چاول ہے جس کی فصل کے لیے بے تحاشہ پانی چاہیئے ہوتا ہے۔

    چین کا شہر شنگھائی دھنسنے کی وجہ سے 10 سال میں 2 ارب ڈالرز کا نقصان اٹھا چکا ہے۔ یہاں پر بھی زمین کے دھنسنے کی وجہ گراؤنڈ واٹر کا نکالا جانا ہے جس کے استعمال کی اب سخت نگرانی کی جارہی ہے۔

    بنگلہ دیشی دارالحکومت ڈھاکہ سطح سمندر سے نیچے واقع شہر ہے جو مون سون کی تیز بارشیں اور سائیکلون سے مستقل متاثر رہتا ہے۔ ڈھاکہ میں زمین کے نیچے ٹیکٹونک پلیٹوں کی حرکت کی وجہ سے یہ شہر ہر سال مزید 5 ملی میٹر نیچے دھنس رہا ہے۔

    ویتنام کا ہو چی من شہر دریا کے ڈیلٹا پر قائم ہے اور یہ بھی دھنس رہا ہے۔

    امریکی شہر ہیوسٹن میں تیل اور گیس کے ذخائر کی تلاش کے لیے کی جانے والی ڈرلنگ نے اس شہر میں طوفانوں میں اضافہ کردیا ہے جبکہ سطح سمندر میں اضافے سے شہر کے ڈوبنے کا خدشہ بھی بڑھ گیا ہے۔

  • سخت گرمی میں ان طریقوں سے اپنے گھر کو ٹھنڈا رکھیں

    سخت گرمی میں ان طریقوں سے اپنے گھر کو ٹھنڈا رکھیں

    دنیا بھر میں موسم گرما کی شدت اور دورانیے میں اضافہ ہورہا ہے اور مختلف علاقوں میں کئی کئی دن تک جاری رہنے والی ہیٹ ویوز شہریوں کا جینا دوبھر کردیتی ہیں۔

    اس کی وجہ یہ ہے کہ مجموعی طور پر ہماری زمین کے درجہ حرارت میں اضافہ ہورہا ہے جسے گلوبل وارمنگ کا نام دیا جاتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ صنعتوں اور گاڑیوں سے خارج ہونے والا زہریلا دھواں ہے جو نہ صرف ہمارے ماحول کو آلودہ کر رہا ہے بلکہ زمین کے درجہ حرارت میں بھی اضافہ کر رہا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے شدید گرمی سے نمٹنے کے لیے شجر کاری سب سے بہترین ذریعہ ہے۔

    آج ہم آپ کو چند ایسے طریقے بتا رہے ہیں جن کے ذریعے آپ کم اور تنگ جگہ میں بھی شجر کاری کر سکتے ہیں اور اپنے گھر کو ٹھنڈا رکھ سکتے ہیں۔ نتیجتاً گرمی کے دنوں میں بجلی پر پڑنے والے دباؤ میں کمی آئے گی اور آپ کا گھر قدرتی طور پر ٹھنڈا رہے گا۔

    سرسبز چھت

    اگر آپ ایک چھت کے مالک ہیں تو آپ کی چھت شجر کاری کے لیے بہترین جگہ ہے۔ چھت کی پوری فرش پر کھاد بچھا کر اس پر گھاس اور مختلف اقسام کے پودے اگائے جاسکتے ہیں۔

    سرسبز چھت گھر کی دیواروں کو بھی ٹھنڈا رکھے گی اور آپ کے گھر کا ماحول نہایت پرسکون رہے گا۔

    عمودی باغبانی

    کیا آپ جانتے ہیں آپ اپنے گھر کی دیواروں پر بھی پودے اگا سکتے ہیں؟ یہ طریقہ عمودی باغبانی کہلاتا ہے۔

    عمودی باغبانی کا تصور چند عشروں قبل ہی پرانا ہے جس میں زمین کے بجائے دیواروں پر باغبانی کی جاتی ہے۔ اس مقصد کے لیے عمارت کی دیوار سے ذرا سے فاصلے پر مختلف سہاروں کے ذریعہ پودے اگائے جاتے ہیں جو نشونما پا کر دیوار کو ڈھانپ لیتے ہیں۔

    علاوہ ازیں دیواروں کو کھود کر ان کے اندر کھاد اور بیج وغیرہ ڈالے جاتے ہیں جس کے بعد وہاں سے پودے اگ آتے ہیں۔ یہ طریقہ گھر کی اندرونی اور بیرونی دونوں دیواروں پر استعمال ہوسکتا ہے۔

    بوتلوں میں پودے اگائیں

    پلاسٹک کی خالی بوتلوں کو پھینک کر اپنے شہر کے کچرے میں اضافہ کرنے کے بجائے ان میں بھی کھاد بھر کر باغبانی کی جاسکتی ہے۔

    بے کار اشیا کو استعمال میں لائیں

    گھر میں خالی ہونے والے ڈبے، کنٹینر، ٹوٹ جانے والے برتن بھی گملے کی جگہ استعمال کیے جاسکتے ہیں۔

  • وفاقی دارالحکومت میں پلاسٹک بیگ پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ

    وفاقی دارالحکومت میں پلاسٹک بیگ پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ

    اسلام آباد: وفاقی حکومت نے رواں برس 14 اگست سے پلاسٹک بیگ کے استعمال پر مکمل پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وزیرِ اعظم عمران خان کی زیر صدارت ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق اعلیٰ سطح کا اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں مشیر ماحولیات ملک امین اسلم، وزیر نیشنل فوڈ سیکیورٹی، وزیرِ منصوبہ بندی، وزیر توانائی عمر ایوب، مشیر تجارت عبد الرزاق داؤد اور معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان نے شرکت کی۔

    اجلاس میں وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواہ محمود خان، وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال، وزیر اعظم آزاد جموں و کشمیر راجہ محمد فاروق حیدر، وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمٰن اور سینئر افسران بھی شریک ہوئے۔

    اجلاس میں وزیر اعظم عمران خان کو الیکٹرک وہیکل پالیسی اور پنجاب میں اسموگ کی روک تھام اور اس سلسلے میں کیے جانے والے اقدامات پر بریفنگ دی گئی۔

    وزیر اعظم کو گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر میں ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلقہ امور پر بھی بریفنگ دی گئی۔ اجلاس میں حکومت کی جانب سے 10 ارب درخت لگانے کے منصوبے پر اب تک کی پیش رفت پر بریفنگ بھی شامل تھی۔

    حکام نے اسلام آباد میں پلاسٹک بیگ کے استعمال کے خاتمے کے لیے بھی قواعد و ضوابط بنا لیے ہیں جبکہ رواں برس 14 اگست سے پلاسٹک بیگ کے استعمال پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ بھی کرلیا گیا ہے۔

    خیال رہے کہ ملک کے مختلف شہروں اور ضلعوں میں بھی پلاسٹک کے استعمال اور خرید و فروخت پر پابندی عائد کی جاچکی ہے۔

    گزشتہ ماہ گلگت بلتستان کی وادی ہنزہ میں بھی پلاسٹک کے استعمال پر مکمل طور پر پابندی عائد کردی گئی جس کے بعد ہنزہ پلاسٹک کو ممنوع قرار دینے والا ایشیا کا پہلا ضلع بن گیا ہے۔

  • ننھی شارکس کو کھانا کھلانے کی وجہ انوکھا عقیدہ

    ننھی شارکس کو کھانا کھلانے کی وجہ انوکھا عقیدہ

    مختلف سمندری جانوروں اور ان کے ننھے بچوں کو کھانا کھلانا تو ایک عام بات ہے، تاہم اس حوالے سے بعض افراد نہایت منفرد عقائد بھی رکھتے ہیں۔

    بحر الکاہل کے جنوبی حصے میں واقع علاقہ جسے پولی نیسیا کہا جاتا ہے، ننھے شارکس کی آماجگاہ ہے۔ شارک کے یہ بچے تیرتے ہوئے کھاڑی کے کنارے تک آجاتے ہیں۔ جب یہ بڑے ہونے لگتے ہیں تو گہرے سمندر میں چلے جاتے ہیں۔

    تاہم جب تک یہ بچے یہاں ہوتے ہیں مقامی افراد باقاعدگی سے انہیں کھانا ڈالتے ہیں۔ اس کھانے میں بچا ہوا کھانا اور چھوٹی مچھلیاں ہوتی ہیں جو شارکس بہت شوق سے کھاتی ہیں۔

    ان لوگوں کا عقیدہ ہے کہ ان کے آباؤ اجداد شارک کی شکل میں دوبارہ اس دنیا میں آئے ہیں چنانچہ یہ شارک کے بچوں کو باقاعدگی سے خوراک ڈالتے ہیں اور ان کا خیال رکھتے ہیں۔

    ان کا کہنا ہے کہ یہ ان کے روزمرہ معمول کے ساتھ ساتھ انہیں خوشی بھی فراہم کرتا ہے جبکہ انہیں فطرت سے قریب ہونے کا موقع بھی دیتا ہے۔

  • اپنے گھر میں ایک ساتھ تازہ مچھلیاں اور سبزیاں حاصل کریں

    اپنے گھر میں ایک ساتھ تازہ مچھلیاں اور سبزیاں حاصل کریں

    کیا آپ جانتے ہیں آپ اپنے گھر میں بیک وقت سبزیاں اور مچھلیاں حاصل کرسکتے ہیں جو بازار میں بکنے والی سبزی اور مچھلی کی نسبت نہایت صاف ستھری اور صحت بخش ہوں گی۔

    میکسیکو میں رائج ایک قدیم زرعی طریقے کو جدید طریقوں کے ساتھ دوبارہ اپنایا جارہا ہے۔ اس طریقے کو ایکوا پونکس کا نام دیا گیا ہے۔

    اس طریقے میں ایک ایکوریم میں مچھلیاں رکھی جاتی ہیں، اور اس کے اوپر ایک نرم تختے پر پودے اگائے جاتے ہیں۔

    پودوں کی جڑیں نیچے ایکوریم میں ہوتی ہیں۔ ان پودوں کی افزائش مچھلیوں کے فضلے سے ہوتی ہے جو پودوں کے لیے بہترین کھاد ثابت ہوتی ہیں۔

    پودوں کو افزائش کے لیے مصنوعی کیمیائی کھاد یا کیڑے مار ادویات کی بھی ضرورت نہیں پڑتی جبکہ عام زراعت کے مقابلے میں اس میں صرف 10 فیصد پانی استعمال ہوتا ہے۔

    نیچے ایکوریم میں مچھلیوں کی افزائش بھی جاری رہتی ہے جو پودوں کی جڑوں سے اضافی خوراک حاصل کرسکتی ہیں۔

    اس طریقے سے آپ پورا سال تازہ سبزیاں اور مچھلیاں اپنے گھر میں حاصل کرسکتے ہیں۔

  • پلاسٹک کے ننھے ذرات زراعتی مٹی کو بھی آلودہ کرنے کا سبب

    پلاسٹک کے ننھے ذرات زراعتی مٹی کو بھی آلودہ کرنے کا سبب

    پلاسٹک کا کچرا ہمارے ماحول کو تباہ کرنے والا سب سے خطرناک عنصر ہے جس میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اب تک یہ سمندروں اور زمین کی سطح پر جمع ہو کر ہر شے کو ناقابل تلافی نقصانات پہنچا رہا تھا، تاہم ایک تحقیق کے مطابق یہ زمین پر پائی جانے والی مٹی کے اندر بھی موجود ہے۔

    جرمنی میں کی جانے والی اس تحقیق کے مطابق مٹی کے اندر پایا جانے والا پلاسٹک سمندر میں پائے جانے والے پلاسٹک سے 23 گنا زیادہ ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ مٹی کے اندر پائے جانے والے پلاسٹک نہایت ننھے منے ہوتے ہیں جنہیں مائیکرو پلاسٹک کہا جاتا ہے۔ یہ مزید چھوٹے ٹکڑوں میں بٹ کر نینو ذرات میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔

    چونکہ یہ بہت چھوٹے ہوتے ہیں لہٰذا یہ ہر قسم کے فلٹر پلانٹ سے باآسانی گزر جاتے ہیں اور جھیلوں، دریاؤں میں شامل ہو کر اور مٹی میں شامل رہ کر ان کی آلودگی میں اضافہ کرتے ہیں جس کے بعد یہ ہر قسم کی زندگی کے لیے خطرہ بن جاتے ہیں۔

    سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ زراعتی مٹی میں شامل ہو کر یہ پلاسٹک ہمارے کھانے پینے کی اشیا بشمول سبزیوں اور پھلوں میں بھی شامل ہو رہا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہماری غذاؤں میں پلاسٹک کی شمولیت کے بعد ہمیں صحت کے حوالے سے خطرناک نقصانات کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ پلاسٹک ہماری صحت پر نہایت تباہ کن اثرات مرتب کرسکتا ہے۔

    یاد رہے کہ پلاسٹک ایک تباہ کن عنصر اس لیے ہے کیونکہ دیگر اشیا کے برعکس یہ زمین میں تلف نہیں ہوسکتا۔ ایسا کوئی خورد بینی جاندار نہیں جو اسے کھا کر اسے زمین کا حصہ بناسکے۔

    ماہرین کے مطابق پلاسٹک کو زمین میں تلف ہونے کے لیے 1 سے 2 ہزار سال کا عرصہ درکار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا پھینکا جانے والا پلاسٹک کا کچرا طویل عرصے تک جوں کا توں رہتا ہے اور ہمارے شہروں کی گندگی اور کچرے میں اضافہ کرتا ہے۔

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں