Tag: ماحولیات

  • ماحول دوست دفاتر ملازمین کی تخلیقی صلاحیت بہتر بنانے میں معاون

    ماحول دوست دفاتر ملازمین کی تخلیقی صلاحیت بہتر بنانے میں معاون

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے افراد جو ماحول دوست دفاتر میں کام کرتے ہیں وہ بہتر تخلیقی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

    امریکا میں کیے جانے والے ایک تحقیقی سروے کے مطابق ماحول دوست عمارتوں میں کام کرنے والے افراد گھر جانے کے بعد بھرپور اور پرسکون نیند بھی سوتے ہیں جو ان کی استعداد میں مزید اضافہ کرتا ہے۔

    green-2

    ماہرین نے ماحول دوست ان عمارتوں کو قرار دیا جن میں ہوا کی آمد و رفت کا معقول انتظام ہو یعنی وہ ایئر ٹائٹ نہ ہوں اور ان میں قدرتی روشنی کا انتظام اور مناسب درجہ حرات ہو۔ ایسی عمارتوں میں کام کرنے والے افراد کی تخلیقی صلاحیتوں میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: ایسا دفتر جہاں پھل اور سبزیاں اگتی ہیں

    اس سے قبل ماہرین نے سر سبز اور ماحول دوست عمارتوں کو ملازمین کی صحت کے لیے بہتر قرار دیا تھا، تاہم ان عمارتوں اور ملازمین کی پیشہ وارانہ استعداد میں تعلق پہلی بار سامنے آیا ہے۔

    سروے کے لیے امریکا کے 5 شہروں میں مختلف عمارتوں میں کام کرنے والے افراد کا جائزہ لیا گیا جس میں دیکھا گیا کہ بند عمارتوں اور غیر مناسب درجہ حرات والی عمارتوں میں کام کرنے والے افراد ویسی تخلیقی صلاحیتوں کا مظاہرہ نہیں کر پائے جیسا ماحول دوست عمارتوں کے ملازمین نے کیا۔

    مزید پڑھیں: دنیا کے خوبصورت اور بہترین دفاتر

    دونوں عمارتوں کی ملازمین کی نیند کا بھی جائزہ لیا گیا جس میں ماہرین نے ماحول دوست عمارتوں میں کام کرنے والے افراد کی نیند میں 6 فیصد بہتری دیکھی۔

    green-3

    ان عمارتوں میں کام کرنے والے افراد میں ’سک بلڈنگ سنڈروم‘ کا خطرہ بھی 30 فیصد کم دیکھا گیا جس کی علامات میں سانس کے امراض، آںکھوں اور سر میں درد شامل ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہوا کی آمد و رفت کے مناسب انتظام کی وجہ سے ماحول دوست عمارتوں میں کاربن ڈائی آکسائیڈ جمع نہیں ہوتی جس کے باعث ملازمین مختلف طبی پیچیدگیوں کا شکار کم ہوتے ہیں، علاوہ ازیں قدرتی روشنی انسانی صحت و نفسیات پر مثبت اثرات ڈالتی ہے۔

  • فرانس میں دنیا کی پہلی سولر ہائی وے کا افتتاح

    فرانس میں دنیا کی پہلی سولر ہائی وے کا افتتاح

    پیرس: فرانس میں دنیا کی پہلی سولر ہائی وے کا افتتاح کردیا گیا۔ اس سڑک کو شمسی توانائی کے پینلز سے بنایا گیا ہے جو سڑک کنارے لگی لائٹس کو روشنی فراہم کریں گے۔

    فرانس کے ایک چھوٹے سے قصبے میں بنائی جانے والی اس سڑک کا نام ’واٹ وے‘ رکھا گیا ہے۔ ایک کلومیٹر کے فاصلے پر محیط اس سڑک کا افتتاح فرانس کی وزیر ماحولیات سیگولین رائل نے کیا۔

    انہوں نے ملک کے مختلف حصوں میں اسی طرز کی سڑکیں تعمیر کرنے کے 4 سالہ منصوبے کا بھی اعلان کیا۔

    solar-2

    شمسی توانائی کے پینلز سے سڑکیں بنانے کا خیال جرمنی، نیدر لینڈز اور امریکا میں بھی زیر غور ہے جو نہ صرف سڑکوں کے انفراسٹرکچر کو بہتر بنائیں گی بلکہ علاقے کی توانائی کی ضروریات کو بھی پورا کرنے میں مددگار ثابت ہوں گی۔

    فرانسیسی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح کی سڑکوں کی تعمیر سے فرانس توانائی کے شعبہ میں خود کفیل ہوسکتا ہے اور اس مد میں خرچ کیا جانے والا کثیر زر مبادلہ بھی بچا سکتا ہے۔

    فی الحال دیکھا جارہا ہے کہ یہ سڑک کتنے عرصے تک مختلف موسموں اور حالات کا مقابلہ کرسکتی ہے اور بھاری بھرکم ٹرکوں کے گزرنے کی صورت میں کتنے عرصے تک صحیح سالم رہ سکتی ہے۔

    solar-3

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس منصوبے میں صرف ایک خامی ہے کہ ان شمسی پینلز کی افادیت اس وقت بڑھ جاتی ہے جب انہیں سورج کے رخ پر براہ راست ترچھا کر کے نصب کیا جائے۔ سڑک پر بالکل سیدھا نصب کرنے کی صورت میں یہ سورج سے کم توانائی حاصل کرتے ہیں۔

    سڑکوں پر سورج سے توانائی حاصل کرنے والے ذرائع استعمال کرنے کا خیال کافی پرانا ہے۔

    poland-6

    اس سے قبل پولینڈ میں بھی سڑک پر ’لومینوفور‘ نامی مادہ بچھایا گیا تھا جو دن بھر سورج کی روشنی کو اپنے اندر جذب کرتا ہے اور اندھیرا ہوتے ہی جگمگا اٹھتا ہے۔

  • جرمنی میں مردہ وہیل مچھلیاں بہہ کر ساحل پر آگئیں

    جرمنی میں مردہ وہیل مچھلیاں بہہ کر ساحل پر آگئیں

    برلن: جرمنی کی ایک ساحلی ریاست میں 2 دیو قامت مردہ وہیل مچھلیاں بہہ کر ساحل پر آگئیں۔ ماہرین کے مطابق ان وہیلوں کے پیٹ میں لاتعداد پلاسٹک کے اجزا ہیں۔

    جرمنی کی ریاست شیلسوگ ہولسٹن کے ساحل پر 2 مردہ وہیل مچھلیاں سمندر کی لہروں کے ساتھ بہہ کر ساحل پر آگئیں۔ ماہرین نے جب ان مچھلیوں کا جائزہ لیا تو انہیں معلوم ہوا کہ ان مچھلیوں کے معدے پلاسٹک کے اجزا سے بھرے پڑے تھے۔

    مزید پڑھیں: جہازوں کا شور وہیل مچھلی کی صحت پر منفی اثرات کا باعث

    جاری کی گئی پریس ریلیز کے مطابق ان کے پیٹ میں 13 میٹر طویل مچھلیوں کے جال، 70 سینٹی میٹر لمبے کار کے ایک پلاسٹک کے ٹکڑے سمیت دیگر پلاسٹک کی اشیا ملی ہیں۔ پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ ان مچھلیوں نے ان اشیا کو خوراک سمجھ کر کھایا ہوگا۔

    ریاست کے وزیر برائے ماحولیات رابرٹ ہیبک کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ پلاسٹک نہ صرف ہماری زندگیوں کا لازمی جز بن چکا ہے بلکہ ہم انہیں استعمال کے بعد بہت لاپرواہی سے پھینکنے کے عادی ہوگئے ہیں۔

    whale-2

    انہوں نے کہا کہ پلاسٹک اشیا کا سمندر میں جانا سمندری حیات کے لیے سخت خطرے کا باعث ہے۔ یوں لگتا ہے کہ یہ مچھلیاں پلاسٹک سے پیٹ بھرے ہونے کے باوجود بھوکی تھیں۔

    ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ پلاسٹک براہ راست ان کی موت کی وجہ نہیں بنا البتہ اس پلاسٹک کے باعث ان کا وزن بے ہنگم ہوگیا اور غلطی سے کم گہرے پانی میں آنے کے بعد ان کے لیے گہرے پانی میں واپس جانا مشکل ہوگیا، یوں جلد ہی ان کے جسمانی اعضا ناکارہ ہوتے گئے جو ان کی موت کا سبب بنا۔

    واضح رہے کہ پلاسٹک ایک ایسا مادہ ہے جسے ختم ہونے یا زمین کا حصہ بننے کے لیے ہزاروں سال درکار ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ماحول، صفائی اور جنگلی حیات کے لیے ایک بڑا خطرہ تصور کیا جاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: فرانس کا پلاسٹک سے بنے برتنوں پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ

    مزید پڑھیں: برطانیہ میں پلاسٹک بیگ کا استعمال ختم کرنے کے لیے انوکھا قانون

    ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین پر استعمال کیے جانے والے پلاسٹک کا 80 فیصد حصہ سمندر میں چلا جاتا ہے۔ ان میں پلاسٹک کی بوتلیں اور تھیلیاں شامل ہوتی ہیں جو سمندر میں جا کر آبی حیات کی بقا کو سخت خطرات پہنچانے کا سبب بنتی ہیں۔

    اکثر سمندری جانور پلاسٹک کے ٹکڑوں میں پھنس جاتے ہیں اور اپنی ساری زندگی نہیں نکل پاتے۔ اس کی وجہ سے ان کی جسمانی ساخت ہی تبدیل ہوجاتی ہے۔ مچھلیاں اور دیگر آبی حیات ان کو کھانے کی اشیا سمجھ کر بھی نگل جاتے ہیں جس کے بعد یہ ان کے معدے میں پھنس جاتے ہیں اور بالآخر یہ آبی حیات موت کا شکار ہوجاتی ہیں۔

  • پہلی بار عجیب الخلقت شارک کی موجودگی کی تصدیق

    پہلی بار عجیب الخلقت شارک کی موجودگی کی تصدیق

    سائنسدانوں نے سمندر کی اتھاہ گہرائیوں کی ایک ایسی ویڈیو جاری کی ہے جس میں ایک عجیب الخلقت اور مختلف وضع کی شارک حرکت نظر آرہی ہے۔

    اس سے قبل ماہرین نے کئی بار اندازوں کی بنیاد پر اس وضع کی شارک کا ذکر کیا تھا اور ان کا ماننا تھا کہ یہ شارک کی وہ نسل ہے جو ڈائنو سارز سے بھی پہلے سے ہماری زمین پر موجود ہے۔

    shark-3

    تاہم اب تک اسے کسی نے نہیں دیکھا تھا جس کے باعث یہ شارک ایک تخیلاتی حیثیت اختیار کر گئی تھی اور اس کے بارے میں مصدقہ طور پر نہیں کہا جاسکتا تھا کہ آیا یہ موجود ہے بھی یا نہیں۔

    مزید پڑھیں: شارک جو 400 سال تک زندہ رہ سکتی ہے

    مزید پڑھیں: شارک کے حملے سے بچانے والا کڑا

    البتہ اب امریکا کے مونٹری بے ایکوریم ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے جاری کردہ اس ویڈیو کے بعد اس شارک کی موجودگی کی تصدیق ہوگئی ہے۔

    اس شارک کو شمالی نصف کرے کے سمندر میں نہایت گہرائی میں دیکھا گیا جو اس کی قدرتی پناہ گاہ ہے۔

    shark-2

    جاری کردہ ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ یہ شارک دیگر شارک مچھلیوں کی نسبت کچھ مختلف ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس شارک کا جنسی عضو اس کے سر پر موجود ہوتا ہے۔

  • کلائمٹ چینج کے باعث دنیا بھر میں غیر معمولی واقعات

    کلائمٹ چینج کے باعث دنیا بھر میں غیر معمولی واقعات

    واشنگٹن: امریکی سائنسی ماہرین نے حال ہی میں ایک چونکا دینے والی رپورٹ جاری کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج نے سال 2015 میں دو درجن سے زائد ایسے موسمیاتی مظاہر پیدا کیے جن کا اس سے پہلے تصور بھی ناممکن تھا۔

    ماہرین نے ان واقعات میں سنہ 2015 میں کراچی کو اپنا نشانہ بنانے والی خوفناک اور جان لیوا ہیٹ ویو کو بھی شامل کیا ہے۔

    report-1

    امریکا کے نیشنل اوشینک اینڈ ایٹموسفیریک ایڈمنسٹریشن کی جانب سے جاری کی گئی اس تحقیقاتی رپورٹ میں دنیا بھر میں ہونے والے 24 سے 30 ایسے غیر معمولی واقعات کی فہرست بنائی ہے جو اس سے پہلے کبھی ان علاقوں میں نہیں دیکھے گئے۔

    ان واقعات میں دنیا کے 11 علاقوں بشمول پاکستان اور بھارت کی ہیٹ ویو، برطانیہ میں سردیوں کے موسم میں سورج کا نکلنا، اور امریکی شہر میامی کے ایسے سیلاب کو شامل کیا گیا ہے جو اس وقت آیا جب سورج سوا نیزے پر تھا۔

    report-2
    امریکی شہر میامی میں آنے والا سیلاب

    رپورٹ میں مزید واقعات میں جنوب مشرقی چین کی شدید بارشیں، جبکہ شمال مغربی چین کی سخت گرمی، برفانی خطے الاسکا کے درجہ حرارت میں اضافہ اور اس کی وجہ سے وہاں کے جنگلات میں آتشزدگی، اور مغربی کینیڈا میں ہونے والی سخت خشک سالی شامل ہے۔

    ادارے کے پروفیسر اور رپورٹ کے نگران اسٹیفنی ہیئرنگ کے مطابق ان عوامل کی وجوہات کا تعین ہونا ضروری ہے۔

    report-3
    الاسکا کے جنگلات میں آگ

    انہوں نے کہا کہ دنیا کو تیزی سے اپنا نشانہ بناتا کلائمٹ چینج دراصل قدرتی عمل سے زیادہ انسانوں کا تخلیق کردہ ہے اور ہم اپنی ترقی کی قیمت اپنے ماحول اور فطرت کی تباہی کی صورت میں ادا کر رہے ہیں۔

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج سے مطابقت کیسے کی جائے؟

    پروفیسر اسٹیفنی کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ غیر معمولی تو ضرور ہے تاہم غیر متوقع ہرگز نہیں اور اب ہمیں ہر سال اسی قسم کے واقعات کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا ہوگا۔

    اس سے قبل گزشتہ ماہ مراکش میں ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق عالمی کانفرنس کوپ 22 میں بھی ماہرین متنبہ کر چکے تھے کہ موسمیاتی تغیرات میں مزید شدت آتی جائے گی اور یہ دنیا کے تمام حصوں کو متاثر کرے گی۔

  • زرافے ’خاموش‘ معدومی کی طرف گامزن

    زرافے ’خاموش‘ معدومی کی طرف گامزن

    نیروبی: افریقی جنگلات کی خوبصورتی اور قدرتی حسن میں اضافہ کرنے والے معصوم زرافوں کو بھی اپنی بقا کا خطرہ لاحق ہوگیا۔ تازہ ترین رپورٹ کے مطابق زرافوں کی نسل بہت آہستگی سے معدومی کی طرف بڑھ رہی ہے۔

    عالمی ادارہ برائے تحفظ فطرت آئی یو سی این کی سرخ فہرست برائے خطرے کا شکار نسل کے مطابق دنیا کے سب سے طویل القامت اس جانور کی آبادی میں سنہ 1980 سے 40 فیصد کمی واقع ہوچکی ہے۔

    لگ بھگ 35 سال قبل دنیا بھر میں زرافوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے زائد تھی تاہم اب یہ تعداد خاصی گھٹ کر صرف 98 ہزار رہ گئی ہے۔

    giraffe-2

    آئی یو سی این نے زرافوں کو خطرے سے دو چار جنگلی حیات کی فہرست میں شامل کرلیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق زرافوں کی آبادی میں سب سے زیاہ کمی افریقہ کے صحرائی علاقوں سے ہوئی اور بدقسمتی سے یہ اتنی خاموشی سے ہوئی کہ کسی کی نظروں میں نہ آسکی۔

    ادارے کا کہنا ہے کہ ان جانوروں کی معدومی کی دو بڑی وجوہات ہیں۔ ایک تو ان کی پناہ گاہوں کو انسانوں کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے زرعی زمینوں میں تبدیل کردینا جس کے باعث یہ اپنے فطری گھر سے محروم ہوجاتے ہیں، دوسرا ان کے گوشت کے لیے کیا جانے والا ان کا شکار، جس کی شرح جنوبی سوڈان میں سب سے زیادہ ہے۔

    مزید پڑھیں: زرافے کی گردن لمبی کیوں ہوتی ہے؟

    آئی یو سی این کی سرخ فہرست کے نگران کریگ ہلٹن کا کہنا ہے کہ تنازعوں اور خانہ جنگیوں سے انسانوں کے ساتھ اس علاقے کا ماحول اور وہاں کی جنگلی حیات بھی متاثر ہوتی ہے اور بدقسمتی سے براعظم افریقہ کا بڑا حصہ ان کا شکار ہے۔ موسموں میں تبدیلی یعنی کلائمٹ چینج اور قحط، خشک سالی وغیرہ بھی اس کے دیگر عوامل ہیں۔

    giraffe-6

    سرخ فہرست میں افریقہ کے سرمئی طوطے کو بھی شامل کیا گیا ہے جو انسانوں کی ہو بہو نقل اتارنے کے لیے مشہور ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ تجارتی مقاصد کے لیے اس پرندے کو پکڑ کر قید کیا جا رہا ہے جس کے بعد اسے دنیا کے مختلف علاقوں میں فروخت کیا جاتا ہے۔

    دوسری جانب ماہرین متنبہ کر چکے ہیں کہ بدلتے موسموں کی وجہ سے جانوروں کو اپنی بقا کے شدید خطرات لاحق ہیں اور دنیا میں موجود ایک چوتھائی جنگلی حیات سنہ 2050 تک معدوم ہوسکتی ہے۔

    ادھر اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ انسانوں کی وجہ سے دنیا کی جنگلی حیات شدید خطرات کا شکار ہے جس میں سب سے بڑا خطرہ ان کی پناہ گاہوں سے محرومی ہے۔ مختلف جنگلی حیات کی پناہ گاہیں آہستہ آہستہ انسانوں کے زیر استعمال آرہی ہیں۔

    مزید پڑھیں: سفید رنگ کا حیرت انگیز زرافہ

    اقوام متحدہ نے متنبہ کیا ہے کہ مندرجہ بالا تمام عوامل مل کر ہماری زمین پر ایک اور عظیم معدومی کو جنم دے سکتے ہیں جو اس سے قبل آخری بار اس وقت رونما ہوئی جب ساڑھے 6 کروڑ سال پہلے زمین سے ڈائنو سارز کا خاتمہ ہوا۔

  • بحر اوقیانوس میں 6 منزلہ عمارت جتنی بلند لہر

    بحر اوقیانوس میں 6 منزلہ عمارت جتنی بلند لہر

    جینیوا: اقوام متحدہ کے زیر نگرانی فعال عالمی ادارہ موسمیات کا کہنا ہے کہ شمالی بحر اوقیانوس میں تاریخ کی بلند ترین لہر دیکھی گئی جو 19 میٹر بلند (62 فٹ سے بھی زائد) تھی اور یہ بلندی ایک 6 منزلہ عمارت جتنی تھی۔

    ادارے کی جانب سے جاری کیے جانے والے ڈیٹا کے مطابق یہ خوفناک اور بلند و بالا لہر برطانیہ اور آئس لینڈ کے درمیان واقع سمندر میں دیکھی گئی۔ ادارے کے ڈپٹی چیف وین جنگ زینگ کا کہنا ہے کہ یہ تاریخ میں دیکھی جانے والی بلند ترین لہر ہے۔

    wave-2

    ڈیٹا کے مطابق 6 منزلہ عمارت جتنی بلند یہ لہر شدید سرد موسم کا نتیجہ تھی جس کے ساتھ 50 میل فی گھنٹہ چلنے والی تیز اور سرد ہوائیں بھی دیکھی گئیں۔

    زینگ کا کہنا ہے کہ ہمیں موسموں میں ہونے والی ان تبدیلیوں کو سمجھنے کے لیے سمندروں اور ان کی لہروں کا نہایت درست ریکارڈ رکھنا ہوگا۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ ہم اپنے بحری نقل و حمل کو زیادہ سے زیادہ محفوظ بنا سکیں۔

    مزید پڑھیں: دنیا کا دوسرا بڑا سمندر بحر اوقیانوس تیر کر پار کرنے کا عزم

    واضح رہے کہ براعظم امریکا کو باقی دنیا سے الگ کرنے والے دنیا کے دوسرے بڑے سمندر بحر اوقیانوس کا شمالی حصہ کینیڈا سے آئس لینڈ تک پھیلا ہوا ہے اور یہ بلند و بالا لہروں کا مرکز ہے۔ سردی کے موسم میں یہاں وقوع پذیر ہونے والے موسمیاتی دباؤ کے باعث تیز ہوائیں شدید طوفانوں میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔

  • آلودگی میں کمی کے لیے پیرس میں پبلک ٹرانسپورٹ مفت دستیاب

    آلودگی میں کمی کے لیے پیرس میں پبلک ٹرانسپورٹ مفت دستیاب

    پیرس: فرانس کے دارالحکومت پیرس میں آلودگی کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہوگیا جس کے بعد شہری حکومت نے شہر میں دستیاب تمام پبلک ٹرانسپورٹ کا کرایہ ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔

    اس اعلان کے بعد اب پیرس کے شہری ہر قسم کی پبلک ٹرانسپورٹ میں مفت سفر کرسکیں گے۔

    یہ فیصلہ پیرس میں آلودگی کی خطرناک شرح کو کم کرنے کے لیے کیا گیا ہے تاکہ شہری اپنی کاروں کا استعمال کم سے کم کریں اور پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کریں۔

    paris-1

    انتظامیہ کے مطابق یہ سال میں نواں موقع ہے جب شہر میں فضائی آلودگی کی سطح میں خطرناک اضافہ دیکھا گیا۔ یہ اضافہ 30 نومبر کے بعد سے دیکھا گیا جس کے دوران ماہرین نے صحت سے متعلق بھی مختلف خدشات کا اظہار کیا۔

    پیرس کی مقامی حکومت اس سے قبل کاروں کے لیے جفت اور طاق نمبر پلیٹ کے اصول کا اطلاق بھی کر چکی ہے۔ اس اصول کے تحت گاڑیوں کو ان کی رجسٹریشن نمبر پلیٹ کے حساب سے متبادل دنوں میں (ایک دن جفت اور ایک دن طاق نمبر پلیٹ والی گاڑیاں) سڑک پر لانے کی اجازت ہوتی ہے۔

    مزید پڑھیں: فضائی آلودگی دماغی بیماریاں پیدا کرنے کا باعث

    حکومت کے مطابق اس قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں پر 35 ڈالر کا جرمانہ بھی عائد کیا جائے گا۔

    فضائی آلودگی اور اس کے خطرات سے نمٹنے کے لیے پیرس میں ایک اور قانون منظور کیا گیا ہے جس کے تحت اب شہریوں کو کہیں بھی پودے اگانے کی اجازت ہوگی۔

    اس سے قبل پیرس کی خوبصورتی کو برقرار رکھنے کے لیے پابندی عائد تھی کہ کوئی بھی شخص بغیر کسی منصوبہ بندی کے کہیں پر بھی باغبانی نہیں کر سکتا۔ لیکن اب نہ صرف اس پابندی کو کالعدم قرار دے دیا گیا ہے بلکہ پیرس کے رہائشیوں پر زور دیا جارہا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ باغبانی کریں۔

    واضح رہے کہ سائنسی ماہرین کا کہنا ہے کہ رواں برس فضائی آلودگی کے حوالے سے ایک بدترین سال ہے۔ اس سال ماحولیاتی آلودگی کا ایک خطرناک مظہر اسموگ کی شکل میں سامنے آیا جس نے پاکستان اور بھارت سمیت کئی دنیا کے کئی شہروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

    مزید پڑھیں: اسموگ سے متاثر 10 شہر

    اس سے قبل اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال یونیسف کی جانب سے ایک رپورٹ جاری کی گئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ دنیا کا ہر 7 میں سے ایک بچہ بدترین فضائی آلودگی اور اس کے خطرات کا شکار ہے۔

    رپورٹ میں شامل ماہرین کی آرا کے مطابق فضا میں موجود آلودگی کے ذرات بچوں کے زیر نشونما اندرونی جسمانی اعضا کو متاثر کرتے ہیں۔

    ان کے مطابق یہ نہ صرف ان کے پھیپھڑوں کو نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ خون میں شامل ہو کر دماغی خلیات کو بھی نقصان پہنچانے کا سبب بنتے ہیں جس سے ان کی دماغی استعداد میں کمی واقع ہونے کا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے۔

    دوسری جانب عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ فضائی آلودگی کے باعث ہر سال 5.5 ملین افراد ہلاک ہوجاتے ہیں جن میں سے 6 لاکھ کے قریب 5 سال کی عمر تک کے بچے شامل ہیں۔

  • ریو ڈی جنیرو عالمی ثقافتی ورثہ قرار

    ریو ڈی جنیرو عالمی ثقافتی ورثہ قرار

    پیرس: اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے برائے تعلیم، سائنس اور ثقافت یونیسکو نے برازیل کے شہر ریو ڈی جنیرو کو عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل کرلیا ہے۔

    شاندار اور انوکھے شہر کے نام سے جانے والے ریو ڈی جنیرو کو اس فہرست میں اس کے بلند پہاڑوں، جنگلات اور ساحلوں کی وجہ سے شامل کیا گیا ہے۔

    rio-2

    یونیسکو نے اس شہر کو قدرتی خوبصورتی اور انسانی کاریگری کا شاندار امتزاج قرار دیتے ہوئے اسے ان مقامات کی فہرست میں شامل کیا ہے جو اپنی خوبصورتی اور قدرتی وسائل کے باعث خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔

    برازیل کا شہر ریو ڈی جنیرو ایک مقبول سیاحتی مقام بھی ہے اور اس کی سیاحت میں سنہ 2014 میں بے پناہ اضافہ ہوگیا جب یہاں فٹبال ورلڈ کپ اور اگست میں اولمپکس کھیل منعقد کیے گئے، تاہم زکا وائرس کے پھیلاؤ کے خدشات، جرائم کی شرح میں اضافہ اور سیاسی انتشار نے اس شہر کی سیاحت کو متاثر کیا ہے۔

    مزید پڑھیں: سیاحت کرنے کے فوائد

    یونیسکو ترجمان کے مطابق اس شہر کو عالمی ثقافتی ورثے میں شامل کرنے کا فیصلہ سنہ 2012 میں کرلیا گیا تھا تاہم برازیلین حکومت کو اس شہر کو مزید خوبصورت بنانے کے لیے 4 سال کا وقت دیا گیا۔

    اس عرصہ میں یہاں مختلف پہاڑوں، ساحلوں اور قدرتی جنگلات کی حفاظت کے منصوبے بھی شروع کیے گئے جس کے بعد اب یونیسکو نے باقاعدہ اس کا اعلان کردیا ہے۔

    rio-3

    واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں وہ مقامات شامل ہیں جو اپنے قدرتی وسائل، خوبصورتی اور تاریخی بنیاد پر اہمیت کے حامل ہیں۔

    پاکستان کے 6 مقامات بھی اس فہرست میں شامل ہیں جن میں موئن جو دڑو، ٹیکسلا اور بدھا کی یادگار تخت بائی کے کھنڈرات، لاہور کا شالیمار باغ، ٹھٹھہ میں مکلی کا قبرستان اور پنجاب کا قلعہ روہتاس شامل ہے۔

  • لیونارڈو، ٹرمپ کو قائل کرنے میں کتنے کامیاب؟

    لیونارڈو، ٹرمپ کو قائل کرنے میں کتنے کامیاب؟

    واشنگٹن: آسکر ایوارڈ یافتہ ہالی ووڈ اداکار اور اقوام متحدہ کے خیر سگالی سفیر برائے ماحولیاتی تبدیلی لیونارڈو ڈی کیپریو نے نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی جس میں انہوں نے صدر کو ماحول دوست اقدامات کے لیے قائل کرنے کی کوشش کی۔

    لیونارڈو ڈی کیپریو فاؤنڈیشن کے چیف ایگزیکٹو ٹیری ٹمنن کے مطابق لیو نے امریکی صدر ٹرمپ، ان کی بیٹی ایوانکا اور ان کے عملے کے دیگر ارکان سے ملاقات کی۔ ملاقات میں لیو نے قابل تجدید توانائی کے کئی منصوبے پیش کیے جن کے ذریعہ نئی نوکریاں پیدا کر کے امریکی معیشت کو سہارا دیا جاسکتا ہے۔

    مزید پڑھیں: لیونارڈو ڈی کیپریو کی بے گھر افراد کی بحالی کے لیے کوشش

    فاؤنڈیشن کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق لیو نے امریکی صدر کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ کس طرح تجارتی و رہائشی تعمیراتی منصوبے شروع کیے جائیں جو قابل تجدید تونائی پر مشتمل اور ماحول دوست ہوں، ان سے لاکھوں بے روزگار امریکیوں کو روزگار فراہم کیا جاسکتا ہے۔

    گو کہ لیو نے امریکی صدارتی انتخاب میں شکست خوردہ امیدوار ہیلری کلنٹن کی حمایت کی تھی تاہم ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے کے بعد اب وہ ان کے ساتھ مل کر ماحول کی بہتری کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں۔

    لیو نے صدر ٹرمپ کو اپنی ڈاکیو منٹری بی فور دی فلڈ بھی پیش کی جو موسمیاتی تبدیلیوں سے ہونے والے خطرات سے آگاہ کرتی ہے۔

    لیونارڈو، ٹرمپ کو قائل کرنے میں کتنے کامیاب رہے، یہ تو وقت ہی بتائے گا، تاہم یاد رہے کہ صدر ٹرمپ کی ماحول دشمنی اور لاعلمی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔

    اپنی انتخابی مہم کے دوران وہ بارہا کلائمٹ چینج کو ایک وہم اور مضحکہ خیز چیز قرار دے چکے ہیں۔ ان کا انتخابی منشور بھی ماحول دشمن اقدامات سے بھرا پڑا ہے۔