Tag: ماحولیات

  • کنارے پر آنے والے کچھوے موت کے منہ میں

    کنارے پر آنے والے کچھوے موت کے منہ میں

    سکھر: دریائے سندھ میں پانی اترنے کے وہاں موجود کچھو ے کنارے پر امڈ آئے۔ کنارے پر آئے اور جال میں پھنسے کچھوؤں سے بچے کھیلنے لگے۔

    تفصیلات کے مطابق دریائے سندھ میں سکھر کے مقام پر پانی اترنے کے بعد کنارے پر کچھوے امڈ آئے۔ بے شمار کچھوے وہاں بچھائے گئے جالوں میں پھنس گئے۔

    کچھوؤں کے کنارے پر آنے سے وہاں موجود بچوں کو تفریح ہاتھ آگئی اور وہ کچھوؤں سے کھیلنے لگے۔ کچھ افراد کچھوؤں کو پکڑ کر گھر بھی لے گئے۔

    مزید پڑھیں: کراچی سے نایاب نسل کے 62 کچھوے برآمد

    محکمہ جنگلی حیات کی ٹیم تاحال کچھوؤں کو بچانے نہیں پہنچی اور کچھوے کنارے پر بے یار و مدد گار پڑے رہے۔

    دوسری جانب ڈپٹی ڈائریکٹر سکھر تاج شیخ کا کہنا ہے کہ پانی اترنے پر صرف انڈس ڈولفن کو ریسکیو کیا جاتا ہے جو پانی اترنے یا راستہ بھولنے کے باعث نہروں میں آنکلتی ہے۔

    دوسری جانب ماہرین کا کہنا ہے کہ کچھوؤں کی نسل میں تیزی سے کمی واقع ہورہی ہے اور اس کی نسل کشی کی جہاں بے شمار وجوہات ہیں وہیں اس طرح دریا میں پانی کم ہونے سے بھی ہزاروں کچھوؤں کو زندگی کے خاتمے کا خطرہ لاحق ہے۔

    واضح رہے کہ کچھوؤں کو سب سے بڑا خطرہ غیر قانونی اسمگلنگ سے لاحق ہے جس کے لیے ہر سال ہزاروں کچھوؤں کو پکڑا جاتا ہے۔

    ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق دنیا بھر میں کچھوے کے گوشت کی بے حد مانگ ہے اور اس طلب کو پورا کرنے کے لیے پاکستان سمیت کئی ممالک سے کچھوؤں کی غیر قانونی تجارت نیپال، ہانگ کانگ، چین، انڈونیشیا، سنگاپور، جنوبی کوریا اور ویتنام وغیرہ کی طرف کی جاتی ہے۔

    اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام یو این ای پی کے مطابق اس کا گوشت کھانے جبکہ اس کے انڈوں کے خول زیورات اور آرائشی اشیا بنانے میں استعمال کیے جاتے ہیں۔ کچھوے کے جسم کے مختلف حصے شہوت بڑھانے والی دواؤں میں بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: تفصیلی رپورٹ ۔ کچھوے کی غیر قانونی تجارت

    سندھ وائلڈ لائف کے اہلکار عدنان حمید کے مطابق بین الاقوامی مارکیٹ میں ایک کچھوے کی قیمت 1500 ڈالر ہے۔ مقامی طور پر جب خرید و فروخت کی جاتی ہے تو ایک کچھوا 15 ڈالر میں بکتا ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ 15 ڈالر کی خریداری، اور تمام شامل حکام کو ان کا ’حصہ‘ دینے میں 20 سے 25 ہزار روپے لگتے ہیں۔ یہ قیمت آگے جا کر کئی گنا اضافے سے وصول ہوجاتی ہے چنانچہ شارٹ کٹ کے متلاشی افراد کے لیے یہ ایک منافع بخش کاروبار ہے۔

  • قدیم ترین جھیل پر تیرتا تباہی کا شکار قبیلہ

    قدیم ترین جھیل پر تیرتا تباہی کا شکار قبیلہ

    جامشورو: سندھ کے ضلع جامشورو میں واقع منچھر جھیل پاکستان کے بڑے آبی ذخائر میں سے ایک ہے۔ اس جھیل میں پانی کا ذریعہ مون سون کی بارشیں ہیں۔

    اس جھیل کی موجودگی کے بارے میں کوئی حتمی تاریخ موجود نہیں لیکن یہ جھیل موہن جودڑو اور ہڑپہ کی تہذیبوں سے بھی قدیم ہے، گویا دنیا کی قدیم ترین جھیلوں میں سے ایک ہے۔

    لیکن تاریخ میں اہم مقام رکھنے والی یہ جھیل اس وقت تباہی و بربادی کا شکار ہے۔

    تاریخی ورثہ برباد ہوچکا؟

    ستر کی دہائی میں سندھ کے مختلف شہروں سے بڑی بڑی نکاسی آب کی لائنیں اور نہریں نکال دی گئیں جو ان شہروں کا فضلہ، صنعتوں کا زہریلا پانی اور زراعت میں استعمال کیے جانے والے زہریلے کیمیائی مواد سے بھرپور باقیات کو اس جھیل میں لانے لگیں۔

    اسی طرح دریائے سندھ کے کناروں کو قابل کاشت بنانے کے لیے وہاں سے نمکین پانی بھی اسی جھیل میں ڈالا جانے لگا۔ یہ کام رائٹ بینک آؤٹ فال ڈرین (آر بی او ڈی) سسٹم کے ذریعہ کیا جارہا تھا۔

    گو کہ بعد ازاں فیصلہ کیا گیا کہ دریائے سندھ کا نمکین پانی بحیرہ عرب میں بہا دیا جائے لیکن فنڈز کی کمی کے باعث یہ منصوبہ پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا اور یہ پانی منچھر جھیل کو آلودہ اور زہریلا کرتا رہا۔

    lake-7

    سنہ 1990 میں کیے جانے والے ایک تحقیقاتی تجزیے سے پتہ چلا کہ جھیل کا پانی نمکین پانی، کیمیائی مواد اور فضلے کی آمیزش کی وجہ سے زہریلا ہوچکا ہے اور پینے کے قابل نہیں رہا۔ یہاں کی آبی حیات اور پودے مر چکے ہیں یا ان کی تعداد میں خطرناک کمی آچکی ہے جبکہ اس پانی سے زراعت بھی ممکن نہیں رہی۔

    جھیل کی آلودگی کے باعث ہجرت کر کے آنے والے پرندوں نے بھی یہاں آنا چھوڑ دیا۔

    پاکستان فشر مین فورم کے مصطفیٰ میرانی جو اس جھیل کو بچانے کے لیے سرگرداں ہیں، کہتے ہیں کہ دریائے سندھ پر بنائے جانے والے بڑے بڑے ڈیمز نے بھی جھیل میں صاف پانی کی فراہمی کو منقطع کردیا۔

    جھیل کی لہروں پر تیرتا قبیلہ

    اس جھیل کی ایک اور خوبصورتی یہاں آباد موہانا قبیلہ ہے جن کے گھر جھیل میں تیرتی کشتیوں پر آباد ہیں۔ یہ لوگ کئی نسلوں سے انہی کشتیوں پر رہ رہے ہیں۔

    lake-6

    lake-5

    کشتیوں پر رہنے والے یہ لوگ پیشے کے اعتبار سے ماہی گیر ہیں اور ان کا واحد ذریعہ روزگار مچھلیاں پکڑنا ہے۔

    لیکن برا ہو صنعی ترقی اور زراعت میں استعمال کیے جانے والے کیمیائی مادوں کا جن کی وجہ سے نہ صرف جھیل کا پانی بلکہ جھیل کی ہر شے زہریلی ہوچکی ہے۔

    ان ہی میں ایک ماہی گیر محمد یوسف پرانے دنوں کو یاد کر کے آزردہ ہوتا ہے جب ان لوگوں کی زندگی بہت خوبصورت اور خوشحال تھی۔ محمد یوسف کے لیے اب اس جھیل پر زندگی ناقابل برداشت ہوگئی ہے۔

    مزید پڑھیں: سمندر کنارے پیاسا گاؤں اور غربت کا عفریت

    وہ کہتا ہے، ’کچھ عرصہ پہلے زندگی بہت خوبصورت تھی۔ یہاں ہر قسم کی مچھلیاں دستیاب تھیں اور ہماری آمدنی بہت اچھی تھی‘۔

    وہ بتاتا ہے کہ جب اس کے والد شکار پر جایا کرتے تھے تو وہ کئی کلو مچھلی لے کر آتے تھے۔ ’لیکن اب صورتحال بدل گئی ہے۔ اب خراب پانی کی وجہ سے مچھلی ختم ہوگئی ہے‘۔

    یوسف اپنی والدہ، بیوی اور 9 بچوں کے ساتھ لکڑی سے بنی ناؤ پر رہتا ہے اور یہ جھیل اس کا گھر ہے۔

    lake-3

    یوسف اور اس جیسے بے شمار لوگ لکڑی سے بنی ان کشتیوں میں کئی نسلوں سے مقیم ہیں۔ کشتی کے اوپر بنائے گئے چھپر پر ان لوگوں کے کپڑے اور دیگر اشیائے ضروریہ موجود ہوتی ہیں۔ کھانا پکانے کے لیے کشتی کے کنارے پر ایک مٹی کا چولہا موجود ہے جس میں آبی پودوں سے آگ جلائی جاتی ہے۔

    lake-2

    یوسف نے بتایا کہ گرمیوں میں وہ چھپر کے اوپر جبکہ سردیوں میں کشتی کے اندر سوتے ہیں۔

    اس کی کشتی کے اندر دو جھولے بھی موجود ہیں۔ ایک کے اندر یوسف کا 40 دن کا بیٹا سوتا ہے جبکہ دوسرے کے اندر قرآن رکھا گیا ہے۔

    لیکن کئی نسلوں سے آباد یہ قبیلہ بھی اب اپنے خاتمے کے دہانے پر ہے۔ مصطفیٰ میرانی کے مطابق یہاں موجود افراد کی تعداد نصف ہوچکی ہے۔

    وہ بتاتے ہیں کہ جب وہ چھوٹے تھے تب یہاں 400 کے قریب کشتیاں موجود تھیں جن پر ان کا قبیلہ آباد تھا۔ ان لوگوں کا کھانا پینا، سونا، حتیٰ کہ شادیاں بھی انہی کشتیوں پر انجام پاتی تھیں۔

    لیکن اب غربت کے باعث لوگ اپنی کشتیوں کی مرمت نہیں کروا پاتے جس کے باعث ان کی کشتیاں خستہ حال ہوگئی ہیں۔ مجبوراً انہیں اپنے آبائی مقام کو چھوڑ کر خشکی پر گھر بسانے پڑ رہے ہیں۔

    lake-4

    اب بمشکل ایک درجن کشتیاں ہیں جو جھیل پر تیر رہی ہیں۔

    خشکی پر قابل رحم زندگی

    خشکی پر گھر بسانے والوں میں سے ایک ضعیف شخص سائیں داد ہے جس کی کشتی ٹوٹ پھوٹ کر منچھر کی گہرائیوں کا حصہ بن چکی ہے۔ سائیں داد کنارے پر گھاس پھونس سے بنے جھونپڑے میں رہتا ہے۔

    سائیں داد کا کہنا ہے، ’ہمارے پاس پینے یا دیگر ضروریات کے لیے پانی نہیں ہے۔ ہمارے پاس کھانا پکانے کے لیے برتن تک نہیں اور کسی کو اس کی فکر نہیں‘۔

    سائیں داد کے بیٹے قریبی شہروں میں روزگار کی تلاش میں جا چکے ہیں جہاں وہ زیادہ تر بندرگاہ پر مختلف کام سر انجام دے رہے ہیں۔

    اس خوبصورت جھیل نے تیزی سے رونما ہوتی صنعتی ترقی کا تاوان اپنی استعداد سے زیادہ ادا کیا ہے۔ نہ صرف یہ جھیل بلکہ اس پر قائم یہ نایاب قبیلہ بھی اپنے زوال کی طرف گامزن ہے۔ بقول میرانی، ’یہ جھیل خدا کا تحفہ تھی۔ مگر اب اس جھیل کی خوبصورتی برباد ہوچکی ہے‘۔

  • چین کی فضائی آلودگی ہر روز 4 ہزار افراد کی قاتل

    چین کی فضائی آلودگی ہر روز 4 ہزار افراد کی قاتل

    واشنگٹن: امریکا میں کیے جانے والے ایک سروے سے معلوم ہوا کہ چین کی فضائی آلودگی ہر روز 4 ہزار افراد کی موت کا سبب بن رہی ہے۔

    یونیورسٹی آف کیلی فورنیا میں کی جانے والی تحقیق میں بتایا گیا کہ چین میں ہر سال 16 لاکھ اموات آلودگی کے باعث پیدا ہونے والے امراض قلب، پھیپھڑوں کے امراض اور فالج کے باعث ہوتی ہیں۔

    واضح رہے کہ چین میں کوئلے کا استعمال توانائی کے حصول کا اہم ذریعہ ہے اور یہی چین کی فضا کو جان لیوا حد تک آلودہ کرنے کا سبب بھی ہے۔

    مزید پڑھیں: بدترین فضائی آلودگی کا شکار 10 ممالک

    تحقیق کے سربراہ رابرٹ رہوڈ کے مطابق چین کی 38 فیصد آبادی اپنی زندگی کا بیشتر حصہ اس فضا میں گزار رہی ہے جسے عالمی معیارات کے تحت غیر صحت مند قرار دیا جا چکا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ چین کی فضائی آلودگی میں سردی کے موسم میں خطرناک حد تک اضافہ ہوجاتا ہے کیونکہ حرارت کے حصول کے لیے بڑے اور چھوٹے پیمانے پر کوئلے ہی کو جلایا جاتا ہے۔

    دوسری جانب عالمی ادارہ صحت کے مطابق فضائی آلودگی کے باعث ہر سال 5.5 ملین لوگ ہلاک ہوجاتے ہیں۔

    اس سے قبل بھی کئی بار فضائی آلودگی کے انسانی صحت پر خطرناک اثرات کے بارے میں آگاہ کیا جاچکا ہے۔

    اس سے قبل ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ فضائی آلودگی انسانی دماغ پر اثر انداز ہوتی ہے اور یہ مختلف دماغی بیماریوں جیسے الزائمر وغیرہ کا سبب بن سکتی ہے۔ ریسرچ کے مطابق ایک دماغی اسکین میں فضا میں موجود آلودہ ذرات دماغ کے ٹشوز میں پائے گئے تھے۔

    ایک اور تحقیق کے مطابق فضائی آلودگی ان لوگوں پر خاص طور پر منفی اثرات ڈالتی ہے جو کھلی فضا میں کام کرتے ہیں جیسے مزدور اور کسان وغیرہ۔ ماہرین کے مطابق یہ کھلی فضا میں کام کرنے والے افراد کی استعداد کو متاثر کرتی ہے جس کے نتیجے میں ان کی کارکردگی میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔

  • اسلام آباد کی سڑکیں ماحول دوست بن گئیں

    اسلام آباد کی سڑکیں ماحول دوست بن گئیں

    اسلام آباد: اسلام آباد میٹرو پولیٹن کارپوریشن نے شہر میں سائیکل سواروں کے لیے بنائی جانے والی خصوصی رو کو عوام کے لیے کھول دیا۔ مختلف سڑکوں پر سائیکل سواروں کے لیے مختص ان لینز کے قیام کا مقصد آلودگی میں کمی اور لوگوں کو صحت مند ذرائع سفر استعمال کرنے کی طرف راغب کرنا ہے۔

    وفاقی دارالحکومت میں ضلعی حکومت کی جانب سے قائم کی جانے والی ان لینز کو بنانے پر تقریباً 20 ہزار ڈالر خرچ ہوئے ہیں۔

    مقامی حکومت کو امید ہے کہ 5 کلومیٹر طویل یہ سائیکل ٹریک گاڑیوں کے دھویں میں کمی کرنے میں معاون ثابت ہوں گے جو شہر کی فضا کو آلودہ کر رہے ہیں۔

    یاد رہے کہ اسلام آباد کی سڑکوں پر سائیکل سواروں کے لیے مخصوص ٹریک کافی عرصے پہلے بنائے گئے تھے لیکن تاحال انہیں ان کے اصل مقصد کے لیے استعمال نہیں کیا گیا تھا۔

    مزید پڑھیں: دنیا کی پہلی سولر ہائی وے کا افتتاح

    اسلام آباد کے میئر شیخ انصر عزیز کا کہنا ہے کہ ان ٹریکس کے قیام سے لوگ کم از کم مختصر فاصلوں کے لیے گاڑیوں کے بجائے سائیکل استعمال کرنے پر غور کریں گے۔

    انہوں نے بتایا کہ مقامی حکومت شہر بھر کی سڑکوں پر 60 کلومیٹر طویل سائیکل ٹریکس کے قیام کا ارادہ رکھتی ہے اور یہ منصوبہ وفاقی حکومت کی منظوری کا منتظر ہے۔

    فی الحال ان ٹریکس کو دارالحکومت کے نوجوان، غیر ملکی سفارت خانوں کے ملازمین اور بڑی عمر کے ریٹائرڈ حضرات شام اور صبح کے وقت بطور ورزش سائیکلنگ کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔

    track-1

    اسلام آباد کے والدین بھی خوش ہیں کہ ان کے بچوں کو ایک صحت مند بیرونی سرگرمی میں حصہ لینے کا موقع ملے گا۔

    دوسری جانب بہتری ماحولیات کے لیے کام کرنے والے ایک ادارے کے کارکن اظہر قریشی کا کہنا ہے کہ بڑے شہروں جیسے لاہور، اسلام آباد، کراچی اور پشاور میں سفر کرنا بہت مشکل ہوگیا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت یا کلائمٹ چینج کو دیکھتے ہوئے ہمیں ماحول دوست ذرائع سفر اپنانے کی ضرورت ہے اور سائیکلنگ اس کی بہترین مثال ہے۔

    مزید پڑھیں: سائیکل سواروں کے لیے رات میں چمکنے والے راستے

    ان کا کہنا تھا کہ گرمیوں کے موسم میں گاڑیوں کا دھواں گرمی میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔ اگر شہر کی چند فیصد آبادی بھی سائیکل کا سفر کرے تو سڑکوں پر ہجوم اور دھویں میں خاصی حد تک کمی آسکتی ہے۔

    واضح رہے کہ اسلام آباد کی مقامی حکومت اس سے قبل بھی کئی ماحول دوست اقدامات کر چکی ہے۔ چند روز قبل میئر شیخ انصر عزیز نے فیصلہ کیا تھا کہ اسلام آباد میں ان تمام گھروں پر 5 ہزار روپے جرمانہ عائد کیا جائے گا جو پانی کا غیر ضروری استعمال اور اسے ضائع کرتے ہوئے پائے جائیں گے۔

    انہوں نے یہ فیصلہ دارالحکومت میں پانی کی قلت کو دیکھتے ہوئے کیا تھا۔

  • جنگلی حیات کی زندگی کے خوبصورت لمحات

    جنگلی حیات کی زندگی کے خوبصورت لمحات

    جنگلی حیات ہماری زمین کا توازن برقرار رکھنے کے لیے نہایت ضروری ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ہماری زمین پر موجود جانور، پرندے، پودے اور ایک ایک چیز آپس میں منسلک ہیں اور اگر کسی ایک شے کو بھی نقصان پہنچا تو اس سے پورے کرہ ارض کی زندگی متاثر ہوگی۔

    تاہم موسمیاتی تغیرات اور شکار میں بے پناہ اضافے کی وجہ سے جنگلی حیات کی کئی اقسام تیزی سے معدومی کی جانب بڑھ رہی ہیں۔ ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ سنہ 2020 تک ہماری زمین سے ایک تہائی جنگلی حیات کا خاتمہ ہوجائے گا جس سے زمین کا توازن بری طرح بگڑ جائے گا۔

    آج ہم نے مختلف جنگلی حیات کی کچھ منفرد تصاویر جمع کی ہیں۔ وائلڈ لائف فوٹو گرافرز کی جانب سے کھینچی گئی ان تصاویر میں جانوروں کی زندگی کو مختلف انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ آئیے آپ بھی ان تصاویر سے لطف اندوز ہوں۔

    10

    افریقہ کے کرگر نیشنل پارک میں ایک ندی سے پانی پیتے ہرنوں کو مگر مچھ کی جھلک نے اچھلنے پر مجبور کردیا۔

    8

    انٹارکٹیکا کا یہ پینگوئن کیمرے کو دیکھ کر شرارت سے آنکھ مار رہا ہے یا سرد ہوا نے اس کی آنکھ بند کردی، اس کا علم خود اس پینگوئن کو ہی ہے۔

    11

    جنوبی افریقہ کے ایک جنگل میں زرافے کا جادو ۔ وہ اپنی گردن درخت کے اندر سے موڑ کر باہر لے آیا۔

    5

    روس کے کوریل لیک پارک میں دو ریچھ ایک دوسرے سے دست و گریباں۔

    1

    زمبابوے کے ایک جنگل میں ایک شیرنی اس بات سے بے خبر ہے کہ اس کے پیچھے اس کی دم کو کاٹنے کے لیے کون آرہا ہے۔

    4

    بوٹسوانا میں ایک حقیقی زیبرا کراسنگ۔

    3

    نیدر لینڈز کے ایک چڑیا گھر میں ایک سمندری سیل یا سگ ماہی حسب عادت دعا مانگتے ہوئے۔

    6

    سترہ فٹ لمبے مگر مچھ کے ساتھ تیراکی۔

    12

    کینیا میں ایک ہتھنی اپنے بچوں کو بچانے کے لیے بھینسے سے لڑ پڑی۔

    7

    برازیل میں ایک مگر مچھ مچھلی کا شکار کرتے ہوئے۔

    13

    چاندنی رات میں ایک بارہ سنگھا۔

    2

    میکسیکو کے سمندر میں زیر آب جانے والے ان تیراکوں کی ہمت دیکھیئے، ایک خونخوار شارک کے ساتھ چھیڑ خانی کر رہے ہیں۔

    15

    مگر مچھ کا ایک بچہ سبز پتوں سے جھانکتے ہوئے۔

  • مرتی ہوئی مونگے کی چٹانوں کو بچانے کی کوشش

    مرتی ہوئی مونگے کی چٹانوں کو بچانے کی کوشش

    دنیا میں ایسے افراد کی کمی نہیں جو زمین کے سبزے اور اس کی خوبصورتی کو بچانے کے لیے دیوانہ وار کام کر رہے ہیں۔ یہ لوگ پوری دنیا کو، زمین کو لاحق ان مسائل کی طرف متوجہ کرنے کا انوکھا طریقہ ڈھونڈتے ہیں، اور اپنی اس کوشش میں کامیاب بھی رہتے ہیں۔

    ایسا ہی ایک دیوانہ معروف اطالوی پیانو نواز لڈووکو اناڈی تھا جس نے قطب شمالی کے سمندر میں برفانی گلیشیئرز کے سامنے بیٹھ کر پیانو کی پرفارمنس پیش کی۔

    اس پرفارمنس کا مقصد دنیا کو متوجہ کرنا تھا کہ برفانی علاقوں کی برف تیزی سے پگھل کر دنیا کو کن خطرات سے دو چار کرنے والی ہے۔

    لارا جونز بھی ایسی ہی ایک مصورہ ہیں جو اپنے فن پاروں کے ذریعہ دنیا کو مونگے کی بے رنگ ہوتی چٹانوں کی طرف متوجہ کرنا چاہ رہی ہیں۔

    ماہرین کے مطابق دنیا بھر کے سمندروں میں موجود رنگ برنگی مونگے یا مرجان کی چٹانیں اپنی رنگت کھو رہی ہیں جسے بلیچنگ کا عمل کہا جاتا ہے۔

    7

    اعداد و شمار کے مطابق دنیا کی سب سے بڑی رنگ برنگی چٹانوں کا سلسلہ جو گریٹ بیریئر ریف یا عظیم حائل شعب کہلاتا ہے آسٹریلیا کے سمندر میں موجود ہے۔ یہاں موجود ایک تہائی سے زیادہ چٹانیں اپنی رنگت کھو چکی ہیں یا کھو رہی ہیں۔

    یہ دنیا کا واحد سب سے بڑا سمندری ڈھانچہ ہے جو زندہ اجسام نے بنایا ہے اور ان رنگ برنگی چٹانوں کو اربوں ننھے اجسام نے ترتیب دیا ہے جو کورل یعنی مونگے یا مرجان کہلاتے ہیں۔

    سنہ 1981 میں گریٹ بیرئیر ریف کو عالمی ورثہ قرار دیا گیا تھا۔

    6

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ان چٹانوں کی رنگت اڑنے کی وجہ سمندروں کی آلودگی اور عالمی درجہ حرارت میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ ہے۔ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے سمندروں کا پانی بھی گرم ہورہا ہے جس کے باعث یہ چٹانیں بے رنگ ہورہی ہیں۔

    لارا جونز انہی مرتی ہوئی خوبصورت چٹانوں کو اپنے فن پاروں میں پیش کر رہی ہیں۔

    ان کے فن پارے دیکھ کر آپ کو یوں لگے گا جیسے آپ خود سمندر میں موجود ہیں اور اپنی آنکھوں سے ان چٹانوں کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔

    2

    4

    3

    5


     

  • نو دریافت شدہ مچھلی کا نام اوباما رکھ دیا گیا

    نو دریافت شدہ مچھلی کا نام اوباما رکھ دیا گیا

    امریکا میں ایک نو دریافت شدہ نایاب مچھلی کا نام امریکی صدر کے نام پر اوباما رکھ دیا گیا۔ یہ قدم صدر اوباما کے بحر الکاہل کی آبی حیات کے تحفظ کے لیے کیے جانے والے اقدامات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے اٹھایا گیا ہے۔

    اوباما نامی یہ مچھلی رواں برس جون میں امریکی ریاست ہوائی کے سمندر میں تقریباً 90 میٹر گہرائی سے دریافت کی گئی۔

    سنہرے اور سرخ رنگوں والی اس چھوٹی سی مچھلی کو صدر اوباما نے بے حد پسند کیا اور اس کو اپنے نام سے منسوب کرنے پر خوشی کا اظہار کیا۔

    obama-3

    صدر اوباما اس سے قبل بحر الکاہل پر بنائی گئی آبی حیات کی پناہ گاہ کو وسیع کرنے کے منصوبے کی منظوری بھی دے چکے ہیں جس کے بعد یہ دنیا کی سب سے بڑی آبی پناہ گاہ بن جائے گی۔ یہاں 7000 آبی جاندار رکھے گئے ہیں جن میں معدومی کے خطرے کا شکار ہوائی کی مونگ سگ ماہی اور سیاہ مونگے شامل ہیں۔

    کچھ عرصہ قبل صدر اوباما نے اس پناہ گاہ کا دورہ بھی کیا تھا۔ اوباما کا یہ دورہ ان کے 8 سالہ صدارتی عہد کے دوران ماحولیاتی تحفظ اور موسمیاتی تغیرات سے بچاؤ کے اقدامات کو سیاسی ایجنڈے میں سرفہرست رکھنے کی ایک کڑی ہے۔

    obama-4

    وہ ماحولیاتی تحفظ کے لیے سنجیدہ اقدامات کرنے والے امریکا کے پہلے صدر ہیں۔

    مزید پڑھیں: امریکا میں نو دریافت شدہ کیڑا صدر اوباما سے منسوب

    اس سے قبل بھی صدر اوباما کے ماحول دوست اقدامات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے کئی نو دریافت شدہ جانداروں کو ان سے منسوب کیا گیا ہے۔ سائنس دانوں نے ایک مکڑی، 3 مچھلیوں، ایک بیکٹیریا، 2 کیڑوں اور ایک پرندے کی نایاب قسم کا نام بھی اوباما رکھا تھا۔

  • چیتوں کی معدومی کی طرف تیز رفتار دوڑ

    چیتوں کی معدومی کی طرف تیز رفتار دوڑ

    لندن: ماہرین کا کہنا ہے کہ اپنی تیز رفتاری کے لیے مشہور چیتے تیزی سے معدومی کی طرف بڑھ رہے ہیں اور اس کی وجہ ان کی پناہ گاہوں میں کمی اور قدرتی ماحول میں انسانی مداخلت ہے۔

    سوسائٹی برائے تحفظ جنگلی حیات ڈبلیو سی ایس اور زولوجیکل سوسائٹی آف لندن کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق افریقی ملک زمبابوے میں گزشتہ 16 سال میں چیتوں کی آبادی میں 85 فیصد سے زائد کمی آچکی ہے۔

    رپورٹ میں تجویز کیا گیا کہ چیتے کو عالمی ادارہ برائے تحفظ فطرت آئی یو سی این کی خطرے کا شکار جنگلی اقسام کی سرخ فہرست (ریڈ لسٹ) میں خطرے کا شکار جنگلی حیات کی فہرست سے نکال کر شدید خطرے کا شکار جنگلی حیات کی فہرست میں رکھا جائے۔

    cheetah1

    نیشنل اکیڈمی آف سائنس کے جریدے میں چھپنے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بیسویں صدی کے آغاز میں دنیا بھر میں کم از کم 1 لاکھ چیتے موجود تھے لیکن اب ان کی تعداد میں خطرناک کمی واقع ہوچکی ہے، اور اس وقت دنیا بھر میں اس تعداد کا نو فیصد یعنی صرف 7 ہزار 100 چیتے موجود ہیں۔

    لندن کی زولوجیکل سوسائٹی کا کہنا ہے کہ چیتا اپنی جس تیز رفتاری کے باعث مشہور ہے، اسی تیز رفتاری سے یہ معدومی کی جانب بڑھ رہا ہے۔

    رپورٹ میں متنبہ کیا گیا کہ ان کی قدرتی پناہ گاہوں (عموماً گھنے جنگلات) کے تحفظ اور اور ان کے پھیلاؤ کی ہنگامی بنیادوں پر ضروت ہے بصورت دیگر چیتے بہت جلد ہماری دنیا سے ختم ہوجائیں گے۔

    مزید پڑھیں: معبد سے چیتے کے 40 بچوں کی لاشیں برآمد

    ماہرین کا کہنا ہے کہ چیتوں کی معدومی کے خطرے کی وجوہات میں ان کی پناہ گاہوں میں کمی کے ساتھ ساتھ ان کے شکار (دیگر جنگلی حیات) میں کمی (یا انسانوں کا انہیں شکار کرلینا)، جسمانی اعضا کے حصول کے لیے غیر قانونی تجارت اور پالتو بنانے کے لیے تجارت شامل ہے۔ یہ وہ تجارت ہے جس میں خطرناک جنگلی جانوروں کو گھروں میں پال کر ان کی جنگلی جبلت کو ختم کردیا جاتا ہے۔

    رواں برس چیتوں کے عالمی دن کے موقع پر منعقد کیے جانے والی کانفرنس میں ماہرین نے چیتوں کے غیر قانونی فارمز کو بھی ان کے لیے ایک بڑا خطرہ قرار دیا تھا۔

    cheetah2

    یہ فارمز ایشیائی ممالک میں موجود ہیں جو چڑیا گھروں سے الگ قائم کیے جاتے ہیں اور بظاہر ان کا مقصد چیتوں کا تحفظ کرنا ہے۔ لیکن درحقیقت یہاں چیتوں کو ان کے جسمانی اعضا کی غیر قانونی تجارت کے لیے رکھا جاتا ہے جو ایک منافع بخش کاروبار ہے۔ چیتوں کے جسمانی اعضا دواؤں میں استعمال ہوتے ہیں۔

    ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق ایشیا میں تقریباً 200 چیتوں کے فارمز موجود ہیں جن میں سے زیادہ تر چین، ویتنام اور تھائی لینڈ میں موجود ہیں۔ ان فارمز میں 8000 کے قریب چیتے موجود ہیں جو جنگلوں اور فطری ماحول میں رہنے والے چیتوں سے دگنی تعداد ہے۔

    ایک رپورٹ کے مطابق ان فارمز میں انسانوں کی صحبت میں پلنے والے چیتے آرام دہ زندگی کے عادی ہوجاتے ہیں اور اگر انہیں جنگل میں چھوڑ دیا جائے تو ان کے لیے زندگی گزارنا مشکل ہوتا ہے۔ عالمی ادارے اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ ان فارمز کی بندش سے پہلے چیتوں کی رہائش کے لیے متبادل جگہ قائم کی جائے۔

    اس وقت چیتوں کی سب سے زیادہ آبادی بھارت میں موجود ہے جہاں 2 ہزار 226 چیتے ہیں۔ چیتوں کی آبادی والے دیگر ممالک میں روس، انڈونیشیا، ملائیشیا، نیپال، تھائی لینڈ، بنگلہ دیش، بھوٹان، چین، ویتنام، لاؤس اور میانمار شامل ہیں۔

  • فطرت کے قریب وقت گزارنا بے شمار فوائد کا باعث

    فطرت کے قریب وقت گزارنا بے شمار فوائد کا باعث

    کیا آپ جانتے ہیں کہ فطرت اور فطری مناظر ہماری صحت پر کیا اثرات مرتب کرتے ہیں؟

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہماری زندگی اور صحت کا بنیادی جزو فطرت ہے اور فطرت سے قریب رہنا ہمیں بہت سے مسائل سے بچا سکتا ہے۔

    nature-2

    ماہرین کے مطابق جب ہم کسی قدرتی مقام جیسے جنگل یا سمندر کے قریب جاتے ہیں تو ہمارے دماغ کا ایک حصہ اتنا پرسکون محسوس کرتا ہے جیسے وہ اپنے گھر میں ہے۔

    بڑے شہروں میں رہنے والے افراد خصوصاً فطرت سے دور ہوتے ہیں لہٰذا وہ بے شمار بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں جس کے لیے وہ مہنگی مہنگی دواؤں یا تھراپیز کے لیے ڈاکٹر سے رجوع کرتے ہیں، لیکن درحقیقت ان کے مسائل کا علاج فطرت کے قریب رہنے میں چھپا ہوتا ہے۔

    مزید پڑھیں: کیا آپ خاموشی کے فوائد جانتے ہیں؟

    آئیے دیکھتے ہیں فطرت کے قریب وقت گزارنا ہمیں کیا فوائد پہنچاتا ہے۔

    ذہنی تناؤ میں کمی واقع ہوتی ہے۔

    ڈپریشن سے نجات ملتی ہے۔

    nature-4

    کسی آپریشن، سرجری یا بیماری کے بعد فطرت کے قریب وقت گزارنا ہمارے صحت یاب ہونے کی شرح میں اضافہ کرتا ہے۔

    خون کی روانی میں اضافہ ہوتا ہے جس سے مختلف ٹیومرز اور کینسر سے لڑنے میں مدد ملتی ہے۔

    نیند بہتر ہوتی ہے۔

    بلند فشار خون یا ہائی بلڈ پریشر میں کمی آتی ہے۔

    فطرت کے ساتھ وقت گزارنا ہماری تخلیقی صلاحیتوں میں اضافہ کرتا ہے۔

    پرہجوم شہروں میں رہنے والے افراد اگر کچھ وقت کسی پرسکون قدرتی مقام پر گزاریں تو ان کی دماغی صحت میں بہتری آتی ہے۔

    nature-3

    فطرت کے ساتھ وقت گزارنا تھکے ہوئے ذہن کو پرسکون کر کے اسے نئی توانائی بخشتا ہے۔

    مزید پڑھیں: فطرت کے تحفظ کے لیے ہم کیا کرسکتے ہیں؟

    ماہرین کا کہنا ہے کہ روزمرہ کی زندگی میں ہمارا دماغ بہت زیادہ کام کرتا ہے اور اسے اس کا مطلوبہ آرام نہیں مل پاتا۔ دماغ کو پرسکون کرنے کے لیے سب سے بہترین علاج کسی جنگل میں، درختوں کے درمیان، پہاڑی مقام پر یا کسی سمندر کے قریب وقت گزارنا ہے۔

  • پانی ضائع کرنے والوں پر جرمانہ عائد

    پانی ضائع کرنے والوں پر جرمانہ عائد

    اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بڑھتی ہوئی پانی کی قلت کو دیکھتے ہوئے مقامی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ پانی ضائع کرنے والے گھروں پر جرمانہ عائد کیا جائے گا۔

    یہ فیصلہ اسلام آباد میٹرو پولیٹن کارپوریشن کے ارکان کی آٹھویں میٹنگ میں کیا گیا جس کا تمام افراد نے خیر مقدم کیا۔

    اسلام آباد کے میئر شیخ انصر عزیز کی جانب سے کیے جانے والے اس فیصلے کے تحت ان تمام گھروں پر 5 ہزار روپے جرمانہ عائد کیا جائے گا جو پانی کا غیر ضروری استعمال اور اسے ضائع کرتے ہوئے پائے جائیں گے۔

    مزید پڑھیں: پانی کی بچت کرنے والا نلکا

    تاہم اس بات کا تعین نہیں کیا گیا کہ پانی کا حساب چیک کرنے کے لیے کیا معیارات و اقدامات استعمال کیے جائیں گے۔

    اسلام آباد کے یوسی ناظمین کا کہنا ہے کہ ان کے سیکٹرز میں پانی کی فراہمی کا ایک بڑا ذریعہ ٹیوب ویل ہیں۔ تاہم بیشتر ٹیوب ویل خستہ حال اور ناکارہ ہیں جس کی وجہ سے پانی کی فراہمی بے حد کم ہوگئی ہے۔

    انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر صورتحال یہی رہی تو اگلے سال گرمیوں کے موسم میں پانی کی شدید کمی واقع ہوجائے گی جب پانی کی طلب میں اضافہ ہوجائے گا۔

    مزید پڑھیں: پانی کو مضر صحت اجزا سے پاک کرنے کا آسان طریقہ

    اسلام آباد میں پانی کی قلت کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے ڈپٹی میئر ذیشان نقوی نے ہر دو یونین کونسلز کے درمیان ربڑ ڈیم بنانے کا خیال بھی پیش کیا۔ یہ ربڑ کے بڑے بڑے پائپ ہوتے ہیں جو آبی ذرائع جیسے دریا، ندی یا بہر میں بچھا دیے جاتے ہیں اور یہ پانی کی رسد فراہم کرتے ہیں۔

    دوسری جانب دارالحکومت میں نکاسی آب کی خراب صورتحال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے میئر شیخ انصر عزیز کا کہنا تھا کہ وہ شہر میں نکاسی آب کے نظام کی بہتری کے لیے بھی اقدامات اٹھا رہے ہیں جس کے نتائج بہت جلد ظاہر ہونا شروع ہوجائیں گے۔