نیروبی: افریقی ملک کینیا میں پلاسٹک کی تھیلیوں پر پابندی عائد کردی گئی۔ خلاف ورزی کرنے والوں کو سخت سزا اور جرمانے کا سامنا کرنا ہوگا۔
یہ فیصلہ اس عدالتی درخواست کے بعد سامنے آیا ہے جس میں پلاسٹک کے کاروبار سے وابستہ تاجروں نے ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی کہ پلاسٹک پر پابندی عائد کرنے سے ان کے ہزاروں ملازمین بے روزگار ہوجائیں گے۔
تاہم عدالت نے درخواست کو رد کرتے ہوئے پلاسٹک کی تھیلیوں پر پابندی کا اصولی فیصلہ جاری کردیا۔
گو کہ اس سے قبل کئی ممالک پلاسٹک کے استعمال پر پابندی عائد کر چکے ہیں تاہم کینیا اس حوالے سے قابل تعریف ہے کہ یہاں خلاف ورزی کی صورت میں 32 ہزار یورو کا جرمانہ جبکہ 4 سال قید کی سزا بھی رکھی گئی ہے۔
اقوام متحدہ کےادارہ برائے ماحولیات کا کہنا ہے کہ کینیا کی سپر مارکیٹس میں سالانہ 10 کروڑ تھیلیاں استعمال ہوتی تھیں۔ اب اقوام متحدہ نے کینیا کے اس اقدام کا خیر مقدم کیا ہے۔
یاد رہے کہ کینیا کی حکومت 6 ماہ قبل اس پابندی کا اعلان کر چکی تھی اور پلاسٹک کے کاروبار سے وابستہ افراد اور استعمال کندگان کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ ماحول دوست بیگز کا استعمال شروع کردیں۔
اس قانون کے مکمل طور پر اطلاق کے روز متعدد مقامات پر اس وقت شدید افراتفری کی صورتحال سامنے آئی جب دکانداروں نے اپنے گاہکوں کو پلاسٹک کی تھیلیوں میں سامان دینے سے انکار کردیا اور ان سے کہا کہ وہ اپنا سامان ہاتھوں میں اٹھا کر لے جائیں۔
خیال رہے کہ پلاسٹک ایک ایسا مادہ ہے جسے ختم ہونے یا زمین کا حصہ بننے کے لیےہزاروں سال درکار ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ماحول، صفائی اور جنگلی حیات کے لیے ایک بڑا خطرہ تصور کیا جاتا ہے۔
پلاسٹک کی تھیلیاں شہروں کی آلودگی میں بھی بے تحاشہ اضافہ کرتی ہیں۔ تلف نہ ہونے کے سبب یہ کچرے کے ڈھیر کی شکل اختیار کرلیتی ہیں اور نکاسی آب کی لائنوں میں پھنس کر انہیں بند کردیتی ہیں جس سے پورے شہر کے گٹر ابل پڑتے ہیں۔
یہ تھیلیاں سمندروں اور دریاؤں میں جا کر وہاں موجود آبی حیات کو بھی سخت نقصان پہنچاتی ہے اور اکثر اوقات ان کی موت کا سبب بھی بن جاتی ہیں۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔
اسلام آباد: نئے وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تغیرات مشاہد اللہ کا کہنا ہے کہ جنگلات کے رقبے میں اضافہ کر کے پاکستان کو درپیش موسمیاتی تغیرات کے خطرات میں کمی کی جاسکتی ہے اور اس کے لیے حکومت تمام تر اقدامات اٹھا رہی ہے۔
تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں جنگلات کی کٹائی اور تحفظ کے حوالے سے قائم فورم (آر ای ای ڈی پلس) کا مشاورتی اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں نو منتخب وزیر برائے کلائمٹ چینج مشاہد اللہ نے بھی شرکت کی۔
یہ ان کی حلف برداری کے بعد ماحولیاتی تحفظ سے متعلق کسی بھی فورم کا پہلا اجلاس تھا۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مشاہد اللہ نے کہا کہ جنگلات کی کٹائی ہوتے ہوئے پاکستان کو کلائمٹ چینج کے خطرات سے بچانا ناممکن ہے۔
انہوں نے کہا کہ کلائمٹ چینج کے خطرات کے مقابلے میں جنگلات ایک بہترین ڈھال ہیں جو ان خطرات کی شدت بے حد کم کرسکتے ہیں۔
مشاہد اللہ نے پاکستان پر کلائمٹ چینج کے اثرات کے حوالے سے مختلف رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ منصوبہ بندی کی کمی کی وجہ سے ملک میں جنگلات کے رقبے میں کمی آئی جو اب ایک شدید مسئلے کے طور پر سامنے آرہا ہے۔
انہوں نے جنگلات کی کٹائی کے ایک اور سبب توانائی کے حصول کے لیے لکڑی کے استعمال کی طرف بھی اشارہ کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ جنگلات کی کٹائی میں کمی لانے کے لیے ضروری ہے کہ ہر ایک کے لیے متبادل اور قابل تجدید توانائی کے ذرائع کو قابل رسائی بنایا جائے۔
اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے عوامی شعور و آگاہی کی مہمات پر بھی زور دیا جس کے تحت لوگوں کو جنگلات کی اہمیت اور ان کی ضرورت کے بارے میں آگاہ کیا جائے۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔
نیویارک: پاکستان اور بھارت میں غیر معمولی موسم گرما اب عام بات بن گیا ہے تاہم ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ رواں صدی کے خاتمے تک اس خطے میں ایسی ہیٹ ویوز آئیں گی جو نہایت خطرناک، جان لیوا اور ناقابل برادشت ہوں گی۔
امریکا کے میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) کی جانب سے کی جانے والے تحقیق میں بتایا گیا کہ سنہ 2100 تک جنوبی ایشیا قیامت خیز گرمیوں کی زد میں آجائے گا۔
تحقیق کے مطابق پاکستان کا جنوبی علاقہ، شمالی بھارت اور بنگلہ دیش اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔
ماہرین کے مطابق گرمی کی یہ شدت اس قدر ہوگی کہ گھر سے باہر دھوپ میں نکلنا ایک نا ممکن عمل بن جائے گا۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ اس جان لیوا گرمی سے دریائے سندھ کا زرخیز علاقہ اور بھارت میں دریائے گنگا بھی متاثر ہوں گے جو دونوں ممالک میں غذائی پیداوار کا سب سے اہم اور بڑا ذریعہ ہیں۔
ایم آئی ٹی کے ایک پروفیسر کے مطابق یہ صرف ہیٹ ویو نہیں ہوگی جو لوگوں کی ہلاکت کا باعث بنے گی، بلکہ اس کے باعث ہونے والی قلت آب، خشک سالی اور غذائی پیداوار میں کمی لوگوں کی زندگیوں کے لیے خطرناک ثابت ہوں گی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ گرمی کی شدت میں اضافے کا عمل شروع ہوچکا ہے اور یہ اگلی آنے والی دہائیوں میں مزید شدت اختیار کرجائے گا اور رواں صدی کے اختتام تک یہ گرمیاں ناقابل برداشت صورت اختیار کرلیں گی۔
یاد رہے کہ قیامت خیز ہیٹ ویوز پاکستان کے لیے نئی نہیں، اور سنہ 2015 میں صوبہ سندھ کا دارالحکومت کراچی خطرناک ہیٹ ویو کا سامنا کر چکا ہے جس میں 1 ہزار سے زائد افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔
اس ہیٹ ویو نے بھارت کو بھی متاثر کیا تھا اور دونوں ممالک میں تقریباً ساڑھے 3 ہزار افراد شدید گرمی کے باعث لقمہ اجل بن گئے تھے۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔
کیا آپ جانتے ہیں اس سال ہم انسانوں نے زمین کے لیے ایک سال میں قابل تجدید قدرتی وسائل کو 7 ماہ کے اندر ختم کرلیا ہے؟
ماہرین کے مطابق ہم انسانوں کو ایک سال کے اندر قدرتی وسائل کا اتنا ہی استعمال کرنا چاہیئے جتنا کہ زمین انہیں اسی ایک سال کے اندر پھر سے پیدا کرسکے۔
تاہم ہم نے ان وسائل کو مقررہ وقت سے پہلے استعمال کرلیا اور اب آج کے دن کے بعد سے استعمال کیے جانے والے وسائل کی حیثیت ایسی ہے جیسے کوئی شخص برے وقت کے لیے بچائی گئی رقم کو روز مرہ کے معمولات کے لیے استعمال کرلے۔
وسائل کے استعمال کے مقررہ وقت کے خاتمے کو اوور شوٹ ڈے کے نام سے جانا جاتا ہے جو دنیا بھر میں آج منایا جارہا ہے۔
ماہرین کے مطابق رواں سال ہم نے صرف 7 ماہ میں اتنا زیادہ کاربن اخراج کیا ہے جو سمندروں اور جنگلات سے جذب کرنا مشکل ہے، ہم نے حد سے زیادہ مچھلیوں کا شکار کیا، بے تحاشہ درخت کاٹے اور مقررہ حد سے زائد پانی کا استعمال کیا۔
سال کے اختتام تک چونکہ ہم ان وسائل کا مزید استعمال کرچکے ہوں گے تو اب ان جنگلات، پانی اور صاف ہوا کی دوبارہ بحالی میں زمین کو ایک سال سے کہیں زیادہ وقت درکار ہوگا۔
یہ دن گزشتہ سال کے مقابلے میں پہلے منایا جا رہا ہے۔ گزشتہ سال یہ دن ستمبر میں منایا گیا تھا۔ گزشتہ صدی کے آخر میں یعنی 90 کی دہائی میں یہ دن اکتوبر اور نومبر میں منایا جاتا تھا۔
گویا ہم زمین کے وسائل کو، مال مفت دل بے رحم کے مصداق نہایت بے دردی سے استعمال کرتے ہوئے ان کی فضول خرچی کر رہے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ہم اپنے قدرتی وسائل کو اسی طرح استعمال کرتے رہے تو ان وسائل کو دوبارہ پیدا کرنے کے لیے ہمیں کم از کم ایک اور زمین کی ضرورت پڑے گی۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔
صحرا میں رہنے والے افراد ‘ یا وہ لوگ جنہوں نے صحرا کا مشاہدہ کیا ہو‘ جانتے ہیں کہ صحرا کا آسماں دن میں خوبصورت نیلا اور رات میں روشن اور چمک دار ہوتا ہے۔ ریت کے سنہرے ذروں کی طرح یہ آسمان بھی اپنے اندر بے پناہ کشش رکھتا ہے لیکن کوئلے سے بجلی بنانے والے پلانٹ کے سبب صحرائے تھر کے رہنے والے بہت جلد اپنے اس حسین آسمان سے محروم ہونے والے ہیں۔
سندھ حکومت‘ اینگرو انرجی ‘ اورچین کے اشتراک سے صحرائے تھر میں موجود کوئلے کے عظیم ذخائرکو زمین کی تہہ سے باہر نکال لانے کے منصوبے پرگزشتہ سال اپریل سے زورو شور سے کام جاری ہے اور ساتھ ہی ساتھ 330 میگاواٹ کے دو پاور پلانٹ کی تعمیر بھی اپنے عروج پر ہے جہاں سے2019 کے وسط تک کل 660 میگاواٹ بجلی پیدا ہونا شروع ہوجائے گی اور سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی کا کہنا ہے کہ 2025 تک یہ پراجیکٹ چار ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی استعداد کا حامل ہوجائے گا۔
سائٹ پر جاری کام کے مناظر
اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک جانب تھر کاخوبصورت آسمان کوئلے کے دھویں سے گہنا کر بہت جلد سرمئی رنگت اختیار کرنے والا ہے تو دوسری جانب کوئلے کی کانوں سے خارج ہونے والی میتھین گیس بھی اس علاقے میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے کو پر تول رہی ہے جس میں سب سے پہلےتھر کی پہلے سے تباہ شدہ زراعت سرفہرست ہے۔
تھرکول انرجی اورماحولیاتی آلودگی کا خطرہ
گزشتہ دنوں پیشہ ورانہ مصروفیات کے سلسلے میں تھر کول فیلڈ کا دورہ کیا اور کمپنی کےترجمان سے ملاقات کی جس کے دوران کئی اہم امور زیرِگفتگو آئے جنہیں تلخیص کے ساتھ آپ کی خدمت میں گوش گذار کیا جارہا ہے۔
سندھ اینگرو کول انرجی کمپنی کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے اس پلانٹ کی تعمیر میں نہ صرف یہ کہ حکومتِ پاکستان کے بنائے ہوئے تمام تر معیارات کی پاسداری کی ہے بلکہ ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے بین الاقوامی سطح پر اٹھائے جانے والے اقدامات کو بھی پیشِ نظر رکھا ہے۔
کوئلے کی کان کا فضائی منظرکوئلے کی اسی نوعیت کی ایک اور کان – فائل فوٹو
کمپنی کے ترجمان کے مطابق ماحولیات کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے کئی اقدامات کیے جارہے ہیں ‘ سب سے پہلے تو ملین ٹری پراجیکٹ شروع کیا گیا ہے جس کے تحت سائٹ کی زد میں آنے والے ایک درخت کے بدلے 10 مقامی درخت لگائیں جائیں گے ۔
گیس کے اخراج کے لیے 180 میٹر بلند ایک اسٹیک تعمیر کی جارہی ہے جو کہ ایجنسی برائے تحفظ ماحولیات سندھ کے طے کردہ معیار یعنی 120 میٹر سے کہیں زیادہ ہے۔ گویا یہ زہریلا دھواں بہت اوپر جا کر خارج ہوگا تاہم تب بھی یہ فضا میں موجود رہے گا۔
یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ گیس کو خارج کرنے سے پہلے پانی کے ذریعے ٹھنڈا کیا جائے گا اور میتھین گیس جو کہ ماحول کے لیے سخت تباہ کن گیس ہے، کے خطرات کو چونے کے استعمال سے کم سے کم کیا جائے گا۔
اقدامات اوران پرخدشات
اوپر بیان کیے گئے اقدامات سن کر ایک جانب تو محسوس ہوتا ہے کہ کوئلے کا یہ پلانٹ ماحول کو زیادہ متاثر نہیں کرے گا جیسا کہ کمپنی کا دعویٰ ہے کہ ہوا میں میتھین کی مقدار ایک فیصد کے اندر ہی رہے گی جو کہ عالمی معیار کے مطابق ہے تاہم جب ان سارے معاملات کا تنقیدی نظر سے جائزہ لیا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سب کچھ ویسے ہی ممکن نہیں ہو پائے گا جیسا کہ بتایا جارہا ہے۔
دھیں کے اخراج کے لیے بنایا گیا اسٹیک
کاربن ڈائی آکسائیڈ کا آسیب
سب سے خطرناک بات فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج ہے جس کے حوالے سے تاحال کوئی حکمت عملی سامنے نہیں آئی ہے۔ یاد رہے کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ اس وقت گلوبل وارمنگ کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا جاچکا ہے اور دنیا کے کئی ممالک اسے یونہی ہوا میں کھلا چھوڑ دینے کے بجائے اسے محفوظ طریقے سے تلف کرنے کے طریقے ڈھونڈر ہے ہیں۔
کاربن ڈائی آکسائیڈ ہوا میں شامل ہورہا ہے – فائل فوٹو
اس سلسلے میں ایک تجربہ امریکا کی یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، لاس اینجلس یعنی یو سی ایل اے میں کیا گیا جہاں کاربن سے کنکریٹ تیار کر کے اسے تعمیراتی کاموں میں استعمال کرنے کے تجربے کیے جارہے ہیں۔ اس کو ’سی او ٹو کریٹ ‘ کا نام دیا گیا ہے۔
سی او ٹو کریٹ سے تیار کردہ ٹھوس جسم
دوسری جانب آئس لینڈ کے ہیل شیڈی پلانٹ میں کچھ سال قبل ’کارب فکس‘ نامی پراجیکٹ شروع کیا گیاجس کے تحت کاربن کو سفید ٹھوس پتھر میں تبدیل کیا جارہا ہے۔ یہ پلانٹ آئس لینڈ کےدارالحکومت کو بجلی بھی فراہم کرتا ہےاورسالانہ 40 ہزار ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا کرتا ہے۔ 2012 میں یہاں 250 ٹن کاربن کو پانی کے ساتھ زیر زمین پمپ کرنے کا عمل شروع کیاگیا اور اب وہ سالانہ 10 ہزار ٹن کاربن زیر زمین پمپ کرنے پر کام کر رہے ہیں۔
سائنسدانوں کا خیال ہے کہ زمین کے لیے نقصان دہ مائع کو ٹھوس بنانے میں کئی سو یا کئی ہزار سال لگ سکتے ہیں تاہم اب تک جو بھی مائع زیر زمین پمپ کیا جاچکا ہے اس کا 95 فیصد حصہ 2 سال میں سفید پتھر میں تبدیل ہوچکا ہے۔
ملین ٹری پراجیکٹ
اب ایک نظر ڈالتے ہیں ملین ٹری پراجیکٹ پر۔ تھر کول منصوبے پر گزشتہ 16 ماہ سے کام جاری ہے لیکن شجر کاری کے لیے درخت محض چند دن قبل ہی لگائیں گئے ہیں یعنی کہ جس وقت پلانٹ دھواں اگلنا شروع کرے گا اس وقت تک یہ درخت اس قابل نہیں ہوں گے کہ ہوا میں بڑھتی ہوئی کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرسکیں۔
دوسری اور اہم بات یہ ہے کہ اس بات کی یقین دہانی کون کروائے گا کہ ایک کے بدلے جو 10 درخت لگائیں جارہے ان کی بھرپور نگہداشت کی جائے گی اور وہ صحرا کی موسمی سختیوں اور خشک سالی کا شکار ہوکر محض کاغذوں کا حصہ بن کر نہیں رہ جائیں گے۔
چینی تھر کے ملین ٹری منصوبے میں شجر کاری کرتے ہوئے
میتھین گیس: ہوا میں موجود بم
کوئلے کے بند کان میں اگر میتھین گیس کو کنٹرول کرنا مشکل ہے تو میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ تاحدِ نظر وسیع و عریض رقبے پر پھیلی ہوئی کوئلے کی کان جو کہ 86 میٹر گہرائی تک کھودی جاچکی ہے اور اسے 140 میٹر گہرائی تک جانا ہے، اس وسیع و عریض رقبے پر میتھین گیس کو کنٹرول کرنا کیسے ممکن بنایا جائے گا؟ اس کا جواب فی الحال کمپنی کے ترجمان اور سائٹ پر کام کرنے والے مقامی انجینئر کے پاس نہیں تھا سوائے اس کے کہ ہم اسے لائم اسٹون (چونے ) سے ٹریٹ کرکے ہوا میں چھوڑیں گے۔
یہ بھی کہا جارہا ہے کہ پلانٹ کی کولنگ اور گرین ہاؤس گیسز کی ٹریٹمنٹ کے لیے پانی کا استعمال کیا جائے گا جس کے لیے ایک نہر بھی تھر تک لائی جارہی ہے اور اس پر تعمیر کا کام تیزی سے جاری ہے۔ اب تک کی تحقیقات کے مطابق میتھین گیس پانی پر اس صورت اثرانداز نہیں ہوتی کہ وہ انسانی صحت کے لیے نقصان دہ بنے یا اس کے استعمال سے انسانی جسم کو کسی قسم کا نقصان پہنچنے کا احتمال ہو۔
لیکن امریکی ریاست مینی سوٹا کے محکمہ صحت کی جانب سےشائع کردہ معلوماتی مضمون میں کہا گیا ہے کہ ’’ اب تک کی تحقیق کے مطابق میتھین انسانی جسم کو کسی قسم کا فوری یا دور رس نقصان نہیں پہنچاتی تاہم اس سلسلےمیں بہت کم تحقیق کی گئی ہے اور اس حوالے سے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ استعمال شدہ پانی کے بعد کے استعمال پر نظرررکھی جائے اور اگر اس سے مقامی آبادی یا ماحول کو کسی بھی صورت نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو اس کا فی الفور سدِ باب کیا جائے۔
زیرِ تعمیر پاور پلانٹ کی عمارت
ماہرانہ رائے
اس حوالے سے وفاقی اردو یونی ورسٹی کے شعبہ کیمسٹری کے سابق سربراہ ڈاکٹر معین احمد صدیقی سے رائے لی گئی۔ ڈاکٹر معین کولمبیا یونیورسٹی میں وزٹنگ پروفیسر کی حیثیت سے اپنی خدمات پیش کرتے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ کلائمٹولوجی اور پاکستانی جنگلات پر بے شمار تحقیقاتی مقالے بھی لکھ چکے ہیں۔
ڈاکٹر معین کے مطابق جدید دنیا میں ایسے طریقے موجود ہیں جن میں میتھین اور دیگر گرین ہاؤس گیسز سے درپیش خدشات کا سدِ باب کیا جاتا ہے تاہم اس حوالے نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ آیا ان اقدامات پر عمل کیا جارہا ہے یا نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اٹلی میں جب کوئلے سے بجلی بنانے کا عمل شروع کیا تو وہاں زلزلے بھی آئے تھے جن کا سبب بھی زیرِ زمین گرین ہاؤ س گیسز کا اخراج تھا۔ ڈاکٹر معین احمد نے مزید کہا کہ ایسا نہیں ہے کہ کوئلے سے پیدا ہونے والی آلودگی کا سدباب نہیں کیا جاسکتا۔ ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ کیمیکل ری ایکشن کے ذریعے گیس کی ہیئت تبدیل کردی جاتی ہے جس کے بعد وہ ماحول اور اوزون کے لیے نقصان دہ ثابت نہیں ہوتی۔
پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلیوں سے درپیش مسائل
یہاں یہ بات بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ عالمی ماحولیاتی آلودگی کی شرح میں پاکستان کا حصہ محض 0.43 فیصد ہے لیکن پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک ہے۔ یہاں تیزی سے بڑھتی ہوئی گرمی‘ حد سے زیادہ بارشیں‘ کچھ علاقوں میں بارش کا بالکل نہ ہونا‘ سیلاب اور سمندروں کی حدود تبدیل ہونا یہ وہ سب عوامل ہیں جو مشترکہ طور پر پاکستان کو شدید ترین نقصان پہنچا رہے ہیں جن میں ملک کی مجموعی پیداوار (جی ڈی پی) کو پہنچے والا سالانہ 3 فیصد کا نقصان بھی شامل ہے جو کہ دہشت گردی سے پہنچنے والے نقصان یعنی سالانہ 2 فیصد سے زیادہ ہے۔
لہذا تاریخ کے اس مشکل ترین موڑپرپاکستان کسی بھی صورت اپنے ماحول کو نقصان پہنچانے کا رسک نہیں لے سکتا۔ اسی سبب پاکستان پائیدار ترقیاتی اہداف برائے 2030 کا حصہ بھی ہے جس کے طے کردہ کل 17 اہداف میں سے 6 براہ راست ماحولیات سے متعلق ہیں جبکہ باقی بھی کسی نہ کسی صورت ماحولیات تبدیلیوں کو پیشِ نظر رکھ کر مرتب کیے گئے ہیں۔
پائیدار ترقیاتی اہداف برائے 2030
اگرآپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پرشیئرکریں۔
ماحول کو صاف رکھنے اور آلودگی سے بچانے کے لیے درخت لگانا بے حد ضروری ہیں لیکن اس سے قبل یہ علم ہونا ضروری ہے کہ کس علاقے کی آب و ہوا اور محل وقوع کے لحاظ سے کون سے درخت موزوں رہیں گے۔
فیصل آباد کی زرعی یونیورسٹی کے پروفیسر محمد طاہر صدیقی اس بارے میں نہایت مفید معلومات فراہم کرتے ہیں۔
زرعی یونیورسٹی سے ہی تعلیم یافتہ پروفیسر طاہر صدیقی نے ملائشیا اور نیوزی لینڈ سے بھی تعلیم حاصل کی۔ ماحولیات اور شجر کاری کے موضوع پر ان کی 45 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔
پروفیسر طاہر صدیقی کے مطابق درخت اپنی افزائش اور ساخت کے اعتبار سے مختلف زمینوں اور مختلف موسمی حالات میں مخصوص اقسام پر مشتمل ہوتے ہیں۔ مخلتف درخت مخصوص آب و ہوا، زمین، درجہ حرارت اور بارش میں پروان چڑھ سکتے ہیں۔
مثال کے طور پر ٹھنڈے علاقوں کا درخت پائن گرم مرطوب علاقوں میں نہیں بڑھ سکتا۔ لہٰذا موسمی حالات و تغیرات درختوں کے چناؤ میں بڑی اہمیت کے حامل ہیں جن کا ادراک ہونا بہت ضروری ہے۔
اس کی ایک اور مثال کراچی میں لگائے جانے والے کونو کارپس کے درخت بھی ہیں۔ یہ درخت کراچی کی آب و ہوا سے ہرگز مطابقت نہیں رکھتے۔
یہ درخت شہر میں پولن الرجی کا باعث بن رہے ہیں۔ یہ دوسرے درختوں کی افزائش پر بھی منفی اثر ڈالتے ہیں جبکہ پرندے بھی ان درختوں کو اپنی رہائش اور افزائش نسل کے لیے استعمال نہیں کرتے۔
تاہم معلومات کی عدم فراہمی کے باعث کراچی میں بڑے پیمانے پر یہ درخت لگائے جا چکے ہیں۔ صرف شاہراہ فیصل پر 300 کونو کارپس درخت موجود ہیں۔
بعض ماہرین کے مطابق کونو کارپس بادلوں اور بارش کے سسٹم پر بھی اثر انداز ہو رہے ہیں جس کے باعث کراچی میں مون سون کے موسم پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔
پنجاب کے لیے موزوں درخت
پروفیسر طاہر صدیقی کے مطابق جنگلات کے نقطہ نظر سے جنوبی پنجاب میں زیادہ تر خشک آب و ہوا برداشت کرنے والے درخت پائے جاتے ہیں۔
آب و ہوا خشک ہے تو یہاں پر خشکی پسند درخت زیادہ کاشت کیے جائیں جو خشک سالی برداشت کرسکیں۔ یہاں بیری، شریں، سوہانجنا، کیکر، پھلائی، کھجور، ون، جنڈ، فراش لگایا جائے۔
اس کے ساتھ آم کا درخت بھی اس آب و ہوا کے لیے نہایت موزوں ہے۔
ان کے مطابق وسطی پنجاب میں نہری علاقے ہیں لہٰذا وہاں املتاس، شیشم، جامن، توت، سمبل، پیپل، بکاین، ارجن، اور لسوڑا لگایا جائے۔
شمالی پنجاب میں کچنار، پھلائی، کیل، اخروٹ، بادام، دیودار، اوک کے درخت لگائے جائیں۔
پروفیسر طاہر صدیقی کا کہنا ہے کہ کھیت میں کم سایہ دار درخت لگائیں، ان کی جڑیں بڑی نہ ہوں اور وہ زیادہ پانی استعمال نہ کرتے ہوں۔ سفیدہ صرف وہاں لگایا جائے جہاں زمین خراب ہو، یہ سیم و تھور ختم کر سکتا ہے۔ جہاں زیر زمین پانی کم ہو اور فصلیں ہوں وہاں سفیدہ نہ لگایا جائے۔
اسلام آباد اور سطح مرتفع پوٹھو ہار کے لیے موزوں درخت
پروفیسر محمد طاہر صدیقی کے مطابق خطہ پوٹھوہار کے لیے موزوں درخت دلو، پاپولر، کچنار، بیری اور چنار ہیں۔ اسلام آباد میں لگا پیپر ملبری الرجی کا باعث بن رہا ہے اس کو ختم کرنا ضروری ہے۔
اس کی جگہ مقامی درخت لگائے جائیں۔ زیتون کا درخت بھی یہاں کے لیے موزوں ہے۔
سندھ کے لیے موزوں درخت
سندھ کے ساحلی علاقوں میں پام ٹری اور کھجور لگانا موزوں رہے گا۔
کراچی میں املتاس، برنا، نیم، گلمہر، جامن، پیپل، بینیان، ناریل اور اشوکا لگایا جائے۔ اندرون سندھ میں کیکر، بیری، پھلائی، ون، فراش، سوہانجنا اور آسٹریلین کیکر لگانا موزوں رہے گا۔
بلوچستان کے لیے موزوں درخت
صوبہ بلوچستان کے لیے موزوں ترین درخت صنوبر کا ہے۔ زیارت میں صنوبر کا قدیم جنگل بھی موجود ہے جو دنیا بھر میں صنوبر کا دوسرا بڑا جنگل ہے۔
باقی بلوچستان خشک پہاڑی علاقہ ہے اس میں ون کرک، پھلائی، کیر، بڑ، چلغوزہ پائن، اور اولیو ایکیکا لگایا جائے۔
خیبر پختونخواہ کے لیے موزوں درخت
پروفیسر طاہر کہتے ہیں کہ خیبر پختونخواہ میں شیشم، دیودار، پاپولر، کیکر، ملبری، چنار اور پائن ٹری لگایا جائے۔
درخت لگانے کے لیے مزید ہدایات
پروفیسر طاہر صدیقی کے مطابق
اگر آپ اسکول، کالج یا پارک میں درخت لگا رہے ہیں تو درخت ایک قطار میں لگیں گے اور ان کے درمیان 10 سے 15 فٹ کا فاصلہ ہونا چاہیئے۔
گھر میں درخت لگاتے وقت دیوار سے دور لگائیں۔
آپ مالی کے بغیر بھی باآسانی درخت لگا سکتے ہیں۔ نرسری سے پودا لائیں، زمین میں ڈیڑھ فٹ گہرا گڑھا کھودیں۔ اورگینک ریت اور مٹی سے بنی کھاد ڈالیں۔
اگر پودا کمزور ہے تو اس کے ساتھ ایک چھڑی باندھ دیں۔ پودا ہمیشہ صبح کے وقت یا شام میں لگائیں۔ دوپہر میں نہ لگائیں اس سے پودا سوکھ جاتا ہے۔
پودا لگانے کے بعد اس کو پانی دیں۔ گڑھا نیچا رکھیں تاکہ اس میں پانی رہیں۔
ہر ایک دن بعد کر پانی دیں۔ پودے کے گرد کوئی جڑی بوٹی نظر آئے تو اس کو کھرپی سے نکال دیں۔
اگر پودا مرجھانے لگے تو گھر کی بنی ہوئی کھاد یا یوریا فاسفورس والی کھاد اس میں ڈالیں لیکن یوریا کم ڈالیں ورنہ اس سے پودا سڑ سکتا ہے۔
گھروں میں لگانے کے لیے شہتوت، جامن، سہانجنا، املتاس اور بگائن نیم کے درخت موزوں ہیں۔
یہ مضمون ٹی آر ٹی اردو کی ویب سائٹ سے لیا گیا ہے جس کی مصنفہ جویریہ صدیق ہیں۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔
گزشتہ چند سالوں سے کراچی میں بارشوں کے نہ ہونے یا بہت کم ہونے کے بعد اب یکایک کراچی میں بہت زیادہ بارشیں ہونے لگی ہیں۔ گزشتہ سال موسم سرما کے بعد اب رواں سال بھی معمول سے زیادہ بارش ہوئی۔
ان بارشوں نے ایک طرف تو کراچی والوں کو خوشی سے نہال کردیا دوسری جانب یہ تاثر بھی پیدا ہوا کہ شاید اب کراچی کا موسم معمول پر آرہا ہے اور اب کراچی میں بھی ملک کے دیگر حصوں کی طرح بارشیں ہوں گی۔
لیکن شاید ایسا نہیں ہے۔
کراچی کے موسم میں اس اچانک تبدیلی کی وجہ جاننے کے لیے اے آر وائی نیوز نے سابق چیف میٹرولوجسٹ توصیف عالم سے رابطہ کیا اور انہوں نے اس کی جو وجوہات بتائیں وہ زیادہ امید افزا نہیں ہیں۔
کلائمٹ چینج سب سے بڑی وجہ
سابق چیف میٹرولوجسٹ توصیف عالم کے مطابق موسم میں اس اچانک تبدیلی کی پہلی اور سب سے بڑی وجہ تو موسمیاتی تغیرات کلائمٹ چینج ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ دنیا بھر میں کلائمٹ چینج بہت تیزی سے واقع ہو رہا ہے جس کے باعث دنیا کے ہرخطے کا موسم غیر متوقع طور پر تبدیل ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی شدت میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔
توصیف عالم کے مطابق، ’کلائمٹ چینج نے دنیا بھر کے موسم کو تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ صحراؤں میں برف باری اور بارشیں ہورہی ہیں، شدید سرد علاقوں میں گرمی پڑنے لگی ہے۔ جو علاقے گرم ہوتے تھے وہاں بھی اب ناقابل برداشت سردی پڑتی ہے۔ یہ سب کلائمٹ چینج کی کرامات ہیں‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ہماری تیز رفتار ترقی نے فطرت کو تبدیل کردیا ہے جس کے نتائج اب غیر متوقع موسموں کی صورت میں سامنے آرہے ہیں۔
موسم کی پیش گوئی دشوار
توصیف عالم کے مطابق کلائمٹ چینج نے اب دنیا بھر کے موسم کو بالکل غیر متوقع، ناقابل بھروسہ اور ناقابل پیشن گوئی بنا دیا ہے۔ ’اب یہ ناممکن ہے کہ آپ قطعیت کے ساتھ کہہ دیں کہ اگلے برس اس شہر میں ایسا موسم ہوگا، بارشیں ہوں گی یا نہیں، اور آئندہ آنے والے چند برسوں کے موسم کی پیشن گوئی کرنا تو بالکل ناممکن ہے‘۔
یہی صورتحال کراچی کے موسم کی ہے۔ کراچی میں بارشوں کا سلسلہ اب باقاعدہ طور پر جاری رہے گا یا نہیں، اس بارے میں بھی ماہرین اندھیرے میں ہیں۔ ’کچھ کہہ نہیں سکتے کہ آیا اگلے برس بھی ایسی ہی بارشیں ہوں گی یا نہیں۔ ہوسکتا ہے اگلے برس اس سے زیادہ بارشیں ہوں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بالکل بارش نہ ہو‘۔
ان کے مطابق یہ صورتحال صرف کراچی پر ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے موسم پر لاگو ہوتی ہے۔
ایل نینو کا اثر
توصیف عالم کے مطابق بارشوں کے پیٹرن میں تبدیلی کی ایک وجہ ایل نینو بھی ہے۔
ایل نینو بحر الکاہل (پیسیفک) کے درجہ حرارت میں اضافہ کو کہتے ہیں جس کے باعث بحر الکاہل میں پانی غیر معمولی طور پر گرم ہو جاتا ہے اور دنیا بھر میں موسمی بگاڑ کا باعث بنتا ہے۔
یہ عمل ہر 4 سے 5 سال بعد رونما ہوتا ہے جو گرم ممالک میں قحط، خشک سالیوں اور سیلاب کا سبب بنتا ہے۔
ایل نینو کاربن کو جذب کرنے والے قدرتی ’سنک‘ جیسے جنگلات، سمندر اور دیگر نباتات کی صلاحیت پر بھی منفی اثر ڈالتا ہے جس کے باعث وہ پہلے کی طرح کاربن کو جذب نہیں کرسکتے اور یوں درجہ حرارت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
ایل نینو دنیا بھر کے موسم پر اثر انداز ہوتا ہے لہٰذا اس کی وجہ سے مون سون کے سائیکل بھی متاثر ہوتے ہیں۔
سب سے زیادہ بارشیں کہاں ہوتی ہیں؟
ایک عام خیال ہے (جو پاکستان میں ابھی تک سائنس کی کتابوں میں بھی پڑھایا جاتا ہے) کہ سب سے زیادہ بارشیں ساحلی علاقوں میں ہوتی ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ سمندر کا پانی بخارات بن کر اوپر جاتا ہے، وہ بخارات بادل بنتے ہیں پھر وہی بادل بارش برساتے ہیں۔
لیکن ماہرین اس کی نفی کرتے ہیں۔ ان کے مطابق سمندر سے بادل بننے تک کا عمل تو درست ہے، لیکن یہ بادل بارش برسانے جیسے نہیں ہوتے۔ یہ زیادہ اونچائی تک نہیں جاسکتے علاوہ ازیں سمندری ہوا کی وجہ سے یہ بکھر بھی جاتے ہیں لہٰذا یہ بارش برسانے کے قابل نہیں ہوتے۔
اس بارے میں توصیف عالم کا کہنا ہے کہ سب سے زیادہ بارشیں پہاڑی علاقوں میں ہوتی ہیں۔ جیسے جیسے ہوا اوپر (پہاڑ) کی طرف جاتی ہے ویسے ویسے ہوا میں نمی کا تناسب بڑھتا جاتا ہے۔
ان کے مطابق دنیا بھر کے پہاڑوں اور بلندی پر موجود علاقوں میں زیادہ بارشیں ہوتی ہیں۔
اس کے بعد زیادہ بارشیں جنگلات والے علاقوں میں ہوتی ہیں۔ کسی علاقے میں موجود جنگل اور ہریالی بارش لانے کا سبب بنتے ہیں۔ دنیا بھر کے برساتی جنگلات (رین فاریسٹ) میں بے تحاشہ بارشیں ہوتی ہیں جن میں سرفہرست برازیل کے امیزون کے جنگلات ہیں۔
امیزون کے جنگلات دنیا بھر کے برساتی جنگلات کا ایک تہائی حصہ ہیں اور یہاں سالانہ 15 سو سے 3 ہزار ملی میٹر بارشیں ہوتی ہیں۔
سب سے کم بارشیں ساحلی علاقوں میں ہوتی ہیں جن میں کراچی بھی شامل ہے۔
فطرت کی رفو گری
کراچی کی حالیہ بارشوں سے ایک تاثر یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ موسم کے درست ہونے کا یہ عمل قدرتی ہے۔ گویا فطرت اپنے آپ کو درست کر رہی ہے۔ لیکن کیا واقعی ایسا ہے؟
اس بارے میں ماہر ماحولیات شبینہ فراز کہتی ہیں، ’فطرت کا اپنے آپ کو رفو کرنا قابل فہم بات تو ہے، لیکن یہ عمل اتنا آسان نہیں۔ اول تو یہ کہ ہم جس قدر تباہی و بربادی پھیلا چکے ہیں اس حساب سے اگر فطرت اپنے آپ کو درست کر بھی رہی ہے تو اس کی شرح بہت کم ہے جسے ہم صفر اعشاریہ چند فیصد کہہ سکتے ہیں‘۔
ان کے مطابق، ’یہ درستی اگر ہو بھی رہی ہے تو قابل مشاہدہ نہیں ہے کیونکہ جس وقت فطرت اپنے آپ کو رفو کرتی ہے، ہم اس سے اگلے ہی لمحے دوگنی چوگنی خرابی پیدا کردیتے ہیں‘۔
شبینہ فراز کا کہنا ہے، ’جب زمین پر رہنے والے جاندار بہت زیادہ تباہی مچادیں تو فطرت اپنی اصل کی طرف پلٹنے کے لیے ایک خوفناک سرجری کے عمل سے گزرتی ہے اور اب بھی ایسا ممکن ہے۔ ہو سکتا ہے سب کچھ ٹھیک ہونے سے قبل بے شمار طوفان آئیں، سمندر کناروں سے باہر نکل کر ہر شے کو تباہ کردے، ہر وہ شے جو فطرت کو نقصان پہنچا رہی ہے تباہ ہوجائے، اس کے بعد فطرت اپنی اصل حالت پر تو واپس آجائے گی، درخت بھی ہوں گے، موسم بھی ٹھیک ہوگا، اور سمندر بھی اپنی حدوں میں ہوگا لیکن پھر انسان کہیں نہیں ہوگا‘۔
ماہرین کے مطابق کراچی سمیت پورے ملک کا موسم اب ایسے ہی ناقابل پیشن گوئی رہے گا اور اس سے نمٹنے کی ایک ہی صورت ہے کہ ہم ہر لمحہ ہر قسم کی صورتحال کے لیے تیار رہیں۔
ہم جانتے ہیں کہ ورزش کا مطلب جسم کو فعال کرنا ہے تاکہ ہمارے جسم کا اندرونی نظام تیز اور بہتر ہوسکے اور ہم بے شمار بیماریوں سے محفوظ رہ سکیں، تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ہم ورزش کرتے ہوئے لطف اندوز نہیں ہوتے، تو ورزش سے ہماری دلچسپی کم ہوتی جاتی ہے۔
ماہرین کے مطابق تحقیق کے لیے جب کھلی فضا اور جم میں ورزش کرنے والوں کا جائزہ لیا گیا تو دیکھا گیا کہ جو افراد کھلی فضا میں کسی پارک، یا سبزے سے گھری کسی سڑک پر چہل قدمی کرتے تھے ان کا موڈ ان لوگوں کی نسبت بہتر پایا گیا جو جم میں ورزش کرتے تھے۔
تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا ہے کہ فطرت ہماری دماغی صحت پر ناقابل یقین اثرات مرتب کرتی ہے۔ یہ ذہنی دباؤ اور ڈپریشن میں کمی کرتی ہے جبکہ ہمارے دماغ کو پرسکون کر کے ہماری تخلیقی صلاحیت میں بھی اضافہ کرتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کمپیوٹر پر کوئی پسندیدہ کام کرتے ہوئے وقت گزارنے والے اور فطرت کے قریب وقت گزارنے والے افراد کے درمیان ان لوگوں میں ذہنی سکون اور اطمینان کی شرح بلند ہوگی جنہوں نے کھلی فضا میں وقت گزارا۔
ان کے مطابق لوگ جتنا زیادہ فطرت سے منسلک ہوں گے اتنا ہی زیادہ وہ جسمانی و دماغی طور پر صحت مند ہوں گے۔
ماہرین نے تجویز کیا کہ پر ہجوم شہروں میں رہنے والے لوگ سال میں ایک سے دو مرتبہ کسی فطری مقام پر ضرور وقت گزاریں۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ زمین پر ایک اور عظیم معدومی کا وقت تیزی سے قریب آتا جارہا ہے اور اس کی رفتار ہمارے گمان سے بھی تیز ہے۔
عظیم معدومی ایک ایسا عمل ہے جو کسی تباہ کن آفت یا زمینی و جغرافیائی عوامل کی وجہ سے رونما ہوتی ہے اور اس کے بعد زمین سے جانداروں کی 60 فیصد سے زائد آبادی ختم ہوجاتی ہے۔ بچ جانے والی حیاتیات اس قابل نہیں ہوتی کہ ہھر سے اپنی نسل میں اضافہ کرسکے۔
زمین پر اب تک 5 عظیم معدومیاں رونما ہوچکی ہیں۔ سب سے خوفناک معدومی 25 کروڑ سال قبل واقع ہوئی جب زمین کی 96 فیصد آبی اور 70 فیصد زمینی حیات صفحہ ہستی سے مٹ گئی۔
آخری معدومی اب سے ساڑھے 6 کروڑ سال قبل رونما ہوئی جس میں ڈائنوسارز سمیت زمین کی ایک تہائی حیاتیات ختم ہوگئی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اب زمین چھٹی معدومی کی طرف بڑھ رہی ہے، لیکن یہ عمل جس تیزی سے واقع ہورہا ہے وہ ہمارے وہم و گمان سے کہیں آگے ہے۔
حال ہی میں کی جانے والی ایک جامع تحقیق کے نتائج کے مطابق زمین کی 30 فیصد ریڑھ کی ہڈی والے جاندار جن میں مچھلیاں، پرندے، دیگر آبی حیات، رینگنے والے جانور اور کچھ ممالیہ جاندار شامل ہیں، کی آبادی میں تیزی سے کمی واقع ہورہی ہے۔
یہ تحقیق امریکا کی نیشنل اکیڈمی آف سائنس میں پیش کی گئی۔
یاد رہے کہ گزشتہ دہائی تک کہا جارہا تھا کہ زمین پر جانوروں کے خاتمے کا عمل رونما ہونے والا ہے۔ اب خیال کیا جارہا ہے کہ یہ عمل شروع ہوچکا ہے اور حالیہ تحقیق سے علم ہورہا ہے کہ اس عمل میں تیزی آچکی ہے اور اسے کسی طرح نہیں روکا جاسکتا۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ معدومی کے خطرے کی طرف بڑھتے ان جانداروں میں گوریلا، چیتے، بندر اور گینڈے وغیرہ شامل ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اب چونکہ معدومی کا یہ عمل شروع ہوچکا ہے تو ایک اوسط اندازے کے مطابق ہر سال ریڑھ کی ہڈی رکھنے والے 2 جانداروں کی اقسام معدوم ہوجاتی ہے۔
پناہ گاہوں کی تباہی
ماہرین نے اس عظیم معدومی کی سب سے بڑی وجہ جانداروں کی پناہ گاہوں یا ان کے گھروں کی تباہی کو قرار دیا ہے۔
تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں جاری کلائمٹ چینج کے باعث بڑھتا ہوا درجہ حرارت گرم علاقے کے جانداروں کو مجبور کر رہا ہے کہ وہ صدیوں سے اپنی رہائش کو چھوڑ کر نئی رہائش اختیار کریں۔
ہجرت کا یہ عمل جانوروں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے اور نئے ماحول سے مطابقت نہ ہونے کے باعث تیزی سے ان کی اموات واقع ہوتی ہیں۔
پناہ گاہوں کی تباہی کی ایک اور وجہ دنیا بھر میں تیزی سے ہونے والی جنگلات کی کٹائی بھی ہے جس سے جنگلوں میں رہنے والے جانور بے گھر ہوتے جارہے ہیں۔
گوریلا سمیت دیگر افریقی جانور مختلف افریقی ممالک میں جاری خانہ جنگیوں کی وجہ سے بھی خطرات کا شکار ہیں جس کے باعث ان کے غذائی ذخائر میں بھی کمی آرہی ہے۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔
بیجنگ: چین کے شہر ڈٹونگ میں دنیا کے سب سے خوبصورت پانڈا پاور پلانٹ کی تعمیر کا کام جاری ہے۔ ایک بڑے پانڈا کی شکل میں یہ شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے کا ایک اہم مرکز بن جائے گا۔
اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام یو این ڈی پی کی معاونت سے بنایا گیا یہ سولر پارک چین کے قومی جانوروں میں سے ایک پانڈا کی شکل میں تعمیر کیا گیا ہے۔
پانڈا سولر فارم چین کے چند بڑے ماحول دوست توانائی حاصل کرنے والے منصوبوں میں شامل ہے جو 250 ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے۔
فارم میں شمسی توانائی حاصل کرنے کے پینلز اس طرح سے لگائے گئے ہیں کہ فضا سے یہ ایک جائنٹ پانڈا معلوم ہوتا ہے۔
چین میں توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے مذکورہ چینی کمپنی پانڈا کی شکل کے مزید سولر فارم بنانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ فارم کی تعمیر مکمل ہوجانے کے بعد یہاں سے بجلی کی ترسیل بھی شروع ہوجائے گی۔
منتظمین کا کہنا ہے کہ پانڈا کی شکل کا سولر فارم نئی نسل کو ماحولیاتی بہتری کے لیے ماحول دوست توانائی کے ذرائع اور معدومی کے خطرے کا شکار جانور پانڈا کے تحفظ کی طرف متوجہ کرنا ہے۔
یاد رہے کہ چین اپنی توانائی کی تمام ضروریات کوئلے سے پوری کرتا ہے جس کے باعث چین دنیا کے فضائی طور پر آلودہ ترین ممالک کی فہرست میں سب سے اوپر ہے۔
چین کی فضائی آلودگی اس قدر خطرناک ہوچکی ہے کہ یہ ہرروز 4 ہزار افراد کی موت کا سبببن رہی ہے جو آلودگی کے باعث مختلف بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔
چین سمیت دنیا بھر میں اب کوئلے اور دیگر فاسل فیولز کا استعمال کم کر کے آہستہ آہستہ توانائی کی ضروریات قابل تجدید ذرائع سے پوری کی جارہی ہیں جن میں سرفہرست شمسی توانائی کا استعمال ہے۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔