Tag: ماحولیات

  • سری لنکا میں آسمان سے درختوں کی بارش

    سری لنکا میں آسمان سے درختوں کی بارش

    کیا آپ نے کبھی آسمان سے درختوں کو برستے ہوئے دیکھا یا سنا ہے؟ شاید یہ سننے میں آپ کو عجیب لگے لیکن سری لنکا میں ایسا ہو رہا ہے جہاں آسمان سے درخت ’برستے‘ ہیں۔

    سری لنکا میں مختلف خالی مقامات پر ہیلی کاپٹر کے ذریعہ کھاد کے ایسے گولے برسائے جارہے ہیں جو کچھ عرصے بعد اگنا شروع ہوجاتے ہیں۔ سری لنکا کو یہ ضرورت اس لیے پیش آئی کیونکہ صرف گذشتہ چند عشروں میں اس ملک کے آدھے جنگلات کو مختلف مقاصد کے لیے کاٹا جاچکا ہے۔

    مزید پڑھیں: دنیا کے طویل ترین درختوں کا کلون

    اب سری لنکا کا ارادہ ہے کہ سنہ 2017 تک وہ اپنے اس کھوئے ہوئے اثاثے کو کسی حد تک واپس حاصل کرلے۔

    آسمان سے برسائے جانے والے یہ گولے چکنی مٹی، کھاد اور مختلف بیجوں سے تیار کیے گئے ہیں جن سے کچھ عرصہ بعد ہی پودے اگ آتے ہیں۔

    یہ طریقہ کار جاپانی کسانوں کا ایجاد کردہ ہے جنہوں نے کاشت کاری میں انسانی محنت کم کرنے کے لیے اسے ایجاد کیا۔

    واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت ایف اے او کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں ایک کروڑ 80 لاکھ ہیکٹرز کے رقبے پر مشتمل جنگلات کاٹ دیے جاتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: جنگلات کے قریب وقت گزارنا بے شمار فوائد کا باعث

    ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں موجود گھنے جنگلات جنہیں رین فاریسٹ کہا جاتا ہے، اگلے 100 سال میں مکمل طور پر ختم ہوجائیں گے۔

    جنگلات کی کٹائی عالمی حدت میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ کا ایک اہم سبب ہے جس کے باعث زہریلی گیسیں فضا میں ہی موجود رہ جاتی ہیں اور کسی جگہ کے درجہ حرارت میں اضافہ کرتی ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • ان نشانات کی مدد سے پلاسٹک کی تباہ کاری کو جانیں

    ان نشانات کی مدد سے پلاسٹک کی تباہ کاری کو جانیں

    ہم اپنی روز مرہ زندگی میں پلاسٹک کی بوتلوں میں پانی پینے کے عادی ہیں۔ گھر سے باہر نکلتے ہوئے پانی رکھنے کا سب سے بہترین ذریعہ پلاسٹک کی بوتلوں کو سمجھا جاتا ہے۔

    لیکن بہت کم لوگوں کو اس بات کا علم ہوتا ہے کہ ان بوتلوں میں پانی پینا دراصل زہر پینے کے مترادف ہے۔ آپ بازار سے جو پانی کی بوتل خرید رہے ہیں، آپ کو نہیں علم کہ وہ کتنی پرانی ہے۔ زیادہ پرانی بوتلوں میں پلاسٹک کے ننھے ذرات جھڑ کر پانی میں شامل ہوجاتے ہیں جو لا محالہ ہمارے جسم میں جاتے ہیں۔

    یہ خدشہ اس وقت اور بھی بڑھ جاتا ہے جب یہ بوتلیں دھوپ یا تیز روشنی میں رکھی ہوں۔ اس صورت میں پلاسٹک کی نہایت معمولی مقدار پگھل کر پانی میں شامل ہوجاتی ہے۔ گو کہ یہ مقدار انتہائی معمولی ہوتی ہے لیکن یہ جسم میں جا کر خطرناک بیماریاں پیدا کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔

    مزید پڑھیں: ایسا پلاسٹک جو کھایا جاسکتا ہے

    اسی طرح ماہرین کا کہنا ہے کہ جب آپ کوئی پلاسٹک کی بوتل لیں تو اسے دبا کر دیکھیں۔ اگر اس میں سے کڑکڑاہٹ کی آواز آئے تو یہ اس بات کی واضح علامت ہے کہ بوتل کا پلاسٹک ٹوٹ پھوٹ رہا ہے اور اس کے ذرات پانی میں شامل ہورہے ہیں۔

    یوں تو ہر قسم کا پلاسٹک ہی تمام جانداروں کے لیے نقصان دہ ہے، لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ کچھ اقسام کے پلاسٹک میں شامل کیمیائی اجزا نہایت خطرناک ہوتے ہیں اور انہیں ہرگز استعمال نہیں کرنا چاہیئے۔

    دراصل پلاسٹک کی بوتلوں پر کچھ مخصوص نشانات بنے ہوتے ہیں جو مختلف علامتوں کے ذریعے یہ بتاتے ہیں کہ اس پلاسٹک کو کن اجزا سے بنایا گیا ہے۔ ویسے تو تمام ہی قسم کی پلاسٹک صحت کے لیے زہر قاتل ہے لیکن کچھ پلاسٹک کم نقصان دہ اور کچھ بہت زیادہ نقصان دہ ہیں۔
    symbols

    آئیے آپ بھی ان نشانات سے آگاہی حاصل کریں تاکہ اگلی بار پلاسٹک کی بوتل خریدنے سے پہلے آپ کو علم ہوسکے کہ کہیں آپ زہر تو نہیں خرید رہے۔


    پی ای ٹی یا پی ای ٹی ای

    یہ نشان عموماً پلاسٹک کی بوتلوں پر لکھا جانے والا نہایت عام نشان ہے کیونکہ پلاسٹک کی زیادہ تر اقسام (خصوصاً عام استعمال والی پلاسٹک) کو ایک ہی اجزا سے تیار کیا جاتا ہے۔

    p3

    یہ بوتلیں ایک ہی بار استعمال کے لیے موزوں ہوتی ہیں، اس کے بعد ان کا استعمال ترک کردینا چاہیئے۔ یہ پلاسٹک جراثیم کی افزائش کے لیے موزوں ماحول فراہم کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں اس پلاسٹک میں شامل اجزا جسم میں جا کر ہارمونز کا نظام تباہ کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔


    ایچ ڈی پی یا ایچ ڈی پی ای

    ماہرین پلاسٹک کی اس قسم کو محفوظ ترین قسم قرار دیتے ہیں۔ یہ عموماً سخت پلاسٹک ہوتا ہے جس سے برتن، مختلف تیلوں کی بوتلیں، کھلونے وغیرہ بنائے جاتے ہیں۔

    یہ پلاسٹک کسی قسم کے اجزا خارج نہیں کرتے تاہم اس مٹیریل سے بنی بہت زیادہ پرانی بوتلوں کا استعمال بھی محفوظ نہیں۔


    پی وی سی یا 3 وی

    یہ وہ پلاسٹک ہوتا ہے جو عموماً موڑا جا سکتا ہے اور اسے مختلف اشیا کو لپیٹنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ دو نہایت زہریلے اجزا کو خارج کرتا ہے جو جسم کے ہارمونز کو شدید متاثر کرتا ہے۔

    pvc-2

    pvc

    ماہرین کی تجویز ہے کہ اس پلاسٹک کے استعمال سے گریز کیا جائے۔


    ایل ڈی پی ای

    یہ پلاسٹک بوتلیں بنانے کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا۔ یہ کیمیائی اجزا خارج نہیں کرتا تاہم پھر بھی اسے استعمال کے لیے بالکل محفوظ قرار نہیں دیا جاسکتا۔

    ایک اور سفید رنگ کا نیم شفاف پلاسٹک (پولی پروپلین) دواؤں کی بوتل یا فلیورڈ دہی کے کپ بنانے میں استعمال ہوتا ہے۔ یہ سخت اور وزن میں ہلکا ہوتا ہے۔ یہ قسم نسبتاً محفوظ کہی جاسکتی ہے کیونکہ یہ درجہ حرات کے خلاف مزاحمت کرتا ہے اور گرم ہونے پر پگھلتا نہیں۔

    اسی کیمیائی طریقے سے بنائی جانے والی پلاسٹک کی ایک اور قسم جسے پولی سٹرین کہا جاتا ہے، وزن میں ہلکی اور نہایت ارزاں ہوتی ہے۔

    ldpe-2

    ldpe

    اس سے وہ اشیا بنائی جاتی ہیں، جن میں آپ کو کسی ریستوران سے ’ٹیک اوے‘ کھانا دیا جاتا ہے۔ جیسے ڈسپوزایبل کپ، کھانے کے کنٹینر، یا چمچے وغیرہ۔ یہ تیز درجہ حرات پر پگھلنے لگتے ہیں لہٰذا یہ صرف ایک بار استعمال کے لیے ہی بہتر ہیں۔


    پی سی یا نان لیبلڈ پلاسٹک

    یہ پلاسٹک کی سب سے خطرناک قسم ہوتی ہے جو عموماً کھیلوں میں استعمال کی جانے والی پانی کی بوتلوں میں استعمال ہوتی ہے۔

    p4

    یہ قسم ری سائیکلنگ یا ری یوزنگ (دوبارہ استعمال) کے لیے بھی استعمال نہیں کی جاسکتی۔

    مضمون بشکریہ: برائٹ سائیڈ

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔ 

  • فلائی اوور کے نیچے خالی جگہ باغ میں تبدیل

    فلائی اوور کے نیچے خالی جگہ باغ میں تبدیل

    ممبئی: بھارت کے شہر ممبئی میں ایک فلائی اوور کے نیچے خالی جگہ پر باغ بنا لیا گیا۔ اب اس فلائی اوور کے اوپر گاڑیاں دوڑتی ہیں اور نیچے شہری اپنا فارغ وقت پھولوں اور پودوں کے ساتھ گزارتے ہیں۔

    ممبئی کے علاقے مٹنگا میں ڈاکٹر بابا صاحب روڈ پر واقع فلائی اوور کے نیچے خالی جگہ پر باغ بنالیا گیا۔ اس باغ کا نام نانا لعل ڈی مہتا گارڈن رکھا گیا ہے۔

    m11

    m8

    یہ فیصلہ اس خالی جگہ کو غلط استعمال، خاص طور پر نشئی افراد کی پناہ گاہ بننے سے بچانے کے لیے کیا گیا ہے۔

    اس سے پہلے 4 سال قبل جب یہ فلائی اوور کھولا گیا تو اس کے نیچے نشئی افراد، جواریوں اور گداگروں نے اپنا ٹھکانہ بنالیا۔ کچھ رہائشیوں نے اس بارے میں ممبئی کی میونسپل کارپوریشن کو آگاہ کیا اور ان کے خلاف کوئی قدم اٹھانے کی اپیل کی۔

    m10

    m9

    شہریوں نے اپنی مدد آپ کے تحت یہاں سیکیورٹی گارڈز بھی تعینات کیے تاکہ وہ اس جگہ کو ان لوگوں سے محفوظ رکھیں اور یہاں کچرا کنڈی نہ بننے دیں۔ جواریوں اور نشئی افراد کی وہاں موجودگی مقامی افراد کے لیے بے حد تکلیف اور پریشانی کا باعث بن رہی تھی۔

    سال 2011 میں یہاں کے لوگوں نے مقامی و شہری حکومتوں کو درخواست دی جس میں تجویز پیش کی گئی کہ اس جگہ کو گارڈن میں تبدیل کردیا جائے۔ کئی درخواستوں کے بعد 2015 میں میونسپل کارپوریشن نے اس جگہ کی تزئین و آرائش کا کام شروع کیا۔

    m7

    m6

    اس گارڈن کے فرش کو دریا نرمادا کے بہاؤ کی طرز پر ڈیزائن کیا گیا ہے۔ انجینیئرز اور آرکیٹیکٹس نے دریا کے بہاؤ کا مشاہدہ کیا اور اس کا نقش گارڈن کے فرش پر ڈیزائن کیا۔ 600 میٹر لمبے راستے کو نیلے رنگ سے رنگا گیا ہے جبکہ اطراف میں دریائے نرمادا کے کنارے واقع پہاڑوں کی نقل بنائی گئی ہے۔

    m2

    گارڈن میں ایک گرینائٹ کا بلاک بھی نصب کیا گیا ہے جس میں دریائے نرمادا کی تاریخ اور اس کے بارے میں معلومات درج ہیں۔

    m5

    m4

    گارڈن میں 300 لائٹس اور سی سی ٹی وی کیمرے بھی نصب کیے گئے ہیں تاکہ کسی ناخوشگوار واقعہ سے بچا جا سکے۔

    قریبی آبادی کے رہائشی کریدیتا پٹیل اس بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’ممبئی جیسے پرہجوم شہر میں ایسی پرسکون جگہ کا ہونا ایک نعمت ہے۔ یہاں ہم اپنے دوستوں اور پڑوسیوں سے ملتے ہیں اور یہاں واک کر کے ہمیں بہت مزہ آتا ہے‘۔

    m3

    m1

    اس گارڈن کو صبح 8 سے دوپہر 1 اور شام 4 سے رات ساڑھے 9 بجے تک کھولا جاتا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • میکسیکو کے کسان بارش ’اگانے‘ میں مصروف

    میکسیکو کے کسان بارش ’اگانے‘ میں مصروف

    آپ نے مصنوعی بارش برسانے کے بارے میں تو سنا ہوگا؟ یہ بارش ان علاقوں میں برسائی جاتی ہے جہاں بارش نہ ہوتی ہو اور وہاں خشک سالی کا خدشہ ہو۔

    مصنوعی بارش کے لیے بادلوں پر کیمیائی مادوں کا مجموعہ ڈالا جاتا ہے۔ اس عمل کو ’کلاؤڈ سیڈنگ‘ کہا جاتا ہے جس سے بارش ہوتی ہے۔

    لیکن میکسیکو کے رہائشی اپنی بارش خود ’اگا‘ رہے ہیں۔

    rain-post-2

    دراصل میکسیکو کے کسان اپنے کھیتوں میں پوٹاشیم کے ذرات بو رہے ہیں۔ یہ ذرات اپنی جسامت سے 500 گنا زیادہ پانی جذب کر سکتے ہیں۔ یہی نہیں یہ پانی ان ذروں کے اندر 8 سال تک رہ سکتا ہے۔

    یہ علاقہ شدید خشک سالی کا شکار ہے۔ کلائمٹ چینج یعنی موسمیاتی تغیر کے باعث بارشوں کے سیزن میں کمی ہوچکی ہے لہٰذا یہاں کے کسان سنگین صورتحال سے دو چار ہیں۔

    rain-post-1

    اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے ایک سائنسدان سرگیو ریکو نے یہ ’خشک بارش‘ خشک سالی کا شکار کسانوں کی مدد کے لیے بنائی ہے۔ اسے کھیتوں میں ڈالنے کے بعد یہ جڑوں کو پانی فراہم کرتا رہتا ہے اور کھاد کی ضرورت کو بھی پورا کرتا ہے۔

    rain-post-4

    rain-post-3

    اسے متعارف کروانے والے ماہر سرگیو ریکو کا کہنا ہے کہ یہ انہیں بے شمار فوائد دے سکتا ہے۔ بڑی بڑی بوریوں میں بارش کو محفوظ کرنے کی صورت میں ان کے پانی کے مسائل حل ہو سکتے ہیں جس کے بعد انہیں اپنے گھروں سے ہجرت کرنے کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی۔

    اسے استعمال کرنے والے کسان خوش ہیں کہ یہ ’بارش‘ ان کی بھوک اور غربت کا خاتمہ کرسکتی ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • شام و عراق کے جنگ زدہ علاقوں میں ماحولیاتی تباہی عروج پر

    شام و عراق کے جنگ زدہ علاقوں میں ماحولیاتی تباہی عروج پر

    دمشق: شام میں جاری ہولناک جنگ کو 6 برس مکمل ہوچکے ہیں۔ سنہ 2016 میں اس جنگ میں مرنے والوں کی تعداد کا اندازہ 4 لاکھ کے قریب لگایا گیا تھا۔ عراق میں بھی جاری جنگ میں دہشت گرد تنظیم داعش نے بے شمار شہروں کو تباہ کردیا جبکہ 33 لاکھ کے قریب افراد بے گھر ہوگئے۔

    دونوں ممالک میں ہونے والی جنگوں میں بے تحاشہ جانی و مالی نقصان تو ہوا، تاہم ان جنگوں نے ماحول کو مکمل طور پر برباد کردیا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ جنگ زدہ علاقوں میں ماحول کی حفاظت بنیادی ترجیح نہیں ہوتی، تاہم جنگ کے بعد تعمیر نو کے وقت ماحولیاتی بہتری کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے۔

    سنہ 2017 میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق عراق داعش کے حملے سے پہلے ہی ماحولیاتی نقصانات کا شکار تھا۔ بعد میں پے در پے ہونے والی جنگوں اور موسمیاتی تغیرات نے عراق کو خشک سالی کا شکار ملک بنا دیا۔

    مزید پڑھیں: تاریخ کا قدیم پھول مرجھا رہا ہے

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ داعش کے حملوں کا بڑا ہدف تیل صاف کرنے کی ریفائنریز تھیں۔ بعد ازاں جب عراقی فورسز نے مقبوضہ علاقوں کو داعش سے خالی کروایا تو انہوں نے تیل کے کنوؤں اور ریفائنریز کو آگ لگادی، کنوؤں اور پائپ لائنوں کو تباہ کردیا جبکہ پانی کو آلودہ کر دیا تاکہ انہیں استعمال نہ کیا جا سکے۔

    نذر آتش کی جانے والی تنصیبات نے آبی ذخیروں کو بھی آلودہ اور ناقابل استعمال بنا دیا ہے۔

    داعش نے شام میں ایک سلفر پلانٹ کو بھی آگ لگائی تھی جس سے خارج ہونے والے زہریلے دھوئیں نے 1 ہزار کے قریب افراد کو اپستال پہنچا دیا۔ بعد ازاں ان میں سے 20 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔

    اسی طرح کیمیائی ہتھیار بنانے والے مقامات بھی نہایت غیر محفوظ ہیں جہاں سے خارج ہونے والا دھواں فضا کو طویل عرصے کے لیے زہریلا بنا سکتا ہے۔

    جنگ زدہ علاقوں میں کام کرنے والے ڈچ امن آرگنائزیشن کا کہنا ہے کہ جنگ زدہ علاقوں میں ہر طرف ملبہ بکھرا پڑا ہے جو فضا اور پانی کو آلودہ کر رہا ہے۔ ان میں تباہ شدہ ٹینک اور ایسی گاڑیوں کا ملبہ شامل ہے جن میں کیمایئی ہتھیار رکھے جاتے تھے۔

    مزید پڑھیں: ہولناک جنگوں میں زندہ رہ جانے والا افغانی ہرن

    یہ تمام آلودگی امدادی کارکنوں اور ان افراد کے لیے شدید خطرہ ہے جو اب تک ان علاقوں میں موجود ہیں۔

    ادارے کا کہنا ہے کہ جنگ کے بعد بحالی کے عمل میں بھی ماحولیاتی بہتری پہلی ترجیح نہیں ہوتی۔ سنہ 1990 میں جب لبنان میں جنگ کا خاتمہ ہوا اس کے بعد اب تک وہاں آلودگی ایک بڑا مسئلہ ہے۔

    سنہ 2017 میں اقوام متحدہ کی ماحولیاتی اسمبلی میں عراقی حکومت کی جانب سے ایک قرارداد پیش کی گئی تھی جس کا مقصد جنگ زدہ علاقوں میں آلودگی کو کنٹرول کرنا تھا۔ قرارداد میں کہا گیا تھا کہ ماحولیاتی تباہی جنگ کے نقصانات کو دوگنا کردیتی ہے لہٰذا اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

    کینیا میں منعقد ہونے والے اس اجلاس میں مذکورہ قرارداد کو منظور کرلیا گیا تھا جس سے نہ صرف عراق اور شام بلکہ مستقبل میں جنگوں اور تنازعوں کا شکار ہونے والے علاقوں میں بھی ماحولیاتی بہتری پر کام کیا جاسکے گا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • غیر ضروری روشنیاں بجھا کر زمین کو آرام دیں

    غیر ضروری روشنیاں بجھا کر زمین کو آرام دیں

    زمین کو ماحولیاتی خطرات سے بچانے اور اس پر توانائی کے بے تحاشہ بوجھ کو کم کرنے کے لیے آج علامتی طور پر ارتھ آور منایا جائے گا۔ آج شب 8 سے 9 بجے کے درمیان غیر ضروری روشنیوں کو بند کر کے زمین کی چندھیائی ہوئی آنکھوں کو آرام دیا جائے گا۔

    زمین کے لیے ایک گھنٹہ یا ارتھ آور کو منانے کا مقصد ماحولیاتی تبدیلی (کلائمٹ چینج) کے حوالے سے عوامی شعور اجاگر کرنا ہے۔

    earth-hour-3

    earth-hour-4

    دنیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں کرہ ارض کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے جس کے سبب ماحول پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

    ارتھ آور منانے کا مقصد اس طرف بھی توجہ دلانا ہے کہ دنیا میں آبادی میں تیزی سے اضافہ اور توانائی کے وسائل میں کمی آرہی ہے اور اس توازن کو برقرار رکھنے کے لیے توانائی کی بے تحاشہ پیداوار سے ماحول اور زمین پر شدید منفی نقصانات مرتب ہورہے ہیں۔

    اگر ہم خلا سے زمین کی طرف دیکھیں تو ہمیں زمین روشنی کے ایک جگمگاتے گولے کی طرح نظر آئے گی۔ یہ منظر دیکھنے میں تو بہت خوبصورت لگتا ہے، مگر اصل میں روشنیوں کا یہ طوفان زمین کو بیمار کرنے کا سبب بن رہی ہیں۔

    earth-2

    nasa

    ماہرین ان روشنیوں کو برقی یا روشنی کی آلودگی کا نام دیتے ہیں۔

    ایک تحقیق کے مطابق مصنوعی روشنیوں کے باعث ہماری زمین کے گرد ایک دبیز دھند لپٹ چکی ہے جس کے باعث زمین سے کہکشاؤں اور چھوٹے ستاروں کا نظارہ ہم سے چھن رہا ہے۔

    galaxy

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہماری سڑکوں کے کنارے لگی اسٹریٹ لائٹس، ہمارے گھروں اور عمارتوں کی روشنیاں آسمان کی طرف جا کر واپس پلٹتی ہیں جس کے بعد یہ فضا میں موجود ذروں اور پانی کے قطروں سے ٹکراتی ہے۔ ان کے ساتھ مل کر یہ روشنیاں ہمارے سروں پر روشنی کی تہہ سی بنا دیتی ہیں جس کی وجہ سے حقیقی آسمان ہم سے چھپ سا جاتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق دیہاتوں اور ترقی پذیر علاقوں سے ترقی یافتہ شہروں کی طرف ہجرت کے رجحان یعنی اربنائزیشن میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جس کے باعث مصنوعی روشنیوں کی آلودگی میں بھی اضافہ ہورہا ہے اور یہ فطرت اور فطری حیات کو متاثر کر رہی ہے۔

    مزید پڑھیں: روشنی کے بغیر ہماری دنیا کیسی لگے گی؟

    دوسری جانب برطانوی ماہرین کی ایک تحقیق کے مطابق برطانیہ میں مصنوعی روشنیوں کے باعث موسمیاتی پیٹرن (طریقہ کار) میں بھی تبدیلی آرہی ہے اور اس کے باعث موسم بہار ایک ہفتہ جلد آرہا ہے جس کا اثر پودوں پر بھی پڑ رہا ہے۔

    اسی طرح ایک اور تحقیق میں بتایا گیا کہ مصنوعی روشنیاں پرندوں کی تولیدی صحت پر بھی اثر انداز ہو رہی ہیں جس سے ان کی آبادی میں کمی واقع ہونے کا خدشہ ہے۔

    تو پھر آج شب 8 سے 9 بجے کے درمیان غیر ضروری روشنیوں کو بجھا دیں اور زمین سے اپنی محبت کا ثبوت دیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • کھڑکیوں پر چہچہانے والی چڑیا کہاں غائب ہوگئی؟

    کھڑکیوں پر چہچہانے والی چڑیا کہاں غائب ہوگئی؟

    کیا آپ کو یاد ہے کہ آپ نے آخری بار چڑیا کب دیکھی تھی؟ ننھی منی سی بھورے رنگ کی چڑیا اکثر و بیشتر ہمارے گھروں کی کھڑکیوں پر آ کر چہچہاتی تھی مگر اب ایک طویل عرصے سے جیسے یہ چڑیائیں غائب ہوگئی ہیں۔

    آج ان چڑیاؤں کو یاد کرنے کے لیے ان کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔

    ماہرین ماحولیات اور جنگلی حیات کا کہنا ہے کہ تیزی سے ہوتی اربنائزیشن اور شہروں کے بے ہنگم پھیلاؤ نے اس معصوم پرندے کی نسل کو خطرے کا شکار بنا دیا ہے۔

    sparrow-3

    ان چڑیاؤں کی معدومی کی وجہ وہی انسانوں کی خود غرضانہ ترقی ہے جو ماحول اور جنگلی حیات کو داؤ پر لگا کر کی جارہی ہے۔

    ہاؤس اسپیرو کہلانے والی ان چڑیاؤں کی پہلی آماجگاہ انسانی آبادی ہے تاہم یہ نسبتاً پرسکون آبادیوں کا انتخاب کرتی ہیں۔ اگر یہاں شور شرابہ، ہجوم اور آلودگی میں اضافہ ہوجائے تو یہ چڑیائیں وہاں سے چلی جاتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: مسلسل 10 ماہ تک اڑنے والا پرندہ

    جنوبی امریکی بریڈنگ برڈ سروے کے مطابق سنہ 1966 سے 2012 تک ان چڑیاؤں کی آبادی میں خاصی کمی آچکی ہے۔ صرف برطانوی دارالحکومت لندن میں سنہ 1994 سے 2001 کے دوران ان چڑیاؤں کی آبادی میں 70 فیصد کمی ہوئی۔

    sparrow-4

    اس عرصے میں کئی ممالک میں ان چڑیاؤں کی تعداد میں 50 فیصد سے زائد کمی واقع ہوچکی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ بے ہنگم شور شرابہ اور ہجوم کے علاوہ ہمارے شہروں کی روشنیاں بھی اس معصوم پرندے کے لیے نقصان دہ ہے۔

    سورج ڈھلتے ہی روشنیوں کا سیلاب، جسے اب ماہرین روشنی کی آلودگی کا نام دیتے ہیں، نہ صرف رات کے قدرتی اور خوبصورت نظاروں کو ہم سے چھین رہی ہے بلکہ یہ پرندوں کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔

    sparrow-2

    ایک تحقیق کے مطابق مصنوعی روشنیاں پرندوں کی تولیدی صحت پر اثر انداز ہو رہی ہیں جس سے ان کی آبادی میں کمی واقع ہونے کا خدشہ ہے۔

    چلتے چلتے آپ کو امریکی یونیورسٹی میں کی جانے والی ایک اور دلچسپ تحقیق سے آگاہ کرتے چلیں جس کے مطابق پرندوں کی موجودگی کسی گھر کی مالیت میں اضافہ کردیتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق گھر خریدنے والے بلبل، چڑیا یا دیگر پرندوں کی چہچاہٹ سننا بہت پسند کرتے ہیں اور جتنے زیادہ پرندے آپ کے گھر میں ہوں گے، اتنی ہی زیادہ آپ کے گھر کی مالیت میں اضافہ ہوتا جائے گا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • ہمالیائی خطے میں مصنوعی گلیشیئرز کی تخلیق

    ہمالیائی خطے میں مصنوعی گلیشیئرز کی تخلیق

    دنیا بھر میں موجود گلیشیئرز میٹھے پانی کا سب سے اہم ذریعہ ہیں جہاں سے گرمیوں میں برف پگھل کر دریاؤں میں آتی ہے۔ ہر سال برفباری میں ان گلیشیئرز پر برف جمنا، اور پھر گرمی کے موسم میں اس برف کا پگھل کر نیچے آںا دنیا بھر میں پانی کی ضروریات پورا کرنے کے لیے ضروری ہے۔

    تاہم اب درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافے کے باعث یہ گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ اس کے 2 نقصانات ہیں۔ پہلا یہ ہے کہ جب ان پگھلتے گلیشیئرز سے بہت سارا پانی دریاؤں میں آئے گا تو دریا کی سطح بلند ہوجائے گی جس سے آس پاس کی آبادیوں کو سیلاب کا سامنا ہوگا۔

    یہ سلسلہ کئی سالوں تک جاری رہے گا، آہستہ آہستہ گلیشیئرز پگھل کر ختم ہوجائیں گے جس کے بعد دریاؤں میں پانی آنا بند ہوجائے گا اور یوں پانی کی قلت واقع ہوتی جائے گی۔ یہ ان گلیشئرز کے پگھلنے کا دوسر اور خطرناک نقصان ہوگا۔

    مزید پڑھیں: پاکستان میں گلیشیئرز پگھلنے کی رفتار میں اضافہ

    ایک اور وجہ درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے سردیوں کے موسم کی مدت میں کمی ہے۔ اب دنیا بھر میں گرمیاں جلدی آجاتی ہیں، دیر تک رہتی ہیں، اور بہت شدید ہوتی ہیں جن کی وجہ سے سردیوں کا موسم مختصر وقت کے لیے آتا ہے۔

    گرمی کی شدت کی وجہ سے گلیشیئروں کی برف بھی زیادہ مقدار اور رفتار سے پگھل جاتی ہے۔

    جن مقامات پر گلیشیئرز موجود ہوتے ہیں وہ علاقے دوسرے علاقوں کی نسبت ٹھنڈے ہوتے ہیں اور اس مقام پر رہنے والے انسان اور جنگلی حیات اس ٹھنڈے موسم کے عادی ہوتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: برفانی علاقے تباہی کی جانب گامزن

    تاہم اب ان مقامات کا درجہ حرارت بڑھ گیا ہے اور یہاں معمول سے زیادہ گرمی ہو رہی ہے جس سے یہاں کے رہنے والے سخت پریشانی کا شکار ہیں۔

    اس مشکل سے کسی حد تک نمٹنے کے لیے ہمالیائی خطے میں رہنے والے ایک سائنسدان سونم ونگ چک نے ایک انوکھا طریقہ نکالا۔

    لداخ میں واقع ان کے گاؤں میں اب گلیشیئرز سے اتنا پانی نہیں آتا جس سے ان کی زمینیں سیراب ہوں یا پانی کی ضروریات پوری ہیں۔

    چنانچہ انہوں نے گاؤں والوں کی مدد سے مصنوعی گلیشیئرز تخلیق کرنا شروع کردیے۔

    ice-2

    اس کے لیے وہ سخت سردیوں کے موسم میں کسی مقام پر کچھ برف جما کر اس کے اندر ایک پائپ نصب کردیتے ہیں۔ اس پائپ کے ذریعے سے پانی نکل نکل کر گلیشیئر کے اوپر جمتا جاتا ہے جس سے مصنوعی گلیشیئر کی اونچائی میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔

    ice-4

    ice-3

    آہستہ آہستہ یہ ایک تکون پہاڑی کی شکل اختیار کرجاتا ہے۔ اسے برفانی اسٹوپا کا نام دیا گیا ہے کیونکہ یہ مہاتما بدھ کی دفن شدہ راکھ کے مقام اسٹوپا کے مماثلت سے رکھتے ہیں۔

    یورپی جیو سائنس یونین کا کہنا ہے کہ سنہ 2100 تک ہمالیہ کے 70 فیصد برفانی گلیشیئرز پگھل کر ختم ہوجائیں گے۔

    دوسری جانب درجہ حرارت میں اضافے کے باعث پاکستان میں چترال اور گلگت بلتستان میں واقع 5000 گلیشیئرز بھی تیزی سے پگھل رہے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق گزشتہ برس گرمیوں کے موسم میں گلیشیئرز سے بہنے والے پانی کے اوسط بہاؤ میں اضافہ دیکھا گیا جس سے دریائے سندھ میں بھی پانی کی سطح میں اضافہ ہوا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • فضائی آلودگی جان لینے اور بھاری مالی نقصان پہنچانے کا سبب

    فضائی آلودگی جان لینے اور بھاری مالی نقصان پہنچانے کا سبب

    فضائی آلودگی اس وقت دنیا بھر میں ایک اہم مسئلہ ہے۔ ورلڈ بینک کا کہنا ہے کہ فضائی آلودگی اس وقت دنیا میں اموات کی چوتھی بڑی وجہ ہے۔

    عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ فضائی آلودگی ہر سال 50 لاکھ سے زائد افراد کی موت کی وجہ بن رہی ہے۔ صرف چین میں ہر روز 4 ہزار (لگ بھگ 15 لاکھ سالانہ) افراد بدترین فضائی آلودگی کے سبب موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔

    دوسرے نمبر پر بھارت 11 لاکھ اموات کے ساتھ موجود ہے۔

    مزید پڑھیں: بدترین فضائی آلودگی کا شکار 10 ممالک

    یاد رہے کہ کسی شہر میں فضائی آلودگی وہاں کے رہنے والوں کو مختلف سانس کی بیماریوں، پھیپھڑوں کے مسائل، ہائی بلڈ پریشر حتیٰ کہ دماغی بیماریوں جیسے الزائمر اور ڈیمینشیا تک میں مبتلا کر سکتی ہے۔

    اس سے قبل ایک تحقیق کے دوران کیے جانے والے ایک دماغی اسکین میں فضا میں موجود آلودہ ذرات دماغ کے ٹشوز میں پائے گئے تھے۔ ماہرین کے مطابق یہ آلودہ ذرات الزائمر سمیت مختلف دماغی بیماریوں کا سبب بن سکتے ہے۔

    دوسری جانب اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال یونیسف کا کہنا ہے کہ دنیا کا ہر 7 میں سے ایک بچہ بدترین فضائی آلودگی اور اس کے خطرات کا شکار ہے۔ رپورٹ کے مطابق فضا میں موجود آلودگی کے ذرات بچوں کے زیر نشونما اندرونی جسمانی اعضا کو متاثر کرتے ہیں۔

    رپورٹ میں بتایا گیا کہ یہ نہ صرف ان کے پھیپھڑوں کو نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ خون میں شامل ہو کر دماغی خلیات کو بھی نقصان پہنچانے کا سبب بنتے ہیں جس سے ان کی دماغی استعداد میں کمی واقع ہونے کا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے۔

    ورلڈ بینک کا کہنا ہے کہ فضائی آلودگی نہ صرف طبی مسائل کا باعث بنتی ہے، بلکہ یہ کسی ملک کی معیشت کے لیے بڑے خسارے کا سبب بھی بنتی ہے۔ سنہ 2013 میں فضائی آلودگی کی وجہ سے مختلف ممالک کی معیشتوں کو مجموعی طور پر 225 بلین ڈالرز کا نقصان اٹھانا پڑا۔

    اس سے قبل چین میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق فضائی آلودگی ان لوگوں پر خاص طور پر منفی اثرات ڈالتی ہے جو کھلی فضا میں کام کرتے ہیں جیسے مزدور اور کسان وغیرہ۔

    ماہرین کے مطابق یہ کھلی فضا میں کام کرنے والے افراد کی استعداد کو متاثر کرتی ہے جس کے نتیجے میں ان کی کارکردگی میں کمی واقع ہوجاتی ہے اور یوں قومی پیداوار اور معیشت پر منفی اثر پڑتا ہے۔

    مزید پڑھیں: آلودگی سے سڑکوں اور پلوں کی تعمیر ممکن

    کچھ عرصہ قبل ورلڈ بینک نے فضائی آلودگی کے نقصانات کے حوالے سے ایک تفصیلی انفو گرافک جاری کیا جس میں بتایا گیا کہ فضائی آلودگی کس طرح منفی طور پر اثر انداز ہوتی ہے۔

    انفو گرافک میں فضائی آلودگی کو ہر 10 میں سے 1 موت کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔

    آئیے آپ بھی وہ انفو گرافک دیکھیئے۔

    info


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • کلائمٹ چینج فضائی سفر کو غیر محفوظ بنانے کا سبب

    کلائمٹ چینج فضائی سفر کو غیر محفوظ بنانے کا سبب

    دنیا بھر میں موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کے نقصانات دن بدن سامنے آتے جارہے ہیں اور حال ہی میں ایک تحقیق میں متنبہ کیا گیا کہ کلائمٹ چینج کے باعث مستقبل کے فضائی سفر غیر محفوظ ہوجائیں گے۔

    انگلینڈ کی یونیورسٹی آف ریڈنگ میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق کلائمٹ چینج مستقبل میں فضائی سفر کو بے حد غیر محفوظ بنا دے گا جس کے بعد پروازوں کے نا ہموار ہونے کے باعث مسافروں کے زخمی ہونے اور دوران سفر ان میں بے چینی اور گھبراہٹ میں مبتلا ہونے کے امکانات میں اضافہ ہوجائے گا۔

    مزید پڑھیں: فضائی حادثے کی صورت میں ان اقدامات سے جان بچانا ممکن

    تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا کہ ان ناہموار پروازوں کی وجہ سے جہازوں کو نقصان پہنچنے کی شرح میں بھی اضافہ ہوجائے گا جس کے بعد جہازوں کی مینٹینس پر اضافی رقم خرچ ہوگی، یوں فضائی سفر، سفر کا مزید مہنگا ذریعہ بن جائے گا۔

    ماہرین نے اس تحقیق کے لیے شمالی بحر اقیانوس کے اوپر فضائی گزرگاہ کا مطالعہ کیا۔ ماہرین کے مطابق فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کی مقدار میں اضافہ پروازوں کی رفتار اور ہمواری پر منفی اثر ڈالے گا۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ کلائمٹ چینج کے ان منفی اثرات کی وجہ سے فضائی سفر کی خطرناکی میں 59 فیصد اضافہ ہوجائے گا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ فضائی سفر کے دوران پرواز کا معمولی سا ناہموار ہونا معمول کی بات ہے اور یہ زیادہ سے زیادہ مسافروں کو متلی اور گھبراہٹ میں مبتلا کرسکتا ہے۔

    مزید پڑھیں: ہوائی جہاز کے بارے میں 8 حیرت انگیز حقائق

    تاہم مستقبل کی جو تصویر سامنے آرہی ہے، اس کے مطابق فضائی سفر میں مسافروں کو گہرے زخم لگنے کا خدشہ ہوگا۔

    ان کے مطابق فضائی سفر کی یہ ناہمواری اس قدر خطرناک ہوجائے گی کہ جہاز کے لینڈ کرتے ہی جہاز میں سوار تمام مسافروں کو اسپتال منتقل کرنا ہوگا تاکہ انہیں طبی امداد فراہم کی جاسکے۔

    تحقیق میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ آیا یہ اثرات صرف بحر اقیانوس کے اوپر پروازوں پر مرتب ہوں گے یا دیگر خطوں میں بھی ایسی صورتحال پیش آئے گی۔

    تاہم ماہرین نے یہ ضرور کہا کہ جس علاقے میں موسمیاتی تغیرات کے جتنے زیادہ نقصانات مرتب ہوں گے، وہاں فضائی سفر اتنا ہی خطرناک ہوتا جائے گا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔