Tag: ماحولیات

  • کلائمٹ چینج سے زمین پر نقصانات کا انوکھا مظاہرہ

    کلائمٹ چینج سے زمین پر نقصانات کا انوکھا مظاہرہ

    دنیا بھر میں موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج اور زمین کو اس سے ہونے والے نقصانات سے آگاہی دینے پر بے تحاشہ کام کیا جارہا ہے تاہم ابھی بھی ماہرین اپنے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے اور لوگوں میں زمین اور ماحول سے محبت کا شعور جگانے میں ناکام رہے ہیں۔

    ایسی ہی ایک مثال بھارت میں بھی پیش کی گئی جہاں لوگوں کو نہایت انوکھے طریقے سے کلائمٹ چینج کے نقصانات کی طرف متوجہ کروایا گیا۔

    بھارت کے ایک پنج ستارہ ہوٹل میں 120 کلو گرام چاکلیٹ سے زمین کا ماڈل بنایا گیا۔

    اس کے بعد ہوٹل میں ہر چاکلیٹ ڈش کے آرڈر کو پورا کرنے کے لیے اسی ’زمین‘ سے چاکلیٹ کاٹا جانے لگا۔

    نتیجتاً ہر آرڈر کے ساتھ زمین کا حجم کم ہونے لگا اور وہ غیر متوازن ہونے لگی۔

    وہاں موجود لوگوں سے کہا گیا کہ وہ اس عمل کو روک سکتے ہیں اور اس کے لیے انہیں سوشل میڈیا پر اس زمین کی تصویر اور ایک ماحول دوست پیغام شیئر کرنا ہوگا۔

    ہر سوشل میڈیا پوسٹ کے ساتھ چاکلیٹ سے بنی اس زمین میں چاکلیٹ دوبارہ شامل کی جانے لگی۔

    تاہم ان سوشل میڈیا پوسٹس کی تعداد، چاکلیٹ ڈشز آرڈر کرنے والے آرڈرز کی تعداد سے نہایت کم تھی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جلد ہی چاکلیٹ سے بنی اس زمین میں بڑے بڑے گڑھے بن گئے اور وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی۔

    اس آئیڈیے کے تخلیق کاروں کا کہنا ہے کہ ان کی اس کوشش کا مقصد لوگوں کو یہ باور کروانا ہے کہ اپنی زمین کو پہنچنے والے نقصانات کے ذمہ دار کوئی اور نہیں بلکہ ہم خود انسان ہی ہیں۔

    کلائمٹ چینج سے متعلق مزید مضامین پڑھیں


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • سمندروں اور دریاؤں کی صفائی کرنے والا پہیہ

    سمندروں اور دریاؤں کی صفائی کرنے والا پہیہ

    آبی آلودگی ایک بڑا ماحولیاتی مسئلہ ہے جو سمندروں اور دریاؤں میں رہنے والی آبی حیات کو سخت نقصان پہنچا رہی ہے۔ سمندر کی مچھلیوں کا آلودہ پانی میں افزائش پانا اور پھر اس مچھلی کا ہماری غذا میں شامل ہونا ہمیں بھی نقصان پہنچانے کا سبب بن رہا ہے۔

    علاوہ ازیں دریاؤں کے قابل استعمال میٹھے پانی کی آلودگی بھی انسانی صحت کو شدید خطرات کا شکار بنا رہی ہے۔

    ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال 3.4 ملین افراد گندے پانی کے باعث پیدا ہونے والی بیماریوں سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔ ان بیماریوں میں ٹائیفائیڈ، ہیپاٹائٹس، ڈائریا اور ہیضہ شامل ہیں۔

    مزید پڑھیں: آبی آلودگی سے دنیا بھر کی آبادی طبی خطرات کا شکار

    تاہم حال ہی میں امریکی ماہرین نے ایسا پہیہ ایجاد کیا ہے جو دریاؤں اور سمندروں کی صفائی کر کے اس میں سے ٹنوں کچرا باہر نکال سکتا ہے۔

    امریکی ریاست میری لینڈ کے ساحلی شہر بالٹی مور میں آزمائشی تجربے کے موقع پر اس پہیہ نے سمندر سے 50 ہزار پاؤنڈ کچرا نکالا۔

    یہ تجربہ بالٹی مور کی بندرگاہ پر انجام دیا گیا جہاں جہازوں کی آمد و رفت اور دیگر تجارتی سرگرمیوں کی وجہ سے بے تحاشہ کچرا سمندر میں پھینک دیا جاتا ہے۔

    اس پہیہ پر شمسی توانائی کے پینلز نصب کیے گئے ہیں جو اسے فعال رکھتے ہیں۔ پہیہ استعمال کے لیے کسی بحری جہاز یا چھوٹی کشتی پر نصب کیا جاتا ہے جس کے بعد یہ تیرتے ہوئے سمندر میں سے کچرا نکالتا جاتا ہے۔

    اسے تیار کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کو بنانے کا مقصد سمندر کی آلودگی میں کمی کرنا اور بندرگاہ کو تیراکی کے لیے محفوظ بنانا ہے۔

    یاد رہے کہ اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کی جانے والی ایک رپورٹ میں متنبہ کیا گیا ہے کہ افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکا میں آبی آلودگی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جس کے باعث 30 کروڑ افراد کو صحت کے سنگین مسائل لاحق ہوسکتے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • پلاسٹک کی بوتلوں سے بنائے گئے جوتے

    پلاسٹک کی بوتلوں سے بنائے گئے جوتے

    ہماری زندگیوں میں پلاسٹک کی بوتلوں کا استعمال نہایت عام ہے۔ پینے کے پانی سے لے کر مختلف کاموں میں پلاسٹک کی بوتلوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ پینے کے لیے استعمال کی جانے والی پلاسٹک کی بوتلیں عام پلاسٹک سے کہیں زیادہ مضر ہیں۔

    ان کے مطابق جیسے جیسے پلاسٹک کی بوتل پرانی ہوتی جاتی ہے اس کی تہہ کمزور ہوتی جاتی ہے اور اس میں سے پلاسٹک کے ذرات جھڑ کر پانی میں شامل ہوجاتے ہیں۔ یہ ذرات پانی کے ساتھ ہمارے جسم میں داخل ہو کر کینسر، ذیابیطس اور امراض قلب سمیت دیگر کئی بیماریوں کا سبب بن سکتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: برطانیہ میں پلاسٹک بیگ کا استعمال ختم کرنے کے لیے انوکھا قانون

    ان بوتلوں کو استعمال کے بعد ٹھکانے لگانا بھی ایک مسئلہ ہے۔ چونک پلاسٹک ایک ایسا مادہ ہے جو زمین میں تلف ہونے کے لیے ہزاروں سال لیتا ہے اس لیے اس کی تلفی سائنسدانوں کے لیے ایک درد سر ہے۔

    اسی مسئلے کو مدنظر رکھتے ہوئے کچھ سائنسدانوں نے ان استعمال شدہ بوتلوں سے جوتے بنانے کا تجربہ کیا جو کامیاب رہا۔

    اس مقصد کے لیے ہزاروں بوتلیں جمع کی گئیں جنہیں پیس کر چھوٹے چھوٹے ذرات میں تبدیل کیا گیا۔ اس کے بعد انہیں دھاگوں سے ملا کر جوتوں کی شکل میں ڈھالا گیا۔

    پلاسٹک کی بوتل کے برعکس یہ جوتے نہایت نرم اور پہننے میں آرام دہ ہیں۔

    مزید پڑھیں: گرم موسم سے لڑنے کے لیے پلاسٹک کا لباس تیار

    اسے بنانے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح وہ ایک ماحول دوست فیشن کو فروغ دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس سے قبل ایسی اشیا جو ماحول دوست تھیں دیکھنے میں اچھی نہیں لگتی تھیں اور فیشن انڈسٹری انہیں قبول کرنے میں متعامل تھی، لیکن یہ جوتے فیشن اور اسٹائل کے تقاضوں کو بھی پورا کرتے ہیں۔

    تو اب آپ جب بھی پلاسٹک کی بوتل کا استعمال کریں، اسے پھینکنے کے بجائے ری سائیکل بن میں ڈالیں، ہوسکتا ہے وہ ری سائیکل ہو کر آپ ہی کے پاؤں کی زینت بن جائیں۔

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • جانوروں کی عظیم معدومی کا ذمہ دار حضرت انسان

    جانوروں کی عظیم معدومی کا ذمہ دار حضرت انسان

    دنیا میں انسانوں کی آمد سے قبل اور ان کی آمد کے ابتدائی کچھ عرصے تک دنیا میں بے شمار قوی الجثہ جانور بھی موجود تھے جو آہستہ آہستہ معدوم ہوتے چلے گئے۔

    ایک عام خیال ہے کہ ان جانوروں کی معدومی کی وجہ بدلتا موسم یعنی کلائمٹ چینج تھا۔ یہ جانور بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور اس کی وجہ سے رونما ہوتی خشک سالیوں سے مطابقت نہیں کر سکے اور ختم ہوگئے۔

    لیکن حال ہی میں ایک تحقیق نے اس خیال کی نفی کرتے ہوئے انسانوں کو اس کا ذمہ دار قرار دے دیا۔

    جرنل نیچر کمیونیکشنز نامی جریدے میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق انسانوں کی اس دنیا پر آمد کے مختصر عرصہ بعد آسٹریلیا کے 80 فیصد بڑے ممالیہ، پرندے اور رینگنے والے جانور معدوم ہوگئے تھے۔

    مزید پڑھیں: کیا ہم جانوروں کو معدومی سے بچا سکیں گے؟

    اس سے قبل سنہ 2013 میں نیشنل اکیڈمی آف سائنس میں ایک تحقیق پیش کی گئی تھی جس میں بتایا گیا کہ جس وقت انسان اس دنیا پر آیا، اس وقت وہاں موجود قوی الجثہ جانور پہلے ہی معدومی کی طرف گامزن تھے۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ اس وقت انسانوں نے کسی ایک جانور کو بھی شکار نہیں کیا۔ اس وقت موجود زیادہ تر انسان سبزی خور تھے۔

    لیکن اس کے برعکس حالیہ تحقیق میں کہا گیا کہ انسانوں نے اپنی آمد کے بعد بے دریغ شکار کیا جس کی وجہ سے ایک ’عظیم معدومی‘ رونما ہوئی۔

    ماہرین نے اس تحقیق کے لیے کم از کم ڈیڑھ لاکھ سال قبل زمین پر موجود نباتات اور خوردبینی جانداروں کے رکاز کا بغور جائزہ لیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈیڑھ لاکھ سال قبل زمین پر مختلف اقسام کی جنگلی حیات اور نباتات موجود تھی، تاہم صرف کچھ ہی عرصے بعد یکایک ان کا نام و نشان تک مٹ گیا۔

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس عرصے میں صرف انسان کی آمد ہی ایسا واقعہ تھی جو زمین پر کسی بڑی تبدیلی کا سبب بن سکتی تھی۔ یعنی اس دوران ماحولیاتی تبدیلی یا موسمیاتی تغیرات کے حوالے سے ایسا کوئی بڑا واقعہ رونما نہیں ہوا جو جانوروں کی عظیم معدومی کا سبب بن سکے۔

    مزید پڑھیں: گرم موسم کے باعث جنگلی حیات کی معدومی کا خدشہ

    یاد رہے کہ انسان کی اس زمین پر عمر 2 لاکھ سال ہے یعنی 2 لاکھ سال قبل زمین پر انسانوں کا کوئی وجود نہیں تھا۔

    تحقیق میں واضح کیا گیا کہ اس بات کے کوئی شواہد نہیں ملے کہ کسی ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے کسی قسم کی کوئی نباتات معدوم ہوئی ہو یا کسی علاقے میں خشک سالی کی وجہ سے وہاں کے جانور آہستہ آہستہ موت کا شکار ہوگئے ہوں۔

    گویا اس تحقیق نے واضح طور انسانوں کو جانوروں کی معدومی کی سب سے بڑی وجہ قرار دے دیا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • کلائمٹ چینج مایا تہذیب کے خاتمے کی وجہ

    کلائمٹ چینج مایا تہذیب کے خاتمے کی وجہ

    مایا تہذیب ایک قدیم میسو امریکی تہذیب ہے جو شمال وسطی امریکہ میں پھیلی ہوئی تھی۔ یہ تہذیب موجودہ میکسیکو، ہونڈراس اور گوئٹے مالا کے علاقے پر محیط تھی۔

    یہ تہذیب حضرت عیسیٰ کی آمد سے کئی سو سال پہلے سے دنیا میں موجود تھی تاہم اس کا عروج 250 عیسوی کے بعد شروع ہوا جو تقریباً نویں صدی تک جاری رہا۔

    مایا تہذیب کے لوگ نہایت ذہین اور ترقی یافتہ تھے۔ یہ تہذیب میسو امریکا کی دیگر اقوام سے یوں ممتاز تھی کہ انہوں نے بہت پہلے لکھنا سیکھ لیا تھا۔ ان کا اپنا طرز تحریر اور رسم الخط تھا۔

    ان کی ایک اور خصوصیت ریاضی اور علم فلکیات میں ان کی مہارت تھی۔ مایا دور کی تعمیر کردہ عمارتوں کی پیمائش اور حساب آج بھی ماہرین کو دنگ کردیتی ہے۔ یہ قوم فن اور تعمیرات کے شعبے میں بھی یکتا تھی۔


    مایا تہذیب کا زوال

    قدیم دور کی نہایت ترقی یافتہ یہ تہذیب کیوں زوال پذیر ہوئی، یہ سوال آج تک تاریخ کے پراسرار رازوں میں سے ایک تھا، تاہم کچھ عرصہ قبل کی جانے والی ایک تحقیق نے کسی حد تک اس راز سے پردہ اٹھا دیا ہے۔

    مایا قوم ہسپانویوں کے حملے کا شکار بھی بنی اور ہسپانویوں نے انہیں بے تحاشہ نقصان پہنچایا، تاہم وہ اس قوم کو مکمل طور پر زوال پذیر کرنے میں ناکام رہے۔

    محققین کے مطابق ہسپانویوں کے قبضے کے دوران اور بعد میں بھی اس قوم کی ترقی کا سفر جاری تھا۔

    لیکن وہ کون سی وجہ تھی جس نے اس ذہین و فطین قوم کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی تہذیب کے خاتمے کی عمومی وجوہات بیرونی حملہ آوروں کے حملے، خانہ جنگی، یا تجارتی طور پر زوال پذیر ہونا ہوتے ہیں۔

    تاہم ایک اور وجہ بھی ہے جس پر اس سے قبل بہت کم تحقیق کی گئی یا اسے بہت سرسری سی نظر سے دیکھا گیا۔

    سنہ 1990 سے جب باقاعدہ طور پر موجودہ اور قدیم ادوار کے موسموں کا ریکارڈ رکھنا شروع کیا گیا تب ماہرین پر انکشاف ہوا کہ موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج اس عظیم تہذیب کے زوال کی وجہ بنا۔

    مزید پڑھیں: تاریخی دریائے نیل کلائمٹ چینج کی ستم ظریفی کا شکار

    ماہرین کا کہنا ہے کہ سنہ 250 عیسوی سے 800 عیسوی تک یہ تہذیب اپنے عروج پر تھی۔ یہ وہ دور تھا جب یہاں بے تحاشہ بارشیں ہوتی تھیں، اور یہاں کی زمین نہایت زرخیز تھیں۔

    تاہم حالیہ تحقیق سے انکشاف ہوا کہ سنہ 820 عیسوی میں یہاں خشک سالی اور قحط کا باقاعدہ سلسلہ شروع ہوگیا جو اگلے 95 سال تک جاری رہا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ مایا تہذیب کے زیادہ تر شہر اسی عرصے کے دوران زوال پذیر ہونا شروع ہوئے۔ یہ نویں صدی کا شدید ترین کلائمٹ چینج تھا جس نے ایک عظیم تہذیب کو زوال کی طرف گامزن کردیا۔

    تاہم اس قحط سے تمام شہر متاثر نہیں ہوئے۔ کچھ شہر اس تباہ کن قحط کے عالم میں بھی اپنے قدموں پر کھڑے رہے۔

    تحقیق کے مطابق نویں صدی کا یہ قحط پورے خطے میں نہیں آیا بلکہ اس نے مایا تہذیب کے جنوبی حصوں کو متاثر کیا جہاں اس وقت گوئٹے مالا اور برازیل کے شہر موجود ہیں۔

    اس عرصے کے دوران شمالی شہر معمول کے مطابق ترقی کرتے رہے اور وہاں کاروبار زندگی بھی رواں رہا۔

    ماہرین موسم کے اس انوکھے تغیر پر مشکوک ہیں کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ موسمیاتی تغیر صرف ایک حصے کو متاثر کرے جبکہ دوسرا حصہ ذرا بھی متاثر نہ ہو، تاہم وہ اس کلائمٹک شفٹ کی توجیہہ تلاش کرنے میں ناکام رہے۔


    عظیم قحط

    مایا تہذیب کے بارے میں حال ہی میں کی جانے والی اس تحقیق کے مطابق نویں صدی کا یہ قحط جب اختتام پذیر ہوا تو دسویں صدی میں موسم ایک بار پھر سے معمول پر آنے لگا۔ قحط سے متاثر شہر ایک بار پھر خوشحال اور زرخیز ہونے لگے۔

    تاہم یہ بحالی عارضی تھی۔

    گیارہویں صدی کے آغاز سے ہی ایک ہولناک اور تباہ کن قحط اس خطے میں در آیا کہ جو 2 ہزار سال کی تاریخ کا بدترین قحط تھا۔ ماہرین نے اس قحط کو عظیم قحط کا نام دیا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ قحط اس تہذیب کے لیے ایک کاری وار تھا جس کے بعد یہ تہذیب سنبھل نہ سکی اور بہت جلد اپنے زوال کو پہنچ گئی۔

    مضمون بشکریہ: بی بی سی ارتھ


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • سورج مکھی کی طرح سورج کا تعاقب کرتا شمسی پینل

    سورج مکھی کی طرح سورج کا تعاقب کرتا شمسی پینل

    توانائی کے تیزی سے گھٹتے وسائل کے باعث دنیا بھر میں اب قابل تجدید اور ماحول دوست توانائی کے ذرائع پر کام کیا جارہا ہے اور اس سلسلے میں شمسی توانائی گو کہ مہنگا ذریعہ ہے، تاہم ماحول دوست اور نہایت فائدہ مند ہے۔

    حال ہی میں ماہرین نے شمسی توانائی کے ایسے پینل بنائے ہیں جو سورج مکھی کے پھول کی طرح سورج کا تعاقب کریں گے اور اس سے روشنی حاصل کر کے توانائی پیدا کریں گے۔

    solar-2


    اسمارٹ فلاور

    اسمارٹ فلاور نامی یہ پینل عام شمسی پینلوں سے 40 فیصد زیادہ توانائی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

    یہ پینل خود بخود کھلنے اور بند ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ سورج نکلتے ہی یہ کھل کر پھیل جاتے ہیں اور دن بھر سورج کی حرکت کے ساتھ ساتھ گردش کرتے ہیں۔ سورج ڈھلتے ہی یہ خود کار طریقے سے بند ہوجاتے ہیں۔

    solar-4

    اسی طرح بادلوں، تیز ہوا یا بارش کے وقت بھی یہ خود ہی بند ہوجاتے ہیں۔

    سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس شمسی پھول کا خیال قدرتی پھولوں سے اخذ کیا گیا ہے۔ پھول بھی سورج سے توانائی حاصل کر کے اپنی غذا بناتے ہیں جسے فوٹو سینتھسس کا عمل کہا جاتا ہے۔

    solar-3

    یہ شمسی پھول فی الحال تجرباتی مراحل میں ہے اور بہت جلد اسے عام افراد کے لیے پیش کردیا جائے گا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • معدومی کا شکار جانور اور انہیں لاحق خطرات ایک تصویر میں قید

    معدومی کا شکار جانور اور انہیں لاحق خطرات ایک تصویر میں قید

    ماہرین کے مطابق جیسے جیسے ہماری زمین پر غیر فطری عوامل جیسے کلائمٹ چینج یعنی موسمیاتی تغیر اور گلوبل وارمنگ یعنی عالمی حدت میں اضافہ ہورہا ہے ویسے ویسے کرہ ارض پر رہنے والے ہر جاندار کی بقا خطرے میں پڑ رہی ہے۔

    اسی صورتحال کی طرف توجہ دلانے کے لیے ناروے سے تعلق رکھنے والے ایک آرٹسٹ اینڈریاس لی نے جنگلی حیات کی دہری عکسی تصاویر تخلیق کی ہیں۔ جنگلی حیات کی تصاویر کی نمائش کا مرکزی خیال گلوبل وارمنگ تھا۔

    مزید پڑھیں: فطرت کے تحفظ کے لیے آپ کیا کرسکتے ہیں؟

    مزید پڑھیں: غیر قانونی فارمز چیتوں کی بقا کے لیے خطرہ

    ان کا کہنا تھا کہ کلائمٹ چینج کے باعث جنگلی حیات کی کئی اقسام کو معدومی کا خطرہ لاحق ہے اور انہوں نے اسی خطرے کو اجاگر کرنے کا سوچا۔

    انہوں نے اپنی نمائش میں 5 ایسے جانوروں کی دہرے عکس میں تصاویر پیش کیں جنہیں ماہرین خطرے کا شکار قرار دے چکے ہیں۔ ان جانوروں کو بدلتے موسموں کے باعث معدومی کا شدید خطرہ لاحق ہے۔

    art-5

    بارہ سنگھا۔

    art-1

    برفانی ریچھ۔

    art-2

    چیتا۔

    اینڈریاس نے ان جانوروں کی شبیہہ میں انہیں لاحق خطرات کو ایک اور عکس کی صورت میں پیش کیا۔

    art-3

    ہاتھی۔

    art-4

    برفانی چیتا۔

    واضح رہے کہ ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ درجہ حرارت میں اضافے کے باعث دنیا میں موجود ایک چوتھائی جنگلی حیات 2050 تک معدوم ہوجائے گی۔ اس سے قبل کلائمٹ چینج کے باعث آسٹریلیا میں پائے جانے والے ایک چوہے کی نسل بھی معدوم ہوچکی ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • چار سالوں کا کچرا ایک چھوٹے سے جار میں

    چار سالوں کا کچرا ایک چھوٹے سے جار میں

    آپ اپنی روزمرہ زندگی میں کتنی چیزیں پھینک دیتے ہیں؟ یقیناً بہت ساری۔ لیکن نیویارک میں ایک خاتون اس قدر کم کچرا پھینکتی ہیں کہ ان کے 4 سال کا کچرا ایک چھوٹے سے جار میں سما سکتا ہے۔

    نیویارک کی رہائشی لورین سنگر زیرو ویسٹ طرز زندگی گزار رہی ہیں یعنی اپنے ماحول کی کم سے کم چیزوں کو ضائع کرنا۔

    jar-2

    وہ استعمال کی ہوئی چیزوں کو دوبارہ استعمال یعنی ری سائیکل کرتی ہیں۔

    jar-5

    یہی نہیں وہ اپنے گھر میں استعمال ہونے والی اکثر چیزیں مختلف چیزوں کے ذریعہ خود ہی تیار کرتی ہیں۔

    اس کی ایک مثال درخت کی ٹہنی سے بنایا ہوا ٹوتھ برش ہے جسے وہ کئی سالوں سے استعمال کر رہی ہیں۔

    jar-4

    واضح رہے کہ امریکا میں ہر شخص روزانہ اوسطاً 4.4 پاؤنڈ کچرا پھینکتا ہے۔

    لورین کہتی ہیں کہ انہیں اس طرح زندگی گزارتے ہوئے 4 سال ہوگئے لیکن انہیں ایک بار بھی اسے تبدیل کرنے کا خیال نہیں آیا۔

    jar-3

    وہ کہتی ہیں کہ کم سے کم چیزیں ضائع کرنا ماحول کے لیے ایک بہترین قدم ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • ملک بھر میں اگلے 5 برسوں میں 10 کروڑ درخت لگانے کا فیصلہ

    ملک بھر میں اگلے 5 برسوں میں 10 کروڑ درخت لگانے کا فیصلہ

    اسلام آباد: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے موسمیاتی تغیرات (کلائمٹ چینج) کو آگاہ کیا گیا ہے کہ اگلے 5 سالوں میں ملک بھر میں 10 کروڑ درخت لگائے جائیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق سینیٹر میر محمد یوسف بدینی کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے موسمیاتی تغیرات (کلائمٹ چینج) کا اجلاس منعقد ہوا۔

    اجلاس میں آئی جی جنگلات محمود ناصر نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ اگلے 5 برسوں میں ملک بھر میں درختوں کے کنارے 10 کروڑ درخت لگائے جائیں گے جبکہ تیمر (مینگرووز) کے جنگلات میں بھی اضافہ کیا جائے گا۔

    محمود ناصر نے بتایا کہ سنہ 2011 سے 2106 تک چاروں صوبوں، آزاد جموں و کشمیر، گلگت بلتستان اور فاٹا میں 7 کروڑ سے زائد درخت لگائے گئے۔

    ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اب تک درخت کی کوئی خاص تعریف مقرر نہیں تھی، تاہم اب سے ہر 3 میٹر سے اونچا پودا درخت میں شمار کیا جائے گا۔

    کمیٹی کے اجلاس میں ارکان کو گرین کلائمٹ فنڈ کے بارے میں بھی بریفنگ دی گئی۔

    اس موقع پر سینیٹر محمد علی خان سیف کا کہنا تھا کہ یہ ایک عام بات ہے کہ ماحولیات کی مد میں ملنے والے فنڈز سے پرتعیش گاڑیاں خرید لی جاتی ہیں جس سے فنڈ دینے والوں کی نظر میں منفی تاثر پیدا ہوتا ہے۔

    کمیٹی نے وزارت کلائمٹ چینج کے حکام کو ہدایت کی کہ اس مد میں ملنے والے تمام فنڈز کو درست جگہ پر استعمال کیا جائے اور انہیں ضائع نہ ہونے دیا جائے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • کلائمٹ چینج کے باعث خطرے کا شکار 5 تاریخی مقامات

    کلائمٹ چینج کے باعث خطرے کا شکار 5 تاریخی مقامات

    کلائمٹ چینج یا موسمیاتی تغیر جہاں دنیا بھر کی معیشت، امن و امان اور جنگلی حیات اور انسانوں کے لیے ایک خطرہ بنتا جارہا ہے وہاں ماہرین کے مطابق تاریخ و تہذیب بھی اس سے متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔

    کلائمٹ چینج کے باعث جہاں ایک طرف کئی شہروں کے صفحہ ہستی سے مٹ جانے کا خدشہ ظاہر کیا جاچکا ہے، وہیں حال ہی میں جاری کی جانے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کلائمٹ چینج کے باعث دنیا کے کئی تاریخی مقامات اور تہذیبی ورثے بھی معدوم ہوجائیں گے۔

    یہ رپورٹ اقوام متحدہ کی تعلیم، سائنس اور تاریخ کے لیے کام کرنے والی ذیلی شاخ یونیسکو کی جانب سے جاری کی گئی ہے۔

    رپورٹ میں ان مقامات کو لاحق مختلف بالواسطہ یا بلا واسطہ خطرات کا جائزہ لیا گیا اور ماہرین کا متفقہ فیصلہ ہے کہ کلائمٹ چینج ان میں سے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ چونکہ تاریخی مقامات کو ان کی جگہ سے منتقل نہیں جاسکتا لہٰذا اس علاقہ کو لاحق موسمی خطرات جیسے قحط، سیلاب یا شدید موسم سے بچانا ناممکن ہے۔

    رپورٹ میں شامل کلائمٹ چینج کے باعث خطرے کا شکار کچھ مقامات یہ ہیں۔

    مجسمہ آزادی ۔ نیویارک، امریکا

    cc 1

    یہ ناممکن نظر آتا ہے کہ 225 ٹن تانبے اور لوہے سے بنے ہوئے اس مجسمے کو کسی قسم کے خطرے کا سامنا ہے مگر حقیقت یہی ہے۔ سطح سمندر میں اضافہ اور امریکا میں حالیہ چند برسوں میں آنے والے کئی طوفانوں نے اس مجسمے کو بھی خطرے کی فہرست میں شامل کردیا ہے۔

    سنہ 2012 میں آنے والے سینڈی طوفان کے باعث وہ جزیرہ جس پر یہ مجسمہ قائم ہے، 75 فیصد سے زائد سمندر برد ہوچکا ہے جبکہ اس کے قریب واقع ایلس جزیرہ بھی تباہی کا شکار ہوچکا ہے۔

    ماہرین کے مطابق تاحال تو یہ مجسمہ کسی نقصان سے محفوظ ہے لیکن موسمی تغیرات کے باعث سطح سمندر میں اضافہ اور بڑھتے ہوئے طوفان اس کے لیے ایک بڑا خطرہ ہیں۔

    میسا وردی نیشنل پارک ۔ کولوراڈو، امریکا

    cc2

    کولوراڈو میں واقع تاریخی میسا وردی نیشنل پارک قحط کے باعث تباہی کے خطرے سے دوچار ہے۔ درجہ حرارت میں اضافہ اور بارشوں میں کمی کے باعث پارک میں واقع قدیم اور تاریخی درختوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔

    دوسری جانب درجہ حرارت میں اضافہ کے باعث درختوں میں آگ لگنے کا خدشہ بھی ہے۔

    cc3

    خشک سالی کے باعث یہاں رہنے والے مقامی افراد پہلے ہی نقل مکانی کر چکے ہیں۔ علاوہ ازیں یہاں مٹی کے کٹاؤ کا عمل بھی جاری ہے جس کے باعث یہ پارک شدید خطرات کا شکار ہے۔

    کارٹیجینا کا قلعہ ۔ کولمبیا

    cc-4

    کولمبیا میں غرب الہند کے ساحل پر واقع کارٹیجینا کا قلعہ یہاں کے طویل عسکری استعماریت کا یادگار ہے۔ یہ ملک کے تاریخی و تفریحی مقامات میں سے ایک ہے اور سطح سمندر میں اضافے کے باعث تباہی سے دوچار ہے۔

    یہ قلعہ ابھی بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے تاہم اس کی بحالی کے لیے کئی منصوبوں پر کام جاری ہے۔

    راپا نوئی نیشنل پارک ۔ چلی

    cc-5

    چلی کے مشرقی جزیرے میں واقع یہ نیشنل پارک کسی نامعلوم تہذیب کی یادگار ہے اور ماہرین ابھی تک مخمصہ کا شکار ہیں کہ یہاں بنائے گئے سر آخر کس چیز کی نشانی ہیں۔

    cc-7

    اس تہذیبی ورثے کو سمندر کی لہروں میں اضافے اور زمینی کٹاؤ کے باعث معدومی کا خطرہ ہے۔ سطح سمندر میں اضافہ اس تہذیبی یادگار اور اس کے نیچے موجود جزیرے دونوں کے لیے خطرہ ہے۔

    مزید پڑھیں: زمین میں نصب ان بڑے بڑے سروں کے نیچے کیا ہے؟

    اسٹون ہینج ۔ انگلینڈ

    cc-6

    دس ہزار قبل مسیح کی نیولیتھک تہذیب کی یادگار پتھروں کا یہ مجموعہ جسے اسٹون ہینج بھی کہا جاتا ہے، خطرے کا شکار ہے۔ اس کی وجہ تو یہاں پائے جانے والے چھچھوندر ہیں تاہم ان کی افزائش کا سبب کلائمٹ چینج ہی ہے۔

    زمین میں کھدائی کرنے والے اس جانور کی افزائش درجہ حرارت میں اضافہ کے باعث بڑھ رہی ہے جس سے اس تاریخی مقام پر زمینی کٹاؤ ہوسکتا ہے۔ انگلینڈ کی بارشیں اور ان کے باعث پیدا ہونے والے سیلاب بھی اس مقام کی تباہی کا سبب بن سکتے ہیں۔

    ماحولیاتی تبدیلی یا کلائمٹ چینج اور عالمی درجہ حرارت میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ اس وقت دنیا کی بقا کے لیے 2 اہم ترین خطرات ہیں۔ ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق کلائمٹ چینج کئی ممالک کی معیشت پر برا اثر ڈالے گی جبکہ اس سے دنیا کو امن و امان کے حوالے سے بھی شدید خطرات لاحق ہوجائیں گے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔