Tag: ماحولیات کی خبریں

  • کلائمٹ چینج کی طرف توجہ دلانے کے لیے دنیا بھر میں آج بچے اسکول سے چھٹی پر

    کلائمٹ چینج کی طرف توجہ دلانے کے لیے دنیا بھر میں آج بچے اسکول سے چھٹی پر

    اسٹاک ہوم: دنیا بھر میں موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کی طرف توجہ دلانے کے لیے بچوں نے آج اسکول سے چھٹی کرلی ہے، اس اسکول اسٹرائیک کا آغاز سوئیڈن سے تعلق رکھنے والی بچی گریٹا تھنبرگ نے کیا ہے۔

    15 سالہ گریٹا تھنبرگ نے کلائمٹ چینج کے خلاف ٹھوس پالیسی اپنانے پر مجبور کرنے کے لیے گزشتہ برس اگست سے اپنا احتجاج شروع کیا تھا۔ وہ 3 مہینے تک اپنا اسکول چھوڑ کر روزانہ پارلیمنٹ بلڈنگ کے سامنے پلے کارڈز اٹھا کر احتجاج کرتی رہی۔

    انتخابات کے بعد بھی اس کا احتجاج ختم نہیں ہوا، اب وہ ہر جمعے کے روز اسکول سے چھٹی کر کے پارلیمنٹ کے سامنے احتجاج کرتی دکھائی دیتی۔ اس کا کہنا تھا کہ ہمارا مستقبل اسکول نہیں، اگر زمین کو نہ بچایا گیا تو نہ اسکول رہیں گے اور نہ اسکول جانے والے۔

    آہستہ آہستہ گریٹا نے دنیا بھر کی توجہ حاصل کرلی اور زمین سے محبت کرنے والے بچے اور بڑے اس کے ہم آواز ہوگئے۔

    گریٹا کا نام نوبیل انعام کے لیے تجویز

    گزشتہ روز نارویئن حکام نے گریٹا کو نوبیل انعام دینے کی تجویز بھی پیش کردی ہے۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے ناروے کے ایک رکن پارلیمنٹ فریدی اینڈرے کا کہنا تھا کہ اگر ہم کلائمٹ چینج کو نہیں روکیں گے تو یہ جنگوں، تنازعوں اور لوگوں کو بے گھر کرنے کا سبب بنے گی۔ گریٹا نے دنیا کے امن کو قائم رکھنے کے لیے ایک بڑی تحریک شروع کی لہٰذا وہ امن کے نوبیل انعام کی حقدار ہے۔

    گریٹا کے ساتھ ہم آواز ہو کر آج تقریباً 100 سے زائد ممالک میں اسکول اسٹرائیک کی جارہی ہے۔ مختلف ممالک کے بچے پالیسی ساز عمارتوں کی طرف مارچ کر رہے ہیں تاکہ پالیسی سازوں کو ٹھوس ماحولیاتی اقدامات کرنے پر مجبور کیا جاسکے۔

    اس موقع پر نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا ایرڈن نے بھی ننھے مظاہرین سے ملاقات کی اور ماحول دوست اقدامات کرنے کا وعدہ کیا۔

  • طویل دانتوں والے ہاتھی کی آخری تصاویر

    طویل دانتوں والے ہاتھی کی آخری تصاویر

    افریقی ملک کینیا میں طویل ترین دانت رکھنے والی 60 سالہ ہتھنی کی آخری تصاویر نے لوگوں کو دم بخود کردیا۔

    کینیا کے میدانوں میں گھومتی یہ ہتھنی جسے ’ایف_ایم یو 1‘ کا نام دیا گیا، اس قدر بڑے دانت رکھتی تھی کہ یہ زمین کو چھوتے تھے، اور جب یہ چلتی تھی تو اس کے دانت زمین کو کھرچتے ہوئے آگے بڑھتے تھے۔

    برطانوی فوٹو گرافر ول بررڈ لوکس نے اس کی مرنے سے قبل آخری تصاویر کھینچیں جنہوں نے لوگوں کو حیران کردیا۔

    ول کا کہنا ہے کہ اگر وہ اپنی آنکھوں سے اس عظیم جانور کو نہ دیکھتے تو کبھی اس کے وجود پر یقین نہ کرتے۔ ’اگر ہاتھیوں کی کوئی ملکہ ہوتی، تو یقیناً وہ یہی ہتھنی ہوتی‘۔

    اس طرح کے بڑے اور مکمل دانت رکھنے والے ہاتھی افریقہ میں چند ہی پائے جاتے ہیں جنہیں ’سپر ٹسکرز‘ کہا جاتا ہے۔ ہاتھی دانت کی بڑھتی ہوئی طلب کی وجہ سے اکثر ہاتھی شکاریوں کے ہاتھوں اپنے دانتوں سے محروم کردیے جاتے ہیں۔

    اس ہتھنی کی موت کے بعد اب افریقہ میں بڑے دانتوں والے صرف 30 ہاتھی رہ گئے ہیں، تاہم یہ بھی شکاریوں کی نظر میں ہیں۔

    ول کا کہنا ہے کہ اطمینان کی بات یہ ہے کہ یہ ہتھنی کسی شکاری پھندے، گولی یا زہریلے تیر کا شکار نہیں ہوئی بلکہ طبعی موت مرگئی۔ اب سے 2 سال قبل ایسے ہی ایک 50 سالہ سپر ٹسکر ہاتھی کو شکاریوں نے زہریلے تیر کا نشانہ بنا کر موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔

    خیال رہے کہ کچھ دن قبل کینیا میں خطرے کا شکار جنگلی حیات بشمول ہاتھی کا شکار کرنے والوں کے لیے سزائے موت کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔

    کینیا کے وزیر برائے سیاحت و جنگلی حیات نجیب بلالا کے مطابق اب تک جنگلی حیات کا شکار کرنے پر عمر قید کی سزا اور 2 لاکھ امریکی ڈالر کا جرمانہ عائد تھا تاہم یہ بھی جنگلی حیات کا شکار روکنے کے لیے ناکافی رہا جس کے بعد اب سزائے موت کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

    دوسری جانب گزشتہ کچھ عرصے سے افریقی جانوروں کے شکار میں بے تحاشہ اضافہ ہوگیا تھا جس کے بعد ان جانوروں کی نسل معدوم ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا۔ ان جانوروں کے شکار کا بنیادی سبب دنیا بھر میں ہاتھی دانت کی بڑھتی ہوئی مانگ تھی جس کے لیے ہاتھی اور گینڈے کا شکار کیا جاتا اور ان کے دانتوں اور سینگ کو مہنگے داموں فروخت کیا جاتا۔

    عالمی ادارہ برائے تحفظ ماحولیات آئی یو سی این کے مطابق ایک عشرے قبل پورے براعظم افریقہ میں ہاتھیوں کی تعداد 4 لاکھ 15 ہزار تھی، لیکن ہاتھی دانت کے لیے ہاتھیوں کے بے دریغ شکار کی وجہ سے اب یہ تعداد گھٹ کر صرف 1 لاکھ 11 ہزار رہ گئی ہے۔

    تاہم کینیا اور دیگر افریقی ممالک میں اس شکار کو روکنے کے لیے ہنگامی طور پر اقدامات کیے گئے جس کے حوصلہ افزا نتائج سامنے آئے۔ کینیا میں شکار کے خلاف سخت قوانین کے نفاذ کے باعث ہاتھیوں کے شکار میں 78 فیصد جبکہ گینڈوں کے شکار میں 85 فیصد کمی آئی۔

  • اسکولوں کے باہر گاڑیوں کی آمد و رفت روکنے پر غور

    اسکولوں کے باہر گاڑیوں کی آمد و رفت روکنے پر غور

    لندن: انگلینڈ میں طبی و ماحولیاتی ماہرین نے اسکولوں کے باہر کاروں کی موجودگی پر پابندی عائد کرنے کی تجویز دے دی تاکہ اسکول کے قریب فضائی آلودگی میں کمی کی جاسکے۔

    پبلک ہیلتھ انگلینڈ کی جانب سے تجویز دی گئی ہے کہ اسکولوں کے قریب گاڑیاں کھڑی کرنے پر پابندی عائد کی جائے اور الیکٹرک کارز کے لیے ترجیحی بنیادوں پر پارکنگ کی سہولت فراہم کی جائے۔

    اسکولوں کے باہر سے گاڑیوں کو ہٹانے کی تجویز اس لیے دی گئی ہے تاکہ بچے پیدل چلیں، سائیکل پر سفر کریں اور فضائی آلودگی کے خطرناک نقصانات سے کسی حد تک محفوظ رہیں۔

    ادارے کے ڈائریکٹر ہیلتھ پروٹیکشن پروفیسر پال کوسفورڈ کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں ہر سال 35 سے 40 ہزار افراد فضائی آلودگی سے پیدا ہونے والی مختلف بیماریوں کے سبب ہلاک ہوجاتے ہیں۔

    ان کے مطابق نہ صرف اسکول بلکہ اسپتالوں اور کیئر ہومز کے باہر بھی کاروں کی آمد و رفت کو کم سے کم کیا جائے۔

    خیال رہے کہ اس وقت برطانیہ میں فضائی آلودگی کو صحت کے لیے بڑا خطرہ سمجھا جاتا ہے اور برطانیہ کے شہری اس سے امراض قلب، فالج، سانس کے امراض اور پھیپھڑوں کے کینسر میں مبتلا ہورہے ہیں۔

    کچھ عرصہ قبل اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کی گئی رپورٹ میں بتایا گیا کہ فضائی آلودگی سے ہر سال دنیا بھر میں 70 لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہورہے ہیں۔

    رپورٹ کےمطابق آلودگی پر قابو نہ پایا گیا تو سنہ 2030 سے 2050 کے درمیان فضائی آلودگی سے مرنے والوں کی سالانہ تعداد 70 لاکھ سے دگنی ہوجائے گی۔

  • آپ کا فیشن ماحول کے لیے نقصان دہ

    آپ کا فیشن ماحول کے لیے نقصان دہ

    اچھا لباس اور اچھے جوتے پہننا خوش ذوقی کی علامت ہے اور شخصیت کی بہتری میں اہم کردار ادا کرتا ہے، تاہم آپ کی یہ خوش لباسی ماحول کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔

    امریکا میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق ہم ہر سال ایک کھرب کپڑے اور 20 ارب جوتے بنا رہے ہیں۔ یہ تعداد 1980 کی دہائی میں بنائے جانے والے کپڑوں اور جوتوں کی تعداد سے 5 گنا زیادہ ہے۔

    ماہرین کے مطابق آج کا فیشن سوشل میڈیا پر چلتے ٹرینڈز کا مرہون منت ہے جو ہر روز بدلتا ہے۔ اس ٹرینڈ کو اپنانے کے لیے ہم خریداری زیادہ کرتے ہیں، تاہم اس خریداری کو پہنتے کم ہیں۔

    ایک اندازے کے مطابق ایک خاتون کسی لباس کو پھینکنے سے پہلے 7 بار استعمال کرتی ہیں۔

    فیشن کے بدلتے انداز اور ہمارا کپڑوں کو استعمال کرنے کا انداز ماحول کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔ آج جس طرح سے ملبوسات کی صنعتیں دن رات کام کر رہی ہیں وہ ہماری زمین کے کاربن اخراج میں 10 فیصد کی حصہ دار ہیں۔

    اسی طرح آبی آلودگی کا 17 سے 20 فیصد حصہ کپڑا رنگنے اور دیگر ٹیکسٹائل شعبوں سے آتا ہے۔

    کپاس کی فصل ٹیکسٹائل کی صنعت کا اہم ستون ہے اور اس وقت ازبکستان دنیا میں کپاس کی پیدوارا کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ چونکہ کپاس کی فصل کو بہت زیادہ پانی درکار ہے لہٰذا کپاس کی بے تحاشہ فصلوں نے ملک کی ایک بڑی جھیل ارل جھیل کو صرف 2 دہائیوں میں خشک کردیا ہے۔

    ارل جھیل

    ارل جھیل دنیا کی چوتھی بڑی جھیل تھی اور اب یہ تاحد نگاہ مٹی اور ریت سے بھری ہوئی ہے۔ دنیا بھر میں موجود میٹھے پانی کا 2.6 فیصد حصہ صرف کپاس کی پیداوار میں استعمال ہوتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹیکسٹائل صنعت کے ماحول پر ان اثرات کو کم کرنے کے لیے آپ بھی کوشش کرسکتے ہیں۔

    وہ کپڑے جو آپ مزید پہننا نہیں چاہتے، پھینکنے کے بجائے اپنے دوستوں کو دیں اور اسی طرح ان سے ان کے استعمال شدہ کپڑے لے لیں۔

    معمولی خراب کپڑوں اور جوتوں کی مرمت کر کے انہیں پھر سے استعمال کے قابل بنائیں۔

    اس وقت کچھ برانڈز ماحول دوست ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ وہ اپنی مصنوعات کی تیاری میں ماحول کو کم سے کم نقصان پہنچائیں، انہیں استعمال کرنے کو ترجیح دیں۔

    معیاری اور مہنگے ملبوسات اور جوتے خریدیں جو زیادہ تر عرصے تک چل سکیں۔

  • کینیا میں جانوروں کا شکار کرنے پر سزائے موت کا فیصلہ

    کینیا میں جانوروں کا شکار کرنے پر سزائے موت کا فیصلہ

    نیروبی: افریقی ملک کینیا میں خطرے کا شکار جنگلی حیات کا شکار کرنے والوں کے لیے سزائے موت کا اعلان کردیا گیا۔

    کینیا کے وزیر برائے سیاحت و جنگلی حیات نجیب بلالا نے اعلان کیا ہے کہ جنگلی حیات کا شکار کرنے پر موجودہ سزائیں ناکافی ہیں اور اب جلد شکار کرنے پر سزائے موت کا قانون بنا دیا جائے گا۔

    نجیب بلالا کا کہنا تھا کہ اب تک جنگلی حیات کا شکار کرنے پر عمر قید کی سزا اور 2 لاکھ امریکی ڈالر کا جرمانہ عائد تھا تاہم یہ بھی جنگلی حیات کا شکار روکنے کے لیے ناکافی رہا جس کے بعد اب سزائے موت کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

    کینیا کے اس اقدام کے بعد اسے اقوام متحدہ میں مخالفت اور تنازعے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کیونکہ اقوام متحدہ دنیا کے تمام ممالک میں کسی بھی جرم پر سزائے موت کی سخت مخالف ہے۔

    خیال رہے کہ کینیا میں متنوع جنگلی حیات پائی جاتی ہے جس میں شیر، زرافے، زیبرا، شتر مرغ، گینڈے اور دریائی گھوڑے شامل ہیں۔ یہ جانور کینیا سمیت دیگر افریقی ممالک کی سیاحت کا بڑا سبب ہیں۔

    گزشتہ کچھ عرصے سے افریقی جانوروں کے شکار میں بے تحاشہ اضافہ ہوگیا تھا جس کے بعد ان جانوروں کی نسل معدوم ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا۔ ان جانوروں کے شکار کا بنیادی سبب دنیا بھر میں ہاتھی دانت کی بڑھتی ہوئی مانگ تھی جس کے لیے ہاتھی اور گینڈے کا شکار کیا جاتا اور ان کے دانتوں اور سینگ کو مہنگے داموں فروخت کیا جاتا۔

    عالمی ادارہ برائے تحفظ ماحولیات آئی یو سی این کے مطابق ایک عشرے قبل پورے براعظم افریقہ میں ہاتھیوں کی تعداد 4 لاکھ 15 ہزار تھی، لیکن ہاتھی دانت کے لیے ہاتھیوں کے بے دریغ شکار کی وجہ سے اب یہ تعداد گھٹ کر صرف 1 لاکھ 11 ہزار رہ گئی ہے۔

    تاہم کینیا اور دیگر افریقی ممالک میں اس شکار کو روکنے کے لیے ہنگامی طور پر اقدامات کیے گئے جس کے حوصلہ افزا نتائج سامنے آئے۔ کینیا میں شکار کے خلاف سخت قوانین کے نفاذ کے باعث ہاتھیوں کے شکار میں 78 فیصد جبکہ گینڈوں کے شکار میں 85 فیصد کمی آئی۔

    حکام کو امید ہے کہ سزائے موت کے بعد اب ان جانوروں کے شکار میں مزید کمی آتی جائے گی اور ایک وقت آئے گا کہ یہ شکار بند ہوجائے گا۔

  • خواتین ۔ موسمیاتی تبدیلیوں کا پہلا شکار

    خواتین ۔ موسمیاتی تبدیلیوں کا پہلا شکار

    دنیا بھر میں بدلتا ہوا موسم اور عالمی حدت زمین کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے، ایسے میں ان تغیرات سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والوں کو ہی سب سے زیادہ نظر انداز کیا جارہا ہے۔

    ایک طویل عرصے سے ماہرین اس بات کی طرف توجہ دلانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج سے سب سے زیادہ متاثر خواتین ہورہی ہیں، تاہم بدقسمتی سے ان تبدیلیوں سے نمٹنے کے حوالے سے منصوبہ بندی کرتے ہوئے خواتین کو بالکل نظر انداز کردیا جاتا ہے۔

    تاریخ میں دیکھا جاتا رہا ہے کہ جب بھی کسی خطے میں جنگ ہوتی ہے تو خواتین اس کے بدترین نقصانات سے متاثر ہونے والا پہلا شکار ہوتی ہیں۔

    خواتین سے زیادتی اور ان پر تشدد کو جنگوں میں ایک ہتھیار کی صورت میں استعمال کیا جاتا ہے، جبکہ جنگ کے دوران اور اس کے بعد ایک طویل عرصے تک خواتین مختلف نفسیاتی پیچیدگیوں کا شکار رہتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: داعش کے بدترین ظلم کا شکار یزیدی خاتون

    اب جبکہ ہم خود ہی اپنے ماحول کو اپنے ہاتھ سے بگاڑ چکے ہیں تو اس بگاڑ سے بھی خواتین ہی سب سے زیادہ متاثر ہورہی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تغیر کی وجہ سے جب بھی کوئی آفت آتی ہے جیسے زلزلہ یا سیلاب، تو ایسے میں خواتین حفاظتی اقدامات سے بے خبر ہونے کے باعث خطرے کا زیادہ شکار ہوتی ہیں۔

    ایسے حالات میں خواتین کبھی بھی اکیلے اپنی جان بچانے کی فکر نہیں کرتیں بلکہ وہ اپنے ساتھ بچوں اور دیگر افراد کی بھی جان بچانے کی کوشش میں ہوتی ہیں۔

    دنیا بھر کے ترقی پذیر ممالک میں جہاں گاؤں دیہات پانی کی سہولت سے محروم ہیں، وہاں خواتین ہی گھر کی ضروریات کے لیے دور دراز سے پانی بھر کر لاتی ہیں۔ گھر سے میلوں دور سفر کرنا اور پانی بھر کر لانا ایک اذیت ناک داستان ہے جس کا مرکزی کردار صرف خواتین ہیں۔

    ایسے میں کلائمٹ چینج اور پانی کی عدم دستیابی ان خواتین کی تکلیف میں مزید اضافہ کردے گی۔

    مزید پڑھیں: صدیوں سے صنف نازک کا مقسوم قرار دی گئی مشقت

    اسی طرح کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین کیڑے مار زہریلی ادویات سے نہ صرف خود بھی متاثر ہوتی ہیں، بلکہ ایسے میں حاملہ خواتین کے وہ بچے جو ابھی دنیا میں بھی نہیں آئے وہ بھی اس سے متاثر ہوتے ہیں۔

    ایک تحقیق میں کپاس کے کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین کے دودھ میں بھی زہریلی کیڑے مار ادویات کے اثرات پائے گئے جو اگلی نسلوں میں منتقل ہوتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ جب بھی ماحول کے حوالے سے پالیسی سازی اور منصوبہ بندی کی جائے تو اس میں خواتین کو شامل رکھا جائے اور ان کی رائے کو اہمیت دی جائے، اس طرح ہم ان نقصانات کی طرف بھی متوجہ ہوسکیں گے جو نہایت نچلی سطح سے شروع ہوتے ہیں اور جس سے ایک گھریلو خاتون متاثر ہوسکتی ہے۔

    یہ عمل آگے چل کر اس منصوبہ بندی اور پالیسی کو کئی نسلوں تک قابل عمل اور کارآمد بناسکتا ہے۔

  • واش روم کو پلاسٹک سے محفوظ رکھنے والی ماحول دوست بوتلیں

    واش روم کو پلاسٹک سے محفوظ رکھنے والی ماحول دوست بوتلیں

    کاسمیٹکس اور باڈی کیئر کا زیادہ تر سامان پلاسٹک کی بوتلوں میں آتا ہے جو استعمال کے بعد پھینک دیا جاتا ہے اور کچرے میں اضافے کا سبب بنتا ہے، حال ہی میں ماحول دوست بوتلوں میں ایک باڈی کیئر لائن متعارف کروائی گئی ہے جسے بے حد پذیرائی حاصل ہورہی ہے۔

    امریکا کے شہر ڈیٹرائٹ میں نیچرل ویگن نامی کمپنی نے باڈی کیئر اشیا کے لیے کاغذ سے بنی ہوئی بوتلیں متعارف کروائی ہیں۔

    موٹے کاغذ سے بنی ہوئی یہ بوتلیں باآسانی زمین میں تلف ہوسکتی ہیں۔ کچھ بوتلیں کھاد بنانے میں بھی استعمال کی جاسکتی ہیں۔

    یہ بوتلیں گو کہ کاغذ سے بنی ہیں تاہم یہ پانی سے محفوظ رہ سکتی ہیں جبکہ 6 ماہ تک استعمال کے قابل ہیں۔ ان میں موجود اشیا ختم ہونے کے بعد بھی انہیں استعمال کیا جاسکتا ہے۔

    اسے بنانے والی کمپنی کا کہنا ہے کہ ان کا مقصد اس بزنس مائنڈ سیٹ کو بدلنا ہے جو پلاسٹک کے گرد گھومتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمارے دریا اور سمندر پلاسٹک سے اٹ چکے ہیں اور سنہ 2050 تک ہمارے سمندروں میں آبی حیات اور مچھلیوں سے زیادہ پلاسٹک موجود ہوگا۔

    نیدر لینڈز کے ماحولیاتی ادارے گرین پیس کے مطابق دنیا بھر میں 26 کروڑ ٹن پلاسٹک پیدا کیا جاتا ہے جس میں سے 10 فیصد ہمارے سمندروں میں چلا جاتا ہے۔

    پلاسٹک کی تباہ کاریوں سے متعلق مزید مضامین پڑھیں

  • زمین کو آلودہ کرنے والی کاربن گیس کو قابو کرنے کا طریقہ سامنے آگیا

    زمین کو آلودہ کرنے والی کاربن گیس کو قابو کرنے کا طریقہ سامنے آگیا

    ہماری زمین کو آلودہ کرنے کا سب سے زیادہ ذمہ دار کاربن اخراج ہے جو مختلف صنعتوں سے بے تحاشہ مقدار میں خارج ہوتا ہے، تاہم اب اس کاربن کو قابو کرنے کا ایک طریقہ سامنے آگیا ہے۔

    آسٹریلوی ماہرین نے کاربن اخراج کو ٹھوس میں بدلنے کا تجربہ کیا ہے جس سے ایک طرف تو ٹھوس کاربن صنعتی استعمال کے لیے دستیاب ہوگی تو دوسری جانب خطرناک حدوں کو چھوتی فضائی آلودگی میں بھی کمی واقع ہوگی۔

    آسٹریلیا کی آر ایم آئی ٹی یونیورسٹی میں کیے جانے والے اس کامیاب تجربے میں ماہرین نے کاربن گیس کو ٹھوس کوئلے کے ٹکڑوں میں بدل دیا۔

    اس سے قبل کاربن گیس کو مائع میں بدلنے کے تجربات تو کیے جاتے رہے ہیں تاہم آسٹریلوی ماہرین کا کہنا ہے کہ کاربن کو ٹھوس میں بدلنا ایک ماحول دوست طریقہ ہے۔ تحقیق میں شامل ماہرین کے مطابق یہ کاربن اخراج کی تباہی کو واپس پلٹ دینے کومترادف ہے۔

    اس سے قبل کاربن کو ٹھوس میں بدلنے کا تجربہ کیا جاچکا ہے تاہم اس میں کاربن کی شکل نہایت گرم درجہ حرارت پر تبدیل کی جاتی تھی جس کے بعد وہ کسی بھی قسم کے استعمال کے قابل نہیں رہتا تھا۔

    اب حالیہ تکنیک میں اسے مائع کی آمیزش کے ساتھ ٹھوس میں بدلا جارہا ہے جس میں معمول کا درجہ حرارت استعمال ہوتا ہے۔

    اس تکینیک میں کاربن گیس کو برق پاش مائع میں گھولا جاتا ہے جس کے بعد اس محلول کو الیکٹرک کرنٹ سے چارج کیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی کاربن گیس آہستہ آہستہ کوئلے میں تبدیل ہونا شروع ہوجاتی ہے۔

    اس عمل کے دوران ایک قسم کا فیول بھی پیدا ہوتا ہے جو مختلف صنعتی استعمالات کے کام آسکتا ہے۔

    اس سے قبل یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، لاس اینجلس (یو سی ایل اے) میں بھی اسی نوعیت کا تجربہ کیا گیا جس میں کاربن گیس کو کنکریٹ میں تبدیل کردیا گیا۔

    سی او ٹو کریٹ کا نام دیے جانے والے اس کاربن کو تیار کرنے کے لیے چمنیوں کے ذریعہ دھواں جمع کیا گیا اور بعد ازاں ان میں سے کاربن کو الگ کر کے اسے لیموں کے ساتھ ملا کر تھری ڈی پرنٹ کیا گیا۔

    ماہرین کے مطابق کاربن سے تیار اس کنکریٹ سے سڑکیں اور پل تعمیر کی جاسکتی ہیں۔

    سنہ 2016 میں آئس لینڈ میں کیے جانے والے ایک اور تجربے میں کاربن کو پانی کے ساتھ مکس کر کے اسے زمین میں گہرائی تک پمپ کیا گیا۔ اسے اتنی گہرائی تک پمپ کیا گیا جہاں آتش فشاں کے ٹھوس پتھر موجود ہوتے ہیں اور وہاں یہ فوری طور پر ٹھوس پتھر میں تبدیل ہوگیا۔

    ’کارب فکس پروجیکٹ‘ کہلایا جانے والا یہ پروجیکٹ آئس لینڈ کے دارالحکومت کو بجلی بھی فراہم کر رہا ہے۔ یہ پلانٹ سالانہ 40 ہزار ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ استعمال کرتا ہے۔

    خیال رہے کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ اس وقت گلوبل وارمنگ یعنی عالمی درجہ حرارت میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ ہے اور سائنسدان ایک عرصے سے کاربن کو محفوظ کرنے یعنی’کاربن کیپچر اینڈ اسٹوریج ۔ سی سی ایس‘ پر زور دے رہے ہیں۔

  • پاکستان میں جنگلات کے رقبے میں اضافہ

    پاکستان میں جنگلات کے رقبے میں اضافہ

    امریکی خلائی ایجنسی ناسا کی حال ہی میں جاری کی گئی تصاویر میں پاکستان میں جنگلات کے رقبے میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ ماہرین نے اس کا کریڈٹ بلین ٹری سونامی منصوبے کو قرار دیا ہے۔

    ناسا کی جانب سے جاری کی جانے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں اس وقت سب سے زیادہ چین اور بھارت اپنے جنگلات کے رقبے میں اضافہ کر رہے ہیں اور یہ رقبہ دنیا کا ایک تہائی سبزہ ہے۔

    بوسٹن یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق سنہ 2000 سے دنیا بھر میں جنگلات کے رقبے میں 5 فیصد اضافہ ہوا ہے، یہ رقبہ برازیل کے ایمازون جنگلات کے برابر ہے جنہیں زمین کے پھیپھڑے کہا جاتا ہے۔

    دوسری جانب اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت (ایف اے او) کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بھی سنہ 2015 اور 2016 کے درمیان جنگلات کے رقبے میں 6 لاکھ ایکڑ کا اضافہ ہوا ہے۔

    ایف اے او کے مطابق پاکستان میں جنگلات کا رقبہ 3 کروڑ 62 لاکھ سے بڑھ کر 3 کروڑ 68 لاکھ سے زائد ہوگیا ہے تاہم اسی عرصے میں پرانے جنگلات کے رقبے میں بھی کمی دیکھنے میں آئی ہے۔

    ماہرین کے مطابق پاکستان میں جنگلات کے رقبے میں اضافے کا کریڈٹ بلین ٹری سونامی منصوبے کو جاتا ہے جس کی عالمی سطح پر پذیرائی کی جاتی رہی ہے۔

    آئی یو سی این کی رپورٹ کے مطابق بلین ٹری سونامی منصوبے پر کامیاب عملدر آمد کے بعد خیبر پختونخواہ کا شمار دنیا کے ان علاقوں میں ہونے لگا ہے جس نے عالمی معاہدے ’بون چیلنج‘ کو پورا کرتے ہوئے 35 لاکھ ایکڑ زمین پر جنگلات قائم کیے۔

    رپورٹ کے مطابق منصوبے کے بعد خیبر پختونخواہ پاکستان کا واحد صوبہ بن گیا ہے جہاں وسیع پیمانے پر شجر کاری کے ذریعے 35 لاکھ ایکڑ جنگلات کو بحال کیا گیا ہے۔

    گزشتہ حکومت میں صوبہ خیبر پختونخواہ تک محدود یہ منصوبہ اب پورے ملک میں شروع کیا جاچکا ہے اور اس کے تحت بڑے پیمانے پر شجر کاری کی جارہی ہے۔

  • دنیا کا سب سے بڑا صحرا کون سا ہے؟

    دنیا کا سب سے بڑا صحرا کون سا ہے؟

    کیا آپ جانتے ہیں دنیا کا سب سے بڑا صحرا کون سا ہے؟ یہ سوال سن کر شاید آپ کے ذہن میں افریقہ کے صحرائے صحارا کا تصور آجاتا ہو، یا پھر چین کے صحرائے گوبی کا، لیکن آپ کا جواب غلط ہوسکتا ہے۔

    صحرا کا لفظ سنتے ہی ہمارے ذہن میں ایک لق و دق ویران مقام آجاتا ہے جہاں میلوں دور تک ریت پھیلی ہو، تیز گرم دھوپ جسم کو جھلسا رہی ہو، چاروں طرف کیکر کے پودے ہوں، اونٹ ہوں اور دور کسی نظر کے دھوکے جیسا نخلستان ہو جہاں پانی اور کھجور کے درخت ہوتے ہیں۔

    تاہم ماہرین کے نزدیک صحرا کی تعریف کچھ اور ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ صحرا ایک ایسا علاقہ ہوتا ہے جو خشک ہو، جہاں پانی، درخت، پھول پودے نہ ہوں اور وہاں بارشیں نہ ہوتی ہوں۔

    اس لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا صحرا قطب شمالی یعنی انٹارکٹیکا ہے۔ جی ہاں، ماہرین کے مطابق ضروری نہیں کہ صحرا صرف گرم ہی ہو، صحرا جیسے حالات رکھنے والا ہر علاقہ اس کیٹگری میں آتا ہے اور انٹارکٹیکا بھی برف کا صحرا ہے۔

    ماہرین کے مطابق انٹارکٹیکا کے 98 فیصد حصے پر برف کی مستقل تہہ جمی ہوئی ہے، صرف 2 فیصد علاقہ اس برف سے عاری ہے اور یہیں تمام برفانی حیات موجود ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دیگر صحراؤں کی طرح یہاں بھی کوئی مستقل آبادی نہیں ہے۔

    یہ برفانی صحرا 54 لاکھ اسکوائر میل کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ اس کے برعکس صحرائے صحارا کا رقبہ 35 لاکھ اسکوائر میل ہے۔ انٹارکٹیکا زمین کا سب سے بڑا صحرا ہے جبکہ صحارا دنیا کا سب سے بڑا گرم صحرا ہے۔