Tag: ماحولیات

  • زمین پر آباد جانور کب سے یہاں موجود ہیں؟

    زمین پر آباد جانور کب سے یہاں موجود ہیں؟

    ہماری ماں، زمین جس پر ہم رہتے ہیں اس کی عمر ساڑھے 4 ارب سال ہے۔ اس طویل عرصے کے دوران لاکھوں کروڑوں سال پر مبنی کئی ادوار آئے اور مٹ گئے۔

    زمین پر زندگی کی موجودگی سے لے کر اب تک 5 عظیم معدومیاں رونما ہوچکی ہیں۔ ان معدومیوں میں زمین کی 70 فیصد (جنگلی و آبی) حیات ختم ہوجاتی۔ کچھ عرصے (ہزاروں یا لاکھوں سال بعد) ایک بار پھر زندگی وجود میں آتی اور حیات کا یہ سلسلہ چلتا رہا۔

    مزید پڑھیں: معدومی سے بال بال بچنے والے 5 جانور

    زمین پر بسنے والے انسانوں کی عمر تو کچھ زیادہ نہیں، البتہ ہماری دنیا میں بے شمار ایسے جانور موجود ہیں جو لاکھوں کروڑوں سال سے زمین پر ہیں۔ ان کی نسل کا ارتقا جاری رہا، شکل اور جسامت بدلتی رہی، لیکن ان کی نسل کئی صدیوں سے یہاں موجود ہے۔

    آج ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ کون سا جانور کتنے عرصے سے زمین پر موجود ہے۔

    اس وقت زمین پر موجود سب سے قدیم جانور جیلی فش ہے۔ زمین پر آخری معدومی اب سے 6.6 کروڑ سال پہلے رونما ہوئی تھی اور جیلی فش اس سے بھی قدیم تقریباً 55 کروڑ سال قدیم ہے۔

    شارک کی ایک نایاب نسل گوبلن شارک 11.8 کروڑ سال قدیم ہے۔

    ہاتھی: ماہرین نے ہاتھی کے سب سے قدیم دریافت کیے جانے والے رکازیات کی عمر 5.5 کروڑ سال بتائی ہے۔ ہاتھی اس وقت زمین پر موجود تمام جانوروں میں سب سے قوی الجثہ جانور ہے۔

    معلومات بشکریہ: ارتھ لائف ڈاٹ نیٹ

    گوریلا: ماہرین کی ایک دریافت کے مطابق گوریلا 1 کروڑ سال قبل بھی زمین پر موجود تھا۔

    چیتا: 20 لاکھ سال قدیم ۔ چیتے کے قدیم ترین رکاز جو ماہرین نے دریافت کیے ہیں، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ چیتوں کی ابتدائی نسل آج کے چیتوں سے جسامت میں نہایت چھوٹی تھی۔

    معلومات بشکریہ: ٹائیگرز ورلڈ

    پانڈا: پانڈا کے سب سے قدیم رکاز (فوسلز) 20 لاکھ سال قدیم ہیں۔

    معلومات بشکریہ: سائنس ڈیلی

    زرافہ: زمین پر موجود لمبا ترین جانور جس کے قدیم ترین رکاز 15 لاکھ سال پرانے ہیں۔

    معلومات بشکریہ: اینیمل کارنر

    کتا: کتے کے سب سے قدیم آثار 31 ہزار 7 سو سال قدیم ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہم نہایت تیزی سے چھٹی عظیم معدومی کی طرف بڑھ رہے ہیں جس میں ایک بار پھر زمین پر آباد 70 فیصد سے زائد جانوروں کے مٹ جانے کا خدشہ ہے۔

    لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ اس بار یہ عمل قدرتی نہیں ہوگا، بلکہ انسان کا اپنا پیدا کردہ ہوگا۔

    مزید پڑھیں: کیا ہم جانوروں کو معدومی سے بچا سکیں گے؟

    ان کے مطابق جانوروں کے بے دریغ شکار، ان کے گھروں (جنگلات) کی کٹائی، ہماری صنعتی ترقی کی وجہ سے زہریلے دھوئیں کا اخراج، اس کی وجہ سے ہونے والی فضائی و آبی آلودگی، اور مجموعی طور پر پوری دنیا کے درجہ حرارت میں اضافہ (گلوبل وارمنگ) ایسے عوامل ہیں جو نہ صرف جانوروں بلکہ نسل انسانی کو بھی ختم کرسکتے ہیں۔

  • طالبان اب درخت اگائیں گے

    طالبان اب درخت اگائیں گے

    کابل: افغان طالبان کے امیر نے اپنے جنگجوؤں اور اپنے محکوم عام عوام کو درخت لگانے پر زور دیا ہے۔ طالبان کے اس بیان نے دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ افغانستان کے حکومتی حلقوں نے اسے جرائم سے توجہ ہٹانے کی کوشش قرار دیا ہے۔

    طالبان کے قبضے اوران کے ساتھ خانہ جنگیوں نے جہاں ایک طرف تو افغانستان کے انفرا اسٹرکچرکوتباہ کیا، وہیں افغانستان کی جنگی حیات و قدرتی ماحول کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔

    گو کہ سنہ 2007 میں عالمی ادارہ صحت نے افغانستان کو ان غیر افریقی ممالک میں سے ایک قرار دیا تھا جہاں ماحولیاتی خطرات کے باعث موت کی شرح سب سے کم ہے، تاہم گزشتہ چند سالوں میں افغانستان میں درختوں اور جنگلات کی کٹائی میں تشویش ناک اضافہ ہوگیا ہے۔

    taliban-1

    افغانستان کی زیادہ تر آبادی ایندھن کے حصول کے لیے درختوں کو کاٹ کر ان کی لکڑی استعمال کرتی ہے جس کی وجہ سے وہاں جنگلات کا رقبہ دن بدن کم ہوتا جارہا ہے۔

    ایک روز قبل افغانستان میں طالبان کے امیر ہیبت اللہ اخوند زادہ نے ایک پیغام جاری کیا جس میں انہوں نے طالبان جنگجوؤں اور عام عوام پر زیادہ سے زیادہ درخت لگانے پر زور دیا۔

    مزید پڑھیں: افغان طالبان کے نئے امیر ملا ہیبت اللہ اخوند زادہ کون ہیں؟

    پیغام میں ان کا کہنا تھا، ’زمین کی خوبصورتی کے لیے پھل دار یا غیر پھل دار درخت لگائیں، اس سے ہمیں خدا کی نعمتوں سے فائدہ اٹھانے کا موقع ملے گا‘۔

    پیغام میں مزید کہا گیا ہے، ’درخت لگانا ماحول کے تحفظ، معاشی ترقی اور زمین کی خوبصورتی کے لیے ضروری ہیں‘۔

    taliban-2

    دوسری جانب افغان صدر اشرف غنی کے ترجمان شاہ حسین مرتضوئی نے اس پیغام کو طالبان کے مذموم جرائم کی طرف سے توجہ ہٹا کر عوام کی ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش قرار دیا ہے۔

    یاد رہے کہ ہیبت اللہ اخوند زادہ کو گزشتہ برس مئی میں افغان طالبان کا نیا امیر مقرر کیا گیا تھا۔ ان کا تقرر ملا اختر منصور کی ہلاکت کے بعد عمل میں آیا تھا۔

  • آلودگی کی وجہ سے بھارت میں ورلڈ کپ کا انعقاد خطرے میں

    آلودگی کی وجہ سے بھارت میں ورلڈ کپ کا انعقاد خطرے میں

    نئی دہلی: بھارتی دارالحکومت میں فضائی آلودگی کی خطرناک سطح اور اسموگ کے باعث نئی دہلی میں ہونے والے انڈر 17 ورلڈ کپ کا انعقاد خطرے میں پڑگیا ہے۔ ذرائع کے مطابق فیفا ورلڈ کپ کا مقام تبدیل کر سکتی ہے۔

    بھارت میں فیفا کے حکام کے مطابق نئی دہلی میں آلودگی کی سطح خطرناک حد تک بلند ہوچکی ہے۔ اس سطح میں گزشتہ برس دیوالی کے تہوار کے بعد مزید اضافہ ہوگیا جب ملک بھر میں بڑے پیمانے پر آتش بازی کی گئی۔

    بھارتی فیفا حکام کے مطابق میچ کا حتمی شیڈول فی الحال طے نہیں کیا گیا، تاہم نئی دہلی کی فضائی آلودگی فیفا کے زیر غور ہے۔

    مزید پڑھیں: فضائی آلودگی دماغی بیماریاں پیدا کرنے کا باعث

    یاد رہے کہ سنہ 2013 میں فیفا نے اعلان کیا تھا کہ اگلے فٹبال انڈر 17 ورلڈ کپ کا میزبان ملک ممکنہ طور پر بھارت ہوسکتا ہے۔ اگر فیفا اپنے وعدے پر قائم رہا تو ٹورنامنٹ نئی دہلی سمیت 6 شہروں میں منعقد کیا جائے گا۔

    حکام کے مطابق گزشتہ برس آلودگی کی سطح میں دیوالی کے بعد خطرناک اضافے کو دیکھتے ہوئے یہ صورتحال اور بھی تشویش ناک ہوجاتی ہے کیونکہ ورلڈ کپ رواں برس اکتوبر میں ہوگا اور اسی ماہ دیوالی کا تہوار بھی منایا جائے گا۔

    عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کے مطابق بھارت میں ہر سال فضائی آلودگی کے باعث 11 لاکھ افراد موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔ یہ دنیا بھر میں آلودگی کے باعث اموات کی دوسری سب سے بڑی شرح ہے۔

    چین 155 لاکھ افراد کے ساتھ سرفہرست ہے۔

    یاد رہے کہ گزشتہ برس بھارت میں فضائی آلودگی کی سطح اس وقت خطرناک سطح کو پہنچ گئی تھی جب بھارتی پنجاب میں دیہاتیوں نے بڑی مقدار میں فصلوں کو جلایا تھا۔ جلائی گئی فصلوں کے دھوئیں سے نہ صرف بھارت بلکہ پاکستان کا شہر لاہور بھی زہریلی اسموگ کی لپیٹ میں آگیا تھا۔

    انہی دنوں بھارت کو تاریخ کی بدترین فضائی آلودگی کے باعث دارالحکومت کے 1800 پرائمری اسکولوں میں بھی 3 دن کی تعطیلات کا اعلان کرنا پڑا تھا۔

    مزید پڑھیں: زہریلی اسموگ سے کیسے بچا جائے؟

    اس سے قبل گزشتہ برس برازیل میں منعقد ہونے والے ریو اولمپکس 2016 میں بھی ماہرین کھلاڑیوں کی صحت کے بارے میں تشویش کا شکار تھے۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ ریو ڈی جنیرو کا پانی اس قدر آلودہ ہے کہ صرف تین گھونٹ سے زائد پانی بھی جسم میں جانے کی صورت میں کھلاڑی مختلف بیماریوں کا شکار بن سکتے ہیں۔

    ان کے مطابق ریو کے پانی میں کھلاڑیوں کے لیے نقصان دہ وائرسوں کی تعداد اس مقدار سے 1.7 ملین دگنی ہے جو امریکا اور یورپ میں خطرناک تصور کی جاتی ہے۔ یہاں پائے جانے والے بیکٹریا کو ’سپر بیکٹریا‘ کے درجہ میں رکھا جاتا ہے۔

    یہی صورتحال فضائی آلودگی کی تھی۔

    ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ فضائی اور آبی آلودگی کے باعث ریو میں غیر ملکی کھلاڑیوں کے گیسٹرو میں مبتلا ہونے کا سخت خطرہ ہے۔ انہوں نے یہ خیال بھی ظاہر کیا تھا کہ ریو ڈی جنیرو کسی صورت اس قسم کے کھیلوں کے مقابلوں کے لیے مناسب نہیں ہے۔

  • پاکستان کے لیے ماحولیاتی خطرات سے نمٹنا کیوں ضروری؟

    پاکستان کے لیے ماحولیاتی خطرات سے نمٹنا کیوں ضروری؟

    مختلف ماحولیاتی مسائل بشمول موسمیاتی تغیر (کلائمٹ چینج) اس وقت دنیا کی معیشت اور امن و امان کی صورتحال کے لیے چیلنج کی صورت میں سامنے آرہے ہیں۔

    ایک عام خیال ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں، جو بری طرح دہشت گردی کا شکار ہے، اور جس کی عوام کو خوراک، صحت اور تعلیم جیسی بنیادی ضروریات تک میسر نہیں، ماحولیاتی مسائل کی طرف توجہ دینا ایک احمقانہ بات ہے۔

    لیکن شاید ہمیں اس بات کا علم نہیں کہ ہمارے بنیادی مسائل کی جڑ بھی کہیں نہ کہیں انہی ماحولیاتی مسائل سے جڑی ہے جن کا سدباب کرنا ضروری ہے۔

    یہاں ہم آپ کو پاکستان کے ان 4 بنیادی پہلوؤں سے آگاہ کر رہے ہیں جو دراصل ماحولیات کی خرابی کی وجہ سے ہیں اور جو ہر شخص سے تعلق رکھتے ہیں۔

    :کلائمٹ چینج کے خطرات کا سب سے زیادہ شکار ملک

    کلائمٹ چینج کی ایک بڑی وجہ کاربن سمیت مختلف زہریلی (گرین ہاؤس) گیسوں کا اخراج ہے۔ صنعتی طور پر ترقی یافتہ ممالک ہی ان گیسوں کے اخراج میں آگے ہیں اور اس میں چین اور امریکا سرفہرست ہیں۔

    خوش آئند بات یہ ہے کہ پاکستان کا کلائمٹ چینج یا زہریلی گیسوں کے اخراج میں حصہ بہت کم ہے، لیکن پریشان کن بات یہ ہے کہ کلائمٹ چینج کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کا شکار پہلے 10 ممالک میں پاکستان کا نمبر چھٹا ہے۔

    flood

    پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے غیر متوقع اور غیر معمولی بارشیں، اور درجہ حرارت میں اضافے کے باعث گلیشیئرز کا پگھلنا، ان کے باعث سمندروں اور دریاؤں کی سطح میں اضافہ ہونا پاکستان میں سیلابوں کی بڑی وجہ ہے۔

    سنہ 2010 میں آنے والا سیلاب، جسے اقوام متحدہ نے تاریخ کا تباہ کن سیلاب قرار دیا، اپنے ساتھ 2000 ہزار افراد کی جان لے گیا جبکہ اس سے لگ بھگ پونے دو کروڑ لوگ شدید متاثر ہوئے۔ ایک کروڑ سے زائد افراد بے گھر ہوگئے جبکہ اس سیلاب نے ملک کی معیشت کو 10 بلین ڈالرز کا نقصان پہنچایا۔

    :پانی کی شدید قلت

    ایک طرف تو ملک کے بالائی علاقے شدید سیلابوں کی زد میں ہیں، دوسری جانب پاکستان میں میٹھے (پینے کے) پانی کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔ پاکستان کے دریاؤں میں پانی آنے کا سب سے بڑا ذریعہ شمالی علاقوں میں واقع گلیشیئرز ہیں جو تیزی سے پگھل رہے ہیں۔

    پاکستان میں گلیشیئرز کی تعداد 5 ہزار ہے اور گزشتہ برس ان علاقوں کا درجہ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ تک گیا جس کے باعث ان گلیشیئرز کے پگھلنے کی رفتار میں خطرناک اضافہ ہوا۔

    water

    ماہرین کے مطابق ان گلیشیئرز کے پگھلنے کے بعد دریاؤں اور سمندروں میں پانی میں یکایک اضافہ ہوگا جو قریبی آبادیوں کو سیلاب کی صورت تباہ کرے گا، اس کے بعد آہستہ آہستہ کم ہوگا اور ایک وقت ایسا آئے گا کہ پانی بالکل ختم ہوجائے گا۔

    ایک اور وجہ بارشوں کے پانی کو مناسب طریقے سے ذخیرہ نہ کرنا بھی ہے۔ ماہرین کے مطابق ان وجوہات کے باعث اگلے چند سالوں میں پاکستان میں پانی کی شدید کمی واقع ہونے کا خدشہ ہے۔

    :زراعت میں کمی

    پاکستان میں بارشوں کے غیر متوقع اور تبدیل ہوتے پیٹرن، اور پانی کی کمی کے باعث زراعت بھی نقصان کا شکار ہے۔ کسی سال ہماری کھڑی فصلیں تیز بارش میں بہہ جاتی ہیں، اور کسی سال بوائی کے موسم میں بارش نہ ہونے کے باعث فصلیں ہی نہیں اگ پاتیں۔

    drought

    پشاور یونیورسٹی کے طلبا کی ایک تحقیق کے مطابق اگر کلائمٹ چینج اسی ڈھب سے وقوع پذیر ہوتا رہا تو سنہ 2080 تک صوبہ خیبر پختونخوا سے زراعت بالکل ختم ہوجائے گی اور یہ صوبہ ایک بنجر اور قحط زدہ علاقہ بن جائے گا۔

    :شمسی تونائی سے مالا مال ۔ لیکن محروم ملک

    پاکستان گزشتہ کچھ عرصے سے توانائی کے شدید بحران کا شکار ہے۔ ملک میں اب تک بجلی پیدا کرنے اور بجلی گھروں کو چلانے کے لیے تیلوں اور ڈیزل کو بطور ایندھن استعمال کیا گیا ہے۔

    solar

    ایک گرم ملک ہونے کی حیثیت سے پاکستان شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے مگر بدقسمتی سے اس دولت کو کام میں لانے کے لیے ہمارے پاس وسائل اور جدید ٹیکنالوجی نہیں۔

    مزید پڑھیں: دنیا کا سب سے بڑا شمسی توانائی پارک پاکستان میں

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر شمسی توانائی کو مناسب طریقے سے استعمال کیا جاسکے تو یہ بغیر کسی ایندھن کے پورے ملک کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرسکتی ہے۔

  • دنیا کی پہلی ماحول دوست ہائیڈروجن ٹرین

    دنیا کی پہلی ماحول دوست ہائیڈروجن ٹرین

    جرمنی میں دنیا کی پہلی ہائیڈروجن ٹرین بہت جلد منظر عام پر آنے والی ہے جو ماحول دوست ہے اور کسی قسم کی گیسوں کا اخراج نہیں کرتی۔

    ہائیڈروجن گیس کو بطور ایندھن استعمال کرنے والی ہائڈریل نامی یہ ٹرین رواں برس دسمبر سے فعال کردی جائے گی۔ پہلی ٹرین صرف 60 میل کا سفر کرے گی۔

    train-2

    حکام کا کہنا ہے کہ اگر یہ تجربہ کامیابی سے ہمکنار ہوجاتا ہے تو جرمنی، فرانسیسی کمپنی کی معاونت سے ایسی مزید ٹرینوں کی تیاری پر کام کرے گا اور اس دوران ان کی صلاحیت و استعداد میں بھی اضافہ کیا جائے گا۔

    اسے تیار کرنے والی نجی کمپنیوں کا کہنا ہے کہ وہ ماحول دوست سفری سہولیات کے شعبے میں اس شاندار کام کے آغاز سے بے حد خوش ہیں۔

    مزید پڑھیں: دنیا کے ماحول دوست ممالک

    ہائڈریل نامی یہ ٹرین اسی طریقہ کار کے مطابق کام کرے گی جس سے عام ٹرینیں کام کرتی ہیں، مگر ان میں استعمال کی جانے والی ٹیکنالوجی نئی ہے۔ اس میں ایندھن کے طور پر ہائیڈروجن گیس کو استعمال کیا جائے گا جو کیمیائی صنعتوں میں بڑی مقدار میں خارج ہوتی ہے۔

    ٹرین میں نصب کیا جانے والا سسٹم ہائیڈروجن اور آکسیجن کو ملا کر بجلی پیدا کرے گا اور یہی بجلی دراصل ٹرین کو چلائے گی۔

    train-3

    اس کا ہائیڈروجن سے بھرا ہوا ایک ٹینک 300 مسافروں کے ساتھ 500 میل تک کے سفر کے لیے کافی ہوگا۔

    ماہرین کا خیال ہے کہ یہ ٹرین آلودگی پھیلانے اور ماحول کو تباہ کرنے والے ڈیزل سے چلنے والی ٹرینوں کا اختتام ثابت ہوگی۔ جرمنی میں اس وقت 4 ہزار سے زائد ٹرینیں ڈیزل پر چلائی جارہی ہیں جو ماحول کو شدید آلودہ کرنے کا سبب بن رہی ہیں۔

  • گھر میں پودے اگانے کے فوائد سے واقف ہیں؟

    گھر میں پودے اگانے کے فوائد سے واقف ہیں؟

    گھر میں پودے اگانے کے کئی فوائد ہیں۔ طبی ماہرین نے باقاعدہ اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ گھر میں اگائے گئے پودے طرز زندگی اور صحت پر مثبت اثرات مرتب کرتے ہیں۔

    ایک ڈاکٹر ایمی لاک کے مطابق ان کا بچپن جس گھر میں گزرا وہاں بے شمار پودے تھے۔ ’جب میں اس گھر سے باہر نکلی تو مجھے اندازہ ہوا کہ پودوں کی کمی مجھ پر منفی اثرات مرتب کر رہی ہے۔ مجھے پودوں کی کمی محسوس ہونے لگی۔ چنانچہ میں جہاں بھی گئی میں نے اپنے آس پاس پودے ضرور لگائے‘۔

    گھر میں پودے اگانے کے مثبت اثرات کیا ہیں، آئیے آپ بھی جانیں۔

    :دماغی صحت پر اثرات

    plant-4
    ماہرین کے مطابق پودے چاہے درختوں کی شکل میں ہوں یا چھوٹے گملوں میں، یہ دماغی صحت پر اچھے اثرات ڈالتے ہیں۔ پودے آپ کا موڈ بہتر کرتے ہیں، آپ کے ذہنی دباؤ کو کم کرتے ہیں اور آپ کی تخلیقی صلاحیتوں میں اضافہ کرتے ہیں۔

    سائنسدانوں کے مطابق فطرت آپ کے موڈ کو تبدیل کردیتی ہے۔ اسی طرح اگر آپ کوئی تخلیقی کام کرنا چاہتے ہیں تو پودوں کے قریب بیٹھ کر کریں اس سے یقیناً آپ کی تخلیقی کارکردگی بہتر ہوگی۔

    :ہوا کے معیار میں بہتری

    plant-3
    گھر میں موجود پودے گھر کی ہوا کے معیار کو بہتر بناتے ہیں۔ آج کل جو ہوا ہمیں میسر ہے وہ آلودگی سے بھرپور ہے۔ پودے ہوا کو آلودگی سے صاف کرتے ہیں اور ہوا کو تازہ کرتے ہیں۔ پودے ہوا میں نمی کے تناسب بھی بڑھاتے ہیں۔

    :درد میں کمی کے لیے معاون

    plant-6
    سائنسدانوں کے مطابق پودے درد اور تکلیف کو کم کرنے میں بھی مدد دیتے ہیں۔ ایک ریسرچ کے تحت ایک اسپتال میں مریضوں کے قریب پودے رکھے گئے۔ جن کے قریب پودے تھے ان مریضوں نے درد کش دواؤں کا کم استعمال کیا بہ نسبت ان مریضوں کے جن کے قریب پودے نہیں رکھے گئے تھے۔

    :جڑی بوٹیاں حاصل کریں

    plant-1
    گھر میں اگائے پودوں سے ہمیں غذائی اشیا اور جڑی بوٹیاں بھی حاصل ہوسکتی ہیں۔ جیسے ایلو ویرا، ہربز وغیرہ۔ ان پودوں سے اس مد میں خرچ ہونے والی رقم کی بھی بچت ہوسکتی ہے۔

  • گرین ڈے: وزیراعظم نے ساڑھے تین کروڑ پودے لگانے کی مہم کا آغازکردیا

    گرین ڈے: وزیراعظم نے ساڑھے تین کروڑ پودے لگانے کی مہم کا آغازکردیا

    اسلام آباد: آج ملک بھر میں ماحول کو سرسبز و شاداب بنانے اور آلودگی کے خاتمے کے لیے قومی سرسبز دن (گرین ڈے) منایا جارہا ہے۔ اس موقع پر وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے پودا لگا کر ’سر سبز پاکستان‘ مہم کا آغاز کیا۔

    ملک بھر میں بڑے پیمانے پر شجر کاری کے لیے سر سبز پاکستان مہم کا آغاز وزیر اعظم کی خصوصی ہدایت و نگرانی میں کیا جارہا ہے۔ اس منصوبے کے تحت ملک بھر میں 10 کروڑ مقامی پودے لگائے جائیں گے۔

    tree-2

    منصوبے کے لیے ساڑھے 3 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے جس میں سے 50 کروڑ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں خرچ کیے جائیں گے جبکہ بقیہ رقم صوبوں کو دی جائے گی۔

    حکومتی ترجمان کے مطابق قومی سر سبز دن کے موقع پر چاروں صوبوں اور آزاد کشمیر میں بھی تقریبات کا انعقاد کیا گیا اور چاروں صوبائی وزرائے اعلیٰ اور وزیر اعظم آزاد کشمیر نے بیک وقت مہم کا آغاز کیا۔

    ملک کے پہلے گرین ڈے کے موقع پر ملکی تاریخ میں پہلی بار وفاق اور صوبوں میں بیک وقت شجر کاری مہم کا آغاز کیا گیا جبکہ آج ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ درخت بھی لگائے جائیں گے۔

    وزیر اعظم نے اسلام آباد میں خصوصی بچوں کے ہمراہ پودا لگا کر اس مہم کا افتتاح کیا۔ اس موقع پر وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان کو سرسبز بنانا بہت ضروری ہے۔ خوشی ہے کہ گرین پاکستان مہم میں ہر صوبہ حصہ لے رہا ہے۔

    tree-1

    وزیر اعظم نے واضح کیا کہ اس مہم میں پاکستان میں پائے جانے والے درختوں کی مقامی اقسام لگائی جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ بیرونی و غیر ملکی اقسام نقصان دہ ثابت ہوتی ہیں۔

    یاد رہے کہ صوبہ سندھ کا شہر کراچی غیر ملکی پودوں کی قسم کونو کارپس کی بڑے پیمانے پر شجر کاری کر کے اس کے بدترین نقصانات اٹھا رہا ہے۔ کونو کارپس کراچی میں پولن الرجی کا باعث بن رہے ہیں۔

    یہ دوسرے درختوں کی افزائش پر بھی منفی اثر ڈالتے ہیں جبکہ پرندے بھی ان درختوں کو اپنی رہائش اور افزائش نسل کے لیے استعمال نہیں کرتے۔ بعض ماہرین کے مطابق کونو کارپس بادلوں اور بارش کے سسٹم پر بھی اثر انداز ہو رہے ہیں جس کے باعث کراچی میں مون سون کے موسم پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔

    وزیر اعظم نے اس امر پر بھی افسوس کا اظہار کیا کہ ملک بھر میں جنگلات کی بے دریغ کٹائی ہو رہی ہے۔

    tree-3

    انہوں نے کلائمٹ چینج یعنی موسمیاتی تغیر کے سنگین عوامل کی طرف بھی اشارہ کیا اور کہا کہ درختوں اور جنگلات کی کٹائی کلائمٹ چینج کی بڑی وجہ ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ یہ پروگرام کلائمٹ چینج کے نقصانات سے نمٹنے، ملک کو سرسبز بنانے اور آلودگی ختم کرنے میں معاون ثابت ہوگا۔

    واضح رہے کہ وزیر اعظم کی خصوصی دلچسپی و ہدایت کے تحت شروع کیا جانے والا گرین پاکستان پروگرام چین کے گریٹ گرین ڈے کے پروگرام کی طرز پر تشکیل دیا گیا ہے۔ اس پروگرام کا آغاز گزشتہ برس کیا گیا۔

    اس سے قبل بھی وزیر اعظم گرین پاکستان پروگرام کے تحت جنگلات اور جنگلی حیات کے فروغ کے لیے 2 ارب روپے کی منظوری دی گئی تھی۔

  • جاپان کے جنگجو سمورائی کچرا اٹھانے کی مہم پر

    جاپان کے جنگجو سمورائی کچرا اٹھانے کی مہم پر

    کیا آپ جاپان کے سمورائی جنگجوؤں کے بارے میں جانتے ہیں؟

    سمورائی ایک زمانے میں جاپان کا طاقتور ترین اور انتہائی بااثر طبقہ تصور کیا جاتا تھا۔ یہ طبقہ اپنی جنگجوئی اور بہادری کے لیے مشہور تھا۔

    انیسویں صدی کے اواخر میں جاپانی شہنشاہ میشی نے جدید فوجی ضروریات کے تحت جدید افواج اور اسلحہ پر انحصار بڑھانے کے لیے ان کے اثر و رسوخ کا مکمل خاتمہ کر دیا تھا۔

    لیکن کیا واقعی یہ جنگجو ختم ہوگئے؟ کم از کم جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو میں تو یہ اب بھی سڑکوں پر گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں۔

    japan-3

    اور آپ جان کر حیران رہ جائیں گے کہ اب یہ لڑائی بھڑائی میں حصہ نہیں لیتے، بلکہ شہر کا کچرا صاف کر کے دوسرے شہریوں کو بھی صفائی رکھنے کی ترغیب دیتے ہیں۔

    japan-6

    japan-4

    japan-2

    دراصل یہ اصل سمورائی نہیں ہیں، بلکہ ان کا روپ دھارے ہوئے علامتی جنگجو ہیں جو اپنے شہر کے کچرے کے خلاف برسر پیکار ہیں۔

    japan-7

    japan-8

    japan-5

    یہ جہاں کہیں بھی کچرا دیکھتے ہیں وہاں سے سمورائیوں کے قدیم انداز میں اٹھانا شروع کردیتے ہیں۔ ان لوگوں سے متاثر ہو کر آس پاس موجود افراد بھی ان کے ساتھ کچرا اٹھانا شروع کر دیتے ہیں۔

    اپنے کام کے ذریعہ یہ جدید سمورائی نہ صرف جاپان کی آلودگی و گندگی بلکہ دیگر ماحولیاتی مسائل کی طرف بھی توجہ دلانا چاہتے ہیں۔

  • آسٹریلیا کے ساحل پر نیلی جیلی فش کا حملہ

    آسٹریلیا کے ساحل پر نیلی جیلی فش کا حملہ

    میلبرن: آسٹریلیا کے شہر برسبین کے ساحل پر لاتعداد جیلی فش پانی سے باہر آگئیں جس سے ساحل نیلگوں ہوگیا۔

    برسبین کے شہریوں نے یہ نظارہ دیکھ کر اس کی تصاویر کھینچیں اور فوراً اسے سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرنا شروع کردیا۔ کچھ نے ان نیلی جیلی فشز کو دیکھ کر ناک بھوں چڑھائی اور کوئی اس منظر کو دیکھ کر خوش ہوا۔

    jelly-2

    jelly-3

    ایک ماہر حیاتیات ڈاکٹر لیزا این کا کہنا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں ان جیلی فشز کا ساحل پر آنا دراصل ان کے حیاتیاتی چکر (لائف سائیکل) کا ایک حصہ ہے۔

    سمندر کی اونچی لہروں کے ساتھ یہ ساحل پر آجاتی ہیں، اور کچھ دن بعد جب دوبارہ اونچی لہریں ساحل پر آتی ہیں تو یہ ان کے ساتھ واپس سمندر میں چلی جاتی ہیں۔

    jelly-4

    واضح رہے کہ جیلی فش تقریباً 92 فیصد پانی کی بنی ہوتی ہے اور اس کی 85 مختلف اقسام پائی جاتی ہیں۔ اس جاندار کا دماغ، سانس، حسیات اور ہاضمے کا مکمل نظام موجود نہیں ہوتا اس کے باوجود جیلی فش دن کے 24 گھنٹے خوراک کھاتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق جیلی فش آکسیجن کے بغیر، گندگی اور آلودگی میں بآسانی افزائش پاتی ہیں یہی وجہ ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے میں بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے دنیا بھر میں جیلی فش کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔

    مزید پڑھیں: پاکستان میں غیر معمولی جسامت کی جیلی فش

    جیلی فش کے جسم پر موجود لمبے لمبے دھاگے اس کا ہتھیار ہیں۔ ان دھاگوں کے اندر چھوٹے چھوٹے کانٹے ہوتے ہیں جو وہ حملے کے لیے استعمال کرتی ہے۔ بظاہر خوشنما نظر آنے والی اس جیلی فش کا کاٹا بہت تکلیف دہ ہوتا ہے جبکہ اس کی بعض اقسام مہلک اور جان لیوا بھی ثابت ہوسکتی ہیں۔

    کوریا، جاپان اور چین میں جیلی فش کو سکھا کر بطور خوراک بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

  • چین کا پہلا عمودی جنگل

    چین کا پہلا عمودی جنگل

    چین کے شہر نانجنگ میں ’عمودی جنگل‘ اگانے پر غور شروع کردیا گیا۔ یہ جنگل دو تجارتی عمارتوں پر اگائے جائیں گے۔

    عمودی باغبانی کا تصور چند عشروں قبل ہی پرانا ہے جس میں زمین کے بجائے دیواروں پر باغبانی کی جاتی ہے۔ اس مقصد کے لیے عمارت کی دیوار سے ذرا سے فاصلے پر مختلف سہاروں کے ذریعہ پودے اگائے جاتے ہیں جو نشونما پا کر دیوار کو ڈھانپ لیتے ہیں۔

    v-garden-2

    v-garden-3

    v-garden-4

    مختلف گھروں اور عمارتوں کی دیواروں کو اس طریقے سے سبز کردینا اس عمارت کے درجہ حرات کو کم رکھتا ہے جو موسم کی حدت سے لڑنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔

    v-garden-5

    چین میں بھی دو تجارتی عمارتوں پر عمودی جنگل اگائے جانے کا منصوبہ زیر غور ہے۔ اگر یہ منصوبہ کامیابی سے پایہ تکمیل تک پہنچ جاتا ہے تو یہ نہ صرف چین بلکہ ایشیا کا پہلا عمودی جنگل ہوگا۔

    :عمودی باغبانی کے فوائد

    ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا کی تیزی سے اضافہ ہوتی آبادی کے باعث جنگلات اور درختوں کو کاٹ کر مختلف رہائشی و تعمیراتی منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔ اس سے شہروں سے سبزہ بالکل ختم ہو کر شدید گرمی، اور آلودگی کا سبب بن رہا ہے۔

    ایسے میں ماہرین کا خیال ہے کہ عمودی باغبانی کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے اور ہمیں بہت جلد اس کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔

    ماہرین کے مطابق عمارتوں کی دیواروں پر پودے اگانے اور انہیں سر سبز کرنے سے اس علاقے کی آلودگی میں کمی واقع ہوگی۔

    v-garden-6

    اس جگہ کے افراد کو تازہ ہوا میسر آئے گی اور وہ دھوئیں اور گھٹن زد ہوا میں سانس لینے سے کسی حد تک بچ جائیں گے۔

    سبزہ اور پودے چونکہ کسی جگہ کے ماحول کو خوشگوار بناتے ہیں لہٰذا عمارتوں کے جنگل کے درمیان میں موجود سبزہ، کنکریٹ اور لوہے کے بوجھ میں کمی کرے گا۔

    سبزے کی موجودگی سے لوگوں کے ڈپریشن اور ذہنی دباؤ میں بھی کمی واقع ہوگی۔

    اس طریقے سے دیواروں پر مختلف سبزیاں بھی اگائی جاسکتی ہیں جس سے علاقے کی ایک محدود آبادی اپنی غذائی ضروریات میں خود کفیل ہوسکتی ہے۔ انہیں سستی، تازہ اور صاف سبزیاں میسر ہوں گی جبکہ مجموعی طور پر اس سے کسی ملک کی زراعت اور معیشت کے بوجھ پر بھی کمی واقع ہوگی۔

    v-garden-7

    ماہرین اس ضمن میں شہری زراعت کو بھی شہری منصوبہ بندی کا حصہ بنانے پر زور دیتے ہیں۔

    اس طریقے سے مختلف عمارتوں کی چھتوں پر زراعت کر کے نہ صرف شہر میں سبزے کی مقدار کو بڑھایا جاسکتا ہے بلکہ بڑھتی ہوئی آبادی کی غذائی ضروریات بھی پوری کی جاسکتی ہیں۔

    عمودی باغبانی کا کامیاب تجربہ اس سے قبل کئی ممالک میں کیا جاچکا ہے۔ میکسیکو میں ایک بڑے پل کے ستونوں پر عمودی باغبانی کی گئی جس سے اس پل کے اطراف میں ٹریفک کے شور، دھویں اور آلودگی میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی۔