Tag: ماحولیات کی خبریں

  • ماؤنٹ ایورسٹ پر صفائی مہم کا آغاز

    ماؤنٹ ایورسٹ پر صفائی مہم کا آغاز

    کھٹمنڈو: نیپالی حکومت نے دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ کی صفائی مہم کا آغاز کردیا۔ ایک اندازے کے مطابق پہاڑ پر کوہ پیماؤں کا پھینکا گیا ٹنوں کچرا وہاں موجود ہے جس کی وجہ سے اسے دنیا کے بلند ترین کچرا گھر کا نام بھی دیا جارہا ہے۔

    سلسلہ کوہ ہمالیہ میں موجود ماؤنٹ ایورسٹ نیپال اور چین کی سرحد پر واقع ہے۔ اس کی بلندی 8 ہزار 8 سو 48 میٹر ہے۔ ہر سال درجنوں کوہ پیما اس پہاڑ کو سر کرنے کے لیے یہاں آتے ہیں۔

    ماؤنٹ ایورسٹ سے اس سے قبل 3 ہزار کلو گرام کچرا اٹھایا جا چکا ہے، اس کچرے میں آکسیجن کے خالی ٹینکس، الکوحل کی بوتلیں، خراب شدہ خوراک، اور خیمے شامل تھے۔ اب ایک بار پھر یہاں کی صفائی مہم شروع کی گئی ہے۔

    گزشتہ ماہ 14 اپریل سے شروع کی جانے والی اس صفائی مہم کا اختتام 29 مئی کو ہوگا، یہ وہ تاریخ ہے جب اس چوٹی کو پہلی بار سر کیا گیا۔

    حکام کو امید ہے کہ 45 دنوں میں یہاں سے 10 ہزار کلو گرام کچرا صاف کرلیا جائے گا۔ اس بلند ترین مقام پر کی جانے والی صفائی مہم پر 2 لاکھ ڈالر اخراجات آرہے ہیں۔

    نیپال نے سنہ 2014 کے بعد سے کوہ پیماؤں پر اپنے ہمراہ کچرا واپس نہ لانے پر جرمانہ بھی عائد کر رکھا ہے۔ اس سے قبل کچرا اکٹھا کی جانے والی مہم میں کچرے کو ہیلی کاپٹرز کے ذریعے نیچے لایا گیا تھا۔

    حکام کے مطابق ماؤنٹ ایورسٹ پر سخت موسم کے باعث وہاں ہلاک ہوجانے والے مہم جوؤں کی لاشیں بھی موجود ہیں اور ان کی تعداد کم از کم 200 ہے، تاہم ان لاشوں کو فی الحال نیچے نہیں لایا جارہا۔

    ماہرین کے مطابق ماؤنٹ ایورسٹ پر کچرے کی وجہ صرف کوہ پیماؤں کا کچرا چھوڑ جانا نہیں۔ جس طرح سے ہم اپنی زمین کو کچرے سے آلودہ کر رہے ہیں اور یہ کچرا اڑ اڑ کر سمندر کی تہوں اور دور دراز برفانی خطوں تک جاپہنچا ہے، اسے دیکھتے ہوئے کوئی حیرانی کی بات نہیں کہ دنیا کی بلند ترین چوٹی بھی کچرے سے اٹ چکی ہے۔

  • درخت کترنے والے ہدہد سے ملیں

    درخت کترنے والے ہدہد سے ملیں

    کیا آپ ننھے سے پرندے ہدہد کے بارے میں جانتے ہیں؟ درخت کترنے کے لیے مشہور اس پرندے کا نام قرآن کریم میں بھی موجود ہے جو حضرت سلیمان علیہ السلام کو یمن کی ملکی سبا کے بارے میں اطلاع دیتا ہے۔

    اس پرندے کی اہم خاصیت درخت کے تنے کو کترنا ہے۔ ہدہد کو عموماً ہم 80 کی دہائی کے مقبول کارٹون سیریز ووڈی ووڈ پیکر کے ذریعے جانتے ہیں جس نے اسے ہر خاص و عام میں مقبول بنا دیا۔

    ہدہد براعظم انٹار کٹیکا کے علاوہ ہر براعظم پر پایا جاتا ہے۔ یہ عمودی طور پر بھی درخت پر چڑھ سکتے ہیں، لکڑی کو کترتے ہوئے یہ اسے مضبوطی سے اپنے پنجوں سے پکڑ لیتے ہیں اس کے بعد کترنے کا عمل شروع کرتے ہیں۔

    ہدہد کے لکڑی کترنے کی 3 وجوہات ہیں۔ لکڑی کترنا ان کا آپس میں گفتگو کا ذریعہ بھی ہے، لکڑی کترتے ہوئے یہ مخصوص آوازوں کے ذریعے ایک دوسرے کو اپنے پیغامات پہنچاتے ہیں۔

    علاوہ ازیں اس عمل کے ذریعے یہ تنوں میں رہنے والے کیڑوں تک پہنچتے ہیں اور انہیں اپنی خوارک کا حصہ بناتے ہیں، جبکہ انڈے دینے کے لیے بھی یہ درخت کے تنوں میں سوراخ بناتے ہیں۔

    ہدہد کی ایک قسم ان سوراخوں میں سردیوں کے لیے خوراک بھی محفوظ کرتی ہے۔

    درخت کترتے ہوئے ان ننھے منے پرندوں کے سر کو زوردار جھٹکا لگتا ہے جیسا کہ آپ اوپر دیکھ سکتے ہیں تاہم اس قدر سخت تنے کھودنے کے بعد بھی یہ بالکل چاک و چوبند اور تندرست رہتے ہیں اور ان کے سر کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔

    دراصل ان پرندوں کے سر میں نرم ٹشوز اور ایئر پاکٹس ہوتے ہیں جس کے باعث ہدہد کسی بھی نقصان سے محفوظ رہتے ہیں۔

  • آپ کا کپڑے دھونا آبی حیات کی موت کا سبب بن سکتا ہے

    آپ کا کپڑے دھونا آبی حیات کی موت کا سبب بن سکتا ہے

    کیا آپ جانتے ہیں ہمارے کپڑے دھوئے جانے کا عمل آبی حیات کی موت کا سبب بن سکتا ہے؟ اور صرف یہی نہیں بلکہ یہ ہمیں خطرناک طور پر بیمار بھی کرسکتا ہے۔

    ہمارے کپڑے عموماً کچھ مخصوص مٹیریل سے بنتے ہیں جن میں نائلون، پولیسٹر، فلیس اور اسپینڈکس شامل ہیں۔ شاید آپ کو اس کا علم نہ ہو مگر ان تمام مٹیریلز کی تیاری میں پلاسٹک کا بڑا حصہ استعمال ہوتا ہے۔

    جب ہم واشنگ مشین میں کپڑوں کو دھوتے ہیں تو کپڑوں کے نہایت ننھے ننھے ذرات جھڑ کر پانی میں شامل ہوجاتے ہیں جس کے بعد یہ سیوریج اور بعد ازاں ندی نالوں اور سمندروں میں جا پہنچتے ہیں۔

    یہ ذرات معمولی ذرات نہیں ہوتے۔ پلاسٹک سے بنے ہونے کی وجہ سے یہ ناقابل تحلیل ہوتے ہیں اور یہی آبی حیات کو خطرناک نقصانات حتیٰ کہ موت تک کا شکار کرنے کا سبب بنتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ذرات آبی حیات کے جسم کا حصہ بن جاتے ہیں جس کے بعد یہ ہماری خوراک کا حصہ بھی بنتے ہیں۔

    سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ ماحول میں موجود زہریلے عناصر ان پلاسٹک کے ننھے ذرات سے کسی مقناطیس کی طرح چمٹ جاتے ہیں جو ہمیں خطرناک بیماریوں میں مبتلا کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔

    خیال رہے کہ پلاسٹک کے ننھے ننھے ذرات جنہیں مائیکرو پلاسٹک کہا جاتا ہے ہر قسم کے فلٹر پلانٹ سے باآسانی گزر جاتے ہیں اور جھیلوں، دریاؤں میں شامل ہو کر اور مٹی میں شامل رہ کر ان کی آلودگی میں اضافہ کرتے ہیں جس کے بعد یہ ہر قسم کی زندگی کے لیے خطرہ بن جاتے ہیں۔

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں

  • پینگوئن کی کالونی کا تقریباً خاتمہ

    پینگوئن کی کالونی کا تقریباً خاتمہ

    برفانی علاقوں میں پائے جانے والے معصوم پرندے پینگوئن کی ایک قسم ایمپیرر پینگوئن کو معدومیت کا خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔

    ایمپیرر پینگوئن طویل مسافت طے کرنے کی خاصیت رکھتا ہے اور اپنی اس خصوصیت کے باعث یہ تیر کر ہزاروں کلو میٹر دور پہنچ جاتا ہے۔ پینگوئن کی یہ قسم جسامت میں بہت بڑی نہیں ہوتی البتہ پینگوئن کی تمام اقسام میں یہ بڑی قسم جسامت کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر ہے۔

    یہ پینگوئن براعظم انٹارکٹیکا میں پائے جاتے ہیں اور ماہرین کے مطابق ایک مخصوص علاقے میں حالیہ کچھ برسوں کے دوران اس کی نسل میں شدید کمی دیکھی گئی ہے۔

    پینگوئن کو ایک طرف سمندری درجہ حرارت میں تبدیلی کا سامنا ہے تو دوسری جانب یہ برفانی بلیوں (سیل) کی پسندیدہ خوراک ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں سے براعظم انٹارکٹیکا میں ان کے مسکن تیزی سے سکڑ رہے ہیں۔

    برطانوی انٹار کٹیکا سروے (بی اے ایس) کے ماہرین کے مطابق انٹارکٹیکا کا مذکورہ علاقہ ایمپیرر پینگوئن سے تقریباً خالی ہوچکا ہے۔ دوسری جانب نزدیکی علاقے ڈاسن یسمٹن میں اسی نسل کی پینگوئن کی کالونی میں اضافہ دیکھا جارہا ہے جس کا سبب وہاں ماحولیاتی تبدیلیوں کے کم اثر کی وجہ سے موسم کا سرد ہونا ہے۔

    رپورٹ کے مطابق اس پینگوئن کی آبادی کو اس وقت شدید دھچکہ پہنچا جب سنہ 2016 میں ایک غیر متوقع واقعے کے باعث تمام ننھے پینگوئن ہلاک ہوگئے۔ سنہ 2016 میں غیر معمولی طور پر گرم اور طوفانی موسم کے باعث سمندری برف کی وہ سطح ٹوٹ گئی تھی جس پر ایمپیرر پینگوئن اپنے بچوں کو پروان چڑھاتے ہیں۔

    اس سطح کے ٹوٹنے کے باعث اس پر موجود ایمپیرر پینگوئن کے تمام بچے ہلاک ہوگئے۔ یہی صورتحال سنہ 2017 اور 2018 میں بھی سامنے آئی تھی۔

    ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ 2060 تک پینگوئنز کی آبادی میں 20 فیصد کمی واقع ہوسکتی ہے جبکہ اس صدی کے آخر تک یہ معصوم پرندہ اپنے گھر کے چھن جانے کے باعث مکمل طور پر معدوم ہوسکتا ہے۔

  • پلاسٹک پر پابندی عائد کرنے والا ایشیا کا پہلا ضلع

    پلاسٹک پر پابندی عائد کرنے والا ایشیا کا پہلا ضلع

    گلگت: گلگت بلتستان کی وادی ہنزہ میں پلاسٹک کے استعمال پر مکمل طور پر پابندی عائد کردی گئی جس کے بعد ہنزہ پلاسٹک کو ممنوع قرار دینے والا ایشیا کا پہلا ضلع بن گیا ہے۔

    رواں برس ہنزہ میں چیری بلوسم اور جشن بہاراں کی تقریبات اس عہد کے ساتھ منائی جارہی ہیں کہ خوبصورت وادی میں اب سے روزمرہ استعمال کے لیے پلاسٹک شاپنگ بیگس کی جگہ کپڑے کے تھیلے استعمال کیے جائیں گے۔

    ہنزہ کی عوام بھی اس حکومتی اقدام میں بھرپور ساتھ دے رہی ہے۔

    ہنزہ میں دکانداروں اور پلاسٹک بیگ کا کام کرنے والے افراد کو متنبہ کیا گیا تھا کہ وہ پلاسٹک بیگ کا پہلے سے موجود اسٹاک 20 اپریل تک ختم کردیں، اس تاریخ کے بعد بیگ کو بنانا، فروخت کرنا، خریدنا اور اس کا استعمال جرم سمجھا جائے گا۔

    وزیر اعظم کے مشیر برائے ماحولیات ملک امین اسلم کا کہنا ہے کہ ہنزہ میں پلاسٹک پر پابندی تعزیرات پاکستان دفعہ 144 کے تحت لگائی گئی ہے۔

    اس سے قبل صوبہ خیبر پختونخواہ میں سرکاری دفاتر میں پلاسٹک کے لفافوں کے استعمال پر پابندی عائد کردی گئی تھی اور متبادل کے طور پر کاغذ یا کپڑے کے تھیلے استعمال کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔

    خیال رہے کہ نیدر لینڈز کے ماحولیاتی ادارے گرین پیس کے مطابق دنیا بھر میں 26 کروڑ ٹن پلاسٹک پیدا کیا جاتا ہے جس میں سے 10 فیصد ہمارے سمندروں میں چلا جاتا ہے۔

    اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ صرف انڈس بیسن میں ہر سال 1 لاکھ 64 ہزار 3 سو 32 ٹن پلاسٹک پھینکا جاتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمارے دریا اور سمندر پلاسٹک سے اٹ چکے ہیں اور سنہ 2050 تک ہمارے سمندروں میں آبی حیات اور مچھلیوں سے زیادہ پلاسٹک موجود ہوگا۔

  • راستہ بھول کر صحرا میں آجانے والے کچھوے کی خوش قسمتی

    راستہ بھول کر صحرا میں آجانے والے کچھوے کی خوش قسمتی

    اپنے گھر جاتے ہوئے راستہ بھول جانا نہایت پریشان کن ہوسکتا ہے، خصوصاً اگر کوئی راستہ بھول کر صحرا میں نکل پڑے تو نہایت خوفناک صورتحال ہوسکتی ہے جہاں نہ کھانے کو کچھ ملے گا اور نہ پانی۔

    ایسا ہی کچھ ایک کچھوے کے ساتھ بھی ہوا جو اپنے گھر کا راستہ بھول کر صحرا میں آگیا۔

    صحرا میں 80 ڈگر سینٹی گریڈ درجہ حرارت نے اس کچھوے کو پیاس سے نڈھال کردیا، لیکن اس کچھوے کی خوش قسمتی کہ یہ بارشوں کا موسم تھا۔ بادل آئے اور تھوڑی ہی دیر میں صحرا میں جل تھل ایک ہوگیا۔

    برازیل کے اس صحرا میں بارش کے بعد پانی کے ذخائر جمع ہوجاتے ہیں جو خلا سے بھی دکھائی دیتے ہیں، یہ ذخائر اس کچھوے کے لیے زندگی کی امید ثابت ہوئے۔

    کچھوے نے اس جوہڑ میں چھلانگ لگائی اور ٹھنڈے پانی کا لطف اٹھانے لگا۔

  • 140 برس بعد بھیڑیوں کی واپسی

    140 برس بعد بھیڑیوں کی واپسی

    یورپی ملک نیدر لینڈز میں 140 برس بعد بھیڑیے دیکھے گئے۔ بھیڑیوں کی آبادی میں تقریباً خاتمے کے بعد اب اسے بھیڑیوں کی واپسی کہا جارہا ہے۔

    ایک صدی قبل تک نیدر لینڈز میں بھیڑیوں کا بے تحاشہ شکار کیا گیا تھا، زیادہ تر بھیڑیوں کی ہلاکتیں کسانوں کے ہاتھوں ہوتی تھیں جو اپنے مویشیوں پر انہیں حملہ آور دیکھ کر انہیں مار دیتے تھے۔

    نتیجتاً نیدر لینڈز سے بھیڑیوں کی آبادی ختم ہوگئی تھی، تاہم اب سنہ 2005 سے اکا دکا بھیڑیے مختلف جگہوں پر دکھائی دے رہے تھے۔

    ماہرین ماحولیات نے جب اس حوالے سے جانچ پڑتال شروع کی تو انہوں نے دیکھا کہ یہ بھیڑیے جرمنی اور فرانس سے آرہے تھے۔

    گزشتہ کچھ عرصے میں ماہرین نے کافی وقت تک 2 مادہ اور ایک نر بھیڑیے کو دیکھا، ان کا کہنا ہے کہ انہیں یہاں پر 6 ماہ کا عرصہ گزر گیا ہے اور ان کی یہیں پر موجودگی ثابت کرتی ہے کہ وہ اب یہاں مطمئن ہوگئے ہیں۔

    دوسری جانب مقامی چرواہے بھیڑیوں کی واپسی سے خوش نہیں ہیں۔

    ان کا کہنا ہے کہ بھیڑیے، ان کی بھیڑوں اور بکریوں پر حملے کرتے ہیں۔ ایسی صورت میں مال مویشی کے نقصان کے بعد انہیں حکومت کی جانب سے معاوضہ بھی دیا جاتا ہے۔

    نیدر لینڈز کی وزارت ماحولیات کا کہنا ہے کہ وہ چاہتے ہیں بھیڑیے اپنے گھروں کو واپس لوٹیں اور دوسری جانب دیگر جانور بھی ان کے حملوں سے محفوظ رہیں۔ وہ ایسے اقدامات کرنا چاہتے ہیں جن سے چرواہے بھی مطمئن رہیں جبکہ بھیڑیے بھی اپنے فطری ماحول میں افزائش پاسکیں۔

  • سوئیڈن میں ست رنگی کچرا

    سوئیڈن میں ست رنگی کچرا

    دنیا بھر میں پلاسٹک سمیت مختلف اشیا کے کچرے کو کم سے کم کرنے کے لیے کوششیں کی جارہی ہیں اور ری سائیکلنگ یعنی دوبارہ استعمال کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیا جارہا ہے۔

    دنیا کا سب سے زیادہ ماحول دوست سمجھا جانے والا ملک سوئیڈن بھی اس سلسلے میں مختلف اقدامات کر رہا ہے اور اس حوالے سے وہ ایک اور قدم آگے بڑھ چکا ہے۔ سوئیڈن میں ری سائیکلنگ کے عمل کو زیادہ سے زیادہ آسان بنانے کے لیے کچرا رکھنے کو مختلف رنگوں کے بیگز متعارف کروائے گئے ہیں۔

    سوئیڈن کے شہر اسکلستونا میں شہریوں کو 7 بیگ ری سائیکلنگ اسکیم فراہم کرنے سے متعلق پوچھا گیا اور 98 فیصد شہریوں نے اس اسکیم کی فراہمی میں دلچسی ظاہر کی۔

    اس ست رنگی بیگز کی اسکیم میں کلر کوڈ سسٹم کے ذریعے کچرے کی درجہ بندی کی جاتی ہے۔ کتھئی رنگ کے بیگ میں دھاتی اشیا، سبز رنگ کے بیگ میں خوراک، نیلے رنگ کے بیگ میں اخبارات، گلابی رنگ کے بیگ میں ٹیکسٹائل مصنوعات، سرخ رنگ کے بیگ میں پلاسٹک اشیا، زرد میں کارٹن اور سفید بیگ میں ٹشو پیپرز اور ڈائپرز وغیرہ پھینکے جاتے ہیں۔

    ان بیگز کی بدولت ری سائیکلنگ کے عمل میں آسانی پیدا ہوگئی ہے۔ ری سائیکلنگ پلانٹ میں آنے والے تمام رنگ کے بیگز مکس ہوتے ہیں تاہم ان کے شوخ رنگوں کی بدولت اسکینرز انہیں آسانی سے الگ کرلیتے ہیں جس کے بعد انہیں ان کے مطلوبہ پلانٹ میں بھیج دیا جاتا ہے۔

    جو اشیا ری سائیکل نہیں کی جاسکتیں انہیں بجلی بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ری سائیکلنگ کی بدولت کچرے کے ڈھیر اور آلودگی میں کمی ہوگئی ہے۔

    سوئیڈن نے، یورپی یونین کے سنہ 2020 تک تمام اشیا کو ری سائیکل کیے جانے کے ٹارگٹ کو نصف ابھی سے حاصل کرلیا ہے۔ سوئیڈش انتظامیہ کا کہنا ہے اس وقت وہ ملک کے کچرے کی بڑی مقدار کو ری سائیکل کر رہے ہیں لیکن وہ اس کام مزید بڑھانا چاہتے ہیں۔

  • آپ کا پرانا موبائل فون جنگلات کو تباہی سے بچا سکتا ہے

    آپ کا پرانا موبائل فون جنگلات کو تباہی سے بچا سکتا ہے

    اب تک ہم سنتے آئے ہیں کہ موبائل فون ایک طرف تو انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں تو دوسری جانب ماحولیاتی نقصانات بھی مرتب کر رہے ہیں، لیکن اب آپ کے پرانے موبائل فون ماحول کی بہتری اور جنگلات کو تباہی سے بچانے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

    امریکی انجینئر ٹوفر وائٹ نے پرانے موبائل فونز کو ماحول دوست ڈیوائس میں بدل دیا ہے۔

    ٹوفر نے پرانے موبائل فونز سے ایسی ڈیوائس بنائی ہے جو درختوں کے درمیان رکھنے کے بعد درخت کاٹنے والے آرے کی آواز کو ڈی ٹیکٹ کرتی ہے اور متعلقہ حکام کو فوری طور پر اطلاع کرتی ہے کہ درختوں کی غیر قانونی کٹائی کا عمل جاری ہے۔

    یہ امریکی انجینئر اپنا زیادہ تر وقت درختوں کے بیچ جنگلات میں گزارتا ہے، ٹوفر کا کہنا ہے کہ وہ درختوں کی کٹائی اور ان کے متوقع نقصانات کے بارے میں سوچ کر دل گرفتہ تھا چنانچہ اس نے یہ ڈیوائس بنائی۔

    یہ ڈیوائس سولر انرجی پر کام کرتی ہے۔ ٹوفر نے فی الحال یہ ڈیوائس ایمازون کے جنگلات میں رکھی ہے، ساتھ ہی اس نے لوگوں سے اپنے پرانے موبائل فونز عطیہ کرنے کی اپیل بھی کی ہے۔

    رین فاریسٹ کی خاصیت رکھنے والے ایمازون کے جنگلات یعنی جہاں بارشیں سب سے زیادہ ہوتی ہیں، دنیا میں موجود برساتی جنگلات کا 60 فیصد حصہ ہیں۔

    اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ایمازون سمیت دنیا بھر کے رین فاریسٹ تیزی سے ختم ہو رہے ہیں جس سے دنیا بھر کے مون سون کے سائیکل پر منفی اثر پڑے گا۔

    درختوں کی بے تحاشہ کٹائی کی وجہ سے گزشتہ ایک عشرے میں ایمازون کے جنگلات کا ایک تہائی حصہ ختم ہوچکا ہے۔

    ایمازون کے علاوہ بھی دنیا بھر کے جنگلات بے دردی سے کاٹے جارہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت ایف اے او کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں ایک کروڑ 80 لاکھ ایکڑ کے رقبے پر مشتمل جنگلات کاٹ دیے جاتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں موجود رین فاریسٹ اگلے 100 سال میں مکمل طور پر ختم ہوجائیں گے۔

  • ننھے شکاریوں کے تربیتی مراحل

    ننھے شکاریوں کے تربیتی مراحل

    دنیا کے تیز ترین جانوروں میں سے ایک سمجھا جانے والا جانور چیتا شکار پر اپنی زندگی گزارتا ہے، نہایت چالاکی کے ساتھ خاموشی سے شکار کی طرف جانا اور بجلی کی سی تیزی سے اس پر جھپٹنا اس کی نمایاں خصوصیت ہے۔

    شکار چیتے کی فطرت ہے اور یہ خاصیت اس وقت بھی ان میں نظر آتی ہے جب وہ بہت چھوٹے ہوتے ہیں اور اپنی ماں پر انحصار کرتے ہیں۔

    ننھے چیتے آپس میں ہی لڑتے، ایک دوسرے پر جھپٹتے اور ایک دوسرے کے کان کاٹتے دکھائی دیتے ہیں جیسے زیر نظر اس ویڈیو میں دکھائی دے رہا ہے۔

    گو کہ ان ننھے چیتوں کی رفتار اور طاقت کم ہے مگر ابھی وہ اپنی تربیت کے ابتدائی مرحلے میں ہیں، ایک مخصوص عمر تک پہنچنے کے بعد وہ گھاگ شکاریوں میں تبدیل ہوچکے ہوں گے۔

    سوسائٹی برائے تحفظ جنگلی حیات ڈبلیو سی ایس اور زولوجیکل سوسائٹی آف لندن کی ایک رپورٹ کے مطابق افریقی ملک زمبابوے میں گزشتہ 16 سال میں چیتوں کی آبادی میں 85 فیصد سے زائد کمی آچکی ہے۔

    کچھ عرصہ قبل جاری کی جانے والی اس رپورٹ  میں تجویز کیا گیا تھا کہ چیتے کو عالمی ادارہ برائے تحفظ فطرت آئی یو سی این کی خطرے کا شکار جنگلی اقسام کی سرخ فہرست (ریڈ لسٹ) میں خطرے کا شکار جنگلی حیات کی فہرست سے نکال کر شدید خطرے کا شکار جنگلی حیات کی فہرست میں رکھا جائے۔

    نیشنل اکیڈمی آف سائنس کے جریدے میں چھپنے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بیسویں صدی کے آغاز میں دنیا بھر میں کم از کم 1 لاکھ چیتے موجود تھے لیکن اب ان کی تعداد میں خطرناک کمی واقع ہوچکی ہے، اور اس وقت دنیا بھر میں اس تعداد کا نو فیصد یعنی صرف 7 ہزار 100 چیتے موجود ہیں۔

    لندن کی زولوجیکل سوسائٹی کا کہنا ہے کہ چیتا اپنی جس تیز رفتاری کے باعث مشہور ہے، اسی تیز رفتاری سے یہ معدومی کی جانب بڑھ رہا ہے۔