Tag: ماحولیات کی خبریں

  • خیبر پختونخواہ کے سرکاری دفاتر میں پلاسٹک کے استعمال پر پابندی عائد

    خیبر پختونخواہ کے سرکاری دفاتر میں پلاسٹک کے استعمال پر پابندی عائد

    پشاور: صوبہ خیبر پختونخواہ میں سرکاری دفاتر میں پلاسٹک کے لفافوں کے استعمال پر پابندی عائد کردی گئی اور متبادل کے طور پر کاغذ یا کپڑے کے تھیلے استعمال کرنے کی ہدایت کردی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق خیبر پختونخواہ میں سرکاری دفاتر میں پلاسٹک کے لفافوں کے استعمال پر پابندی عائد کردی گئی جس کے لیے صوبائی محکمہ امداد، بحالی اور آباد کاری نے مراسلہ جاری کردیا۔

    مراسلے میں کہا گیا ہے کہ دفاتر کے احاطے میں پابندی پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے، اور متبادل کے طور پر کاغذ یا کپڑے کے تھیلے استعمال کیے جائیں۔

    دو روز قبل خیبر پختونخواہ اسمبلی میں بھی پلاسٹک شاپنگ بیگز اور پانی کی پلاسٹک بوتل پر پابندی سے متعلق پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔

    وزیر بلدیات شہرام ترکئی کو پارلیمانی کمیٹی کی سربراہی سونپی گئی تھی جبکہ کمیٹی ارکان میں عوامی نیشنل پارٹی، پاکستان پیپلز پارٹی، متحدہ مجلس عمل، مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے ارکان شامل تھے۔

    اسمبلی اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں سب سے پہلے پلاسٹک کی تھیلیوں پر پابندی سے متعلق ایشو زیر غور لایا جائے گا۔

    اس سے قبل وزارت کلائمٹ چینج نے پلاسٹک کی تھیلیوں پر ٹیکس لگانے کا فیصلہ بھی کیا تھا اور اس حوالے سے مختلف تجاویز پر غور کیا جارہا ہے۔

    وزیر مملکت برائے کلائمٹ چینج زرتاج گل کا کہنا تھا کہ پلاسٹک کی تھیلیوں پر جلد ٹیکس عائد کردیا جائے گا اور اس سلسلے میں ایک تھیلی پر 1 سے 2 روپے کا ٹیکس زیر غور ہے۔

    انہوں نے کہا تھا کہ اس سلسلے میں صوبوں سے رابطہ کیا جارہا ہے اور مشاورت کے بعد ٹیکس کو ملک بھر میں لاگو کردیا جائے گا۔

  • گوادر کے ساحل پر 34 فٹ لمبی وھیل مردہ حالت میں پائی گئی

    گوادر کے ساحل پر 34 فٹ لمبی وھیل مردہ حالت میں پائی گئی

    کوئٹہ: بلوچستان کے مغربی ساحل گوادر پر 34 فٹ لمبی برائڈس وھیل مردہ حالت میں پائی گئی ہے، مچھلی کے جسم پر متعدد زخم بھی پائے گئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق گوادر کے مغربی ساحل پر وھیل میمل مردہ حالت میں پائی گئی ہے، مچھلی کے جسم پر کئی زخم بھی موجود تھے۔

    گوادر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے شعبہ ماحولیات کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر عبدالرحیم بلوچ نے اس حوالے سے بتایا کہ برائیڈس نسل کی 34 فٹ لمبی مردہ وھیل مچھلی گوادر کے سمندر میں پائی گئی۔

    انھوں نے کہا کہ وھیل کا جسم کئی جگہ سے زخمی تھا، برائیڈس نسل کی وھیل گوادر کے سمندر میں پائی جاتی ہے، کسی وجہ سے زخمی ہوگئی جس سے موت واقع ہوئی۔

    عبد الرحیم بلوچ کا کہنا تھا کہ وہ زخموں کی وجہ معلوم کرنے کے لیے تحقیقات کر رہے ہیں، تاہم ابتدائی تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ مچھلی کسی جہاز سے ٹکرا کر زخمی ہوئی ہے۔

    یہ بھی پڑھیں:  کیا پلاسٹک دیوہیکل وھیل کی جان لے سکتا ہے؟

    انھوں نے مزید بتایا کہ وھیل مچھلی کی ہڈیاں ایک میوزیم میں رکھی جائیں گی تاکہ اس سلسلے میں لوگوں میں آگاہی پیدا کی جا سکے، جب کہ باقی مچھلی کو گوادر ساحل ہی پر دفنایا جائے گا۔

    برائڈس وھیل ان تین قسم کے بَلین وھیلز میں سے ایک ہے جو پاکستانی پانیوں میں پائی جاتی ہے، دیگر دو میں ایک بلیو وھیل اور دوسری عربین ہمپ بیک ہے۔ 2013 میں بھی برائڈس وھیل ڈمب، سونمیانی میں مردہ حالت میں ملی تھی۔

  • پلاسٹک کی بوتلیں قالین میں بدل گئیں

    پلاسٹک کی بوتلیں قالین میں بدل گئیں

    پلاسٹک کرہ زمین کو گندگی کے ڈھیر میں تبدیل کرنے والی سب سے بڑی وجہ ہے۔ پلاسٹک کو زمین میں تلف ہونے کے لیے ہزاروں سال درکار ہیں اور یہی وجہ ہے کہ پلاسٹک بڑے پیمانے پر استعمال کے باعث زمین کی سطح پر مستقل اسی حالت میں رہ کر اسے گندگی و غلاظت کے ڈھیر میں تبدیل کرچکا ہے۔

    دنیا بھر میں جہاں پلاسٹک کا استعمال کم سے کم کرنے پر زور دیا جارہا ہے وہیں استعمال شدہ پلاسٹک کے کسی نہ کسی طرح دوبارہ استعمال کے بھی نئے نئے طریقے دریافت کیے جارہے ہیں۔

    افریقی ملک گھانا میں بھی ایک نوجوان نے پلاسٹک کی بوتلوں کو قالین میں بدل ڈالا۔

    افریقی ملک گھانا پانی کی قلت کا شکار ہے اور وہاں دور دراز سے پانی بھر کر لانے کے لیے پلاسٹک کی بوتلیں استعمال کی جاتی ہیں جنہیں جیری کینز بھی کہا جاتا ہے۔

    تاہم جب ان بوتلوں کو ناقابل استعمال ہونے کے بعد پھینکا جاتا ہے تو یہ کچرے میں اضافے کا سبب بنتی ہیں، بعض اوقات یہ پانی کی پائپ لائنوں میں پھنس کر قلت آب کی صورتحال کو مزید سنگین کردیتی ہیں۔

    سرگ اٹکوی نامی یہ نوجوان ان بوتلوں کو قالین میں بدل رہا ہے۔ ان بوتلوں کو کاٹ کر اور انہیں جوڑ کر مختلف انداز میں پیش کیا جارہا ہے۔ کبھی یہ زمین پر بچھانے والے قالین بن جاتے ہیں، کبھی دروازے پر لٹکنے والا پردہ۔

    یہ نوجوان اسے آرٹ کی شکل میں بھی پیش کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے، ’یہ پلاسٹک ہماری زندگیوں کا لازمی حصہ بن گیا ہے۔ میں اس کی شکل بدلنا چاہتا تھا تاکہ یہ اس قدر برا نہ لگے‘۔

    سرگ کو اپنے اس کام کے لیے اقوام متحدہ کی معاونت بھی حاصل ہوگئی ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اس پلاسٹک کے خاتمے کے لیے مزید لوگ نئے نئے آئیڈیاز لے کر سامنے آئیں تاکہ ہم کسی حد تک زمین کو صاف رکھ سکیں۔

  • آج کے دن ایک گھنٹہ زمین کے نام کریں

    آج کے دن ایک گھنٹہ زمین کے نام کریں

    زمین کو ماحولیاتی خطرات سے بچانے اور اس پر توانائی کے بے تحاشہ بوجھ کو کم کرنے کے لیے آج ارتھ آور منایا جائے گا۔ آج شب ساڑھے 8 سے ساڑھے 9 بجے کے درمیان غیر ضروری روشنیوں کو بند کر کے زمین کی چندھیائی ہوئی آنکھوں کو آرام دیا جائے گا۔

    ارتھ آور پہلی بار 2007 میں سڈنی کے اوپیرا ہاوس کی روشنیوں کو بجھا کر منایا گیا تھا جس میں ایک کروڑ سے زائد شہریوں نے شرکت کر کے عالمی سطح پر ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے متحد ہونے کا پیغام دیا تھا۔

    اسے منانے کا مقصد ماحولیاتی تبدیلی (کلائمٹ چینج) کے حوالے سے عوامی شعور اجاگر کرنا ہے۔ دنیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں کرہ ارض کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے جس کے سبب ماحول پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

    درجہ حرارت بڑھنے کا ایک سبب بجلی کا بہت زیادہ استعمال بھی ہے۔ بجلی مختلف ذرائع جیسے تیل، گیس یا کوئلے سے بنتی ہے، اور ان چیزوں کو ہم جتنا زیادہ جلائیں گے اتنا ہی ان کا دھواں فضا میں جا کر آلودگی پھیلائے گا اور درجہ حرارت میں اضافہ کرے گا۔

    اگر ہم خلا سے زمین کی طرف دیکھیں تو ہمیں زمین روشنی کے ایک جگمگاتے گولے کی طرح نظر آئے گی۔ یہ منظر دیکھنے میں تو بہت خوبصورت لگتا ہے، مگر اصل میں روشنیوں کا یہ طوفان زمین کو بیمار کرنے کا سبب بن رہا ہے۔

    ان روشنیوں کو برقی یا روشنی کی آلودگی کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق مصنوعی روشنیوں کے باعث ہماری زمین کے گرد ایک دبیز دھند لپٹ چکی ہے جس کے باعث زمین سے کہکشاؤں اور چھوٹے ستاروں کا نظارہ ہم سے چھن رہا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہماری سڑکوں کے کنارے لگی اسٹریٹ لائٹس، ہمارے گھروں اور عمارتوں کی روشنیاں آسمان کی طرف جا کر واپس پلٹتی ہیں جس کے بعد یہ فضا میں موجود ذروں اور پانی کے قطروں سے ٹکراتی ہے۔ ان کے ساتھ مل کر یہ روشنیاں ہمارے سروں پر روشنی کی تہہ سی بنا دیتی ہیں جس کی وجہ سے حقیقی آسمان ہم سے چھپ سا جاتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق دیہاتوں اور ترقی پذیر علاقوں سے ترقی یافتہ شہروں کی طرف ہجرت کے رجحان یعنی اربنائزیشن میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جس کے باعث مصنوعی روشنیوں کی آلودگی میں بھی اضافہ ہورہا ہے اور یہ فطرت اور فطری حیات کو متاثر کر رہی ہے۔

    تو پھر آئیں آج شب ساڑھے 8 سے ساڑھے 9 بجے کے درمیان غیر ضروری روشنیوں کو بجھا دیں اور زمین سے اپنی محبت کا ثبوت دیں۔

  • 3 ڈی پرنٹ کی گئی مونگے کی چٹانیں

    3 ڈی پرنٹ کی گئی مونگے کی چٹانیں

    جنوبی ایشیائی ملک مالدیپ میں دنیا کی سب سے بڑی 3 ڈی پرنٹ شدہ مونگے کی چٹانوں یعنی کورل ریفس کی سمندر میں اصل چٹانوں کے ساتھ پیوند کاری کیے جانے کے بعد، اب ان کے حوصلہ افزا نتائج سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔

    مونگے کی یہ چٹانیں کمپیوٹر پر ڈیزائن کی گئی ہیں جس کے بعد انہیں تھری ڈی پرنٹ کیا گیا اور اس کے لیے چکنی مٹی استعمال کی گئی۔ پرنٹ کرنے کے بعد انہیں گزشتہ برس سمندر میں مونگے کی چٹانوں کے ساتھ منسلک کردیا گیا۔

    دنیا بھر کے سمندروں میں موجود رنگ برنگی مونگے کی یہ چٹانیں بے شمار آبی حیات کا مسکن ہیں۔ ماہرین کے مطابق ان چٹانوں کے رنگ اور مخصوص ماحول یہاں رہنے والی آبی حیات کے لیے نہایت ضروری ہیں کیونکہ یہی رنگ ان آبی حیات کو رنگ، آکسیجن اور غذا فراہم کرتے ہیں۔

    تاہم اب یہ چٹانیں تیزی سے اپنی رنگت کھو رہی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ان چٹانوں کی رنگت اڑنے کی وجہ سمندروں کی آلودگی اور عالمی درجہ حرارت میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ ہے۔ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے سمندروں کا پانی بھی گرم ہورہا ہے جس کے باعث یہ چٹانیں بے رنگ ہورہی ہیں۔

    مالدیپ میں تھری ڈی پرنٹ سے تیار کی جانے والی مونگے کی چٹانیں دراصل ان چٹانوں کو بچانے کی ایک کوشش ہے۔ تھری ڈی پرنٹ شدہ یہ ڈھانچہ ان چٹانوں کی افزائش میں مدد کر رہا ہے۔

    اسی طرح مختلف آبی حیات نے بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس مصنوعی ڈھانچے کو قبول کرلیا ہے اور اس میں اپنا گھر بنانا شروع کردیا ہے جس کے بعد اس ڈھانچے میں نباتات کی افزائش بھی شروع ہوگئی ہے۔

    ماہرین کی جانب سے کورل ٹرانسپلانٹ کا نام دیے جانے والا یہ عمل نہ صرف سمندر میں ان جگہوں پر کیا جارہا ہے جہاں پہلے سے یہ چٹانیں موجود ہیں بلکہ ان مقامات پر بھی انہیں نصب کیا جارہا ہے جہاں یہ چٹانیں سرے سے موجود ہی نہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ مصنوعی چٹانیں بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے بھی مطابقت کرسکتی ہیں کیونکہ قدرتی چٹانوں کی طرح یہ حساس نہیں ہیں۔ دراصل ان چٹانوں کا مقصد تباہ ہوتی پرانی چٹانوں کو سہارا دے کر انہیں بحال کرنا اور ان کی افزائش کرنا ہے۔

  • وہ پودے جو سخت گرمی میں آپ کے گھر کو ٹھنڈا رکھیں گے

    وہ پودے جو سخت گرمی میں آپ کے گھر کو ٹھنڈا رکھیں گے

    موسم گرما کی آمد آمد ہے اور رواں برس جس طرح موسم سرما اپنے عروج پر رہا ایسے ہی موسم گرما بھی اپنی تمام تر شدت کے ساتھ ظاہر ہوگا۔

    گرمیوں کے موسم میں پنکھوں اور اے سی کا استعمال بڑھ جاتا ہے جس کے باعث بجلی کے بل میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔

    ویسے تو گھروں میں پودے لگانا اور انہیں سرسبز رکھنا گھر کے مجموعی درجہ حرارت اور بجلی کے بل کو کم رکھتا ہے تاہم کچھ پودے ایسے بھی ہیں جو نہایت کم قیمت میں فوری طور پر آپ کے گھر کو ٹھنڈا کر سکتے ہیں۔

    آج ہم آپ کو ایسے ہی پودوں سے متعارف کروانے جارہے ہیں۔

    ایلو ویرا

    ایلو ویرا کا پودا اپنے اندر بے شمار فوائد رکھتا ہے، ایلو ویرا ہوا کو جراثیموں اور زہریلے اشیا سے پاک کر کے اسے صاف بناتا ہے جبکہ یہ کمرے کے درجہ حرارت میں بھی کمی کرتا ہے۔

    آریکا پام ٹری

    یہ پودا کم روشنی میں بھی ہرا بھرا رہتا ہے اور ہوا کو صاف رکھنے کے ساتھ ساتھ درجہ حرارت میں کمی کرتا ہے۔

    ویپنگ فگ

    ویپنگ فگ نامی پودا گرمی سے پیدا ہونے والی بدبو کو ختم کر کے کمرے کی فضا کو خوشبو دار بناتا ہے جبکہ گرمی میں بھی کمی کرتا ہے۔

    بے بی ربڑ پلانٹ

    یہ پودا بھی کمرے کو ٹھنڈا رکھنے اور گرمی کم کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔

  • جنگلات کا عالمی دن: پاکستان سرسبز مستقبل کی جانب گامزن

    جنگلات کا عالمی دن: پاکستان سرسبز مستقبل کی جانب گامزن

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج جنگلات کا عالمی دن منایا جارہا ہے، اس دن کو منانے کا آغاز 28 نومبر 2012 سے کیا گیا۔

    ماہرین کے مطابق کسی ملک میں صحت مند ماحول اور مستحکم معیشت کے لیے اس کے 25 فیصد رقبے پر جنگلات کا ہونا ضروری ہے تاہم پاکستان میں جنگلات کی بے دریغ کٹائی کے بعد ملک میں جنگلات کا رقبہ صرف 2.2 فیصد رہ گیا ہے، البتہ بلین ٹرین سونامی منصوبہ پھر سے ملک میں جنگلات کو بحال کرنے میں مددگار ثابت ہورہا ہے۔

    رواں برس یہ دن ’جنگلات اور تعلیم‘ کے مرکزی خیال کے تحت منایا جارہا ہے جس کا مقصد اس تعلیم کو فروغ دینا ہے جس میں درختوں اور جنگلات کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے۔

    اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ جنگلات کی حفاظت، تحفظ ماحولیات اور جنگلی حیات کو نصاب کا حصہ بنایا جانا ضروری ہے تاکہ آنے والی نسلیں جنگلات کی محافظ ثابت ہوں۔

    پاکستان میں کچھ سال قبل شروع کیے جانے والے ’بلین ٹری سونامی‘ منصوبے نے پاکستان میں جنگلات کے رقبے میں نمایاں اضافہ کیا ہے۔ دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے ماحول دوست اقدامات کی بدولت ملک بھر میں شجر کاری اور درختوں کی حفاظت سے متعلق شعور پیدا ہورہا ہے۔

    اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت (ایف اے او) کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سنہ 2015 اور 2016 کے درمیان جنگلات کے رقبے میں 6 لاکھ ایکڑ کا اضافہ ہوا ہے۔

    ایف اے او کے مطابق پاکستان میں جنگلات کا رقبہ 3 کروڑ 62 لاکھ سے بڑھ کر 3 کروڑ 68 لاکھ سے زائد ہوگیا ہے تاہم اسی عرصے میں پرانے جنگلات کے رقبے میں بھی کمی دیکھنے میں آئی ہے۔

    آئی یو سی این کی رپورٹ کے مطابق بلین ٹری سونامی منصوبے پر کامیاب عملدر آمد کے بعد خیبر پختونخواہ کا شمار دنیا کے ان علاقوں میں ہونے لگا ہے جس نے عالمی معاہدے ’بون چیلنج‘ کو پورا کرتے ہوئے 35 لاکھ ایکڑ زمین پر جنگلات قائم کیے۔

    رپورٹ کے مطابق منصوبے کے بعد خیبر پختونخواہ پاکستان کا واحد صوبہ بن گیا ہے جہاں وسیع پیمانے پر شجر کاری کے ذریعے 35 لاکھ ایکڑ جنگلات کو بحال کیا گیا ہے۔

    گزشتہ حکومت میں صوبہ خیبر پختونخواہ تک محدود یہ منصوبہ اب پورے ملک میں شروع کیا جاچکا ہے اور اس کے تحت بڑے پیمانے پر شجر کاری کی جارہی ہے۔

  • کھڑکیوں پر چہچہانے والی چڑیا کہاں غائب ہوگئی؟

    کھڑکیوں پر چہچہانے والی چڑیا کہاں غائب ہوگئی؟

    کیا آپ کو یاد ہے کہ آپ نے آخری بار چڑیا کب دیکھی تھی؟ ننھی منی سی بھورے رنگ کی چڑیا اکثر و بیشتر ہمارے گھروں کی کھڑکیوں پر آ کر چہچہاتی تھی مگر اب ایک طویل عرصے سے جیسے یہ چڑیائیں غائب ہوگئی ہیں۔

    آج ان چڑیاؤں کو یاد کرنے کے لیے ان کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ ماہرین ماحولیات اور جنگلی حیات کا کہنا ہے کہ تیزی سے ہوتی اربنائزیشن اور شہروں کے بے ہنگم پھیلاؤ نے اس معصوم پرندے کی نسل کو خطرے کا شکار بنا دیا ہے۔

    sparrow-3

    ان چڑیاؤں کی معدومی کی وجہ وہی انسانوں کی خود غرضانہ ترقی ہے جو ماحول اور جنگلی حیات کو داؤ پر لگا کر کی جارہی ہے۔

    ہاؤس اسپیرو کہلانے والی ان چڑیاؤں کی پہلی آماجگاہ انسانی آبادی ہے تاہم یہ نسبتاً پرسکون آبادیوں کا انتخاب کرتی ہیں۔ اگر یہاں شور شرابہ، ہجوم اور آلودگی میں اضافہ ہوجائے تو یہ چڑیائیں وہاں سے چلی جاتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: مسلسل 10 ماہ تک اڑنے والا پرندہ

    جنوبی امریکی بریڈنگ برڈ سروے کے مطابق سنہ 1966 سے 2012 تک ان چڑیاؤں کی آبادی میں خاصی کمی آچکی ہے۔ صرف برطانوی دارالحکومت لندن میں سنہ 1994 سے 2001 کے دوران ان چڑیاؤں کی آبادی میں 70 فیصد کمی ہوئی۔

    اس عرصے میں کئی ممالک میں ان چڑیاؤں کی تعداد میں 50 فیصد سے زائد کمی واقع ہوچکی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بے ہنگم شور شرابہ اور ہجوم کے علاوہ ہمارے شہروں کی روشنیاں بھی اس معصوم پرندے کے لیے نقصان دہ ہے۔

    سورج ڈھلتے ہی روشنیوں کا سیلاب، جسے اب ماہرین روشنی کی آلودگی کا نام دیتے ہیں، نہ صرف رات کے قدرتی اور خوبصورت نظاروں کو ہم سے چھین رہی ہے بلکہ یہ پرندوں کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔

    sparrow-2

    ایک تحقیق کے مطابق مصنوعی روشنیاں پرندوں کی تولیدی صحت پر اثر انداز ہو رہی ہیں جس سے ان کی آبادی میں کمی واقع ہونے کا خدشہ ہے۔

    چلتے چلتے آپ کو امریکی یونیورسٹی میں کی جانے والی ایک اور دلچسپ تحقیق سے آگاہ کرتے چلیں جس کے مطابق پرندوں کی موجودگی کسی گھر کی مالیت میں اضافہ کردیتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق گھر خریدنے والے بلبل، چڑیا یا دیگر پرندوں کی چہچاہٹ سننا بہت پسند کرتے ہیں اور جتنے زیادہ پرندے آپ کے گھر میں ہوں گے، اتنی ہی زیادہ آپ کے گھر کی مالیت میں اضافہ ہوتا جائے گا۔

  • ٹوائلٹ پیپر جنگلات کے خاتمے کا سبب

    ٹوائلٹ پیپر جنگلات کے خاتمے کا سبب

    یوں تو ہم سب پلاسٹک کے خطرات سے آگاہ ہیں اور دنیا بھر میں اس کی آلودگی کو کم کرنے پر کام بھی کیا جارہا ہے، تاہم ماحول کو نقصان پہنچانے والی ایک چیز ایسی ہے جس سے ہم سب بے خبر ہیں۔

    ماحول کے لیے نقصان دہ اس شے کا ہم بے دریغ استعمال کر رہے ہیں یہ جانے بغیر کہ ان کی تیاری کے لیے قیمتی درختوں کو کاٹا جاتا ہے، وہ چیز ہے ٹوائلٹ پیپر۔

    امریکا کے نیچرل ریسورس ڈیفنس کاؤنسل نامی ادارے کے زیر اہتمام شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق امریکا میں ٹوائلٹ پیپرز کے بے تحاشہ استعمال نے کینیڈا کے جنگلات کو خاتمے کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔

    رپورٹ کے مطابق امریکا میں استعمال ہونے والے ٹشو پیپرز کے لیے کینیڈا میں موجود جنگلات کاٹے جاتے ہیں۔ کینیڈا کے تقریباً 60 فیصد رقبے پر جنگلات موجود ہیں جو سالانہ 2 کروڑ 80 لاکھ کاروں سے خارج ہونے والے دھوئیں کے برابر کاربن جذب کرتے ہیں۔

    تاہم امریکا میں ٹشوز کی بے تحاشہ مانگ کی وجہ سے ان جنگلات کو بے دریغ کاٹا جارہا ہے۔ سنہ 1996 سے 2 کروڑ 80 لاکھ ایکڑ رقبے پر موجود درختوں کو کاٹا جا چکا ہے۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ پوری دنیا میں استعمال ہونے والے ٹشو پیپرز کے 20 فیصد صرف امریکا میں استعمال ہورہے ہیں، دوسری جانب امریکیوں کو نرم ملائم ٹشوز بھی درکار ہیں جن کے لیے ٹشوز بناتے ہوئے اس میں دیگر مٹیریل استعمال کرنے سے گریز کیا جاتا ہے۔

    اس حوالے سے دنیا بھر کی بڑی کمپنیوں نے ٹشو بنانے کے لیے ماحول دوست اقدامات کرنے سے انکار کردیا ہے، وجہ وہی ہے امریکیوں کی نرم ٹشوز کی مانگ۔

    ماہرین کے مطابق ٹشوز بناتے ہوئے اگر اس میں استعمال شدہ (ری سائیکل) مٹیریل کی آمیزش کی جائے تو یہ عمل درختوں کی کٹائی میں کمی کرے گا تاہم ایسے ٹشوز سخت اور کھردرے ہوتے ہیں۔

    رپورٹ میں ایک قدیم رومن رواج کا حوالہ بھی دیا گیا جس میں ٹوائلٹ پیپرز کی جگہ اسفنج استعمال کیا جاتا تھا اور اسے سرکے سے بھرے ہوئے جار میں چھوڑ دیا جاتا تھا تاکہ وہ صاف ہو کر دوبارہ استعمال کے قابل ہوسکے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹوائلٹ پیپرز کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ماحول دوست ذرائع اپنانے ہوں گے ورنہ ہماری زمین پر موجود تمام درخت ٹشو پیپرز میں بدل جائیں گے۔

  • برف پر چلنا سیکھتے اور گرتے پھسلتے ننھے برفانی بھالو

    برف پر چلنا سیکھتے اور گرتے پھسلتے ننھے برفانی بھالو

    برفانی بھالو یوں تو برف میں رہنے والا جانور ہے اور برف ہی اس کی بقا کی ضمانت ہے، تاہم ننھے بھالوؤں کو برف پر چلنا سیکھنا پڑتا ہے اور اس دوران وہ نہایت دلچسپ انداز میں گرتے اور پھسلتے رہتے ہیں۔

    بی بی سی ارتھ کی ایسی ہی ایک ویڈیو میں برفانی بھالوؤں کی برف پر چلنے کی کشمکش کو فلمبند کیا گیا ہے۔ مادہ بھالو سات ماہ ہائبرنیشن (سونے) کا وقت گزارنے کے بعد تازہ برف سے لطف اندوز ہورہی ہے۔

    دوسری جانب اس کے ننھے بچے برف پر گر اور پھسل رہے ہیں کیونکہ انہیں اپنی زندگی میں پہلی بار برف پر چلنا پڑ رہا ہے۔

    کچھ وقت تک برف پر پھسلنے کے بعد آہستہ آہستہ وہ اس پر چلنے کے عادی ہوتے جاتے ہیں اور پھر کھیلنا شروع کردیتے ہیں۔

    دنیا بھر میں اس وقت 20 سے 25 ہزار برفانی بھالو موجود ہیں۔ یہ قطب شمالی دائرے (آرکٹک سرکل) میں پائے جاتے ہیں۔ اس دائرے میں کینیڈا، روس اور امریکا کے برفانی علاقے جبکہ گرین لینڈ کا وسیع علاقہ شامل ہے۔

    مئی 2008 میں جنگلی حیات کے لیے کام کرنے والے عالمی اداروں نے برفانی بھالوؤں کو خطرے کا شکار جانور قرار دیا تھا۔ ان کے مطابق اگر موسموں میں تبدیلی اور برف پگھلنے کی رفتار یہی رہی تو ہم بہت جلد برفانی بھالوؤں سے محروم ہوجائیں گے۔

    برفانی بھالو چونکہ برف کے علاوہ کہیں اور زندہ نہیں رہ سکتا لہٰذا ماہرین کو ڈر ہے کہ برف پگھلنے کے ساتھ ساتھ اس جانور کی نسل میں بھی تیزی سے کمی واقع ہونی شروع ہوجائے گی اور ایک وقت آئے گا کہ برفانی ریچھوں کی نسل معدوم ہوجائے گی۔