Tag: ماحولیات

  • غیر محفوظ برفانی ریچھوں کے لیے ایک اور خطرہ

    غیر محفوظ برفانی ریچھوں کے لیے ایک اور خطرہ

    دنیا میں تیزی سے بڑھتا درجہ حرات کئی زندگیوں کے لیے بے شمار خطرات کھڑے کر رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا میں موجود ایک چوتھائی جنگلی حیات 2050 تک معدوم ہوسکتی ہے۔

    معدومی کے خطرے کا شکار حیات کی فہرست میں ایک نام برفانی ریچھ کا بھی ہے جو ماحولیاتی تبدیلیوں اور گلوبل وارمنگ کے نقصانات کی براہ راست زد میں ہے۔ تیزی سے بڑھتا درجہ حرارت دنیا کے برفانی علاقوں کی برف کو پگھلا رہا ہے جس کے باعث برف میں رہنے کے عادی ریچھوں کی قدرتی پناہ گاہیں ختم ہونے کا خطرہ ہے۔

    مزید پڑھیں: کیا ہم جانوروں کو معدومی سے بچا سکیں گے؟

    برفانی بھالو چونکہ برف کے علاوہ کہیں اور زندہ نہیں رہ سکتا لہٰذا ماہرین کو ڈر ہے کہ برف پگھلنے کے ساتھ ساتھ اس جانور کی نسل میں بھی تیزی سے کمی واقع ہونی شروع ہوجائے گی اور ایک وقت آئے گا کہ برفانی ریچھوں کی نسل معدوم ہوجائے گی۔

    bear-3

    حال ہی میں ماہرین نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس کےمطابق گلوبل وارمنگ کے ساتھ ساتھ ان ریچھوں کے لیے ایک اور خطرہ تیزی سے ان کے قریب آرہا ہے۔ ماہرین کے مطابق ان ریچھوں کو وہیل اور شارک مچھلیوں کے جان لیوا حملوں کا خطرہ ہے۔

    ماہرین نے وضاحت کی کہ برفانی علاقوں کی برف پگھلنے سے سمندر میں موجود وہیل اور شارک مچھلیاں ان جگہوں پر آجائیں گی جہاں ان ریچھوں کی رہائش ہے۔

    علاوہ ازیں ریچھوں کو اپنی خوراک کا بندوبست کرنے یعنی چھوٹی مچھلیوں کو شکار کرنے کے لیے مزید گہرے سمندر میں جانا پڑے گا جہاں شارک مچھلیاں موجود ہوں گی۔

    bear-1

    ماہرین نے بتایا کہ کچھ عرصہ قبل ایک شارک کے معدے میں برفانی ریچھ کے کچھ حصہ پائے گئے تھے جس کی بنیاد پر یہ خطرہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ ماہرین یہ تعین کرنے میں ناکام رہے کہ آیا اس شارک نے ریچھ کو شکار کیا، یا پہلے سے مردہ پڑے ہوئے کسی ریچھ کو اپنی خوراک بنایا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ خونخوار شارک مچھلیاں ان ریچھوں کے ساتھ ساتھ سگ ماہی (سمندری سیل) کو بھی اپنا شکار بنا سکتی ہیں۔

    اب تک یہ برفانی حیات ان شکاری مچھلیوں سے اس لیے محفوظ تھی کیونکہ برف کی ایک موٹی تہہ ان کے اور سمندر کے درمیان حائل تھی جو بڑی مچھلیوں کے اوپر آنے میں بھی مزاحم تھی۔

    شارک مچھلیاں اس برف سے زور آزمائی سے بھی گریز کرتی تھیں کیونکہ اس صورت میں وہ انہیں زخمی کر دیتی تھی، تاہم اب جس تیزی سے قطب شمالی اور قطب جنوبی کی برف پگھل رہی ہے، اس سے یہاں بچھی ہوئی برف کمزور اور پتلی ہو رہی ہے۔

    bear-4

    ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر برف پگھلنے کی رفتار یہی رہی تو اگلے 15 سے 20 سالوں میں آرکٹک سے برف کا مکمل طور پر خاتمہ ہوجائے گا۔

    اس سے قبل عالمی خلائی ادارے ناسا نے ایک ویڈیو جاری کی تھی جس میں قطب شمالی کے سمندر میں پگھلتی ہوئی برف کو دکھایا گیا تھا۔ ناسا کے مطابق گزشتہ برس مارچ سے اگست کے دوران قطب شمالی کے سمندر میں ریکارڈ مقدار میں برف پگھلی۔

    دوسری جانب سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ قطب شمالی کے بعد دنیا کے دوسرے بڑے برفانی مقام گرین لینڈ کی برف پگھلنے میں بھی خطرناک اضافہ ہوگیا ہے اور یہاں سنہ 2003 سے 2013 تک 2 ہزار 700 ارب میٹرک ٹن برف پگھل چکی ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • گلوبل وارمنگ سے گردوں کے امراض میں اضافے کا خطرہ

    گلوبل وارمنگ سے گردوں کے امراض میں اضافے کا خطرہ

    سائنسدانوں کی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق گلوبل وارمنگ یعنی عالمی درجہ حرارت میں اضافہ گردوں کے امراض میں اضافہ کرسکتا ہے۔

    اس تحقیق میں گلوبل وارمنگ کی وجہ سے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور پانی کی کمی کو گردوں کے شدید امراض کی وجہ بتایا گیا ہے۔ تحقیق کے مطابق اس کے باعث دیہاتوں میں رہنے والے افراد زیادہ متاثر ہوں گے۔

    امریکا کی کولوراڈو یونیورسٹی کے پروفیسر رچرڈ جانسن کا کہنا ہے کہ گرم علاقوں میں کلائمٹ چینج کے اثرات اور گرمی میں اضافہ گردوں کے شدید امراض پیدا کرے گا اور یہ پہلی بیماری ہوگی جو موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے وبائی صورت اختیار کرجائے گی۔

    تحقیق کے مطابق ان امراض سے کاشت کار زیادہ متاثر ہوں گے جو سخت گرمی کے دنوں میں بھی کھیتوں میں کام کریں گے۔

    تحقیق کرنے والوں سائنسدانوں نے بتایا کہ اس کا تعلق پانی کی کمی سے بھی ہوگا۔ بارشوں میں کمی، گرمی میں اضافے اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے جب پانی کی قلت یا کمی ہوجائے گی تو گردوں کے امراض عام ہوجائیں گے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • سال 2017: پلاسٹک خوردنی اشیا میں تبدیل

    سال 2017: پلاسٹک خوردنی اشیا میں تبدیل

    سال 2017 اپنے اختتام کی جانب گامزن ہے۔ ماہرین ماحولیات کے مطابق اس شعبے میں یہ سال خوردنی اشیا کے نام رہا جس میں مختلف پھینک دی جانے والی چیزوں کو کھانے کے قابل بنایا گیا تاکہ کچرے کے ڈھیر میں بدلتی ہماری زمین پر دباؤ میں کچھ کمی آئے۔

    آئیں دیکھتے ہیں سائنسدانوں نے رواں برس کن اشیا کو خوردنی اشیا میں تبدیل کیا۔


    پانی کی گیند

    پانی کی فراہمی کا سب سے عام ذریعہ پلاسٹک کی بوتلیں ہیں جو زمین میں تلف نہ ہونے کے سبب شہروں کو کچرے کے ڈھیر میں تبدیل کر رہا ہے۔

    ان بوتلوں سے نجات کے لیے کچھ ماہرین نے پانی کی گیندیں ایجاد کر ڈالیں۔ ان گیندوں کو ایک باریک جھلی کی صورت دائرے کی شکل میں تیار کیا گیا اور اس کے اندر پانی بھر دیا گیا۔

    پانی کی یہ گیندیں ویسے تو کھائی جاتی ہیں تاہم یہ پیاس بجھانے کا ضروری کام ہی سر انجام دیتی ہیں۔

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    خوردنی گلاس

    انڈونیشیا میں سمندری گھاس سے خوردنی گلاس تیار کیے گئے جو پانی پینے کے کام آسکتے تھے۔ یہ گلاس نہ صرف کھانے کے قابل ہیں بلکہ اگر آپ انہیں پھینکنا چاہیں تو یہ بہت جلد زمین کا حصہ بن کر وہاں خودرو پودے بھی اگا سکتے ہیں۔


    الجی جیلی سے بنائی گئی بوتل

    آئس لینڈ میں ایک طالب علم نے الجی جیلی کو جما کر بوتلوں کی شکل دے دی۔ اسے اس شکل میں برقرار رہنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے اندر کوئی سیال مادہ بھراجائے۔

    جیسے ہی اس کے اندر بھرا پانی یا سیال ختم ہوجاتا ہے یہ ٹوٹ جاتی ہے یا گل جاتی ہے۔ اب یہ پھینکنے کے بعد زمین میں نہایت آسانی سے اور بہت کم وقت میں تلف ہوجانے والی شے ہے۔


    کھانے والے اسٹرا

    کیا آپ جانتے ہیں امریکا میں ہر روز 5 کروڑ پلاسٹک کے اسٹرا مختلف جوسز پینے کے بعد پھینک دیے جاتے ہیں۔ بظاہر معمولی سا پلاسٹک کا ٹکڑا دکھائی دینے والا یہ اسٹرا بھی کچرے کے ڈھیر میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔

    اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے امریکا میں سمندری گھاس سے اسٹرا تیار کرنے کا تجربہ کیا گیا جسے بے حد پذیرائی ملی۔ اس اسٹرا کو مختلف فلیورز سے بنایا جاتا ہے جس کے باعث لوگ جوس ختم کرنے کے بعد اس اسٹرا کو بھی نہایت مزے سے کھا لیتے ہیں۔


    کھانے والا ریپر

    دودھ کے پروٹین سے تیار کیے جانے والے باریک ریپر آکسیجن کو جذب نہیں کرسکتے لہٰذا اس کے اندر لپٹی چیز خراب ہونے کا اندیشہ نہیں ہوتا۔

    ان ریپرز کو مختلف اشیا کے ساشے پیکٹ، برگر کے ریپرز اور سبزیاں اور پھل محفوظ کرنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ ان ریپرز سے بنے ساشے کو کھولنے کے بجائے آپ پورا ریپر گرم پانی میں ڈال کر اپنی مطلوبہ شے تیار کرسکتے ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • دبئی: ولی عہد حمدان سمندر کی صفائی کے لیے سرگرداں

    دبئی: ولی عہد حمدان سمندر کی صفائی کے لیے سرگرداں

    دبئی : ولی عہد شیخ حمدان بن راشد المکتوم نے سمندر کے تہہ میں جمع کچرا اٹھا کر اسے ضائع کیا اس مہم میں اُن کے ساتھ اسکول کے طالب علم بھی بہ طور رضاکار شامل تھے۔

    ولی عہد شیخ حمدان بن راشد نے یہ مظاہرہ لوگوں میں سمندری آلودگی سے متعلق آگاہی پھیلانے کے لیے کیا جس میں وہ تیراکی کا لباس پہن کر گہرے سمندر میں اتر گئے اور تیرتے ہوئے سمندر کی تہہ تک پہنچے اور وہاں سے کچرا اُٹھا کر واپس لوٹے جسے بعد ازاں ضائع کردیا گیا۔

    ولی عہد نے اس سے قبل شہریوں سے ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کے لیے اقدامات سے متعلق تجاویز مانگی تھیں جس پر انہیں بڑی تعداد میں مشورے موصول ہوئے جس میں ساحلی علاقوں کی صفائی کے علاوہ سمندر کو آلودگی سے بچانے کے لیے سمندر کی تہہ سے صفائی بھی شامل تھی۔

    عمومی طور پر ساحل سمندر پر سیر و تفریح کے لیے افراد اپنے ہمراہ کھانے پینے کی اشیاء لاتے ہیں اور جاتے ہوئے بچا کچا سامان سمندر میں پھینک دیتے ہیں جو آہستہ آہستہ سمندر کی تہہ میں جمع ہونے لگتے ہیں جس کے باعث سمندر کا پانی آلودہ ہوجاتا ہے جب کہ سمندری مخلوقات کو بھی نقصان کا اندیشہ رہتا ہے۔

    ولی عہد حمدان نے اسکول کے چند طالب علموں کے ہمراہ تیراکی کا لباس پہن کر سمندر میں اترے اور کچرہ جمع کرنے کی مہم میں خود حصہ لیا اور اس کی ویڈیو سماجی رابطے کی ویب سائیٹ انسٹا گرام پر جاری کی جس میں انہیں سمندر کی تہہ سے خالی بوتلیں، ریپرز اور مختلف تھیلیاں جمع کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

     

    ویڈیو دیکھیں 

     

    یاد رہے کہ ولی عہد حمدان بن راشد المکتوم اپنے سماجی کاموں اور ایڈوانچرز کے باعث نوجوانوں میں کافی مقبول ہیں جب کہ ملکی امور میں سرگرم رہنے اور ماحولیات و سائنس میں دلچسپی لینے کے باعث انہیں جدید دبئی کا ہیرو بھی کہا جاتا ہے اور وہ فزاع کے نام سے شاعری بھی کرتے ہیں.

  • دیا مرزا اقوام متحدہ کی ماحولیاتی سفیر مقرر

    دیا مرزا اقوام متحدہ کی ماحولیاتی سفیر مقرر

    نئی دہلی: بالی ووڈ اداکارہ اور پروڈیوسر دیا مرزا کو اقوام متحدہ کی جانب سے خیر سگالی سفیر برائے ماحولیات مقرر کردیا گیا۔ وہ اب بھارت میں تحفظ ماحولیات کے لیے کام کریں گی۔

    دیا اس سے قبل بھی ماحولیات پر خاصا کام کرچکی ہیں اور ان کی انہی خدمات کو دیکھتے ہوئے اقوام متحدہ نے انہیں اپنا سفیر مقرر کیا ہے۔

    اپنی تقرری پر دیا مرزا نے نہایت خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مجھے فخر ہے کہ اب میں تحفظ ماحولیات کے لیے اقوام متحدہ کے ساتھ مل کر کام کرسکوں گی۔

    مزید پڑھیں: دیا مرزا کا ماحول دوست گھر

    انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ اپنے ملک میں جنگلی حیات کے تحفظ اور موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کو روکنے کے اقدامات پر کام کریں گی اور لوگوں کو اس بات کی طرف راغب کریں گی کہ وہ زیادہ سے زیادہ ماحول دوست بنیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • کابل میں جنگ سے زیادہ فضائی آلودگی لوگوں کی اموات کا سبب

    کابل میں جنگ سے زیادہ فضائی آلودگی لوگوں کی اموات کا سبب

    کابل: ایک طویل عرصے سے جنگ کا شکار ملک افغانستان کا دارالحکومت اپنے شہریوں کے لیے کوئی محفوظ جائے پناہ نہیں رہا۔ آئے روز ہونے والے دہشت گردی کے واقعات سے کابل کے لوگوں کی زندگی ہر وقت خطرے کا شکار رہتی ہے کہ کب اور کہاں وہ کسی دھماکے کا شکار ہوجائیں۔

    لیکن اس کے علاوہ ایک شے اور ہے جو کابل کے شہریوں کو بلا دریغ موت کے گھاٹ اتار رہی ہے، اور وہ ہے فضائی آلودگی۔

    اقوام متحدہ کے مطابق فضائی آلودگی کی وجہ سے مختلف بیماریوں کا شکار ہو کر مرنے والے افراد کی سالانہ تعداد جنگ میں مرنے والے افراد کی تعداد سے دگنی ہے۔

    گو کہ افغانستان قدرتی مناظر اور خوبصورت مقامات سے بھرپور ملک ہے تاہم اس کی فضائی آلودگی اس ملک کا حسن برباد کر رہی ہے۔ ملک کا دارالحکومت کابل اکثر و بیشتر اسموگ کی لپیٹ میں رہتا ہے۔

    مزید پڑھیں: طالبان اب درخت اگائیں گے

    کابل پولی ٹیکنک یونیورسٹی کے ایک پروفیسر ڈاکٹر اسرار الدین گزید کا کہنا ہے کہ شہر میں آلودگی کی سب سے بڑی وجہ شہر میں جابجا بکھرے گندگی کے ڈھیر ہیں جنہیں مناسب طور پر ٹھکانے لگانے کا انتظام موجود نہیں۔

    بالآخر اس کچرے کو ختم کرنے کے لیے اسے جلایا جاتا ہے۔

    ایک اور وجہ گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں ہے جس نے کابل کو آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں شامل کردیا ہے۔ کابل میں زیادہ تر پرانی گاڑیاں اور غیر معیاری فیول استعمال ہوتا ہے جن سے نکلنے والا دھواں شہر کی فضا میں سانس لینا دو بھر کردیتا ہے۔

    کابل میں گاڑیوں، کچرا جلانے سے اٹھنے والا دھواں، اور پاور جنریٹرز یہاں کی آلودگی کی اہم وجوہات ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • اگر انسان زمین سے غائب ہوجائیں تو کیا ہوگا؟

    اگر انسان زمین سے غائب ہوجائیں تو کیا ہوگا؟

    عظیم اور قوی الجثہ جانوروں کی معدومی کے بارے میں سنتے اور پڑھتے ہوئے کیا آپ کو کبھی یہ خیال آیا ہے کہ ہم انسان بھی معدوم ہوسکتے ہیں؟

    یقیناً یہ خیال ہمیں کبھی نہیں آیا، کیونکہ ہم زمین کو اپنی ملکیت سمجھتے ہیں اور ہمیں لگتا ہے کہ سب کچھ ختم ہوسکتا ہے لیکن انسان نہیں، اور اگر انسان ختم ہوگیا تو یہ اس زمین کا بھی آخری دن ہوگا۔

    تو پھر آئیں آج اس غلط فہمی کو دور کرلیتے ہیں۔

    اگر کبھی ایسا ہو، کہ زمین پر موجود تمام انسان اچانک غائب ہوجائیں اور ایک بھی انسان باقی نہ رہے تو سب سے پہلے زمین کو جلاتی برقی روشنیاں بجھ جائیں گی اور زمین کا زیادہ تر حصہ اندھیرے میں ڈوب جائے گا۔

    اس کے ساتھ ہی سینکڑوں سالوں میں تعمیر کی گئی ہماری یہ بلند و بالا دنیا آہستہ آہستہ تباہی کی طرف بڑھنا شروع ہوجائے گی۔

    مزید پڑھیں: قیامت کے آنے میں کتنے سال باقی

    امریکی شہر نیویارک کا سب وے اسٹیشن انسانوں کے خاتمے کے بعد صرف 2 دن قائم رہے گا، اس کے بعد یہ زیر آب آجائے گا۔

    انسانوں کے قائم کیے گئے ایٹمی و جوہری بجلی گھروں کو ٹھنڈا رکھنے والے جنریٹرز بند ہوجائیں گے جس کے بعد تمام بجلی گھروں میں آگ بھڑک اٹھے گی اور آہستہ آہستہ یہ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔

    تپش اور تابکاری کا یہ طوفان کم از کم چند ہزار سال تک زمین کو اپنے گھیرے میں لیے رہے گا جس کے بعد آہستہ آہستہ زمین سرد ہونا شروع ہوجائے گی۔

    اس دوران گھر اور عمارتیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائیں گی اور ان پر خود رو پودے اور بیلیں اگ آئیں گی۔

    پھل اور پھول اپنی پہلے والی جنگلی ساخت پر واپس آجائیں گے جنہیں انسان مصنوعی طریقوں سے مزیدار اور خوش رنگ بنا چکے ہیں۔

    انسانوں کے ختم ہوتے ہی جنگلی حیات کی آبادی میں اضافہ ہونا شروع ہوجائے گا۔

    مزید پڑھیں: زمین پر آباد جانور کب سے یہاں موجود ہیں؟

    ہمارے خاتمے کے 300 سال بعد بڑے بڑے پل ٹوٹ جائیں گے۔

    سمندر کنارے آباد شہر ڈوب کر سمندر ہی کا حصہ بن جائیں گے۔

    بڑے بڑے شہروں میں درخت اگ آئیں گے اور صرف 500 سال بعد ہمارے بنائے ہوئے شہروں کی جگہ جنگل موجود ہوں گے۔

    صرف ایک لاکھ سال کے بعد زمین کا درجہ حرارت اس سطح پر آجائے گا جو انسانوں سے قبل ہوا کرتا تھا، نہ تو اس میں زہریلی گیسیں شامل ہوں گی اور نہ ہی گاڑیوں اور فیکٹریوں کا آلودہ دھواں۔

    گویا ہماری زمین ہمارے ختم ہوجانے کے بعد بھی قائم رہے گی، یعنی زمین کو ہماری کوئی ضروت نہیں۔ البتہ ہمیں زمین کی اشد ضرورت ہے کیونکہ ہمارے پاس اس کے علاوہ رہنے کو اور کوئی گھر موجود نہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • پنجاب میں زہریلی اسموگ: سیکریٹری ماحولیات کی عدالت میں طلبی

    پنجاب میں زہریلی اسموگ: سیکریٹری ماحولیات کی عدالت میں طلبی

    لاہور: صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں پھیلتی زہریلی اسموگ پر قابو پانے کے لیے اقدامات نہ کرنے کے خلاف لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کردی گئی۔ عدالت نے حفاظتی اقدامات سے متعلق تحریری رپورٹ طلب کرلی جبکہ سیکریٹری ماحولیات بھی عدالت میں پیش ہوئے۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائی کورٹ میں اسموگ پر قابو پانے کے لیے اقدامات نہ کرنے کے خلاف درخواست پر چیف جسٹس سید منصور علی شاہ نے کیس کی سماعت کی۔

    درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ گذشتہ برس نومبر میں اسموگ کے نتیجے میں شہری مختلف امراض میں مبتلا ہوگئے مگر حکومت نے شہریوں کی رہنمائی کے لیے اور اسموگ کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات نہیں کیے۔

    مزید پڑھیں: زہریلی اسموگ سے بچیں

    سماعت میں سیکریٹری ماحولیات عدالت میں پیش ہوئے اور عدالت کو آگاہ کیا کہ بھارت میں فصل خریف کی کٹائی کے بعد پھوک کو آگ لگا دی گئی جس سے اسموگ پیدا ہوا۔

    انہوں نے بتایا کہ موسم کی تبدیلی کے نتیجے میں زمین ٹھنڈی ہونے اور ہوا میں نمی کی کمی سے ذرات کی تعداد میں اضافے سے اسموگ پیدا ہوتا ہے۔

    سیکریٹری ماحولیات نے اسموگ سے نمٹنے کے لیے منظور کردہ پالیسی عدالت میں پیش کی اور کہا کہ اسموگ میں کمی کے لیے دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے۔

    عدالت نے سوال کیا کہ بتایا جائے ایک سال میں اسموگ پر قابو پانے کے لیے اقدامات کیوں نہیں کیے گئے۔ عدالت نے قرار دیا کہ اسموگ کے متعلق حکومتی اقدامات میں سنجیدگی نظر نہیں آتی۔

    لاہور ہائیکورٹ نے سماعت ملتوی کرتے ہوئے اسموگ کے خاتمے اور اس سے نمٹنے کے لیے کیے جانے والے حفاظتی اقدامات سے متعلق تحریری رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • گرمی سے ننھے کچھوے انڈے کے اندر جل کر بھسم

    گرمی سے ننھے کچھوے انڈے کے اندر جل کر بھسم

    کچھوا معدومی کے خطرے کا شکار جانور ہے جن کی نسل میں اضافے کے لیے پاکستان سمیت کئی ممالک میں کام کیا جارہا ہے۔

    کچھوے کے ننھے بچے نہایت کمزور جانور سمجھے جاتے ہیں جو حملہ آور کتے بلیوں اور انسانی شکاریوں کا آسان ہدف سمجھے جاتے ہیں علاوہ ازیں مچھلی کے شکار کے کانٹے اور ساحلوں پر پھینکا جانے والا پلاسٹک بھی ان کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔

    تاہم موسمیاتی تغیر یعنی کلائمٹ چینج ان کے سامنے ایک اور خوفناک خطرے کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔

    امریکی ریاست فلوریڈا سے تعلق رکھنے والی ایک ماہر آبی حیاتیات کرسٹین کا کہنا ہے کہ کلائمٹ چینج کے باعث بڑھتا ہوا درجہ حرات دن کے اوقات میں ریت کو نہایت گرم کر دیتا ہے، اور یہ گرم ریت کچھوے کی مخصوص جگہوں پر اس کے انڈوں، یا ننھے بچوں کو جلا کر بھسم کرنے کا باعث بن رہی ہے۔

    مزید پڑھیں: کچھوے کے بارے میں حیران کن اور دلچسپ حقائق

    ان کے مطابق گرم درجہ حرارت کے باعث دن کے اوقات میں ریت اس قدر گرم ہوجاتی ہے کہ اس میں بنائے گئے کچھوے کے گھروں میں کسی زندگی کے پنپنے کا امکان نہیں ہوسکتا۔

    کچھوے ریت کو کھود کر گڑھے کی صورت گھر بناتے ہیں جہاں مادہ کچھوا انڈے دیتی ہے

    ریت کے ان گھروں میں دیے گئے انڈے یا انڈوں سے نکلنے والے ننھے بچے اس گرمی کو برادشت نہیں کرسکتے لہٰذا وہ مر جاتے ہیں۔

    فلوریڈا کی اٹلانٹک یونیورسٹی کی ماہر حیاتیات جینیٹ کا کہنا ہے کہ کچھوؤں کے تحفظ کے لیے کیے جانے والے اقدامات کے دوران ہمیں اکثر کچھوؤں کے مردہ انڈے ملتے ہیں۔

    یہ وہ انڈے ہوتے ہیں جن کے اندر موجود جاندار گرمی سے جل کر مر چکا ہوتا ہے۔

    کچھوے کے بچے انڈے کے اندر جل کر مر چکے ہیں

    انہوں نے بتایا کہ کچھ کچھوے ایسی صورتحال میں بھی انڈے سے نکل کر دنیا میں آنے میں کامیاب رہتے ہیں، لیکن وہ گرمی سے اس قدر بے حال ہوتے ہیں کہ فوراً پانی کی طرف بھاگتے ہیں، مگر راستے میں ہی مرجاتے ہیں۔


    زمین میں گھر بنا کر رہنے والے جاندار خطرے میں

    اس سے قبل اسی نوعیت کی ایک تحقیق وسطی امریکی ملک کوسٹا ریکا میں بھی کی جاچکی ہے۔

    جرنل نیچر کلائمٹ چینج میں چھپنے والی اس تحقیق کے مطابق کلائمٹ چینج اور بڑھتا ہوا درجہ حرارت زمین میں گھر بنا کر رہنے والے جانداروں کے لیے نہایت خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔

    تحقیق کے مطابق شدید گرم موسم کے باعث اگلی صدی کے آغاز تک ایسے جانداروں کی ایک تہائی آبادی معدوم ہوجائے گی۔

    مزید پڑھیں: کنارے پر آنے والے کچھوے موت کے منہ میں

    دوسری جانب کوسٹا ریکا میں ہی گرمی سے کچھوؤں کے مرنے کے واقعہ بھی پیش آچکا ہے۔

    سنہ 2008 اور 2009 کے درمیان کوسٹا ریکا میں کچھوں کے انڈوں سے نکلنے کے موسم میں درجہ حرارت 35 ڈگری سینٹی گریڈ تک جا پہنچا تھا جو نہایت غیر معمولی تھا۔

    اس گرمی نے کچھوؤں کی نئی آنے والی پوری نسل کا خاتمہ کر ڈالا اور ایک بھی ننھا کچھوا زندہ نہ بچ سکا۔


    بچاؤ کیسے ممکن ہے؟

    ماہرین حیاتیات کا کہنا ہے کہ اس صورتحال سے بچنے کے لیے غیر فطری طور پر کچھوؤں کو ان کی پناہ گاہوں سے منتقل کر کے نسبتاً سرد جگہوں پر منتقل کیا جائے۔

    تاہم ماہرین تذبذب کا شکار ہیں کہ آیا کچھوے اس صورتحال سے مطابقت کرسکیں گے یا نہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ کچھوؤں کی زندگی میں انسانی مداخلت کی بدترین مثال ہوگی تاہم اگر موسم کے گرم ہونے کی یہی شرح جاری رہی تو ان کی زندگیاں بچانے کے لیے یہ اقدام ناگزیر ہوگا۔

    مزید پڑھیں: پاکستان میں کچھوے کی اسمگلنگ پر تفصیلی رپورٹ


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • پاکستان میں پلاسٹک کھانے والی پھپھوندی دریافت

    پاکستان میں پلاسٹک کھانے والی پھپھوندی دریافت

    اسلام آباد: وطن عزیز کے دارالحکومت اسلام آباد میں ایسی پھپھوندی دریافت ہوئی ہے جو پلاسٹک کو کھا سکتی ہے۔

    وفاقی دارالحکومت کے ایک کچرے کے ڈھیر سے اتفاقاً دریافت ہونے والی اس پھپھوندی کا نام اسپرگلس ٹیوبی جینسس ہے۔

    عالمی اقتصادی فورم میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق یہ زمین میں تلف نہ ہوسکنے والی پلاسٹک کو چند ہفتوں میں توڑ سکتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق یہ دریافت دراصل اس پھپھوندی کی نہیں، بلکہ اس کی پلاسٹک کھانے والی خاصیت کی ہے جو حال ہی میں دریافت ہوئی ہے۔

    مذکورہ پھپھوندی پلاسٹک کے مالیکیولز کو توڑ کر انہیں الگ کردیتی ہے جس کے بعد ان کی تلفی کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ یہ عموماً مٹی میں پائی جاتی ہے اور اکثر اوقات پلاسٹک کی اشیا کے اوپر ملتی ہے۔

    ماہرین کا خیال ہے کہ اس پھپھوندی کو پانی میں اور زمین پر کچرے کے ڈھیر کی صورت میں موجود پلاسٹک کی اشیا کو تلف کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

    اس سے قبل برطانوی ماہرین نے بھی ایسی سنڈی دریافت کرنے کا دعویٰ کیا تھا جو پلاسٹک کو کھا سکتی تھی۔

    واضح رہے کہ پلاسٹک ایک ایسا مادہ ہے جسے ختم ہونے یا زمین کا حصہ بننے کے لیے ہزاروں سال درکار ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ماحول، صفائی اور جنگلی حیات کے لیے ایک بڑا خطرہ تصور کیا جاتا ہے۔

    عالمی اقتصادی فورم کے مطابق سنہ 2014 میں 31 کروڑ ٹن سے بھی زائد پلاسٹک بنایا گیا۔

    پلاسٹک خصوصاً اس سے بنائی گئی تھیلیاں شہروں کی آلودگی میں بھی بے تحاشہ اضافہ کرتی ہیں۔ تلف نہ ہونے کے سبب یہ کچرے کے ڈھیر کی شکل اختیار کرلیتی ہیں اور نکاسی آب کی لائنوں میں پھنس کر انہیں بند کردیتی ہیں جس سے پورے شہر کے گٹر ابل پڑتے ہیں۔

    یہ تھیلیاں سمندروں اور دریاؤں میں جا کر وہاں موجود آبی حیات کو بھی سخت نقصان پہنچاتی ہے اور اکثر اوقات ان کی موت کا سبب بھی بن جاتی ہیں۔

    پلاسٹک کے ان نقصانات سے آگاہی ہونے کے بعد دنیا کے کئی ممالک اور شہروں میں آہستہ آہستہ اس پر پابندی عائد کی جارہی ہے۔

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔